طوطی ہند حضرت امیر خسرو چشتی دہلوی علیہ الرحمہ

 


اسمِ گرامی: ابوالحسن

القابات :ترک اللہ، یمین الدین۔

تخلص:  امیر خسرو۔ دہلی کی نسبت سے "دہلوی" کہلائے۔

والد کا اسمِ گرامی :امیر سیف الدین لاچین

نانا کا نام :عمادالملک ہے۔

آپ کے والدبزرگوار "بلخ" کے سرداروں میں سے تھے۔ہندوستان میں ہجرت کرکے آئے اور شاہی دربار سے منسلک ہوگئے۔ حضرت امیر خسرو کے والد اور نانا اپنے وقت کے عظیم بزرگ تھے۔

 تاریخِ ولادت: آپ 653ھ بمطابق 1255ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔

تعلیم و تربیت :  آپ علیہ الرحمہ نےتحصیلِ علم ابتدائی تعلیم سے لیکر تمام علوم کی تحصیل و تکمیل اپنے نانا عماد الملک سے کی، جوکہ ایک زبردست عالم اور بےنظیر بزرگ تھے، اور خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔ انہوں نے اپنے نواسے کی تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ آپ  علیہ الرحمہ نے بہت جلد تمام علوم میں کمال حاصل کیا، اور اپنے وقت کے فضلاء میں شمار ہونے لگے۔

بیعت و ارادت : آپ علیہ الرحمہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔

سیرت و خصائص: آپ کے سیرت و خصائص کا عالم یہ تھا کہ معدنِ صدق و صفاء، کان عشق و وفاء، فنا فی الشیخ، سلطان الشعراء، برہان الفضلاء، طوطیِ ہند، وادیِ خطابت و سخن کے فردِ وحید تھے۔ حضرت خواجہ ابوالحسن امیر خسرو محبوبِ حضرت محبوب الہٰی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

آپ سلطان الشعراء برہان الفضلا وادی خطابت کے عالم بے پایاں تھے۔ مضمون نگاری اور معنی پہنانے کے لیے شعر گوئی اور تمام اقسام سخن میں آپ کو بہت کمال حاصل تھا۔ انہوں نے اپنے اشعار کو اپنے پیر کے فرمان و ارشاد کے مطابق اصفہانی طرز اور نہج پر کہا ہے، لیکن اس کے باوجود آپ صاحب علم و فضل تھے۔ آپ تصوف کے اوصاف اور درویشوں کے احوال سے متصف تھے۔ اگرچہ آپ کے تعلقات ملوک سے تھے اور امراء اور ملوک سے خوش طبعی اور بطور ظرافت میل جول تھا، لیکن قلبی طور پر ان تمام کی طرف میلان نہ تھا اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ آپ کے اشعار اور کلام میں جو برکات ہیں وہ تمام تر مشائخ ہی کا فیض معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ جن کے دل فسق و فجور سے پاک نہیں ہوتے ہیں تو انکے کلام کو قبولیت اور تاثیر قلبی میسر نہیں ہوتی۔

امیر خسرو علیہ الرحمہ ہر شب کو تہجد میں قرآن کریم کے سات پارے ختم کیا کرتے تھے۔ایک دن شیخ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ نے آپ سے دریافت کیا اے ترک! تمہاری مشغولیات کا کیا حال ہے؟

اور گریہ و زاری کا غلبہ رہتا ہے۔ شیخ نے فرمایا! الحمدللہ کچھ اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ آپ کو شیخ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ سے بے انتہا عقیدت اور محبت تھی اور شیخ بھی آپ پر نہایت درجہ شفیق اور عنایت کنندہ تھے۔شیخ کی خدمت اور حضور میں اور کسی کو اتنی رازداری اور قربت حاصل نہ تھی جتنی امیر خسرو کو تھی۔

 صاحب سیرالاولیاء آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: کہ ایک مرتبہ شیخ نظام الدین اولیاء نے امیر خسرو کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا! کہ.. "میں تمام دنیا سے تنگ آجاتا ہوں مگر تم سے تنگ نہیں ہوتا۔

 ایک مرتبہ شیخ نے آپ سے اللہ کو درمیان میں رکھ کر یہ وعدہ فرمایا تھا کہ جب جنت میں جائیں گے تو تجھے بھی ان شاء اللہ عزوجل ساتھ لیکر جائیں گے۔

 آپ  علیہ الرحمہ کے کلام کی خصوصیات کا ایک جائزہ شہرت:  امیر خسرو ان خوش نصیب شعرائے کرام میں سے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی ہی میں شہرت اور مقبولیت حاصل کرلی اور بیشتر کتابیں اپنی زندگی ہی میں ترتیب دیں۔ آپ نے اپنے پانچ دیوانوں میں خاصے طویل دیباچے خود اپنے قلم سے لکھے ہیں۔ اکثر قصائد کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کب اور کس کی شان میں کہے گئے ہیں۔ یہ التزام مثنویوں میں بھی قائم رکھا ہے

