سید جمال الدین نقشبندی حضرت خواجہ دانا سورتی علیہ الرحمہ

 

آپ علیہ الرحمہ گجرات کے صنعتی شہر سورت کے ایک ولی کامل عارف باللہ اپنے وقت کے کشف و کرامت اور سلسلہ نقشبندیہ  کے ایک جلیل القدر بزرگ ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ  کے آباواجداد موضع جنوق کے جو خوارزم سے کچھ ہی دور ہے رہنے والے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جونک نام کے گاؤں میں رہتے تھے، آپ کے دادا کا نام حضرت خواجہ سید اسمٰعیل ہے۔ آپ کے والدماجد کا نام سید خواجہ بادشاہ پردہ پوش ہے۔ ایام طفولیت میں ہی آپ کے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ گیا، 4 ماہ کی عمر تھی کہ آپ  علیہ الرحمہ کے والدماجد حضرت سید بادشاہ پردہ پوش نے جامِ شہادت نوش کیا، شاہ اسمٰعیل صفوی کی جنگ میں شریک تھے۔ آپ آپ  علیہ الرحمہ کے والدماجد حضرت سید بادشاہ پر وہ پوش نے اپنے مرید خواجہ بابا عرف خواجہ حسن عطا کو عالمِ رویا میں تاکید فرمائی کہ وہ ان کے شیر خوار صاحبزادے حضرت جمال الدین (خواجہ دانا) کی تعلیم و تربیت معقول طریقے سے کریں اور ان کی پرورش سے غافل نہ رہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار  علیہ الرحمہ نے بھی خواجہ بابا عرف خواجہ حسن عطا کو اس قسم کا حکم عالمِ رویا میں دیا تھا۔ یہ حکم پاکر خواجہ حسن عطا آپ کی تلاش میں نکلے، بہت تلاش کے بعد انہوں نے آپ کو ایک جھونپڑی میں دیکھا، خدا کا شکر بجالائے، وہ آپ کو کھاوراں کے جنگل میں لے گئے اور ایک تالاب کے پاس ٹھہرایا، اب حضرت خواجہ سید حسن عطا کو یہ فکر ہوئی کہ حضرت کو دودھ پلانے کا کوئی معقول انتظام ہو، چنانچہ وہ دایہ کی تلاش مین سرگرداں پھرنے لگے، بہت تلاش کرنے پر بھی کوئی دایہ نہ ملی، مجبوراً واپس آئے اور بارگاہِ ایزدی میں دعا کی کہ ”اے پروردگار ! اے رازق ! اے مسبب الاسباب ! اس معصوم شیرخوار بچے کی پرورش اور نگہداشت میرے ذمہ ہے، بغیر دود ھ پیئےیہ شیر خواجہ بچہ کیسے زندہ رہ سکتا ہے، اے میرے مولیٰ ! تو اس شیر خوار بچے کے لئے دودھ کا انتظام فرما میں نے دایہ تلاش کی لیکن کوئی نہ ملی، اب میں کیا کروں، اس شیر خوار بچے کی زندگی تیرے ہاتھ ہے‘‘ مایوسی کی حالت میں آپ واپس اس مقام پر آرہے تھے جہاں وہ حضرت کو چھوڑ گئے تھے، ابھی کچھ فاصلہ پر ہی تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ کوئی خوفناک جانور حضرت کو کھا جانے کی کوشش میں ہے، انہوں نے تیزی سے قدم بڑھائے اور حضرت کے پاس پہنچ کر یہ دیکھ کر بہت متعجب ہوئے کہ ایک لولی ہرنی حضرت کو دودھ پلا رہی تھی، وہ خداوند تعالیٰ کا شکر بجا لائے اور سمجھ گئے کہ ان کی دعا بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوئی، اس ہرنی کا یہ طریقہ تھا کہ صبح و شام مقررہ وقت پر یہ ہرنی آتی اور حضرت کو دودھ پلاتی اور چلی جاتی، جب تک حضرت کی دودھ پینے کی عمر رہی ہرنی پابندی سے دودھ پلاتی رہی، اس طرح سے وقت گذرتا گیا۔

