دبستان اردو کے پہلے
ادیب و مصنف
حضرت مخدوم اشرف
جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی علمی خدمات
اردو زبان کی ابتداء و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں لیکن ان تمام نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ اردو کی بنیاد برصغیر ہندوپاک میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی. بہر طور اردو زبان کی ابتداءکے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداءمسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اردو زبان کی ابتداء چاہے جب اور جس علاقے میں ہوئی ہو لیکن ایک بات مسلم ہے کہ اس کی نشو و نما میں خانقاہی ادارے خاص طور سے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ جہاں کے صوفی معاشرہ میں ہر طرح کے لوگوں کی اخلاقی تربیت ہوتی ہے اس میں مذہب ، ذات پات اور طبقات کا فرق حائل نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے ایک موقع پر یہ شعر کہا ہے :
بندہ و صاحب و محتاج و
غنی ایک ہوئے
تری سرکار میں پہنچے تو
سبھی ایک ہوئے
ایک ہی صف میں کھڑے
ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
اردو زبان کےتشکیلی عہد
میں صوفیاء کی جو لسانی خدمات رہی ہیں اس سے ہر گزانکار نہیں کیا جا سکتا،اس ضمن
میں جن صوفیاء کو سب سے زیادہ اعتبار حاصل ہے ان میں خواجہ معین الدین چشتی قد
س سرہ النورانی: (متوفی 1235ء)خواجہ فرید الدین گنج شکر قد
س سرہ النورانی : (متوفی 1265ء)شیخ شرف الدین بو علی قلندر قد
س سرہ النورانی (متوفی 1323ء) امیر خسرو قد
س سرہ النورانی:(متوفی 1324ء)شیخ برہان الدین غریب قد
س سرہ النورانی: (متوفی1338ء)شیخ سراج الدین اخی سراج قد
س سرہ النورانی (متوفی 1365) اور شیخ شرف الدین یحیی منیری قد
س سرہ النورانی (متوفی 1370) شیخ عین الدین گنج العلم قد
س سرہ النورانی (متوفی1393) حاجی رومی قد
س سرہ النورانی (متوفی555ھ)سید شاہ مومن عارف اللہ قد
س سرہ النورانی (متوفی 597ھ)بابا مظہر طبل عالم قد
س سرہ النورانی (متوفی 662ھ)شاہ جلال الدین گنج رواں قد
س سرہ النورانی (متوفی 644ھ) سید احمد اکبر جہاں قلندر قد
س سرہ النورانی (متوفی659ھ)شاہ علی پہلوان قد
س سرہ النورانی (متوفی 672ھ)شاہ حسام الدین قد
س سرہ النورانی (680ھ)صوفی سرمست قد س سرہ النورانی (متوفی 680ھ)بابا شرف
الدین قد س سرہ النورانی (متوفی 687ھ) بابا شہاب
الدین قد س سرہ النورانی (متوفی 691ھ) بابا فخر
الدین قد س سرہ النورانی (694ھ) سید اعزالدین
حسینی قد س سرہ النورانی (متوفی 699ھ)شیخ
نورالحق پنڈوی قد س سرہ النورانی متوفی (813ھ) حضرت قطب
عالم قد س سرہ النورانی (ولادت790ھ ،وفات
850ھ) حضرت شاہ عالم قد س سرہ النورانی (ولادت
817ھ،وفات880ھ)شیخ بہاو الدین باجن قد
س سرہ النورانی (وفات 912ھ)سلطان شاہ غزنی قد
س سرہ النورانی (وفات 922ھ) شاہ علی جیو گام دھنی قد
س سرہ النورانی (وفات 972ھ) میاں خوب محمد چشتی (وفات 1023ھ)شاہ وجیہہ الدین علوی
(وفات 998ھ) سید شاہ ہاشم علوی (وفات 1059ھ) خواجہ بندہ نواز گیسو دراز:(متوفی
1422ء)برہان الدین قطب عالم: (متوفی 1453ء)سراج الدین ابوالبرکات شاہ عالم :(متوفی
