حضرت سیدنا شیخ ابوالحسن علی شاذلی علیہ الرحمہ

 

امام المتوکلین، سید المحققین، بانی سلسلہ عالیہ شاذلیہ  حضرت شیخ ابوالحسن سید علی شاذلی علیہ الرحمہ  کا شمار امت مسلمہ کے اکابر اولیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے وقت کے قطب تھے۔ آپ کا سلسلہ فیض مشرق و مغرب میں یکساں عام ہے۔ بڑے بڑے اولیاء و صالحین آپ کے سلسلہ میں داخل ہوکر واصل باللہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو عزت و عظمت امام شاذلی علیہ الرحمہ رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمائی وہ رفعت کم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ درود تاج شریف اور معروف دعا حزب البحر آپ ہی سے منقول ہیں۔"

امام شاذلی علیہ الرحمہ کانام و نسب:

امام شاذلی علیہ الرحمہ کا اسم گرامی علی، کنیت ابوالحسن اور لقب امام الاولیاء، قطب زمان معروف ہیں اور آپ سلسلہ عالیہ شاذلیہ کے بانی ہیں۔آپ کے والد گرامی کا اسم گرامی سید عبداللہ رحمۃاللہ علیہ تھا، جن کا شمار اپنے وقت کے جید علماء و مشائخ میں ہوتا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق حسنی سادات خانوادے سے تھا اور آپ کا شجرہ نسب گیارہ واسطوں سے سیدنا امام حسن المجتبیٰ علیہ السلام سے جاملتا ہے۔ آپ کا شجرہ نسب کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے: شیخ سید ابوالحسن علی شاذلی علیہ الرحمہ بن سید عبداللہ بن سید عبدالجبار بن سید یوسف بن سید یوشع بن سید بردبن سید بطال بن سید احمد بن سید محمد بن سید عیسیٰ بن سید محمد بن سیدنا امام حسن المجتبیٰ علیہما السلام۔

امام شاذلی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت:

امام شاذلی علیہ الرحمہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 593 ہجری میں مراکش کے مغرب میں واقع قصبہ غمارہ میں ہوئی۔ آپ کے بچپن میں آپ کے والدین نے غمارہ سے تیونس کے قصبہ شاذلہ میں رہائش اختیار کرلی اور اسی نسبت سے آپ شاذلی علیہ الرحمہ کہلاتے ہیں۔

امام شاذلی علیہ الرحمہ کی تعلیم و تربیت:

امام شاذلی علیہ الرحمہ رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ عطافرمایا تھا، آپ نے بچپن میں ہی قرآن کریم حفظ کرلیا اور ابتدائی تعلیم و تربیت قصبہ غمارہ میں ہی حاصل کی۔شاذلہ میں رہائش پذیر ہونے کے بعد علوم شریعہ اور فقیہ کے حصول کے لیے آپ نے قصبہ فاس کی طرف سفر کیا۔ فاس میں آپ نے شیخ نجم الدین اصفہانیؒ سے عربی ادب اور صوفی کبیر عبداللہ بن ابوالحسنؒ سے علم الاخلاق اور تزکیہ کے جوہر سمیٹے اور اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے مدینۃ العلوم عراق تشریف لے آئے۔اس زمانے میں عراق علوم اسلامیہ کا مرکز مانا جاتا تھا، امام شاذلی علیہ الرحمہ رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف علماء و شیوخ کی صحبت میں رہتے ہوئے علوم ظاہر میں کمال درجہ مہارت حاصل کی کہ شیخ ابن عطاء اللہ سکندری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام شاذلی علیہ الرحمہ رحمۃ اللہ علیہ کو نوجوانی میں ہی تمام علوم و فنون پر ایسا ملکہ حاصل تھا کہ آپ کسی بھی ماہر فن سے مناظرہ جیت سکتے تھے۔

امام شاذلی علیہ الرحمہ کی بیعت و خلافت:

امام شاذلی علیہ الرحمہ نے علوم ظاہر میں ید طولیٰ حاصل کرنے کے بعد راہ سلوک کا رخت سفر باندھا اور بالآخر ایک عرصہ عبادت و ریاضت اور مختلف اسفار کے بعد سیدنا عبدالاسلام بن مشیش رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی۔ شیخ عبدالاسلام بن مشیش رحمۃ اللہ علیہ نے آپ پر خصوصی نظر کرم فرمائی اور آپ نے اپنے مرشد کریم کی زیر نگرانی عبادت و ریاضت اور مجاہدات کرکے سلوک کی منازل طے کیں۔امام شاذلی علیہ الرحمہ ؒ کے شیخ کریم آپ سے خصوصی شفقت و محبت فرماتے تھے اور آپ کے جذبہ اور شوق کو خوب سراہتے تھے۔ کچھ عرصہ شیخ کی خدمت میں رہنے کے بعد آپ کے شیخ کریم نے آپ کے خلافت و اجازت سے مشرف فرمادیا۔

امام شاذلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے بغداد شریف کا سفر کیا کہ وہاں کے مشائخ سے علوم باطنی میں استفادہ حاصل کرسکوں۔ اسی سلسلہ میں میں نے بہت سے اولیاء و مشائخ کی صحبت اختیار کی مگر شیخ ابوالفتح واسطی رحمۃ اللہ علیہ جیسا مردکامل میں نے سرزمین عراق میں نہیں پایا۔ ایک مرتبہ میں شیخ ابوالفتح واسطیؒ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ قطب زمان کی بات چل نکلی، میں نے دل میں ہی سوچا کہ عراق میں اتنے اولیاء کرام ہیں قطب وقت بھی ان ہی ہستیوں میں سے کوئی ہوگا۔ شیخ ابوالفتح واسطیؒ میرے ارادے سے مطلع ہوگئے اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ اے ابوالحسن! آپ عراق میں قطب وقت کو تلاش کررہے ہیں؟ حالانکہ وہ تو آپ کے علاقے میں تشریف فرما ہیں اور ان کا اسم گرامی شیخ عبدالاسلام بن مشیش رحمۃ اللہ علیہ ہے۔

