مختصر سوانح حیات
سرکار مخدوم اشرف سمنانی قد س سرہ النورانی
غوث العالم،محبوب یزدانی، تارک
السلطنت، سلطان مخدوم میر اوحد الدین سید اشرف جہانگیر سمنانی سامانی نور بخشی رضی
اللہ عنہ جو سلسلہ اشرفیہ کے بانی ہیں، 6 صدی ہجری کے چشتیہ سلسلہ کے مشہور و معروف
بزرگ ہیں۔آپ کی علمی وروحانی شخصیت چہار دانگ عالم میں مشہور ومعروف ہے،آپ کی اخلاقی
وعرفانی تعلیمات وارشادات کے عالم اسلام پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔آپ کامزار مبارک کچھوچھہ
شریف زیارت گاہ خاص وعام ہے۔ہر سال ۲۵،۲۶،۲۷ محرم ا لحرام کوآپ
کا عرس پاک کچھوچھہ شریف میں
دھوم دھام سے منایا جاتا ہے،جس میں لکھوں افراد شریک ہوتے ہیں۔آپ کی سیر ت طیبہ بہت
ہی وسیع وعریض ہے،جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ذیل میں مختصر کچھ باتیں سپرد قلم
کی جارہی ہیں۔
ولادت: آپ ملک سمنان کے صوبہ خراسان
کے دار السلطنت شہر سمنان میں سن 707ھ کو ایک بزرگ کامل اور سمنان کے بادشاہ سلطان سید ابراہیم علیہ
الرحمہکے گھر پیدا ہوئے۔
نام و نسب: آپ کا نام اشرف لقب
جہانگیر اور
محبوب
یزدانی آپ 707 ہجری میں سمنان کے ریاست میں پیدا ہوئے آپ کے والد گرامی
کا نام سلطان سید ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ہے والدہ محترمہ کا نام خدیجہ بیگم ہے
آپ کے والد گرامی ریاست سمنان کے بادشاہ تھے یہ قدیم شہر آج بھی ایران میں موجود ہے۔
حیرت انگیز قوت حافظہ: جب
آپ کی عمر چار سال چار ماہ چار دن کی
ہوئی تو بڑی دھوم دھام کے ساتھ رسم بسم اللہ خوانی ادا کی گئی۔ آپ
کی قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ سات سال کی عمر میں قرآن شریف ساتوں قرائت کے ساتھ
حفظ کر لیتے ہیں اس کے بعد مروجہ نصاب کے مطابق معقولات و منقولات کی تعلیم حاصل کرتے
ہیں۔ تفسیر و حدیث فلسفہ و منطق حکمت و تصوف وغیرہ اپنے وقت کے تمام مروجہ علوم و فنون
پر عبور ور دستگاہ حاصل کر کے ممتاز علماء کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور چودہ سال
کی عمر میں فضیلت کی دستار بندی ہوتی ہے۔ ابھی حضرت سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی
رضی اللہ عنہ تحصیل علوم و فنون سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ کے والد گرامی سلطان حضرت سید ابراہیم علیہ الرحمہ کا
انتقال ہوجاتا ہے اور پندرہ سال کی عمر میں سلطنت کی ذمہ داری کا بوجھ آپ پر آجاتا
ہے آپ نے سلطنت میں بے مثال امن و امان قائم کیا اور لوگوں کو لوٹ مار چوری ڈکیتی اور
ظلم و ستم سے محفوظ و مامون بنادیا دس سال تک عدل و انصاف اور جود و سخاوت کے ساتھ
اچھی طرح حکومت کا کام انجام دیتے رہے لیکن اس کے باوجود آپ کے ظاہر و باطن پابند شریعت
و طریقت ہی رہے۔
حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت اور عظیم منصب
کی بشارت: جب آپ کی عمر پچیس سال کی ہوتی ہے آپ کی زندگی
میں ایک عجیب انقلاب آتا ہے ایک عظیم منصب کی بشارت ملتی ہے اور وہ یہ کہ رمضان المبارک
کی 27 تاریخ کی رات ہے رحمت و انوار کی بارش ہے حضرت خضر علیہ السلام تشریف لاتے ہیں
اور فرماتے اشرف! اگر منزل مقصود پہونچنا چاہتے ہو تو ہندوستان پہنچو۔ وہاں پر اللہ
کا ایک دوست ہے وہی تیرا مرشد ہے گروہ عرفان ان کو شیخ علاء الحق گنج نبات
اسعد لاہوری خالدی قد س سرہ کہتے ہیں طالب عشاق ان کو یوسف ثانی کہتے
