ملک العلماء، قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ ، غوث
العالم محبوب یزدانی مخدوم سید اشرف جہانگیر
سمنانی قد س سرہ النورانی ] متوفی : ۸۰۸ ہجری [ کے ایک جلیل القد رخلیفہ ہیں ۔ آپ علیہ الرحمہ ہمہ جہت فضل و کمال
کے حامل اور شریعت وطریقت کے جامع تھے ، مختلف علوم وفنون میں امامت و عبقریت کا درجہ حاصل
تھا ، اور اپنے دور کے ممتاز علماے کرام کے میر کارواں اور مشہور ومعروف مصنفین
میں سر فہرست تھے۔
ملک العلماء کا نام ونسب: آپ علیہ الرحمہ کا نام :
احمد ،لقب : شہاب الدین اور ملک
العلماء ہے ۔ آپ کے والد کا نام : عمر
،کنیت : ابوالقاسم اور لقب : شمس الدین ہے ۔ والد کے لقب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ
بھی اپنے دور کے مشاہیرارباب فضل وکمال میں سے تھے ۔ آبائی وطن : آپ
علیہ الرحمہ کے آباواجداد زابل
/زابُلستان“ کے ایک مشہور ومعروف شہر غزنہ /غز نین“ میں رہتے تھے۔ (تاریخ فرشتہ /ملا محمد قاسم ہندو شاہ /جلد دوم/صفحہ 3٠٦) اور ان کی ولادت چونکہ ملک ہندستان میں ہوئی ہے ؛ اس لیے انہیں ” ہندی“ کہا جا تا ہے اور ان کی
خاص جاے ولادت” دولت آباد کی طرف نسبت کرتے ہوئے انھیں دولت آبادی“ کہا اور لکھا
جا تا ہے ، اور یہی نسبت زیادہ مشہور ہے ۔ ولادت اور تعلیم وتربیت : قاضی شہاب الدین دولت آبادی ۶۱ ۷ ہجری میں ” دولت آباد، دہلی“ میں
پیدا ہوئے اور وہیں ان کی نشوونما ہوئی ۔[تذکرہ علماء مع حواشی
تعلیقات صفحہ ٢٩]
ملک العلماء کی علمی شان وشوکت :قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ کی علمی شان وشوکت کا اندازہ ان
الفاظ و کلمات سے لگایا جا سکتا ہے جو ان کے معاصر علما ومشاع ، مؤر خین وسوانح
نگار، بالخصوص ان کے استاد گرامی حضرت علامہ قاضی عبد المقتدر دہلوی اور ان کے پیرو مرشد غوث العالم سلطان سید اشرف
جہانگیرسمنانی علیہم الرحمہ کی زبان سے نکلے اور تاریخ کے صفحات پر نقش ہو گئے ۔
علامہ عبدالمقتدردہلوی علیہ الرحمہ کے کلمات : حضرت علامہ قاضی عبد
المقتدر دہلوی علیہ الرحمہ اپنے اس
شاگرد رشید کے بارے میں ارشادفر مایا کرتے تھے"میرے پاس ایک ایسا طالب علم آ
تا ہے جس کا گوشت ، پوست اور ہڈی علم ہی علم ہے اس طالب علم سے ان کی مراد قاضی شہاب الدین ہوتے
تھے۔ (اخبار الاخیار فی سرالاسرار
صفحہ ۱۴۸) پیرومرشد سیداشرف جہانگیر سمنانی
کے کلمات : قاضی شہاب الدین دولت آبادی
کے شیخ طریقت ،غوث العالم ، مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ النورانی اپنے اس نامور خلیفہ کے فضل و کمال کا اظہاران
گراں قدرکلمات سے کرتے ہیں: ترجمہ فارسی " ہم نے ہندستان میں قاضی شہاب الدین
جیسی فضیلت و بزرگی کسی دوسرے شخص میں کم ہی دیکھی ہے "۔( لطائف اشرفی فی بیان طوائف صوفی ، ج: ۲ ص ۱۰۵) مزید آپ قد س سرہ
النورانی اپنے ایک مکتوب میں قاضی شہاب
الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ کو اس طرح
یاد کرتے ہیں: ” برادر اعز وارشد ، جامع العلوم ، قاضی شہاب الدین نور الله تعالى قلبہ بأنوار اليقين [ اخبار الاختيار فی اسرارالابرار ص: ۱۶۲ ،
مطبع مجتبائی ، دہلی)
برادر روحانی حضرت نظام
الدین غریب یمنی علیہ الرحمہ کے کلمات : قاضی شہاب الدین دولت
آبادی علیہ الرحمہ کے برادر روحانی شیخ
نظام الدین غریب یمنی علیہ الرحمہ نے ”لطائف
اشرفی“ کے صفحات پر ان الفاظ میں ان
کا ذکر جمیل کیا ہے :” آپ دور کے امام اور علاقے کے میرکارواں قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ
الرحمہ جو اجلہ علماے کرام کے مقتدی اور اصول وفروع کے ماہرین کے پیشوا ہیں ، وہ پناہ
ولایت اور سرمایہ ہدایت حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ کے خلفا ء
میں سے ہیں ۔ شیخ موصوف اس کتاب میں چند سطروں کے بعد اس امام روز گار اور ہمام دیار کا
بیان درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں:ترجمہ فارسی "وہ ( قاضی شہاب الدین ) ولایت
