حضورحجۃالاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمہ



حضورحجۃالاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادتِ باسعادت مرکز اہلسنت بریلی شریف میں ماہ ربیع الاول شریف 1292/ ہجری 1875/ عیسوی میں ہوئی۔ عقیقہ میں حضورحجۃالاسلام کا نام حسبِ دستورِ خاندانی محمد رکھا گیا۔ جن کے اعداد 92/ ہیں اور یہی نام آپ کا تاریخی ہوگیا آپ کا عرفی نام حامد رضا اور آپ کا خطاب حجۃالاسلام ہے۔

تعلیم و تربیت:
           آپ  علیہ الرحمہ کی تعلیم و تربیت آغوشِ والد ماجد امام اہلسنت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ میں ہوئی۔ والد ماجد آپ سے بڑی محبت فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ،، حامد منى وانا من حامد ،،حضورحجۃالاسلام نے جملہ علوم و فنون اپنے والدِ ماجد سے حاصل کیے۔ یہاں تک کہ حدیث، تفسیر، فقہ وکتب، معقول ومنقول کو پڑھ کر صرف 19/ سال کی عمر شریف میں فارغ التحصیل ہوگئے۔

     بیعت و خلافت:

آپ  علیہ الرحمہ مرید و خلیفہ حضرت شاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی علیہ الرحمہ کے تھے اور والد ماجد اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضاعلیہ الرحمہ سے بھی آپ کو خلافت و اجازت حاصل تھی۔( تذکرہ علمائے اہلسنّت /ص: ۸۱) اور آپ کو  ہم شبیہ غوث الاعظم محبوب ربانی حضور اعلیٰ حضرت سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے بھی خلافت و اجازت حاصل تھی" چنانچہ ڈاکٹر محمد عبد النعیم عزیزی ایڈیٹر اسلامک ٹائمس اردو بریلی شریف ان کے متعلق لکھتے ہیں:حضرت حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان بریلوی قادری علیہ الرحمہ جو اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری علیہ الرحمہ کے بڑے شہزادے تھے نیز جن "حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ سے آپ"حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ" کو بے پناہ انسیت والفت تھی اور دونوں میں اچھے اور گہرے مراسم بھی تھے ،ان کو آپ ہی نے"شبیہ غوث اعظم"کا لقب دیا تھا ۔حجۃ الاسلام ہر جلسہ خصوصا بریلی شریف کی تقریبات میں ان کا شاندار تعارف کراتے۔ (فتاویٰ حامدیہ،صفحہ ٧١،ناشر:ادارہ اشاعت تصانیف رضا رضا نگر بریلی شریف، تقسم کار رضوی کتاب گھر دہلی)

     عادات کریمہ:

آپ  علیہ الرحمہ اپنے اسلاف آباؤاجداد کے مکمل نمونہ تھے۔ اخلاق وعادات کے جامع تھے، آپ جب بات کرتے تو تبسم فرماتے ہوئے، لہجہ انتہائی محبت آمیز ہوتا، بزرگوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت کا برتاؤ آپ کی شرست کے نمایاں جوہر تھے، آپ ہمیشہ نظریں نیچی رکھتے، درود شریف کا کثرت سے ورد فرماتے، یہی وجہ ہے کہ اکثر آپ کو نیند کے عالم میں بھی درود شریف پڑھتے دیکھا گیا ہے۔ آپ کی طبیعت انتہائی نفاست پسند تھی، چناچہ آپ کا لباس آپ کی نفاست کا بہترین نمونہ ہوتا تھا، انگریز اور اس کی معاشرت کے آپ اپنے والدِ ماجد کی طرح شدید مخالف رہے۔ 

     انکساری:
آپ  علیہ الرحمہ علوم و فنون کے شہنشاہ زہد و تقویٰ میں یگانہ اور خطابت کے شہسوار تھے، آپ نے اپنے اسلاف کا جو نمونہ قوم کے سامنے چھوڑا ہے وہ ایک عینی شاہد کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
     
،، شیخ الدلائل مدنی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حجۃالاسلام نورانی شکل وصورت والے ہیں، میری اتنی عزت کرتے کہ جب میں مدینہ منورہ سے ان کے یہاں گیا، کپڑا لے کر میری جوتیاں تک صاف کرتے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہر طرح خدمت کرتے کچھ روز کے قیام کے بعد جب میں بریلی شریف سے واپس عازم مدینہ ہونے لگا تو آپ  علیہ الرحمہ نے فرمایا: مدینہ منورہ میں سرکارِ اعظم میں میرا سلام عرض کرنا:

                اب  تو  مدینہ  لے  بلا  گنبد  سبز دے دکھا
               
حامد و مصطفےٰ رضا ہند میں ہیں غلام دو

     زہد و تقویٰ:

   آپ  علیہ الرحمہ نہایت ہی متقی اور پرہیز گار تھے، علمی و تبلیغی کاموں سے فرصت پاتے تو ذکر الٰہی اور درود شریف کے ورد میں مصروف ہو جاتے، آپ کے جسم اقدس پر ایک پھوڑا ہوگیا تھا، جس کا آپریشن ناگزیر تھا، ڈاکٹر نے بے ہوشی کا انجکشن لگانا چاہا تو آپ نے منع فرمایا اور صاف کہہ دیا کہ میں نشے والا ٹیکہ نہیں لگواوں گا، عالم ہوش میں دو تین گھنٹے تک آپریشن ہوتا رہا آپ درودشریف کا ورد کرتے رہے اور کسی بھی درد و کرب کا اظہار نہ ہونے دیا، ڈاکٹر آپ کی ہمت اور استقامت و تقویٰ پر ششدر رہ گیا۔

     علمی و تبلیغی کارنامے:

   آپ  علیہ الرحمہ ایک بلند پایہ خطیب، مایہ ناز ادیب اور یگانہ روزگار عالم و فاضل تھے۔ دین متین کی خدمت و تبلیغ، ناموسِ مصطفےٰ صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حفاظت، قوم کی فلاح و بہبود ان کی زندگی کے اصل مقاصد تھے، اور یہی سچ ہے کہ وہ غلبہ اسلام کی خاطر زندہ رہے اور سفر آخرت فرمایا تو پرچمِ اسلام بلند کرکے اس دنیا سے سرخرو اور کامران ہوکر گئے۔ آپ کے والدِ ماجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ نے خود ان کی علمی و دینی خدمت کو سراہا ہے اور ان پر ناز کیا ہے مسلک اہل سنت وجماعت کی ترویج و اشاعت کی خاطر آپ نے برصغیر کے مختلف شہروں اور قصبوں کے دورے فرمائیں ہیں، گستاخانِ رسول وہابیہ سے مناظرے کیے ہیں سیاست دانوں کے دام فریب سے مسلمانوں کو نکالا ہے۔ شدی تحریک کی پسپائی کے لیے جی توڑ کوشش کی ہے اور ہر جہت سے باطل اور باطل پرستوں کا مقابلہ کیا ہے۔

     سیاسی بصیرت اور حمایت حق:

آپ  علیہ الرحمہ سیاست دانوں کی چالوں کو خوب سمجھتے تھے اور اپنے زمانے کے حال سے پوری طرح باخبر رہ کر مسلمانوں کو سیاست و ریاست کے چنگل سے بچانے کی ہر ممکن جد وجہد کرتے رہتے تھے، ساتھ ہی ساتھ اس آندھی میں اڑنے والے مسلم قائدین اور دانشوران سے افہام وتفہیم اور حق نہ قبول کرنے پر ان سے ہر طرح کی نبرد آزمائی کے لیے بھی تیار تھے۔
     
مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محلی پر ان کی کچھ سیاسی حرکات اور تحریرات کی بنا پر سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ نے ان پر فتویٰ صادر فرمایا، مولانا عبد الباری صاحب نے نجدیوں کے ذریعے حرمین شریفین کے قبہ گرانے اور بے حرمتی کرنے کے سلسلے میں لکھنؤ میں ایک کانفرنس بلائی تھی، حضرتحجۃالاسلام قدس سرہ العزیز جماعت رضائے مصطفےٰ کی طرف سے چند مشہور علماء کے ہمراہ لکھنؤ تشریف لے گئے، وہاں مولانا عبد الباری صاحب اور ان کے متعلقین و مریدین نے زبردست استقبال کیا اور مولانا عبد الباری نے حضورحجۃالاسلام سے مصافحہ کرنا چاہا تو آپ نے ہاتھ کھینچ لیا، اور فرمایا کہ جب تک میرے والد گرامی کا فتویٰ ہے اور جب تک آپ توبہ نہیں کرلیں گے میں آپ سے نہیں مل سکتا۔
حضرتِ مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محلی کا لقب صوت الایمان تھا، انہوں نے حق کو حق سمجھ کر کھلے دل سے توبہ کرلی اور یہ فرمایا ،، لاج رہے یا نہ رہے میں الله تعالیٰ کے خوف سے توبہ کررہا ہوں مجھ کو اسی کے دربار میں جانا ہے۔ مولوی احمد رضا خاں نے جو کچھ لکھا ہے صحیح لکھا ہے۔

     آپ کی عربی دانی کا ایک اہم واقعہ:

 آپ  علیہ الرحمہ کو ایک بار دارالعلوم معینیہ اجمیر شریف میں طلباء کا امتحان لینے اور دارالعلوم کے معائنہ کے لیے دعوت دی گئی۔ طلبا کے امتحان وغیرہ سے فارغ ہو کر جب آپ چلنے لگے تو مولانا معین الدین صاحب اجمیری نے دارالعلوم کے معائنہ کے سلسلے میں کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ آپ نے فرمایا فقیر تین زبانیں جانتا ہے، عربی فارسی اور اُردو، آپ جس زبان میں کہیں لکھ دوں، مولانا معین الدین صاحب اس وقت تک اعلیٰ حضرت یاحجۃالاسلام سے اتنے متاثر نہ تھے جتنا ہونا چاہیے انہوں نے کہ دیا عربی میں تحریر کردیجیۓ۔ 
     
