مزار شریف پر حاضری کا طریقہ


امام اہلسنت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان قادری حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ زیارت قبر میت کے مواجہ میں کھڑے ہوکر اوراس طرف سے جائے کہ اس کی نگاہ سامنے ہو، سرہانے سے نہ آئےکہ سر اٹھاکر دیکھنا پڑے۔ سلام و ایصال ثواب کے لیے اگر دیر کرنا چاہتا ہے رُو بقبر بیٹھ جائے اور پڑھتا رہے یا ولی کا مزار ہے تو اس سے فیض لے ۔واللہ تعالیٰ اعلم ( فتاویٰ رضویہ ٥٣٥/٩)

مزار پر دعا کا طریقہ: فاتحہ کے بعد زائر صاحبِ مزار کے وسیلے سے دعا کرے اور اپنا جائز مقصد پیش کرے پھر سلام کرتا ہوا  واپس آئے۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے۔ طواف باالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ٥٢٢/٩)

فائدہ: مزار شریف یا قبر پر پھولوں کی چادر ڈالنے میں شرعاً  حرج نہیں بلکہ نہایت  ہی اچھا طریقہ ہے۔  قبروں پر پھول ڈالنا کہ جب تک وہ تَر رہے گا تسبیح کریں گے اس سے میت سے کا دل بہلتا ہے اور رحمت اتر تی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ قبروں پر پھولوں کا رکھنا اچھا ہے ۔ دیگر حوالہ جات یہ ہے۔(فتاویٰ ہندیہ ٣٥١/٥ ،ردالمختار جلد٦٠٦/١،فتاویٰ رضویہ  ١٠٥/٩)

 مزار پر چادر چڑھانا:مزار پرجب چادر موجود ہو  خراب نہ ہوئی ہو بدلنے کی حاجت نہیں تو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں   اللہ کے ولی کو ایصال ثواب کرنے کے لئے کسی محتاج کو دیں ۔ ( احکام شریعت حصہ اول صفحہ٤٢)

پیڑ ، دیوار یاتاک پر فاتحہ دلانا :لوگوں کا کہنا ہے کہ فلاں پیڑ پر شہید (یاکوئی بزرگ) رہتے ہیں اور اس پیڑیا دیوار یا تاک کے پاس جاکر مٹھائی ، چاول (یا کسی چیز)   پر فاتحہ دلانا ، ہار پھول ڈالنا ، لوبان یا اگربتی جلانا اور منتیں ماننا ، مرادیں مانگنا یہ سب باتیں واہیات ، بیکار ، خرافات اور جاہلوں والی بے وقوفیاں اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ (احکام شریعت ٢٢/١)

کسی بزرگ یا شہید یا ولی کی حاضری یا سواری آنا:اسی طرح یہ سمجھنا کہ فلاں آدمی یا عورت پر کسی بزرگ یا شہید یا ولی کی حاضری ہوتی یا سواری آتی ہے یہ بھی فضول  اور جاہلوں کی گڑھی ہوئی بات ہے، کسی انسان کے کسی بھی طرح سے مرنے کے بعد اسکی روح کسی انسان یا کسی چیز میں نہیں آسکتی ، جو جنتی ہیں ان کو اس طرح کی ضرورت نہیں اور جو جہنمی ہیں وہ آ نہیں سکتے، جنات اور شیطان ضرورکسی چیز یا کسی جانوریا کسی انسان کے جسم کو گمراہ کرنے کے لیے آ سکتے ہیں ۔ ہمزاد بھی شیطان جنات میں سے ہوتا ہےجو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہےزندگی بھر اسکے ساتھ رہتا  ہے اور اس انسان کے مرنے کے بعد یا زندگی میں ہی کسی بچے یا بڑے کے جسم میں گھس کراسکی زبان بولتا ہے ، اسی کو جاہل مسلمان دوسرا جنم اور پچھلے جنم کی بات سمجھ لیتے ہیں۔ اللہ جل جلالہ ہمیں سیدھے راستے پر چلائے یعنی انبیاء ، شہداء،صدیقین، صالحین ور اولیاء کرام کے راستے پر چلائے اور شریعت کا پابند بنائے۔ آمین

No comments:

Post a Comment