سید سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کہ خسرو علیہ الرحمہ کو جو جامعیت مبدأ فیاض سے عطا ہوئی ہے اس طرح کی بخششیں صفحاتِ تاریخ میں بہت کم اور نایاب و نادر ہیں۔ خصوصاً سرزمینِ ہند کے لئے تو ان کی ذات ایک بےمثل مایۂ ناز و فخر ہے۔ مختلف پہلؤوں سے ان کی ذات باکمالوں کی صف میں صدر نشیں پائی جاتی ہے۔ "اگر صوفی کی حیثت سے دیکھو تو فانی فی اللہ، ندیم کی حیثیت سے دیکھو تو ارسطوءِ زمانہ، عالم کی حیثیت سے دیکھو تو متبحّر علامہ، موسیقی کی حیثیت سے دیکھو تو امام المجتہد، مؤرخ کی حیثیت سے دیکھو تو بےنظیر محقق، شاعر کی حیثیت سے دیکھو تو ملک الشعراء۔ ان کے ہر کمال کا دامن نہایت وسیع ہے اور اپنے بیان میں نہایت طوالت پذیر! سچ ہے:؏:لیس علی اللہ بمستنکر۔ ان یجمع العالم فی واحد(مقدمہ مثنوی ہشت بہشت،ص:61)

 تصانیف جلیلہ :

1.   تحفۃ الصغر

2.    وسطالحیات

3.   غرۃالکمال

4.    بقیہ نقیہ

5.   قصہ چہار درویش

6.    نہایۃالکمال

7.    ہشت بہشت

8.   قران السعدین

9.    مطلع الانوار

10.                      مفتاح الفتوح مثنوی ذوالرانی

11.                     خضرخان

12.                      نہ سپہر

13.                     تغلق نامہ

14.                      خمسہ نظامی

15.                     اعجاز خسروی

16.                      خزائن الفتوح

17.                      افضل الفوائد

18.                     خالق باری

19.                      جواہر خسروی

20.                      لیلیٰ مجنوں

21.                      آئینہ سکندری

22.                      ملا الانور

23.                      شیریں خسرو

وصال پرملال : آپ علیہ الرحمہ کا وصال 18/شوال المکرم 725 ھ بمطابق/اکتوبر 1325ء کو ہوا۔ آپ کا مزار حضرت محبوب الہٰی کے پہلو (دہلی، انڈیا) میں ہے۔ ( ماخذ و مراجع: مقدمہ مثنوی ہشت بہشت۔ اخبارالاخیار۔ سیرالاولیاء)

 


قطب الاقطب حضرت سید شاہ چندا حسینی اشرفی رحمۃ اللہ علیہ


 اسم گرامی : سید جلال الدین

المعروف:  سید شاہ چندا حسینی

القابات: قطب الاقطب شیخ المشائخ

حسب و نسب: آپ علیہ الرحمہ سید سادات صحیح النسب والحسب سے ہیں ۔ مجمع الانساب کے مولف سید محی الدین قادری نے آپ کے نسب کا شجرہ لکھا ہے۔

حضرت سید شاہ چند ا حسینی کا شجرہ نسب: سید جلال الدین عرف چند احسینی بن سید علی جہاں شیر بن سید خضر بن سید محمد بن سید احمد بن سید یحی بن سید زید بن سید حسین بن سید سراج الدین بن سید شرف الدین بن سید زین الدین بن سید ابوالحسن بن سید عبداللہ بن سیدمحمد بن سیدعمر اسرار الله بن سید یحی بن سید حسین الدمقہ بن سید ابوالحسن بن سید اصغر بن سید علی اصغر بن سید امام زید بن الشہید المظلوم بن امام زین العابدین بن سیدالشہدا امام شہید دشت کربلا۔ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)

تعلیم و تربیت: آپ متعدد علوم و فنون کے ماہر، عربی و فارسی کے بہت بڑے عالم اور بزرگ ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ دکن کے اولیائے متقدمین سے ہیں۔ آپ یوسف عادل شاہ بانی سلطنت عادل شاہی کے زمانہ میں ہند سے دکن میں آئے ۔ موضع گوگی علاقہ بیجاپور میں فروکش ہوئے ۔ اُس وقت موضع مذکور میں بادشاہی لنگر خانہ قائم تھا۔ اکثر علماء وفقراء وہاں رونق افزاء ہوتے تھے تھے۔

 آپ نے گوگی میں ہدایت و تلقین و تدریس و تعلیم شروع کر دی اور اسلام کی اشاعت میں ایسی کوشش فرمائی کہ اکثر ہنود آپ کی توجہ سے مسلمان ہو گئے ۔ آپ علیہ الرحمہ صاحب خوارق عادات و کرامات تھے ۔ یوسف عادل شاہ آپ علیہ الرحمہ سے حسن عقیدت و نیک ارادت رکھتا تھا اور ہمیشہ آپ علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور نذرو نیازات پیش کرتا تھا۔ آپ علیہ الرحمہ اطمینان سے خلائق کو ہدایت فرماتے تھے ۔ جب تک زندہ رہے ہدایت وارشاد میں مشغول رہے۔ آخر آپ نے دس تاریخ ماہ شعبان ۸۵۸ میں بہشت بریں کو رحلت کی ۔ گوگی میں مدفون ہوئے عادل شاہ نے مرقد مبارک پر گنبد پختہ تعمیر کیا۔ چوں کہ عادل شاہ آپ سے اعتقاد رکھتا تھا۔ رحلت کے بعد نہایت غمگین ہوا اور وصیت کیا کہ مجھ کو وفات کے بعد حضرت کے پائین روضہ دفن کرنا چنانچہ وزراء وامراء نے بادشاہ کو انتقال کے بعد حسب الوصیت گوگی میں آپ کے مرقد کے متصل دفن کیا۔

