حضرت
سلطان الاولیاء درۃ تاج الاصفیاء عمدۃ الکاملین زبدۃ الواصلین، عین
عیون محققین، وارث علوم انبیاء و مرسلین تارک السلطنت غوث العالم محبوب
یزدانی سلطان اوحدالدین قدوۃ الکبریٰ مخدوم سیداشرف جہانیاں جہانگیر
سمنانی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:۔
ایمان
و توحید کے بعد بندہ پر سب سے پہلے عقائد حقہ شریعہ کا جاننا فرض ہے۔
حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب و نسب کے علم حاصل کرنا شریف ترین عمل ہے اور
آپ کے اجداد میں سے چار جدوں کے نام یاد ہونا مسلمان ہونے کی شرط ہے۔
علم حاصل
کرو کہ زاہد بے علم شیطان کا تابعدار ہوتاہے اور عابد بے فقہ کمہار کے گدھوں
کی طرح۔
علم
ایک چمکتا ہو اآفتاب ہے اور تمام ہنر اس کی شعائیں ہیں۔
خدا
کا دوست جاہل نہیں ہوتا۔
عالم بے
عمل ایساہے جیسے بے قلعی کا آئینہ ۔
عالم
دین اورعالم دنیا میں فرق وہی ہے جو کھرے اورکھوٹے چاندی میں ہوتاہے۔
جاننا
شریعت ہے ، جاننے کے مطابق عمل کرنا طریقت ہے اور دونوں کے مقصود ہوتو ان کا حاصل
کرنا حقیقت ہے۔
جو
شخص بے محل علمی گفتگو کرتا ہے تو اسکے کلام کے نور کا دو حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔
اگر
کوئی جان لے کہ اب اسکی زندگی میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گئے تو چاہیئے کہ علم فقہ
میں مشغول ہوجائے کیونکہ علوم دین سے ایک مسئلہ جان لینا ہزار رکعت سے افضل ہے۔
کسی
کو حقارت سے نہ دیکھو اس لئے کہ بہت سے خداکے دوست اس میں چھپے رہتے ہیں ۔
سلوک
میں اگربارگاہ نبوی و سرکارمصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری واطاعت کے
راستے سے کچھ بھی انحراف ہو تو منزل مقصود تک پہونچنا ممکن نہیں ۔
بند
وں کے دل میں اللہ کی محبت پیدا کرنا اور ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی دوستی میں
مستغرق کرنا مشائخ طریقت کا کام ہے۔
پیر
وہ ہونا چاہیئے کہ طالبان طریقت و سلوک کی ایک جماعت نے اس کی تربیت کی پناہ میں
اور احباب اس کی درگاہ حمایت میں اپنے مقصود کو پہونچی ہو۔
ولی
وہ ہے جس کا دل حق سبحانہ وتعالیٰ سے انس رکھےاور غیرحق سے متواحش اور گریزاں ہو ۔
شرط
ولی یہ ہے کہ گناہوں سے محفوظ ہو جس طرح نبی کی شرط یہ ہے کہ معصوم ہواور جس
کسی پر بھی ازراہ شریعت اعتراض ہو پس وہ مغرور اور فریب خوردہ ہے ولی
نہیں ہے۔
ہر
بزرگ کی کوئی بات یاد کرلو اگریہ نہ ہوسکے تو ان کے نام ہی یاد کرلو کہ اس سے نفع
پاؤگے۔
اگر
علم کا چراغ ولی کے دل میں نہ ہو تو اسے شر کی خبر نہیں ہوسکتی اور وہ صحرائے ظلمت
اور دشت کدورت میں مارا مارا پھرتا رہےگا۔