آپ  علیہ الرحمہ نے قلم برداشتہ کئی صفحہ کا نہایت ہی فصیح و بلیغ عربی میں معائنہ تحریر فرمایا۔ حضورحجۃالاسلام قدس سرہ العزیز کے اس قلم برداشتہ لکھنے پر مولانا معین الدین صاحب حیرت زدہ بھی ہورہے تھے اور سوچ بھی رہے تھے کہ نہ جانے کیا لکھ رہے ہیں کیونکہ ان کو بھی اپنی عربی دانی پر بڑا ناز تھا۔
     
جب معائنہ لکھ کر حضورحجۃالاسلام قدس سرہ العزیز چلے آئے تو بعد میں اس کے ترجمے کے لیے مولانا مرحوم بیٹھے تو اُنہیں حضورحجۃالاسلام قدس سرہ العزیز کی عربی سمجھنے میں بڑی دقت پیش آئی، بمشکل تمام لغت دیکھ کر ترجمہ کیا وہ بھی پورا ترجمہ نہیں کر سکے اور بعض الفاظ انہیں لغت میں بھی نہ ملے، بعد میں انہیں عرب علماء کی زبان اور ان کی کتب سے حاصل ہوئے تب جاکر انہیں ان الفاظ اور محاوروں کا علم ہوا۔ 

     حج و زیارت:

آپ  علیہ الرحمہ زیارتِ حرمین شریفین سے بھی مشرف ہوئے۔ 1323/ ہجری میں اپنے والدِ گرامی امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ یہ حج آپ کا علمی و تحقیقی میدان میں عظیم حج تھا، اور جو کارہائے نمایاں آپ نے اس حج میں ادا فرمائے وہ الدولتہ المکیہ کی ترتیب ہے، جسے سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ نے صرف آٹھ گھنٹے کی قلیل مدت میں قلم برداشتہ لکھا، مذکورہ کتاب کے اجزاء حضورحجۃالاسلام قدس سرہ العزیز کو دئے جاتے تھے تو آپ ان کو صاف کرتے تھے، پھر اس کا ترجمہ بھی آپ ہی نے کیا، یہ ترجمہ بہت ہی اہم ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، زیارتِ سرکارِ مدینہ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا اشتیاق جس درجہ آپ کو تھا اس کا صحیح اندازہ آپ کے مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے:

            اب   تمنا   میں   دم  پڑا ہے یہی  سیارہ  زندگی کا
           
بلالو مجھ کو مدینہ سرور نہیں تو جینا حرام ہوگا
دوسرا حج آپ نے 1334/ ہجری میں ادا فرمایا۔

 

     تصنیفی و علمی کارنامے:

   آپ  علیہ الرحمہ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے، آپ کی علمی جلالت کا صحیح پتہ اور علم تو آپ کی تصانیف سے زیادہ ممکن ہے۔ ذیل میں آپ کی قلمی یادگار کی نشاندھی کی جاتی ہے ملاحظہ فرمائیں:

·      الصارم الربانى على اسراف القاديانى  (سب سے پہلے آپ نے 1315/ ہجری میں قادیانیوں کا رد لکھا)

·      تمہید اور ترجمہ الدولیۃ المکیۃ

·      حسام الحرمين على منحر الكفر والمين

·      حاشیہ ملا جلال قلمی

·      مقدمہ الاجازات المتینہ

·      نعتیہ دیوان

·      مجموعہ فتاویٰ

·      تمہید کفل الفقیہ الفاہم

·      تاریخی نام ،( خطبہ الوظیفۃ الکریمہ )

·      سد الفرار

·      سلامۃ اللہ لاہل السنۃ من سبیل العناد و الفتنۃ

·      کنز المصلی پرحاشیہ

·      اجلی انوار الرضا

·      اثار المبتدعین لہدم حبل اللہ المتین

·      وقایہ اہل سنت

 

     کشف و کرامات:

آپ  علیہ الرحمہ کے کشف وکرامات میں سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ مذہب اہل سنت پر بڑی مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت آپ کے ہر عمل سے ہویدا تھی۔

      باکرامت مدرس:

آپ  علیہ الرحمہ ایک تجربہ کار مدرس اور تدریسی امور میں مہارت تامہ رکھتےتھے، ایک بار دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کے چند اہم مدرسین مدرسہ چھوڑ کر چلے گئے۔ تو حضورحجۃالاسلام قدس سرہ العزیز نے علوم وفنون کی تمام اہم کتابیں خود پڑھانی شروع کردیں اور اس طرح پڑھائیں کہ ان مدرسین کا وہ خیال غلط ثابت ہوا جو یہ کہتے تھے کہ ہمارے بغیر طلباء مدرسہ چھوڑ دیں گے۔ آپ کی تدریسی مہارت اور علمی لیاقت کا شہرہ سن کر بہت سارے دوسرے قابل طلباء دارالعلوم میں مزید داخل ہوئے۔