امام شاذلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے آبائی علاقے کی طرف روانہ ہوا اور شیخ قطب عبدالاسلام بن مشیش رحمۃ اللہ علیہ کو غمارہ کے پہاڑوں میں پایا۔شیخ کریم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے میں نے غسل کیا اور اپنے علم و عمل کو دل سے نکال دیا کیونکہ بھرے ہوئے برتن میں کچھ نہیں سماتا اور فقیر کا حلیہ اپنا کر حاضر خدمت ہوا۔ جیسے ہی میں شیخ کریم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ مرحبا یا ابوالحسن! اور ساتھ ہی میرا شجرہ نسب خاتم النبیین حضور نبی کریمﷺ تک بیان فرمادیا۔ امام شاذلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں شیخ کریم کے کشف سے ورطہ حیرت میں گم ہوا ہی تھا کہ آپ ے فرمایا اے سید علی! آپ علم و عمل اور شاہانہ لباس سے آزاد ہوکر فقیرانہ حلیے میں حاضر ہوئے ہو، ہمیں آپ کی یہ عاجزی بہت پسند آئی ہے، ہم بفضل رب تعالیٰ آپ کو دنیا و آخرت میں غنی کردیں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں کچھ دن شیخ کریم کی خدمت میں رہا کہ شیخ کریم کے فیض صحبت سے میرا قلب و روح روشن اور شادمان ہوگئے۔

سیرت و خصائص:

قطب الزمان، قدوۃ الانام، صاحبِ علم الہدایۃ، مشارالیہ باالولایۃ، بدرالمغرب، قمرالمصر، صاحبِ فیوضات کثیرہ، بانیِ سلسلہ عالیہ شاذلیہ، صاحبِ حزب البحر، ولی بر و بحر، شیخ العارفین، سند الواصلین، امام المتوکلین، سیدالمحققین، صاحبِ معارف اسرار ربانی حضرت شیخ ابوالحسن علی الشاذلی رحمۃ اللہ علیہ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اس امت کے اکابر اولیاء کرام میں ہوتاہے۔ آپ علیہ الرحمہ کا سلسلہِ فیض مشرق و مغرب میں عام ہے۔ بڑے بڑے اولیاء و صلحاء و علماء آپ کے سلسلہ میں داخل ہوکر واصل باللہ ہوئے۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے قطب تھے۔ اللہ جل شانہ نے آپ کو ایسا مقام و عظمت عطاء فرمائی تھی، کہ ایسی عظمت و رفعت بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔آپ علیہ الرحمہ فرماتےہیں: میں نے بغداد کا سفر کیا تاکہ وہاں مشائخ کی صحبت حاصل کروں، میں نے بہت مشائخ کی زیارت کی، اور ان سے ملاقاتیں ہوئیں، اور حضرت شیخ ابوالفتح واسطی جیسا مردِ کامل میں نے سرزمینِ عراق میں نہیں دیکھا۔ ایک دن میں شیخ ابوالفتح واسطی کی مجلس میں حاضر تھا، اور قطب زمان کی بحث ہو رہی تھی، اور عراق میں کثیر اولیاء اللہ تھے، اور میرا خیال یہ تھا کہ عراق میں ہی قطب الوقت موجود ہوگا، اور شیخ ابولفتح واسطی کے اشارے سے ہم ان کی زیارت سے شرف یاب ہوجائیں گے۔فرماتےہیں: حضرت شیخ ابوالفتح میرے ارادے سے مطلع ہوگئے اور آپ کو مخاطب کرکے فرمایا

:اے ابوالحسن! تم عراق میں قطب کو تلاش کر رہےہو؟

 حالانکہ وہ تو تمہارے علاقے میں تشریف فرما ہیں، ان کا اسم گرامی ہے “شیخ عبدالسلام بن مشیش”۔

آپ فرماتے ہیں: میں عراق سے اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوا، حضرت شیخ قطب عبدالسلام بن مشیش رضی اللہ عنہ “مغارہ” میں پہاڑ کے اوپر تشریف فرما تھے۔ میں نے غسل کیا اور اپنے علم و عمل کو دل سے نکال دیا۔(کیونکہ بھرے ہوئے برتن میں کچھ نہیں سماتا) میں بشکل فقیر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ جیسے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ نے فرمایا: مرحبا! اے ابوالحسن علی بن عبداللہ بن الجبار، حضرت شیخ نے میرا سلسلہ نسب رسو ل اللہ ﷺ تک بیان فرما دیا۔

پھر ارشاد فرمایا: اےعلی! تم علم و عمل اور شاہانہ لباس سے آزاد ہو کر فقیرانہ لباس میں آئے ہو، ہم تمہیں دنیا و آخرت میں غنی کردیں گے۔ پھر میں حضرت کی صحبت میں کچھ دن رہا آپ کے فیض صحبت سے میرا قلب و دماغ روشن ہوگیا۔

حضرت شیخ ابوالحسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: ایک دن میں حضرت شیخ عبدالسلام علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ کی گود میں ایک چھوٹا بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ حضرت سے اسم اعظم کا سوال کروں، وہ بچہ کھڑا ہوا، میرے رومال کو پکڑ لیا اور کہا:اے ابوالحسن! کیا تم شیخ سے اسم اعظم پوچھنا چاہتے ہو؟ تم جس اسم ِاعظم کا سوال کرنا چاہتے ہو، وہ تو تم خود ہو۔(یعنی اللہ جل شانہ تمہارے شیخ کی برکت سے تمہارے دل میں القاء کردے گا، یا یہ ہےکہ تمہاری شان یہ ہے کہ تم جو سوال کروگے رد نہیں کیا جائے گا) حضرت شیخ عبدالسلام مسکرائے اور فرمایا:اس بچے نے ہماری طرف سے جواب دیا ہے۔

امام شاذلی علیہ الرحمہ کو حضور نبی کریمﷺ کی زیارت:

امام شاذلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے خواب میں حضور نبی کریمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور آپﷺ نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! اپنے کپڑوں کو میل سے پاک رکھو تاکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہردم کامیاب رہو۔میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ! میں اپنے کپڑے کیسے صاف رکھوں؟

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ خلعتیں عطا فرمائی ہیں، اول خلعت محبت، دوم خلعت معرفت، سوم خلعت توحید، چہارم خلعت ایمان اور پنجم خلعت اسلام۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے میرے بیٹے! ان خلعتوں پر کاربند رہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا خاص فضل و کرم فرمائے گا۔ روایات میں ہے کہ امام شاذلی علیہ الرحمہ نے ان پانچ خلعتوں کو ہمیشہ پاک و صاف رکھا اور ان کو کبھی گردآلود نہیں ہونے دیا۔

امام شاذلی علیہ الرحمہ اور درود تاج:

روایات میں ہے کہ جب امام شاذلی علیہ الرحمہ کو حضور نبی کریمﷺ کی زیارت ہوئی تو آپ نے شیخ ابوبکر رحمۃ اللہ علیہ کا مرتب کردہ درود تاج حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا، جسے حضور نبی کریمﷺ نے بہت پسند فرمایا اور یہ درود تاج اب آپ کے نام کے ساتھ بھی منسوب کیا جاتا ہے۔

امام شاذلی علیہ الرحمہ اور اسم اعظم:

حضرت شیخ ابوالحسن المعروف امام شاذلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے شیخ کریم شیخ عبدالاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا کہ شیخ کریم کی گود مبارک میں ایک بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میں شیخ کریم سے اسم اعظم کا سوال کروں۔ ابھی میں نے یہ سوچا ہی تھا کہ وہ بچہ کھڑا ہوا اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ اے ابوالحسن! جس اسم اعظم کا سوال آپ اپنے شیخ کریم سے کرنا چاہ رہے ہیں، وہ اسم اعظم تو آپ خود ہیں یعنی آپ جو سوال بھی کریں گے اللہ تعالیٰ آپ کے کسی سوال کو رد نہیں فرمائے گا۔آپ بچے کی بات سن کر بہت حیران ہوئے، آپ کے شیخ کریم مسکرائے اور فرمایا کہ اس بچے نے ہماری طرف سے جواب دیا ہے اور جو بھی کہا ہے وہ بالکل حق اور سچ کہا ہے۔

امام شاذلی علیہ الرحمہ اور دعائے حزب البحر:

روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ امام شاذلی علیہ الرحمہ قصد حج کے لیے بحری سفر کررہے تھے کہ آپ کی ذات پرسمندر میں سفر کی حفاظت کی دعا منکشف ہوئی اور یہ دعا دعائے حزب البحر کے نام سے معروف ہوئی۔ یہ دعا صوفیاء کرام میں بہت مقبول ہے اور تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس کو اپنایا ہے اور بہت سے اولیائے کرام نے اس دعا کی فضیلت سے مقام ولایت کی منازل طے کی ہیں۔ دعائے حزب البحر کے بارے میں معروف ہے کہ جو کوئی اس دعا کو طلوع آفتاب کے وقت پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرمائے گا، اس کی تکلیف کو دور کرے گا اور لوگوں میں اس کی قدرو منزلت کو بلند اور اس کی تنگدستی کو کشادگی سے بدل دے گا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ دعائے حزب البحر کے بہت بڑے عامل تھے۔ آپ نے فارسی میں اس کی شرح بھی لکھی۔

سلسلہ شاذلیہ:

روایات میں ہے کہ امام شاذلی علیہ الرحمہ کے شیخ طریقت شیخ عبدالاسلام مشیش رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ ابومدین مغربی رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض حاصل کیا تھا اور شیخ ابو مدین مغربی علیہ الرحمہ کی ملاقات سفر حجاز میں حضور غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی اور حضور غوث اعظم علیہ الرحمہ نے شیخ ابومدین مغربی علیہ الرحمہ کو خرقہ خلافت بھی عطا فرمایا اور اپنے خاص فیضان سے بھی نوازا۔ اس لحاظ سے سلسلہ شاذلیہ، سلسلہ قادریہ کی ہی ایک ذیلی شاخ ہے اور اس سے جڑا ہوا ہے اور امام شاذلی علیہ الرحمہ سے منسوب سلسلہ شاذلی علیہ الرحمہ ہ کا فیضان شرق و غرب میں یکساں عام ہے۔

وصال مبارک:

امام شاذلی علیہ الرحمہ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ہرسال حج کرتے تھے۔ روایات میں ہے کہ 656 ہجری میں آپ نے حج کا ارادہ فرمایا اور مصر سے حج کے لیے روانہ ہوئے اور صحرائے عیداب کے مقام پر پہنچ کر اپنے اصحاب کو جمع فرمایا اور انہیں تقویٰ، ایثار، بھائی چارہ، دین داری اور دعائے حزب البحر کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنی اولادوں کودعائے حزب البحر لازمی حفظ کروانا کہ یہی اسم الاعظم ہے۔ پھر اپنے خلیفہ خاص شیخ ابوالعباس مرسی رحمۃ اللہ علیہ کو بلاکر خصوصی فیوض و برکات سے نوازا اور اپنے بعد شیخ ابوالعباس مرسی علیہ الرحمہ کو اپنا خلیفہ و نائب مقرر فرمایا۔

اس کے بعد آپ نے پانی منگوایا تو پتہ چلا کہ قریبی کنوے کا پانی کھارا ہے، آپ نے فرمایا کہ پانی لایا جائے، پانی آیا تو آپ نے کلی مبارک فرمائی اور اپنا دھوون برتن میں ڈال کر فرمایا کہ اس کو واپس کنویں میں ڈال دیں۔ روایات میں ہے کہ امام شاذلی علیہ الرحمہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کنویں کے کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کردیا۔ امام شاذلی علیہ الرحمہ چونکہ حج کے ارادے سے نکلے تھے اس لیے حالت احرام میں تھے، آپ نے دو رکعت نماز نفل کی نیت فرمائی اور آخری سجدے میں واصل باللہ ہوئے۔ معروف روایت کے مطابق امام شاذلی علیہ الرحمہ کا وصال 20 /ذوالقعدہ 656ھ، مطابق 18/نومبر 1258ء بروز پیر کو ہوا، آپ کا مزار وادیِ “حمیثرا” مصر میں مرجعِ خلائق ہے۔

امام شاذلی علیہ الرحمہ اکابرین امت کی نظر میں:

امام شاذلی علیہ الرحمہ کا مقام وریٰ الوریٰ ہے اور اکابرین امت نے آپ کی تعریف و توصیف میں بہت کچھ تحریر فرمایا ہے، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

·      شیخ مکین الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بہت سے حضرات لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ شیخ ابو الحسن المعروف امام شاذلی علیہ الرحمہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں۔

·      شیخ عبداللہ شاطبی علیہ ارلرحمہ فرماتے ہیں: میں خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی دولت سے شرف یاب ہوا میں نے امام شاذلی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا، تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:” ابولحسن تو میرا حسی و معنوی بیٹا ہے”۔

·      شیخ تقی الدین بن دقیق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام شاذلی علیہ الرحمہ سے بڑا عارف نہیں دیکھا۔

آپ کابہت بڑا مقام ہے علماء اسلام نے آپ کی تعریف و توصیف میں بہت کچھ لکھا ہے۔اس وقت آپ کےسلسلےکا فیضان شرق و غرب میں عام ہو چکا ہے۔ آپ کی دعائے حزب البحر کے طفیل بہت سے لوگ واصل باللہ ہوئے ہیں، اور ان شاء اللہ قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ (مآخذ: امام ابوالحسن شاذلی علیہ الرحمہ حیات و خدمات/رحلہ حج شیخ ابوالحسن ال شاذلی علیہ الرحمہ /نفحات منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ/نفحات الانس)

 


حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی اشرفی علیہ الرحمہ

 

آپ علیہ الرحمہ کی ولادت مبارک 15رجب 838ہجری کو گوگی شریف میں ہوئی۔آپ کا اسم مبارک حضرت سیدشاہ احمد حسین ہے مگر والد ماجد علیہ الرحمہ کے دیئے ہوئے لقب سید شاہ شمس عالم حسینی سے مشہور ہوئے ۔