صالحین کا
ذکر اورعارفین کا تذکرہ ایک نور ہےجو ہدایت طلب کرنے والوں پر ضوء فگن رہتاہے۔
شیخ طبیب
حاذق اور تجربہ کارحکیم کی طرح ہے جو ہر مریض کا علاج اور اس کی دوا اس کے مزاج کے
مطابق تجویز کرتاہے۔
جس
شخص کا قدم شریعت میں جم جائے گا طریقت کا راستہ خودبخود کھل جائے گا اور جب شریعت
کے ساتھ طریقت حاصل ہوجائے گی تو حقیقت کی تجلی خود بخود رونما ہوجائے گی۔
صوفی
وہ ہے جو صفات الہیہ سے سوائے صفت وجوب (وجب الوجود) اور قدم موصوف ہو۔
اگر
کسی صوفی کو دیکھو اور وہ تمہاری نظر میں نہ جچے تو اس کو ذلیل نہ سمجھوکہ یہ
محرومی اورحجاب کی دلیل ہے۔
حسن خلق
اس بلند پایہ گروہ یعنی صوفیہ کی خاص خصلت ہے جو انہیں ہی زیب دیتی ہے کہ یہ حق کے
زیور اور کلام کے لباس سےروشن ہوتےہیں تمام اقوال وافعال میں صوفی کی نظر چونکہ حق
تعالیٰ پر ہوتی ہے۔ اس لئے لازم آتاہے کہ وہ تمام مخلوق سے خوش اخلاق کا برتاؤ
کرے۔ اگر شریعت کےمطابق کسی محل پر سختی درکارہے تو سختی کرے ، لیکن باطن کے مطابق
اسی وقت اللہ سےمغفرت طلب کرے۔
شیخ
کے لئے ضروری ہے کہ وہ مرید کے احوال سے واقف ہو ، ترک دنیا اور تنہائی کے
علوم کا عالم ہو تاکہ اس کی خیر خواہی کرسکے اور مرید کو راہ راست
دکھا سکے۔ اس کے حال کے مناسب اس کو اس راہ کے خطرات اور فسادات سے آگاہ کرسکے ۔
اگر شیخ اس اوصاف مذکورہ سے متصف نہیں ہوگا تو اس کی پیروی کرنا کس طرح جائز
ہوسکتاہے۔ اور ان سے کلاہ حاصل کرنا کس طرح روا ہوسکتا ہے۔
مرید
کے لئے ایک شیخ کامل ضروری ہے جس کی اقتداء کی جائے کیونکہ وہ رفیق سفر ہے
اور جا ن لو کہ اس امر کے لئے کسوٹی اور معیار ہے اور وہ قرآن و حدیث و اجماع امت
با ایمان ہے تو جو معیار کے موافق ہوا اور کسوٹی سے کھرا اور آمیزش سے صاف
نکلا تو وہ ٹھیک ہے اور جو اس کے خلاف ہوا وہ فاسد اور بے کار ہے۔
شیخ
کو چاہئے کہ مرید کا بیکار اور غلط کاموں کا مواخدہ کرے۔ خواہ وہ کم ہویا ذیادہ۔
صغیر ہو یا کبیر ۔ اس سلسلہ میں مواخذ ہ کو نظر انداز نہ کرے اور تساہل کو روزانہ
رکھے۔
پاک
غذا ایک بیج کی طرح ہے جو معدہ کی زمین میں بویا جاتا ہےاگر وہ بیج پاک اورحلال
غداکا ہے تواس سے اعمال صالحہ کا درخت پیدا ہوگا اور اگر مشتبہ روزی کا بیج بویا
گیا ہے تو اس خطرات فاسدہ اور عبادت میں کسائل پیدا ہوگی یعنی عبادت میں سستی
اور دل میں وسوسے پیدا ہوں گے اور اگر حرام روزی ہے تو معصیت و نافرمانی
کا درخت نشودنما پائے گا۔
مرید
کو چاہیئے کہ اس کا مقصود ومراد اپنے پیر کے سوا کوئی نہ ہو اور سارا مقصد اس کا ،
