قربانی کی فضیلت و اہمیت

اللہ تعالیٰ نے جن وانس کواپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے اورعبادات کی مختلف اقسام ہیں ۔مثلاً قولی،فعلی ، مالی اور مالی عبادت میں ایک عبادت قربانی بھی ہے۔قربانی وہ جانورہےجو اللہ کی راہ میں قربان کیا جائےاور یہ وہ عمل ذبیحی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کیاجاتا ہے۔تخلیق انسانیت کے آغازہی سے قربانی کا جذبہ کار فرما ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کی قربانی کا واقعہ موجود ہے۔اور قربانی جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم کی عظیم ترین سنت ہے ۔یہ عمل اللہ تعالیٰ کواتنا پسند آیا کہ اس عمل کوقیامت تک کےلیے مسلمانوں کے لیے عظیم سنت قرار دیا گیا۔ قرآن مجید نے بھی حضرت ابراہیم کی قربانی کے واقعہ کوتفصیل سے بیان کیا ہے ۔ پھر اہلِ اسلام کواس اہم عمل کی خاصی تاکید ہے اور نبی کریم نے زندگی بھر قربانی کے اہم فریضہ کو ادا کیا اور قرآن احادیث میں اس کے واضح احکام ومسائل اور تعلیمات موجو د ہیں ۔قربانی‘‘ کا لفظ قربان سے نکلا ہے، عربی زبان میں قربانی اس عمل کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے ،خواہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات، لیکن عرفِ عام میں یہ لفظ قربانی کے جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ چناں چہ قرآن کریم میں یہ لفظ چند جگہ مستعمل ہوا ہے اور اکثر مواقع پر قربانی کے جانور کا ذبیحہ ہی مراد ہے۔

قرآنِ پاک میں حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کی قربانی کا واقعہ مذکورہے کہ جب حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے حضرت ہابیل رضی اللہ عنہ کے ساتھ اقلیما کانکاح کرناچاہا تو قابیل نے اس فیصلے کو تسلیم نہ کیا اور اقلیما سے نکاح کی خواہش ظاہر کی ،حضرت آدم علیہ السلام نے اسے سمجھایا کہ اقلیما تیری بہن ہے اور اس کے ساتھ تیرا نکاح نہیں ہوسکتا، مگر قابیل اپنی ضِد پر اَڑا رہا ۔ بالآخرحضرت آدم علیہ السلام نےحکم دیا کہ تم دونوں اپنی اپنی قُربانیاں اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرو۔ جس کی قربانی مقبول ہو گی وہی اقلیما کا حق دار ہو گا۔اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت کی یہ نشانی تھی کہ آسمان سے ایک آگ آتی اور جوقُربانی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی تو اس کو کھالیا کرتی تھی۔چُنانچہ قابیل نے گیہوں کی کچھ بالیں اورحضرت ہابیل رضی اللہ عنہ نے ایک بکری قربانی کے لئے پیش کی۔ آسمانی آگ نےحضرت ہابیل رضی اللہ عنہ کی قربانی کو کھالیا اور قابیل کے گیہوں کو چھوڑ دیا۔ اس بات پر قابیل کے دل میں بغْض و حسد پیدا ہو گیا اور اس نےحضرت ہابیل رضی اللہ عنہ کوقتل کردینے کی ٹھان لی اور ہابیل سے کہہ دیا کہ میں تجھ کو قتل کردوں گا۔ حضرت ہابیل رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ قربانی قبول کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور وہ تقوی واِخلاص والوں کی قُربانی قبول کرتا ہے، اگرتُو مُتقی ہوتا تو ضَرور تیری قربانی قبول ہوتی۔ (سورہ مائدہ 27)

قربانی کا عمل ہر امت میں مقرر کیا گیا؛ البتہ اس کے طریقے اور صورت میں کچھ فرق ضرور رہا ہے۔انھیں میں سے قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو عیدالاضحی کی قربانی کی صورت میں عطا فرمائی ہے جوکہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے ۔قرآن کریم واحادیث مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی بہت زیادہ اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی ہے؛ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:فصل لربک وانحر۔پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکر ہے))الکوثر، 108: 2)قربانی اللہ کی رضا کیلئے کی جائے۔

قرآن مجید میں ہے:لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ."ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔(الحج، 22: 37)یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروط تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔

ابن ماجہ نے حضرت سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:

يارسول الله ماهذه الاضاحی؟

یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ قربانیاں کیا ہیں؟

فرمایا:سنة ابيکم ابراهيم.تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔

لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ! ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟

فرمایا:لکل شعرة حسنة.ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔

عرض کیا گیا: اون کا کیا حکم ہے؟ فرمایا:بکل شعرة من الصوف حسنة.