مآب (سید اشرف جہانگیرسمنانی ) کے جلیل القدرخلیفہ اور بہترین ہمنشیں اصحاب میں سے
ہیں ، وہ علوم ظاہری و باطنی کے جامع ، معاملات یقینی کے حامل ، واردات دینی سے
بہرہ ور اور شریعت کے مسائل سے خوب آگاہ اور ان پر عامل ہیں، انھوں نے ریاضات
شدیدہ اور مشاہدات جدیدہ میں اس قد ر جد و جہد کی کہ بہتر اجازت و خلافت سے شاد
کام ہوئے" ۔( لطائف اشرفی فی بیان
طوائف صوفی ، ج:۱ ص:۲۱۰) خواجہ تاش
شیخ واحدی علیہ الرحمہ کے کلمات : ملک العلماءقاضی شہاب الدین دولت آبادی کے ایک خواجہ تاش اور غوث
العالم مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید وخلیفہ شیخ واحدی نے
ان کے علم وفضل کی وسعت کا ذکر ایک قطعہ میں اس طرح کیا ہے: فارسی ترجمہ" تیرے علم کی فوج ، تیغ زبان کے
ذریعہ نجم سے عرب تک کے تمام شہروں کو فتح کر چکی ہے ، جب تو نے عراق کی عربیت کو
اپنے قبضے میں لے لیا ہے تو فارسی کو واحدی کے لیے چھوڑ دو۔) لطائف اشرفی فی بیان
طوائف صوفی ، ج:۲،ص:۱۰۲ )
ملک العلماء کے معروف ومشہور اساتذہ: آپ علیہ الرحمہ کے اساتذہ
کرام میں صرف دو نام کتابوں میں ملتے ہیں: (۱) قاضی عبدالمقتدر بن رکن الدین شریحی
کندی علیہ الرحمہ ۔ (۲) مولانا خواجگی بن
مدینی دہلوی علیہ الرحمہ ۔ قاضی صاحب کی
شخصیت سازی میں ان دونوں اسا تذہ کی توجہ نے بڑا کام کیا ، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان
ہی اساتذہ کرام کی نگاہ کیمیا اثر نے قاضی صاحب کے اندر ملک العلماء بننے کی استعداد بخشی ۔ تدریس کا آغاز : قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ جب مروجہ علوم وفنون کی تحصیل
وتکمیل سے فارغ ہوئے تو دہلی ہی میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ کالپی کی طرف روانگی : مولوی رحمان علی اپنی کتاب ” تذکرہ علمائے ہند“ میں تحریر
کرتے ہیں: ترجمہ فارسی " جس وقت امیر تیمور کی فوج نے دہلی کا رخ کیا تو اس کے
دہلی پہنچنے سے پہلے ہی قاضی شہاب الدین اپنے استاذ مولا نا خواجگی کے ساتھ دہلی
سے کالپی کی طرف چل پڑے ۔مولانا خواجگی نے” کالپی“ میں سکونت اختیار کر لی اور
قاضی صاحب جون پور چلے گئے" ۔ [ تذکر و
علماےہند: ۸۸: طبع : نول کشور، لکھنو ] قاضی صاحب کس تاریخ یا
کس سنہ میں ” جون پور تشریف لائے ، اس سلسلے میں تذکرہ نگار خاموش نظر آتے ہیں۔ مختلف
کتابوں کی ورق گردانی سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ جون پور تشریف لائےاس
وقت وہاں سلطان ابراہیم شاہ شرقی کی حکمرانی تھی اور سید مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی
علیہ الرحمہ بقید حیات تھے۔ سلطان ابراہیم شاہ شرقی اپنے بھائی مبارک شاہ شرقی کے انتقال کے
بعد ۸۰۴
ہجری میں تخت نشیں ہوا اور حضرت سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ کا
وصال ۸۰۸ ہجری میں ہوا، گو یا ۸۰۴ ہجری سے ۸۰۸ ہجری کے درمیان کسی وقت قاضی صاحب علیہ الرحمہ جون پورتشریف لائے ۔
مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی
علیہ الرحمہ سے پہلی ملاقات : سلطان ابراہیم شاہ شرقی نے جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو اس کے دل
میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب دنیا میں حضرت جنیدبغدادی علیہ الرحمہ اور حضرت ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ جیسے فقیر نہیں رہے۔ایک شب خواب میں اسے ہدایت
ہوئی کہ اس زمانہ میں بھی ایسے فقرا ء موجود ہیں جو جنید و شبلی سے کم نہیں ہیں ،مگر طلب شرط ہے ۔صبح ہوتے ہی
سلطان نے فقراء کی تلاش وجستجو اور ہر درویش وصوفی سے ملاقات شروع کر دی۔ ان ہی ایام میں غوث
العالم محبوب یزدانی مخدوم سلطان سید اشرف
جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ اپنے خدام وا حباب کے ساتھ روح آباد، کچھو چھہ شریف سے جون پور
تشریف لائے اور سلطان ابراہیم شاہ شرقی
کی جامع مسجد میں قیام فرمایا ۔ سلطان کو
