Durood Sharif Ka Bare Sawal o Jawab



سوال نمبر 1: درود شریف پڑھنے کا ثبوت قرآن میں ہے یا حدیث میں؟
جواب :احادیث کریمہ تو اس باب میں بکثرت مروی ہیں اور قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
ان اللہ وملٰٓئکتہٗ یصلون علی النبی
یآ یھا الذین اٰمنو ا صلو ا علیہ وسلمو ا تسلیماo
ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجو‘‘۔
اس آیتِ کریمہ نے واضح طور پر صاف صاف یہ بات بیان فرمائی کہ:
۱۔ درود شریف تمام احکام سے افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی حکم میں اپنا اور اپنے فرشتوں کا ذکر نہ فرمایا کہ ہم بھی کرتے ہیں، تم بھی کرو، سوا درود شریف کے،
۲۔ تمام فرشتے بلاتخصیص حضور پر درود بھیجتے ہیں۔
۳۔ اس حکم کے مخاطب صرف اہل ایمان ہیں۔
۴۔ رب عزوجل کا یہ حکم مطلق ہے، اس میں کوئی استثناء نہیں کہ فلاں وقت پڑھو فلاں وقت نہ پڑھو۔
۵۔ درود شریف جب بھی پڑھا جائے اسی حکم کی تعمیل  میں ہوگا۔
۶۔ ہر بار درود شریف پڑھنے میں ادائے فرض کا ثواب ملتا ہے کہ سب اسی فرضِ مطلق کے تحت میں داخل ہے، تو جتنا بھی پڑھیں گے، فرض ہی میں شامل ہوگا ۔
نظیرؔ اس کی تلاوتِ قرآنِ کریم ہے کہ ویسے تو ایک ہی آیت فرض ہے اور اگر ایک رکعت میں سارا قرآن عظیم تلاوت کرے تو سب فرض ہی میں داخل ہوگا اور فرض ہی کا ثواب ملے گا اور سب  فاقرء واما تیسر من القراٰن کے اطلاق میں ہے۔
۷۔ درود شریف مکمل وہ ہے جس میں صلوٰۃ وسلام دونوں ہوں کہ آیت میں درود سلام دونوں ہی کے پڑھنے کا حکم ہے۔
۸۔ قرآن نے کوئی صیغہ خاص درود شریف کا مقرر نہ کیا تو ہر وہ صیغۂ درود شریف پڑھنا جائز ہے جو درود سلام دونوں کا جامع ہو۔
۹۔ آیت میں درود شریف پڑھنے کے لیے کوئی  ہئت ، کوئی مجلس، کوئی محفل معتین نہیں کی تو کھڑے بیٹھے، تنہائی میں اور مجمع کے ساتھ آہستہ خواہ بلند آواز سے پڑھنا جائز مستحب اور مطلوبِ شرعی ہے۔
۱۰۔ ولادتِ شریفہ کی محفلوں میں اہلِ محبت جو کھڑے ہو کر بیک زبان صلوٰۃ وسلام کے تحفے بارگاہِ نبوی میں پیش کرتے ہیں وہ بھی اس حکم مطلق کی تعمیل میں داخل ہیں، اس سے انکار کرنا نئی شریعت گھڑنا ہے۔
سوال نمبر 2: درود شریف کا مطلب کیا ہے؟
جواب :درود شریف، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم اور عزت افزائی ہے۔ علمائے کرام نے اللھم صل علیٰ محمدکے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ یا رب ! محمدِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت عطا فرما، دنیا میں آپ کا دین سر بلند اور آپ کی دعوت غالب فرما کر ان کی شریعت کو فروغ اور بقاء عنایت کرکے اور آخرت میں ان کی شفاعت قبول فرما کر ان کا ثواب زیادہ کرکے اور اولین و آخرین پر ان کی افضلیت کا اظہار فرما کر اور انبیاء و مرسلین و ملائکہ اور تمام خلق پر ان کی شان بلند کرکے اور آپ کو مقام محمود تک پہنچا کر (ﷺ)۔
سوال نمبر 3: درود شریف میں حکمت کیا ہے؟
جواب :ہر مسلمان جانتا ہے کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ، دولتِ ایمان و عرفان نصیب ہوئی، دنیا جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی، حضور نے علم کی روشنی سے دل و دماغ منور و روشن فرمایا، دنیا وحشت و حیوانیت میں مبتلا تھی، حضور نے بہترین انسانی زیور یعنی اخلاقِ حسنہ سے آراستہ کیا اس لیے اس احسان شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ کے ہور ہیں، آپ کے ذکر میں ہمہ تن مصروف رہیں اور آپ کے گرویدہ بن جائیں اور زیادہ سے زیادہ آپ کے ساتھ نیا زمندانہ تعلق رکھیں اور آپ کے منصبِ رفیع میں روز افزوں ترقی کے لیے بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے رہیں، اور یہ مقصود درود شریف سے بھی حاصل ہوتا ہے اور آسانی اس میں یہ ہے کہ ہر آن ہر حال میں پڑجاسکتا ہے، آخر درود شریف پڑھنے والا یہی تو عرض کرتا ہے کہ الٰہی تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے بے پایاں احسانات کا بدلہ، ہمارا کیا منہ ہے کہ ادا کر سکیں، الٰہی تو ہی ان کے ان عظیم احسانات کے صلہ میں ہماری جانب سے دنیا وآخرت میں ان پر کثیر در کثیر رحمتیں نازل فرما اور دارین میں انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب نصیب کر۔