ذاتِ شیخ کے سوا کچھ نہ ہو کیو نکہ شیخ کی صورت میں حق تعالیٰ کی تجلیاں ہےاور جس
کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کردے۔یہ اللہ تعالی ٰ کی شان ہے پیر
بیچ میں سبب ہونے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
بادشاہوں
اور امیروں سے درویشوں کو ضرور ملنا چاہیئے اور باحسن وجوہ اصلاح کرنا چاہیئے۔
جب
کسی شہر میں پہونچوتو وہاں کے بزرگوں کی زیارت کرو پھر وہاں کے بزرگوں
کی زیارت کے لئے جاؤ۔
کلمہ
طیبہ پابندی سے پڑھنے کا نام اذکار ہے خدائے تعالیٰ کے اذکار عشق الہی کے
میخانہ کی شراب ہے آب رداں اور کبھی نہ ختم ہونے والے چشمہ کا پانی ہے۔ جو بالکل
پوشیدہ طریقہ سے حلق اور ناطق کے ذہن میں پہونچتاہے۔
جو
خلق میں مشغول رہا وہ خالق کا طالب نہیں بن سکتا۔
جوکوئی
لاالہ الا اللہ کو زندہ یا مردہ کی نجات و بخشش کے لئے پڑھے تو اس کو
ضرور نجات حاصل ہوگی۔
ایسے
لوگوں کی صحبت سے پرہیز کریں جو ہم خیال نہ ہوں اور خاص طور پر ایسے لوگوں
کی صحبت سے بچے جو نورایمان سے دور ہیں اور طبیعت کی ظلمات میں پھنسے ہوئے
ہیں۔
وجود
کا آئینہ میں معائنہ کرنا اور چشم یقین سے دیکھنا مشاہدہ ہے۔
خرقہ
عاشقوں کی علامت اور فاسقوں کے لیے ایک ہیبت ہے۔
مشائخ
سلاسل کا سلسلہ شجرہ مقصو د تک پہونچتاہے اور جس نے اس سلسلہ سے رابطہ پیدا کر
لیا بہت سی غلامیوں سے آزاد ہوگیا۔
مشائخ
کا دیدار ایک ایسی عبادت ہے کہ اگر وہ فوت ہوجائے تو اس عبادت کی قضا اداکرنے
کا وقت نہیں ہے۔
جہاں
تک ممکن ہوسکے اپنے مرشد ، استاد اور والدین کی جانب بغیر وضو نظر نہ کرے۔
لباس
کی زینت نماز کے لئے مخصوص ہونا چاہیئے لوگوں کے دکھاوے کے لئے نہیں ہونا
چاہیے۔
مرنے والے
زیارت کرنے والے کی آمد سےاور اس کی توجہ سے باخبر ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ عالم ارواح
بہت ہی لطیف ہے۔
جب
مشائخ کی زیارت کے لئے جائے تو بغیر شیرینی ، پھول اور سبزہ کے نہ جائے۔
مختلف
آوازوں کو سنکر فہم میں جو معانی پیدا ہوتے ہیں ان کے اثر سے صوفیہ کا وجد کر
ناسماع ہے۔
جس
مسئلہ میں حلت و حرمت مختلف فیہ ہواس میں دلیرانہ اور بے باکانہ گفتگو نہیں
کرنا چاہیئے بلکہ غور وتامل کے بعد اس سلسلے میں بات کرنا چاہیئے۔
ترک
یہ ہے کہ نفس سے روگردانی کی جائے اور بشریت کے میل کچیل سے قطع تعلق کیا
جائے۔
ایمان
ایسا آفتاب ہے جو قلب انسانی کے مشرق سے شروع ہوتاہے اور اس کے نور سے شرک و
طغیان کے ذرہ فنا ہوجاتے ہیں ۔
اصحاب
تحیر وتفکر اس وجہ سے خاموش رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام رہتے ہیں اور جب
پلک جھپکاتےہیں تو اگلا درجہ طلب کرتے ہیں ۔اخص الخواص جب عالم ملکوت عبور
