ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا

 

نام و نسب: نام حضرت خدیجہ، کنیت ام ہند، لقب طاہرہ ہے، آپ کے والد گرامی خویلد ہیں والدہ محترمہ فاطمہ بنت زائدہ ہیں سلسلۂ نسب کچھ اس طرح ہے:

والد کی طرف سے سلسلہ نسب: خدیجہ بنت خُویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن برہ بن کعب بن لُوَی بن غالب بن فہر۔

آپ کا نسب مبارک قصی پر رسول گرامی ﷺ کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔

ماں کی طرف سے سلسلۂ نسب: فاطمہ بنت زائدہ بنت الاصم بن رواحہ بن حجر بن عبد معیض بن عامر بن غالب بن فہر۔

سن ولادت مبارک: حضرت خدیجہ ﷝ کا سن ولادت ۱۵؍ قبل نبوی ۵۵۶ء ہے۔

خاندان: حضرت خدیجہ کا خاندان مکہ شریف میں بہت معزز خاندان تھا آپ کے والد خویلد مکہ کے رئیسوں میں تھے، آپ ایک کامیاب تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ جود و سخاوت میں بھی بے مثال تھے سخاوت کی وجہ سے پورے مکہ معظمہ میں عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ملک یمن اور شام میں بھی کافی اثر و رسوخ تھا۔

بچپن: حضرت خدیجہ اپنے بچپن سے ہی نہایت حلیم و بردباد اور باوقار تھیں متانت و سنجیدگی اور ذہانت و فطانت کے ساتھ معاملہ فہمی اور غم خواری و غم گساری کی دولت سے بھی مالا مال تھیں۔

نکاح: نبی کریم ﷺ کی زوجیت میں آنے سے پہلے آپ نے دو شادیاں کیں اور دونوں شوہروں کے انتقال کے بعد آپ کا تیسری بار نکاح سید عالم جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے ہوا۔

 پہلا نکاح: حضرت خدیجہ جب سن بلوغ کو پہنچی تو آپ کے والد خویلد نے آپ کی شادی کے لیے اپنے بھتیجے ورقہ بن نوفل کو منتخب کیا جو تورات و انجیل کے زبردست عالم تھے جنھوں نے پوری زندگی راہ حق کی تلاش و جستجو میں گزار دی حضور انور کی بعثت تک زندہ رہے اور آپ کو پیغام نبوت کے بارے میں پیش آنے والی بہت سی دشواریوں سے آگاہ کیا اور بھرپور امداد و اعانت کا وعدہ بھی کیا مگر تبلیغ احکام کا حکم ملنے سے پہلے ہی انتقال کر گئے۔

کسی وجہ سے آپ کا نکاح حضرت خدیجہ سے نہ ہو سکا تو حضرت خدیجہ کے والد خویلد نے آپ کا نکاح ابو ہالہ ہند بن نباش بن زرارہ تمیمی سے کر دیا۔

ابو ہالہ اور ہند نامی دو بیٹے پیدا ہوئے ان دونوں بیٹوں نے اسلام کا زمانہ پایا اور حضور انور ﷺ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔

دوسرا نکاح: حضرت خدیجہ نے پہلے شوہر کے انتقال کے بعد قبیلہ بنو مخزوم کے ایک معزز شخص عتیق بن عائذ یا عابد بن عبد اللہ سے نکاح کر لیا۔ عتیق کے یہاں حضرت خدیجہ کے بطن سے ایک بچی پیدا ہوئی اس کا نام بھی ہند رکھا گیا۔ یہ بھی مشرف بہ اسلام ہوئیں۔

حضرت خدیجہ کے دوسرے شوہر عتیق بھی زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہے ان کا بھی جلد ہی انتقال ہو گیا۔

تیسرا نکاح: ابو ہالہ اور عتیق کے بعد ام المؤمنین سیدہ خدیجہ ﷛کا نکاح حضور سید عالم ﷺ سے ہوا۔ اس کی کچھ تفصیل یوں ہے:

حضرت خدیجہ جو قریش کی ایک مال دار اور نیک سیرت خاتون تھیں ہمارے آقا نے ان سے مال تجارت لیا اور سفر میں تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر پچیس سال کی تھی۔ اس سفر میں نسطورا راہب کے پاس سے آپ کا گزر ہوا۔ اس نے آپ کو پہچان لیا کہ یہ نبی آخر الزماں ہیں، جن کا ذکر انبیائے سابقین کی کتابوں میں ملتا ہے۔ حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی شریک سفر تھا، اس نے اس سفر میں آپ کو بہت سی خرق عادت والی باتیں دیکھیں، جب آپ سفر سے واپس آ رہے تھے تو حضرت خدیجہ بالا خانے پر بیٹھی ہوئی آمد کا پر کیف منظر دیکھ رہی تھیں، آپ نے دیکھا کہ سرکار چلے آ رہے ہیں اور دو فرشتے ان پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔ میسرہ نے بیان کیا کہ میں نے پورے سفر میں ایسا ہی دیکھا ہے اور سفر کی دوسری خرق عادت والی باتیں بھی بیان کیں۔ یہ سن کر حضرت خدیجہ کا دل ان کی طرف مائل ہونے لگا اور سرکار دو جہاں سے نکاح کی درخواست کی، جب ابو طالب کو اطلاع ہوئی تو معاملات طے ہونے کے بعد چند اشراف قریش کو لے کر حضرت خدیجہ کے گھر پہنچے، خدیجہ کی طرف سے ان کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل ذمہ دار تھے، ابو طالب نے خطبہ پڑھا دوران خطبہ آپ نے رسول کریم ﷺ کے بہت سے فضائل و مناقب بیان کیے اور نکاح منعقد ہو گیا۔

قبولیت اسلام: ام المومنین سیدہ خدیجہ ابتدائے اسلام میں کلمہ پڑ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔ ابن سعد نے طبقات میں ایک روایت یحییٰ بن فرات کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے اس وقت کے اسلام کی منظر کشی کی ہے۔

عفیف کندی سامان خریدنے کے لیے مکہ آئے اور عباس بن عبد المطلب کے گھر مہمان ہوئے صبح کے وقت ایک دن کعبہ کی طرف نظر اٹھی تو دیکھا کہ ایک نوجوان آیا اور آسمان کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو گیا پھر ایک لڑکا اس کے داہنی طرف کھڑا ہوا پھر ایک عورت دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گئی نماز پڑھ کر یہ لوگ چلے گئے تو عفیف نے عباس سے کہا کہ کوئی عظیم واقعہ پیش آیا؟ عباس نے کہا ہاں پھر کہا جانتے ہو یہ نوجوان کون ہے یہ میرا بھتیجا محمد ہے دوسرا میرا بھتیجا علی ہے اور یہ محمد کی بیوی خدیجہ ہے میرے بھتیجے کا خیال ہے کہ اس کا مذہب رب کا مذہب ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے رب کے حکم سے کرتا ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے تمام روئے زمین پر ان تینوں کے سوا کوئی اور اس دین کا پابند نہیں، یہ سن کر مجھے تمنا ہوئی کہ کاش میں چوتھا ہوتا۔

پہلی وحی اور حضرت خدیجہ: جوں جوں بعثت کا زمانہ قریب آتا جا رہا تھا تو حضور کا یہ معمول ہو گیا تھا کہ آپ آبادیوں سے نکل کر زیادہ وقت خلوت نشینی میں بسر کرتے کئی کئی روز کا توشہ لے کر غار حرا میں چلے جاتے اور عبادت میں مشغول رہتے۔ آٹھویں ربیع الاول دوشنبہ کے دن حضرت جبریل غارِ حرا میں آپ کے پاس آئے اور وحی سنا کر کہا پڑھیے، آپ نے فرمایا میں نہیں پڑھوں گا پھر حضرت جبریل نے آپ سے معانقہ کیا اور طاقت بھر دبوچا اور کہا پڑھیے آپ نے کہا میں نہیں پڑھوں گا اس کے بعد حضرت جبریل نے دبوچ کر کہا پڑھیے آپ نے کہا میں نہیں پڑھوں گا جب حضرت جبریل نے کہا اقرا باسم ربک الذی خلق۔ تو سرکار نے پڑھنا شروع کیا۔

یہ سب سے پہلی وحی تھی جس کی وجہ سے آپ کے بدن کو بڑی تکلیف ہوئی آپ اپنے دولت خانے تشریف لائے اور کہا کہ مجھے چادر اڑھاؤ حضرت خدیجہ نے آپ کو چادر اڑھائی آپ نے حضرت خدیجہ سے غار کے حالات بیان کر کے کہا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے حضرت خدیجہ نے کہا کہ اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا آپ غریبوں کی مدد، مفلسوں کی خیر خواہی اور راہ حق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اس کے بعد حضرت خدیجہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی، ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ورقہ بن نوفل کتب سابقہ کے عالم تھے انھوں نے پورا واقعہ سننے کے بعد کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسی کے پاس آتا تھا تم اس امت کے پیغمبر ہو۔