اون کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔ (ابن ماجہ ،کتاب الاضاحی ،باب ثواب الاضحیہ ،رقم ۳۱۲۷ ،ج۳ ،ص ۵۳۱)

حدیث شریف : عن عائشہ قالت: قال رسول اللّٰہﷺ ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللّٰہ من اھراق الدم وانہ لیأتی یوم القیامة بقرونہا وأشعارھا وأظلافہا وان الدم لیقع من اللّٰہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بہا نفسا ۔

 ترجمہ:  ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ :ابن آدم (انسان) نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہذا تم اس کی وجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دلوں کو خوش کرو۔ (تِرمِذی ج۳ص۱۶۲حدیث ۱۴۹۸) 

محقق علی الاطلاق خاتم المحدثین حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں : قربانی، اپنے کرنے والے کے نیکیوں کے پلّے میں رکھی جائے گی جس سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا۔(اشعۃُ اللّمعات ج۱ص۶۵۴) 

حضرتِ سید نا علامہ علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :پھر اس کے لئے سُواری بنے گی جس کے ذَرِیعے یہ شخص  بآسانی پُلصراط سے گزرے گا اور اُس(جانور) کا ہرعُضو مالِک( یعنی قُربانی پیش کرنے والے) کے ہر عُضْو (کیلئے جہنَّم سے آزادی)کافِدیہ بنے گا ۔( مرقاۃ المفاتیح ج۳ص۵۷۴تحتَ الحدیث ۱۴۷۰،مراٰۃ ج۲ ص ۳۷۵)

ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس قربانی کا جانور ہو جسے وہ ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو جب ذو الحجہ کا چاند نکل آئے تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ نہ کاٹے یہاں تک کہ کی قربانی کر لے“۔  

ام سلمہ رضی اللہ عنہا بيان فرما رہی ہیں کہ نبی ﷺ نے قربانی کرنے کا ارادہ رکھنے والے شخص کو اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ قربانی کر لے۔ جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے اور آپ اپنی طرف سے یا کسی اور کی طرف سے اپنے مال سے قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو اس صورت میں اپنا كچھ بهى بال نہ کاٹیں، چاہے وہ بغل کے ہوں یا زیر ناف ہوں یا پھرمونچھوں اور سر کے بال ہوں یہاں تک کہ آپ قربانی کر لیں۔ اسی طرح آپ اپنے ناخن بهى نہ کاٹیں، چاہے وہ پاؤں کے ناخن ہوں یا ہاتھ کے یہاں تک کہ قربانی کر لیں۔ صحيح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ: وہ اپنے بالوں اور جلد کو بالکل بھی نہ چھوئے“، يعنى کچھ بھی نہ کاٹے یہاں تک کہ قربانی کر لے۔ ایسا قربانی کے احترام میں ہے اور اس لیے بھی کہ جنہوں نے احرام نہیں باندھ رکھا ہے وہ بھی احرام باندھنے والوں کی طرح بالوں کے احترام میں کچھ نہ کچھ شریک ہو سکیں۔ کیوں کہ انسان جب حج یا عمرہ کرتا ہے تو وہ اس وقت تک اپنے بالوں کو نہیں مونڈتا جب تک کہ قربانی کا جانور اپنے مقام تک نہیں پہنچ جاتا۔ چنانچہ اللہ كى مشيت ہوئى کہ وہ اپنے ان بندوں کے لیے بھی مناسک حج کے شعائر کا ایک حصہ کردے جنہوں نے حج اور عمرہ نہیں کیا ہے۔

قُربانی کرنے والے بال ناخن نہ کاٹیں :

مفسرشہیر حکیم الامت حضرت سیدنا مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ (خلیفہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ)  ایک حدیثِ پاک( جب عَشَرہ آ جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو اپنے بال و کھال کو بالکل ہاتھ نہ لگائے )کے تحت فرماتے ہیں : ’’ یعنی جو امیر وُجُوباً یا فقیر نَفلاً قُربانی کا ارادہ کرے وہ ذوالحجۃ الحرامکا چاند دیکھنے سے قربانی کرنے تک ناخُن بال اور(اپنے بدن کی) مردار کھال وغیرہ نہ کاٹے نہ کٹوائے تا کہ حاجیوں سے قَدْرے(یعنی تھوڑی) مشابہت ہو جائے کہ وہ لوگ اِحرام میں حجامت نہیں کرا سکتے اور تا کہ قربانی ہربال، ناخُن (کیلئے جہنَّم سے آزادی) کافِدیہ بن جائے۔ یہ حکم اِسْتحبابی ہے وُجُوبی نہیں ( یعنی واجِب نہیں ، مُسْتَحَب ہے اور حتَّی الامکان مُسْتَحَب پر بھی عمل کرنا چاہئے البتَّہ کسی نے بال یا ناخن کاٹ لئے تو گناہ بھی نہیں اور ایسا کرنے سے قربانی میں خلل بھی نہیں آتا،قربانی دُرُست ہوجاتی ہے) لہٰذا قربانی والے کا حجامت نہ کرانا بہتر ہے لازِم نہیں ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اچّھوں کی مُشابَہَت(یعنی نقل) بھی اچّھی ہے۔‘‘