     اولادِ امجاد:
آپ  علیہ الرحمہ کے دو صاحب زادے اور چار صاحب زادیاں تھیں ۔ صاحبزادگان کے نام یہ ہیں
حضور مفسر اعظم ہند حضرتِ مولانا ابراھیم رضا خان جیلانی میاں
حضرت مولانا حماد رضا خان نعمانی میاں قدس سرہ

     وصال:
   
آپ  علیہ الرحمہ 17/ جمادی الاول 1362/ ہجری، مطابق 23/ مئی 1943/ عیسوی بعمر 70/ سال عین حالتِ نماز میں دوران تشہد 10/ بجکر 45/ منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔(  انا لله وانا الیہ راجعون )

جنازے کی نماز:

 آپ  علیہ الرحمہ کے تلمیذ ارشد حضرتِ محدثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد اشرفی لائل پوری قدس سرہ العزیز نے مجمع کثیر میں پڑھائی۔

مزار اقدس:
آپ علیہ الرحمہ کا مزار مقدس روضہ اعلیٰ حضرت کے مغرب کی جانب گنبد رضا میں واقع زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال 17 جمادی الاول کو عرس حامدی کے نام سے ہوتاہے اور جامعہ رضویہ منظر الاسلام کی دستار فضیلت بھی اسی موقع پر ہوتی ہے۔ اﷲ عزوجل آپ کے مزار مقدس پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور آپ کے صدقے مجھ گنہ گار کو عالم باعمل اور دین متین کا سچا مجاہد بنائے۔ آمین

 

 

 

 

مفتی اعظم ہند حضرت علامہ محمد مصطفیٰ خاں رضا بریلوی علیہ الرحمہ

 

ولادت باسعادت:

حضور مفتی اعظم ہند کی ولادت ٢٢ /ذی الحجہ ١٣١٠ھ مطابق ٧ / جولائی ١٨٩٣ء بروزجمعہ بوقت صبح صادق علامہ حسن رضا خاں قادری کے دولت سرائے اقدس پررضا نگرمحلہ سوداگران بریلی شریف میں ہوئی۔

اسم گرامی:۔ حضور اعلیٰ حضرت نے آپ کا نام محمد تجویز فرمایااور اسی نام پر عقیقہ بھی ہوا،جبکہ سید ابوالحسین احمد نوری میاں مارہروی نے آپ کا نام ابو البرکات محی الدین جیلانی تجویز فرمایا ۔والد ماجد نے ہی عرفی نام مصطفی رضا رکھا ۔ اور فن شاعری میں آپ نے اپنا تخلص٫ نوری ،،پسندفرمایا.اورعرفی نا م ہی مشہورہوا اور بعد میں عرفی نام کے علاوہ مفتی اعظم کا لقب آپ کا علم بن گیا۔آپ کی تاریخ ولادت وسلام علی عباداللہ ہ الذین اصطفی (١٣١٠ہجری)سے نکلتی ہے،جس وقت آپ کی ولادت ہوئی والد گرامی کی عمر مبارک تقریباًاڑتیس سال تھی ،آپ کی ولادت کے بعد والد گرامی کل تقریباًتیس سال (١٣٤٠ہجری)تک حیات ظاہری میں رہیں،جس وقت آپ کی ولادت ہوئی بڑے بھائی حضرت حجۃالاسلام کی عمر تقریباً١٨/سال تھی۔ امام احمد رضا نے حضور مفتئ اعظم ہند کو بڑے نازوں سے پالاپوسا،آپ کو اپنے برادر اکبر کی محبتیں بھی میسر رہیں۔حضرت حجۃالاسلام آپ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے،جبھی تو حج بیت اللہ کی جب دعا کی ،تو اپنے چھوٹے بھائی کو فراموش نہ کیا۔ان کے لئے بھی دعا مانگی ۔

حضرت علامہ ضیاء الدین مدنی رحمۃاللہ علیہ (خلیفہ حضور اعلی ٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی و اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ) ارشاد فرماتے ہیں جب اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ دارالافتاء میں تشریف فرما ہوتے ۔تو کبھی کبھی شہزاد اصغر حاضر ہوتے،بارگاہ رضا میں، شہزادۂ رضا کی حاضری کا اتنا پیارا اندازہوتاکہ قربان ہونے کو جی چاہتا،جو بھی دیکھتا پکار اٹھتاکہ بلا شبہ یہ مادر زاد ولی کامل ہیں،عارف حق آگاہ اور مرشد ربانی ہیں۔اس کے علاوہ کسی اور سے ایسا عرفانی عمل متوقع نہیں ہو سکتاتھا،فرماتے ہیں کہ آہستہ سے آتے،اور دو زانوں مؤدب سرکار رضا میں بیٹھ جاتے،یعنی شریر بچوں کی طرح نہ ہنگامہ کرتے،نہ کاندھوں پر دوڑتے نہ سامان کو اٹھاتے پھینکتے اور اس وقت آپ کی عمر ٤/ سال کے قریب تھی ،سارے احباب وتلامذہ نے حضور مفتئ اعظم ہند کی ولادت پر امام احمدرضا خاں کو مبارک بادیں پیش کیں ۔

امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کی زبان مبارک کرے میں دین کا ادنیٰ خادم ہوں اور میری دلی تمنا ہے کہ میرا بیٹا بھی دین کی خدمت کو ہی اپنا شعار بنائے۔

ابتدائی تعلیم:۔ چار سال چارما ہ چار دن کی عمر میں آپ کی رسم تسمیہ خوانی خود امام اہل سنت نے ادا کی اورحضور حجۃالاسلام کو آپ کی تعلیم و نگاہ داشت کے لئے خاص طور پر متعین کیا ۔تین سال میں تکمیل ناظرہ قرآن کریم کرلیا۔

اساتذہ کرام:۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے اصل تربیت تواپنے والد ماجد امام احمد رضا قدس سرہ سے پائی ۔علوم دینیہ کی تکمیل بھی اپنے والد ماجد اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے کی ۔جن دیگر نامور ،مشہور زمانہ اور قابل اساتذہ کرام سے خصوصی درس لیا ان میں مندرجہ ذیل حضرات کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ شمس العلماء علامہ ظہور الحسین فاروقی رامپوری، مولانا رحم الہدی منگلوری،تلمیذ مولانا عبدالعزیز انبیٹھوی مولانا سید بشیر احمدعلی گڑھی تلمیذ مولانا لطف اللہ علی گڑھی ، حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاںبریلی شریف (حیات مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی ایک جھلک،مرزا عبد الوحید بیگ ،ص٥،مطبوعہ بریلی)
بیعت وخلافت:۔ ٢٥/جمادی الثانی ١٣١١ھ چھ ماہ تین یوم کی عمر شریف میں سیدالمشائخ حضرت شاہ ابو الحسین نوری رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت کی۔(حیات مفتی اعظم کی ایک جھلک ،مرزا عبد الوحید بیگ)۔

اجازت وخلافت رضا :۔ امام احمدرضا قدس سرہ نے اپنے نور نظر ،لخت جگر ،خلف اصغر مفتی اعظم کو جمیع اور ادواشغال،اوفاق واعمال اور جمیع سلاسل طریقت میں ماذون ومجاز بنایا۔(محدث اعظم پاکستان ،مولانا جلال الدین ،جلد ١ ،ص٦٧،مطبوعہ لاہور)۔

فراغت:۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے ١٣٢٨ھ /١٩١٠ء میں بہ عمر ١٨/سال خدا داد ذہانت ،ذوق مطالعہ ،لگن اور محنت ،اساتذہ کرام کی شفقت ورافقت ،اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ کی توجہ کامل اور شیخ مکرم سید المشائخ قدس سرہ کی عنایت کے نتیجہ میں جملہ علوم وفنون منقولات ومعقولات پر عبور حاصل کرکے مرکز اہل سنت دارلعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے تکمیل فراغت پائی۔

علوم وفنون:۔ بر صغیر میں معقول ومنقول علوم وفنون کی جتنی مشہور اسناد ہیں ان میں سے سلسلہ تلمذ بریلوی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ہر فن اور ہر علم کی سند عالی ہے ۔اور پھر اسی ایک سلسلے سے تمام معقول ومنقول کی سند حاصل ہو جاتی ہے ۔ گویا سلسلہ تلمذ بریلوی جمیع علوم وفنون کا جامع ہے ۔ذیل میں ان علوم کا ذکر کیا جاتا ہے جو حضرت مفتی اعظم قدس سرہ نے بریلوی سلسلہ تلمذ کے واسطے سے نہ صرف حاصل کئے بلکہ ان میں درجہ اختصاص حاصل کیا ۔اور تقریباً چالیس علوم و فنون میں مہارت بہم پہنچائی جو درج ذیل ہیں ۔