آپ  علیہ الرحمہ کی ارادت کا سلسلہ: آپ شیخ عارف بن ضیا علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ ۔ شیخ فرید الدین ضیاء علیہ الرحمہ کے وہ حضرت سیدنا شیخ  سعد مخدوم زنجانی علیہ الرحمہ وہ مخدوم علاء الحق پنڈوی اسعد لاہوری گنج نبات علیہ الرحمہ کے وہ آئینہ ہند حضرت شیخ اخی سراج الدین علیہ الرحمہ کے ۔ وہ حضرت  مخدوم نصیر الدین  روشن چراغ دہلوی علیہ الرحمہ وہ محبوب الہی شیخ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ ہیں ۔ (تاریخ اولیائے دکن حصہ١/ ۲۵۲ محمد عبدالجبار خان صوفی مطبع رحمانی حیدر آباد دکن )

حضرت سید شاہ چندا حسینی علیہ الرحمہ کا سلسلۂ خلافت: قطب الاقطاب حضرت سید شاہ جلال حسینی المعروف سید شاہ چندا حسینی اشرفی علیہ الرحمہ  المتوفی ۸۵۸ہجری کے دو واسطے ہیں ایک حضرت  مخدوم نصیر الدین  روشن چراغ دہلوی علیہ الرحمہ سے ہوتا ہوا محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ تک پہنچتا ہے اور دوسرا غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ سے ہوتا ہوا محبو ب الہی حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ تک پہنچتا ہے۔

"مشائخ و علماء دکن و کچھو چھ شریف کے روحانی و علمی تعلقات" نامی رسالہ کی تحقیق و ترتیب کے دوران راقم الحروف(سید پیر پادشاہ حسینی اشرفی حیدرآبادی علیہ الرحمہ) نے فرزند سجادہ نشین گوگی شریف، حضرت مولانا سید محمد یوسف حسینی صاحب سے رابطہ کر کے حضرت چندا حسینی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات مبارک بالخصوص آپ کے سلسلہ ارادت و خلافت کے متعلق دریافت کیا تو مولانا نے زبانی آگاہی کے علاوہ اپنا ایک تحقیقی مقالہ کے ذریعہ فیا کس روانہ فرمایا جس کا اقتباس یہاں درج کیا جاتا ہے ۔مولانا سید محمد یوسف حسینی تحریر کرتے ہیں۔ حضرت سید شاہ جلال الدین حسینی المعروف سید شاہ چند ا حسینی اشرفی علیہ الرحمہ کا شمار ہندوستان کے ان اولیائے کبار میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے مخصوص انداز و سلوک کے ذریعہ کفر و شرک کی فضاؤں کو نور ایمانی کی روشنی میں تبدیل کر دیا اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے بعد چراغ چشتیہ کو اپنے لہو سے روشن رکھا۔ آپ علیہ الرحمہ کی ذات کو اس حیثیت سے بھی خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کی اولاد میں پشت در پشت ولایت جاری رہی ۔ آپ علیہ الرحمہ نے نہ صرف اپنی ساری زندگی اشاعت دین میں صرف کر دی بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس کام کے لئے وقف فرما دیا چنانچہ آپ کا یہ دستور تھا کہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے بعد انھیں اشاعت دین کے لئے ترک وطن کا حکم فرماتے یہی وجہ ہے کہ آج آپ کی اولاد کے آستانے مختلف مقامات پر موجود نظر آتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ آپ کی اولاد میں جتنے اولیاء کرام اپنے وطن سے ہجرت کر کے اشاعت دین کے لئے روانہ ہوئے وہ تاحیات کبھی اپنے وطن واپس نہیں لوٹے بلکہ اشاعت دین کی راہ میں جو جہاں پہنچ کر وصال پائے وہیں پر ان کی بارگا ہیں مرجع خلائق بنی موجود ہیں۔ ان حضرات کے حالات ، تعلیمات، کرامات، تاریخ کی مختلف کتابوں ، تاریخ فرشتہ، بساطین السلاطین ، روضۃ الاولیاء، واقعات مملکت بیجاپور ، انوار جلالی، مرأة الحقیقت، تجلیات جلالیہ شمس جلالت وغیرہ میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ حضرت بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے ہمعصر بزرگ ہیں سوانحات و تواریخ میں ہے کہ آپ کی ولادت کے دن حضرت بندہ نواز علیہ الرحمہ نے جب نماز فجر ادا کی اور دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے تو بہت دیر تک آسمان کی طرف دیکھتے رہے۔ بعد میں مریدین کے استفسار پر آپ نے بتایا کہ آج مولائے کائنات حضرت سید نا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نسل سے ایک صاحب کمال پیدا ہوا ہے جس کے پیدا ہونے کی خوشیاں آسمان پر منائی جارہی ہیں۔ میں انہیں کو دیکھنے میں مستغرق ہو گیا تھا۔ (حوالہ واقعات مملکت بیجا پور حصہ سوم) تذکرے اور سوانحات کی کتابوں میں ہے کہ آپ کی ذات سے مختلف محیر العقول کرامات کا ظہور ہوا ہے۔ ایک زندہ کرامت یہ بھی ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت آپ کی چوکھنڈی کا سایہ اپنے مغربی جانب موجود چار عادل شاہی بادشاہوں کی چوکھنڈی پر پڑتا ہے مگر غروب آفتاب کے وقت بادشاہوں کی چوکھنڈی کا سایہ آپ کی چوکھنڈی کے دروازے کی دہلیز تک پہونچ کر اس طرح مڑ جاتا ہے جیسے بوسہ لیکر واپس ہورہا ہو۔ تاریخ فرشتہ، واقعات مملکت بیجاپور ، روضتہ الاولیاء اور دیگر کتب سوانحات و تواریخ میں یہ بات خاص طور سے تحریر ہے کہ آپ صحیح النسب سادات سے ہیں ۔ چوبیں ۲۴ واسطوں سے آپ کا نسب مولائے کائنات حضرت سید نا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے ( تاریخ فرشتہ ) آپ کا سلسلہ خلافت سلطان مخدوم حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھو چھوی قد س سرہ سے ملتا ہے (مراۃ الحقیقت)