جو شخص درود شریف پڑھتا ہے وہ گویا رب کریم کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خد یا تیرے محبوبِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا میرے بس کی بات نہیں تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور ان کے طفیل مجھے بھی مزید رحمتوںسے بہر مند کر۔
سوال نمبر 4: درود شریف کا پڑھنا کب فرض ہے اور کہاں واجب؟
جواب :عمر بھی میں ایک بار درود شریف پڑھنا فرض ہے اور ہر جلسہ میں ذکر میں درود شریف پڑھنا واجب ، خواہ خود نام اقدس لے یا دوسرے سے سنے اور اگر مجلس میں مثلاً سو بار ذکر مبارک آئے تو ہر بار درود شریف پڑھنا چاہیے، اگر نامِ اقدس لیا یا سنا اور درود شریف اس وقت نہ پڑھا تو کسی دوسرے وقت اس کے بدلہ کا پڑھ لے۔ (درِمختار وغیرہ)
سوال نمبر 5: کہاں کہاں درود شریف پڑھنا مستحب ہے؟
جواب :جہاں تک بھی ممکن ہو درود شریف پڑھنا مستحب ہے ، ترمذی شریف میں ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں عرض کی یا رسول اللہ میں بکثرت دعا مانگتا ہوں تو اس میں سے حضور پر درود کے لیے کتنا وقت مقررکروں فرمایا جو تم چاہو عرض کی چوتھائی، فرمایا جو تم چاہواور اگر اور زیادہ کر و تو تمہارے لیے بھلائی ہے میں نے عرض کی دو تہائی ، فرمایا جو تم چاہو، اگر اور زیادہ کر و تو تمہارے لیے بہتری ہے، میں نے عرض کی تو کل درود ہی کے لیے مقرر کرلوں، فرمایا ایسا تو اللہ تمہارے کاموں کی کفایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔
اور بے شک درود ، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا ہے اور اس کے جس قدر فائدے اور برکتیں درود پڑھنے والے کو حاصل ہوتی ہیں، ہر گز ہرگز اپنے لیے دعا میں نہیں بلکہ ان کے لیے دعا ساری امت کے لیے دعا ہے کہ سب انہیں کے دامنِ سے وابستہ ہیں۔
سلامتِ ہمہ آفاق درسلامتِ تُست
اور قاعدے کی بات ہے جو جسے زیادہ عزیز رکھتا ہے اسی کا ذکر اسے وظیفہ ہو جاتا ہے جو جسے چاہتا ہے اسی کے ذکر کی کثرت کرتا ہے ، پھر حضور کے ذکر کے سامنے اور کسی کے ذکر کا کیا ذکر،
ذکر سب پھیکے جب تک نہ مذکور ہو
نمکین حسن  والا  ہمارا  نبی (ﷺ)
پھر بھی خصوصیت سے علمائے کرام نے مندرجہ ذیل مواقع پر درود شریف پڑھنا مستحب فرمایا ہے:
روزِ جمعہ: شبِ جمعہ، صبح، شام، مسجد میں جاتے وقت، مسجد سے نکلتے وقت، بوقتِ زیارتِ روضۂ اطہر، صفا و مروہ پر، خطبہ میں (امام کے لیے) جواب اذان کے بعد، اجتماع وفراق کے وقت، وضو کرتے وقت، جب کوئی چیز بھول جائے اس وقت ، وعظ کہنے اور پڑھنے اور پڑھانے کے وقت خصوصاً حدیث شریف کے اوّل و آخر، سوال و فتویٰ لکھتے وقت تصنیف کے وقت، نکاح اور منگنی کے وقت او ر جب کوئی بڑا کام کرنا ہو۔ (درمختار، ردالمحتار)
سوال نمبر 6: اذان و اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :اذانِ یا اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنے میں حرج نہیں کہ ہر اہم کام سے پہلے پڑھنا مستحب ہے اور یہ بھی دینی امور میں بڑی اہمیت کا مقام ہے مگر درود شریف اور اذان واقامت میں کچھ معمولی فصل چاہیے یا درود شریف کی آواز اور اذان واقامت کی آواز میں اتنا فرق و امتیاز رکھیں کہ عوام کو درود شریف اذان یا اقامت کا کوئی حصہ معلو م نہ ہو۔
آجکل اذان و اقامت سے انکار کرنے والا یا تو نرا وہابی ہے یا وہابیہ سے سنی سنائی بات منہ سے نکالنے والا جاہل و ناواقف مسلمان، مسلمان کو سمجھا دیں، وہ سمجھ جائے گا لیکن وہابیہ کی اوندھی مت اسے قبول نہ کرے گی۔
وائے بے انصافی ایسے غم خوار، پیارے کے نام پر جو روزِ ولادت سے آج تک ہماری یاد اپنے پاک روشن مبارک منور، دل سے فراموش نہ فرمائے ، جان نثار کرنا اور اس کی نعت و ستائش اور مدح و فضائل سے ، آنکھوں کو روشنی دل کو ٹھنڈک ، جان کو طراوت دینا واجب یا یہ کہ جہاں تک بس چلے چاند پر خاک ڈالئے اور بلاوجہ ان کی روشن خوبیوں میں ان کے اشتہار و اظہار میں انکار کی راہیں نکالئے اور ان کے فضائل مٹانے کے لیے حیلے بہانے تراشے ولٰکن الوھابیۃ قوم لا یعقلون o
