کون ہے غوث العالم محبوب یزدانی مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ؟؟؟

 

وہ غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جهانگیر سمنانی سامانی نوربخشی قد س سره النورانی.....................

 جن كے خانوادہ نور بخشیہ میں پانچ پشتوں تک مسلسل سلطان ابن سلطان سید ابن سید ولی ابن ولی حافظ ابن حافظ قاری ابن قاری عالم ابن عالم حضرت مخدوم اشرف تک ہوتے رہے۔ (صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٩/ ساتواں صحیفہ/ اعلی حضرت اشرفی میاں كچهوچهوی ناشر ادارہ فیضان اشرف دارالعلوم محمدیہ ممبئی طباعت ١٤٠٥)  جن کی ولادت کی بشارت حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے والد ماجد علیہ الرحمہ کو عالم خواب میں دی اور اشرف نام بھی عطاء فرمایا۔(خاتمہ مکتوبات اشرفی/صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٠ تا ٦١/دوسرا صحیفہ/ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ ناشر ادارہ فیضان اشرف دارالعلوم محمدیہ ممبئی طباعت١٤٠٥/محبوب یزدانی ص ٢٤/ حضرت سید شاہ نعیم اشرف اشرفی جیلانی جائسی/ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی جائس یوپی) جو نجیب الطرفین سید ہیں اورجن كی ولادت سے قبل ہی ولادت و ولایت کی خوشخبری آپ کی والد ماجدہ  کو حضرت خواجہ احمد یسوی رضی اللہ عنہ نے روحانی اعتبار سے دی۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٥٣ صحیفہ اول سے ماخوذ/ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ/ ناشر ادارہ فیضان اشرف دارالعلوم محمدیہ ممبئی/لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٤١ لطیفہ نمبر ٢٢"اوکھائی پرنٹنگ پریس کراچی پاکستان بار اول ٢٠٠٢ء) جن كی ولایت اور جہانگیریت کا چرچا آپ کی پیدائش سے بہت پہلے سرزمین ہند میں آپ کے جد امجد حضرت شمس الدین نور بخشی رضی اللہ عنہ سے  حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔(مکتوبات اشرفی صفحہ ٤٢/مکتوب نمبر ہفتادم بنام شیخ محمد عیسٰی/ صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٣٤ تا ١٣٥/سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ/صفحہ نمبر ١٢/مقالہ نگار:سید محمد اشرف جیلانی/ شعبہ: کلیہ معارف اسلامیہ  جامعہ کراچی: اکتوبر ٢٠٠٣ )  جومجذوب وقت حضرت سیدنا ابراہیم علیه الرحمه کی نظر عنایت ہیں۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٣ لطیفہ نمبر ٢٢)  جن كے والد سلطنت سمنان کے بادشاہ ولی کامل متقی وقت پابند و صوم وصلوٰة حضرت سید ابراہیم نور بخشی رضی اللہ عنہ ہیں۔(لطائف اشرفی مترجم جلد دوئم ص ٣٢ لطیفہ نمبر ٢٢) جن كی والدہ وقت کی ولیہ عابدہ زاہدہ ساجدہ متقیہ قرآن پاک کی قاریہ جو حضرت خواجہ احمد یسوی(رضی اللہ عنہ) کی اولاد میں سے تھیں جن کا نام حضرت سیدہ خدیجہ(رضی اللہ عنہا)ہے۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٢ لطیفہ نمبر ٢٢) جن كی ولادت مبارک(اختلاف روایت کے ساتھ مگر تحقیقی روایت کے مطابق )سن ٧١٢هجری میں بمقام سمنان(خراسان)میں ہوئی۔ (سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ/صفحہ ٣٣/مقالہ نگار:سیدمحمد اشرف جیلانی/شعبہ:کلیہ معارف اسلامیہ  جامعہ کراچی: اکتوبر ٢٠٠٣ ) جو مادر زاد ولی تھے۔(مرآة الاسرار مترجم/ص ١٠٤٤۔ناشر ضیاء القرآن پبلیکیشنز گنج بخش روڈ لاہور پاکستان۔اشاعت ١٤١٤/شیخ عبد الرحمٰن چشتی علیہ الرحمہ/تذکرۃ الانساب ١٨٤ /حضرت سید امام الدین احمد نقوی گلشن آبادی/اشاعت ٢٠١٦عیسوی /ناشر رفاعی مشن ناسک)  جن کی رسم بسم اللہ خوانی  حضرت عماد الدین تبریزی رضی اللہ عنہ نے چار سال چار مہینہ چار دن میں فرمائی۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٥/دوسرا صحیفہ) جنہوں نے ایک ہی سال کے اندر قرأت سبعہ کے ساتھ قرآن پاک حفظ فرمالیا جبکہ آپ اس وقت صرف ٧سال کے تھے۔ (لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٤ لطیفہ ٢٢ / صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٦؛دوسرا صحیفہ/حیات سید اشرف جہانگیر سمنانی ص ٣٣/ ڈاکٹر سید وحید اشرف/مطبع سرفراز قومی پریس لکھنؤ )  جنہوں نے صرف ١٤ سال کی عمر میں مروجہ علوم و فنون کی تکمیل فرمایا اور دور طالب علمی ہی میں آپ کے علم کا چرچا عراق کے جامعات و شہروں میں ہونے لگا اور دور طالب علمی ہی میں آپ دینی مسائل کے مشکلات کو دلائل کے ساتھ حل فرما دیا کرتے تھے۔ ( لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٤ تا ٣٥ لطیفہ ٢٢) جو والد محترم کے وصال کے بعد سلطنت سمنان کے بادشاہ بنے جبکہ آپ اس وقت صرف ١٥سال کے تھے۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٦/دوسرا صحیفہ) جنہوں نے پندرہ سال کی عمر سے پچیس سال کی عمر تک یعنی دس سال شان و شوکت کے ساتھ سلطان سمنان بنکر حکمرانی کی اور عدل وانصاف کی وہ مثال قائم فرمائی کہ ہر چہار جانب آپ کے عدل انصاف کے چرچے ہونے لگے۔ (لطائف اشرفی جلد دوئم ص ٣٥ تا ٣٨ لطیفہ ٢٢/صحائف اشرفی حصہ اول ص ٧١/تیسرا صحیفہ/تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ:ص ٤٣ بعنوان بحیثیت ایک عادل حکمراں) جو بادشاہ وقت ہوکر بھی ایک وقت کی فرض نماز تو دور کی بات سنت ونوافل تک ترک نہ فرمائی۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٧٠/تیسرا صحیفہ) جن كی عالم رویا میں حضرت خضر علیہ السلام سے بار بار ملاقات ہوتی رہیں اور جنہوں نے دنیاوی سلطنت تخت وتاج کو چھوڑ کر روحانیت کی سلطنت کو ترجیح دی اور فقیری اختیار فرمالی۔(لطائف اشرفی ٢/ ٣٨؛لطیفہ ٢٢) جو اپنے پیر ومرشد حضرت علاء الحق والدین گنج نبات چشتی رضی اللہ عنہ کے دست حق پرست پر بیعت ہونے کیلئے سمنان سے چل کر شہر بخارا حاضری دیتے ہوئے پھر اوچہ شریف میں حضرت مخدوم جہانیاں قدس سرہ العزیز (یعنی حضرت مخدوم جلال الدین بخاری علیہ الرحمہ)سے ملاقات کرکے ملک ہند کے شہر دہلی آئے اور مزار حضرت قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ و مزار حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الہی چشتی رضی اللہ عنہ میں حاضری دیکر فیوض و برکات حاصل کی پھر صوبہ بہار کی طرف سے صوبہ بنگال کے شہر پنڈوا تک تشریف لاکر بیعت ہوئے اس وقت آپ کی عمر شریف ستائیس سال کی تھی۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٨ تا ٤٨ لطیفہ ٢٢/صحائف اشرفی حصہ دوم ص ٥٣ گیارہواں صحیفہ/تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص ٦١ تا ٦٤۔بعنوان۔ہندوستان میں ورود) (یعنی سمنان سے بنگال تک کا سفر اول دو سال میں طے ہوا کیونکہ جب سمناں سے چلے تو پچیس سال کی عمر تھی اور بیعت ہوئے تو ستائیس کی عمر تھی نتیجہ دو سال نکلتا ہے اور دو سال کا ذکر"تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ"کے ص ٧٠ میں بھی موجود ہے۔ جن كی آمد کی خبر آپ کے پیر ومرشد کو حضرت خضر علیہ السلام نے ٧٠ ستّر بار دی اور جب آپ کی آمد کی خبر آپ کے پیر ومرشد کو ہوئی تو آپ کو لانے کیلئے اور آپ سے ملاقات کیلئے آپ کے استقبال کیلے خود آپ کے پیر ومرشد  خانقاہ پنڈوا شریف سے باہر مریدوں کی جماعت لیکر نکلیں۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٤٨ تا ٥٠  لطیفہ ٢٢) جنہوں نے اپنے پیر ومرشد کی کئی سالوں تک خدمت کی سفر وحضر میں ساتھ رہےاور جن کے لئے لقب جہانگیری آپ کے پیر ومرشد کو اللہ عزوجل نے غیبی طور پر عطاء کی۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٥٩ لطیفہ نمبر ٢٢) جو اپنے پیر ومرشد کے عشق میں فنا فی الشیخ ہوگئے اور ادب و احترام کا عالم یہ ہوا کہ بیعت کے دن سے لیکر سفر آخرت تک کبھی اپنے مرشد کے شہر کی طرف نہ پاو(پیر)پھیلایا اور نہ کبھی شہر مرشد کی طرف منھ کرکے تھوکا۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٤٣/محبوب یزدانی ص٤٠/حضرت سید شاہ نعیم اشرف اشرفی جیلانی جائسی/ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی جائس رائے بریلی یوپی) جنہوں نے وصیت کے مطابق وقت