اجداد کرام کی مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے ہندوستان تشریف آوری:قطب گوگی  حضرت سید شاہ چندا حسینی   علیہ الرحمہ کے اجداد کرام میں حضرت سید محمد رضی اللہ عنہ بن حضرت سید یحیی رضی اللہ  عنہ نے چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں مدینہ منورہ سے عراق کا قصد فرمایا یہ وہ زمانہ تھا جس میں زیادہ سے زیادہ اولیائے اکرام نے عجم کارخ فرمایاتھا اور اشاعت  اسلام کے لیے سب سے پہلے عراق کی سرزمین کو منتخب کیا تھا ۔حضرت سید محمد رضی اللہ عنہ نے عراق پہنج کر اس علاقہ میں اپنے اجداد کرام کا فیض پھیلایا  ۔آپ کی اولاد بصرہ وغیرہ میں پھیل گئی اور عراق میں ہر طرف اس خانوادہ کےاولیاء اکرام  سے دین اسلا م کی کرنین چمک گائیں اسطرح آپکے سلسلہ کے اولیائے اکرام پانچویں صدی ہجری میں ایران پہنچے اور یہاں پرچم اسلام کو بلند فرمایا آج بھی عراق اور ایران کے مختلف علاقوں میں ان اولیاء اکرام کی بارگاہ ہے  مرجع جن وہ بشر ہے ۔

قطب گوگی  حضرت سیدشاہ چندا  حسینی  قدس  سرہ کے اجداد اکرام  میں  حضرت سید یحییٰ رضی اللہ عنہ بن  حضرت سید زید  رضی اللہ عنہ نے 668ہجری   میں ملتان کا قصد  فرمایا اور یہاں تشریف لائے  اور آپ کی اولاد ملتان سے گجرات تک پھیل گئی چنانچہ آپ کے سلسلے کے اولیاء اکرام کی بارگاہ ہیں آج بھی کچھ میں موجود ہیں۔

حضرت قطب گوگی حضرت سید شاہ چندہ حسینی  کہ جد امجد  حضرت سید شاہ جہانشیر حسینی رضی اللہ عنہ  اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے بھائی حضرت سید شاہ عجب شیر حسینی رضی اللہ عنہ کے ہم راہ جنوبی ہندوستان کی سمت چلے اور گلبرگہ شریف کی سرزمین پر رونق افروز  ہوئے ۔

             جد امجد کی کرامات کا ظہور:حضرت سید شاہ جہانشیر  حسینی رضی اللہ عنہ جب گلبرگہ شریف تشریف لائے تو فیروز شاہ بہمنی نے آپ کی قدر شناسی کرتے ہوئے آپ کو اور آپ کے بھائی کو اپنی فوج میں اعلی  عہدوں  پر مقرر کیا آپ دونوں حضرات فوج میں بر سر خدمات تھے کے اس عجیب وغریب کرامات سے بہمنی حکومت ‏دہل اٹھی کہ ایک دن فیروز شاہ بہمنی اپنے فوجی دستہ سمیت شکار کیلئے نکلا ہوا تھا ۔جس میں یہ دونوں بزرگ بھی شامل تھے جب بادشاہ شکار سے سیر ہوا تو  واپس کا حکم دیا  بادشاہ کی سواری جاہ و حشم  کے ساتھ  جب محل پہنچی تو  اسکی شہزادی بالا خانہ پر کھڑی  شاہی جلوس کی آمد کامنظر دیکھ رہی تھی  کیا دیکھتی ہے  کے بادشاہ کہ سر پر دو گھوڑے سوار ہوا میں اڑے چلے آ رہے ہیں یہ دیکھ کر اسکے ہوش اڑگئے جب بادشاہ قصر شاہی  میں داخل ہوا تو شہزادی نے حیرت سے چشم دید حالات  بتادئے ۔ شہنشاہ پر یہ سنکر سناٹا چھا گیا اور کہنے  لگا کہ اس سے بے خبر ہوں کہ میری فوج میں ایسے باکمال اور خدار سید بزرگ موجود ہیں ۔

چنانچہ اس نے ان دونوں کی خفیہ تلاش کا حکم دیا  جاسوس اس کام پر معمور ہوگئے کئی دن  یہ جستجو جاری رہی لیکن ان بزرگوں کا پتہ نہ چل سکا اس دوران  ایک دن ایسا شدید طوفان آیا کے بڑے بڑے تن آور درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جاسوس اس کام میں لگے ہوئے تھے گشت کرتے کرتے وہ ایسے خیمے پر پہنچے کہ طوفان بادو باران کے باوجود اس خیمے میں چراغ جل رہا ہے اور دونوں بزرگ تلاوت قرآن مجید میں مصروف ہیں ۔ان دونوں جاسوسوں نے لوٹ کر بادشاہ کو اس کی خبر کی اور غیب سے ان دونوں حضرات نے یہ معلوم کر لیا کے سلطان نے ہماری ولایت کو جان لیا ہے اور خدا سے ہمکو یہ حکم ہے کے ولایت راز میں رکھی جائے لہازا اب ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں سے کوچ کر جائے ۔

