Bier e Maoona Ka Waqiya


بیرِمَعونہ‘‘ کی ایک مشہور لڑائی ہے جس میں سَتَّر(70) صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک بڑی جماعت پوری کی پوری شہید ہوئی، جن کو ’’قُرَّاء‘‘ کہتے ہیں؛ اِس لیے کہ سب حضرات قرآن مجید کے حافظ تھے، اور سِوائے چند مُہاجِرین کے اکثر انصار تھے، حضورﷺ کواُن کے ساتھ بڑی محبت تھی؛ کیوں کہ یہ حضرات رات کا اکثر حصہ ذکروتلاوت میں گزارتے تھے، اور دن کوحضورﷺ کی بیویوں کے گھروں کی ضروریات: لکڑی،پانی، وغیرہ پہنچایاکرتے تھے، اِس مقبول جماعت کو ’’نَجد‘‘ کا رہنے والا قومِ بنی عامر کا ایک شخص جس کانام عامربن مالک اورکنیت ابوبَراء تھی اپنے ساتھ اپنی پناہ میں تبلیغ اوروعظ کے نام سے لے گیا تھا، حضورِاقدس ﷺنے ارشادبھی فرمایا کہ: ’’مجھے اندیشہ ہے کہ میرے اَصحاب کو مَضَرَّت نہ پہنچے‘‘؛ مگر اُس شخص نے بہت زیادہ اطمینان دلایا، آپ ﷺ نے اِن ستّرَصحابہ کو ہمراہ کر دیا، اور ایک والانامہ عامربن طُفیل کے نام -جو بنی عامرکارَئیس تھا، تحریر فرمایا، جس میں اسلام کی دعوت تھی، یہ حضرات مدینہ سے رخصت ہوکر ’’بِیرِمَعونہ‘‘ پہنچے تو ٹھہر گئے، اور دو ساتھی: ایک حضرت عمر بن اُمَیہ رضی اللہ عنہ ، دوسرے حضرت مُنذِر بن عَمرو رضی اللہ عنہ سب کے اونٹوں کو لے کر چَرانے کے لیے تشریف لے گئے، اورحضرت حَرام بن ملحان رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ دو حضرات کوساتھیوں میں سے لے کرعامر بن طفیل کے پاس حضورﷺ کاوالانامہ دینے کے لیے تشریف لے گئے، قریب پہنچ کر حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ساتھیوں سے فرمایا کہ: تم یہیں ٹھہرجاؤ، مَیں آگے جاتا ہوں، اگر میرے ساتھ کوئی دَغا  نہ کی گئی تو تم بھی چلے آنا؛ ورنہ یہیں سے واپس ہوجانا، کہ تین کے مارے جانے سے ایک کامارا جانا بہتر ہے، عامر بن طفیل اِس عامر بن مالک کابھتیجہ تھا جواِن صحابہ رضی اللہ عنھم کو اپنے ساتھ لایا تھا، اُس کواسلام سے اور مسلمانوں سے خاص عَداوَت تھی، حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے والا نامہ دیا تو اُس نے غصے میں پڑھابھی نہیں؛ بلکہ حضرت حرام رضی اللہ عنہ کو ایک ایسا نیزہ مارا جو پار نکل گیا، حضرت حرام ؓ ’’فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ (ربِّ کعبہ کی قَسم! مَیں توکامیاب ہوگیا)کہہ کر شہید ہوگے، اُس نے نہ اِس کی پرواہ کی کہ قاصِد کومارنا کسی قوم کے نزدیک بھی جائز نہیں، اور نہ اِس کالحاظ کیا کہ میرا چچا اِن حضرات کواپنی پناہ میں لایا ہے۔ اُن کوشہید کرنے کے بعداُس نے اپنی قوم کوجمع کیا، اور اِس پرآمادہ کیا کہ اِن مسلمانوں میں سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑو؛ لیکن اُن لوگوں نے ابوبراء کی پناہ کی وجہ سے تردُّد کیا، تو اُس نے آس پاس کے اَور لوگوں کوجمع کیا، اور بہت بڑی جماعت کے ساتھ اِن ستَّرصحابہ کرام علیہم الرضوان کامقابلہ کیا، یہ حضرات آخر کہاں تک مقابلہ کرتے؟