1475ء)شاہ صدر الدین :(متوفی 1471ء)شاہ میراں جی شمس العشاق : (متوفی 1496ء)سید
محمد جونپوری : (متوفی 1504ء)قاضی محمود دریائی : (متوفی 1534ء)شیخ عبدالقدوس
گنگوہی : (متوفی 1538ء)شیخ برہان الدین جانم : (متوفی 1582ء)شاہ حسین : (متوفی
1599ء)عبدالرحیم خان خاناں : (متوفی 1626ء)سلطان سخی باہو : (متوفی 1690ء)بلھے شاہ
قادری : (متوفی 1787ء) وغیرہ جیسے سینکڑوں صوفیاء شامل ہیں۔ان تمام اکابر صوفیاء
کی جو لسانی خدمات ہیں اس نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان اس ملک کے کونے
کونے تک پھیلا یا اور عوام کو اس زبان سے اتنا قریب کر دیا کہ یہ ایک بولی سے زبان
کی صورت اختیار کرتی چلی گئی۔ (ماخوذ:اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیا ئے
کرام کا کام، مولوی عبدالحق/اردو کا ابتدائی زمانہ)
بقول انور سدید: درویشان ہند نے اپنے باطن کی
روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت واپنائیت
کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلم بادشاہان ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجود پیدا نہ کر
سکے۔ ہم زبانی کے اس عمل نے اردو زبان کی ابتدائی نشو نما کو گراں قدر فائدہ
پہنچایا۔”(اردو کا ابتدائی زمانہ ص:69)
اردو زبان کی ابتدائی
تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے فروغ میں صوفیائے کرام کا نمایاں کردار
رہا ہے زبان کے تشکیلی مراحل سے اس کی ترقی تک صوفیا کرام کے مختلف سلسلوں نے اس
کو اختیار کیا اور اس سے قربت کا محرک بنے۔ اگرچہ صوفیا کرام کا اصل مقصد تبلیغ و
اصلاح تھامگر بندگان خدا تک ترسیل و ابلاغ کے ایک ذریعے کے طور پر انھوں نے اس
زبان کو اختیار کیا۔ کچھ تو ان کا خلوص اور جدوجہد اور کچھ اردو زبان کا عوامی
لہجہ دونوں نے مل کر ایک دوسرے کو تقویت بخشی۔ واقعہ یہ ہے کہ صوفیائے کرام ایک
ایسی دنیا کی تعمیر میں منہمک تھے جہاں دنیا داری کا شائبہ تک نہیں تھا بلکہ ایثار
و اخلاص کی کارفرمائی تھی۔ اثیارواخلاص کے اسی ماحول میں اردو زبان نے اپنا
سفرشروع کیا ۔لیکن تاریخ کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری تاریخ کے وہ
ابواب جہاں جہاں مذہبی رجحانات کی کارفرمائی رہی ہے ہمارے ادبی مورخوں نے دیدہ و
دانستہ اسے نظر انداز کردیا گیا ہے۔ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر اس حقیقت
کے اعتراف میں کیا تردد ہے کہ اردو کے فروغ اور اس کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیا
اور صوفیانہ افکار کا غیر معمولی کردار رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو زبان
صوفیاء کی گود میں پلی اور خانقاہوں میں پروان چڑھی اس زبان میں جو شیرینی اور
حلاوت ہے وہ انھیں بزرگوں کا فیضان ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ جہاں بانی اور
کشور صرف شہنشاہوں کا کام نہیں۔ تلواروں کی جھنکار حکومتوں کو زیر نگیں کرسکتی ہے
مگر دلوں پر حکمرانی کا اصول ہی نرالا ہے زندگی کے مختلف میدانوں میں صوفیااسی
اصول پر کار بند رہے۔ وہ خواہ علم و ادب کا میدان رہا ہو یا سلوک و معرفت کا۔
انھوں نے عشق کی وارفتگی اور جنوں کے پیرہن کے ساتھ دنیائے علم وادب پر جو اثرات