شعب بنی ہاشم اور حضرت خدیجہ: حضور ﷺ کو تبلیغ اسلام سے باز رکھنے کے لیے مشرکین مکہ طرح طرح کی لالچ دیں لیکن سرکار نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی جب مشرکین مکہ اپنی تمام تر امکانی تدابیر اختیار کر کے تھک گئے تو انھوں نے آپ کے قتل کاارادہ بنا لیا جب آپ کے چچا جناب ابو طالب نے یہ دیکھا کہ قریش محمد عربی کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں تو آپ سرکار کو لے کر شعب بنی ہاشم میں چلے گئے کفار نے آپ سے برادرانہ تعلق توڑ دیا اور طرح طرح کی سختیاں کیں ان سختیوں میں حضرت خدیجہ بھی آپ کے ساتھ رہیں۔ اور ہر طرح سے سرکار ﷤ کا ساتھ دیا۔

اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے مالی قربانی: حضور انور ﷺ کی زوجیت میں داخل ہونے کے بعد حضرت خدیجہ ﷝ نے اپنا سب کچھ آپ ﷺ کے قدموں پر نثار کر دیا تھا۔

حضرت خدیجہ ﷛آپ ﷺ کی مونس و غم خوار ابتدا ہی سے تھیں، آپ ﷺ کی بعثت رسالت و نبوت کے بعد تو دل وہی اور دل داری، اور ایثار و قربانی کا وہ باب و اکیا کہ پورے عالم کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہ پہلے موجود تھی نہ ان کے زمانے میں دیکھی اور سنی گئی، اور نہ ان شاء اللہ قیامت تک پائی جا سکتی ہے۔

نبوت کے بعد حضرت خدیجہ ﷝ کا مال تقریباً ان کی وفات تک آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی اولاد امجاد کے لیے معاش کا ذریعہ بنا رہا، اور آپ ﷺ اہل و عیال کی ضروریات کو مہیا کرنے سے بے فکر ہو کر گم گشتۂ راہ انسانوں کو خداوند قدوس کی وحدانیت کا سبق پڑھاتے رہے، اور ان کو راہ راست پر لا کر دین و دنیا دونوں کی کامیابیاں ان کے قدموں میں ڈالتے رہے۔

حضرت خدیجہ ﷝ کے مال نے آپ ﷺ کو صرف فکر معاش سے ہی سبک دوش نہیں کیا بلکہ وہ اسلام کی تبلیغ و ترویج اور نشر و اشاعت میں بھی خوب کام آتا رہا، چنانچہ ان کے احسان کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں، انھوں نے مالکانہ طور پر اپنا مال میرے حوالے کر دیا تو میں نے راہ خدا وندی میں اسے دین کی نشر و اشاعت کے لیے خرچ کیا۔

امتیازات و خصوصیات: حضور انور ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ﷝ کو چند ایسی خصوصیات حاصل ہیں کہ جن میں آپ ﷺ کی کوئی اور بیوی ان کی شریک و سہیم نہیں ہے حضرت خدیجہ ﷝ کے خصوصی امتیازات یہ ہیں:

(۱) وہ حضور ﷺ کی سب سے پہلے زوجۂ مطہرہ ہیں۔

(۲) آپ ﷺ کی زوجیت میں داخل ہونے کے وقت ان کی عمر چالیس برس اور آپ ﷺ کی پچیس برس تھی، بقیہ تمام ازواج مطہرات باعتبار عمر آپ ﷺ سے چھوٹی تھیں۔

(۳) عمر کافی تفاوت کے باوجود ان کی حیات میں آپ ﷺ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا۔

(۴) حضرت ابراہیم ﷝ کے علاوہ آپ ﷺ کی تمام اولادیں انھیں کے بطن سے پیدا ہوئیں۔

(۵) حضرت خدیجہ سب سے پہلی خاتون ہیں جو مشرف بہ اسلام ہوئیں۔

(۶) اپنا پورا سرمایہ وقف کر کے آپ ﷺ کو معاش کی فکر سے آزاد کر دیا۔

(۷) منصب نبوت و رسالت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو انھوں نے ہی دیکھا اور نظر نبوت سب سے پہلے انھیں کے روے زیبا پر پڑی۔

(۸) خدا وند قدوس نے انھیں اپنے ہدیہ سلام سے اعزاز بخشا، اور جنت میں موتی کے ایک محل کی خوش خبری سے نوازا۔

یہ وہ اوصاف ہیں کہ ان میں ازواج مطہرات میں سے کوئی زوجہ بھی ان کی شریک و سہیم نہیں ہے۔

حضور ﷺ کی حضرت خدیجہ سے محبت: حضور ﷤ حضرت خدیجہ سے بے پناہ محبت کرتے اور ان کا تذکرہ جمیل کیا کرتے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور سب سے زیادہ حضرت خدیجہ  کا ذکر کرتے اور اکثر ایسا ہوتا کہ جب آپ کوئی بکری ذبح کرتے تو کچھ گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو ضرور بھیجتے کبھی کبھی میں کہتی کہ دنیا میں بس ایک خدیجہ ہی آپ کی بیوی تھیں تو آپ فرماتے کہ خدیجہ وہ ہیں جن کی شکم سے اللہ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ خدا کی قسم خدیجہ سے بہتر کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے مجھے جھٹلایا اس وقت وہ ایمان لائیں اور انھوں نے میری تصدیق کی جس وقت لوگوں نے مجھے مال سے محروم رکھا اس وقت انھوں نے اپنا مال مجھے دیا اور انھیں کے شکم سے اللہ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔

وفات: رمضان ۱۰ نبوی میں حضور اکرم ﷺ کی ہجرت مدینہ منورہ سے تقریباً تین سال قبل وہ اس عالم فانی سے عالم جاودانی کے سفر پر روانہ ہو گئیں۔

نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی، اس لیے غسل دے کر کفن پہنا دیا گیا، اور لوگ جنازہ لے کر ابدی آرام گاہ کی طرف چل پڑے، حضور انور ﷺ بہ نفسِ نفیس قبر میں اترے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے انھیں لحد میں رکھ کر سپرد خاک کیا۔ حضرت خدیجہ ﷝ کی قبر مقام ”حجون“ میں پہاڑ کے اوپر آج بھی نمایاں اور ممتاز ہے۔

اولاد: حضور ﷺ کے حضرت خدیجہ سے چھ اولادیں پیدا ہوئیں، دو صاحب زادے جو بچپن میں انتقال کر گئے اور چار صاحب زادیاں نام حسب ذیل ہیں:

حضرت قاسم بن محمد، حضرت محمد ﷺ کے سب سے بڑے بیٹے تھے، انھیں کے نام پر آپ ابو القاسم کنیت کرتے تھے صغر سنی میں مکہ میں انتقال کیا، اس وقت پیروں پر چلنے لگے تھے۔

زینب بنت محمد، آپ ﷺ کی سب سے بڑی صاحب زادی تھیں۔عبد اللہ بن محمد نے بہت کم عمر پائی، چونکہ زمانۂ نبوت میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے طیب اور طاہر کے لقب سے مشہور ہوئے، رقیہ بنت محمد، ام کلثوم بنت محمد، فاطمہ زہرا ﷡ و عنہن اجمعین۔


مجاہد جنگ آزادی مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی علیہ الرحمہ

 

مجاہد جنگ آزادی مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی علیہ الرحمہ  

اسم گرامی : مولانا مفتی سید کفایت علی کافی

تخلص: کافی

لقب: مجاہد جنگ آزادی ، بطل حریت ،شہید اسلام ، عاشق خیرالانام

مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی علیہ الرحمہ  مجاہدِ جنگِ آزادی 1857ء نگینہ ضلع بجنور کے سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔

تعلیم و تریبت: علماے بدایوں و بریلی سے حصولِ علم کیا۔ حدیث کا درس شاہ ابو سعید مجددی رام پوری تلمیذِ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے لیا۔ مولانا حکیم شیر علی قادری سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ آپ مجاہدِآزادی مفتی عنایت احمدکاکوری تلمیذِ شاہ محمداسحاق دہلوی تلمیذ ونواسۂ شاہ عبد العزیز محدِّث دہلوی کے دست راست تھے۔ مفتی عنایت احمد کاکوری نے بریلی اورمولانا سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی نے مرادآبادکے علاقے میں انگریزوں کے خلاف1857ء میں جہادکے فتاویٰ جاری کیے۔ آپ نے ذکیؔ مرادآبادی (متوفی: 1864ء) جو امام بخش ناسخؔ کے شاگرد تھے،سے سخن آرائی سیکھی۔

بیعت و خلافت : آپ علیہ الرحمہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ  میں اپنے استاد حضرت شاہ ابو سعید مجددی نقشبندی  سے مرید تھے۔

خدمات: مولانا سید کفایت علی کافیؔ؛ جنرل بخت خاں روہیلہ کی فوج میں کمانڈر ہو کر دہلی آئے۔ بریلی، الہ آباد اور مرادآباد میں انگریز سے معرکہ آرائی رہی۔ بعض علاقوں کو انگریز سے بازیاب کرانے کے بعد جب اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں آیا تو آپ ’’صدرِ شریعت‘‘ بنائے گئے۔ امداد صابری لکھتے ہیں: ’’انگریز؛ مرادآباد سے بھاگ کر میرٹھ اور نینی تال چلے گئے، نواب مجو خاں حاکم مرادآباد مقرر ہو گئے۔ عباس علی خاں بن اسعد علی خاں ہندی توپ خانہ کے افسر معیّن ہوئے اورمولوی کفایت علی صاحب صدرِ شریعت بنائے گئے، انھوں نے عوام میں جہادی روح پھونکی۔ شہر میں ہر جمعہ کو بعد نماز انگریزوں کے خلاف وعظ فرماتے جس کا بے حد اثر ہوتا تھا۔