غریبوں کی قُربانی:

مزیدآپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’ بلکہ جو قربانی نہ کر سکے وہ بھی اس عشرہ (یعنی ذوالحجۃ الحرام کے ابتِدائی دس ایّام)میں حجامت نہ کرائے ،بقرہ عید کے دن بعد ِنَمازِ عیدحجامت کرائے تو ان شاء اللہ  ( قربانی کا)ثواب پائے گا۔‘‘(مراٰۃالمناجیحج۲ص۳۷۰)

حدیث شریف : عن علی ان رسول اللّٰہﷺ قال: یا فاطمة! قومی فاشہدی أضحیتک، فان لک باوّل قطرة تقطر من دمہا مغفرة لکل ذنب، أما انہ یجاء بلحمہا ودمہا توضع فی میزانک سبعین ضعفا۔ قال ابوسعید: یا رسول اللّٰہﷺ! ہذا لآل محمد ﷺخاصة، فانہم أہل لما خصوا بہ من الخیر، أو للمسلمین عامة؟ قال: لآل محمد ﷺخاصة، وللمسلمین عامة

حضرت سیدنا مولیٰ  علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے) فرمایا: اے فاطمہ! اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت )موجود رہو، اس لئے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا(زیادہ) کرکے رکھا جائے گا۔  حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :اللہ کے رسولﷺ! یہ فضیلت خاندان نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حقدار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لئے ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت اہل بیت اطہار(رضوان اللہ علیہم اجمعین )کے لئے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کے لئے بھی ہے۔ (المستدرک،کتاب الاضاحی، باب یغفر لمن یضحی ،الحدیث:۷۶۰۰،ج۵،ص ۳۱۴)

حدیث شریف : عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہﷺ فی یوم اضحیٰ: ما عمل آدمی فی ہذا الیوم أفضل من دم یہراق الا ان یکون رحماًتوصل۔

 ترجمہ : حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے عید الاضحیٰ کے دن ارشاد فرمایا: آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادہ افضل عمل نہیں کیا، ہاں، اگر کسی رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو۔ (الترغیب والترہیب:2/277)

حدیث شریف : عن علی عن النبیﷺ قال: یا أیہا الناس! ضحوا واحتسبوا بدمائہا، فان الدم وان وقع فی الأرض، فانہ یقع فی حرزاللّٰہ

ترجمہ:  حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر وثواب کی امید رکھو، اس لئے کہ (ان کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے لیکن، وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ وامان میں چلاجاتاہے۔ (الترغیب والترہیب:2/277)

حدیث شریف : عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ ما انفقت الورق فی شئ أحب الی اللّٰہ من نحر ینحر فی یوم عید(أیضاً)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: چاندی (یا کوئی بھی مال) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیا گیا جو اللہ کے نزدیک اس اونٹ سے پسندیدہ ہو جو عید کے دن ذبح کیا گیا۔

حدیث شریف : عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:من وجد سعة لأن یضحی فلم یضح، فلایحضر مصلانا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ (المعجم الکبیر''،الحدیث:۲۷۳۶،ج۳،ص۸۴)

حدیث شریف : عن حسین بن علی قال:قال رسول اللّٰہﷺ من ضحی طیبة نفسہ محتسباً لأضحیتہ کانت لہ حجاباً من النار

حضرت سیدنا امام  حسین بن علی رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص خوش دلی کے ساتھ اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے قربانی کرےگا تو وہ اس کے لئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔ قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے۔(تِرمِذی ج۳ص۱۶۲حدیث ۱۴۹۸)

جس نے خوش دلی سے طالبِ ثواب ہو کر قربانی کی ،تووہ آتَشِ جہنَّم سے حِجاب(یعنی رَوک)ہو جائے گی۔(اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۳ص۸۴ حدیث ۲۷۳۶)