مرتب کیے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ صوفیا کے حکیمانہ جمال کے سامنے بادشاہوں کا
جاہ وجلال بھی نہیں ٹھہر سکا۔ انجذاب و انقیاد اور اخلاص و ایثار کا جو خمار ان
بزرگوں کے عمل میں نظر آتا ہے اس کی مکمّل جھلک ان کی تحریروں میں بھی ملتی ہے۔
قلم کا رخ طویل بحث کی طرف مڑ گیا ہے جس کی یہاں قطعاً گنجائش نہیں اس کے لئے ایک
دفتر درکار ہے انشاءاللہ پھر کبھی اس موضوع پر گفتگو کی جائے گی اس وقت مجھے اپنے
مضمون کے مرکزی پہلو کو اجاگر کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ اردو زبان کی خدمات کے
حوالے سے گروہِ صوفیاء میں ایک ایسا نام ہے جس کے بغیر اردو زبان کی تشکیلی تاریخ
کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وہ مبارک نام ہے غوث العالم محبوب یزدانی سلطان حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی قد س سرہ النورانی کا جنہیں دبستانِ اردو کا پہلا ادیب و مصنف بھی
کہا جاتا ہے پہاں پر ہم اس عظیم المرتبت شخصیت کے احوال وخدمات کے چند نقوش کو
مختصراً قلمبند کرنا چاہیں گے تاکہ مضمون موضوع کے مطابق ہوسکے۔
ولادت اور تعلیم و تربیت: آٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف بزرگ سلسلۂِ اشرفیہ کے بانی غوث
العالم محبوب یزدانی تارک السلطنت سلطان مخدوم میر اوحد الدین سید اشرف جہانگیر
سمنانی رحمۃاللہ علیہ سمنان کے صوبہ خراسان کے دار السلطنت سمنان میں سن707ھ بقول
دیگر 712ھ میں شہنشاہِ وقت ولیِ کامل سلطان حضرت ابراہیم السامانی نوربخشی علیہ الرحمہ کے گھر پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اپنے
والد ماجد سے حاصل کی سات برس کی عمر میں قرأت سبعہ کے ساتھ قرآن کریم حفظ کیا
چودہ برس کی عمرمیں تمام علوم متداولہ سے فارغ التحصیل ہوکر سند فراغت حاصل کرلیا۔
تخت نشینی اور ترک سلطنت : جب آپ عمر کی پندرہویں بہار میں داخل ہوئے تو تو والد گرامی کا وصال
ہوگیا سمنان کے بادشاہ بن گئے۔آپ علیہ الرحمہ کے دور حکومت میں سمنان عدل و انصاف اور
علم و فن کا مرکز بن گیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ کے
ذریعہ مخلوق کے رشدوہدایت کا کام لینا تھا اسی لئے آپ کا دل امور سلطنت سے اچاٹ
ہونے لگا اور راہ سلوک و معرفت کی طرف طبیعت مائل رہنے لگی۔ حضرت شیخ رکن الدین
علاء الدین سمنانی متوفی ۷۳۶ھ شیخ عبدالرزاق کاشی،
امام عبداللہ یافعی، سید علی ہمدانی ، شیخ عمادالدین تبریزی اور دیگر اکابر صوفیاء
و مشائخ سے علوم شریعت اور عرفان طریقت سے بہرہ مند ہوئے۔(لطائف اشرفی ۱ص۲۰)
بالآخر آپ نے 25 سال کی
عمر میں رمضان المبارک کی ۲۷ویں شب میں سلطنت کو
ٹھوکر ماردیا حضرت خضر علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور فرمایا :اشرف اب وقت آگیا ہے سمنان چھوڑ کر ہندوستان جاؤ تمہارے مرشد شیخ علاء
الحق گنج نبات پنڈوی علیہ الرحمہ تمہارا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔آپ نے اپنی والدہ سے
سفر کی اجازت طلب کی اور سلطنت اپنے چھوٹے بھائی سید محمد اعرف کے سپرد کرکے
ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے۔ ہندوستان کے مشہور ہندی وفارسی ادیب پدماوت کے مصنف
ملک محمد جائسی (مرید حضرت شاہ بودلے اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ متوفی
(1542-1477) جائس شریف حال ضلع امیٹھی اتر پردیش کاقول ہے : امت محمدیہ کے صدقین
میں دو شخص ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام اولیاء پر فضیلت رکھتے ہیں ایک سلطان
التارکین خواجہ ابراہیم بن ادہم،دوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ
علیہما ۔ (صحائف اشرفی ۱۱۳)
حضرت مخدوم پاک علیہ
الرحمہ،شہر سمنان سے نکل کر سمرقند کے راستے ملتان میں اوچھ شریف پہنچے۔ یہ مقام
اس وقت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۷۸۰ ھ کے روحانی تصرفات و
رشد و ہدایت کا مرکز بنا ہوا تھا حضرت مخدوم سمنانی حضرت مخدوم جہاں قد س سرہ
النورانی کی خانقاہ میں تین روز تک مہمان رہے۔ خود حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ
کا بیان ہے کہ حضرت مخدوم جہاں نے آپ کو اکابر مشائخ سے حاصل ہونے والے تمام
روحانی فیوض وبرکات اور سلسلہ قادریہ کی اجازت و خلافت سے نوازا۔(خزینۃ الاصفیان ج۲ص۵۷تا۶۳)
حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ
النورانی دہلی ہوتے ہوئے بہار (منیر شری)ف
پہنچے وہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحیٰ مَنِیرِی علیہ الرحمۃ(661ہجری-783ہجری) کی
نماز جنازہ تیار تھا آپ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
بنگال آمد اور اشرف جہانگیر کا خطاب: بہار شریف سے
بنگال پہنچے۔ صوبہ بنگال میں ضلع مالدہ میں مقام پنڈوہ شریف کا مرکز حضرت شیخ علاء
الحق والدین لاہوری خالدی قد س سرہ رشد و
ہدایت بنا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ کی آمد کی خبر پہلے ہی متعدد بار
حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت شیخ علاء الحق کو دے دی تھی۔ حضرت شیخ علاء الحق
پنڈوی نے شاہانہ انداز میں حضرت مخدوم سمنانی کا استقبال کیا اور بکمالِ
اعزاز،انہیں اپنی خانقاہ میں لائے۔ حضرت شیخ نے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں مرید
فرمایا اور دیگر سلاسل کی اجازت و خلافت سے نوازا۔ مخدوم سمنانی حضرت شیخ کی خدمت
میں رہ کر کثیر مجاہدات و ریاضیات کے ذریعہ منازل سلوک و معرفت کی تکمیل فرمائی۔
ایک روز شیخ کی خانقاہ میں مجاہدہ میں مشغول تھے۔ اسی وقت درودیوار سے یہ غیبی
آواز آنے لگی ’’اشرف جہانگیر ، اشرف جہانگیر‘‘ حضرت شیخ نے مسرت کا
اظہار فرمایا اور اشارہ غیبی سے یہ معزز خطاب حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ کو عطا فرمایا۔(مرأۃ الاسرار ،ص۱۰۴۶)
صاحبِ لطائف
اشرفی،خلیفہ مخدوم سمنانی ،حضرت نظام الدین یمنی علیہما الرحمہ نے لکھا ہے کہ حضرت
مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ نے راہ سلوک میں ۳۰؍ سال سیر و سیاحت کی
اور ۵۰۰؍ سو اولیاء ومشائخ وقت سے علوم معرفت و فیوض و
برکات حاصل کئے. تکمیل سلوک کے بعد اپنے شیخ کے حکم سے مخدوم سمنانی رشد وہدایت کے
لئے بنگال سے مختلف بلاد وامصار کا گشت کرتے ہوئے شیراز ہند جونپوراور بنارس کے