مرادآباد میں شورش کے ایام میں مولانا کافیؔ حالات کی رپورٹ بذریعہ خط جنرل بخت خاں کو بھیجتے رہے۔ آپ نے فتاویٰ جہاد کی نقلیں مختلف مقامات پر بھیجیں۔ مولانا وہاج الدین مرادآبادی (وفات 1858ء) بھی حریت پسند اور قائدینِ جہادِ آزادی1857ء میں تھے، آپ اور مولانا کافیؔ نے مل جُل کر مرادآباد میں ماحول سازی کی اور لوگوں کو جہاد کے لیے آمادہ کیا۔ انگریزی مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور راے عامہ ہم وار کی۔ آنولہ ضلع بریلی میں حکیم سعیداللہ قادری کے یہاں قیام پزیر رہ کر اطراف میں حریت کی صدا بلند کرتے رہے۔ یہاں سے بریلی گئے اور خان بہادر خاں نبیرۂ حافظ الملک حافظ رحمت خاں روہیلہ سے ملاقات کی،ان سے جہاد کے عنوان پر تبادلۂ خیال کیا۔ واضح ہو کہ روہیلہ پٹھانوں کا یہ قبیلہ بڑا جری و بہادر تھا، اعلیٰ حضرت محدث بریلوی کا بڑھیچ قبیلہ اوپر جا کر روہیلوں سے جا ملتا ہے۔ مولانا کافیؔ بریلی سے مرادآباد آئے اور تگ ودو میں لگے رہے۔

شہادت : 26اپریل 1858ء کو جنرل مونس گورہ فوج لے کر مرادآباد پر حملہ آور ہوا۔ مجاہدین جاں نثاری سے لڑے۔ نواب مجو خاں آخری وقت تک ایک مکان کی چھت پر بندوق چلاتے نظر آئے۔ آخر کار جامِ شہادت نوش کیا۔ سقوطِ مرادآباد کے ساتھ ہی تمام انقلابی رہ نما منتشر ہو گئے۔ جو انگریز حکومت کے ہاتھ آئے وہ تختۂ دار پر چڑھا دیے گئے یا حبسِ دوام بہ عبور دریاے شور[کالاپانی] کی سزا سے ہم کنار ہوئے۔ مولانا کفایت علی کافیؔ کو فخر الدین کلال کی مخبری سے انگریز نے گرفتار کر لیا۔ سزاؤں کا اذیت ناک مرحلہ شروع ہوا۔ جسم پر گرم گرم استری پھیری گئی۔ زخموں پرنمک مرچ چھڑکی گئی۔ اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے انگریزوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ جب اس مردِ مجاہد سے انگریز مایوس ہو چکا تو برسرِ عام چوک مرادآباد میں اس عاشقِ رسول کو تختۂ دار پر لٹکا دیا۔  4مئی 1858ء کو مقدمہ کی پیشی ہوئی اور جلد ہی پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ مسٹرجان انگلسن مجسٹریٹ کمیشن مرادآباد نے فیصلہ سنایا کہ: ’’چوں کہ اس مدعا علیہ ملزم نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور عوام کو قانونی حکومت کے خلاف ورغلایا اور شہر میں لوٹ مار کی، ملزم کا یہ فعل صریح بغاوتِ انگریزی سرکار ہوا۔ جس کی پاداش میں ملزم کو سزاے کامل دی جائے۔…حکم ہوا-مدعا علیہ کو پھانسی دے کر جان سے ماراجائے۔ جان انگلسن، 6 مئی 1858ء مقدمہ کی پوری کارروائی صرف دو دن میں پوری کردی گئی۔4 مئی کو پیش ہوا اور 6 مئی کو حکم دے دیا گیا۔ اور اسی وقت پھانسی دے دی گئی۔جب پھانسی کا حکم سنایا گیا مولانا کافیؔ مسرور و وارفتہ تھے۔ قتل گاہ کو جاتے ہوئے زبان پر یہ اشعار جاری تھے :

کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جائے گا

پر رسول اللہ کا دینِ حَسَنْ رہ جائے گا

 

نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں

حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا

 

ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا

بلبلیں اُڑ جائیں گی، سوٗنا چمن رہ جائے گا

 

اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو

اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا

 

جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود

آگ سے محفوظ اس کا، تن بدن رہ جائے گا

 

سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ ولیکن حشر تک

نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا

مولانا سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی  علیہ الرحمہ اتنے بڑے عاشقِ رسول تھے کہ تختۂ دار بھی آتشِ عشق سرد نہ کرسکا۔ مذکورہ اشعار آپ کی رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے والہانہ محبت و عقیدت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مردِ حق آگاہ مولانا کافیؔ نے گویا بزبانِ حال یہ پیغام دیا کہ زندگی وہی ہے جو رسول مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم میں گذرے۔ مولانا سیدکفایت علی کافیؔ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ  نے اپنے اشعار میں ’’سلطانِ نعت گویاں‘‘ فرمایا ہے ۔