جب اس کی خبر ہوئی تو اس نے اپنی عادت کے مطابق شرف دیدار حاصل کرنے کا ارادہ کیا
، اس وقت ملک العلماء ، قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ نے سلطان سے کہا:
ترجمہ فارسی " آنے والے درویش اجنبی
ہیں (ان کے مزاج سے ہمیں کچھ بھی واقفیت نہیں ہے) جاننے والے بتارہے ہیں کہ وہ سید
ہیں اور بڑے پایہ کے بزرگ ہیں ،لہذا بہتر یہ ہے کہ پہلے میں جاؤں اوران کے طور
طریقے اور مزاج سے واقفیت حاصل کروں ۔
سلطان ابراہیم نے اس راے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا:”بسیار خوب“ ۔ یعنی
بہتر ہے، آپ تشریف لے جائیں ۔ قاضی صاحب ارباب علم وفضل کی ایک جماعت کے ساتھ
مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ کی
خدمت میں حاضر ہوئے ۔ سید صاحب اس وقت ظہر کی نماز ادا کر کے اورادووظائف میں
مشغول تھے، جب ان کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ
ملاقات کے لیے آرہے ہیں تو دریافت فرمایا کہ کون ہیں؟ خدام نے عرض کیا : "
ترجمہ فارسی" قاضی شہاب الدین جو تمام علوم میں ماہر اور جملہ فنون میں مشہور
ومعروف ہیں ، یہی ہیں۔ قاضی شہاب الدین
صاحب نے بزرگوں کی بارگاہ کے آداب کو خوب ملحوظ رکھا اور ابھی جامع مسجد سے دور ہی
تھے کہ پالکی سے اتر پڑے اور اپنے ہمراہی علما و فضلا سے فرمایا: ترجمہ فارسی "اس ملاقات میں ہرگز کوئی شخص
اپنی برتری کا اظہار نہ کرے اور نہ ہی کوئی علمی مسئلہ چھیڑے ؛
کیوں کہ سید صاحب کی پیشانی کے حسن و جمال میں ولایت کا نورجگمگا رہا ہے۔ اس کے بعد قاضی صاحب
یہ قطعہ گنگناتے ہوئے سید صاحب سے ملاقات کےلیے آگے بڑھے: ترجمہ
فارسی " ان کی پیشانی سے کیسا نور چمک رہا ہے کہ فلک کا آفتاب اس
کےسامنے ذرہ معلوم ہورہا ہے ۔سید اپنی ذات میں لہریں مارنے والا دریا ہیں کہ اس کے
مقابلہ میں دنیا کے در یا قطرہ کی طرح ہیں "۔ سید صاحب بھی قاضی صاحب کے
استقبال کے لیے باہر تشریف لائے، ملاقات ہوئی اور انھیں نہایت ادب واحترام سے
بٹھایا ،دونوں میں مختلف موضوعات پر دیر تک گفتگو جاری رہی ۔ اس موقع کا ذکر کرتے
ہوئے لطائف اشرفی کے مرتب شیخ نظام الدین غریب یمنی علیہ الرحمہ نے بڑاشان دارشعر
لکھا ہے۔ ترجمہ فارسی " جب ادھر سے قند اور ادھر سے دودھ بکھرے
تو پھر قند اور دودھ کے امتزاج سے مٹھاس کیوں کر نہ پیدا ہو۔ قاضی صاحب نے اپنے
ہمراہی علماوفضلا کو سید صاحب کی بارگاہ میں اظہار برتری اور علمی مباحث چھیڑنے نے
سے منع کر دیا تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے کوئی سوال تو نہیں کیا لیکن ان میں سے
ہر ایک کے دل میں کوئی نہ کوئی پیچیدہ مسئلہ کھٹک رہا تھا اور وہ حضرات اس کا جواب
چاہ رہے تھے۔اس مجلس میں سید صاحب کے ایک مرید شیخ ابوالوفاخوارزمی موجود تھے ، جو
تمام علوم وفنون میں کمال رکھتے تھے، انھوں نے نورفراست سے ان حضرات کی دلی کیفیت
جان لی اور ان پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے ایسی عمدہ اور جامع تقر یرفرمائی کہ
تمام حاضر میں مطمئن ہو گئے اور قاضی صاحب بھی بہت مسرور ہوئے۔ آخر میں قاضی صاحب
نے سید صاحب سے عرض کیا : ترجمہ فارسی "
سلطان ابراہیم آج آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہونا چاہتے تھے ،مگراس نے چاہا
کہ پہلے آپ کا یہ نیازمند خودشرف زیارت حاصل کر لے، ان شاء اللہ کل ہم سلطان کے
ساتھ حضرت کی قدم بوسی کا شرف حاصل کر یں گے "۔ اس کے جواب میں سید صاحب نے
فرمایا: ترجمہ فارسی"فقیر کے نزدیک
آپ کا مرتبہ سلطان سے بہت زیادہ بلند ہے ،اگر سلطان آتے ہیں تو بادشاہ وقت ہیں ،
ان کو اختیار ہے" ۔ملاقات کے بعد قاضی شہاب الدین صاحب اپنے ہمراہی علم وفضلا
کے ساتھ رخصت ہو گئے ۔ ان کے جانے کے بعد سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ نے اپنے مریدین ومعتقدین کے درمیان
قاضی صاحب کے بارے میں ان کلمات کے ذریعہ اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا:” ہندستان
