یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب الدمشقی (ماں کا نام: میسون تھا اور وہ
شام کی کلبیہ قبیلہ کی مسیحی خاتون تھی) وہ بد نصیب شخص ہے جس کی پیشانی پر اہل
بیت کرام علیہم الرضوان کے بے گناہ قتل کا سیاہ داغ ہے اور جس پر ہر قَرَن میں
دنیا ئے اسلام ملامت کرتی رہی ہے اور قیامت تک اس کا نام تحقیر کے ساتھ لیا جائے
گا۔
یہ بد باطن ،سیاہ دل ، ننگِ خاندان 25ھ میں
ا میر معاویہ کے گھر مَیْسون بنت بَحْدَل کلبیہ کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ نہایت موٹا،
بدنما، کثیرالشعر ، بدخُلْق، تُنْدخُو، فاسق، فاجر، شرابی، بدکار،ظالم، بے ادب،
گستاخ تھا۔ اس کی شرارتیں اور بیہودگیاں ایسی ہیں جن سے بدمعاشوں کو بھی شرم آئے۔ حضرت
سیدناعبداللہ جو حضرت سیدنا حنظلہ غسیل الملائکہ کے صاحبزادے ہیں وہ فرماتے ہیں: واللہ ما
خرجنا علیٰ یزید حتی خفنا ان نرمی باالحجارۃ من السماء۔ خداعزوجل کی قسم!ہم نے یزیدپراس وقت خروج کیا
جب ہم لوگو ں کو اندیشہ ہوگیا کہ اس کی
بدکاریوں کے سبب ہم پرآسمان سے پتھر وں کی
بارش ہوگی اس لئے فسق و فجورکا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنی ماں بہنوں اور بیٹیوں سے
نکاح کررہے تھے ، شرابیں پی جارہی تھیں اور دیگر منہیات شرعیہ کا علانیہ رواج
ہوگیا تھا اور لوگوں نے نماز ترک کردی تھی۔ ( تاریخ الخلفاء306،طبقات ابن سعدج5/66،ابن اثیر
ج4/41)
سید الشہداء سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے
یزیدی لشکر کے سامنے جو خطبہ دیا اس میں بھی یزیدپلید کے خلاف نکلنے کی یہی وجہ ارشاد فرمائی: خبردار! بیشک ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کرلی ہے
اور رحمان کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے اور فتنہ و فساد برپا کردیا ہے اور حدودشرعی کو
معلطل کردیا ہے ۔ یہ محاصل کو اپنےلیے خرچ کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ
باتوں کو حلال اور حلال کردہ کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ (تاریخ ابن اثیر ج 4/20)
یزید پلید نے مدینہ طیبہ ومکہ مکرمہ کی بے
حرمتی کرائی۔ ایسے شخص کی حکومت گُرْگ کی چوپانی سے زیادہ خطرناک تھی، اَرْبابِِ
فِرا سَت اور اصحابِِ اَسر ار اس وقت سے ڈرتے تھے جب کہ عِنانِ سلطنت اس شَقِی کے
ہاتھ میں آئی، 59 ہجری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
دعا کی: اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ رَأْسِ السِّتِّیْنِ وَاِمَارَۃِ الصِّبْیَان
یارب! عزوجل میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں 60ھ
کے آغاز اور لڑکوں کی حکومت سے۔''(فتح الباری1/216، سوانح کربلاص81)
ایک دوسری روایت میں ہےکہ حضرت ابوہریرہ بازار سے گزرتے ہوئے یہ دعا کیا کرتے
تھے:
اللھم لا
تدرکنی سنۃ ستین ولاامارۃ الصبیان اے اللہ ! میں ساٹھ ہجری اور بچوں کی
امارت کے زمانہ کو نہ پاؤں۔ ( فتح الباری 12/10)
اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ جوحاملِ اسرار تھے انھیں معلوم تھا کہ 60ھ کا آغاز لڑکوں کی
حکومت اور فتنوں کا وقت ہے۔ ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور انہوں نے 59 ھ میں بمقام
مدینہ طیبہ رحلت فرمائی۔ (سوانح کربلاص 81،خطبات محرم ص 324)
ان کا مدعا یہ تھا کہ ایک خوفناک دور شروع
ہونے والا ہے جس میں اوباش لڑکے سلطنت و حکومت پر قابض ہوں گے جس سے امت مسلمہ کو
ناقابل تلافی نقصان ہوگا، ایسے اوباش
لڑکوں کے بارے میں حضور سیددوعالم ﷺ نے پہلے ہی خبردار فرمادیا تھا: ھلاک ھذہ
الامہ علی یدی اغیلمۃ من قریش۔ اس امت کو ہلاکت
قریش کے اوباش نوجوانوں کے ہاتھوں ہوگی۔ (صحیح البخاری 1/809،صحیح البخاری 2/1046،المستدرک للحاکم
4/526)
ان فساد
امتی یدی اغیلمۃ سفھاء بیشک میری امت جھگڑا و فساد بے وقوف اوباش کے
ہاتھوں برپا ہوگی۔(مسند
احمد بن حنبل 2/304،صحیح ابن حبان 15/108،التاریخ الکبیر 7/309)
حضرت سیدتنا ام سلمہ روایت کرتی ہیں کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا : یقتل حسین بن علی علی راس سیتن من مھاجر تی میرے جگر گوشہ ) حسین بن علی کو سن 60 ہجری کے اختتام پر
شہید کردیا جائے گا۔(المعجم
الکبیر للطبرانی 3/105،تاریخ بعداد 1/142،مجمع الزوائد للہیثمی، 9/190)
یہی روایت مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ مروی ہے:
یقتل حسین بن علی راس ستین من مھاجر حین یعلوہ القتیر ، القتیر
الشیب۔
(میرے جگر گوشہ ) حسین بن علی کو سن 60 ہجری
کے اختتام پر شہید کردیا جائے گا کہ جب ایک (اوباش) نوجوان ان پر چڑھائی کرےگا۔ (مسند الفردوس للدیلمی ، 5/539)
حضور اکرم ﷺ کے اس پیشن گوئی کے مطابق سن 60
ہجری میں قبیلہ قریش کی شاخ بنوامیہ کا
اوباش نوجوان یزید پلید بن معاویہ تخت نشین ہوا ، اور 61 ہجری کے ابتدائی دس دنوں
میں سانحہ کربلا پیش آیا جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے یزید کی
حکومت سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا تھا اور بتا دیا تھا کہ یہی وہ شخص ہوگا جو
اہل بیت کے خون سے ہاتھ رنگے گا۔چنانچہ حضور ﷺ کے حکم کی پیروی میں حضرت سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یزید پلید کی
نوخیز اور لاابالی حکومت اور اس کے ظلم وستم سے بھرپور دور سے پنا ہ مانگا کرتے
تھے۔ اللھم لا
تدرکنی سنۃ ستین ولاامارۃ الصبیاناے اللہ ! میں ساٹھ ہجری اور بچوں کی امارت کے زمانہ کو نہ پاؤں۔ ( فتح الباری 12/10)
امارۃ
الصؔبیان کی تشریح علامہ ملاعلی قاری علیہ
الرحمہ فرماتے ہیں:
امارۃ الصؔبیان سے مراد جاہل چھوکروں کی
حکومت ہے جیسے یزید بن معاویہ اور حکم بن مروان کی اولاد اور ان کے ہم مثل ایک
روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے انہیں اپنے منبر پر کھیل کود کرتے ملاحظہ فرمایا ہے
(اس سے وہی لوگ مراد ہیں) ۔ (فتح الباری جلد 3 صفحہ 7 ،صواعق محرقہ)
اس حدیث کے تحت علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں
کہ یزید کے متعلق جو باتیں مذکور ہے جن کو حضوراقدس ﷺ نے بیان فرمایا ہے ان کا علم
آپ کے بتانے سے حضرت ابوہریرہ کو ہوا تو وہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ 60 ہجری
کی ابتدا اور چھوکروں کی امارت سے تیری پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالی نے ان کی
دعا قبول فرمائی یہ 59 ہجری میں وفات
پاگئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد یزید کی حکومت 60 ہجری میں ہوئی۔ (
الصواعق المحرقہ 33)
اس حدیث کے تحت علامہ شیخ محقق عبدالحق دہلوی
لکھتے ہیں کہ یزید کا زمانہ جس کی ابتداء
60 ہجری سے ہوئی (جس میں شہادت امام حسین کے) بعد واقعہ حرہ بھی ہے اور یہی
نشانیاں ہیں اس میں اور یزید اس سے مراد ہے۔ (جذب القلوب صفحہ 33)
قاضی ثناء الله پانی پتی صاحب فرماتے ہیں کہ چھوکروں اور احمقوں کی حکومت