کے ولی کامل مخدوم وقت مخدوم  بہاری حضرت شرف الدین یحیی منیری فردوسی رضی اللہ عنہ کی نمازے جنازہ پڑھائی۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٤٥ تا ٤٧ لطیفہ نمبر ٢٢) جو مقام غوثیت و محبوبیت پر فائز ہوئے اسی سبب آپ غوث العالم و محبوب یزدانی بھی ہیں۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٢١ تا ١٢٢ اور ص ١٤٠)  جن كی شفارش پر شہزادہ حضور علاؤ الحق پنڈوی حضرت شیخ نور قطب عالم پنڈوی علیہ الرحمہ مقام قطبیت پر فائز ہوئے۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٣٦ تا ١٣٦) جن کو ١٤ سلاسل کی(خصوصی)خلافت و اجازت حاصل تھی۔(مرآة الاسرار مترجم ص ١٠٤٤/ناشر ضیاء القرآن پبلیکیشنز گنج بخش روڈ لاہور پاکستان /مصنف شیخ عبد الرحمٰن چشتی علیہ الرحمہ )جنہوں نے پورے تیس سال تک پوری دنیا کی سیر کی۔( صحائف اشرفی حص اول ص ١٥٢/ تذکرۃ الانساب ١٨٤ / حضرت سید امام الدین احمد نقوی گلشن آبادی/اشاعت ٢٠١٦ء/ناشر رفاعی مشن ناسک)  جن کو ایک سو چودہ بزرگوں سے نعمتیں ملی یعنی ان بزرگوں میں سے کچھ سے اجازت و خلافت کچھ سے اذکار و وضائف کی اجازت خاصہ اور کچھ سے تبرکات خاصہ وغیرہ اور فیوض و برکات جیسی عظیم نعمتیں ملی۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٢٥٤ لطیفہ نمبر ٢٥) جب آپ مدینہ شریف حاضر ہوئے تو عالم خواب میں زیارت رسول اکرمﷺ سے مشرف ہوئے۔(صحائف اشرفی حصہ دوم ص ١٢٨ تیرہواں صحیفہ) جب آپ حج بیت اللہ کے لئے مکہ شریف پہنچے تو بہت سے علماء و مشائخین سے ملاقات بھی ہوئی اور امام عبد اللہ یافعی رضی اللہ عنہ سے شرف ملاقات ملی اور سند حدیث بھی حاصل ہوئی۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٤۔ساتواں صحیفہ) جنہوں نے اپنی تبلیغ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلموں کو مسلمان بنایا۔(تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص ٩٨)  جنہوں نے سرزمین بنارس میں پتھر کی مورتی سے پجاریوں کے سامنے مذہب اسلام کی حقانیت پر شہادت  دلوائی جسکے بعد ایک ہزار غیر مسلم اسی وقت کلمہ پڑھ دامن اسلام سے وابستہ ہو گئے ۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٦٩ تا ٢٧٠/مرآة الاسرار مترجم ص ١٠٥٤)  جس نے مردے تک کو قم باذن اللہ کی صدا سے زندہ فرمایا۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٣٩)  جن  کی صحبت میں رہکر جانور بھی مسجد کا ادب سیکھ جاتے ہیں۔(لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٦٦ لطیفہ نمبر ٢٢) جن كی صحبت سے صرف کمال راوت جوگی ہی فیض یاب نہیں بلکہ جوگی کمال کی بلی بھی کمال کی ہوجاتی ہے اور خانقاہ مخدومی میں آنے والے مہمانوں کی تعداد بتاتی ہے اور خانقاہ مخدومی کی جاروب کشی بھی کرتی ہے۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٣٤ تا ٢٣٥/محبوب یزدانی ص ١١٠/مصنف حضرت سید شاہ نعیم اشرف اشرفی جیلانی جائسی/ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی جائس رائے بریلی یوپی) جن کے مریدوں کی بخشش کاوعدہ اللہ عزوجل نے غیبی طور پر فرمالیا ہے۔تبھی حضور  اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قد س سرہ النورانی فرماتے ہیں"مریدوں کی قیامت میں رہائی نار دوزخ سے:کریں گے اشرف سمناں حمایت ہو تو ایسی ہو۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٥٤) جو صرف ایک صوفی بزرگ ہی نہیں بلکہ ساتویں صدی کے مجدد اعظم بھی ہیں۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٥/ساتواں صحیفہ) جنہوں نے فارسی زبان میں خط نستعلیق پر ٧٢٧ہجری میں قرآن پاک کا بہترین اور عمدہ ترجمہ فرمایااور اس فارسی ترجمہ کو اردو ترجمہ کی شکل حضور شیخ اعظم علامہ سید اظہار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ علامہ سید ممتاز اشرفی صدر المدرسین و شیخ الحدیث دارالعلوم اشرفیہ رضویہ اورنگی ٹاؤن کراچی پاکستان نے دیا ہے اور ساتھ تفسیر کا اضافہ بھی فرمایا اور مکمل نام رکھا ہے اشرف البیان مع اظہار العرفان جس کو مخدوم اشرف اکیڈمی لان سیکٹر ١٤ اورنگی ٹاؤن کراچی پاکستان نے شائع کیا۔ (تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص 177) واضح رہے کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فارسی زبان میں سے سب سے پہلے ترجمہ قرآن حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ (المتوفیٰ 1176ہجری) کا ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ غوث العالم محبوب یزدانی قدوۃ الکبریٰ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی کچھوچھوی  رضی اللہ عنہ ( المتوفی 808 ہجری) کا ترجمہ قرآن آپ سے بھی پہلے کا ہے۔ جنہوں نے ایک نہیں بلکہ کثرت کے ساتھ کتابیں عربی و فارسی اور دیگر زبانوں میں تصنف فرمائی جو کہ فن تفسیر،فقہ،اصول فقہ،تصوف،علم نحو،علم صرف،علم عقائد،علم الانساب وغیرہ علوم پر مشتمل ہے تبھی اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا"دکھایا جوہر علمی لیاقت اس کو کہتے ہیں"ہوئی تصنیف ہر فن میں بلاغت اس کو کہتے ہیں۔(صحائف اشرفی٥/ ١١٦ تا ١١٩) جنہوں نے تفضیلت و رافضیت اور ناصبیت سے لوگوں کو بچانے کیلئے خلفائے راشدین یعنی حضرت ابو بکر صدیق وعمرو عثمان ومولی علی۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)کی فضیلت پر عقائد اہل سنت وجماعت کے مطابق کتاب تصنیف فرمائی اور فضائل مولیٰ علی رضی اللہ عنہ میں زیادہ صفحات لکھے۔(صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٧ و ص ٢٢٩)  جوآخری وقت میں اپنے سارے اصحاب کو نصیحت کی کہ سید اشرف سمنانی کاعقیدہ یہ ہے کہ اصحاب رسول ﷺ میں سب سے افضل و اعلی حضرت صدیق اکبر ہیں پھر حضرت عمر،پھر حضرت عثمان ،پھر مولی علی(رضی اللہ عنہم اجمعین)ہیں اور یہ بھی فرمادیا کہ جو اس عقیدہ پر نہیں وہ گمراہ و بدمذہب ہے اور ایسوں سے سید اشرف  بیزار ہے۔(رسالہ پیغام اشرف/صفحہ نمبر ٧٦ تا ٨٩/ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچھہ شریف) جن کو اللہ عزوجل نے خدمت خلق و مخلوق کی ہدایت و رہبری کےلئے لگ بھگ ١٢٠ سال کی عمر شریف عطاء فرمائی۔( تحقیقی مقالہ بنام سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی دینی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص ٣٣ بعنوان/تحقیق سن ولادت و وفات/ ص ٩٥ مقالہ نگار:سید محمد اشرف جیلانی/ شعبہ:کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی/اکتوبر ۔٢٠٠٣ء،) جن كی مزار شریف کچھوچھہ شریف میں  مرجع الخلائق بنا ہوا ہے اور جن کے مزار پاک سے فیض کا دریا جاری ہونے کی شہادت محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب اخبارالاخیار  میں دیتے ہیں۔( اخبار الاخیار مترجم ص ٣٥٨/طبقہ سوم/ناشر مدینہ پبلشنگ کمپنی بندر روڈ کراچی پاکستان) جن کے مزار پاک کی زیارت کے لئے مصنف مرآة الاسرار حضرت شیخ عبد الرحمٰن چشتی رضی اللہ عنہ کو عالم رویا میں حضرت غریب نواز رضی اللہ عنہ تلقین فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ اے عبد الرحمٰن اگر واقعی تم کو رجال الغیب اور حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کا شوق ہے تو سید اشرف سمنانی کی بارگاہ میں جاو۔(مرآة الاسرار مترجم ص ١٠٥٦ ) جن کے خلفاء عظام کی تعداد کثرت میں ہیں جو کہ عالم دنیا میں پھیل کر تبلیغ اسلام فرمایا اور آج پوری دنیا میں سلسلہ اشرفیت کا بول بالا ہے اور چھ سو  سال  سے مسلسل آج بھی سید مخدوم اشرف سمنانی قدس سره کی روحانی اور سید عبد الرزاق ابن سید عبد الغفور جیلانی(رضی للہ عنہما) کی اصلی اولادیں پوری دنیا میں پھیل  کر تقریرا و تحریرا تبلیغ اسلام کرنے میں رات و دن مصروف عمل ہے تبھی ہر اشرفی کہتا ہےاشرفی ناز کر تو اپنے اشرف پر:کون پاتا ہے خاندان ایسا (لطائف اشرفی/شیخ الاسلام حضرت  نظام یمنی قد س سرہ /صحائف اشرفی / سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی/ مرآة الاسرار /شیخ عبد الرحمٰن چشتی/ رسالہ پیغام اشرف کچھوچھہ شریف)