(١)علم القرآن(٢)علم الحدیث(٣)اصول الحدیث (٤)فقہ حنفی (٥)جملہ کتب فقہ متداولہ مذاہب اربعہ(٦) اصول فقہ(٧)علم تفسیر (٨) علم العقائد والکلام (٩)علم النحو(١٠)علم صرف(١١)علم معانی(١٢)علم بیان (١٣)علم بدیع(١٤)علم منطق(١٥)علم مناظرہ(١٦)علم فلسفہ(١٧)علم حساب (١٨)علم ہندسہ(١٩)علم سیر(٢٠)علم تاریخ(٢١)علم لغت(٢٢) ادب(٢٣)اسماء الرجال(٢٤)نظم عربی(٢٥)نظم فارسی(٢٦)نظم ہندسہ (٢٧)نثر عربی(٢٨)نثر فارسی(٢٩)نثر ہندی(٣٠)خط نستعلیق(٣١)تلاوت مع تجوید(٣٢)علم الفرائض (٣٣)علم عروض(٣٤)علم قوانی(٣٥)علم تکسیر(٣٦)علم التوقیت(٣٧)زیجات(٣٨)ہیات کی والد ماجد سے تحصیل کی(٣٩)علم تصوف اور سلوک کی تعلیم حضرت ابو الحسین احمد نوری میاں اور والد ماجد سے لی۔ دیگرعلوم و فنو ن کی تحصیل اساتذہ سے کی۔

فتویٰ نویشی:۔ ١٣٢٨ھ میں فراغت کے بعد پہلا قلم برداشتہ فتویٰ رضاعت کے مسئلے پر لکھا۔ جواب کی صحت پر امام احمد رضا نے مسرت کا اظہار فرمایا اور خود ہی مہر بنواکر عطا کی امام احمد رضا کی کامیابی پر علامہ نقی علی خاں کوجو خوشی ہوئی تھی ۔امام احمد رضا کو چھوٹے شہزادے کی کامیابی پر بھی وہی خوشی ہوئی۔ ١٣٢٨ھ سے ١٣٤٠ تک ١٢/سال امام احمد رضا کی زیر نگرانی فتویٰ لکھا،اور تربیت بھی حاصل کی ١٣٢٩ھ کو عم مکرم علامہ حسن رضا قادری کاوصال ہوا تو حجۃ الاسلام منظر اسلام کے مہتمم ہوئے اور علامہ مصطفی رضا خاں نوری کو فتوی نویسی اور امام احمد رضا خاں کی اعانت تفویض ہوئی ۔(پھر امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد ١٣٤٠ہجری سے باضابطہ فتویٰ نویسی کا آغاز کیا)۔

تلامذہ :۔

 ١۔ محدث اعظم پاکستان مفتی سردار احمد رضوی پاکستان

٢۔ مفتی اعظم پاکستان مولانا ابو البرکات سید احمد رضوی شیخ الحدیث دار العلوم حزب الاحناف لاہور