 سلسلہ نسب:

مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت امام حسین شہید کربلا رضی اللہ تعالی عنہ ،حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ،حضرت سید زید شہید رضی اللہ تعالی عنہ،حضرت سید علی اصغر رضی اللہ عنہ،حضرت سید حسین اصغر رضی اللہ عنہ،حضرت سید حسن رضی اللہ عنہ،حضرت سید حسین رضی اللہ عنہ،حضرت سیدیحییٰ رضی اللہ عنہ،حضرت سید عمر رضی اللہ عنہٗ،حضرت سید محمد رضی اللہ عنہ،حضرت سید عبداللہ رضی اللہ عنہ،حضرت سید حسین رضی اللہ عنہ،حضرت سید زین الدین رضی اللہ عنہٗ،حضرت سید شرف الدین رضی اللہ عنہ،حضرت سید سراج الدین رضی اللہ عنہ،حضرت سید زید رضی اللہ عنہ،حضرت سید یحییٰ رضی اللہ عنہ،حضرت سید احمد رضی اللہ عنہ،حضرت سید خضر رضی اللہ عنہ،حضرت سید جہانشیر حسینی رضی اللہ عنہ،قطب الاقطاب حضرت سید شاہ چندا حسینی قدس سرہ گوگی شریف۔

تعلیم و تربیت :

والد ماجد علیہ الرحمہ مرشد برحق کے زیر تربیت کم عمری میں آپ نےعلم ظاہری و باطنی میں اعلی مقام حاصل کیا ۔ والد ماجد علیہ الرحمہ نے سلسلہ چشتیہ اشرفیہ کی بیعت خلافت سے سرفراز فرمایا ۔

سلسلہ خلافت:

خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری غریب نواز رضی اللہ عنہ کے خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ عنہ (دہلی) کے خلیفہ حضرت خواجہ بابا فریدالدین گنج شکر رضی اللہ عنہ( پاک پٹین شریف) کے خلیفہ محبوب الہی حضرت سید نظام الدین اولیاء رضی اللہ عنہ (دہلی)حضرت اخی سراج الدین آئینہ ہند رضی اللہ عنہ خلیفہ کے حضرت علاؤ الحق پنڈوی اسعد خالدی رضی اللہ عنہ( پنڈوہ شریف بنگال )کے خلیفہ محبوب یزدانی غوث العالم مخدوم حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی قدس سرہ (کچھو چھہ شریف) کے خلیفہ حضرت شیخ سعدالدین زنجانی قدس سرہ( گلبرگہ شریف ) کے خلیفہ حضرت شیخ عارف ضیاءالدین قدس سرہ (گلبرگہ شریف )کے خلیفہ قطب الاقطب حضرت سید شاہ چندا حسینی قدس سرہ (گوگی شریف) خلیفہ قطب رائچور حضرت سیدشاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ (رائچورشریف)

اجداد کرام کی مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے ہندوستان تشریف آوری:

 قطب رائچور حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ رائچور کے اجداد کرام میں حضرت سید محمد رضی اللہ عنہ بن حضرت سید یحیی رضی اللہ عنہ نے چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں مدینہ منورہ سے عراق کا قصد فرمایا یہ وہ زمانہ تھا جس میں زیادہ سے زیادہ اولیائے اکرام نے عجم کارخ فرمایاتھا اور اشاعت اسلام کے لیے سب سے پہلے عراق کی سرزمین کو منتخب کیا تھا ۔

حضرت سید محمد رضی اللہ عنہ نے عراق پہنج کر اس علاقہ میں اپنے اجداد کرام کا فیض پھیلایا :

آپ رضی اللہ عنہ کی اولاد بصرہ وغیرہ میں پھیل گئی اور عراق میں ہر طرف اس خانوادہ کےاولیاء اکرام سے دین اسلا م کی کرنین چمک گائیں اسطرح آپکے سلسلہ کے اولیائے اکرام پانچویں صدی ہجری میں ایران پہنچے اور یہاں پرچم اسلام کو بلند فرمایا آج بھی عراق اور ایران کے مختلف علاقوں میں ان اولیاء اکرام کی بارگاہ ہے مرجع جن وہ بشر ہے ۔

قطب رائچور حضرت سیدشاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ کے اجداد اکرام میں حضرت سید یحییٰ رضی اللہ عنہ بن حضرت سید زید رضی اللہ عنہ نے 668ہجری میں ملتان کا قصد فرمایا اور یہاں تشریف لائے اور آپ کی اولاد ملتان سے گجرات تک پھیل گئی چنانچہ آپ کے سلسلے کے اولیاء اکرام کی بارگاہ ہیں آج بھی کچھ میں موجود ہیں۔

حضرت قطب رائچور کہ جد امجد حضرت سید شاہ جہانشیر حسینی رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے بھائی حضرت سید شاہ عجب شیر حسینی رضی اللہ عنہ کے ہم راہ جنوبی ہندوستان کی سمت چلے اور گلبرگہ شریف کی سرزمین پر رونق افروز ہوئے ۔

 جد امجد کی کرامات کا ظہور

حضرت سید شاہ جہانشیر حسینی رضی اللہ عنہ جب گلبرگہ شریف تشریف لائے تو فیروز شاہ بہمنی نے آپ کی قدر شناسی کرتے ہوئے آپ کو اور آپ کے بھائی کو اپنی فوج میں اعلی عہدوں پر مقرر کیا آپ دونوں حضرات فوج میں بر سر خدمات تھے کے اس عجیب وغریب کرامات سے بہمنی حکومت ‏دہل اٹھی کہ ایک دن فیروز شاہ بہمنی اپنے فوجی دستہ سمیت شکار کیلئے نکلا ہوا تھا ۔

جس میں یہ دونوں بزرگ بھی شامل تھے جب بادشاہ شکار سے سیر ہوا تو واپس کا حکم دیا بادشاہ کی سواری جاہ و حشم کے ساتھ جب محل پہنچی تو اسکی شہزادی بالا خانہ پر کھڑی شاہی جلوس کی آمد کامنظر دیکھ رہی تھی کیا دیکھتی ہے کے بادشاہ کہ سر پر دو گھوڑے سوار ہوا میں اڑے چلے آ رہے ہیں یہ دیکھ کر اسکے ہوش اڑگئے جب بادشاہ قصر شاہی میں داخل ہوا تو شہزادی نے حیرت سے چشم دید حالات بتادئے ۔