کرلیتے ہیں تو ان پر تحیر طاری ہوجاتا ہے اور اکثر و بیشتر تحیر عالم جبروت
ولاہوت میں ہوتا ہے۔اس کی علامت خاموشی ہے۔
شریعت
ان امور کا بجاآوری ہے جس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان باتوں سے رکنا ہے جن
سے منع کیا گیا ہے۔
علم
شریعت ہے اور اس علم کے مطابق عمل کرنا طریقت ہے اور حقیقت ان دونوں کےمقصود
کاحصول ہے۔جو شخص تین رکھتا ہے اس کے پاس تین ہیں،جو دو رکھتا ہے اس کے پاس دو ہیں
اور جوصرف ایک رکھتاہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
جو
شخص طریقت میں شریعت کی پابندی نہیں کرتا وہ طریقت کی نعمت سے محروم رہتاہے۔
توبہ
برے کاموں سے بچنے اور اچھے کاموں پر توجہ دینے کو کہتے ہیں ینز بشری کدورتوں اور
بنیادی عادتوں سے بھی احترازکرنا ہے۔
توبہ
کاحکم تمام لوگوں کے لئے ہےلوگ ہرگھڑی توبہ کے دامن سے لپٹے رہیں تاکہ وصول کے
گریباں تک رسائی ہوسکے۔کافر اپنے کفر سے توبہ کریں ۔ گناہ گار گناہوں سے تاکہ
مخلص اور اطاعت گزاروں میں شامل کئے جائیں۔
توبہ
اتنی پختہ کریں کہ پھر برے افعال میں مبتلانہ ہوں بلکہ دل میں برے افعال کا
خیال بھی نہ ہو۔
شریعت
کی روسے ظاہری نماز کا تعلق اعضا سے ہے ، طریقت کی رو سےباطنی نماز کاتعلق دل
کےتفکرسے ہےاور ازروئے حقیقت نمازِ روحانی کا تعلق فیض الٰہی کے ساتھ استغراق
سے ہے۔
خشوع
اورخضوع کے بغیر نماز اس جسم کے مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔
نماز
کی راحت چھ چیزوں سے حاصل ہوتی ہے ۔ دل کی حضوری، معنی کی سمجھ، ماہیت کی تعظیم ،
خوف، امید اورحیا۔
نماز
ِعادت سے پناہ مانگنا چاہیئے خیالا ت کے انتشار اور نفسانی وسوسوں سے جو
نماز کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں استغفار کرنا چاہیے۔
اگرچہ
نماز اسلام کا محض ایک رکن نظر آتی ہے لیکن تفصیل میں جائیں تو اسلام کے
پانچوں ارکان اسی میں شامل ہیں ۔
روزہ
رکھنے کا مقصد کم خوراکی ہے اگر صائم روزہ رکھے اور رات کو پیٹ کی زنبیل بھرے تو
یہ بات باعث شرم ہے۔
حج
دلوں کے کعبے کے طواف کا قصد کرنا ہے اور جہاد نفس کے ساتھ جنگ کرنا ہے۔
ان
لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ پتھر اورمٹی سے بنے ہوئے کعبے کو ایک نظر دیکھ کر شرف
پالیتےہیں اور واپس چلے جاتےہیں اور قبلۂ دل پر قطعاً نگاہ نہیں ڈالتے جس پر
اللہ تعالیٰ کے ہمہ وقت نظر رہتی ہے۔
امت
کانام امت اس لئے ہوا کہ وہ بہر طور شارع کے حکم پر مجتمع ہوتی ہے۔
اعلیٰ
ترین دولت ونعمت جس سے انسان سرفراز فرمایا گیا ہے وہ اہل سنت والجماعت کا مذہب