٣۔ افقہ الفقہاء مفتی سید افضل حسین رضوی مونگیری

٤۔ مفتی الحاج مبین الدین رضوی امروہی

٥۔ فقیہ عصر مفتی احمد جہانگیر خاں رضوی

٦۔ شیخ المحدثین علامہ مفتی محمد تحسین رضا خاں رضوی بریلی شریف

٧۔ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی گھوسی

٨۔ تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری بریلی شریف

٩۔ محدث کبیر مفتی محمد ضیاء المصطفیٰ رضوی گھوسی

١٠۔ فقیہ ملت قاضی عبد الرحیم بستوی

١١۔مفتی محمد اعظم رضوی ٹانڈوی

١٢۔ بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی مبارک پور

١٣۔ مفتی محمد رجب علی رضوی نانپاروی

١٤۔ یاد گار سلف مولانا محمد حبیب رضا خاں رضوی بریلی شریف

١٥۔ مفتی ابرار حسین صدیقی تلہری

١٦۔ شیخ العلماء مفتی غلام جیلانی گھوسوی

١٧۔ استاذ العلماء مفتی خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی

١٨۔ شیخ الحدیث مولانا غلام یزدانی گھوسوی

١٩۔ مولانا غلام محمد یٰسین رشیدی پورنوی

٢٠۔ مولانا معین الدین خاں اعظمی

٢١۔ مفتی محمد طاہر حسین اشرفی رضوی

٢٢۔ مفتی مطیع الرحمٰن رضوی کشن گنج بہار

٢٣۔ قاضی مرزاپور مفتی عبد الخالق رضوی مدھوبنی بہار

٢٤۔ مولانا حسن منظر قدیری

٢٥۔ مولاناعبد الحمید رضوی دیناج پوری

٢٦۔ صوفی باصفا مفتی محمد صالح رضوی شیخ الحدیث جامعۃ الرضا بریلی شریف

٢٧۔ مولانا مظفر حسین غازی پوری کراچی پاکستان

٢٨۔ مولانا مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی

٢٩۔ مفتی ریاض احمد سیوانی

٣٠۔ مفتی عبد الغفور بہاری

٣١۔ مولانا محمد انور رضوی ٹانڈوی

٣٢۔ مولانا رئیس الدین رضوی پورنوی

٣٣۔ قاری امانت رسول پیلی بھیت

٣٤۔ سید شاہد علی رضوی رامپوری

٣٥۔ مولانا لطف اللہ قریشی رضوی علی گڑھی

٣٦۔ مولانا قدرت اللہ رضوی

٣٧۔ بدر العلماء بدر الدین رضوی گورکھپوری

٣٨۔ مولانا محمد حنیف قادری

٣٩۔ ناصر ملت مولانا محمد خالد علی خاں رضوی بریلی شریف

٤٠۔ ریحان ملت علامہ مفتی ریحان رضاخاں بریلی شریف

٤١۔ مناظر اعظم ہند حشمت علی خاں پیلی بھیت

٤٢۔ فقیہ عصر مولانا اعجاز ولی خاں رضوی بریلی

٤٣۔ مولانا محمد نعیم اللہ خاں رضوی بستوی

٤٤۔ مولانا محمد ابراہیم خشتر صدیقی

٤٥۔ مولانا محمد منظور احمد رضوی

خلفائے کرام:

 ١۔ برہا ن ملت حضرت علامہ مفتی برہان الحق رضوی جبلپوری

٢۔ صدر العلماء حضرت علامہ مفتی سید غلام جیلانی میرٹھی

٣۔ شمس العلماء حضرت مفتی قاضی شمس الدین رضوی جونپوری

٤۔ مجاہد ملت حضرت علامہ مفتی محمد حبیب الرحمٰن رضوی اڑیسوی

٥۔ حافظ ملت حضرت علامہ مفتی عبد العزیز رضوی محدث مرادآبادی

٦۔ امین شریعت حضرت علامہ مفتی رفاقت حسین قادری مظفر پوری

٧۔ حبیب ملت حضرت علامہ مفتی حبیب اللہ قادری بہاری

٨۔ سید العلماء حضرت علامہ مفتی سید آل مصطفی برکاتی مارہروی

٩۔ استاذ علماء حضرت علامہ مفتی عبد الرؤف قادری بلیاوی

١٠۔ شیر بہار حضرت علامہ مفتی اسلم رضوی مظفر پوری

١١۔ شیخ العلماء حضرت علامہ مفتی یونس قادری سنبھلی

١٢۔ مناظر اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد حسین قادری سنبھلی(رحمہ اللہ تعالیٰ اجمعین)۔

تصنیفات اور حواشی:۔ 

آپ علیہ الرحمہ کی تحریرحواشیوں اور فتاویٰ میں آپ کے والد ماجد مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ کے اسلوب کی جھلک اورژرف نگاہی نظرآتی ہے ۔ تحقیق کا کمال بھی نظر آتاہے اور تدقیق کا جمال بھی ۔ فقہی جزئیات پر عبور کا جلوہ بھی نظر آتاہے ۔ اور علامہ شامی کے تفقہ کا انداز بھی ،امام غزالی کی نکتہ سنجی ، امام رازی کے دقت نظر ،اور امام سیوطی کے وسعت مطالعہ کی جلوہ گری بھی ہوتی ہے ۔ آپنے اپنی گوناگوں مصروفیات اور ہمہ جہت مشاغل لے باجود مختلف موضوعات پر تصنیفات وتالیفات کا ایک گراں قدر ذخیر ہ چھوڑا وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔ (١)فتاویٰ مصطفویہ کامل تین جلد یں (٢)وقعات السنان (٣)ادخال السنان(٤)الموت الاحمر،ہشتاد بیدو بند بر مکاری دیوبند(٥)المفوظ کامل (٦)الطاری الداری لہفوات عبد الباری (٧)القول العجیب فی جوازالتثویب (٨)سامان بخشش(٩)تنویر الحجہ بالتواء الحجہ (١٠)طرق الہدی والارشاد(١١)وقایہ اہل السنہ (١٢)اشد الباس علی عابد الخناس (١٣)القثم القاصم للداسم القاسم(١٤)نفی العار من معائب المولوی عبد الغفار(١٥)مقتل کذب وکید(١٦)حجۃ واہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرہ(١٦)الکاوی فی العاوی والغاوی(١٧)نور الفرقان بین جند الا لہ واحزاب الشیطان(١٨) الرمح الدیانی علی راس الوسواس الشیطانی(١٩)الٰہی ضرب بہ اہل الحرب(٢٠)نہلیۃ السنان(٢١)سیف القہارعلی العبید الکفار(٢٢)النکۃ علی مراء کلکۃ(٢٣) مقتل اکذب واجہل(٢٤)القسورہ علی ادوارالحمر الکفرۃ(٢٥)شفاء العی فی جواب سوال بمبئی(٢٦)وہابیہ کی تقیہ بازی(٢٧) الحجۃ الباہرہ(٢٨) داڑھی کا مسئلہ(٢٩) طرد الشیطان (٣٠)کانگریسوں کا رد(٣١) کشف ضلال دیو بند (حواشی وتکمیلات الاستمداد)(٣٢)حاشیہ فتاویٰ رضویہ جلد چہارم(٣٣) حاشیہ فتاویٰ عزیزیہ (٣٤) مسائل سماع (٣٥) نور العرفان(٣٦) مسلک مرادآباد پر معطر ضانہ ریمارک(٣٧) حاشیہ تفسیر احمدی(٣٨)صلیم الدیان لتقطیع حیالۃ الشیطان