ہیں اور میں خضر ان کو خلق محمد کہتا ہوں۔ یہ کہہ کر حضرت
خضر علیہ السلام غائب ہوجاتے ہیں جب صبح ہوتی ہے حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ تخت و تاج سلطنت و حکومت
اپنے چھوٹے بھائی محمد اعرف نوربخشی علیہ الرحمہ کو
سپرد کر دیتے ہیں اور ترک سلطنت کرکے تحصیل آخرت کے لیے اجازت طلب کرتے ہیں اور سفر
کرتے ہوئے خطۂ اوچ میں تشریف لاتے ہیں اور حضرت مخدوم جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت قد س سرہ کی
خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔حضرت بتاکید ارشاد فرما تے ہیں اشرف! دیر مت کرو جلدی سے ملک
بنگال پہنچو۔ اس لیے کہ علاء الدین گنج نبات آپ کا انتظار فرما رہے ہیں۔ حضرت مخدوم
اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ وہاں سے سیدھا دہلی پہنچتے ہیں۔یہاں پر ایک صاحب
ولایت ارشاد فرماتے ہیں۔ اشرف خوش آمدید خبردار راستے میں کہی زیادہ دیر مت کرنا کہ
برادر علاء الدین گنج نبات تمہارا انتظار فرما رہے ہیں۔ حضرت مخدوم اشرف
جہانگیرسمنانی قد س سرہ دہلی سے روانہ ہوتے
ہیں اور بہار کے قریب قصبہ سلاو میں پہنچتے ہیں اور چند دن قیام فرماکر عبادت و ریاضت
کرتے ہیں جب آپ بہار چلے تو یہاں حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری قد س سرہ النورانی کی روح پرواز کرنے کا وقت تھا
حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری قد س سرہ النورانی اپنے اصحاب سے وصیت کرتے ہیں خبردار
کوئی بھی میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھائے کیونکہ ایک سید صحیح النسب تارک سلطنت ساتوں
قراء ت کا حافظ چودہ علوم و فنون کا۔عالم عنقریب یہاں آئے گا اور وہی میری نماز جنازہ
پڑھائے گا مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری قد س سرہ النورانی کا جنازہ تیار ہے۔ مریدین سارے
لوگ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کا انتظار کر رہے ہیں جیسے ہی محبوب
یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد
س سرہ النورانی خانقاہ میں نزول اجلال فرماتے ہیں حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد
یحیی منیری قد س سرہ النورانی کی بتائی ہوئی
نشانیوں کو پاکر سارے لوگ آپ کی دست بوسی کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اذان کے اصرار پر نماز
جنازہ کی امامت فرماتے ہیں پھر تدفین کے بعد دل میں خیال پیدا ہوا کہ بہار ولایت بنگال
میں شامل ہے شائد میرے مرشد یہی تھے جو انتقال فرماگئے،فورا جواب ملتا ہے فرزند تمہارے
پیر ابھی زندہ سلامت ہیں۔
مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کا استقبال
پنڈواشریف(مالدہ) بنگال میں : حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ
حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری قد س سرہ النورانی کے مزار پر انوارسے روانہ ہوتے ہیں اور سیدھے مقام
جنت آباد پنڈواشریف بنگال کا رخ کرتے ہیں۔ ادھرپیرکامل مرشدبرحق حضرت علاء الحق پنڈوی
قد س سرہ النورانی بعد نمازچاشت خواب سے بیدار
ہوتے ہیں اور بے تابانہ خانقاہ سے باہر نکلتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے یار کی خوشبو
آرہی ہے۔ اپنی سواری پالکی اور اپنے مرشد حضرت شیخ سراج الحق والدین قد س سرہ النورانی کی
