محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قادری علیہ الرحمہ

 


نام و نسب

حضور محدث اعظم علیہ الرحمہ  کا اسم گرامی "محمد سرداراحمد" ہے، آپ کے والد گرامی " چودھری میراں بخش چشتی "علیہ الرحمہ نیک سیرت انسان اور مقربِ الہٰی ہستی تھے اور آپ کی کنیت ابوالفضل جبکہ معروف لقب محدثِ اعظم پاکستان ہے، آپ میں 1323ھ/1905ء کو موضع دیال گڑھ ضلع گورداسپور (مشرقی پنجاب ، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ دیال گڑھ ضلع گورداسپور کا مشہور قصبہ ہے جو بٹالہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔

حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قدس سرہ ١٣٢٣ہجری  /١٩٠٥ء کو موضع دیال گڑھ ضلع گورداسپور (مشرقی پنجاب ، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ دیال گڑھ ضلع گورداسپور کا مشہور قصبہ ہے جو بٹالہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔

تحصیلِ علم: 

محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ  نے ابتدائی تعلیم پرائمری تک موضع دیال گڑھ میں حاصل کی، اسلامیہ ہائی سکول بٹالہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، ایف اے کی تیاری کے لیے لاہور تشریف لائے، انہی دنوں مرکزی انجمن حزب الاحناف کے زیر اہتمام مسجد وزیر خاں میں ایک عظیم الشان اجلاس ہوا، جس میں پاک وہند کے کثیر علماء کرام و مشائخ عظام کے علاوہ جانشینِ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ بھی شریک ہوئے۔

محدث اعظم پاکستان، حضور حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ  کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انگریزی تعلیم کو خیر آباد کہہ کر مرکز علوم و معارف بریلی شریف چلے گئے، حضور حجۃ الاسلام، مفتی اعظم عالم اسلام اور صدر الشریعہ وغیرہ (علیہم الرحمہ) سے علمی استفادہ کیا، فیضِ رضا سے ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا میں محدثِ اعظم پاکستان کے نام معروف ہوگئے۔

حضرت محدث اعظم پاکستان سلسلہ عالیہ چشتیہ میں "حضرت شاہ محمد سراج الحق چشتی "علیہ الرحمہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے اور سلسلہ اشرفیہ میں محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم شیخ المشائخ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی  میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ، سلسلہ قادریہ رضویہ میں حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں علیہ الرحمہ سے فیض یاب ہوئے اور مفتی اعظم الشاہ مولانا مصطفی رضا خان نوری علیہ الرحمہ اور حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ  نے جملہ سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔

آپ کی والدہ ماجدہ فرمایا کرتیں’’تمہارا نام سردار ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں دین و دنیا کا سردار بنائے‘‘، بالآخر وہ وقت بھی آیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ والدہ محترمہ کی دعا کس طرح قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپکو اسم با مسمیٰ بنا دیا، محدثِ اعظم پاکستان، شیخ الحدیث والتفسیر، جامع المعقول والمنقول، رہبر شریعت، واقف رموز طریقت، آفتابِ رضویت، محبوبِ خانوادۂِ اعلیٰ حضرت، حضرت علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد چشتی قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ بیک وقت مایہ ناز مدرس، باکمال محدث، خوش الحان مقرر، بے نظیرمحقق اوردیانت دار وحق گو مفتی تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ علیہ الرحمہ سچے عاشقِ رسولﷺ اور متبع شریعت تھے۔

عشق رسول ﷺ کا یہ عالم تھا کہ حدیث رسول پڑھتے پڑھاتے ہوئے اکثر جھومتے جاتے اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ میں آبدیدہ رہتے، اس کمال درجہ محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا’’ جب لوگ بیمار ہوتے ہیں، بخار یا سر درد ہوتا ہے تو وہ دوائی کھاتے ہیں لیکن مجھے تکلیف ہوتی ہے تو مَیں ذکرِ مصطفیٰ ﷺکرتا ہوں اور حدیثِ مصطفیٰﷺ پڑھاتا ہوں جس سے مجھے آرام آجاتا ہے‘‘، یہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا جذبہ تھا کہ آپ نے کبھی بھی شانِ رسالت کے کسی منکر سے ہاتھ نہیں ملایا اور اگر کوئی ایسا شخص ہاتھ ملانے کی کوشش بھی کرتا تو محبت مصطفیٰ ﷺ کے نور کی بدولت آپکو اسکی بدعقیدگی معلوم ہوجاتی اور آپ اپنا ہاتھ کھینچ لیتے۔