راستے سے کچھوچھہ پہونچے جواس وقت یوپی کے ضلع جونپور میں تھا اور اب ضلع
امبیڈکرنگر میں ہے۔ جونپور میں ان دنوں سلطان ابراہیم شرقی کی حکومت تھی اور سلطان
کی علماء نوازی و مشائخ دوستی کی بنیاد پر جونپورعلماء و مشائخ کا مرکز بنا ہوا
تھا۔ حضرت مخدوم جونپور پہنچے تو وہاں پر سلطان ابراہیم شرقی اور علامہ قاضی شہاب الدین
دولت آبادی اور دیگر علماء و مشائخ نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا اور کثیر
تعداد میں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ خود سلطان آپ کا معتقد ہوا اور اپنے
اہل خانہ کو آپ سے مرید کروادیا۔ قاضی شہاب الدین دولت آبادی مخدوم سمنانی علیہ
الرحمہ کے علم و معرفت سے حد درجہ متاثر ہوئے اور آپ کے معتقد ہوگئے قاضی صاحب کا
بعض مسائل میں حضرت مخدوم سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔ (صحائف اشرفی ج۱،ص۶۰تا۷۵)
کثیر تعداد میں غیر
مسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور گمراہوں و فاسقوں نے اپنی گمراہی و
فسق و فجور سے توبہ کی۔
ایک زندۂِ جاوید کرامت: ایک مرتبہ بنارس میں ہندوپنڈتوں سے آپ کا مباحثہ ہوا انہوں نے آپ
سے دین اسلام کی حقانیت پر دلیل طلب کی، سامنے بت خانہ تھا اور لوگ پوجا میں مصروف
تھے۔ آپ نے فرمایا : جس دین کا کلمہ میں پڑھتا ہوں اس کی حقانیت کی گواہی اگر
تمہارے بت خود دے دیں تو؟ انہوں نے کہا:اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟
حضرت مخدوم سمنانی علیہ
الرحمہ نے ایک بت کو مخاطب کرکے کلمہ اسلام پڑھنے کو کہا تو وہ بت زندہ ہوگیا اور
آپ کے ساتھ کلمہ پڑھنے لگا۔ آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر اور اس کی شہرت سن کر اسی
دن ایک لاکھ ہندو مسلمان ہوئے ۔ مقام کچھوچھہ جہاں پر آپ کا مزار پر انور ہے۔پہلے
وہاں ایک بہت بڑا جوگی(جادوگر) اپنے پانچ سو تربیت یافتہ چیلوں کے ساتھ رہا کرتا
تھا۔ آپ کی بزرگی و کرامات سے متاثر ہو کر ان تمام کے تمام جادوگرآپ کے دست حق
پرست پر اسلام قبول کئے۔ اس جیسے بے شمار کرامتوں کے ذریعہ آپ نے لوگوں کو دائرہ
اسلام میں داخل فرمایا اور لاکھوں مسلمانوں کو داخل سلسلہ کر کے ان کی اصلاح و تزکیہ
نفس کا سامان مہیا فرمایا۔
حضرت سیداشرف جہانگیر
سمنانی کچھوچھوی اپنے پیر ومرشد حضرت مخدوم العالم شیخ علاؤالحق الدین گنج نبات
لاہوری خالدی قد س سرہ کے حکم پر تبلیغ دین کی غرض سےپوری
دنیا کی سیاحت کی اور اس دوران لاکھوں انسانوں کو راہ ہداہت دکھائی ۔
آپ نے اس سلسلے میں صرت
تقریر پر ہی اکتفا ن نہیں کیا بلکہ تحریری کام بھی جاری رکھا۔
سید اشرف جہانگیر سمنانی
اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور برگزیدہ صوفی کے علاوہ صاحب تصانیف کثیرہ بزرگ
بھی تھے آپ بیک وقت مصنف ، مؤلف، مترجم،مفسر، مجدد، مصلح، محدث، فقیہ، محشی، مؤرخ،
مفکر،نعت گوشاعر، منجم اور شارح تھے۔ تمام مروجہ علوم و فنون میں کامل مہارت اور
ید طولیٰ رکھتے تھے. محبوب ربانی ہم شبیہ غوث صمدانی حضرت سید شاہ ابواحمد محمد
علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی اپنی مشہور ومعروف
کتاب صحائف اشرفی میں لطائف اشرفی کے حوالے سے رقمطراز ہیں: حضرت محبوب یزدانی کا