سوال نمبر 7: کسی چیز کی خرید و فروخت کے وقت درود پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :گاہک کو سودا دکھاتے وقت تاجر کا اس غرض سے درود شریف پڑھنا یا سسبحٰن اللہ کہنا کہ اس چیز کی عمدگی خریدار پر ظاہر کرے (تاکہ وہ اسے خرید نے پر آمادہ ہو جائے) ناجائز ہے، یونہی کسی بڑے کو دیکھ کر درود شریف پڑھنا اس نیت سے کہ اور لوگوں کو اس کے آنے کی خبر ہو جائے ، اس کی تعظیم کو اٹھیں اور جگہ چھوڑ دیں، یہ بھی ناجائز ہے۔ (درِمختاروغیرہ)
سوال نمبر 8: درود شریف کی جگہ صلعم لکھنا کیسا ہے؟
جواب :نامِ اقدس لکھتے تو درود شریف یعنی صلی اللہ علیہ وسلم یا ایسا ہی کوئی صیغۂ درود ضرور لکھے کہ بعض علماء کے نزدیک اس وقت درود شریف لکھنا واجب ہے۔ (درمختار ، ردالمحتار)
درود شریف کی جگہ صلعم یا ؐ اور علیہ السلام کی بجائے عم یا ؑلکھنا ناجائز و حرام ہے ، یہ بلا ء عوام تو عوام، اس صدی کے بڑے بڑوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ایک ذرہ سیاہی یا ایک انگل کاغذ یا ایک سیکنڈ وقت بچانے کے لیے کیسی کیسی عظیم برکتوں سے دور پڑتے اور محرومی و بے نصیبی کا شکار ہوتے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں، پہلا وہ شخص جس نے ایسا اختصار کیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا اسی طرح قدس سرہ یا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جگہ یاق یا ر ح لکھنا حماقت ، حرمان برکت اور سخت محروم ہے۔ ایسی حرکتوں سے احتراز چاہیے (افاداتِ رضویہ)
سوال نمبر 9: حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب کس طرح دیتے ہیں؟
جواب :خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جو شخص مجھ پر درود سلام بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ میری روحِ اطہر کو (جو معرفتِ جناب باری میں مستغرق و مشغول رہتی ہے) اس کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب خود دیتا ہوں (ابو داؤد)۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ اہلِ محبت کا سلام میں خود (اپنے گوشِ مبارک سے) سنتا ہوں اور میں انہیں پہچانتا ہوں اور دوسرے امتیوں کے درود سلام مجھ پر پیش کر دئیے جاتے ہیں ۔ (دلائل الخیرات وبہیقی)
دورو نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام
سوال نمبر 10: بلند آواز سے درود شریف پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :اس کا جوا ب بھی حدیث شریف میں دیا گیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بلند آواز سے مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اس کے مرنے کے بعد آسمانوں پر فرشتے بلند آواز سے اس پر درود بھیجتے ہیں۔ (تزہتہ المجاس)
اسی میں فرمایا کہ میں نے امام نووی کی اذکار میں پڑھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بلند آواز سے درود شریف پڑھنا مستحب ہے چنانچہ علامہ خطیب بغدادی اور دوسرے علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔
سوال نمبر 11: مجمع کے ساتھ درود خوانی کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب :مجمع کے ساتھ درود خوانی ، جیسا کہ مسلمانوں میں بعد دنماز دعا سے فارغ ہو کر آیۃ کریمہ پڑھ کر درود شریف پڑھنے یا محافلِ میلاد میں صلوۃ وسلام ، پست یا بلند آواز میں عرض کرنے کا معمول ہے، یہ بھی بلاشبہہ جائز ہے۔ صحابہ سے منقول ہے کہ جس مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود بھیجا جاتا ہے اس سے ایک پاکیزہ خوشبو بلند ہوتی ہے اور جب وہ آسمان پر پہنچتی ہے تو فرشتے کہتے ہیں یہ اس مجمع اور مجلس کی خوشبو ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجا گیا ہے۔ (دلائل الخیرات) ۔