میں اس قدر فضیلت والے علما ہم نے کم ہی دیکھے ہیں “۔ [لطائف اشرفی فارسی ج:۲ ص:
۱۰۴]
مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ سے دوسری ملاقات : دوسرے دن سلطان ابراہیم شاہ شرقی اپنے امرا، وزرا، علما و فضلا کے
ہمراہ بڑی شان وشوکت کے ساتھ مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی کی خدمت میں حاضری
کےارادہ سے نکل پڑا ، قاضی شہاب الدین دولت آبادی بھی ساتھ تھے ، جب سلطان مسجدکے
دروازہ پر پہنچا تو قاضی صاحب نے سلطان سے فرمایا: ترجمہ فارسی "اس سلطانی خدام وحشم
اور لوگوں کے جم غفیر کے ساتھ سید صاحب سے ملاقات کرنا مناسب نہیں ہے ،کہیں ایسا
نہ ہو کہ لوگوں کا یہ بڑا از دحام سید صاحب کےلیے کلفت اور پریشانی کا باعث ہو ۔ یہ سن کر سلطان ابراہیم شاہ شرقی اپنی سواری سے اتر
پڑا اور اپنے ہمراہی امرا، وز را اورار باب فضل و کمال میں سے قریب بیس افراد کا انتخاب کیا ، پھر یہ
منتخب جماعت مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ کی زیارت اور ان کی قدم بوی سے
سرفراز ہوئی اور ان کی بارگاہ کا اس درجہ ادب واحترام ملحوظ رکھا کہ سید صاحب ،
سلطان سے بہت خوش ہوئے ۔ اس زمانہ میں سلطانی فوج” قلعہ جنادہ“ کا محاصرہ کیے ہوئے
تھی اور خود سلطان کو اس سلسلے میں بڑی فکر تھی جس کا تذکرہ اشارۃً و کنایۃً سلطان ابراہیم شاہ شرقی نے
سید صاحب سے کیا ۔سید صاحب نے اسی انداز میں فتح کی بشارت دی اور جب سلطان رخصت
ہونےلگا تو اپنی خاص مسند جو ولایت سے لائے تھے اس کو عنایت فرمائی جس سے سلطان
بہت خوش ہوا، اور دربار میں پہنچنے کے بعد سید صاحب کے متعلق اس طرح سے اپنے
تاثرات کا اظہار کیا: ترجمہ فارسی "
سید صاحب کس قدر عالی مرتبہ اور با مقصد بزرگ ہیں ،اللہ کا شکر ہے کہ ہندستان میں
ایسے اشخاص تشریف لا چکے ہیں ۔ اس واقعہ
کے تین روز بعد" قلعہ جنادہ" کی فتح کی خوش خبری آئی تو سلطان ابراہیم شاہ شرقی چند افراد کے
ہمراہ سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ، فتح کی خوش خبری سنائی اور عقیدت ومحبت کا
اظہار کرتے ہوئے عرض کیا: ترجمہ فارسی "نا چیز حضرت میر کا دست ارادت تھام
چکا ہے (ان سے مرید ہو چکا ہے )، البتہ چند خادم زادے ہیں ، وہ
سب آپ کے حلقۂ ارادت و بیعت میں داخل ہوں گے ، چنانچہ اسی دن دو تین شہزادوں کوسید صاحب نے شرف بیعت سے مشرف فرمایا۔ اس کے بعد سلطان ابراہیم شاہ شرقی نے خوب نذر
پیش کی لیکن مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی نے قبول نہیں فرمایا ، پھر سلطان نے جون پور میں مستقل
قیام کرنے پر اصرار کیا تو مخدوم صاحب علیہ الرحمہ نے فرمایا ہم سلطنت کے دیار سے باہر نہیں جائیں گے۔ سلطان ابراہیم شاہ شرقی ،مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کی ان باتوں سے بہت پر امید اور خوش ہوا اور سیداشرف
جہانگیر سمنانی قد س سرہ نے بھی دو مہینے
سے زیادہ جون پور میں قیام فرمایا اور وہاں کے اکابر واصاغر آپ سے مستفید ومستفیض
ہوئے اور آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے [ لطائف اشرفی فی بیان
طوائف صوفی ،ج: ۲ص: ۱۰۲،۱۰۵ مطبوعہ: مکتبہ سمنانی ۱۳ / ۷ ا،فردوس کالونی ،کراچی]
مخدوم صاحب سے قاضی صاحب
کی عقیدت ومحبت : اس مدت میں
ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی کی عقیدت ومحبت مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی
سے اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اگر روزانہ قاضی صاحب ، مخدوم صاحب کی بارگاہ میں حاضر
نہیں ہو پاتے تو ہر دوسرے تیسرے دن ضروران کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔ اس درمیان
قاضی صاحب نے اپنی تصانیف کا ایک ایک نسخہ مخدوم صاحب کی خدمت میں پیش کیا ۔ آپ نے ان تمام
تصنیفات کو قبول کر کے ان کی تحسین فرمائی اور اپنے بہتر تاثرات کا اظہار فرمایا " الإرشاد “ جوفن نحو
میں قاضی صاحب کی ایک عمدہ تصنیف ہے ،اسے بہت پسند کیا اور فرمایا:ترجمہ فارسی
