سوال نمبر
1: درود شریف پڑھنے کا ثبوت قرآن میں ہے یا حدیث میں؟
جواب :احادیث کریمہ تو اس باب
میں بکثرت مروی ہیں اور قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
ان اللہ وملٰٓئکتہٗ یصلون علی النبی
یآ یھا الذین اٰمنو ا صلو ا علیہ وسلمو ا تسلیماo
ترجمہ: بے شک
اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر، اے ایمان والو!
تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجو‘‘۔
اس آیتِ کریمہ نے
واضح طور پر صاف صاف یہ بات بیان فرمائی کہ:
۱۔ درود شریف تمام احکام سے افضل ہے
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی حکم میں اپنا اور اپنے فرشتوں کا ذکر نہ فرمایا کہ ہم
بھی کرتے ہیں، تم بھی کرو، سوا درود شریف کے،
۲۔ تمام فرشتے بلاتخصیص حضور پر درود
بھیجتے ہیں۔
۳۔ اس حکم کے مخاطب صرف اہل ایمان
ہیں۔
۴۔ رب عزوجل کا یہ حکم مطلق ہے، اس
میں کوئی استثناء نہیں کہ فلاں وقت پڑھو فلاں وقت نہ پڑھو۔
۵۔ درود شریف جب بھی پڑھا جائے اسی
حکم کی تعمیل میں ہوگا۔
۶۔ ہر بار درود شریف پڑھنے میں ادائے
فرض کا ثواب ملتا ہے کہ سب اسی فرضِ مطلق کے تحت میں داخل ہے، تو جتنا بھی پڑھیں
گے، فرض ہی میں شامل ہوگا ۔
نظیرؔ اس کی
تلاوتِ قرآنِ کریم ہے کہ ویسے تو ایک ہی آیت فرض ہے اور اگر ایک رکعت میں سارا
قرآن عظیم تلاوت کرے تو سب فرض ہی میں داخل ہوگا اور فرض ہی کا ثواب ملے گا اور سب
فاقرء واما تیسر من القراٰن کے اطلاق میں ہے۔
۷۔ درود شریف مکمل وہ ہے جس میں
صلوٰۃ وسلام دونوں ہوں کہ آیت میں درود سلام دونوں ہی کے پڑھنے کا حکم ہے۔
۸۔ قرآن نے کوئی صیغہ خاص درود شریف
کا مقرر نہ کیا تو ہر وہ صیغۂ درود شریف پڑھنا جائز ہے جو درود سلام دونوں کا جامع
ہو۔
۹۔ آیت میں درود شریف پڑھنے کے لیے
کوئی ہئت ، کوئی مجلس، کوئی محفل معتین
نہیں کی تو کھڑے بیٹھے، تنہائی میں اور مجمع کے ساتھ آہستہ خواہ بلند آواز سے
پڑھنا جائز مستحب اور مطلوبِ شرعی ہے۔
۱۰۔ ولادتِ شریفہ کی محفلوں میں اہلِ
محبت جو کھڑے ہو کر بیک زبان صلوٰۃ وسلام کے تحفے بارگاہِ نبوی میں پیش کرتے ہیں
وہ بھی اس حکم مطلق کی تعمیل میں داخل ہیں، اس سے انکار کرنا نئی شریعت گھڑنا ہے۔
سوال نمبر
2: درود شریف کا مطلب کیا ہے؟
جواب :درود شریف، اللہ تعالیٰ کی
طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم اور عزت افزائی ہے۔ علمائے کرام نے اللھم صل علیٰ محمدکے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ یا رب
! محمدِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت عطا فرما، دنیا میں آپ کا دین سر بلند
اور آپ کی دعوت غالب فرما کر ان کی شریعت کو فروغ اور بقاء عنایت کرکے اور آخرت
میں ان کی شفاعت قبول فرما کر ان کا ثواب زیادہ کرکے اور اولین و آخرین پر ان کی
افضلیت کا اظہار فرما کر اور انبیاء و مرسلین و ملائکہ اور تمام خلق پر ان کی شان
بلند کرکے اور آپ کو مقام محمود تک پہنچا کر (ﷺ)۔
سوال نمبر
3: درود شریف میں حکمت کیا ہے؟
جواب :ہر مسلمان جانتا ہے کہ
ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ، دولتِ ایمان و عرفان نصیب ہوئی، دنیا
جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی، حضور نے علم کی روشنی سے دل و دماغ منور و