مسلم وترمذی کی روایت ہے کہ جب کوئی جماعت ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوتی ہے تو فرشتے اس مجلس کو گھیر لیتے ہیں، رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے، ان پر سکینہ (فراغت و دلحبعی) نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو ان لوگوں میں یاد کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں، اور یہ بات ہر مسلمان صاحبِ ایمان جانتا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ تمام انبیاء اللہ واولیاء اللہ کا ذکر بعینہٖ خدا کا ذکر ہے کہ ان کا ذکر ہے تو اسی لیے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں یہ اللہ کے ولی او ر خاص حضور کے بارے میں تو فرمایا کہ میں نے تمہیں اپنے ذکر کا حصہ بنایا ہے تو جس نے تمہارا ذکر کیا اس نے میرا ذکر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد عین خدا کی یاد ہے پھر نبی بھی کون؟ وہ جن کی محبت عینِ ایمان بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی بھی جان ہے۔
سوال نمبر 12: فضائل درود میں کچھ احادیث بیان کریں؟
جواب :درود شریف کے فضائل لامحدود ہیں، اس کی قدر و انتہا کو پہنچنا ہماری حدِ طاقت سے باہر ہے مگر اس فضلِ عظیم کو تصور میں لاؤ کہ بھیجنے والا خدا وندِ جلیل ہے اور جس پر بھیجا جا رہا ہے وہ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے رسول بے مثیل ہیں، درود شریف پڑھنے کے بارے میں احادیث بکثرت وارد ہیں ، تبر کا بعض ذکر کی جاتی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ:
۱۔ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے اللہ عزوجل اس پر دس بار درود نازل فرمائے (مسلم)
۲۔ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے اللہ عزوجل اس پر دس درودیں نازل فرمائے گا، اس کی دس خطائیں محو فرمائے گا اور دس درجے بلند فرمائے گا۔ (نسائی)
۳۔ قیامت کے دن مجھ سے سب سے قریب وہ ہوگا جس نے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجا ہے۔ (ترمذی)
۴۔ جو مجھ پر درود بھیجتا ہے، جب تک وہ درود خوانی میں مصروف رہتا ہے خدا کے فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اب اسے اختیار ہے کہ وہ اس میں کمی کرے یا زیادتی۔(ابنِ ماجہ)
۵۔ جس شخص نے لکھ کر مجھ پر درود بھیجا تو جب تک اس کتاب میں میرا اسم شریف باقی رہے گا خدا کے فرشتے اس پر درود بھیجنے میں مشغول رہیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ فرشتے اس کی مغفرت و نجات کی دعا کرتے رہیں گے اور جس پر فرشتے درود بھیجیں گے وہ جنتی ہوگا۔ (دلائل الخیرات و شفاء شریف)
۶۔ حوضِ کوثر میرے حضور کچھ لوگ آئیں گے جنہیں میں اس لیے پہچان لوں گا کہ وہ دنیا میں مجھ پر بکثرت درود بھیجتے تھے۔ (شفاء شریف)
۷۔ قیامت کی سختیوں اور شدتوں سے سب سے پہلے وہ شخص نجات پائے گا جو مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھتا ہے۔ (اصفہانی)
۸۔ جو شخص مجھ پر جمعہ کے روز سو مرتبہ درود شریف بھیجے اس کے اسی برس کے گناہ معاف فرمادئیے جائیں گے ۔ (یعنی صغیرہ گناہ)۔ (جامع صغیر)
۹۔ مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو اس لیے کہ وہ تمہارے لیے زکوٰۃ یعنی فلاح اور نجات کا ذریعہ ہے۔ (ابو لعلیٰ)
۱۰۔ جسے کوئی مشکل پیش آئے اسے چاہیے کہ مجھ پر درود کی کثرت کرے ، درود کے وسیلے سے اس کی مشکلیں حل ہو جائیں گی، غم دور ہو جائیں گے، مصیبتیں ٹل جائیں گی، اس کے رزق میں ترقی ہوگی اور اس کی حاجتیں پوری ہو جائیں گی۔ (دلائل الخیرات)
۱۱۔ جو شخص مجھ پر دس بار صبح اور دس بار شام کو درود بھیجے،روزِ قیامت میری شفاعت اسے پالے گی۔ (طبرانی)
الغرض درود شریف مغفرت و بخشش کا ذریعہ اور سعادتِ دارین کا وسلیہ جلیلہ ہے جو وقت اس میں صرف ہوتا ہے دین و دنیا کی برکتیں لاتا ہے اور جو دم اس سے غفلت میں گزرتا ہے اس دولتِ ابد مدت میں تیرے لیے کمی ہوتی ہے، ہاں فقیر دامن پھیلا اور اپنی جھولی اس دولتِ عظمیٰ سے بھرلے، یہ مفت کی نعمت ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دے، اس میں بخل ، حرمان و بے نصیبی کی علامت ہے، حدیث میں ہے کہ پورا بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور مجھ پر درود شریف نہ بھیجے۔ (ترمذی)
صلی اللہ علی النبی الا می واٰلہٖٗ  صلی اللہ علیہ وسلم،
صلوٰۃ و سلاماعلیک یا رسول اللہ۔