ہے۔ یہ جماعت میدان الٰہی کے سوار اور مکان نا متناہی کی محافظ ہے اس لیے اس
نعمت سے بہر ہ مند ہوئی۔
معنوی
انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے صفات و تعریفات سے موصوف ومعروف ہو اور
سلوک کے حقائق نیز درویش کے رموز کے شرف سے مشرف کیاگیا ہو۔ ظاہری انسان وہ
ہے جس کی زندگی مذکورہ اوصاف و کمالات کے برعکس ہو اور مجازی اسلام و ایمان سے بھی
بہرور نہ ہو۔
مسافرت
میں اگرچہ بہت سی تکالیف اور سختیاں برداست کرنی پڑتی ہیں اور لوگ اپنی اصلی وطن
سے دور ہوجاتے ہیں لیکن راحت اور خیریت سے قریب رہتےہیں اور بہت سے
فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
جو
شخص کامل مرد نہ ہو اور اپنی طبیعت کے عیبوں سے واقف نہ ہو وہ سفر اختیار نہ کرے
اور تنہا رہے۔
سفر ہمیشہ
جمعرات یا ہفتے کو کرنا چاہیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات اور ہفتے کو
سفر پر تشریف لے جاتے تھے اور دعا بھی فرماتے تھے۔ خدایا میری امت کو ان دونوں
دنوں کی صبح میں برکت عطافرما، لہذا جمعرات اور ہفتہ کی صبح مبارک ہے۔
میں
نے موجودات اور مخلوقات سے متعلق جو عجیب و غریب باتیں دیکھی ہیں اگر انہیں
بیان کروں تو بعض لوگ یقین نہ کریں ۔
جس
نے دیر سے (شدید بھوک کے وقت) کھایا وہ (صحیح) کھانے والاہے اور جس شخص نے اس
طریقے پر نہ کھایا وہ بوجھ اٹھانے والا ہے۔
کھانا
عورت ہے اسے چھپاؤ یعنی اس کے عیب ظاہر نہ کرو۔
اگر
کھانے کے دوران مشائخ کے اقوال اور ان کے حالات جو بھی مجلس کی کیفیت کے
مطابق ہو بیان کئے جائیں تو بہتر ہے۔ یہ عمل رافضیوں کے برعکس ہے۔
روٹی
کی عزت کرنی چاہیئے۔ روٹی کی عزت یہ ہے کہ اس پر رکابی اور نمک دان نہ ہو اور
نہ نمک دان پر روٹی یہ ایک درجے میں روٹی کو بےحیثیت جاننا ہے ۔ اور ہمیشہ
زمین پر کھانا چاہیئے۔
کھانا
بے پرواہی اور بے دلی سے نہ کھائے بلکہ حضور دل کے ساتھ کھانا کھا نا چاہیئے۔
کھانا
تین طرح کا ہوتا ہے: فرض، سنت، مباح کھانے کی وہ مقدار جو انسان کو ہلاکت سے
بچائے فرض ہےاور جتنی غذا عبادت یا پیشہ کے لئے ضروری ہو سنت ہے اور پیٹ بھر
کھانا مباح ہے لیکن سیری سے زیادہ کھانا حرام ہے ۔
رات
کا کھانا کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے اس لئے کہ اس ضعف اور بڑھاپا پیدا ہوتا ہے۔
اہل
ریاضت ہمیشہ نفس کشی نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی اس کی مراد بھی پوری کردیتےہیں
۔ یہ سختی مبتدیوں کے لئے ہے۔ کامل حضرات کےلئے لذیذ چیزوں کا کھانا پینا
مانع ریاضت نہیں ہے۔
مہمان
کے قدموں کی تشریف کے سبب میزبان کے گھر میں بے حد برکت ہوتی ہے۔ امید ہے کہ