روشن فرمایا، دنیا وحشت و حیوانیت میں مبتلا تھی، حضور نے بہترین انسانی زیور یعنی
اخلاقِ حسنہ سے آراستہ کیا اس لیے اس احسان شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ کے ہور
ہیں، آپ کے ذکر میں ہمہ تن مصروف رہیں اور آپ کے گرویدہ بن جائیں اور زیادہ سے
زیادہ آپ کے ساتھ نیا زمندانہ تعلق رکھیں اور آپ کے منصبِ رفیع میں روز افزوں ترقی
کے لیے بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے رہیں، اور یہ مقصود درود شریف سے بھی حاصل ہوتا
ہے اور آسانی اس میں یہ ہے کہ ہر آن ہر حال میں پڑجاسکتا ہے، آخر درود شریف پڑھنے
والا یہی تو عرض کرتا ہے کہ الٰہی تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے بے پایاں
احسانات کا بدلہ، ہمارا کیا منہ ہے کہ ادا کر سکیں، الٰہی تو ہی ان کے ان عظیم
احسانات کے صلہ میں ہماری جانب سے دنیا وآخرت میں ان پر کثیر در کثیر رحمتیں نازل
فرما اور دارین میں انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب نصیب کر۔
جو شخص درود شریف
پڑھتا ہے وہ گویا رب کریم کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خد
یا تیرے محبوبِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا میرے
بس کی بات نہیں تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور ان کے طفیل مجھے بھی مزید
رحمتوںسے بہر مند کر۔
سوال نمبر
4: درود شریف کا پڑھنا کب فرض ہے اور کہاں واجب؟
جواب :عمر بھی میں ایک بار درود
شریف پڑھنا فرض ہے اور ہر جلسہ میں ذکر میں درود شریف پڑھنا واجب ، خواہ خود نام
اقدس لے یا دوسرے سے سنے اور اگر مجلس میں مثلاً سو بار ذکر مبارک آئے تو ہر بار
درود شریف پڑھنا چاہیے، اگر نامِ اقدس لیا یا سنا اور درود شریف اس وقت نہ پڑھا تو
کسی دوسرے وقت اس کے بدلہ کا پڑھ لے۔ (درِمختار وغیرہ)
سوال نمبر
5: کہاں کہاں درود شریف پڑھنا مستحب ہے؟
جواب :جہاں تک بھی ممکن ہو درود
شریف پڑھنا مستحب ہے ، ترمذی شریف میں ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے
ہیں میں عرض کی یا رسول اللہ میں بکثرت دعا مانگتا ہوں تو اس میں سے حضور پر درود
کے لیے کتنا وقت مقررکروں فرمایا جو تم چاہو عرض کی چوتھائی، فرمایا جو تم چاہواور
اگر اور زیادہ کر و تو تمہارے لیے بھلائی ہے میں نے عرض کی دو تہائی ، فرمایا جو
تم چاہو، اگر اور زیادہ کر و تو تمہارے لیے بہتری ہے، میں نے عرض کی تو کل درود ہی
کے لیے مقرر کرلوں، فرمایا ایسا تو اللہ تمہارے کاموں کی کفایت فرمائے گا اور
تمہارے گناہ بخش دے گا۔
اور بے شک درود ،
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا ہے اور اس کے جس قدر فائدے اور برکتیں
درود پڑھنے والے کو حاصل ہوتی ہیں، ہر گز ہرگز اپنے لیے دعا میں نہیں بلکہ ان کے
لیے دعا ساری امت کے لیے دعا ہے کہ سب انہیں کے دامنِ سے وابستہ ہیں۔
سلامتِ ہمہ آفاق درسلامتِ تُست
اور قاعدے کی بات
ہے جو جسے زیادہ عزیز رکھتا ہے اسی کا ذکر اسے وظیفہ ہو جاتا ہے جو جسے چاہتا ہے
اسی کے ذکر کی کثرت کرتا ہے ، پھر حضور کے ذکر کے سامنے اور کسی کے ذکر کا کیا
ذکر،
ذکر سب پھیکے جب تک نہ مذکور ہو
نمکین حسن والا ہمارا نبی
(ﷺ)
پھر بھی خصوصیت
سے علمائے کرام نے مندرجہ ذیل مواقع پر درود شریف پڑھنا مستحب فرمایا ہے:
روزِ جمعہ: شبِ
جمعہ، صبح، شام، مسجد میں جاتے وقت، مسجد سے نکلتے وقت، بوقتِ زیارتِ روضۂ اطہر،
صفا و مروہ پر، خطبہ میں (امام کے لیے) جواب اذان کے بعد، اجتماع وفراق کے وقت،
وضو کرتے وقت، جب کوئی چیز بھول جائے اس وقت ، وعظ کہنے اور پڑھنے اور پڑھانے کے
وقت خصوصاً حدیث شریف کے اوّل و آخر، سوال و فتویٰ لکھتے وقت تصنیف کے وقت، نکاح
اور منگنی کے وقت او ر جب کوئی بڑا کام کرنا ہو۔ (درمختار، ردالمحتار)
سوال نمبر
6: اذان و اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :اذانِ یا اقامت سے پہلے
درود شریف پڑھنے میں حرج نہیں کہ ہر اہم کام سے پہلے پڑھنا مستحب ہے اور یہ بھی
دینی امور میں بڑی اہمیت کا مقام ہے مگر درود شریف اور اذان واقامت میں کچھ معمولی
فصل چاہیے یا درود شریف کی آواز اور اذان واقامت کی آواز میں اتنا فرق و امتیاز
رکھیں کہ عوام کو درود شریف اذان یا اقامت کا کوئی حصہ معلو م نہ ہو۔
آجکل اذان و
اقامت سے انکار کرنے والا یا تو نرا وہابی ہے یا وہابیہ سے سنی سنائی بات منہ سے
نکالنے والا جاہل و ناواقف مسلمان، مسلمان کو سمجھا دیں، وہ سمجھ جائے گا لیکن
وہابیہ کی اوندھی مت اسے قبول نہ کرے گی۔
وائے بے انصافی
ایسے غم خوار، پیارے کے نام پر جو روزِ ولادت سے آج تک ہماری یاد اپنے پاک روشن
مبارک منور، دل سے فراموش نہ فرمائے ، جان نثار کرنا اور اس کی نعت و ستائش اور
مدح و فضائل سے ، آنکھوں کو روشنی دل کو ٹھنڈک ، جان کو طراوت دینا واجب یا یہ کہ
جہاں تک بس چلے چاند پر خاک ڈالئے اور بلاوجہ ان کی روشن خوبیوں میں ان کے اشتہار
و اظہار میں انکار کی راہیں نکالئے اور ان کے فضائل مٹانے کے لیے حیلے بہانے تراشے
ولٰکن الوھابیۃ قوم لا یعقلون o
سوال نمبر
7: کسی چیز کی خرید و فروخت کے وقت درود پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :گاہک کو سودا دکھاتے وقت
تاجر کا اس غرض سے درود شریف پڑھنا یا سسبحٰن اللہ کہنا کہ اس چیز کی عمدگی خریدار
پر ظاہر کرے (تاکہ وہ اسے خرید نے پر آمادہ ہو جائے) ناجائز ہے، یونہی کسی بڑے کو
دیکھ کر درود شریف پڑھنا اس نیت سے کہ اور لوگوں کو اس کے آنے کی خبر ہو جائے ، اس
کی تعظیم کو اٹھیں اور جگہ چھوڑ دیں، یہ بھی ناجائز ہے۔ (درِمختاروغیرہ)
سوال نمبر
8: درود شریف کی جگہ صلعم لکھنا کیسا ہے؟
جواب :نامِ اقدس لکھتے تو درود
شریف یعنی صلی اللہ علیہ وسلم یا ایسا ہی کوئی صیغۂ درود ضرور لکھے کہ بعض علماء
کے نزدیک اس وقت درود شریف لکھنا واجب ہے۔ (درمختار ، ردالمحتار)
درود شریف کی جگہ
صلعم یا ؐ اور علیہ السلام کی بجائے عم یا ؑلکھنا ناجائز و حرام ہے ، یہ بلا ء
عوام تو عوام، اس صدی کے بڑے بڑوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ایک ذرہ سیاہی یا ایک انگل
کاغذ یا ایک سیکنڈ وقت بچانے کے لیے کیسی کیسی عظیم برکتوں سے دور پڑتے اور محرومی
و بے نصیبی کا شکار ہوتے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں، پہلا وہ شخص جس
نے ایسا اختصار کیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا اسی طرح قدس سرہ یا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
کی جگہ یاق یا ر ح لکھنا حماقت ، حرمان برکت اور سخت محروم ہے۔ ایسی حرکتوں سے
احتراز چاہیے (افاداتِ رضویہ)