حضرت خواجہ سید عطا کی وفات کے بعد حضرت کے والد ماجد حضرت سید بادشاہ پردہ پوش نے خواجہ سید محمد کو عالم رویا میں یہ حکم دیا کہ ان کے صاحبزادے (حضرت خواجہ دانا) کو مزید تعلیم وتربیت دیں، ابھی ان میں کمی ہے، آپ کے والد ماجد نے ان سے فرمایا کہ”میرا لڑکا (حضرت خواجہ دانا) ابھی پورے طور پر تعلیم سے بہرہ مند نہیں ہوا ہے، اس کو مزید تعلیم کی ضرورت ہے اور اس کی تربیت بھی خاطر خواہ نہیں ہوئی ہے، تم کو چاہئے کہ اس کی تعلیم و تربیت سے غافل نہ ہو، میں اس کو تمہارے سپرد کرتا ہوں، اس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری تم پر ہے، تم کو چاہئے کہ اس فرض کو بخیروخوبی انجام دو“  یہ حکام پاکر حضرت خواجہ سید محمد حضرت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، تلاش کرتے کرتے کھاورال کے جنگل میں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت ہر نوں کے ٹولے میں رونق افروز ہیں، ہرن حضرت سید محمد کو دیکھ کر بھاگنے لگے اور حضرت بھی ان کے ساتھ ہولئے، کئی دن تک ایسا ہی ہوا کہ جب خواجہ سید محمد وہاں پہنچتے تو حضرت ہرنوں کے ساتھ نکل پڑتے، ایک دن حضرت خواجہ سید محمد بہت آزردہ خاطر ہوئے کہ آخر وہ کب تک ان سے بھاگیں گے اور وہ (حضرتِ خواجہ سید محمد) کب تک ان کا پیچھا کریں گے، انہوں نے حضرت کو عاجزی، منت اور محبت سے روک کر کہا کہ ”آپ مجھ سے واقف نہیں، میں کوئی اجنبی نہیں ہوں، آپ کے والدماجد نے مجھے آپ کی تعلیم و تربیت پر مامور فرمایا ہے پھر آپ مجھ سے کیوں بھاگتے ہیں“ یہ سن کر حضرت رک گئے اور وہیں رہنے لگے اور تعلیم حاصل کرنے لگے۔ آپ کے والدماجد کے حکم کے مطابق جو انہوں نے عالمِ رویا میں دیا تھا، حضرت خواجہ سید حسن عطا نے آپ کو ابتدائی تعلیم دی اور آپ کی تربیت پر کافی دھیان دیا، ان کی وفات کے بعد حضرت خواجہ سید محمد کو حضرت کے والدماجد نے عالمِ رویا میں حکم دیا کہ وہ حضرت کو تعلیم و تربیت دیں، چنانچہ انہوں نے چھ سال تک تعلیم دی، اس کے بعد وہ اپنے وطن لوٹ گئے۔  حضرت خواجہ سید محمد کے چلے جانے کے بعد آپ جنگل میں تنِ تنہا رہتے تھے اور عبادت کرتے تھے، آپ کی عبادت کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ایک وسیع دائرہ کے بیچ میں بیٹھتے تھے اور آپ کے چاروں طرف جنگلی جانور ہوتے تھے، آپ جب اللہ اللہ کہتے تو جنگل جانور بھی نقل کرنے کی کوشش کرتے، اس طرح سارا جنگل اللہ اللہ کے ذکر سے گونج اٹھتا تھا۔ آپ علیہ الرحمہ جنگل کی قدرتی زندگی پسند فرماتے تھے جس میں کوئی تصنع یا بناوٹ نہ تھی جانوروں سے مانوس اور انسانوں سے دور رہ کر آپ جنگل میں اللہ اللہ کرنے میں خوشی پاتے تھے، انسان کو دیکھ کر آپ بھاگتے تھے، شہری زندگی سے آپ نابلد اور نا آشنا تھے، اگر اسی طرح آپ زندگی گزارتے اور اسی طرح جنگل میں رہتے تو مخلوق آپ سے کیسے اور کس طرح مستفید ہوتی۔ آپ علیہ الرحمہ حضرت خواجہ سلام جوئبار نقشبندی سے حضرت نے خلافت پائی، حضرت خواجہ عبداللہ اشراقی سے حضرت کو اویسیہ فیض پہنچا، حضرت خواجہ عبید اللہ احرار کی روحانیت سے بھی حضرت مستفید و مستفیض ہوئے، حضرت خواجہ سید حسن عطا کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوکر آپ نقشبندی سلسلے میں منسلک ہوئے۔ آپ علیہ الرحمہ  رات کو جاگتے تھے اور عبادت اور نماز میں مشغول ہوجاتے تھے، مخلوق سے بے نیاز رہتے تھے، غریبوں، مسکینوں اور معذوروں کی ہر طرح امداد کرتے تھے، آپ کو کھیتی باڑی کا بہت شوق تھا، زمین جوتتے اور جو اس سے آمدنی ہوتی، وہ ان کاشتکاروں میں تقسیم کردیتے تھے جن کو کھیتی میں نقصان ہوا ہوتا، آپ سخاوت کے لئے مشہور تھے، سائل کو خالی نہ لوٹاتے تھے، اتباعِ سنت کے سخت پابند تھے، میلادالنبی اور معراج النبی بڑی شان و شوکت سے مناتے تھے، لوگوں کو کھانا تقسیم کرتے تھے اور اعلیٰ قسم کا عطر مہمانوں کو بطور تحفہ دیتے تھے، علمی جلسوں میں بھی شریک ہوتے تھے اور مشکل علمی نکات کو بہ آسانی حل کر دیتے تھے۔ آپ علیہ الرحمہ  کو شہر سے زیادہ جنگل پسند تھا، روزانہ بلا ناغا جنگل میں جاتے تھے اور قدرتی مناظر، صارف آب و ہوا اور وہاں کے سکوت اور خاموشی سے لطف اندوز ہوتے تھے، جنگل کے جانور اور پرند آپ سے ملے جلے رہتے تھے، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ پرندوں کی زبان میں پرندوں کے گانے گاتے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ جانوروں اور پرندوں کی بولی سمجھتے تھے، جانوروں اور پرندوں پر زیادتی یا ظلم کرنا آپ کے نزدیک قہرِ خداوندی کو دعوت دینا ہے۔ مزدوروں کا آپ خاص طور سے خیال رکھتے تھے، جب کوئی عمارت بناتے تو اس کو کئی کئی مرتبہ گروا دیا کرتے تھے تاکہ مزدوروں کو زیادہ مزدوری ملے۔

118 سال عمر شریف پاکر 5 صفر المظفر 1016 ہجری بمطابق 1607 عیسوی بروزجمعہ آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور بڑے خان چکلہ سورت میں آپ کی تجہیز و تکفین عمل میں آئی ۔ آج بھی آپ کا مزار پرانوار مرجع خلائق خاص  و عام ہے ۔ہر سال 3 اور 4 صفرالمظفر کو حسب روایت آپ کا عرس شریف درگاہ کے احاطہ میں نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منا جاتا ہے ۔  (مآخد و مراجع: تاریخ شہنشاہ سورت/ سیرت خواجہ دانا / صلحائے سورت)