               بہمنی فوج سے روانگی  :حضرت سیدشاہ جہانشیر حسینی اپنی اہلیہ اور بھائی کے ہمراہ اس طوفانی شب میں گلبرگہ شریف سے  نکل پڑے اور اثنائے راہ میں دریا ئے بھیماپر پہنچے تو دیکھا کے دریا لبالب بہہ رہی ہے ۔آپ نے بسم اللہ کہہ کر  اپنے قدم پانی میں رکھے اور اس پانی پر دوشالہ بچھا دیا  جو ان تینوں کیلئے  کشتی کا کام کرنے لگا جسکے تینوں کناروں پر یہ تینوں حضرات سوار تھے کہ تھوڑی دیر بعد دوشالہ خالی کونہ ہوا سے اڑنے لگا  ہوا تیز ہونے لگی اور تینوں کے فکر کا باعث ہوئی تو حضرت سید شاہ جہانشیر حسینی کی اہلیہ جو کہ حاملہ تھیں کے شکم مبارک سے آواز آنے لگی کہ اس پر جلال الدین ہے اس پر جلال الدین ہے اس آواز کے ساتھ وہ کونہ تھم گیا دو شالہ کشتی کیطرح دریا پر چلنے لگا اور اسطرح  آپ نے دریا کو عبور فرمایا ۔ جب آپ دریا کے کنارے پہنچے تو ولادت کے آثار ظاہر ہورہے تھے لہزاو ہیں دریا کے کنارے موضع ردے واڑی میں قیام فرمایا ۔

                         تاجدارِ ولایت کی ولادت: موضع روےواڑی میں قیام فرنانے کے تھوڑی دیر بعد ہی شکم مادر سے آواز آئی کہ اے مادر محترمہ اب سید جلال الدین کی دنیا میں آمد کا وقت ہوچکا ہے اس کے لئے تہبند کا انتظام کیجیئے چنانچہ والدہ محترمہ نے مشکے میں لپیٹ کر  کپڑا  نگل لیا تھوڑی دیر بعد  نو مولود تہبند  باندھے تولد ہوئے۔

حضرت خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ کی پیشنگوئی: ادھر اس تاجدار ولایت کی ہورہی ہے ادھر گلبرگہ میں خواجہ دکن حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز  رضی اللہ عنہ بہت دیر تک آ سمان  کیطرف دیکھتے رہے ۔حاضرین   کے دریافت کرنے پر حضرت خواجہ  نے فر ما یا کہ مقام روے واڑی میں  حضرت علی  کرم اللہ وجہ  کی اولاد  میں ابھی ابھی  ایک  ایسے بچے کی ولادت  ہوئی ہے جو صاحب ولایت بھی ہے اور صحیح النسب بھی  آسمان میں  اسکی خوشی مبائی جارہی ہے  میں عالم بالا کے اس جشن کو دیکھ رہا تھا  اور خوش ہورہا تھا ۔

                     غیب سے گہوارےکا نمودار ہونا: آپ کے والدین اپنے اس نومولود کیلئے بظاہر  فکر مند ہوئے کہ دوران سفر اس نومولود کو لیکر کہاں جائیں کیا کریں کہ آسمان سے ایک گہوارہ نمودار ہوا جو آپکو لیکر وہاں سے اڑگیا ۔والدین پریشان ہوئے اور بچے کی تلاش میں پھر نے لگے اور تلاش کرتے کرتے دو تین سال بعد گوگی شریف پہنچے تو دیکھا کہ وہاں ایک نیم کے درخت کو گہوارہ لگا ہوا ہے ۔

      انگشت مبارک سے دودھ کا جاری ہونا:   درخت کے  گھنے  سائے میں جہاں گہوارہ لگا ہوا تھا اسپر چڑیاں چھائی رہتی تھیں 

جب آپکو دودھ پینا ہوتا تو اپنی انگشت شہادت چوسنے لگتے جس سے دودھ جاری ہوتا اور آپ نوش فرمالیا کرتے تھے ۔

                           استرار جی قوت کا خاتمہ : جب آپ تقریبن بارہ سال کی عمر شریف کو پہنچے تو وہاں موجود ایک صاحب استرراج جوگی نے آپ کی بارگاہ میں گستاخی کی تو آپ نے اپنی کرامت سے ایسے عاجز کر دیا جس سے وہ وہاں سے فرار ہوگیا ۔اس طرح گوگی شریف میں حق کا  علم بلند فرمایا جو اولیائے اکرام کی کرامتوں کا عین مقصد ہیں ۔

 حضرت خواجہ بندہ  نواز علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضری: 820ہجری میں جب آپ کی عمر شریف 16سال کی ہوئی ۔

آپ نے اکتساب فیوض باطنی نیاز مندی کے حصول کے لئے  حضرت  خواجہ کی بارگاہ میں حاضری دی اور جب خواجہ دکن کی مجلس میں پہنچے تو  حضرت خواجہ نہ  اٹھکر آپ کو  خیر مقدمی  اعزاز سے نوازا  اور حاضرین کے استفسار پر فرمایا کہ یہ ایک ولی کامل اور قطب ہیں ۔جو اولیاء اکرام میں چندا کی طرح روشن ہے  حضرت خواجہ کے  یہ فرمانے کے بعد سے آپ اپنے اسم شریف سید شاہ جلال الدین حسینی  کے  بجائے  سید شاہ چندا حسینی کے نام سے مشہور ہوئے ۔