سوال نمبر
9: حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب کس طرح دیتے ہیں؟
جواب :خود حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جو شخص مجھ پر درود سلام بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ میری
روحِ اطہر کو (جو معرفتِ جناب باری میں مستغرق و مشغول رہتی ہے) اس کی طرف متوجہ
کر دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب خود دیتا ہوں (ابو داؤد)۔
اور ایک حدیث میں
ہے کہ اہلِ محبت کا سلام میں خود (اپنے گوشِ مبارک سے) سنتا ہوں اور میں انہیں
پہچانتا ہوں اور دوسرے امتیوں کے درود سلام مجھ پر پیش کر دئیے جاتے ہیں ۔ (دلائل
الخیرات وبہیقی)
دورو نزدیک کے
سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت
پہ لاکھوں سلام
سوال نمبر
10: بلند آواز سے درود شریف پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :اس کا جوا ب بھی حدیث شریف
میں دیا گیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بلند آواز سے
مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اس کے مرنے کے بعد آسمانوں پر فرشتے بلند آواز سے اس پر
درود بھیجتے ہیں۔ (تزہتہ المجاس)
اسی میں فرمایا
کہ میں نے امام نووی کی اذکار میں پڑھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بلند آواز سے
درود شریف پڑھنا مستحب ہے چنانچہ علامہ خطیب بغدادی اور دوسرے علماء نے اس کی
تصریح کی ہے۔
سوال نمبر
11: مجمع کے ساتھ درود خوانی کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب :مجمع کے ساتھ درود خوانی ،
جیسا کہ مسلمانوں میں بعد دنماز دعا سے فارغ ہو کر آیۃ کریمہ پڑھ کر درود شریف
پڑھنے یا محافلِ میلاد میں صلوۃ وسلام ، پست یا بلند آواز میں عرض کرنے کا معمول
ہے، یہ بھی بلاشبہہ جائز ہے۔ صحابہ سے منقول ہے کہ جس مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ
وسلم پردرود بھیجا جاتا ہے اس سے ایک پاکیزہ خوشبو بلند ہوتی ہے اور جب وہ آسمان
پر پہنچتی ہے تو فرشتے کہتے ہیں یہ اس مجمع اور مجلس کی خوشبو ہے جس میں نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجا گیا ہے۔ (دلائل الخیرات) ۔
مسلم وترمذی کی
روایت ہے کہ جب کوئی جماعت ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوتی ہے تو فرشتے اس مجلس کو گھیر
لیتے ہیں، رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے، ان پر سکینہ (فراغت و دلحبعی) نازل ہوتی ہے
اور اللہ تعالیٰ ان کو ان لوگوں میں یاد کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں، اور یہ بات ہر
مسلمان صاحبِ ایمان جانتا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ تمام انبیاء
اللہ واولیاء اللہ کا ذکر بعینہٖ خدا کا ذکر ہے کہ ان کا ذکر ہے تو اسی لیے کہ وہ
اللہ کے نبی ہیں یہ اللہ کے ولی او ر خاص حضور کے بارے میں تو فرمایا کہ میں نے
تمہیں اپنے ذکر کا حصہ بنایا ہے تو جس نے تمہارا ذکر کیا اس نے میرا ذکر کیا تو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد عین خدا کی یاد ہے پھر نبی بھی کون؟ وہ جن کی
محبت عینِ ایمان بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی بھی جان ہے۔
سوال نمبر
12: فضائل درود میں کچھ احادیث بیان کریں؟