پالکی جو آپ کو ملی تھی ہمراہ لے کر شہر سے باہر تشریف لاتے ہیں۔آپ اپنے مرشدکی پالکی
پر سوار ہوتے ہیں اور اپنی پالکی خالی رکھتے ہیں۔المختصر یہ ہے کہ دونوں جانب سے جذبۂ
محبت کا اثر ظاہر ہو تا ہے۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ دور کر آتے ہیں اور مرشدحق کے قدموں پر سر رکھ
دیتے ہیں اور محسن و مربی پیر کامل بھی اپنے قدموں سے اٹھاکر اپنے سینے سے لگالیتے
ہیں۔ اس کے بعدفرماتے ہیں۔بیٹا اشرف! تم میری پالکی پر سوار ہو۔ حضرت مخدوم اشرف عاجزی
سے عرض کرتے ہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ آقا سوار ہو اور غلام بھی سوار ہو۔ بعد اصرار
حسب ارشاد مرشد حق کی پالکی پر سوار ہوتے ہیں جیسے ہی خانقاہ کے دروازے پر پہنچتے ہیں،
مرشد کے آستانے کی چوکھٹ پر سر رکھ دیتے ہیں۔ مرشد بر حق کمال شفقت سے مرید خاص کو
سینے سے لگا کر انوار و عرفان کی دولتوں سے ملامال کردیتے ہیں۔اس کے بعد خانقاہ کے
اندر لے جاکر اپنے پاس بیٹھا کر اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا تے ہیں اور ایک قسم کا پان بھی
کھلاتے ہیں۔
پھر مرید ہونے کا حکم دیتے
ہیں اس کے بعد اپنے سر کا تاج اتار کر اپنے
ہاتھوں سے محبب یزدانی کے سرپر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے حجرے کے اندر لے جاکر چند منٹوں
میں تمام اسرار و انوار سے سرفراز فرمادیتے ہیں۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی
اللہ عنہ پنڈواشریف
مالدہ بنگال میں تقریبا چھ سال تک پیر و مرشد کی خدمت میں رہ کر منازل سلوک
طے کرنے کے بعد پیر و مرشد کی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پنڈواشریف مالدہ بنگال سے روانہ
ہوتے ہیں۔
وصال با کمال:
808 ہجری ہے آپ کی عمر سو سال ہو
چکی ہے محرم کا مقدس مہینہ آتا ہے چاند دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور یہ ارشاد فرماتے
ہیں کہ اس ماہ میں ہمارے جدامجد سید الشہداء
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو
شہادت نصیب ہوئی تھی، اگر ہمیں بھی موفقت نصیب ہو تو بہت اچھا ہے۔ چنانچہ عاشورہ کے
دن آپ کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور محرم کی ستائیسویں تاریخ میں آپ فجر کی امامت نہ
کر سکے۔دن میں اپنا سجادہ حضرت نورالعین پاک قد س سرہ کے حوالے کر تے ہیں اور کاغذات
کے چند اوراق لے کر نصیحت لکھتے ہیں۔ اٹھائیس محرم کو تبرکات کا بقچہ منگاتے ہیں اور
شیخ الاسلام حاجی الحرمین سید
عبدالرزاق نورالعین جیلانی قد س سرہ کے حوالے کر تے ہیں اور کچھ
یاد گار مریدین کو عنایت فرما دیتے ہیں۔ پھر لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں۔ظہر کی نماز میں
حضرت نورالعین کو امام بناتے ہیں، بعد نماز شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے کچھ اشعار سنانے کی فرمائش
کرتے ہیں۔ آخر کار ندائے حق جو بنگال کی کھاڑی سے لے کر گجرات کے ساحل تک اور جنوبی
ہند کی سطح سے لے کر ایران عراق حجاز تک گونج رہی تھی۔قانون قدرت کے تحت خاموش ہوگئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ تعالی آپ کی تربت پر رحمت
و انوار کی بارش فرمائے اور ہم سب کو مخدومی فیضان سے مالا مال فرمائے ۔
آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین
وعلی آلہ واصحابہ اجمعین ۔
ازقلم:
عبد الرشید امجدی دیناجپوری
No comments:
Post a Comment