جس شخص میں قُربانی کرنے کی وُسعَت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔(اِبن ماجہ ج۳ص۵۲۹ حدیث۳۱۲۳)

 ایک اور فرمان: جس نے خُوش دِلی سے طالبِ ثواب ہو کر قربانی کی تو وہ(قربانی ) آتشِ جہنم سے حِجاب (روک)ہو جائے گی۔‘‘ 

(4)جو روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں۔‘‘ (المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۸۹۴،ج۱۱،ص۱۴۔۱۵)

حدیث شریف : عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال«مَن كان له سَعَة، ولمْ يُضَحِّ، فلا يَقْرَبَنّ مُصَلّانا ۔‘‘(سنن ابن ماجہ،کتاب الأضاحی،باب الأضاحی واجبۃ ھی أم لا،الحدیث:۳۱۲۳ ،ج۳، ص۵۲۹)

اس حدیث میں  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو مسلمان قربانی کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ عیدگاہ کے قریب نہ آئے اور لوگوں کے ساتھ عید کی نماز نہ پڑھے۔ کیونکہ کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ استطاعت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے۔ قربانی ایک بہت بڑی عبادت اور عید الاضحی کے دن کا ایک دینی شعار ہے۔ جمہور علما اسے سنت موکدہ کہتے ہیں، جب کہ کچھ علما استطاعت رکھنے والے کے حق میں واجب کہتے ہیں۔

      حضور نبی کریم ﷺکا ہر سال قربانی کرنا قربانی کی اہمیت ، فضیلت اور تاکید کے لیے کافی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺسیاہ اور سفید رنگت والے اور بڑے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی فرما کرتے تھے اور اپنے پاؤں کو ان کی گردن کے پاس رکھ دیا کرتے تھے اور اپنے دستِ مبارک سے ذبح فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری)قربانی کے عمل کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضورنبی کریم…نے حجتہ الوداع کے موقع پر ایک وقت میں سو اونٹوں کی قربانی فرمائی،ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم …نے خود اپنے دستِ اقدس سے سومیں تریسٹھ اونٹوں کو ذبح فرمایا؛جب کہ باقی کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔(صحیح بخاری(

کیا قرض لیکر بھی قربانی کرنی ہو گی؟

جو لوگ قربانی کی استِطاعت (یعنی طاقت ) رکھنے کے باوُجُود اپنی واجِب قربانی ادا نہیں کرتے، ان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ، اوَّل یِہی خسارہ(یعنی نقصان) کیا کم تھا کہ قربانی نہ کرنے سے اتنے بڑے ثواب سے محروم ہو گئے مزید یہ کہ وہ گناہ گار اور جہنَّم کے حقدار بھی ہیں ۔فتاوٰی امجدیہ جلد3صَفحَہ315 پر ہے:’’ اگر کسی پر قربانی واجِب ہے اور اُس وَقت اس کے پاس روپے نہیں ہیں توقَرض لے کر یا کوئی چیز فروخت کر کے قربانی کرے۔‘‘

 بعض لوگ پورے گھر کی طرف سے صِرْف ایک بکرا قُربان کرتے ہیں حالانکہ بعض اَوقات گھر کے کئی اَفراد صاحِبِ نصاب ہوتے ہیں اور اِس بِنا پر ان ساروں پر قربانی واجِب ہوتی ہے ان سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کی جائے۔ایک بکرا جو سب کی طرف سے کیا گیا کسی کا بھی واجِب ادا نہ ہوا کہ بکرے میں ایک سے زیادہ حصّے نہیں ہوسکتے کسی ایک طے شدہ فردہی کی طرف سے بکرا قربان ہوسکتا ہے۔نابالِغ کی طرف سے اگرچِہ واجِب نہیں مگر کر دینا بہتر ہے (اور اجازت بھی ضَروری نہیں) ۔بالغ اولاد یا زَوجہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو اُن سے اجازت طلب کرے اگر ان سے اجازت لئے بِغیر کردی تو ان کی طرف سے واجِب ادا نہیں ہوگا۔ (عالمگیری ج٥ص٢٩٣،بہارِ شریعت ج٣ص٤٢٨)اجازت دوطرح سے ہوتی ہے: (١) صَراحَۃً مَثَلاً ان میں سے کوئی واضِح طورپر کہہ دے کہ میری طرف سے قربانی کردو۔ (٢) دَلالۃً (UNDER STOOD) مَثَلاً یہ اپنی زَوجہ یا اولاد کی طرف سے قربانی کرتا ہے اوراُنہیں اس کا عِلْم ہے اوروہ راضی ہیں۔ (فتاوٰی اہلسنّت غیر مطبوعہ)