جواب :درود شریف کے فضائل
لامحدود ہیں، اس کی قدر و انتہا کو پہنچنا ہماری حدِ طاقت سے باہر ہے مگر اس فضلِ
عظیم کو تصور میں لاؤ کہ بھیجنے والا خدا وندِ جلیل ہے اور جس پر بھیجا جا رہا ہے
وہ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے رسول بے مثیل ہیں، درود شریف پڑھنے کے
بارے میں احادیث بکثرت وارد ہیں ، تبر کا بعض ذکر کی جاتی ہیں، نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ:
۱۔ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے
اللہ عزوجل اس پر دس بار درود نازل فرمائے (مسلم)
۲۔ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے
اللہ عزوجل اس پر دس درودیں نازل فرمائے گا، اس کی دس خطائیں محو فرمائے گا اور دس
درجے بلند فرمائے گا۔ (نسائی)
۳۔ قیامت کے دن مجھ سے سب سے قریب وہ
ہوگا جس نے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجا ہے۔ (ترمذی)
۴۔ جو مجھ پر درود بھیجتا ہے، جب تک
وہ درود خوانی میں مصروف رہتا ہے خدا کے فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اب اسے
اختیار ہے کہ وہ اس میں کمی کرے یا زیادتی۔(ابنِ ماجہ)
۵۔ جس شخص نے لکھ کر مجھ پر درود
بھیجا تو جب تک اس کتاب میں میرا اسم شریف باقی رہے گا خدا کے فرشتے اس پر درود
بھیجنے میں مشغول رہیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ فرشتے اس کی مغفرت و نجات کی
دعا کرتے رہیں گے اور جس پر فرشتے درود بھیجیں گے وہ جنتی ہوگا۔ (دلائل الخیرات و
شفاء شریف)
۶۔ حوضِ کوثر میرے حضور کچھ لوگ آئیں
گے جنہیں میں اس لیے پہچان لوں گا کہ وہ دنیا میں مجھ پر بکثرت درود بھیجتے تھے۔
(شفاء شریف)
۷۔ قیامت کی سختیوں اور شدتوں سے سب
سے پہلے وہ شخص نجات پائے گا جو مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھتا ہے۔ (اصفہانی)
۸۔ جو شخص مجھ پر جمعہ کے روز سو
مرتبہ درود شریف بھیجے اس کے اسی برس کے گناہ معاف فرمادئیے جائیں گے ۔ (یعنی
صغیرہ گناہ)۔ (جامع صغیر)
۹۔ مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو اس
لیے کہ وہ تمہارے لیے زکوٰۃ یعنی فلاح اور نجات کا ذریعہ ہے۔ (ابو لعلیٰ)
۱۰۔ جسے کوئی مشکل پیش آئے اسے چاہیے
کہ مجھ پر درود کی کثرت کرے ، درود کے وسیلے سے اس کی مشکلیں حل ہو جائیں گی، غم
دور ہو جائیں گے، مصیبتیں ٹل جائیں گی، اس کے رزق میں ترقی ہوگی اور اس کی حاجتیں
پوری ہو جائیں گی۔ (دلائل الخیرات)
۱۱۔ جو شخص مجھ پر دس بار صبح اور دس
بار شام کو درود بھیجے،روزِ قیامت میری شفاعت اسے پالے گی۔ (طبرانی)
الغرض درود شریف
مغفرت و بخشش کا ذریعہ اور سعادتِ دارین کا وسلیہ جلیلہ ہے جو وقت اس میں صرف ہوتا
ہے دین و دنیا کی برکتیں لاتا ہے اور جو دم اس سے غفلت میں گزرتا ہے اس دولتِ ابد
مدت میں تیرے لیے کمی ہوتی ہے، ہاں فقیر دامن پھیلا اور اپنی جھولی اس دولتِ عظمیٰ
سے بھرلے، یہ مفت کی نعمت ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دے، اس میں بخل ، حرمان و بے
نصیبی کی علامت ہے، حدیث میں ہے کہ پورا بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور
مجھ پر درود شریف نہ بھیجے۔ (ترمذی)
صلی
اللہ علی النبی الا می واٰلہٖٗ صلی اللہ
علیہ وسلم،
صلوٰۃ
و سلاماعلیک یا رسول اللہ۔