چودھویں صدی ہجری میں جن ارباب علم و فن اور اصحاب طریقت نے غیر منقسم ہندستان میں اپنے علم و عمل کے ذریعے سے دینی خدمات انجام دی ہیں، ان مقدس شخصیات میں ایک نام سند الفقہا، سلطان المناظرین، اجمل العلما مفتی اجمل شاہ سنبھلی بانی مرکزی مدرسہ اہل سنت اجمل العلوم علیہ الرحمہ کا بھی ہے، جو اپنے آپ میں ایک ماہر مدرس، عظیم فقیہ اور میدان مناظرہ کے شہسوار تھے۔مغربی اترپردیش کے تاریخی شہر سنبھل (مرادآباد ) کے باشندے عالی جناب حضرت مولانا حافظ محمد اکمل شاہ علیہ الرحمہ کے کوئی نرینہ اولاد نہ تھی، آپ نے بارگاہ خالق کائنات میں دعا کی "اے مولی تعالی؛ اگر تو مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں اسے خدمت دین کے لیے وقف کر دوں گا ،، بفضلہ تعالی دعا باب اجابت سے ٹکرائی اور ۱۵/ محرم الحرام ۱۳۱۸ھ بہ مطابق ۱۵ / مئی ۱۹۰۰ء بوقت صبح ایک سعادت مند فرزند کی ولادت ہوئی۔آپ علیہ الرحمہ کا نام محمد اجمل ہے، اہل علم آپ کو سند الفقہا، سلطان المناظرین، اجمل العلما جیسے عظیم الشان القاب سے یاد کرتے ہیں اور شہر سنبھل میں آپ کو شاہ صاحب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔جب آپ کی عمر مبارک چار سال، چار ماہ اور چار دن کی ہوئی تو آپ کے جد امجد عارف باللہ حضرت شاہ جی غلام رسول صاحب علیہ الرحمہ نے بسم اللہ شریف پڑھائی، اور قرآن پاک ناظرہ، اردو کی ابتدائی کتابیں اور فارسی زبان کی کتب اپنے چچا حضرت مولانا محمد افضل شاہ اور والد ماجد حضرت مولانا حافظ محمد اکمل شاہ علیہما الرحمہ سے پڑھیں۔ ابتدائی عربی سے شرح جامی تک کی تعلیم اپنے چچا زاد بھائی جامع معقول و منقول حضرت مولانا عماد الدین صاحب سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ مولانا عماد الدین کی معرفت میں مرادآباد کی شہرہ آفاق دینی درس گاہ جامعہ نعیمیہ، مراد آباد تشریف لائے، اور شرح جامی کے بعد کی جملہ کتب تاج العلما حضرت مفتی محمد عمر نعیمی اشرفی اور صدر الافاضل، مفسر قرآن حضرت علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین اشرفی مراد آبادی علیہما الرحمۃ کے پاس پڑھیں۔ آپ کی تعلیم و تربیت کا سہرا آپ کے جد امجد، والد ماجد، چچا جان اور چچا زاد بھائی خصوصا صدر الافاضل علیہ الرحمہ کو جاتا ہے، جن کی توجہات اور نواز شات سے آپ نے یہ بلند پایہ علمی مقام حاصل کیا۔ اجمل العلما پر صدر الافاضل علیہ الرحمہ کی خصوصی نظر تھی اس لیے خود صدرالافاضل آپ کو مرکز عقیدت بریلی شریف لے کر حاضر ہوئے، اور شیخ الاسلام والمسلمین، مجدد اعظم، اعلی حضرت، امام احمد رضا خان قادری حنفی بریلوی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت کرائی۔ پیر و مرشد کے وصال کے بعد شہزادہ اعلی حضرت، حجۃ الاسلام، علامہ حامد رضا خان علیہ الرحمہ نے سلسلہ رضویہ قادریہ کی اجازت و خلافت سے نوازا، اور خانوادہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کے عظیم بزرگ محبوب ربانی حضرت مخدوم المشائخ، اعلی حضرت شاہ علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی نے بھی اجمل العلما کو سلسلۂ اشرفیہ چشتیہ کی خلافت و اجازت عطا فرمائی۔
آپ کا معمول تھا کہ بعد نماز عشا میاں صاحب والی مسجد میں پابندی کے
ساتھ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر بیان فرماتے اور درس قرآن کا یہ سلسلہ تقریباً دس
سال تک چلتا رہا، جہاں پر کثیر تعداد میں سامعین شرکت فرماتے تھے۔: حضور اجمل العلما علیہ
الرحمہ کا معمول تھا کہ بعد ظہر آئے ہوے خطوط کا جواب رقم کرتے. اگر فقہی سوالات
ہوتے تو ان کا نہایت مدلل جواب لکھتے، آپ نے تقریبا چالیس سال تک فتویٰ نویسی
فرمائی، آپ کے فتاویٰ کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے جو آج فتاوی اجملیہ کے نام سے
چار جلدوں میں اہل علم کی بیچ مقبول و متعارف ہے، اس کے علاوہ آپ نے باطل فرقوں کی
سرکوبی اور عوام الناس کو اسلامی تعلیمات و راہ راست کی شناخت کرانے کے لیے متعدد
کتب تصنیف فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں: (۱) فتاوی اجملیہ 4/ جلدیں، (۲) رد شہاب
ثاقب بر وہابی خائب، (۳) رد سیف یمانی در جوف لکھنوی و تھانی، (۴)اجمل المقال
لعارف رویت الہلال، (۵) عطر الکلام فی استحسان المولد والقیام، (۶) تحائف حنفیہ بر
سوالات وہابیہ (۷) فوٹو کا جواز در حق عازمان سفر حجاز، (۸) اجمل الکلام فی عدم
القرات خلف الامام، (۹) افضل الانبیاء والمرسلين (۱۰) فیصلہ حق و باطل، (۱۱) طوفان
نجدیت وسبع آداب زیارت، (۱۲) بارش سنگی در قفاۓ دربھنگی، (۱۳) قول فیصل
(۱۴) اجمل الارشاد فی اصل حرف الضاد ( ۱۵) کاشف سنیت و ہابیت (۱۶) سرمایۂ واعظین
(۱۷) ریاض الشہدا منظوم (۱۸) نظام شریعت اول، دوم (۱۹) اسلامی تعلیم اول، دوم (۲۰)
مذہب اسلام (۲۱) اجمل السیر في عمر سید البشر (۲۲) مضامین اجمل العلما (۲۳) نعتیہ
دیوان حضرت اجمل العلما۔
وصال
پر ملال : مسلسل علالت کے سبب ۶۳/ سال کی عمر میں یہ علمی ستارہ ۲۸/ ربیع
الثانى ۱۳۸۳ھ بہ مطابق ۸/ ستمبر ، ۱۹۶۳ء بروز بدھ ۱۲/بج کر ۲۰ / منٹ پر ہمیشہ کے
لیے روپوش ہوگیا۔