امام احمد رضا قدس سرہ کو اپنے فرزند اصغر مفتی اعظم کی فقاہت وثقاہت پر اس نوعیت کا اعتماد تھا کہ اپنے فتاویٰ پر ان کی تائیدی دستخط کر واتے تھے(پندرہ روزہ رفاقت یکم فروری١٩٨٢ )۔

امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنی حیات طیبہ میں سیکڑوں مسائل اپنے خلف اصغر مفتی اعظم ہند سے لکھوائے اور ان کی تصدیق و تصویب فر ماکر اپنے دستخط کئے۔ رجب١٣٣٩ھ میں اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضا قدس سرہ نے متحدہ ہندوستان کے لئے دارالقضاء شرعی قائم فرمایا اور بعض علماء کرام کی موجودگی میں حضرت صدرا لشریعہ مفتی امجد علی رضوی اعظمی کو پورے متحدہ ہندوستان کے لئے قاضئ شرع بنایا اور حضور مفتئ اعظم ہند علامہ محمد مصطفی رضا خاں نوری حضرت علامہ مفتی محمد برہان الحق جبل پوری علیہم الرحمہ والرضوان کو دارالقضاء کے مفتی اور معین القاضی کی حیثیت سے مامور فرمایا۔ اور یہ بھی ظاہر کر دیا کہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اختیا ر مجھے عطا فرمایا ہے اس کی بناء پر یہ تقرر عمل میںآیا ہے۔(پندرہ روزہ ،رفاقت یکم فروری ١٩٨٢ء)۔

مولانا مصطفی رضا کومفتی اعظم کا خطاب:

 ٢٥/صفرالمظفر ١٣٤٧ھ اگست ١٩٢٨ء کو خانقاہ عالیہ رضویہ بریلی کے عظیم الشان اجتماع میں ہزاروں کید تعداد میں اہل اسلام شریک تھے ۔مقامی علماء کرام ،اولیاء عظام ،مشاہیر قوم کے علاوہ لنکا،بنگال،بہار،بمبئی، پنجاب،گجرات،کاتھیاواڑ گونڈل ،مدارس،یوپی،راج پوتانہ سرحد کے جلیل القدر فضلاء وعمائدین قوم بھی حاضر جلسہ تھے ۔ اس تاریخی اجلاس میں حضرت مولانا محمد مصطفی رضا نوری قدس سرہ کو مفتی اعظم اور صدر العلماء نہ صرف کہا گیا بلکہ شہزادہ اکبر حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضاخاں بریلوی قدس سرہ کے حکم سے اس اجلاس میں جو تجاویز پاس ہویئں۔ ان میں تجویز نمبر ٣ میں آپ کو صدرالعلماء اور مفتی اعظم لکھا گیا ۔

حج وزیارت

حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے تین حج کئے ۔ پہلا حج ١٩٤٥ء میں ، دوسرا حج ١٩٤٨ء میں اور تیسرا حج ١٩٧١ء میں ''فوٹو کی قید ''کے بعد بلا فوٹو کیا ۔
وصال مبارک : ۔ 

آپ علیہ الرحمہ چودہ ١٤ محر الحرام ١٤٠٢ھ /١٢ نومبر ١٩٨١ء رات ایک بج کر چالیس منٹ پر کلمہ طیبہ کا وردکرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔وصال کے وقت آپ کی عمر ٩١ سال تھی ۔شہزادۂریحان ملت حضرت علامہ و مولانا سبحان رضا خاں سجادہ نشین و متولی خانقاہ عالیہ قادریہ رضویہ بریلی شریف فرماتے ہیں کہ مجھ فقیر کے والد ماجد حضورریحان ملت سیدی علامہ شاہ الحاج مفتی ریحان خان صاحب نوراللہ مرقدہ سرکارکلاں(حضورسید مختار اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ)  سے قلبی محبت فرماتے تھے اور انکے ادب احترام میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے میرے جدکریم حضور مفتی اعظم ہند علامہ شاہ الحاج مفتی مصطفی رضاخاں رضی اللہ عنہ کا جب وصال ہوا تو میرے والد ماجد علیہ الرحمہ نے آپ ہی کو نماز جنازہ کی امامت کے لئے منتخب فرمایا اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی خواہش کے مطابق کہ میرے نماز جنازہ کی سید صاحب سے پڑھائیں اور آپ ہی سے نماز جنازہ پڑھوائیں۔ ( شیخ اعظم نمبر ، بعنوان سرکارکلاں ارباب نظر میں صفحہ 84-85 ماہ مئی 2012/جہان مفتی اعظم صفحہ نمبر362 "بعنوان: مفتی اعظم ایک ہمہ جہت شخصیت)