علم عجیب خداداد علم تھا کہ روئے زمین میں جہاں تشریف لے گئے وہیں کی زبان میں وعظ
فرماتے اور اسی زبان میں کتاب تصنیف کرکے وہاں کے لوگوں کے لئے چھوڑ آتے بہت سی
کتابیں آپ نے عربی ، فارسی ، سوری، زنگی، اور ترکی مختلف ملک کی زبانوں میں تصنیف
فرمائیں جن کی فہرست اگر لکھی جائے تو ایک طومار ہو جائے گی۔ علماء جلیل القدر کا یہ
قول ہے کہ جس قدر حضرت محبوب یزدانی علیہ الرحمہ نے تصانيف فرمائیں بہت کم
علماء اس قدر تصانیف کثیرہ کے مالک ہوئے ہوں گے۔ حضرت سلطا ن سید اشرف
جہانگیر سمنانی قد س سرہ النورانی خود فرماتے تھے کہ میری سلطنت میں میرے خاندان
سادات نوربخشیہ سے ستر حافظ قرآن اور قاری فرقان ایک زمانے میں موجود تھے۔ سبحان
اللہ کیا شان ہے حضرت محبوب یزدانی کی کہ پانچ پشتوں میں سلطان ابن سلطان، سید ابن
سید، ولی ابن ولی، حافظ ابن حافظ، قاری ابن قاری اور عالم ابن عالم برابر نسلاً
بعد نسلاٍ حضرت تک ہوتے چلے آئے۔
علمی آثار: آپ کی چند معروف کتب کے
اسماء درج ذیل ہیں: (1) ترجمہ قرآن کریم ( بزبان فارسی)(2)رسالہ مناقب: اصحاب
کاملین و مراتب خلفائے راشدین (3) رسالہ غوثیہ (4) بشارۃ الاخوان (5) ارشاد
الاخوان(6) فوایدالاشرف (7) اشرف الفوائد (8) رسالہ بحث وحدۃ الوجود (9) تحقیقات
عشق (10) مکتوبات اشرفی (11) شرف الانساب (12) مناقب السادات(13) فتاوائے اشرفی
(14) دیوان اشرف (14) رسالہ تصوف و اخلاق (بزبان اردو)(15) رسالہ حجۃ الذاکرین
(16) بشارۃ المریدین (17) کنزالاسرار (18) لطائف اشرفی(ملفوظات)(19) شرح
سکندرنامہ(20) سرالاسرار (21)شرح عوارف المعارف (22) شرح فصول الحکم (23) قواعد
العقائد (24) تنبیہ الاخوان(25) رسالہ مصطلحات تصوف(26) تفسیر نور بخشیہ (27)
رسالہ در تجویز طعنہ یزید(28) بحرالحقائق (29) نحو اشرفیہ (30) کنزالدقائق(31)
ذکراسمائے الہی (32) مرقومات اشرفی(33) بحرالاذکار(34) بشارۃ الذاکرین (35) ربح
سامانی (36) رسالہ قبریہ (37) رقعات اشرفی(38) تسخیرکواکب (39) فصول اشرفی (40)
شرح ہدایہ (فقہ)(41) حاشیہ بر حواشی مبارک
(حوالاجات:معارف سلسلہ
اشرفیہ ص11،حیات غوث العالم ص74 تا 77، صحائف اشرفی حصہ اول 115 تا 118،سید اشرف
جہانگیر سمنانی علمی دینی اور روحانی خدمات صفحہ 173 تا 206)
مخدوم اشرف جہانگیر
سمنانی صرف عربی و فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اردو زبان کے تشکیلی عہد
کے میر کارواں تھے جنہیں کچھ ماہرین لسانیات نے دبستانِ اردو کا سب سے پہلا مصنف و
ادیب بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابو
اللیث صدیقی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ آپ کا ایک رسالہ (جسے ہم نے فہرست
کتب میں چودھویں نمبر پر شمار کرایا ہے) اردو نثر میں ’’ اخلاق و تصوف‘‘ بھی ہے جو
باضابطہ اردو نثر کی پہلی تصنیف ہے۔ پروفیسر حامد حسن قادری کی تحقیق بھی یہی ہے
کہ اردو
میں سب سے پہلی نثری تصنیف سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃاللہ علیہ کا رسالہ
’’اخلاق و تصوف‘‘ ہے جو 758ھ مطابق 1308 ء میں تصنیف کیا گیا۔ در اصل یہ قلمی نسخہ
جو ایک بزرگ مولانا سید وجہہ الدین کے ارشادات پر مشتمل ہے اور اس کے 28 صفحات