Phone Par Hello Kahna Kaisa ?


فون پر ابتدائی کلمہ
 "ہیلو" کہنے کے بارے میں
آج کل یہ سوال اکثر لوگوں کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ فون پر لفظ’’Hello‘‘ کہنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیونکہ آج کل کثرت سے یہ بات انٹرنیٹ اور موبائل پیغامات کے ذریعہ پھیل رہی ہے کہ ’’ہیلو‘‘ کہنا جائز نہیں ہے، ان پیغامات میں کہا جا رہا ہے کہ یہ لفظ ’’Hello‘‘ “Hell” ,سے نکلا ہے اور ’’Hell‘‘ انگریزی زبان میں جہنم کو کہتے ہیں ،اس لیے ’’Hello‘‘ کا مطلب ہے جہنمی ۔
لہٰذا اس سوال کے جواب سے پہلے یہ تحقیق ضروری ہے کہ اس لفظ کے لغوی معنی کیا ہیں؟ اس کا مادّہ اشتقاق کیا ہے؟ اور اس کا استعمال کن کن مواقع پر کن معنی میں ہوتا ہے؟
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظِ ’’ہیلو ‘‘ محض ایک تسلیماتی لفظ(Greeting) ہے ،اور اسی حیثیت سے آج کل معاشرے میں رائج ہے،اگرچہ دیگر معانی میں بھی اس کا استعمال ہے، مثلاً حیرانگی یا غصہ کے اظہار کے لیے یا کسی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال انگریزی زبان میں عام ہے ،اسی طرح گفتگو کی ابتداء میں حال چال پوچھنے کی غرض سے بھی اس کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔ لیکن ان میں کسی جگہ بھی اس کا استعمال بد دعائیہ کلمہ کے طور پر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا مطلب ان جگہوں میں سے کسی بھی جگہ’’جہنمی‘‘لیا جاتا ہے۔چناچہ بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ لفظ محض ایک تسلیماتی لفظ ہے،کوئی بد دعائیہ کلمہ نہیں ہے۔مشہور انگریزی لغات مثلاً ’’آکسفورڈ ڈکشنری‘‘ ،’’چیمبر ڈکشنری‘‘ ،’’کیمبریج ڈکشنری‘‘اور ’’مریم ویبسٹر ڈکشنری‘‘ میں اس لفظ سے متعلق یہی تفصیلات درج ہیں،جو ابھی بیان کی گئی ہیں،اور کم و بیش یہی تفصیلات دیگر انگریزی لغت کی کتابوں میں درج ہیں۔
Oxford Dictionaries