مہکا ہے مِری بوئے دہن سے عالم

یاں نغمۂ شیریں نہیں تلخی سے بہم

کافیؔ سلطان نعت گویاں ہیں رضاؔ

اِن شاء اللہ میں وزیر اعظم

اعلیٰ حضرت آپ سے بہت متاثر تھے۔ ملفوظات میں کئی مقامات پر عمدہ الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ اس محبت و تعلقِ روحانی کی اصل وجہ عشق رسالت میں مماثلت و انگریز مخالفت ہی ہو سکتی ہے۔

تصنیفات: مولانا کافیؔ  علیہ الرحمہ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔ آپ کی منثور و منظوم کتابوں کے نام اس طرح ہیں:

1.   ترجمہ شمائل ترمذی؛منظوم

2.    مجموعہ چہل حدیث؛ منظوم

3.   خیابانِ فردوس

4.    بہارِ خلد

5.   نسیمِ جنت

6.    مولودِ بہار

7.    جذبۂ عشق

8.   دیوانِ کافی

9.    تجملِ دربارِ رحمت 1841ء میں حج وزیارت کی سعادت پائی، اس موقع پر تحریر کی۔


حضرت شرف الدین بوعلی شاہ قلندرچشتی علیہ الرحمہ

 

اسم گرامی: حضرت شاہ شرف الدین۔

لقب: بو علی قلندر۔

سلسلۂ نسب اس طرح ہے: کہ حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر بن سالار فخر الدین زبیر بن سالار حسن بن سالار عزیز بن ابوبکر غازی بن فارس بن عبد الرحمٰن بن عبد الرحیم بن دانک بن امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ (اقتباس الانوار:516)۔آپ علیہ الرحمہ پانی پت کے قدیم باشندے ہیں۔چنانچہ آپ کے والدین یعنی سالار فخر الدین اور بی بی حافظہ جمال کے مزارات پانی پت کے شمال کی طرف اب بھی موجود ہیں۔(ایضا:516)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 605ھ،مطابق 1209ء کو (پانی پت (ہند) میں ہوئی۔

تحصیلِ علم : آپ نے اکتسابِ علم میں بہت کوشش کی۔حدیث،فقہ،صرف ونحو،تفسیرمیں اعلیٰ قابلیت حاصل کی،عربی و فارسی زبان میں عبورحاصل تھا،آپ نے جلدہی تحصیل علوم ظاہری سے فراغت پائی۔آپ تحصیلِ علم سے فارغ ہوکررُشدوہدایت میں مشغول ہوئے۔مسجدقوت الاسلام میں وعظ فرماتے تھے اور یہ سلسلہ بارہ سال تک جاری رہا۔

بیعت و خلافت : آپ کی بیعت و خلافت میں بہت اختلاف ہے۔بعض کاخیال ہے کہ آپ مریدوخلیفہ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی(رحمۃ اللہ علیہ)کے تھے۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے نسبت تھی اور مولا علی ہی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور وہیں آپ کے مرشد ہیں، نیز آپ کی باطنی تربیت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔

سیرت وخصائص:آپ نے تیس سال تک قطب مینار دہلی میں تدریس فرمائی۔ایک مرتبہ آپ مسجد میں لوگوں کو وعظ فرما رہے تھے کہ مسجدمیں ایک درویش آیااوربآوازبلندیہ کہہ کر چلاگیاکہ "شرف الدین جس کام کے لیے پیداہواہے اس کوبھول گیا،کب تک اس قیل وقال میں رہے گا"۔یعنی حال کی طرف کب آؤ گے۔بس اس فقیر کی صدا ایک چوٹ بن کر دل پر لگی۔ویرانے کی طرف عبادت وریاضت میں مشغول ہو گئے،پھرطبیعت پر جذب کی کیفیت کا غلبہ ہو گیا۔جب جذب و سکر کی انتہا ہو گئی تو اپنی تمام کتابوں اور قلمی یاد داشتوں کو دریا میں پھینک دیا،اور دریا میں مصروفِ عبادت ہو گئے۔آپ ایک عرصے تک دریامیں کھڑے رہے۔پنڈلیوں کاگوشت مچھلیاں کھاگئیں۔حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی،اسی طرح بارہ سال گزرگئے۔ ایک روزغیب سے آواز آئی۔"شرف الدین!تیری عبادت قبول کی،مانگ کیامانگتاہے"۔دوبارہ پھرآوازآئی کہ۔"اچھاپانی سے تونکل"۔آپ نے عرض کیاکہ"خودنہیں نکلوں گاتواپنے ہاتھ سے نکال"۔توحضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے ہاتھ مبارک سے آپ کودریا سے نکالا۔اس سے وجدانی کیفیت اوراستغراق میں مزید اضافہ ہو گیا۔ آخر آپ مجذوب ہو گئے اور جذب و شوق میں اس قدر مستغرق ہوئے کہ دائرہ تکلیف شرعی سے باہر ہو گئے۔۔ شیخ محمد اکرم قدوسی صاحبِ اقتباس الانوار فرماتے ہیں: ’’حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فردِ کامل اور مظہر کل تھے اور آپ کا تفرد کلی (مکمل فرد ہونا) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے طفیل تھا کیونکہ آپ کو حضرت امیر المومنین علی سے بلاواسطہ تربیت حاصل ہوئی تھی۔ جس کی بدولت آپ جمیع کمالات و ولایت و خلافت ِکبریٰ پر فائز ہوئے۔اسی طرح حضرت بو علی قلندر کی نسبت اویسیہ حاصل ہوئی،اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ کے مربی تھے۔