آپ علیہ الرحمہ کا خانوادہ : حضرت سید شاہ جلال الدین محمد شاہ چندا حسینی  اشرفی علیہ الرحمہ کی شادی حضرت شیخ کاٹو کی پہلی صاحبزادی مومنہ پارسا حضرتہ بی بی مخدوم جہاں رحمۃ اللہ علیہا سے ہوئی جو حضرت سلطان المشائخ شاه محمد محمود صوفی سرمست اسید الاولیاء شاہ گنج شہیداں امام کر بلاء ثانی سگر شریف علیہ الرحمہ کی نواسی تھیں ۔

آپ علیہ الرحمہ کی اولاد و امجاد:قطب الاقطاب حضرت سید شاہ چندا حسینی اشرفی علیہ الرحمہ کے چار فرزند تھے۔

(۱) حضرت سید محمد نور عالم حسینی علیہ الرحمہ گوگی شریف

 (۲) حضرت سید شمس عالم حسینی  اشرفی را ئچور ی علیہ الرحمہ

 (۳) حضرت سید عبد الرحیم حسینی  اشرفی علیہ الرحمہ بیدر کرناٹک

 (۴) حضرت سید منتہیٰ حسینی اشرفی علیہ الرحمہ بیدر کرناٹک ۔

 حضرت بندہ نواز علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ شاہ چند حسینی اشرفی علیہ الرحمہ کی اولاد کثرت سے پھیلے گی، چنانچہ ہندوستان کے متعدد مقامات (گوگی شریف، رائچور، کولم پلی، کوئل کنڈہ، کوسگی، بھونگیر، دھڑے سگور، شولاپور، بیدر وغیرہ) میں آپ کی اولاد و امجاد کے آستانے مرجع خلائق ہیں۔صرف دکن میں آپ علیہ الرحمہ کی اولاد کے پچیس آستانے مرجع خلائق ہیں۔آپ علیہ الرحمہ نے ۶۳ سال عمر مصطفوی پا کر ١٠رشعبان ۸۵۸ کو رحلت فرمائی۔ آپ علیہ الرحمہ کا مزار مبارک گوگی شریف تعلقہ شاہ پور ضلع گلبر کہ کرنا تک میں چشمہ فیضان کی شکل میں موجود ہے۔ (مآخذومراجع: مشائخ و علماء دکن و کچھو چھ شریف کے روحانی و علمی تعلقات اور دیگر مضامین )

 

مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مظہر اللہ شاہ نقشبندی علیہ الرحمہ


 نام: مفتی مظہر اللہ شاہ دہلوی

والد کا نام:  مولانا محمد سعید،

 داداکا نام: مولانا مفتی محمد مسعود شاہ،

کنیت:ابو مسعود۔

لقب:مفتی اعظم

حضرت مفتی مظہر اللہ شاہ دہلوی علیہ الرحمہ  تفسیر مظہر القرآن کے مصنف اور نقشبندی اکابرین میں شمار ہوتے ہیں۔

ولادت: مفتی اعظم شاہ محمد مظہر اللہ کی15؍رجب المرجب 1303ھ موافق 21اپریل 1886ء بروز بدھ دہلی میں پیدائش ہوئی آپ چار سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تو جد امجد مفتی محمد شاہ محمد مسعود نے کفالت فرمائی دو سال بعد وہ بھی وصال فرما گئے تو عمِ محترم مولانا عبد المجید نے اپنی کفالت میں لے لیا۔ اس طرح ابتدا ہی سے مفتی اعظم کی حیات طیبہ میں سیرت نبویﷺ کی جھلک نظر آنے لگی۔

تعلیم و تربیت:حافظ قاری حبیب اللہ امام مسجد کُپّی والا سے حفظ قرآن اور تجوید پڑھی، ۔آپ نے حفظ قرآن کریم کے بعد معاصرین علما سے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل فرمائی۔ آپ کا سلسلہ ٔحدیث شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے ملتا ہے۔ آپ نے ذاتی مطالعہ سے وہ کمال حاصل کیا کہ باید و شاید۔ آپ کو فقہ اصول فقہ،علم الفرائض،علم المواقیت میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ دیگر علوم مثلاً تجوید و قرات،تفسیر،عقائد و تصوف،منطق و فلسفہ،صرف و نحو،ادب و شاعری، خطاطی اور عملیات وغیرہ میں بھی آپ کو بڑی دستگاہ حاصل تھی۔ ہر مکتب فکر اور ہر مسلک کے علما آپ کے وسعت مطالعہ اور تبحر علمی کے دل سے معترف تھے۔سو تیلے چچا مولانا حکیم عبد المجید سے ابتدائی درس نظامی عربی وفارسی پڑھی، مولانا عبد الکریم امام مسجد تیلی داڑہ دہلی سے درسیات کی تکمیل دادا بزرگوار نے بچپن ہی میں اپنے مرشد زادہ سید شاہ صادق علی حسنی الحسینی نقشبندی سے بیعت کرادیا تھا اور شاہی مسجد فتح پوری کی امامت جو آپ کا موروثی نانہالی حق تھا اس کی امامت کا منصب آپ کے نام مقرر کرادیا۔