میزبان جس شئے سے مہمان کی ضیافت کرتاہے اللہ تعالیٰ اسی روز اس کا نعم البدل عطا
فرماتا ہے۔
جب
مہمان گھر آئے تو سنت یہ ہےکہ گھر میں جو کچھ موجود ہو اس کے سامنے
رکھے۔زیادہ تکلف کا قصد نہ کرے کہ مشکلات پیدا ہوتی ہے۔البتہ اگر قدرت ہے تو مناسب
حال تکلف کیا جاسکتاہے۔
اگر
کوئی شخص کسی سے ملاقات کرنے آئے تو اس کے پاس کھانے کے جو چیز ہو پیش کردے خواہ
تھوڑے سے چنے ہوں اگر کچھ نہ ہوں تو ایک پیالہ پانی یا شربت پیش کرے۔
جب
دسترخوان پر روٹی رکھیں تو اسی روٹی سے کھانے کی ابتدا کریں اور سالن
کاانتظار نہ کریں۔ سالن کا انتظار روٹی کی توہین ہے اور حد درجہ ممنوع ہے۔
عبادت
کے دس حصے ہیں اس میں نو حصے خلق سے دوری اور ایک حصہ خاموش رہناہے۔
گروہ
صوفیہ اور زمرۂ علیہ کے نزدیک سب سے بہترین نوافل اور خوب ترین شغل تہجد کی
نمازہے۔ تمام مشائخ اور علماء نے اس نیک وقت اور پاکیزہ ساعت کے فوائد حاصل
کئے ہیں ۔ اسے سعادت دارین اور عبادت کونین کا سبب جانا ہے۔
تہجد کی
نماز اللہ تعالیٰ کی محبت کی کنجی ہے یہ صدیقوں کا نورنظر ہے یہ فرائض میں کمی
ہوجانے کی تلافی کرتی ہےاور یہ صالحین کے آداب میں سے ہے۔
رات
کے پچھلے پہر جاگنے کا اس قدر فائدہ ہےکہ اگر کوئی شخص گناہوں میں مشغول ہو تب بھی
فیض سے محروم نہ رہے گا۔
مجھے
جو دینی سعادت اور یقینی افادات حاصل ہوئی ہےتمام کی تمام پچھلے پہر جاگنے کی برکت
سے عطاہوئی ہے۔
زہد
خالص نفس سے علیحدہ ہوجانا ہے۔
توکل
(درحقیقت اپنے) معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیناہے۔ (اللہ فرماتاہے) جو
اللہ پر بھروسہ کرے اللہ کے لئے کافی ہے۔
درحقیقت
متوکل وہ شخص ہوتا ہے جس کی نظر اسباب پر نہ ہو بلکہ اسباب پیدا کرنے
والے پر ہو۔
متوکل
کی تین علامتیں ہیں ۔ اول سوال نہ کرے، دوسرے فتوح آئےتو واپس نہ کرے اور تیسرے جو
آئے اس کو جمع نہ کرے۔
اکثر
مشائخ نے ہمیشہ دست کاری کے ذریعے روزی کمائی ہے اور دل و جان سے اس پر عمل
کیا ہے۔
وہ
عزیز بند ہ جس سے مسبب (اللہ تعالیٰ) اسباب لیتاہے وہ حق تعالیٰ کے
رضا کا منتظر رہتاہے اور ہر صورت حال میں کسی قسم کی تدبیر یں نہیں کرتا کہ تدبیر
میں آفت اور سپردگی میں سلامتی ہے۔
شیطان
ہر شکل کے مشابہ ہوکر سامنے آسکتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل
میں نہیں۔
کنجوسی
اپنے ذمے حق کو ادا کرنے سے رک جانا ہےاور سخاوت اللہ تعالیٰ کے راہ میں واجب کے
ساتھ نفس کو فنا کرنا ہے۔
اگر
ایثار کی تفصیل میں درختوں کے پتے ایک ضخیم کتاب اور سمندر کی پانی روشنائی بن