بوعلی قلند ر علیہ الرحمہ کہلانے کی وجہ تسمیہ : حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم  نے جب آپ کودریاسے باہرنکالاآپ اسی وقت سے مست الست ہو گئے ،ہر وقت حالتِ جذب میں رہنے لگے،اور اسی دن سے شرف الدین بوعلی قلندرکہلانے لگے۔(تذکرہ اولیائے پاک و ہند:87)۔( شیعیان حیدر کرار کے ملنگوں نے عوام میں یہ مشہور کیا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شرف الدین قلندرسے پوچھا مانگ کیا مانگتا ہے: حضرت قلندر نے عرض کیا باری تعالیٰ! مجھے مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) جیسا بنادے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) نہیں بن سکتا۔تجھے علی ( علیہ السلام ) جیسا بنانے کے لیے مجھے دوسرا کعبہ بنانا پڑے گا۔ لہذا تجھے ’’بو علی‘‘ بنا دیتا ہوں اور بو علی کا تحت لفظی مطلب علی کا والد ہے اور ادھر ہم اس معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ اس کا مطلب علی(کرم اللہ وجہہ الکریم) جیسا ہے۔یہ روایت غلط لکھی ہے، اصل میں یہ ہے کہ آپ نے کئی سال دریا میں تا دریا کے ساتھ بکثرت عبادت کی آخر حکم خداوندی ہوا کہ مانگ کیا مانگتا ہے آپ نے فرمایا یا اللہ مجھے علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) کا مرتبہ عطا فرما جواب آیا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مقام تک پہنچنا مشکل ہے ہان مگر بو علی بن سکتے ہو اس وقت سے بو علی کہلائے۔

تاریخِ وصال، روضہ مبارک،اور اولاد:  آپ علیہ الرحمہ  کا وصال 13/رمضان المبارک 724ھ،مطابق ستمبر1324ء کو بڈھا کھیڑا موضع کرنال میں ہوا،سانحہء وصال جب ہوا تو آپ شغل ہوائی میں ایک درخت کی شاخ پکڑے ہوئے منہ بجانب آسمان کیے بصورت تصویر کھڑے تھے،جب آپ کا وصال ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے آپ کے استاد حافظ سراج الدین مکی کو خواب میں آکر آپ کے جسد اطہر کو پانی پت لاکر تجہیز و تدفین کا حکم فرمایا،جب سراج الدین مکی کرنال پہنچے تو لوگوں نے قلندر پاک کی تدفین کردی تھی تو حافظ سراج الدین مکی نے فرمان رسول اللہ ﷺکے مطابق قلندر پاک کے جسد اطہر کو پانی پت لے جانے کی کوشش کی تو اہل کرنال مانع ہوئے،اور جسد اطہر نا لے جانے دیا،تو سراج الدین مکی ایک مصنوعی جنازہ بناکر پانی پت کی طرف یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ اگر آپ کامل ہیں تو خود ہی آجائیں گے،تو اتفاق سے ایک امیر سیر کرتا ہوا وہاں آنکلا،اس نے جنازہ دیکھ کر پوچھا کہ کس کا جنازہ ہے تو بتایا گیا کہ حضرت بوعلی قلندر کا جنازہ ہے،تو اس نے زیارت کی خواہش کی جب خالی چارپائی سے کپڑا ہٹایا گیا تو وہاں قلندر پاک کا جسد اطہر موجود تھا،جسے بعد ازاں پانی پت دفن کر دیا گیا۔آپ کامزار پرانوار پانی پت ، بڈھا کھیڑا موضع کرنال ،باگھوٹی نزد پانی پت تینوں جگہوں میں مرجعِ خلائق ہے۔یہ آپ کی ایک واضح کرامت ہے اور طالبین صادق تینوں مقام سے فیض کا حصول کر سکتے ہیں،کیونکہ جس جگہ آپ ایک دفعہ بیٹھ گئے،وہ جگہ قبلہ گاہء خلائق ہو گئی ۔آپ کا روضہ انور اور اس سے متصل مسجد کو،مہابت خان (جو مغل شہنشاہ جہانگیر کی فوج کا ایک افسر تھا) نے بڑی عقیدت اور محبت سے تیار کروایا اور مہابت خان کی سفید سنگ مرمر سے بنی قبر بھی سید بوعلی شاہ قلندر کے روضہ انور کے قرب میں ہی ہے علاوہ ازیں پانی پت کی مشہور شخصیات،جیسا کہ ابراہیم لودھی(جو لودھی خاندان کا آخری چشم و چراغ تھا،جسے پانی پت کی پہلی جنگ میں ظہیر الدین محمد بابر نے ہراکر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی) اور مولانا الطاف حسین حالی کی قبور بھی قلندر پاک کے روضہ سے زیادہ دور نہیں ہیں آپ کی لاتعداد اولاد پاراچنار میں رہائش پزیر ہے،جن کے پاس اصل سلسلہ نسبی کے نسخہ جات موجود ہیں۔