افتاء نویسی:تحصیل علم کے بعد درس و تدریس اور افتاء نویسی کا فریضہ تازندگی انجام دیا، نہایت شائستہ مزاج، بردبار، سیر چشم اور بے طمع بزرگ تھے ذوق سخن بھی تھا، کبھی کبھی شعر کہتے شاہ ابو الخیر مجددی دہلوی سے بھی آپ فیض یاب تھے، مشہور فقیہہ اور صوفی عالم مولانا شاہ رکن الدین الوری نقشبندی نے بھی اپنے سلاسل کی اجازتوں سے نوازا تھا۔

بیعت و خلافت: سید صادق علی شاہ کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے اور آپ کے جد امجد کے خلیفۂ مجاز صوفیِ با صفا شاہ محمد رکن الدین نے آپ کو تمام سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرمائی۔ علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کے بعد مفتی اعظم نے سلسلۂ بیعت و ارشاد کا آغاز فرمایا۔ بے شمار لوگ آپ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے آپ کے خلفاء کی تعدادکافی ہے۔

سیرت وخصائص: امام العلماء والفضلاء،سید الاولیاء،سندالاصفیاء،مرجع الخلائق،صاحبِ تقویٰ وفضیلت،فاضلِ اکمل،عالم متبحر،جامع علوم نقلیہ وعقلیہ،صاحبِ تصانیفِ کثیرہ،مفتیِ اعظم دہلی شاہ محمد شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی پاک و ہند کے سربر آور دہ علما و صوفیا میں سے تھے۔ آپ دار السلطنت دہلی کے ممتاز عالم و فقیہ شاہ محمد مسعود کے نامور پوتے اور مولانا محمد سعید کے فرزند ارجمند تھے۔آپ کے دست حق پر بے شمار غیر مسلم مشرف با سلام ہوئے مفتی اعظم مسجد جامع فتح پوری کے شاہی امام تھے۔ خطابت و امامت کا یہ سلسلہ جد امجد شاہ محمد مسعود سے آپ تک پہنچا تھا تقریباً ستر 70 سال آپ اس منصب جلیلہ پر فائز رہے آپ کی ذات گرامی سے مسجد فتح پوری کی عظمت و شوکت دوبالا ہو گئی اور علوم ظاہری و باطنی کا ایک ایسا مرکز بن گئی جو اپنی نظیر آپ تھی۔

تاریخِ وصال: آپ کا وصال 14/شعبان المعظم 1386ھ،مطابق 28/نومبر/1966ء بروز پیر دہلی میں ہوا۔آپ کامزار اپرانوار جامع مسجد فتح پوری دہلی کے صحن کے مشرقی جانب درگاہ حضرت نوشاہ کے احاطے میں ہے۔ (ماہنامہ نذر عقیدت دہلی)

 

حضرت صوفی قاضی حمید الدین ناگوری علیہ الرحمہ


  اسم گرامی:  محمد۔

 لقب:  قاضی حمید الدین۔اسی لقب سے مشہور ہوئے۔

 والد کا اسم گرامی:  عطاءاللہ محمود۔بخاراکے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ سلطان معزالدین کے زمانے میں بخارا سے دہلی آئے۔(علیہما الرحمہ)

 تاریخِ ولادت:  آپ کی ولادت باسعادت 463ھ/مطابق 1071ء کو "بخارا" (ازبکستان) میں ہوئی۔ اپنے والد کے ہمراہ دہلی تشریف لائے۔

تحصیلِ علم:  آپ نے بخارا ، بغداد، اور مدینہ منورہ کے علماء و مشائخِ سے علوم حاصل کیے۔ آپ تمام علوم کے جامع تھے۔بالخصوص فقہ میں درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔ جب ہندوستان تشریف لائے تو آپ تبحرِ علمی کی وجہ سے "ناگُور" کے قاضی مقرر کیے گئے۔

اساتذہ کرام: آپ علیہ الرحمہ شمس الآئمہ حضرت سیدنا  شمس الدین  حلوائی البخاری علیہ الرحمہ کے شاگرد خاص اور سلطان الہند خواجہ سید معین الدین موسوی اجمیری رح کے خلیفہ تھے ۔آپ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہونے کی وجہ سے صدیقی بھی کہا جاتا ہے ۔قدیم کتب میں ان کا شجرہ نسب بھی موجود ہے۔

بیعت و خلافت:  آپ سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں حضرت شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ کے مرید و خلیفہ تھے۔ حضرت شیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے، اور انہوں نے خلافت سے بھی نوازا تھا۔ اس لئے سماع کا ذوق تھا۔

 سیرت و خصائص:  مقرب احدیت، مقدس صمدیت ، قطبِ زمانہ، شیخ ِیگانہ، حضرت خواجہ قاضی حمید الدین ناگوری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ۔

آپ کا شمار ہندوستان کے مقتدر مشائخِ کرام میں ہوتا ہے۔ علوم ظاہری و باطنی میں مکمل دسترس رکھتے تھے۔ آپ اگر چہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمۃ کے ساتھی تھے۔ مگر نسبت کے لحاظ سے آپ خاندان سہروردیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور بعض مورخین کہتے ہیں کہ شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ نے اپنے بعض مکتوبات میں اس بارے میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں قاضی حمید الدین ناگوری بھی میرے خلیفہ مجاز ہیں۔ آپ ریاضت و مجاہدہ میں بے مثال تھے۔ آپ صاحبِ جمال و کمال و صاحب کرامت بزرگ تھے آپ کو سماع سے بہت دلچسپی تھی آپ علوم شریعت و طریقت کے حقائق پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ آپ کی طبیعت میں ظرافت اور خوشی طبعی کا ذوق بھی تھا جس کی وجہ سے گاہے بگاہے اپنے مصاحبین سے خوش طبعی کیا کرتے تھے۔