" یہ بات جولوگ کہتے ہیں کہ جادو ہندستان سے نکلا ہے ، وہ جادو غالباً یہی کتاب ہے"۔ [ لطائف
اشرفی فی بیان طوائف صوفی ،ج:۲ ص:۱۰۲] اس سفر میں معاملہ یہیں
تک رہا لیکن جب مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ دوبارہ جون پور تشریف لے
گئے تو قاضی شہاب الدین دولت آبادی کو خرقہ خلافت عطافر ما یا اور ہدایہ کا ایک
خاص نسخہ بھی عنایت فرمایا۔ چنانچہ شیخ نظام الدین غریب یمنی فرماتے ہیں: ترجمہ فارسی" (
مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی ) جب دوسری بار شہر جون پور تشریف لائے تو حضرت قاضی
شہاب الدین کو خرقہ اور کتاب ہدایہ جو ولایت کی یادگار تھی ،عطافرمائی ۔( لطائف اشرفی فی بیان طوائف صوفی ، ج: ۲، ص:۱۰۲، مطبوعہ: مکتبہ
سمنانی کراچی)
مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی سے ارادت وخلافت : سچ
ہے کہ اگر علم وفضل کے ساتھ ادب و نیاز مندی بھی ہوتو اس کی برکتیں بہت بڑھ جاتی
ہیں چنانچہ مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ جب دوسری بار جون پور تشریف
لائے تو قاضی شہاب الدین دولت آبادی کے علم وفضل اور ان کے حسن ادب کا ایک بڑا عجیب و غریب واقعہ پیش
آیا ،جس سے متاثر ہوکر مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی نے انھیں" ملک العلما ء"
کا خطاب عطافر ما یا اورا جازت و خلافت سے بھی نوازا۔ اس کی تفصیل شیخ نظام الدین غریب یمنی نے اس طرح بیان کی ہے: ترجمہ فارسی "اپنے دور کے امام اور
علاقے کے میر کارواں قاضی شہاب الدین دولت آبادی جو اجلہ علماے کرام کے مقتدی اور
اصول وفروع کے ماہرین کے پیشوا ہیں ، وہ پناہ ولایت اور سر ما یہ ہدایت حضرت مخدوم
اشرف جہانگیرسمنانی کے خلفا ءمیں سے ہیں ۔[لطائف اشرفی فی بیان طوائف صوفی ، ج:۱ ص:۴۱۰،مکتبہ سمنانی]
جس زمانہ میں حضرت قدوۃ
الکبری کی زبان سے جون پور میں (اللہ جل شانہ اسے بر بادی سے محفوظ رکھے ) بحالت سکر یہ کلمہ
نکل گیا تھا" الناس كلهم عبد لعبدي“ اور علما ءکی ایک جماعت بوجہ تعصب وعناد ان کے خلاف تیار ہوگئی تھی
،اس وقت قاضی صاحب کی طرف سے نہایت شائستہ انداز میں خدمات ظاہر ہوئیں ، حضرت قدوۃ
الکبریٰ نے انھیں خرقہ خلافت پہنایا اور ملک العلماء کے خطاب سے مخاطب فرمایا۔ وہ
( قاضی شہاب الدین ) ولایت آب ( سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ) کے جلیل القدر خلیفہ اور بہترین ہم
نشیں اصحاب میں سے ہیں ، وہ علوم ظاہری و باطنی کے جامع ، معاملات یقینی کے حامل ،
واردات دینی سے بہرہ ور اور شریعت کے مسائل سے خوب آگاہ اوران پر عامل ہیں ، انھوں نے ریاضات شدیدہ
اور مشاہدات جدیدہ میں اس قدر جد و جہد کی کہ بہتر اجازت وخلافت سے شادکام ہوئے
۔ان تصریحات سے خوب واضح ہوجا تا ہے کہ قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ مشائخ کی بارگاہ میں کس قدر
ادب واحترام سے پیش آیا کرتے تھے اور مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ سے
ان کے علمی وروحانی تعلقات کس درجہ مستحکم تھے ۔ ان کے ادب واحترام اور مشائخ کرام کی تعظیم و
تکریم کو بخوبی سمجھنے کے لیے اس واقعہ کی تفصیل” لطائف اشرفی“ کی روشنی میں
ملاحظہ فرمائیں ۔ الناس كلهم عبد لعبدي کا واقعہ: اس واقعہ کی قدرے تفصیل قاضی شہاب الدین دولت آبادی کے ایک خواجہ
تاش شیخ نظام الدین غریب یمنی علیہ الرحمہ
نے " لطائف اشرفی“ میں اس طرح بیان کی ہے کہ دوسرے سطر میں حضرت قدوۃ الکبری
( سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ) جون پور تشریف لائے اور وہاں کی جامع مسجد
میں قیام فرمایا اس وقت خدام ومخلصین میں شیخ کبیر ، قاضی رفیع الدین اودھی علیہ الرحمہ ، شیخ ابوالمکارم
علیہ الرحمہ اور خواجہ ابوالوفا خوارزمی علیہ الرحمہ ساتھ تھے ۔ ان ہی ایام اقامت
میں ایک دن حضرت قدوۃ الکبریٰ پر ایسے عجیب وغریب
جدو جہد و جذب کی کیفیت طاری تھی کہ حاضرین میں سے کسی کولب کشائی کی مجال نہ