کلام حضرت شرف الدین بو علی قلندر علیہ الرحمہ  :  آپ کے کلام شریف میں دیوان حضرت شرف الدین بو علی قلندر فارسی میں ایک عظیم صوفی کتاب ہے۔ آپ نے حضرت علی کے بارے فارسی میں مشہور شعر لکھا:

حیدریم قلندرم مستم

بندہ مرتضٰی علی ہستم

پیشوائے تمام رندانم

کہ سگِ کوئے شیرِ یزدانم

ایک جگہ مزید اپنا تعارف اس طرح پیش فرماتے ہیں:

"قلندر بوعلی ہَستَم،بنامِ دوست سرمَستم

دلم در عشق اُو بَستم،نمی دانم کُجا رَفتَم"

مزید فرماتے ہیں

سرم پیچاں،دلم پیچاں،سرم پیچیدہء جاناں

شرف چوں مار می پیچد،چہ بینی مار پیچاں را

ایک اور جگہ توحیدی رمز ایسے بیان کرتے ہیں

درگزر از گفتگوئے نامراد

بے مرادی نا مراداں را مراد

خصائل مبارکآپ علیہ الرحمہ  کا قد مبارک میانہ،جسم فربہ اندام،رنگت سانولی،کشادہ پیشانی،گھنگھریالے بال ،گنجان ریش کچھ بال سفید کچھ سیاہ آپ پر اکثر جذب و سکر کا رنگ غالب رہتا تھا آپ کو پان بہت پسند تھا،اور آپ علیہ الرحمہ  ہمیشہ پان استعمال فرماتے تھے اور لوگ آپ کے پان کو بطور تبرک حاصل کرکے استعمال کرتے اور بیماریوں سے شفا پاتے آپ کے پان مبارک سے بانجھ عورتوں کو اولاد نرینہ کا ہونا تو اس وقت پانی پت میں مشہور تھا آپ کی ذات وہ مبارک ہستی ہے،جنہیں مسلمان ،ہندو اور سکھ برابر مانتے ہیں ہندو آج بھی ان کی مناقب پڑھتے اور گاتے ہیں،ان کو ایشور(خدا) کا اوتار(مظہر) سمجھتے ہیں،اور ان کی نیاز میں پان اور لڈو پیش کرتے ہیں اور پیتل کے دیے جلاتے ہیں،اور مرادیں پاتے ہیں ۔آپ رضی اللہ عنہ کا قیام ایک حجرہ مبارکہ میں تھا اور حجرہ مبارک کے دروازہ پر پردہ ہوتا تھا جس کو حاضری کی اجازت ملتی،صرف وہی پردہ اٹھاکر اندر آسکتا تھا بعد ازاں سیدی غوث علی شاہ قلندر نے وہاں قیام فرمایا۔

حضرت بوعلی قلندر علیہ الرحمہ  کی نذر: حضرت بوعلی قلندر علیہ الرحمہ  پاک کی نیاز گوشت کی یخنی،دہی کی لسی اور پتلی روٹی ہے،جس قدر ہو سکے احتیاط سے تیار کرے،تیار کرتے وقت حتی الامکان باوضو رہے،درود سلام سے لبوں کو زینت دے،اور نیاز شریف تیار کرکے فاتحہ شریف پڑھ کر حضرت بوعلی قلندر پاک کی روح پر فتوح کو ایصال ثواب کرے ان شاء اللہ ،بفضل تعالی دینی دنیاوی ہر قسم کی مراد برآئے گی۔(تذکرہ اولیائے پاک و ہند:92/اقتباس الانوار:521/اخبار الاخیار:336)