شہنشاہ پر یہ سنکر سناٹا چھا گیا اور کہنے لگا کہ اس سے بے خبر ہوں کہ میری فوج میں ایسے باکمال اور خدار سید بزرگ موجود ہیں ۔چنانچہ اس نے ان دونوں کی خفیہ تلاش کا حکم دیا جاسوس اس کام پر معمور ہوگئے کئی دن یہ جستجو جاری رہی لیکن ان بزرگوں کا پتہ نہ چل سکا اس دوران ایک دن ایسا شدید طوفان آیا کے بڑے بڑے تن آور درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جاسوس اس کام میں لگے ہوئے تھے گشت کرتے کرتے وہ ایسے خیمے پر پہنچے کہ طوفان بادو باران کے باوجود اس خیمے میں چراغ جل رہا ہے اور دونوں بزرگ تلاوت قرآن مجید میں مصروف ہیں ۔ان دونوں جاسوسوں نے لوٹ کر بادشاہ کو اس کی خبر کی اور غیب سے ان دونوں حضرات نے یہ معلوم کر لیا کے سلطان نے ہماری ولایت کو جان لیا ہے اور خدا سے ہمکو یہ حکم ہے کے ولایت راز میں رکھی جائے لہازا اب ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں سے کوچ کر جائے ۔

 کرامات کا ظہور : 

 جب آپ علیہ الرحمہ اپنی عمر شریف کے اٹھارویں سال میں پہنچے تو آپ سے اس کرامت کا ظہور ہوا کہ ایک دن والد ماجد ومرشد برحق نے آپ سے وضو کے لئے پانی طلب فرمایا اور آپ نے پانی حاضر کیا مگر درخت پر بیٹھے ایک کوے نے اس پانی میں بیٹ کردی جس پر حضرت قطب رائچور نے نظر جلال سے اس کوے کو دیکھا جس کے ساتھ ہی کوا زمین پر گرا اور مرگیا ۔

والد ماجد نے ارشاد فرمایا کے اس قدر جلال فوراہی حضرت قطب رائچور نے نظر جمال سے اس کوے کو دیکھا تو کوا زندہ ہوکر اڑ گیا ۔

گوگی شریف سے روانگی:

اس کرامت کو ملاحظہ فرمانے کے بعد والد ماجدو مرشد برحق نے ارشاد فرمایا کہ اس کرامات کے ظہور سے یہ ثابت ہے کہ تم نے اپنی ولایت کہ کامل مقام کو پا لیا ہے جو قطبیت کا درجہ ہے ۔اور آپ کو شمس عالم کے لقب سے نواز تے ہوئے فرمایا کے تم اپنے مقام ولایت و قطبیت کے لیے رخصت ہو جاؤں ۔اور آپ کے مقام ولایت و قطبیت کو راز میں رکھتے ہوئے دو تاڑ پھل عنایت فرمائے اور کہا کے اشنائے سفر جہاں کہیں سب میں قیام کرو ان تاڑ پھلوں کو زمین میں بوؤ اگر صبح میں ان میں کو نپلین نکلیں تو وہی تمہارا مقام ہوگا ۔ان تاڑ پھلوں کو لئے جن میں راز ولایت و قطبیت پوشیدہ تھا ۔856ہجری میں آپ گوگی شریف سے روانہ ہوئے اور دورانی سفر ہزاروں افراد کو داخل اسلام کرتے رہے اور جہاں کہیں شب میں قیام فرماتے وہاں ان کو زمین میں بوتے صبح میں ان میں کونپلین نہیں نکلتیں تو وہاں سے نکل جاتے ۔

معجزہ موسوی کی کرامت:

اس طرح اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے جب آپ دریائے کشنا پر پہنچے تو ملا حظہ فرمایا کہ دریا اپنی پوری قوت کے ساتھ لبالب بہہ رہا ہیں آپ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور بسم اللہ کہہ کر جوں ہی اپنا قدم مبارک پانی میں رکھا دریا کا پانی نہ صرف پھٹ گیا بلکہ اس میں خشک راستہ بن گیا جس سے آپ نے دریا کو عبور فرمایا ۔ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام نے دریا ئے نیل کو پھاڑ دیا تھا اس معجزے کی تجلی خدا نے آپ کی اس کرامت میں عطا فرمائی جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے مخصوص اولیاء اکرام کو انبیائے اکرم کے معجزات سے منور کرامات عطا فرمائے ۔

استدر جی طاقت کا خاتمہ:

دریائے کرشنا کو عبور فرما کر جب آپ رائچور والے کنارے پر پہنچے تو ملا حظہ فرمایا کہ استرارجی و شیطانی طاقت کا حامل ایک جوگی بیٹھا ہوا ہے جو پورے دو آ بے پر قابض آپ نے اپنی کرامت سے اسے وہاں سے فرار ہونے پر مجبور کردیا اس طرح رائچور کرشنا سے تنگبھدرا تک جو باطل ظلمت کے قبضے میں تھا اس پورے علاقے کو نور ایمانی سے منور کردیا۔ کرشنا کے رائچور والے کنارے پر آپ کے رونق افروز ہونے سے قبل پورے علاقے پر استدراجی جوگی کا موجود اورقابض رہنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ آپ کی رائچور تشریف اوری سے پہلے اللہ کے کسی ولی کا یہاں آنا نہیں ہوا تھا بلکہ پہلے داعی اسلام کی حیثیت سے رائچور میں جلوہ افروز ہوئے۔

 رونق افروز رائچور:

دریائے کرشنا کو عبور فرما نے اور جوگی کو بھگا دینے کے بعد آپ نے وہاں قیام فرمایا جہاں اس مقام پر ایک زیارت گاہ ہے ۔جو موضع گرڈور میں واقع ہے وہاں بھی آپ نے کچھ دیر قیام فرمایا پھر وہاں سے چل کر اس مقام پر رونق افروز ہو ئے جہاں اب آپ کی بارگاہ ہے اس جگہ قیام فرمایا یہاں خانقاہ شمسیہ واقع ہے اور والد و مرشد کے دئے ہوئے تاڑ پھل زمین میں بوئے اور ان پر مغرب عشاء کا وضو فرمایا فجر سے پہلے ان میں کو نپلیں نکل آئیں اور دیکھتے وہ دونوں تن آور درخت بن گئے اس طرح رائچور آپ کا مقام ولایت و قطبیت بن گیا جسکی طرف والد و مرشد نے تاڑ پھلوں کی شکل میں نشاندی ہی فرمائی تھی اور آپ نے اس طرح 856ہجری سے رائچور میں قیام فرمایا ۔تاڑ کے وہ دونوں درخت 1300ہجری کے اوئل تک موجود تھے جو حضرت سید شاہ مصطفی حسینی سجادہ نشین 12 کے عہد سجادگی میں گر گئے جن کا بقیہ حضرت سجادہ نشین کہ پاس تبرکات میں موجود ہے ۔

دانتوں کی کرامت:

آپ کو رائچور تشریف لائے ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ بہمنی حکومت کے طرف سے مقررہ رائچور کہ حاکم کی بیوی کا گزر اس مقام سے ہوا جہاں آپ قیام فرماتے تھے ۔اس کی نظر آپ کے چہرہ انور پر پڑی تو وہ آپ کے حسن و جمال پر حیرت زدہ رہ گئی کہ آپ کو اللہ تعالی نے حسن یوسفی عطافرمایا تھا۔مگر آپ کے دو دندان مبارک لب ہائے مبارک سے کچھ باہر تھے جس کو اس عورت نے متسیوب سمجھا جس کی اسکویہ سزا ملی کے اس کی بتسیی جڑ سے نکل گئی اس سزا پر وہ پریشان ہو کر اپنے محل کو واپس ہوئی اور شوہر سے سارا واقعہ بیان کیا جس پر شوہر نے کہاں کے تو نے ایک ولی کامل اور قطب کی بارگاہ میں گستاخی کی ہے وہی تیری خطا معاف کریں تو تیری مشکل آسان ہوسکتی ہے ۔شوہر کی اس ہدایت پر وہ عورت اپنے شوہر کو ساتھ لئے ہوئے بارگاہ قطب رائچور میں حاضر ہوئی اور حضور کی بارگاہ میں معافی طلب کرنے لگی آپ نے اس کی اس ندامت پر فرمایا کہ ہم نے تیری خطا معاف کردی تو اپنے تمام دانت اپنے منہ میں ڈال لے اس نے جیسے ہی منہ میں ڈال لئے تمام دانت اپنی اپنی جگہ پر جم گئے ۔اس کرامت کو دیکھ کر ان دونوں نی حضرت قطب رائچور کی بیعت حاصل کیا اور وہ دونوں حاکم رائچور عبدالرحمان اور اس کی اہلیہ فاطمہ روضہ مبارک میں حضور کہ پائین میں مدفون ہے ۔

 مردہ زندہ ہوا:

ایک دن ایک لاولد عورت حضرت قطب رائچور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کے بے اولاد ہوں مجھے اللہ تعالی سے ایک بچہ دلائیے آپ نے اسے بچہ ہونے کی بشارت دی ۔

آپ کی خوش خبری کہ مطابق کس عورت کو بچہ ہی پیدا ہوا مگر یہ بچہ چند ماہ زندہ رہنے کے بعد مر گیا ماں پریشان ہوئی اور مردہ بچے کو لیئے ہوئے آپ کی خانقاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کے حضور میرے اس بچے کو میرے لیئے زندہ کر دیجئے ۔

اس کی آہ وزاری پر رحم فرماتے ہوئے حضرت قطب رائچور نے اس مردہ بچے سے فرمایا خم باذن اللہ آپ کی زبان مبارک سے ان کلمات کا نکلنا ہی تھا وہ بچہ زندہ ہوگیا (سبحان اللہ ) ۔۔

 جانشین کا تقرر:

 قطب رائچور حضرت سرکار شمسیہ قدس سرہ نے اپنے وصال مبارک سے کچھ عرصہ قبل اپنے حقیقی بھتیجے حضرت سید شاہ علی حسینی صاحبزادہ حضرت سیدشاہ نور عالم حسینی قدس سرہ کو (جن کا مزار گوگی شریف میں جالی مبارک میں جنوبی دروازہ سے متصل ہے) خلافت سے سرفراز فرما کر اپنا ولی عہد و جانشین مقرر کیا ۔اور آج تک سجادہ نشینی آپ کے برادرز ادوں میں تسلسل اور وراثت کے ساتھ قائم یے ۔

 اسلام کی اشاعت:

حضرت قطب رائچور قدس سرہ رائچور میں رونق افروز ہوتے ہی اسلام کی اشاعت کا مرکز بنتا گیا ۔اور کفل و شرک و بد مذہبی کا اندھیرا دور ہوکر رائچور اسلام کے جلوؤں سے منور ہوا ۔۔آپ کی کرامات کو دیکھ کر لوگ دور دراز سے آتے اور فیوض و برکات حاصل کرتے گئے یہی نہیں بلکہ اطراف و اکناف کے غیر مسلم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور ایمان و اسلام کی دولت لا زوال سے مالامال ہوتے گئے ۔آپ اس علاقے میں ایک داعی اسلام کی حیثیت سے تشریف لائے ۔رائچور میں آپ نے پوری 36سال اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں اسلام کی منور کرنین دور دور تک پھیلائیں اور اسلام کی اشاعت کا فریضہ انجام دیا ۔جس کو آپ کے ہر سجادہ نشین نے جاری رکھا ۔

 وصال مبارک:

قطب رائچور حضرت سیدشاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ بے شمار بندگان خدا کو فیوض و برکات سے نواز کر 15صفر 892ہجری میں محمود شاہ ثانی بہمنی کے دور حکومت میں وصال فرمایا ۔ولی عہد و جانشین اور آپ کے حقیقی بھتیجے حضرت سید شاہ علی حسینی قدس سرہ آپ کے پہلے سجادہ نشین ہوئے جو بلا شرکت غیر ے درگاہ شریف کہ نگران مقرر ہوئے ۔

 عرس شریف:

ہر سال 14صفر سے 16تک انتہائی دھوم دھام سے آپ کا عرس منایا جاتا ہے دکن کے مشہور و معروف اور بڑے عرسوں میں سے ایک عرس یہ بھی ہے جو تقریبا تین ہفتے جاری رہتا ہے ۔پندرہویں سفر کی شب میں حضرت سجادہ نشین قبلہ صندل مالی کی خدمت انجام دیتے ہیں ۔سقوط حیدرآباد سے قبل عرس شریف کا بے مثال اہتمام ہوتا تھا ۔نظام الملک آصفجاہ سادس نے اپنے ایک فرمان کے ذریعہ تعلقدار تحصیلدار اور دیگر اعلیٰ حکام کو بہ نفس نفیس صندل مالی میں شرکت لازمی کر دی تھی ۔صندل مالی کے عین وقت 21توپوں کی سلامی دی جاتی تھی جس کےپورے شہرکو معلوم ہو جاتا تھا کےاب صندل مالی انجام پارہی ہے ۔صندل کے جلوس میں اونٹوں گھوڑوں کا دستہ اور پولیس کی جمعیت شامل ہوتی تھی اور چراگاہ کے دن ایک دن سرکاری تعطیل عام ہوا کرتی تھی ۔اس دور میں بھی شایان شان عرس کی تقاریب منعقد ہوتی ہیں ۔ جو تقریبا تین ہفتے جاری رہتی ہیں ۔۔

امراض سے شفا یابی اور مشکلات سے نجات:

مختلف امراض کے شکار لوگ جب مختلف ڈاکٹروں اور اطباء کے علاج سے بھی لاعلاج رہ جاتے ہیں ۔اور مختلف مسائل اور مشکلات کے شکار افراد انہیں آپ کی بارگاہ میں مسلسل 11جمعرات حاضری کی ہدایت دی جاتی ہے ۔گیارہ جمعرات مکمل بھی نہیں ہوتے کہ وہ شفا اور مشکلات سے نجات حاصل کرتے ہیں اور زندگی بھر جمعرات کے عادی ہوجاتے ہیں ۔۔

نومولود بچوں کے دانتوں کا آسانی سے نکلنا:

نومولود بچوں کہ دانت آسانی سے نکلنے کیل ۓ عورتیں اپنا معروضہ اور منت حضرت قطب رائچور کی بارگاہ میں پیش کرتی ہیں اور حضور کی کرامت سے بچوں کے دانت بلاکسی تکلیف کے آسانی سے نکل آتے ہیں ۔جس پر حضور والا کے آستانے پر انارکی فاتحہ پیش کی جاتی ہے ۔دانتوں کی یہ کرامت حاکم رائچور کی بیوی کے دانت دوبارہ جما دینے کی کرامت کے بعد سے آج تک جاری ہے ہے۔

تازہ کرامات:

اخبار اقدام حیدرآباد 27جمادی الثانی 1372ہجری کی اشاعت میں قطب رائچور حضرت سیدشاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ کی ایک تازہ سنسنی خیز مظاہرے نے رائچور کے عوام کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ایک نوجوان نے تقریبا 3بجے درگاہ حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی میں گھس کر نزرانے کے ڈبے کی چوری کرنی چاہی اور صندوقچہ لینے جوں ہی آگے بڑھا ایک زوردار ٹھوکر کگی اور وہ زمین پر گر پڑا ۔اور غریبی مار سے وہ چیخنے چلانے لگا ۔اس کی آواز سن کر قریب ہی پولیس ہیڈ کوارٹر میں ہاکی کھیلنے والے سپاہی دوڑ تے ہوئے درگاہ میں پہنچے کیا دیکھتے ہیں کہ ڈبہ اس نوجوان کے ہاتھوں سمیت اس کے ہونٹوں سے چمٹ گیا ہے اور باوجود کوشش کے چھوٹنے کا نام نہیں لیتا ۔اس کرامت نے لوگوں کو دنگ کردیا اور حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی رحمتہ اللہ علیہ کے اس جلال سے لوگ گھبرائے ہوئے ہیں۔اس سزا کے بعدکے کہیں وہ ڈبہ منہ سے الگ ہوا لیکن وہ نوجوان بتایاجاتا ہے کہ پاگل ہوگیا ہے ۔

 تعمیرات درگاہ شریف:

قطب رائچور حضرت سیدشاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ رائچور کے وصال فرمانے پر رائچور کہ اس وقت کہ حاکم اور اسکی زوجہ (جس کے دانت حضور کی کرامت سے گرے اور پھر جڑ گئے تھے۔ انہوں نے مزار شریف کے اطراف کھلی چار دیواری تعمیر کروایا اسکے علاوہ انہوں نے خوبصورت مسجد مسجد کے شمال میں باولی اور مسجد کہ جنوب میں سرا تعمیر کرایا۔حضرت قطب رائچور کا مزار شریف رائچور کی آبادی سے دور واقع ہونے کی وجہ سے ایک عاصے تک وہاں مزید تعمیرات کی ضرورت نہیں پڑی مگر 1300ہجری کہ اوائل میں ہرزمانہ سجادگی سجادہ نشین 13حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی رحمتہ اللہ علیہ لب سڑک باب الداخلہ اور درگاہ شریف کے سامنے مزہبی مجالس منعقد کرنے کیلئےدرگاہ شریف کی اراضی میں سامنے عالم سرا کے نام سے ایک عمارت بنوائی ۔چونکہ حضرت قطب رائچور کے پہلے سجادہ نشین آپ کے برادرزادہ حضرت سید شاہ علی حسینی رحمتہ اللہ علیہ سے لے کر چودھویں سجادہ نشین حضرت سیدشاہ احمد حسینی صاحب تک تمام سجادگان گوگی شریف میں ہی مخیم رہا کرتے تھے اور سجادہ نشیں 15حضرت مولانا ابومحمد سید شاہ چندا حسینی صوفی اشرفی رحمتہ اللہ علیہ نے 21سال کی عمر میں سجادگی پر فائز ہونے کے بعد رائچور میں مستقل خیام کو ترجیح دی آپ کا دور سجادگی درگاہ شریف کی خدمت اور ترقی اور سلسلے اشرفیہ کے فروغ کیلئے ایک زرین دور تھا آپ نے سجادگی پر فائز ہوتے ہی سب سے پہلے درگاہ شریف کی تعمیرات کی طرف اولین توجہ فرمائی اور سب سے پہلے مزار حضرت قطب رائچور پر گنبد کی تعمیر کا کام شروع کیا اور اس چوکنڈی پر پانسو سال سے تھی پتھر کی خوبصورت مضبوط وسیع وعریض گنبد تعمیر فرمائی جس کا تعمیری سلسلہ 1363ہجری سے 1381ہجری تک جاری رہا اس تعمیر میں حضرت سجادہ نشین کے جان نثار معتقدین مُریدین وابستگان سلسلہ نے بڑھ چڑھ کرتعاون عمل کیا جسکی ممالیت آج کہ دور میں تقریبا ایک کروڑ ہوا سکتی ہے ۔حضرت سجادہ نشین 15کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک خانوادے کے تمام افراد کے لئے فخر یہ کارنامہ ہے جو حضرت قطب رائچور کئی بارگاہ میں خراج عقیدت ہے ۔گنبد اور چوکھنڈی مبارک کے مشرقی میں اشوک سندھے نے 1388میں خوبصورت ورانڈہ تعمیر کرایا اور لتاپر شاد کے تعمیر کر وہ باب الداخلہ کی کمان پرفا رونق انور کمپنی رائچور نے میناروں سے تزئین کی۔حاکم وقت کے تعمیر کر وہ سرا کو حضرت سجادہ نشین 15نے لنگر کھانے میں تبدیل کیا اور 1402ہجری میں اپنے وصال تک درگاہ شریف کہ احاطہ کی دیواروں صحن میں فرشی و غیرہ کام جاری رکھا ۔مگر آپ نے مسجد کی تعمیر کے لئےجو نقشہ موزوں فرمایا تھا اس نقشے پر سید اشرف رضا حسینی متولی جانشین 14ربیع الاول 1427ہجری کو تعمیر کا آغاز کیا اور21محرم 1429ہجری کو قدیم مسجد باقی رکھتے ہوئے خوبصورت وصی و کشادہ مسجد کی تعمیر مکمل کی اور ساتھ میں مسجد کے سامنے وہ دروہ حوض کا بھی دعوت نظارہ دیا ۔ (بشکریہ :کریم پاشاہ سہروردی قادری حفظہ اللہ )