Definition of hello in English:
Hello 
(also hallo or hullo)
EXCLAMATION
1.0 Used as a greeting or to begin a telephone conversation.
1.1 British Used to express surprise.
1.2 Used as a cry to attract someone’s attention.
1.3 Used informally to express sarcasm or anger.
Merriam-Webster's Dictionary:
hel•lo
used as a greeting
:The act of saying the word hello to someone as a greeting
—used when you are answering the telephone
Full Definition of HELLO
: An expression or gesture of greeting —used interjectionally in greeting, in answering the telephone, or to express surprise
Examples of HELLO:
They welcomed us with a warm hello.
Origin of HELLO:
Alteration of Hollo
First Known Use: 1877
Chamber Dictionary:
hello, hallo or hullo exclamation 1 used as a greeting, to attract attention or to start a telephone conversation. 2 expressing surprise or discovery.
Cambridge Dictionary:
English definition of “hello”
hello
exclamation, noun /helˈəʊ/ /-ˈoʊ/ (UK ALSO hallo, hullo)
A1 used when meeting or greeting someone: Hello, Paul. I haven't seen you for ages. A1 something that is said at the beginning of a phone conversation: "Hello, I'd like some information about your flights to the US,
please."› Something that is said to attract someone's attention:

لفظِ ’’Hello‘‘کی ابتداء سے متعلق بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس لفظ کا موجِد مشہور سائنسدان تھومس الوا ایڈیسن (Thomas Alva Edison) ہے،اور اس نے یہ لفظ فون کال کے شروع میں ابتدائی تسلیماتی (greeting)کلمات کے طور پر متعارف کروایا،جبکہ دوسری طرف ٹیلیفون کے موجد گراہم بیل کا اصرار یہ تھا کہ ابتدائی کلمہ “ahoy”ہونا چاہیئے،یہ ساری تفصیل ویلیم گرمز’’ WILLIAM GRIMES ‘‘ نے نیو یارک ٹائمز میں ۵ مارچ ۱۹۹۲ء میں اپنےشائع ہونے والے مضمون’’The great `Hello` mystery is solved‘‘ میں بیان کی ہے۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ تھومس الوا ایڈیسن اس کا موجد نہیں ہے جیسا کہ مشہور کتاب’’Memories of my ghost brother‘‘ کے مصنّف ’’Heinz Insu fenkl‘‘ نے اپنے ایک مضمون ’’Heaven and Hello‘‘ میں بیان کیا ہے(یہ مضمون realms of fantasyنامی میگزین میں 2001کو شائع ہوا تھا)۔
لیکن مطالعہ سے جو بات سامنے آئی ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ تھومس ایڈیسن اس کا موجد نہ ہو مگر کم سے کم فون پر اس کو متعارف کروانے والے وہی ہیں بہر حال اس کے بعد سے اس لفظ کو کافی شہرت ملی اور اب یہ لفظ بلا کسی مذہب اور قوم کی تخصیص کے تھوڑے بہت لہجے کے فرق کےساتھ دنیا بھر میں تسلیماتی لفظ کے طور پر مشہور ہے،خصوصاً ٹیلفون کال پر ابتدائی کلمات کے طور پر اس کی شہرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اور جہاں تک بات اس لفظ کے مادّہ اشتقاق کی ہے تو اس کے بارے میں اکثر لغت کی مشہور کتابوں میں درج ہے کہ یہ ’’Hollo ‘‘،’’Hallo‘‘، ’’Holla‘‘یا ’’Hullo‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے،اور یہ الفاظ اپنی اصل وضع کے اعتبار سے توجہ حاصل کرنے کے معنی میں آتے ہیں ، جیسا کہ اوپر انگریزی زبان کی چند مشہور ڈکشنریز کی عبارات سے واضح ہے، نیز علم اشتقاق ہی سے متعلق ’’رابرٹ کے۔برنہارٹ ‘‘کی مشہور ڈکشنری’’Chamber dictionary of etymology‘‘ کی تصریح سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے،اس ڈکشنری کی عبارت یہ ہے:
Hello 
1883, alteration of hallo, itself an alteration of holla, hollo a shout to attract attention,
البتہ ’’Heinz Insu fenkl‘‘ کا(جس کا ذکر پیچھے آیا ہے) مضمون اس سلسلہ میں خاص دلچسپی کا حامل ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ اس نے اپنے مذکورہ مضمون ہی میں اس مادّہ اشتقاق کی نفی بعض علمِ ا شتقاق کے ماہرین کے حوالے سے کی ہے، لیکن بعض کی رائے لازمی بات ہے وہ اعتماد حاصل نہیں کر سکتی جو اکثریت کی رائے کو حاصل ہے۔نیز انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض حضرات نے Helloکے لفظ میں Hellآنے کی وجہ سےیہ کوشش بھی کی کہ اس کی جگہ ’’HeavenO‘‘ کر دیا جائے ،مگر ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ان حضرات کی یہ کوشش اور ذہنیت اس لفظِ Helloکی تاریخ اور حقیقت سے ناواقفیت کی بنا پر تھی۔
اس کے بعد موصوف نے اس لفظ Hellکے بہت سے معانی بیان کئے ، جن میں ایک معنی گریک بائبل(Greek bible)کے حوالےسے’’اَن دیکھا‘‘ (Unseen) بھی بیان کیے ،اور پھر لفظ Hello کی دوردرازکی تاویلات اور ترکیبات سے بعض ایسے معنی بھی بیان کیے ہیں جن میں جہنم کے معنی پائے جاتے ہیں، البتہ اس کے معنی ’’جہنمی‘‘ ہونا پھر بھی کہیں بیان نہیں کیا،مگر اس طرح کی دور دراز تاویلات سےتو سینکڑوں الفاظ کے غلط معنی نکالے جا سکتے ہیں ،لیکن حتمی بات وہی ہوگی جو لغت اور علمِ اشتقاق کے ماہرین کی رائے ہوگی ۔پھر اپنے مضمون کے آخر میں انہوں نے ترجیح اسی بات کو دی ہےکہ بفرض محال اگر Hello کو Hell سے کسی بھی طرح متعلق مانا جائے تو اس کے معنی اَن دیکھی چیز کے ہوں گے،اور اس کی مناسبت ٹیلفون سے یہ ہوگی کہ اس میں بھی صرف انسان کی آواز سنائی دیتی ہے،انسان دکھائی نہیں دیتا۔
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہوا کہ لفظ ’’Hello‘‘محض ایک تسلیماتی لفظ (Greeting)ہے،اور اسی میں اس کا استعمال شائع ہے،اس کےمعنی ’’جہنمی‘‘ کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔اس لیے فی نفسہ فون پر لفظ ’’Hello‘‘ کا استعمال جائز ہے ،گناہ نہیں ہے۔
البتہ بحیثیتِ مسلما ن ہمارے شایانِ شان یہ ہے کہ لفظ ’’Hello‘‘کے بجائے ’’السلام علیکم‘‘ کہا جائے اور اسی کی ترویج کی جائے تو ہر لحاظ سے بہتر ہے،اس لفظ کو ادا کرنے سے سنت پر عمل کا ثواب بھی ملے گا اور نیز یہ لفظ دوسرے مسلمان کے حق میں ایک بہترین دعا بھی ہے کہ ’’اللہ تم پر سلامتی نازل کرے‘‘ ،نیز حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اپنے درميان سلام کو پھیلاؤ‘‘ اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت براء ابن عازبؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا،ان سات چیزوں میں سے جن کا حکم آپﷺ نے فرمایا ایک یہ تھی کہ ’’سلام کو پھیلاؤ‘‘۔ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ ’’سلام،کلام سے پہلے ہے‘‘ یعنی پہلے سلام کرو اور پھر کلام کرو،اسی طرح ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کے ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے چھاہیئے کہ اس(بھائی )کو سلام کرے ‘‘۔
ایک اور موقع پر آپﷺ سے پوچھا گیا کہ اسلام کا بہترین عمل کون سا ہے؟تو آپﷺ نے جواب میں فرمایا کہ ’’کھانا کھلاؤ اور سلام کرو ایسے شخص کو بھی جس کو تم جانتے ہو اور ایسے شخص کو بھی جس کو تم نہیں جانتے‘‘۔
نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تمام سنتوں کی طرح اس سنت پر بھی عمل کرنے کا خاص اہتمام فرمانا ثابت ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ صرف اسی ارادے سے بازار تشریف لے جاتے کہ جو ملے اسے سلام کریں۔
لہٰذا اگرچہ فون پرHelloکہنا شرعاً جائز ہے، لیکن السلام علیکم جیسی عظیم سنّت،نیکی اور دعا کو چھوڑ کر ایک ایسے لفظ کو اپنے معمولات میں شامل کرلینا جس کا کوئی اخروی فائدہ نہ ہو ،ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے،اور بحیثیتِ مسلمان حضورِ اقدس ﷺ کی تعلیمات ، صحابہ کرامؓ کا عمل اور شعائرِ اسلام ہر لحاظ سے ہمارے لیے مقدم اور محترم ہے،اور حقیقت یہ ہے یہ کلمہ اللہ ربّ العزت کی طرف سے بڑا انعام ہے جو امّتِ محمدیہ کو دیا گیا ہے کہ محض ایک تعارفی اور کلام کی ابتداء کے کلمات کو بھی نہ صرف یہ کہ عبادت بنا دیا بلکہ مستقل ایک ایسی دعا بنا دیا جس کا ہر انسان ہر وقت محتاج ہے ،لہٰذا بہترین بات یہ ہے کہ ’’Hello‘‘کی جگہ السلام علیکم کہنے کی عادت ڈالی جائے اوراس کا جواب وعلیکم السلام کہہ کر دیا جائے