                                                             ازقلم:  علامہ شبیر احمد راج محلی حفظہ اللہ    (خطیب و امام جامع مسجد درگاہ مخدوم شاہ ملاڈ ویسٹ ممبئی نمبر ٦٤)

ماہ ذی القعدہ کی فضیلت اور اذکار و نوافل

 

اسلامی سال کا گیارھواں مہینہ ذُوالقعدہ ہے۔ یہ پہلا مہینہ ہے جس میں جنگ و قتال حرام ہے۔ اس کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ یہ قعود سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنیٰ بیٹھنے کے ہیں اور اس مہینے میں بھی عرب لوگ جنگ و قتال سے بیٹھ جاتے تھے یعنی جنگ سے باز رہتے تھے۔ اس لئے اس کا نام ذُوالقعدہ رکھا گیا۔ ذُوالقعدہ کا مہینہ وہ بزرگ مہینہ ہے، جس کو حُرمت کا مہینہ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا:  مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ یعنی بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ان میں سے پہلا حرمت والا مہینہ ذُوالقعدہ ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ جو کوئی ذوالقعدہ کی پہلی رات میں چار رکعات نفل پڑھے اور اس کی ہر رکعت میں اَلْحَمْد شریف کے بعد ۳۳ دفعہ قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اس کے لئے جنّت میں اللہ تعالیٰ ہزار مکان یا قوت ِ سرخ کے بنائے گا اور ہر مکان میں جواہر کے تخت ہوں گے اور ہر تخت پر ایک حور بیٹھی ہوگی ، جس کی پیشانی سورج سے زیادہ روشن ہوگی۔

ایک اور روایت میں ہے کہ جو آدمی اس مہینے کی ہر رات میں دو ۲ رکعات نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں اَلْحَمْد شریف کے بعد قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ تین بار پڑھے تو اس کو ہر رات میں ایک شہید اور ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔

جو کوئی اس مہینے میں ہر جمعہ کو چار۴ رکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں اَلْحَمْد شریف کے بعد اکیس۲۱ بار قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے حج اور عمرہ کا ثواب لکھتا ہے۔

اور فرمایا کہ جو کوئی پنج شنبہ (جمعرات) کے دن اس مہینے میں سو ۱۰۰ رکعات پڑھے اور ہر رکعت میں اَلْحَمْد شریف کے بعد دس ۱۰مرتبہ قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اس نے بے انتہا ثواب پایا۔ (فضائل الایام والشہور، صفحہ ۴۵۷، ۴۵۸ ، بحوالۂ رسالہ فضائل الشہور)

ماہِ ذی القعدہ کی چاند رات کو تیس رکعات پندرہ سلام کے ساتھ پڑھے، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورہ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ ایک مرتبہ پڑھے بعد سلام کے عَمَّ یَتَسَآءَلُونَ ایک مرتبہ پڑھے۔ نویں تاریخ ماہ ذی القعدہ کو ترقی درجات کے واسطے دو رکعات نفل پڑھے اور دونوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورہ مُزَّمِّل پڑھے اور سلام کے بعد تین بار سورۂ یٰسین کا ورد کرے، اس مہینے کے آخر میں چاشت کے بعد دورکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں سورۃ القدر تین تین بار پڑھے اور سلام کے بعد گیارہ بار درود شریف اور گیارہ بار سورۂ فاتحہ پڑھ کر سجدہ کرے اور جنابِ الٰہی میں دعا مانگے تو جو کچھ مانگے گا ملے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔(لطائفِ اشرفی، حصہ دوئم، صفحہ ۳۵۲)

بعض ناخواندہ ذی القعدہ کے مہینے کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں، وہ شاید اس وجہ سے کہ یہ مہینہ اپنے سے پہلے اور بعد کے مہینوں کے برعکس عیدالفطر و عیدالاضحی وغیرہ سے خالی ہوتا ہے، اور خالی کا مطلب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے میں کسی نیک عمل و طاعت کی بالکل ضرورت نہیں، یہ خیال بالکل غلط، فاسد اور سراسر لاعلمی پر مبنی ہے، اس سے بچنا چاہیے۔

اسی طرح بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ چونکہ یہ خالی کا مہینہ ہوتا ہے اس لیے اس مہینے میں نکاح اور اور شادی وغیرہ بھی نہیں کی جاسکتی کہ کہیں وہ خیر و برکت سے خالی نہ رہ جائے، چنانچہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ماہ شوال میں جلدی جلدی شادیاں کرکے فارغ ہوجاتے ہیں تاکہ کہیں ذی القعدہ کا مہینہ شروع نہ ہوجائے۔ حالانکہ ماہِ ذی القعدہ سنہ 5 ہجری میں  حضورﷺنے اُم المؤمنین حضرت زینب سے نکاح فرمایا تھا۔ (البدایہ والنہایہ ) اسی طرح ماہِ ذی قعدہ سنہ ٧ ہجری میں آپﷺ نے حضرت میمونہ سے نکاح فرمایا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء) الغرض ماہِ ذی قعدہ میں نکاح و شادی وغیرہ عبادات کرنے کو خیر و برکت سے خالی سمجھنا زمانۂ جاہلیت کی باتیں اور توہمات پرستی ہے، جن کا شریعت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔


ماہ محرم الحرام کی فضیلت اور اذکار و نوافل

محرم الحرام اسلامی مہینوں میں سب سے پہلا مہینہ محرم الحرام شریف ہے اور یہ مہینہ اللہ تعالی کا مہینہ ہے اس مہینے میں جنگ کرنا حرام ہے قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ  ترجمہ: بےشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں (ف۸۰) اللہ کی کتاب میں (ف۸۱) جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں (ف۸۲) یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں (کنزالایمان /سورہ توبہ 36)  بخاری شریف میں ہے سال بارہ مہینوں کا ہے جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے در پے ہیں ذی القعدہ / ذوالحجہ  اور محرم  ہیں اور جواور چوتھا  مہینہ رجب المرجب کا ہے ۔ ترمذی شریف میں ہے حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ صِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰہِ الْمُحَرَّمُ(ترمذی ۱/۱۵۷)  ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینے  ماہ محرم الحرام کے ہیں  اور فرض نماز کے بعدسب سے افضل نماز رات کی ہے۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایامَنْ صَامَ یَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَہ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُوْنَ یَوْمًا(الترغیب والترہیب ۲/۱۱۴) جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔

وظائف:  محرم الحرام کی پہلی شب سے عاشورہ تک روزانہ بعد نماز عشاء ایک سو مرتبہ کلمہ توحید پڑھنا بخشش گناہ کے لئے بہت افضل ہے۔ نوافل:  اول شب بعد نماز عشاء آٹھ رکعت چار سلام سے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص سات سات بار پڑھنی ہے ان شاء اللہ تعالیٰ بے شمار  اجرو ثواب عطا ہو گا۔

یومِ عاشورہ: عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں علما ء کا اختلاف ہے اس کی وجہ مختلف طور پر بیان کی گئی ہے ، اکثر علماء کا قول ہے کہ چونکہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اس لئے اس کو عاشورہ کہا گیا، بعض کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بزرگیاں دنوں کے اعتبار سے امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی ہے اسی مناسبت سے اس کو عاشورہ کہتے ہیں ۔

یوم عاشورہ کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا : اس دن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا کیا۔ ہم اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں ۔

 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہم موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں، چنانچہ آپ نے اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(مکاشفۃ القلوب، صفحہ ٦٩٨ از امام محمد غزالی علیہ الرحمہ)

یومِ عاشورہ کے فضائل میں بکثرت روایات آتی ہیں ۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اس دن ان کی پیدائش ہوئی، اسی دن جنت میں داخل کیے گئے۔ اسی دن عرش، کرسی ، آسمان وزمین، سورج ، چاند ستارے اور جنت پیدا ہوئے۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیداہوئے، اسی دن انہیں آگ سے نجات ملی، اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نجات ملی اور فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوئے ۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ، اور اسی دن وہ آسمان پر اٹھالیے گئے۔ اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مقام (آسمان) پراٹھالیا گیا۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر لگی۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی ۔ اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو عظیم سلطنت عطا ہوئی ۔اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس ہوئی ۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف دُور ہوئی۔ اسی دن زمین پر آسمان سے پہلی بارش ہوئی۔ (مکاشفۃ القلوب ، صفحہ ٦٩٩)

نوافل برائے شبِ عاشورہ

٭ جو شخص اس رات میں چار رکعات نماز پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد پچاس ٥٠ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے تو اللہ عزوجل اس کے پچاس برس گزشتہ اور پچاس سال آئندہ کے گناہ بخش دیتا ہے۔ اور اس کے لئے ملاءِ اعلیٰ میں ایک محل تیار کرتا ہے۔

٭ اس رات دو ٢ رکعات نفل قبر کی روشنی کے واسطے پڑھے جاتے ہیں جن کی ترکیب یہ ہے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے۔ جو آدمی اس رات میںیہ نماز پڑھے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت تک ا س کی قبر روشن رکھے گا۔

عاشورے کے روزے رکھنے کی فضیلت

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اگر مومن اللہ کی راہ میں روئے زمین پر مال خرچ کرے تو اسے (اس قدر) بزرگی حاصل نہ ہوگی جس قدر کوئی عاشورے کے روز روزہ رکھے۔ اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھل جائیں ، وہ جس دروازے سے داخل ہونا پسند کرے گا داخل ہوگا۔(لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ /صفحہ ٣٣٦)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص عاشورے کے دن روزہ رکھے پس شب و روز کی ساعتوں میں ہر ساعت اللہ تعالیٰ اُن ساعتوں کی ہر ساعت کے بدلے اس پر سات لاکھ فرشتے نازل فرمائے گا جو قیامت تک دعا اور استغفار کریں گے اور بے شک اللہ تعالیٰ کی آٹھ جنتیں ہیں، اللہ تعالیٰ ہر بہشت میں ساٹھ لاکھ فرشتے مقرر کرے گا کہ (عاشورے کے روزے دار کےلئے ) روزہ رکھنے کے دن سے اس بندے اور بندی کی موت تک محلات اور شہر تعمیر کرے ، درخت اُگائیں، نہریں جاری کریں۔)لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ /صفحہ ٣٣٦)

 حضورﷺنے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اس کا اجر توریت، انجیل ، زبور اور قرآن میں جتنے حرف ہیں ان کی تعداد کے مطابق ہر حرف پر بیس نیکیاں ہونگی۔ جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اسے ایک ہزار شہیدوں کا ثواب ملے گا۔)لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ / صفحہ ٣٣٦)