(4):قربانی کے وَقْت میں قربانی کرنا ہی لازِم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مَثَلاً بجائے قربانی کے بکرا یااُس کی قیمت صَدَقہ(خیرات) کردی جائے یہ ناکافی ہے۔ (عالمگیری ج٥ص٢٩٣،بہارِ شریعت ج٣ص٣٣٥ )

 نیز زکوٰۃ اور قربانی کے لئے صاحب نصاب ہونے میں فرق ہے۔ زکوٰۃ کے صاحب نصاب شخص کے لئے ایک سال گزرنا ضروری ہے لیکن قربانی والا مگر عید کی رات بھی اتنی رقم کا مالک ہو جائے جو قربانی کے نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہو جاتی ہے۔ 

ایک اہم مسئلہ:۔ شریعت نے قرض لے کر قربانی کرنے سے منع فرمایا کیوں کہ شریعت کسی کوتکلیف نہیں دینا چاہتی بلکہ اس کا ازالہ کرتی ہے۔ 

قربانی کے آداب

قربانی کا جانور خوبصورت اور خوب موٹا تازہ ہو کیوں کہ راہ خدا میں عمدہ چیز دی جائے۔ اور اس معاملہ میں صرف ایک فریضہ ادا کرنے والی بات نہ ہو بلکہ دل سے اس حکم کو پورا کیا جائے۔ اسی لئے فرمایا پرورگار کے ہاں قربانی کے جانور کا گوشت اور خون نہیں پہنچنے بلکہ تمہارا تقویٰ (نیت ) وہاں پہنچتا ہے۔

قربانی میں ریاکاری سے اجتناب کرنا چاہئے اور نہ ذہن میں یہ سوچ ہو کہ اگر میرا کوئی پڑوسی یا دوست اتنی رقم کا جانور لے کر آیا ہے۔ تو میں اس کے مقابلے میں اس سے مہنگا اور اچھا جانور لائوں گا۔ لیکن اگر یہ سوچ ہو کہ اس نے خدا کی راہ میں اتنی رقم کا جانور قربان کیا ہے اور میں اس سے بڑھ کر قیمتی جانور قربانی کروں گا۔ تو پھر یہ کوئی حرج نہیں اور حدیث میں اس کو درست اور باعث ثواب قرار دیا گیا ہے۔ 

قربا نی سے چند دن پہلے جانور گھر میں باندھے اور اس کی خدمت کرے تاکہ خدمت کا ثواب بھی حاصل ہواور گھر میں رکھنے سے جو انس پیدا ہو گا ذبح کرتے وقت جانور کی جدائی پر جو تکلیف ہو گی اس کا ثواب بھی حاصل ہو۔ قربانی کے جانور کو مارنے یا اذیت دینے سے اجتناب کیا جائے۔ 

قربانی کے جانور کے سامنے چھری نہ تیز کیا جائے۔

قربانی کے جانور کے سامنے کسی جانور کو ذبح نہ کیا جائے۔

قربانی کرنے والا اگر اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہوں تو خود ذبح کرے ورنہ دوسرے سے کرائے۔

 جانور کو قبلہ رخ لٹایا جائے اور ذبح کرنے والا بھی خود قبلہ رخ ہو یہ سنت ہے۔یہ دعا پڑھے:اگر یہ دعا نہ پڑھ سکے۔ تو یوں کہے۔ اے اللہ تیری توفیق سے تیری راہ میں قربان کر رہا ہوں اپنے فضل سے قبول فرما اور ذخیرہ آخرت بنا۔ اے اللہ میرا مرنا جینا اور میری ساری عبادتیں صرف تیرے لئے ہیں اور تیرا کوئی بھی شریک نہیں۔

بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے۔

ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے۔اے اللہ اپنی بارگاہ میں اسی طرح اس قربانی کو قبول فرما جس طرح تو نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے اور اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ اسلام سے قبول فرمایا۔

ذبح کرنے نے فوراً بعد کھال نہ اتارے بلکہ جسم کے ساکن اور ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرے۔

گوشت کے تین حصے کرے یہ مسنون عمل ہے ایک حصہ راہ خدا میں غریبوں میں تقسیم کرےایک حصہ رشتہ داروں میں تقسیم کرے ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لئے رکھے۔تاہم یہ ضروری ہے کہ جو حصہ اپنے لئے پسند کرے اسی طرح کا گوشت رشتہ داروں اور غرباء میں بھی تقیسم کرے ۔