حضور محدث اعظم علیہ الرحمہ احترامِ حدیث رسول میں اس مقام پر فائز تھے کہ دوران درس کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی معزز و محترم ہو، آتا، سلام کرتا تو سلام کا جواب تو ضرور دے دیتے اور ہاتھ سے بیٹھنے کے لیے اشارہ کرتے، مگر اس وقت تک کلام نہ فرماتے جب تک سبق پورا نہ ہو جائے، پھر آنے والے کے پاس اتنا وقت ہو تو بیٹھا رہے ورنہ اٹھ کر چلا جائے آپ مطلقا پرواہ نہ کرتے، دوسرے وقت ملاقات ہوتی تو فرما دیتے کہ ’’آپ فلاں وقت تشریف لائے تھے، مَیں حدیث شریف پڑھا رہا تھا، اس لیے آپ سے بات نہ کر سکا‘‘۔ جو طالب علم عبارت پڑھتا اسے تاکید ہوتی کہ حضورکے نامِ نامی کے ساتھ ’’ﷺ‘‘ ضرور کہے اور صحابی کے نام کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘ اور خود بھی اس کا التزام رکھتے تھے، جیسے ہی نام نامی سنتے بآوازبلند ’’ﷺ‘‘کہتے، تاکہ دوسرے طلبا جو غافل ہوں، انہیں سن کر یاد ہو جائے۔

اگر کہیں حدیث میں آ جاتا کہ ’’ضحک النبی ﷺ‘‘تو خود بھی مسکراتے اور طلبا سے کہتے کہ ’’آپ بھی مسکرایئے‘‘ ۔ایک بار عظیم مفسر و محدث حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی  اشرفی علیہ الرحمہ آپ سے ملاقات کرنے کے لیے فیصل آباد حاضر ہوئے، اس وقت حدیث شریف کا سبق جاری تھا لیکن آپ نے درس کو موقوف نہ فرمایا، درس ختم ہونے تک حضرت حکیم الامت علیہ الرحمہ  بیٹھے حدیث کا سبق سنتے رہے، سبق سے فراغت کے بعد حسب عادت حضور محدث اعظم نے ان سے ملاقات کی، دوران ناشتہ حکیم الامت نے آپ کے درس حدیث سے متاثر ہو کر کہا’’میری خواہش ہے کہ مَیں بھی آپ کے حلقۂ درس میں طلبا کی صف میں شامل ہو جاؤں‘‘۔

اتنے اعزازات کے باوجود عاجزی و انکساری کا عالم یہ تھا کہ نمود ونمائش سے بہت گریز فرماتے تھے، آپ کی ساری زندگی انتہائی سادگی اور بے تکلفی میں گزری، ایک مرتبہ آپ گوجرانوالہ تشریف لائے تو محبت مرشد میں آپ کے مریدِ صادق وخلیفۂ اول مفتی ابوداؤد محمد صادق رضوی نے ریلوے سٹیشن گوجرانوالہ مریدین و معتقدین کے ساتھ پرتپاک استقبال کا انتظام و انصرام کیا، کافی دیر انتظار کے بعد معلوم ہوا کہ حضور محدث اعظم علیہ الرحمہ  تو مرکز اہلسنّت زینت المساجد میں جلوہ فگن ہو چکے ہیں، قبلہ نباض قوم جلدی سے واپس تشریف لائے تو اپنے مرشد کریم حضور محدث اعظم سے دریافت کیا کہ’’ حضور! کیا وجہ بنی آپ نے تو فرمایا تھا کہ ریل گاڑی کے ذریعہ تشریف لا رہے ہیں ،تو یہ اچانک کیسے ریل گاڑی کا ارادہ ترک فرمایا ؟‘‘

حضرت محدث اعظم علیہ الرحمہ  نے فرمایا کہ’’ مولانا! مَیں نہیں چاہتا کہ لوگ خوامخواہ نعروں کی گونج میں مجھے لائیں اس لیے لاہور سے ریل کار کا ارادہ ترک کر کے بس پر سفر کرتے ہوئے گوجرانوالہ پہنچا اور وہاں سے ٹانگے پر بیٹھ کر زینت المساجد آگیا‘‘۔

اولاد امجاد:

حضرت محدث اعظم کو اﷲ تعالیٰ نے چار صاحبزادے اور چھ صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔ صاحبزادگان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:

1.               محمد فضل رسول

2.                محمد فضل رحیم

3.               محمد فضل احمد رضا

4.                محمد فضل کریم

صاحبزادہ محمد فضل رحیم کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ جبکہ تینوں صاحبزادگان اور چھ صاحبزادیاں حضرت محدث اعظم کے وصال کے وقت بقید حیات تھیں۔

تلامذہ وخلفاء :

درخت اپنے پھل سے اور اُستاذ اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتاہے ۔ یوں تو حضرت محدثِ اعظم کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے جو نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں، قصبوں دیہاتوں بلکہ بیرون ملک سے آپ کے درس کی شہرت سن کر حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت محدثِ اعظم کے جلیل القدر تلامذہ میں سے چند کے اسماء گرامی پیشِ خدمت ہیں:

1.مفسر اعظم مولانا ابراہیم رضا خاں بریلوی،

2. شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی،

3.اُستاذ العلماء مولانا علامہ سید جلال الدین شاہ صاحب،

4. اُستاذ العلماء علامہ محمد عبد الرشید جھنگوی،

5.نبیرہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ حماد رضا نعمانی میاں،

6. پیر طریقت حضرت مولانا پیر محمد فاضل نقشبندی،

7. اُستاذ العلماء حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی،

8.شمس العلماء علامہ مفتی محمد نظام الدین سہسرامی،

9. مفتیئ اعظم کراچی علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری ،

10.    شیر اہل سنت مولانا محمد عنایت اﷲ قادری

11.   مخدوم ملت علامہ سبطین رضا خاں بریلوی،

12.    اُستاذ العلماء علامہ تحسین رضا خاں بریلوی،

13.   ریحانِ ملت مولانا محمد ریحان رضا خاں بریلوی

14.    علامہ ابو الشاہ عبد القادر احمد آبادی،

15.   شیخ الفقہ مولانا محمد شمس الزماں قادری رضوی،

16.    اُستاذ العلماء مولاناصاحبزادہ عزیز احمد سیالوی،

17.    اُستاذ العلماء مولانا معین الدین شافعی رضوی،

18.   مجاہد ملت علامہ الحاج ابو داؤد محمد صادق قادری رضوی،

19.    اُستاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی

20.    عالمی مبلغ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی،

21.    اُستاذ العلماء علامہ مفتی محمد حسین قادری رضوی،

22.    شیخ الحدیث علامہ ابو الفتح محمد نصر اﷲ خان افغانی،

23.    خطیبِ پاکستان مولانا محمد بشیراحمد رضوی وغیرہ۔

حضور محدث اعظم پاکستان  علیہ الرحمہ نے اپنے خادمین کو وصال شریف سے چند ماہ پہلے ہی اشارۃ اپنے وصال کی خبر دے دی تاکہ خدام و محبین جدائی کے اس عظیم صدمے کو برداشت کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار رہیں۔

قبل از وصال پرملال اکابر اُمت، مشائخِ عظام، حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی ، حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا بریلوی، صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، مرشدِ برحق شاہ محمد سراج الحق چشتی صابری اور دیگر بندگان خدا عشاقان مصطفیٰ( علیہم الرحمۃ) کی خواب میں زیارات کیں، ان خوابوں کو ذکر کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ’’ان مشائخ عظام کی زیارت و ملاقات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ یہ فقیر خود ان سے جا ملے‘‘۔

وصال پر ملال:

قبل از وصال کان مبارک میں اذان، سورہ یٰسین، شجرہ قادریہ ، درود تاج اور قصیدہ غوثیہ پڑھا گیا، اسی عالم میں یکم شعبان 1382ہجری بمطابق 29 دسمبر 1962ء جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات 1 بج کر 40 منٹ پر یہ آفتابِ علم و فضل جس کی نورانی کرنوں سے عالمِ اسلام برسوں منور ہوتا رہا، ہمیشہ کیلئے روپوش ہوگیا اور عالم اسلام کی فضاؤں کو اپنی نورانی کرنوں سے منور کرنے والے رشد و ہدایت کے مہرِ منیر ’’اللہ اللہ‘‘ کی مقدس و بابرکت آواز کے ساتھ اپنے پیارے حبیب ﷺ کے دربار میں پہنچ گئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