 چاروں طرف سے کُفَّار میں گھِرے ہوئے تھے، بجُز ایک کعب بن زید رضی اللہ عنہ کے، جن میں کچھ زندگی کی رَمَق باقی تھی اور کُفَّار اُن کو مُردہ سمجھ کرچھوڑگئے تھے۔ باقی سب شہید ہوگئے، حضرت مُنذِر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ جو اونٹ چَرانے گئے ہوئے تھے، اُنھوں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مُردار خور جانور اُڑ رہے تھے، دونوں حضرات یہ کہہ کرلوٹے کہ: ضرور کوئی حادِثہ پیش آیا، یہاں آکر دیکھا تو اپنے ساتھیوں کوشہید پایا اور سواروں کو خون کی بھری ہوئی تلواریں لیے ہوئے اُن کے گِرد چَکَّر لگاتے دیکھا، یہ حالت دیکھ کر دونوں حضرات ٹھِٹکے اورباہم مشورہ کیاکہ: کیا کرناچاہیے؟

 حضرت عُمر بن اُمَیہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: چلو،واپس چل کر حضورﷺ کو اطلاع دیں؛ مگر حضرت مُنذِر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: خبر تو ہو ہی جائے گی، میراتودل نہیں مانتاکہ شہادت کو چھوڑوں، اور اُس جگہ سے چلاجاؤں جہاں ہمارے دوست پڑے سورہے ہیں، آگے بڑھو اور ساتھیوں سے جاملو، چناں چہ دونوں آگے بڑھے اورمیدان میں کُودگئے، حضرت منذر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور حضرت عمربن اُمیہ رضی اللہ عنہ گرفتار ہوئے؛ مگرچوں کہ عامر کی ماں کے ذِمے کسی مَنت کے سلسلے میں ایک غلام کاآزاد کرنا تھا؛ اِس لیے عامر نے اِن کواُس منت  میں آزادکیا۔ (اَشہرِ مشاہیرِاسلام)

 اِن حضرات میں حضرت ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، اُن کے قاتل: جَبَّار بن سُلْمیٰ کہتے ہیں کہ: مَیں نے جب اُن کے بَرچھا مارا اور وہ شہید ہوئے، تو اُنھوں نے کہا: ’’فُزْتُ وَاللہِ‘‘: خداکی قَسم! مَیں کامیاب ہوا، اِس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ اُن کی نعش آسمان کو اُڑی چلی گئی، مَیں بہت مُتحیَّرہوا ،اور مَیں نے بعد میں لوگوں سے پوچھا کہ: مَیں نے خود بَرچھا مارا، وہ مَرے؛ لیکن پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ: مَیں کامیاب ہوگیا، تووہ کامیابی کیاتھی؟

 لوگوں نے بتایا کہ: وہ کامیابی جنت کی تھی، اِس پرمَیں مسلمان ہوگیا۔

 

 

Huzoor Ghausul Azam RadiAllahu Anhu (Part 03)



     حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن خضررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  والدفرماتے ہیں کہ ''میں نے حضرت سیدناغوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  مدرسہ میں خواب دیکھا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اور اس میں صحراء اورسمندرکے مشائخ موجود ہیں اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے صدر ہیں، ان میں بعض مشائخ تو وہ ہیں جن کے سر پر صرف عمامہ ہے اور بعض وہ ہیں جن کے عمامہ پر ایک طرہ ہے اور بعض کے دو طرے ہیں لیکن حضورغوث پاک شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  عمامہ شریف پر تین طُرّے (یعنی عمامہ پر لگائے جانے والے مخصوص پھندنے)ہیں۔میں ان تین طُرّوں کے بارے میں متفکر تھااوراسی حالت میں جب میں بیدارہواتو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے سرہانے کھڑے تھے ارشاد فرمانے لگے کہ ''خضر!ایک طُرّہ علم شریعت کی شرافت کا اور دوسرا علم حقیقت کی شرافت کا اورتیسرا شرف ومرتبہ کا طُرّہ ہے۔'' (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۶)

 

حضورغوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ثابت قدمی:

    حضرت قطب ربانی شیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی نے اپنی ثابت قدمی کا خود اس انداز میں تذکرہ فرمایا ہے کہ'' میں نے(راہِ خدا عزوجل میں)بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا۔'' (قلائدالجواہر،ص۱۰)

 

شیاطین سے مقابلہ:

     شیخ عثمان الصریفینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''میں نے شہنشاہِ بغداد،حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان مبارک سے سنا کہ'' میں شب و روز بیابانوں اور ویران جنگلوں میں رہا کرتا تھامیرے پاس شیاطین مسلح ہو کر ہیبت ناک شکلوں میں قطاردرقطار آتے اور مجھ سے مقابلہ کرتے، مجھ پر آگ پھینکتے مگر میں اپنے دل میں بہت زیادہ ہمت اور طاقت محسوس کرتا اور غیب سے کوئی مجھے پکار کر کہتا:'' اے عبدالقادر! اُٹھو ان کی طرف بڑھو،مقابلہ میں ہم تمہیں ثابت قدم رکھیں گے اور تمہاری مدد کریں گے۔'' پھر جب میں ان کی طرف بڑھتا تو وہ دائیں بائیں یا جدھر سے آتے اسی طرف بھاگ جاتے، ان میں سے میرے پاس صرف ایک ہی شخص آتا اور ڈراتا اور مجھے کہتا کہ'' یہاں سے چلے جاؤ۔'' تو میں اسے ایک طمانچہ مارتا تو وہ بھاگتا نظر آتا پھر میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھتا تو وہ جل کر خاک ہو جاتا۔'' (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۶۵)

 

ظاہری وباطنی اوصاف کے جامع:

    مفتی عراق محی الدین شیخ ابو عبداللہ محمد بن علی توحیدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ''حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی،قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جلد رونے والے، نہایت خوف والے، باہیبت،مستجاب الدعوات، کریم الاخلاق، خوشبودار پسینہ والے، بُری باتوں سے دُوررہنے والے، حق کی طرف لوگوں سے زیادہ قریب ہونے والے،  نفس پر قابو پانے والے، انتقام نہ لینے والے، سائل کو نہ جھڑکنے والے، علم سے مہذب ہونے والے تھے، آداب شریعت آپ کے ظاہری اوصاف اور حقیقت آپ کا باطن تھا۔''(بہجۃالاسرار،ذکر شی من شرائف اخلاقہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۰۱)

 

سمندرِ طریقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  ہاتھوں میں:

    قطب شہیر ،سیدنا احمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ''شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دائیں ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی لیں، ہمارے اس وقت میں سید عبدالقادررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکا کوئی ثانی نہیں۔''  ( بہجۃالاسرار،ذکراحترام المشائخ والعلماء لہ وثنائہم علیہ،ص۴۴۴)

 

چالیس سال تک عشاء کے وضو سے نمازِفجرادافرمائی:

     شیخ ابو عبداللہ محمد بن ابو الفتح ہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ''میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی،قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چالیس سال تک خدمت کی، اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضوفرماکر دو رکعت نمازِنفل پڑھ لیتے تھے۔''  (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۶۴)

 

پندرہ سال تک ہررات میں ختم قرآن مجید:

    حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پندرہ سال تک رات بھر میں ایک قرآنِ پاک ختم کرتے رہے (بہجۃالاسرار،ذکرفصول من کلامہ...الخ،ص۱۱۸)

اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہہ ر روز ایک ہزار رکعت نفل ادا فرماتے تھے۔''(تفریح الخاطر،ص۳۶)

  

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بیان مبارک کی برکتیں

    حضرت بزازرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:'' میں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے سنا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کرسی پر بیٹھے فرما رہے تھے کہ    ''میں نے حضور سیدِعالم،نورِمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا:'' بیٹا تم بیان کیوں نہیں کرتے؟''میں نے عرض کیا:'' اے میرے نانا جان(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)!میں ایک عجمی مرد ہوں، بغداد میں فصحاء کے سامنے بیان کیسے کروں؟'' آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا:'' بیٹا !اپنا منہ کھولو۔'' میں نے اپنا منہ کھولا، تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے میرے منہ میں سات دفعہ لعاب مبارک ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ ''لوگوں کے سامنے بیان کیا کرو اور انہیں اپنے رب عزوجل کی طرف عمدہ حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔''

     پھر میں نے نمازِ ظہراداکی اور بیٹھ گیا، میرے پاس بہت سے لوگ آئے اور مجھ پر چلائے، اس کے بعدمیں نے حضرت علی ابن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کی زیارت کی کہ میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں کہ''اے بیٹے تم بیان کیوں نہیں کرتے ؟''میں نے عرض کیا:'' اے میرے والد! لوگ مجھ پر چلاتے ہیں ۔''پھر آپ نے فرمایا:''اے میرے فرزند! اپنا منہ کھولو۔''

    میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ دفعہ لعاب ڈالا، میں نے عرض کیا کہ'' آپ نے سات دفعہ کیوں نہیں ڈالا ؟''تو انہوں نے فرمایا: ''رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے۔''پھر وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے اور میںنے یہ شعرپڑھا:

ترجمہ:    (۱)فکر کا غوطہ زن دل کے سمندر میں معارف کے موتیوں کے لئے غوطہ لگاتا ہے پھر وہ ان کو سینے کے کنارہ کی طرف نکال لاتا ہے۔

    (۲)اس کی زبان کے ترجمان کا تاجر بولی دیتا ہے پھر وہ ایسے گھروں میں کہ اللہ عزوجل نے ان کی بلندی کا حکم دیا ہے جو طاعت کی عمدہ قیمتوں کے ساتھ خرید لیتا ہے۔(بہجۃالاسرار،ذکرفصول من کلامہ مرصعا بشی من عجائب،ص۵۸)

 

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاپہلابیان مبارک:

     حضورِغوثِ اعظم حضرت سیدناشیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا پہلا بیان اجتماعِ برانیہ میں ماہ شوال المکرم۵۲۱ہجری میں عظیم الشان مجلس میں ہوا جس پر ہیبت و رونق چھائی ہوئی تھی اولیاء کرام اور فرشتوں نے اسے ڈھانپا ہوا تھا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب و سنت کی تصریح کے ساتھ لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف بلایاتو وہ سب اطاعت و فرمانبرداری کے لئے جلدی کرنے لگے۔(بہجۃالاسرار، ذکروعظہ ،ص۱۷۴)

 

چالیس سال تک استقامت سے بیان فرمایا :

     سیدی غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  فرزندِ ارجمند سیدنا عبدالوہاب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ'' حضورسیدناشیخ عبدالقادرجیلانی غوث اعظم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ۵۲۱ھ سے ۵۶۱ھ تک چالیس سال مخلوق کو وعظ و نصیحت فرمائی۔(بہجۃالاسرار،ذکروعظہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۸۴)

 

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  بیان مبارک کی تاثیر:

     حضرت ابراہیم بن سعدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ'' جب ہمارے شیخ حضورِ غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عالموں والا لباس پہن کر اونچے مقام پر جلوہ افروز ہو کربیان فرماتے تو لوگ آپ کے کلام مبارک کو بغور سنتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے۔''(المرجع السابق،ص۱۸۹)

Huzoor Ghausul Azam RadiAllahu Anhu (Part 02)

    آپ رحمۃ اللہ علیہ کاعلم وعمل اورتقویٰ وپرہیزگاری

     حضرت شیخ امام موقف الدین بن قدامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ''ہم ۵۶۱ہجری میں بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں پر علم، عمل اورحال وفتوی نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لئے نہیں کرتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں تمام علوم جمع ہیں اورجو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے علم حاصل کرتے تھے آپ ان تمام طلبہ کے پڑھانے میں صبر فرماتے تھے، آپ کا سینہ فراخ تھا اور آپ سیر چشم تھے، اللہ عزوجل نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوال عزیزہ جمع فرمادیئے تھے۔ ''

(بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۵)

 

تیرہ علوم میں تقریرفرماتے :

    امام ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانی اورشیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم تحریر فرماتے ہیں کہ '' حضرت سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔''

    ایک جگہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ''حضورِغوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے تفسیر، حدیث، فقہ اورعلم الکلام پڑھتے تھے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کوتفسیر، حدیث، فقہ، کلام ، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قرآن مجید پڑھاتے تھے۔''  (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۵)

 

علم کاسمندر: 

    شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ'' ایک روز کسی قاری نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس شریف میں قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنی پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمادیئے اورپھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر معنی کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے۔''(اخبارالاخیار،ص۱۱)

 

ایک آیت کے چالیس معانی بیان فرمائے :

     حافظ ابوا لعباس احمد بن احمد بغداری بندلجی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے صاحب بہجۃالاسرارسے فرمایا:''میں اورتمہارے والد ایک دن حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک آیت کی تفسیر میں ایک معنی بیان فرمایاتو میں نے تمہارے والدسے کہا:'' یہ معنی آپ جانتے ہیں؟'' آپ نے فرمایا:''ہاں۔'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک دوسرا معنی بیان فرمایا تومیں نے دوبارہ تمہارے والد سے پوچھاکہ کیا آپ اس معنی کو جانتے ہیں؟تو انہوں نے فرمایا'' ہاں۔'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک اور معنی بیان فرمایاتو میں نے تمہارے والد سے پھرپوچھا کہ آپ اس کا معنی جانتے ہیں۔اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے گیارہ معانی بیان کئے اور میں ہربارتمہارے والد سے پوچھتا تھا'' کیاآپ ان معانی سے واقف ہیں؟''