حضور ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا خاموشی اور سکوت میں وہ روزہ اس کے اُس سال کے گناہوں اور خطاؤں کا کفارہ ہوگا، اور جو شخص کامل قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ دو رکعت نماز خضوع سے پڑھے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس بندے کی جزا کیا ہونی چاہیے پس فرشتے عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ تو ہی خوب جانتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کے حساب میں ہزار ہزار نیکیاں لکھی جائیں اور ہزار ہزار بدی مٹادی جائیں۔ اس کارتبہ ہزار ہزار درجے بلند کیا جائے۔ ہم نے اپنی بزرگی کے ہزار ہزار دروازے کھول دیے ہیں جو اس پر کبھی بند نہ کیے جائیں گے۔لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ /صفحہ ٣٣٦)

 ایصالِ ثواب برائے سیدناسرکارامام حسین رضی اللہ عنہ :حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کیلئے دورکعات نماز ادا کرے اور دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے بعد دس بار سورہ اخلاص پڑھے ۔ سلام کے بعد نو ٩ نو ٩ بار آیت الکرسی اور درود شریف پڑھے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ اس روز دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ اس کی پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد اَلَمْ نَشْرَحْ اور دوسری میں اِذَاجَآءَ پچیس بار پڑھے۔(لطائف اشرفی لطیفہ٣٨ / ٣٣٨)

جو شخص عاشورے کے روز حاجت کے لیے یہ دعا مانگے اس کی حاجت پوری ہوگی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اِلٰہِیْ بُحُرْمَتِ الْحُسَیْنِ وَ اَخِیْہٖ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہٖ وَجَدِّہٖ وَ بَنِیْہٖ فَرِّجْ عَمَّا ۤاَنَا فِیْہِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ  مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ  اَجْمَعِیْنَ 

اللہ کے نام سے شروع بڑا مہربان نہایت رحم والا۔ اے اللہ! حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اُن کے بھائی، اُن کی والدہ، اُن کے والد اور اُن کے نانا کی حرمت کے واسطے سے میں جس حاجت میں ہوں وہ مجھ پر کھول دے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بہترین خلائق محمدا پر اور آپ ا کی تمام آل پر رحمت فرما۔ (لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ / صفحہ ٣٣٨)

یومِ عاشورہ  کے ممنوعات: عاشورہ کے دن سیاہ کپڑے پہننا، سینہ کوبی کرنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا، نوحہ کرنا، پیٹنا، چھری چاقو سے بدن زخمی کرنا جیسا کہ رافضیوں کا طریقہ ہے حرام اور گناہ ہے اِیسے افعال شنیعہ سے اجتناب ِ کلی کرنا چاہیے۔ ایسے افعال پر سخت ترین وعیدیں آئی ہیں جیساکہ حدیث پاک میں ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے کہ ہمارے طریقے پر وہ نہیں ہے جو رخساروں کو مارے اور گریبان پھاڑے اور پکارے جاہلیت کا پکارنا۔ (فضائل الایام والشہور ، صفحہ ٢٦٤۔ بحوالہ مشکوۃ صفحہ ١٥٠)

  ایک سال تک زندگی کا بیمہ (دعائے عاشورہ)

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص عاشورہ محرم کے طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک اس دعا کوپڑھ لے یا کسی سے پڑھوا کر سن لے تو ان شاء اللہ تعالیٰ یقینا سال بھر تک اس کی زندگی کا بیمہ ہو جائے گا۔

یَا قَابِلَ تَوْبَۃِ اٰدَمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا فَارِجَ کَرْبِ ذِی النُّوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا جَامِعَ شَمْلِ یَعْقُوْبَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا سَامِعَ دَعْوَۃِ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا مُغِیْثَ اِبْرَاھِیْمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا رَافِعَ اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَآءِ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا مُجِیْبَ دَعْوَۃِ صَالِحٍ فِی النَّاقَۃِ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا نَاصِرَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ رَحِیْمُھُمَا صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ صَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ o وَاقْضِ حَاجَاتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَطِلْ عُمُرَنَا فِیْ طَاعَتِکَ وَ مَحَبَّتِکَ وَ رِضَاکَ وَ اَحْیِنَاحَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَّ تَوَفَّنَا عَلَی الْاِیْمَانِ وَ الْاِسْلَامِ o بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ط اَللّٰھُمَّ بِعِزِّ الْحَسَنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہٖ وَ جَدِّہٖ وَ بَنِیْہٖ فَرِّجْ عَمَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ o

غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ النورانی فرماتے ہیں کہ مشرق ومغرب کے تمام اکابر جن سے ہم نے ملاقات کی ہے ان پر عمل کرتے ہیں تمام مشائخ کے اوراد سے منقول ہے کہ جو شخص عاشورہ کے روز یہ دعا پڑھے اس کی عمر دراز ہوتی ہے جس سال اس کی موت واقع ہوتی ہے ، اس سال اسے یہ دعا پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ، چنانچہ آپ نے تمام اصحاب و احباب اولاد و اخفا ء کو روز عاشورہ طلب کرکے یہ دعا  پڑھنے کا حکم فرمایا دعا یہ ہے۔ (لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ /صفحہ ٣٣٥  وظائف اشرفی صفحہ ٦۴)