Fatiha Ka Tariqa


Fatiha Ka Faidah

Farmane Mustafa Peace Be Upon Him:
 Meri Ummat Gunan samit Qabr me Dakhil Hogi aur Jab nikle gi to be Gunaah hogi Kyunki Woh Momin ki Duaaaon se Bakhsh di Jati hai. 
(Ref. Fatihar aur Esal e Swaab ka Tariqa Page No. 6)
Jo koi Tamam Momin Mardon aur Auraton ke liye Dua e Maghfirat karta hai. Allah Ta'aala Uske Har Mard aur Aurat ke Ewaz (Badle) aek Neki Likh deta hai.
 Ay Hamare Rab! Meri aur Har Momin aur Momina ke Maghfirat Farmaa. Ameeen.
(Ref. Fatihar aur Esal e Swaab ka Tariqa Page No. 8)
Jo Ba niyat e Sawaab apne Waliden dono ya Aek Ki Qabr ki Ziyarat kare Hajje Maqbool ke Barabar Sawaab Paye aur jo Ba kasrat Unki qabr ki Ziyarat karta ho. Farishte uski Qabr ki (yani Jab yeh Faut hoga) Ziyarat ko Aayen.
(Ref. Fatihar aur Esal e Swaab ka Tariqa Page No. 3)

Fatiha Ka Tariqa

Wazu karne ke bad Qibla roo (Kaba Shari ke Traf Munh karke)  baith Jayen Jis cheez par fatiha dena ho usko samne rakh le. Samane rakhna sirf Mubaah aur jaaiz hai. Agar Woh cheez dhaki (Pack) hai to khol (Open kar) le aur looban agarbatti  sulgaye (Agar Maujood ho to) fir 11 bar Darood Sharif padhkar Panj (Panch) Qurani Aayat sharif ki tilawat kare Ya Jitna Zyadah ho sake Tilawat Kre.

11 Bar Durood Sharif
Allahumma Sal li alaa sayyidina muhmmadeew w alaa aa-li sayyidina muhammdeew w ashabihi w barik w sallim Ya Sallallahu Alai hi w sallam.

 Aayat sharif
Laqad jaakum rasoolun min anfusikum AAazeezun AAalayhi mAAanittumhareesun AAalaykum bialmu/mineenaraoofun raheemun Fa-in tawallaw faqul hasbiya Allahu la ilahailla huwa AAalayhi tawakkaltu wahuwa rabbu alAAarshi alAAatheemi (Para 11)

Surah Al-Kafiroon
Bismi Allahi alrrahmanialrraheemi
1. Qul ya ayyuha alkafiroona
2. La aAAbudu ma taAAbudoona
3. Wala antum AAabidoona ma aAAbudu
4. Wala ana AAabidun ma AAabadtum
5. Wala antum AAabidoona ma aAAbudu
6. Lakum deenukum waliya deeni

Surah Al-Ikhlas
Bismi Allahi alrrahmanialrraheemi
1. Qul huwa Allahu ahadun
2. Allahu alssamadu
3. Lam yalid walam yooladu
4. Walam yakun lahu kufuwan ahadun