تھی ، اس عالم و جد وجذب میں یہ شعر ان کی زبان پر جاری ہوا ۔ ترجمہ فارسی: اس کے
دل نے بحر عمان کی طرح جوش مارا ، پھر دوموتی گرا کر خاموش کر دیا ،
پھرفر مايا:
الناس كلهم عبد لعبدي. ترجمہ: تمام لوگ میرے غلام کے غلام ہیں۔حاضرین جو حضرت قدوۃ الکبریٰ علیہ الرحمہ کے حال وقال سے واقف تھے ،
انھوں نے یہ جملہ بغور سنا لیکن اس کے افشا کو اس خیال سے پسند نہیں کیا کہ بہت سے
علماے ظاہر جو اسرار باطنی سے واقف نہیں ہیں ، اگر وہ یہ جملہ سن لیں گے تو نا
پسندیدگی اورا نکار کی روش اختیار کر لیں گئے ۔ کچھ دنوں کے بعد حاجی صدرالدین نامی ایک عالم نے
ارباب علم وفضل کی مجلس میں دوران گفتگوحضرت قدوۃ الکبریٰ علیہ الرحمہ کا یہ جملہ
نقل کر دیا ۔ اسے سن کر بعض حضرات نے
اعتراض کیا اور اس کی تحقیق کے پیچھے پڑ گئے ۔ شدہ شده یہ بات میرصدر جہاں اور قاضی شہاب الدین علیہ
الرحمہ تک پہنچی ۔ قاضی شہاب الدین صاحب
علیہ الرحمہ نے کہا: ترجمہ فارسی "
یہ درویش ہیں ، معلوم نہیں انہوں نے کس معاملہ میں اور کس حالت میں یہ بات کہی ہے
اور کس وجہ سے یہ کلمہ ان کی زبان سے صادر ہوا ہے ، بہتر یہ ہے کہ ہم اس کی تحقیق
تفتیش میں نہ پڑیں اور یوں بھی وجد وکیف کی باتوں پر غور وفکر کرنا مناسب نہیں
ہے،خصوصا یہ سید صاحب بہت بلند حال اور بڑے با کمال ہیں ، ان کی زبان میں بڑا اثر
ہے، مجھے تو اس وقت کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جس کے بازو میں ان سے مقابلہ کی
طاقت ہو۔ کوئی شخص اپنے بازو میں ایسی طاقت نہیں رکھتا جو بہادری میں ان کا ہم پلہ
بھی ہو سکے ۔ یہ سن کر ایک شخص نے کہا: ترجمہ فارسی "ایسے شہر میں جو تبحر علماء، قابل فخر
فضلا ، ار باب علم و دانش اور درویشوں سے معمور ہو، عجیب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی
شخص تکبر آمیز اور سرکشی پیدا کر نے والی بات کہےاور پھر اس سے اس بارے میں
سوال و جواب نہ کیا جائے ۔ بالآخر یہ طے پایا کہ میر صدر جہاں محمود بھیا کو حضرت
قدوۃ الکبریٰ کی خدمت میں بھیج کر اس جملہ
کا مطلب معلوم کر یں ( یہ محمود بھیا ایک سخت کلام اور درشت خو طالب تھا) قاضی
شہاب الدین صاحب نے کہا: ترجمہ فارسی
" محمود بھیا مشائخ کی مجلس کے آداب سے واقف نہیں ہے ، مباداوہ کوئی ایسی بات کہ
دے جو سید صاحب کے خلاف طبع ہو؛ اس لیے کل میں خود حضرت سید صاحب کی خدمت میں جاؤں
گا اور مناسب انداز میں جیسا کہ مشائخ سے دریافت کرنے کا طریقہ ہے ، اس کلمہ کی حقیقت اور وضاحت طلب کروں
گا تا کہ حضرت سید کی طبیعت پر بار نہ ہو۔ دوسرے دن قاضی شہاب الدین دولت آبادی
علیہ الرحمہ مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ کی خدمت میں پہنچے ، اس وقت سید صاحب اوراد و
وظائف سے فارغ ہوکر اپنے حلقہ احباب ومریدین میں تشریف فرما تھے ، قاضی صاحب کی
آمد کی خبر سن کر حسب عادت استقبال کیا اور تکریم تعظیم کے ساتھ بٹھایا ، رسمی بات
چیت کے بعد بعض فقہی مسائل پر گفتگو ہوتی رہی ،اس سے قاضی صاحب اوران کے ساتھیوں کو
سید صاحب سے انس پیدا ہو گیا اور ان کے مخالف جذبات سرد پڑ گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد
حضرت قدوۃ الکبری فقہی مسائل سے فارغ ہوئے اور قاضی صاحب کی خاطر مدارات میں لگ گئے ۔ قاضی صاحب
رخصت ہونا چاہتے تھے، حضرت نے نور باطن سے ان کی آمد کا سبب جان لیا اور فرمایا: ترجمہ فارسی ”فقیر کی معمولی کٹیا میں قاضی صاحب کی تشریف
آوری کا مقصد شاید کسی خاص کلام سے متعلق دریافت کرنا ہو۔ یہ سن
کر قاضی صاحب نے بڑی حیرانی اور پشیمانی کے ساتھ عرض کیا: ترجمہ فارسی" کل یہاں کے بعض علما وفضلا نے میرصدر جہاں اور
اس ناچیز کے سامنے بیان کیا کہ ایسی بات( الناس كلهم عند لعبدي )
حضرت سید کی زبان سے جاری ہوئی ہے جو ظاہری
اعتبار سے مبہم ہے، اس بارے میں حضرت
اب کیا ارشادفرماتے ہیں؟ یہ سن کر حضرت قدوۃ الکبری نے برجستہ فر مایا: ترجمہ
فارسی" اس کا مفہوم نہایت آسان ہے ؛ کیوں کہ کلمہ الناس