جائیں تو ایک حرف سے زیادہ نہیں لکھا جاسکتا۔ خدانہ کرے کہ کوئی بندہ صفت بخل سے
موصوف ہو۔
اللہ
کی پناہ! اللہ کی پناہ ! اگرمیں اپنے احباب واصحاب کے بارے میں سنوں کہ ان
اوصاف ( بخل/ کنجوسی) کا ایک شمہ اُن میں ہے تو اپنی بیعت اورخلافت کے بندھن
سے آزاد کردوں گا۔
خدا
ہر مسلمان کو بخل سے بچائے اس لئے کہ بخل کافروں کی خصوصیت ہے۔
بری
رسم فی الحقیقت شریعت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی اس لئے ناپسندیدہ اور
نامقبول ہوتی ہے۔
واعظوں
کی باتیں سننا اور نصیحت کرنے والوں کی نصیحتوں کا علم حاصل کرنا خوشگوار نعمت
ہےاوریہ نعمت کسی کسی کو حاصل ہوتی ہے۔
جو
شخص ریاضت و مجاہدہ نہ کرے گا اس کو دولت مشاہدہ نہیں حاصل ہوسکتی۔
غصہ بدترین
خصلت و علامت ہے جس سے وصول کی نعمت میں زوال ہونے لگتاہے اور
حصول میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ہرحال میں اس عادت سے گریز کرنا چاہیئے۔ اللہ کی پناہ!
اگر کسی سے یہ فعل کسی بھی نوعیت سے سرزد ہوجائےتو اسے فوراً استغفار کرنا چاہیئے۔
مخلوق
میں انسانوں کے تعلق سے پسندیدہ اور بہترین صفت شفقت کرنا ہے۔ جسے یہ
نعمت کلی طور پر حاصل ہوجائے اسے ثمرۂ حقیقت بھی بخشا جاتاہے۔
شریعت
کے معاملات اور طریقت کے کام چونکہ شریعت کے اصول پر مبنی ہے ۔ اس لئے انہیں ظاہر
شرع کے مطابق انجام دیا جائے۔
مومن
وہ ہے جو ہر حال میں مبتداپر یقین کرنے والا ہو۔
امر
بالمعروف ونہی عن المنکر کے لائق وہ شخص ہوتا ہے جو شریعت کے تمام باریکیوں کا
عالم ہو اور ان تمام باریکیوں پر عمل کرتا ہوکہ وہ اس تنبیہ کے تحت نہ آسکے لم
تقولون مالاتفعلون (کیوں کہتے ہو وہ بات جو کرتے نہیں) ۔
امربالمعروف
اور وعظ کے سلسلے میں واعظ کو خاص طور پر نرم مزاج اور نفع رساں ہونا چاہیے۔
بہت
سے مسائل ہیں جنہیں علماء پوشیدہ رکھتے ہیں انہی بیان نہ کرنا ہی فرض ہے اسی
بنا پر فقہ کی کتابوں میں تحریر ہے یہ مسئلہ جاننے کے لائق ہے اور فتویٰ دینے
کے لائق نہیں ہے۔
امام
نبی کا نائب ہوتا ہے ۔ ولی راستے کا مددگار اور رسول اللہ ﷺ کے بارگاہ سے متصل
ہوتاہےاور اپنے قول و فعل میں نبی کا تابعدارہوتا ہے۔
نفس
تاریک غبار ہے جو دل سے اٹھتا ہے، روح نورانی جوہر ہے اور جسم فانی تاریکی ہے۔
قبض
ارواح کی تکلیف لوگوں کے درجات کی نسبت سے ہوتی ہےبعض بزرگوں کی روح اتنی آسانی سے
ہوتی ہےجیسے شربت پیتے ہیں یہ نصیب چند اہل نعمت کو حاصل ہوتاہے۔
مسلمانوں
میں جس کسی کو شکستگی پیش آئے اور اس سے ایمان میں سستی پیدا
ہو تو ہزگز مایوس نہ ہو کیونکہ اس (صبر و آزما ) واقعے میں فتح و نصر ت کی بشارت مضمر ہوتی
ہے۔