 تو وہ یہی کہتے کہ ان معنوں سے واقف ہوں۔'' یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پورے چالیس معنی بیان کئے جو نہایت عمدہ اور عزیز تھے ۔ گیارہ کے بعد ہر معنی کے بارے میں تمہارے والد کہتے تھے: ''میں ان معنوں سے واقف نہیں ہوں۔'' (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۴)

 

سیدناامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کااظہارِعقیدت :

    حضرت شیخ امام ابوالحسن علی بن الہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ'' میں نے حضرت سیدناشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور شیخ بقابن بطو کے ساتھ حضرت سیدناامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  روضہ اقدس کی زیارت کی، میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قبر سے باہرتشریف لائے اورحضورسیدی غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کواپنے سینے سے لگالیااور انہیں خلعت پہناکرارشاد فرمایا: ''اے شیخ عبدالقادر !بے شک میں علم شریعت ،علم حقیقت، علم حال اور فعل حال میں تمہارا محتاج ہوں۔''  (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص،۲۲۶)

 

مشکل مسئلے کاآسان جواب :

    بلاد ِعجم سے ایک سوال آیا کہ'' ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کریگاکہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہو تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کررہاہو،اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہو جائیں گی، تو اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہے؟'' اس سوال سے علماء عراق حیران اور ششدر رہ گئے ۔

      اور اس مسئلہ کو انہوں نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں پیش کیاتو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ'' وہ شخص مکہ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کر کے اپنی قسم کو پورا کرے ۔'' اس شافی جواب سے علماء عراق کو نہایت ہی تعجب ہوا کیوں کہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہوگئے تھے۔''(المرجع السابق)

 

واہ کیامرتبہ اے غوث ہے بالاتیرا:

     حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن خضررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدفرماتے ہیں کہ ''میں نے حضرت سیدناغوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  مدرسہ میں خواب دیکھا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اور اس میں صحراء اورسمندرکے مشائخ موجود ہیں اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے صدر ہیں، ان میں بعض مشائخ تو وہ ہیں جن کے سر پر صرف عمامہ ہے اور بعض وہ ہیں جن کے عمامہ پر ایک طرہ ہے اور بعض کے دو طرے ہیں لیکن حضورغوث پاک شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے  عمامہ شریف پر تین طُرّے (یعنی عمامہ پر لگائے جانے والے مخصوص پھندنے)ہیں۔میں ان تین طُرّوں کے بارے میں متفکر تھااوراسی حالت میں جب میں بیدارہواتو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے سرہانے کھڑے تھے ارشاد فرمانے لگے کہ ''خضر!ایک طُرّہ علم شریعت کی شرافت کا اور دوسرا علم حقیقت کی شرافت کا اورتیسرا شرف ومرتبہ کا طُرّہ ہے۔'' (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۶)

حضورغوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ثابت قدمی:

    حضرت قطب ربانی شیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی نے اپنی ثابت قدمی کا خود اس انداز میں تذکرہ فرمایا ہے کہ'' میں نے(راہِ خدا عزوجل میں)بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا۔'' (قلائدالجواہر،ص۱۰)

 

شیاطین سے مقابلہ

     شیخ عثمان الصریفینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''میں نے شہنشاہِ بغداد،حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان مبارک سے سنا کہ'' میں شب و روز بیابانوں اور ویران جنگلوں میں رہا کرتا تھامیرے پاس شیاطین مسلح ہو کر ہیبت ناک شکلوں میں قطاردرقطار آتے اور مجھ سے مقابلہ کرتے، مجھ پر آگ پھینکتے مگر میں اپنے دل میں بہت زیادہ ہمت اور طاقت محسوس کرتا اور غیب سے کوئی مجھے پکار کر کہتا:'' اے عبدالقادر! اُٹھو ان کی طرف بڑھو،مقابلہ میں ہم تمہیں ثابت قدم رکھیں گے اور تمہاری مدد کریں گے۔'' پھر جب میں ان کی طرف بڑھتا تو وہ دائیں بائیں یا جدھر سے آتے اسی طرف بھاگ جاتے، ان میں سے میرے پاس صرف ایک ہی شخص آتا اور ڈراتا اور مجھے کہتا کہ'' یہاں سے چلے جاؤ۔'' تو میں اسے ایک طمانچہ مارتا تو وہ بھاگتا نظر آتا پھر میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھتا تو وہ جل کر خاک ہو جاتا۔'' (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۶۵)