كلهم عبد لعبدي “الف و لام سے شروع ہوا ہے، اور الف
ولام عہد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، میں نے اس سے اپنا کلمہ شروع کیا؛ اس لیے کہ
اس زمانہ کے عام لوگ اپنی ہواو ہوس کے محکوم غلام ہیں اور حق تعالی نے میری ہوائے نفس کو میرا محکوم اور غلام بنادیا ہے ؛ جب اہل دنیا ہوائے نفس کے محکوم ہو گئے تو گویا میرے غلام کے غلام
ہیں اور عام نفسانی خواہشوں کے اعتبار سے میرے محکوم کے محکوم ہو گئے ہیں ۔ پھر تقریب فہم کے لیے اس کی ایک مثال پیش کرتے
ہوئے فرمایا کہ ایک بادشاہ نے ایک درویش کو لکھا کہ ہم سے کچھ مانگو ۔ اس درویش نے جواب میں یہ ر باعی لکھ کر بھیج دی:ترجمہ فارسی"
خواہش اور لالچ میرے دوغلام ہیں اور میں خدائے وحدہ لاشریک کے ملک میں
بادشاہ ہوں ، تو میرے غلاموں کا غلام ہے، تو میں غلاموں کے غلام سے کیا مانگوں؟ اس
توضیح و تشریح سے قاضی صاحب اور ان کے تمام رفقا ءمطمئن ہو گئے اور خوشی خوشی واپس
تشریف لے گئے۔[لطائف اشرفی فی بیان طوائف
صوفی جلد۲ صفحہ ۲۰۸/۴۰۷] ملک العلما ء کا خطاب:اس واقعہ کے بعد مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ نے قاضی
شہاب الدین دولت آبادی کو خرقہ پہنایا ، اجازت و خلافت سے سرفراز کیا اور ملک العلماء کا خطاب
بھی عطافر ما یا ،جیسا کہ لطائف اشرفی کے حوالے سے بیان ہوا۔اس واقعہ کا ذکر صحائف
اشرفی میں محبوب ربانی حضور اعلیٰ حضرت
اشرفی میاں جیلانی کچھوچھوی قدس سرہ سجادہ
نشین کچھوچھہ شریف لکھتے ہیں کہ سنوات الاتقیاء جو تصنیف شیخ ابراہیم سرہندی کی
ہے اس کو حضرت مولانا سید اسماعیل حسن صاحب قادری مارہروی قدس سرہ نے مجھے (اعلی
حضرت اشرفی میاں کو ) دکھلایا ۔اس میں
لکھا ہے کہ ایک دن قاضی شہاب الدین ملک العلماء خدمت عالی حضرت محبوب یزدانی میں
اس خیال سے حاضر ہوئے کہ حضور محبوب یزدانی قد س سرہ مجھ کو میرے لائق خطاب عطا فرمائیں اور وہ چیز
کھلائیں۔جو میں نے کبھی نہ کھائی ہو۔جیسے ہی خیمے مبارک کے قریب آئے طناب خیمہ سے
الجھ کر قاضی صاحب کی پگڑی گر پڑی۔حضرت محبوب یزدانی قد س سرہ نے فرمایا ۔ملک
العلماء دستار سرپر رکھو ۔جب خدمت عالی میں حاضر ہوئے تو حضرت نے باورچی سے فرمایا
کہ طعام ماحضر قاضی صاحب کے لئے لاؤ۔باورچی نے ایک پیالہ کھیر کا قاضی صاحب کے
سامنے پیش کیا۔قاضی صاحب دل میں سوچنے لگے کہ کھیر کوئی نایاب کھانا نہیں ۔میں نے
تو بارہا کھیر کھائی ہے۔حضور محبوب یزدانی قد س سرہ نے فرمایا کہ فقیر کے ساتھ گائے بھینس نہیں رہتی
ہیں ۔جہاں فقیر جاتا ہے جنگل کے ہرن ،نیل گاؤ آکر دودھ دے جاتے ہیں ۔بھلا ایسی
کھیر آپ کو کب میسر ہوئی ہوگی۔یہ سن کر قاضی صاحب دل ہی دل میں پشیمان ہوئے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی صاحب کو ’’ملک
العلماء کا خطاب مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ نے عطافرمایا ہے ۔( صحائف اشرفی حصہ دوم صفحہ ۱۱۱)
باہمی مراسم وروابط : جس طرح قاضی صاحب علیہ الرحمہ ، سید مخدوم کچھوچھہ قد س سرہ النورانی سے بے پناہ عقیدت والفت رکھتے تھے ،
اسی طرح سید صاحب بھی قاضی صاحب سے غایت درجہ محبت فرماتے تھے اور ان دونوں بزرگوں
کے درمیان خط و کتابت کے ذریعہ بھی رابطہ رہتا تھا۔
شاہ مدار کا انکار ، پھر اقرار: حضرت سید شاہ بدیع الدین
مدارمکن پوری قد س سرہ کی شخصیت بڑی
پراسرار اور مختلف فیہ تھی ،ان کا ظاہر حال سخت قابل اعتراض تھا؛ اس لیے قاضی شہاب
الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ ابتدا میں ان کی مشیخت و بزرگی کے منکر تھے مگر بعد ملک
العلماء قاضی شہاب الدین نے اپنے ظاہری و باطنی خیالات کو حضرت مخدوم ( سید اشرف جہانگیرسمنانی
) کی خاص توجہ سے درست کیا اور بہت ہی بے چینی وعقیدت و محبت کے ساتھ حضور اقدس
سید بدیع الدین قطب المدار قد س سرہ کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور تقصیرات گزشتہ کی معافی چاہی اور سلسلہ عالیہ مداریہ میں