 

 


حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری علیہ الرحمہ


 

سلطان المخدومین، زین الساجدین، برہان العاشقین، زبدة السالکین، تاج العارفین، والدِ مخدومِ جہاں، شہزادہء قطب زماں، نبیرء تاج الفقہا حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ عنا آپ علیہ الرحمہ نے وقت کے جلیل القدر، عظیم المرتبت، رفیع الدرجت، فقید المثال اور عدیم النظیر صوفی بزرگ گذرے ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ علیہ الرحمہ کا شمار آپ علیہ الرحمہ نے وقت کے عظیم صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ مذہب مہذب اسلام کے مخلص داعی، تصوف و روحانیت کے سچے مبلغ، علوم دینیہ کے اچھے مدرس، اولیا و صوفیہ کے لائق و فائق نقیب اور 'العلماء ورثة الانبیا' کے بہترین مصداق تھے۔ منیر شریف اور اس کے اطراف و اکناف میں آپ علیہ الرحمہ نے جو شمع اسلام روشن فرمائی ہے وہ اب تک درخشاں و تاباں ہے۔ دعوت و تبلیغ، تصوف و روحانیت اور رشد و ہدایت کے باب میں آپ علیہ الرحمہ کی خدمات کافی اہمیت کی متحمل ہیں۔ ذیل میں آپ علیہ الرحمہ کی حیات کے چند گوشوں پر مختصرا روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 ولادتِ باسعادت:

آپ علیہ الرحمہ کی ولادت 572ہجری  مطابق 1174ء کو بیت المقدس کے علاقے "الخلیل" (ہیبرون، فلسطین) میں ہوئی۔ جو یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور جو مغربی فلسطین کا سب سے بڑا اور دارالحکومت غزہ کے بعد پورے فلسطین کا سب سے بڑا شہر ہے۔

اسمِ گرامی :

آپ علیہ الرحمہ کا پورا نام حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحیی منیری سہروردی ہے۔

والدِ ماجد:

آپ علیہ الرحمہ کے والدِ گرامی حضرت مخدوم عماد الدین اسرائیل منیری بن امام محمد تاج فقیہ ہاشمی ہیں۔

جدِ کریم:

آپ علیہ الرحمہ کے دادا جان فاتحِ منیر، تاج الفقہا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی مُطَّلَبی ہیں، جن کا سلسلۂ نسب گیارہویں پشت پہ حضرت عبد اللہ بن زبیر بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ بشارتِ نبوی کے مطابق ہندستان میں تبلیغ اسلام کی خاطر آپ علیہ الرحمہ نے وطن عزیز بیت المقدس سے ہجرت کر کے منیر شریف تشریف لائے، اور یہاں کے ظالم راجا "منیر راے" سے جہاد کر کے اسے شکست فاش دی۔ پھر یہاں شمع اسلام روشن فرماکر آپ علیہ الرحمہ نی اولادوں کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر مفتوحہ علاقے سپرد فرماکر آپ علیہ الرحمہ نے وطن وآپ علیہ الرحمہ س ہو گئے۔

تعلیم و تربیت :

آپ علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم آپ علیہ الرحمہ کے گھر میں ہی آپ علیہ الرحمہ کے والدین کریمین کے زیر نگرانی ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم مصنف ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی رحمہ اللہ کے برادرِ محترم علامہ رکن الدین مرغینانی ثم منیری رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ہوئی۔ جو آپ علیہ الرحمہ کے دادا جان حضور فاتحِ منیر کے قافلے میں لشکر اسلام کے ہم راہ جذبۂ جہاد و تعلیم و تعلم و درس و تدریس لے کر آئے تھے، مزار مبارک منیر شریف کے قاضی محلہ میں مسجدِ رکن الدین کے سامنے واقع ہے۔ مزید تعلیم کے لیے آپ علیہ الرحمہ نے بغداد شریف کا رخ کیا اور وہاں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی سہروردی و حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی جیسے جید صوفیہ کے ہم راہ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی و خواجہ نجم الدین فردوسی جیسے اکابر صوفیہ کے پاس روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔

بیعت و خلافت :

 بیعت و خلافت آپ علیہ الرحمہ کو حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ جو حضرت خواجہ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رحمہ اللہ کے مرید و خلیفہ اور حضور غوث پاک محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فیض یافتہ و خرقۂ خلافت یافتہ ہیں۔

عقدِ مناکحت:

آپ علیہ الرحمہ علیہ الرحمہ کا نکاح تارک السلطنت حضرت مخدوم شہاب الدین پیر جگ جوت عظیم آبادی رحمہ اللہ کی دختر نیک اختر رابعۂ عصر ، ولیہ کاملہ حضرت بی بی رضیہ علیہا الرحمہ سے ہوا۔ جو کاشغر کی سلطنت کو چھوڑ کر اسلام کی دعوت و تبلیغ، ترویج و اشاعت ، خلقِ خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کی خاطرآپ علیہ الرحمہ نے وطن سے ہجرت کر کے ہندستان تشریف لائے تھے، بیعت و خلافت حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ سے حاصل ہے۔ آپ علیہ الرحمہ خود بھی ولیِ کامل تھے اور آپ علیہ الرحمہ کی صاحب زادی حضرت بی بی رضیہ بھی ولیہ کاملہ تھیں، جنہوں نے آپ علیہ الرحمہ نے صاحب زادے حضرت مخدومِ جہاں کو کبھی بھی بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا۔

اولادِ امجاد:

آپ علیہ الرحمہ کی اولاد میں چار صاحب زادے اور ایک صاحب زادی ہیں، جن میں مخدومِ جہاں حضرت شرف الدین احمد یحیی منیری رحمہ اللہ کو بے انتہا مقبولیت اور عالمی شہرت حاصل ہے۔

وصالِ پر ملال:

آپ علیہ الرحمہ کا وصال 11 شعبان المعظم 690ہجری /1291ء کو منیر شریف (پٹنہ، بہار) میں ہوا اور وہیں بڑی درگاہ میں آپ علیہ الرحمہ کا مزارِ مبارک ہے۔ ہر سال 10،11،12 شعبان المعظم کو آپ علیہ الرحمہ کا عرس سراپا ا قدس انتہائی تزک و احتشام اور صوفیانہ طرز و روش پر منعقد کیا جاتا ہے۔(مصادر و مراجع: مناقب الاصفیا، وسیلۂ شرف وذریعۂ دولت، تاریخ سلسلۂ فردوسیہ، آثار منیر، مرآت)