 آپ کے خط پر خواجہ گنج شکر کا وجد:  ایک دفعہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے سماع سننے کی خواہش ظاہر کی تاکہ کوئی قوالی یا نعت سنیں،لیکن اتفاق سے اس وقت کوئی نعت خواں اور قوال نہ ملا تو حضرت نے شیخ بدر الدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ نے جو میری طرف خط لکھا وہ اٹھا لاؤ۔ 

چنانچہ حضرت بدر الدین اسحاق اس جگہ سے اٹھے ایک حجرے میں گئے۔ اور وہ بیگ اٹھا کر بابا صاحب کے پاس لے آئے جس میں بہت سے خطوط تھے۔ اور حضرت کے سامنے رکھ کر اس میں ہاتھ ڈالا۔ تو سب سے اولاً ان کے ہاتھ میں قاضی حمید الدین رحمۃ اللہ علیہ کا خط آیا۔ چنانچہ حضرت بدر الدین علیہ الرحمۃ نے وہ خط بابا صاحب علیہ الرحمۃ کی خدمت عالیہ میں پیش کردیا۔حضرت صاحب علیہ الرحمۃ نے حضرت شیخ بدرالدین سے فرمایا کہ اسے کھڑے ہوکر پڑھو چنانچہ شیخ بدر الدین اسحاق علیہ الرحمۃ نے کھڑے ہو کر وہ خط پڑھنا شروع کردیا اس میں یہ لکھا تھا کہ "فقیر و حقیر کمزور و ناتواں محمد بن عطاء درویشوں کا خادم و غلام ہے،اور ان کی قدموں کی خاک کو اپنے سر اور آنکھوں پر بطور تبرک ملتا ہے"۔

حضرت شیخ بدر الدین نے ابھی خط کا اتنا ہی مضمون پڑھا تھا۔کہ شیخ فرید الدین علیہ الرحمۃ پر حال و جد کیفیت طاری ہوگئی۔ پھر خط کی یہ رباعی بھی پڑھی گئی۔

آں عقل کجا کہ درکمال تو رَسد

آں روح کجا کہ درجلال تورسد

گیرم کہ تو پردہ برگرفتی زجمال

آں دیدۂ کجاکہ درجمال تورسد

 ترجمہ:  میں وہ عقل کہاں سے لاؤں جو تیرے کمال کی گہرائیوں تک پہنچ سکے اور وہ روح کہاں سے لاؤں جو تیرے جلال کی کہنہ اور حقیقت کو پاسکے۔ میں خوب سمجھتا ہوں۔کہ تو نے اپنے جمال سے پردہ اٹھالیاہے۔ لیکن وہ آنکھیں کہاں سے لاؤں جو تیرے جمال کو دیکھ سکیں۔

ایک دن قاضی حمید الدین کعبے کا طواف کر رہے تھے انہوں نے ایک بزرگ کو دیکھا کہ وہ بھی طواف کر رہے ہیں۔ آپ اُن کے ساتھ ساتھ قدم بقدم چلنے لگے، اس بزرگ نے منہ پھیر کر کہا، حمیدالدین ظاہری اتباع تو بڑی آسان بات ہے لیکن باطنی اتباع بڑی مشکل ہے۔ عرض کی حضور باطنی اتباع بھی ارشاد فرمائیں، انہوں نے کہا کہ میں طواف کرتے ہوئے ہر قدم پر قرآن پاک ختم کرتا ہوں،اگر تم میری اتباع کرنا چاہتے ہو تو ایسا کرو۔ حضرت قاضی دل میں بڑے حیران ہوئے۔ پھر انہوں نے خیال کیا کہ شاید یہ بزرگ قرآن کے معنی دل میں لاتے ہیں اور اُس کو ختمِ قرآن کا نام دیتے ہیں۔ اُس بزرگ نے آپ کے دل کی اس بات کو پالیا اور فرمایا نہیں نہیں میں حرفاً حرفاً اور لفظاً لفظاً اعراب کی درستگی کے ساتھ اول سے آخر تک (بطورِ کرامت)قرآن پڑھتا ہوں۔

قاضی صاحب ساری زندگی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہے،اس لئے بعض حضرات آپ کو مشائخِ چشتیہ میں شمار کرتے ہیں۔ آپ ظاہری وباطنی علوم کے ماہرتھے،اس لئے آپ بہت لطیف نکتے بیان کرتے تھے۔ آپ کے کلام سے عوام وخواص بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ آپ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔ بہت کتب تصنیف فرمائیں، لیکن ان میں سے زیادہ مشہور "طوالع۔ لوائح۔ راحت الارواح۔اور مجموعہ رسائل ہیں"۔

 وصال:  آپ کا وصال 9 رمضان المبارک 643، کو ہوا۔(اخبارالاخیار فارسی،ص:40 مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ )

مزار شریف دہلی مہرولی انڈیا میں حضرت خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف کے پاؤں کی سمت آج بھی مرجع و خاص و عام ہے۔

 ماخذ و مراجع:  خزینۃ الاصفیاء۔ یاگارِ سہروردیہ۔اخبارالاخیار۔