سُبْحَانَ اللّٰہِ مِلْءَ الْمِیْزَانِ وَ مُنْتَھَی الْعِلْمِ وَ مَبْلَغَ الرِّضٰی وَ زِنَۃِ الْعَرْشِ لَا مَلْجَاءَ وَ لَا مَنْجَاءَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا ۤاِلَیْہِ o سُبْحَانَ اللّٰہِ الْشَفْعِ وَ الْوِتْرِ وَ عَدَدَ کَلِمَاتِ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ o وَ ھُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ o نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ o وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ o وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰیۤ اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ عَدَدَ ذَرَّاتِ الْوُجُوْدِ وَ عَدَدَ مَعْلُوْمَاتِ اللّٰہِ وَ الْحَمْد۔ (٧ بارپڑھیں)

مزار شریف پر حاضری کا طریقہ


امام اہلسنت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان قادری حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ زیارت قبر میت کے مواجہ میں کھڑے ہوکر اوراس طرف سے جائے کہ اس کی نگاہ سامنے ہو، سرہانے سے نہ آئےکہ سر اٹھاکر دیکھنا پڑے۔ سلام و ایصال ثواب کے لیے اگر دیر کرنا چاہتا ہے رُو بقبر بیٹھ جائے اور پڑھتا رہے یا ولی کا مزار ہے تو اس سے فیض لے ۔واللہ تعالیٰ اعلم ( فتاویٰ رضویہ ٥٣٥/٩)

مزار پر دعا کا طریقہ: فاتحہ کے بعد زائر صاحبِ مزار کے وسیلے سے دعا کرے اور اپنا جائز مقصد پیش کرے پھر سلام کرتا ہوا  واپس آئے۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے۔ طواف باالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ٥٢٢/٩)

فائدہ: مزار شریف یا قبر پر پھولوں کی چادر ڈالنے میں شرعاً  حرج نہیں بلکہ نہایت  ہی اچھا طریقہ ہے۔  قبروں پر پھول ڈالنا کہ جب تک وہ تَر رہے گا تسبیح کریں گے اس سے میت سے کا دل بہلتا ہے اور رحمت اتر تی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ قبروں پر پھولوں کا رکھنا اچھا ہے ۔ دیگر حوالہ جات یہ ہے۔(فتاویٰ ہندیہ ٣٥١/٥ ،ردالمختار جلد٦٠٦/١،فتاویٰ رضویہ  ١٠٥/٩)

 مزار پر چادر چڑھانا:مزار پرجب چادر موجود ہو  خراب نہ ہوئی ہو بدلنے کی حاجت نہیں تو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں   اللہ کے ولی کو ایصال ثواب کرنے کے لئے کسی محتاج کو دیں ۔ ( احکام شریعت حصہ اول صفحہ٤٢)

پیڑ ، دیوار یاتاک پر فاتحہ دلانا :لوگوں کا کہنا ہے کہ فلاں پیڑ پر شہید (یاکوئی بزرگ) رہتے ہیں اور اس پیڑیا دیوار یا تاک کے پاس جاکر مٹھائی ، چاول (یا کسی چیز)   پر فاتحہ دلانا ، ہار پھول ڈالنا ، لوبان یا اگربتی جلانا اور منتیں ماننا ، مرادیں مانگنا یہ سب باتیں واہیات ، بیکار ، خرافات اور جاہلوں والی بے وقوفیاں اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ (احکام شریعت ٢٢/١)

کسی بزرگ یا شہید یا ولی کی حاضری یا سواری آنا:اسی طرح یہ سمجھنا کہ فلاں آدمی یا عورت پر کسی بزرگ یا شہید یا ولی کی حاضری ہوتی یا سواری آتی ہے یہ بھی فضول  اور جاہلوں کی گڑھی ہوئی بات ہے، کسی انسان کے کسی بھی طرح سے مرنے کے بعد اسکی روح کسی انسان یا کسی چیز میں نہیں آسکتی ، جو جنتی ہیں ان کو اس طرح کی ضرورت نہیں اور جو جہنمی ہیں وہ آ نہیں سکتے، جنات اور شیطان ضرورکسی چیز یا کسی جانوریا کسی انسان کے جسم کو گمراہ کرنے کے لیے آ سکتے ہیں ۔ ہمزاد بھی شیطان جنات میں سے ہوتا ہےجو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہےزندگی بھر اسکے ساتھ رہتا  ہے اور اس انسان کے مرنے کے بعد یا زندگی میں ہی کسی بچے یا بڑے کے جسم میں گھس کراسکی زبان بولتا ہے ، اسی کو جاہل مسلمان دوسرا جنم اور پچھلے جنم کی بات سمجھ لیتے ہیں۔ اللہ جل جلالہ ہمیں سیدھے راستے پر چلائے یعنی انبیاء ، شہداء،صدیقین، صالحین ور اولیاء کرام کے راستے پر چلائے اور شریعت کا پابند بنائے۔ آمین