سے مراد یزید کی حکومت کی طرف اشارہ ہے۔ (تفسیر مظہری جلد اول ص 139)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ امت میں سب سے پہلے فساد برپاد کرنے والا ،
سنتوں کو پامال کرنے والا ، دین میں رخنہ
و شگاف ڈالنے والا ، بنی امیہ کا یزید نا می ایک شخص ہوگا۔
اس سلسلہ میں فن حدیث کے ائمہ اعلام امام ابوبکر
ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 235ہجری) نے اپنی مصنف میں ، امام احمد بن
حسین بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے ( متوفی 485 ہجری) نے دلائل النبوۃ میں ، حافظ ابن
حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ( مولود 773 ہجری متوفی 852 ہجری) نے المطالب العالیہ
میں ، امام شہاب الدین احمد بن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے الصوارق المحرقہ میں اور
علامہ ابن کثیر ( مولود 700 ہجری متوفی 774 ہجری) نے البدایہ والنہایہ میں امام
جلال الدین سیوطی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الخلفاء میں احادیث کریمہ نقل
فرمائی ہیں ۔
تیسری صدی
ہجری کے جلیل القدرمحدث امام ابو یعلی رحمۃ اللہ علیہ ( مولود 211 ہجری متوفی 307
ہجری)نے اپنی مسند میں سند کے ساتھ صحابی رسول حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ
حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عن ابی
عبیدہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم لا یزال امرامتی قائما بالقسط حتی یکون اول من یثلمہ رجل
من بنی امیہ یقال لہ یزید رجالہ
ثقات غیرا نہ منقطع۔ (مسند ابویعلیٰ 2/176 الحدیث 871)
'' حضر سیدنا ابوعبیداللہ بن حراح رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا "ہمیشہ میری امت میں عدل و انصاف قائم رہے گا
یہاں تک کہ پہلا رَخْنہ انداز وبانیٔ ستم بنی اُمَیَّہ کا ایک شخص ہوگا جس کانام
یزید ہوگا۔ اسکے تمام راوی ثقہ و معتبر ہیں ۔'' (مسند ابی یعلی 2/176 ، رقم 871،سیر اعلام النبلاء ،ص 375،مجمع الزوائد 5/214،لسان المیزان 6/294)
ونیز ابوالفداء اسماعیل بن عمر ، معروف بہ
ابن اکثیر ( مولود 700 ہجری متوفی 774 ہجری) نے اپنی کتا ب البدایہ والنہایہ جلد 6
ص 256 میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
مذکورہ حدیث شریف کو محدث کبیر امام شہاب
الدین احمد بن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ابھی الصوارق المحرقہ ص 132 میں ذکر
فرمائی ہے۔
عن ابی
الدرداء رضی اللہ عنہ قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول اول من یبدل سنتی رجل من بنی امیہ یقال لہ
یزید
محدث رویانی نے اپنی مسند میں صحابی رسول حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی
ہے میں نے حضو ر اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سناکہ حضور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو میر ی سنت کو بدلے گا وہ
بنوامیہ کا ایک شخص ہوگاجس کانام یزید ہوگا۔''
علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ ج 6 ص 256 میں حضرت ابوذر غفاری کی روایت سے
نقل کیا اس میں "یقال لہ یزید " کے الفاظ مذکور نہیں ،نیر یہ روایت
مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 4/341،دلائل
النبوۃ الحدیث 2802،کتاب الفتوح الحدیث
4584)
مذکورہ بالا حدیث سے یزید پلید کی اصل صورت
سامنے آجاتی ہے کہ امت کی بربادی کا سبب اور سنت رسولﷺ کو بدلنے والا اولین شخص
یزید پلید ہے اس کا انکار رسول ﷺ کی احادیث سے انکار ہے جس کی جسارت کوئی مسلمان
نہیں کرسکتا۔