ہیں۔ پروفیسر سید حامد حسن قادری صاحب نے اپنی تحقیق انیق سے یہ بھی ثابت کیا ہے
کہ مذکورہ رسالہ اردو نثر ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی پہلی کتاب ہے اردو نثر میں اس
سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں پس محققین کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ سید اشرف جہانگیر
سمنانی اردو نثر نگاری کے پہلے ادیب و مصنف ہیں قادری صاحب نے اپنی کتاب داستان
تاریخ اردو میں یہاں تک تحریر فرمایا ہے کہ : حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی
کتب میں ایک کتاب "اخلاق و تصوف بزبان اردو بھی ہے محققین کے مطابق یہی اردو
نثر کا پہلا رسالہ ہے اب تک کی تحقیق متفق الرائے تھی کہ شمالی ہند میں اٹھاریوں
صدری عیسوی /بارہویں صدی ہجری سے پہلے تصنیف و تالیف و نثر کا کوئی وجود نہ تھا یہ
فخر دکن کو حاصل ہے کہ وہاں شمالی ہند سے چارسو برس پہلے اردو کی تصانیف کا آغاز
ہوا لیکن اب سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کے رسالہ تصوف کی دریافت سے وہ نظریہ
باطل ہوگیا اور یہ ثابت ہوگیا کہ دکن میں اردو زبان کی بنیاد پڑنے سے پہلے شمالی
ہند دکن میں امیرخسرؔو اور سید اشرف جہانگیر سمنانی نے نظم ونثر کی بنیاد ڈالی۔( داستان تاریخ اردو ص
24)
مذکورہ بالا شواہد سے
یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی قدس سرہٗ
النورانی صرف ایک روحانی شخصیت ہی کے مالک نہیں تھے بلکہ علمی وادبی میدان میں بھی
منفرد مقام رکھتے تھے۔ آپ نے جہاں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں اہم کردار اداکیا ہے
وہیں علمی وادبی لحاظ سے بھی عظیم خدمات انجام دیں اور تاریخ کا ایک حصہ بن گئے
لیکن افسو س کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس عظیم شخصیت پر وہ تحقیقی
کام نہ ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا اگرچہ مختلف حضرات نے آ پ کی سیرت پر لکھا لیکن
صرف کشف و کرامات ہی پر اکتفا کیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ آپ کو صرف ایک
ولی کامل کی حیثیت سے ہی جانتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوا کہ آپ کی شخصیت کا ادبی
پہلو پردۂ خفا میں رہ گیا ضرورت اس بات کی ہے کہ کشف وکرامات کے ساتھ ساتھ آپ کی
شخصیت کے ادبی و علمی پہلو کو بھی اجاگر کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں آپ کی جامع
الکمالات شخصیت سے کماحقہ آشنا ہوسکیں۔
وصال:حضرت مخدوم اشرف
جہانگیر سمنانی رحمۃاللہ علیہ نے۲۸محرم الحرام ۸۰۸ھ کو داعئ اجل کو لبیک
کہا ۔ آپ کا مزار پر انوار کچھوچھہ مقدسہ ضلع امبیڈکرنگر یوپی میں ہے آپ کی ذات
اقدس سے آج تک خلق خدا مستفیض و مستنیر ہورہی ہے ہرسال ماہ محرم کے آخری عشرہ میں
27 1ور 28 تاریخ کو تقریبات عرس نہایت ہی احترام و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے
جس میں لاکھوں مریدین و زائرین شرکت فرماتے ہیں۔ مولیٰ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو
مخدومی فیضان سے مالا مال فرمائے۔
تحریر: محمد ہاشم اعظمی
مصباحی نوادہ مبارکپور اعظم گڑھ یو پی 9839171719