Surah Al-Falaq
Bismi Allahi alrrahmanialrraheemi
1. Qul aAAoothu birabbi alfalaqi
2. Min sharri ma khalaqa
3. Wamin sharri ghasiqin itha waqaba
4. Wamin sharri alnnaffathatifee alAAuqadi
5. Wamin sharri hasidin itha hasada

Surah Al- Naas
1. Qul Aauzu Bi rabbinnasi
2. Maliki alnnasi
3. Ilahi alnnasi
4. Min sharri alwaswasi alkhannasi
5. Allathee yuwaswisu fee sudoori alnnasi
6. Mina aljinnati waalnnasi

Surah Fatiha
1. Bismi Allahi alrrahmanialrraheemi
2. Alhamdu lillahi rabbi alAAalameena
3. Alrrahmani alrraheemi
4. Maliki yawmi alddeeni
5. Iyyaka naAAbudu wa-iyyaka nastaAAeenu
6. Ihdina alssirataalmustaqeema
7. Sirata allatheena anAAamta AAalayhim ghayri almaghdoobiAAalayhim wala alddalleena

Surah Baqarah
Bismi Allahi alrrahmanialrraheemi
1. Alif-lam-meem
2. Thalika alkitabu la rayba feehi hudan lilmuttaqeena
3. Allatheena yu/minoona bialghaybiwayuqeemoona alssalatawamimma razaqnahum yunfiqoona
4. Waallatheena yu/minoonabima onzila ilayka wama onzila min qablika wabial-akhirati hum yooqinoona
5. Ola-ika AAala hudan min rabbihim waola-ika humualmuflihoona

Aayaate-E- Khamsah
1.       Wa-ilahukum ilahun wahidun la ilahailla huwa alrrahmanualrraheemu
2.      inna rahmatallahi Qareebum Minal Musineena
3.      wamaa Aesalnaka illaa Rahmatal lil Aalameen
4.     Ma kana muhammadun aba ahadin min rijalikumwalakin rasoola Allahi wakhatama alnnabiyyeena wakana Allahu bikullishay-in AAaleeman
5.      Inna Allaha wamala-ikatahu yusalloona AAalaalnnabiyyi ya ayyuha allatheenaamanoo salloo AAalayhi wasallimoo tasleeman

Jazallah Anna Syyedina Muhammadam Maa Huwa Ahluh
Sallallahu Alaihi Wa sallam

Subhaa na rabbi ka rabbil izzati  Ammaa yasifoon wa salaamun alal mursleen wal hamdullilaahi rabbil Aalamin
Ab Fatihaa Padhne wala Hath Uthakar Buland Aawaz se " Al- Fatiha" kahe. Sab log Ahista se Yani itni Aawaz se ki Sirf Khud Sune Surah Al- Fatiha Padhen. Ab Fatiha Padhane Wala is tarah Elaan kre Mere Islami Bhaiyo! Aap ne Jo Kuch bhi Padha Hai Uskaa swab mujhe de dejiye. Tamam Hazireen Kah Den   "Aap ko De Diyaa" Ab Fatiha Padhana Wala Esal e Swaab kar de.

Eisal e Swaab ke Liye
Duaaa Ka Tariqa
Ya Allah ! Jo Kuch Padha Gayaa ( Agar Khana wagirah hai to is tarah se bhi kahiye) aur jo kuch khana wagairah pesh kiya gya hai uska Swaab hamare Naaqis Amal ke Laiq nahi Bilki apne karam ke Shayaane Shaan Mar-Hamat farma au rise hamari Janib se Huzoor Rahmatul lil Aalameen sallallahu Alaihi Wa sallam ki Bargaah me Nazr Pahuncha. Sarkar – e – Madina sallallahu Alaihi Wa sallam ke Tawassut (waseele) se Tamam Inbiyaa – E- Karaam Alaihimus Salaam, Tamam Sahaaba – E- Karaam Alaihimur Rizwaan, Tamam Auliyaa e Ezaam Rahimullahussalaam ki Janab me Nazr Pahuncha. . Sarkar – e – Madina sallallahu Alaihi Wa sallam ke Tawassut (waseele) se Syyedunaa Aadam Safiyullah Alaa Nabiyina wa Alaihissalatu wassalaam se le kar ab tak jitney Insaan wa Jinnat Musalmaan huwa aur Qiyamat tak honge Sab ko Pahucha. Es Dauraan Bahter yah ki Jin Jin Buzugon ko Khusoosan Esaal se Swaaab karna hai Unka bhi Naaam le te Jayiye. Apne Maaa Baaap aur Apne Peer o Murshid ko bhi Naam ba Naam Eisaaal e Swaab kijiye.
Note: Faut Shudgaan me se jin jin ka Naam lete hain unko khushi hasil hoti hai agar kisi ka bhi naaam na len sirf itna hi kah len ki Ya Allah! Eska sawaab Aaj tak jitney Ahle Imaan huwe un sab ko Pahunchaa tab bhi har aek ko Pahunch Jayegaa. In sha Allah
Ab Hasb e Mamool duaaa Khatm kar dijiye. (agar thoda thoda khana aur pani nikala tha to who dosre khano aur Pani me daal dijiye).