داخل کر نے کی درخواست کی ، حضورا قدس (سید بدیع الدین شاہ مدار ) نے آپ پر نہایت شفقت و محبت فرمایا اور سلسلہ کی پاک برکتوں ونسبتوں
سے سرفرازفرما کر اجازت و خلافت سے نوازا“۔[تاریخ سلاطین شرقی او اور ، ج: ۲،ص:۱۳۹۶ شیراز ہند پبلشنگ ہاؤس،
محلہ رضوی خان ، جون پور]
ملک العلماء کا ذوق شعر و شاعری: قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ شعر و شاعری کا بھی اچھا ذوق رکھتے تھے ۔ قاضی
عبدالمقتدرشریحی کندی علیہ الرحمہ جیسے فصیح وبلیغ اورادیب و شاعر کی
شاگردی و ہم نشینی نے قاضی صاحب کے اندرشعر
وسخن کا بڑ استھرا ذوق پیدا کر دیا
تھا۔ لیکن ان کے اشعار کا مجموعہ نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ قاضی صاحب
کا اصل میدان درس و تدریس اور تصنیف و تالیف تھا ،شعر و شاعری سے صرف ذوق کی حد تک تعلق تھا؛ اس
لیے انہوں نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی ۔ مشہور و معروف تلامذہ: قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے دہلی کی سرزمین پر تدریس کا
عمل شروع فرمایا اور پھر ابراہیم شاہ شرقی کے دور میں جون پور میں بساط درس و
تدریس بچائی اورپوری زندگی تعلیمی وتدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے
جلیل القدر عالم وفاضل کی درس گاہ کے فیض یافتہ اوران کے تلامذہ کی تعداد بہت
زیادہ ہوگی مگر افسوس یہ ہے کہ ان کے خرمن علم سے خوشہ چینی کر نے والے
علما و فضلا میں صرف چند حضرات کے بارے میں ہی
یہ صراحت ملتی ہے کہ انہوں نے قاضی صاحب کی بارگاہ میں زانوے تلمذ تہ کیا
اور ان کی درس گاہ فیض بار سے اکتساب علم وفن کیا ہے ۔ ان مشہور و معروف تلامذہ کے نام درج
ذیل ہیں: (۱) خلیفہ مخدوم کچھوچھہ حضرت شیخ صفی الدین ردولوی (۲) خلیفہ مخدوم کچھوچھہ حضرت شیخ قاضی رضی الدین ردولوی ۔ (۳) شیخ فخرالدین
جون پوری ۔(۴) شیخ محمد عیسی جون پوری ۔ (۵ ) علامہ عبدالملک عادل جون پوری ۔ (٦)
شیخ قطب الدین ظفر آبادی ۔ (۷) شیخ علاء الدین جون پوری(۸) مولا نا الہ داد جون پوری
(۹) قاضی سماء الدین جون پوری۔تصنیفات و
تالیفات :ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ کی تدریسی خدمات کے ساتھ ان کی تحریری خدمات کا
دائرہ بھی بہت وسیع ہے ، انہوں نے مختلف علوم وفنون میں ایسی معیاری کتابیں تصنیف
فرمائی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں ۔ آپ کی
جن تصنیفات و تالیفات کے بارے میں معلوم ہوسکا ہے وہ درج ذیل ہیں: (۱) الارشادفی النحو
۔(۲) المعافیہ فی شرح الکافیہ ۔(۳) البحرا لمواج۔(۴) شرح اصول بزدوی۔ ( ۵) شرح
قصیدہ بانت سعاد ۔(٦) شرح قصیدہ بردہ۔ ( ۷ ) رسالہ در تقسیم علوم (۸) رسالہ افضلیت عالم برسید (۹) مناقب السادات (۱۰) ہدایۃ السعدا (۱۱) بديع
البيان بديع الميز ان ( ۱۲ ) جامع الصنائع ( ۱۳ ) رسالہ درطہارت زباد۔ ( ۱۴ ) عقیدہ شہابیہ۔(۱۵ ) فتاوی
ابراہیم شاہی ۔(۱۶) ایک کتاب تفسیر میں ۔( ۱۷ ) رسالۂ معارضہ ( ۱۸ )المصباح( ۱۹ )
اسباب الفقر والغنی ۔(۲۰) اصول ابراہیم شاہی۔ سفر آخرت : قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ
الرحمہ نے درس وتدریس ،ارشاد وافتا اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ پوری زندگی
علوم اسلامیہ کی خدمت میں بسر کی ۔دہلی ، کالپی اور جون پور ہر جگہ ان
کا علمی وروحانی فیض جاری رہا مگر جون پور میں ان کی زندگی کا تقریبا چالیس سالہ تعلیمی و
تدریسی زمانہ ان کی حیات کا حاصل ہے ،ان کی زندگی کے حالات کا بیشتر حصہ اسی دیار
سے تعلق رکھتا ہے ۔ ان کی وفات ۲۵/رجب ۸ ۸۴ بمطابق۲۷/ا کتو بر ۱۴۴۵ ء میں جون پور میں ہوئی
، اور سلطان ابراہیم شاہ شرقی کی مسجد اور مدرسہ کے جنوب میں دفن کیے گئے ۔ اللہ تعالی ٰ ان کی قبر پر رحمت وانوار کی بارش نازل
فرمائے۔ (بشکریہ: حضرت مولانا ساجد مصباحی صاحب قبلہ استاذ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور)