خلیفہ چہارم جانشین رسول زوج بتول مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی مشکل کشا شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کو اللہ تعالی ﷻ نے بے پناہ خصائص وامتیازات سے ممتاز فرمایا، تھا آپ کو فضائل وکمالات کا جامع،علوم ومعارف کا گنجینہ بنایا تھا آپ مہاجرین اولین اور عشرہ مبشرہ میں اپنے بعض خصوصی درجات کے لحاظ سے بہت زیادہ ممتاز ہیں آپکی قرآن فہمی حقائق شناسی بے مثل و بے مثال تھی خامہ قدرت نے عقل و خرد کے اس مقام عالیہ پر آپ کو فائز فرمایا تھا کہ جو مسائل دوسروں کے لئے لا ینحل ہوتے تھے آپ ان کی آسانی سے گتھیاں سلجھادیتے تھے جنگ بدر جنگ خندق وغيرہ تمام اسلامی جنگوں اپنی بے پناہ شجاعت کے ساتھ جنگ فرماتے رہے اور کفار کے بڑے بڑے سورما بڑے بڑے نامور بہادر ذوالفقار حیدری سے مقتول ہوئے۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی کی شہادت کے بعد انصار و مہاجرین نے آپکے دست حق پرست پر بیعت کرکے آپ کو امیر المؤمنین منتخب فرمایا چار برس آٹھ ماہ نودن تک مسند خلافت کو سرفراز فرماتے رہے ۔
17 رمضان
المبارک 40 ہجری کو بدبخت عبدالرحمن ابن ملجم خارجی مردود نے نماز فجر کو جاتے ہوئے
آپکی مقدس پیشانی اور نورانی چہرے پر ایسی تلوار ماری جس سے آپ شدید طور پر زخمی
ہوگئے اور دو دن زندہ رہ کر جام شہادت سے سرفراز ہوئے بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ
19 رمضان المبارک جمعہ کی رات میں آپ زخمی ہوئےاور 21 رمضان المبارک شب یک شنبہ
آپکی شہادت ہوئی۔ (تاریخ الخلفا ٕ و
ازالة الخفا ٕ و کرامات صحابہ وغيرہ) آپ کے مقام عالیہ
رفیعہ اور شان و عظمت کے بیان میں ان گنت احادیث کریمہ شاہد عدل
ہیں:
ولادت با سعادت
:تیرہ رجب المرجب بروز جمعۃ المبارک سنہ 600
کعبہ شریف کے اندر پیدا ہوئے۔سیدنا مولائے
کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باکرامت کعبۃ اللہ شریف کے اندر ہوئی ،جیساکہ روایت ہے :
ولد رضي الله عنه بمکة داخل البيت الحرام ولم يولد
فی البيت الحرام قبله احد سواه قاله ابن الصباغ
حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باسعادت مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف کے اندر
ہوئی۔علامہ ابن صباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ سے قبل خانۂ کعبہ
میں کسی کی ولادت نہیں ہوئ۔(المستدرک للحاکم جلدسوم
صفحہ 483 نور الابصار فی مناقب آل بیت
النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،صفحہ 84)
آپ کو مولود کعبہ کیوں
کہتے ہیں ؟
حضرت علی شیر خدا رضی
اللہ تعالی عنہ کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کی ولادت خانۂ کعبہ کے اندر
ہوئی ، اسی وجہ سے آپ کو مولود کعبہ کہا جاتا ہے۔
آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ولادت باکرامت کے بعد سب
سے پہلے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رخ زیبا کا دیدار کیا
ہے،چونکہ آپ نے ولادت کے بعد سب سے پہلے حضور کا چہرۂ مبارک دیکھا ۔
والدہ ماجدہ :
آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت فاطمہ بنت
اسدرضی اللہ تعالی عنہاتھا (مدارج النبوة ج 2
صفحہ 917 )
آپ کےوالدگرامی حضرت
ابوطالب نےآپ کانام مبارک زیدرکھا جب کہ والدہ ماجدہ نےاپنےباپ کےنام
پرآپ کانام پر جو اسد تھا حیدر رکھا۔ اور سرورکائنات باعث تخلیق عالم جناب
محمدالرسول اللہ ارواحنافداہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اللہ وحدہ لاشرک لہ کےاسم
مبارک کی اتباع میں علی رکھا ۔آپ کی والدہ نے
عرض کی آقا ﷺ خدا کی قسم مجھے غیب سے آوازیں آتی تھیں کہ فاطمہ اسک ا نام
علی رکھنا میں نے اس کو چھپایا تھا۔(مدارج النبوة جلد 2 صفحہ 917 اوراق غم صفحہ 149 )
آپ کی کنیت:
ابوالحسن، ابوتراب،آپ کے القابات: امیرالمؤمنین ،یداللہ ،حیدرکرار یہ لقب خود تاجدار کائنات
صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے عطا فرمایا
،کرار کے معنی ہیں بار بار حملہ کرنے والا
چونکہ آپ بھی بار بار دشمنوں پر حملہ کرتے تھے اسلئے آپ کو کرار کے لقب سے ملقب
کیا گیا (غیاث اللغات صفحہ 409 )
نفس رسول،اسداللہ،المرتضی ،شیر خدا ،اخ الرسول،زوج البتول ، سید العرب ،اسد اللہ الغالب ، مولی المسلمین ، ابوالائمۃ الطاہرین، طاہر مطہر ،مظہر العجائب والغرائب،دفاع
المعضلات والمصائب، باب العلم،بہار چمنستان معرفت ، شمع شبستان ولایت وغیرہم
آپ کےمشہورالقاب اور کنیات ہیں۔
شادی مبارک :حضرت
سیدناعلی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شادی مبارک سنـ
۲ ــہ
ھ میں تاجدار کاٸنات
صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی دخترنیک اختر
سیدہ طیبہ طاہرہ عابدہ زاہدہ تقیہ نقیہ
خاتون جنت ملکٸہ
فردوس بریں ام الحسنین حضرت سیدتنا بی بی
فاطمۃالزہراءسلام اللہ تعالی علیہاسےہوئی۔
اس مقدس جوڑےکےنکاح کاحکم
اللہ ﷻ نےدیا چنانچہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان اللہ امرنی ان ازوج فاطمة من علی اللہ
تعالی نے مجھےحکم دیا ہیےکہ میں فاطمہ کی شادی علی سےکردوں (الطبرانی فی المعجم الکبیر جلد 10 صفحہ 156 و الہیشمی فی
مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 204 والمناوی فی فیض القدیر جلد 2 صفحہ 210 )
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اسلام کب لائے؟
ابویعلی نے مولاۓ
کائنات کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت کی
کہ آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شنبہ کے دن اعلان نبوت
فرمایا میں نے دو شنبہ ہی کے دن اسلام قبول فرمایا۔
(مدارج النبوة صفحہ 917 )
حضرت مولائے کائنات رضی
اللہ تعالی عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ
سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا ، حضرت زید ابن رقم رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ اوَّلُ مَنْ
اَسْلَمَ عَلِیٌّ کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ (جامع الترمذی ،ابواب
المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر:3728)
عَنْ أَنَسِ بْنِ
مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِی صَلی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلمَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ
وَصَلی عَلِیٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ ۔
سیدنا انس بن مالک رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
دوشنبہ کو اعلان نبوت فرمایا اور سہ شنبہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ (جامع الترمذی ،ابواب
المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر: 3827 )
حضور تاجدار کائنات صلی
اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا :ان علیامِنِّی وَاَنَا مِنْہ وھو
ولی کل مومن بعدی بے شک علی مجھ سے ہے اور میں اس
سے ہوں میرے بعد وہ ہر مسلمان کا ولی ہے
(صحیح البخاری،کتاب
فضائل الصحابۃ، باب مناقب علی بن أبی طالب القرشی الہاشمی أبی الحسن رضی اللہ
عنہ،حدیث نمبر:2699 و ترمذی ابواب المناقب
باب مناقب علی ابن ابی طالب حدیث نمبر 3712 )
کرم اللہ وجہہ الکریم کی
وجہ تسمیہ :اس کی وجہ نور الابصار میں اس یوں بیان کی گئ
ہے کہ(وامہ)فاطمۃ بنت اسد بن ہاشم بن عبد
مناف انہا کانت اذا ارادت ان تسجد لصنم وعلی رضی اللہ تعالی عنہ فی بطنہا لم
یمکنہا یضع رجلہ علی بطنہا ویلصق ظہرہ بظہرہا ویمنعہا من ذلک؛ولذلک یقال عند
ذکرہ"کرم اللہ وجہہ سیدنا
علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت"فاطمہ بنت
اسد بن ہاشم بن عبد مناف"رضی اللہ عنہم ہے۔
جب کبھی وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں ؛جبکہ حضرت علی رضی
اللہ عنہ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں،کیونکہ حضرت علی رضی اللہ
عنہ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹادیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگادیتے
اور انہیں سجدہ کرنے سے روک دیتے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا
ہے تو "کرم اللہ وجہہ"(اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو مکرم رکھے)کہا جاتاہے ۔ (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ
وسلم ،ص 85)
عَنْ سَلْمَانَ،
أَنّ النَبی صَلی اللہ عَلَیْہِ وَسَلمَ، قَالَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللہ تَعَالَی
عَنْہُ:"مُحِبکَ مُحِبِی، ومُبْغِضُکَ مُبْغِضِی
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا
:(ائے علی) تجھ سے محبت کرنے والا مجھ سے
محبت کرنے والا ہے اور تجھ سے بغض رکھنے
والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے (المعجم الکبیر
للطبرانی،جلد،6،صفحہ 239 حدیث نمبر:6067
والدیلمی فی مسند الفردوس جلد 5 صفحہ 316 حدیث نمبر 8307 )
حضرت علی مرتضی رضی اللہ
عنہ کی ذات گرامی چونکہ اللہ تعالی کو بھی محبوب ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
والہ وسلم کو بھی محبوب ہے ،اسی لئے کائنات کا ذرہ ذرہ آپ سے محبت کرتا ہے،اور
اللہ تعالی اس محبت کرنے والے کو دنیا میں بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی سرفراز
فرماتا ہے،علامہ امام طبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب الریاض النضرۃ میں
روایت نقل کی ہے : وعن أنس رضی اللہ عنہ قال: دفع علی بن أبی طالب إلی بلال درھما
یشتری بہ بطیخا؛ قال: فاشتریت بہ فأخذ بطیخۃ فقورھا فوجدھا مرۃ فقال یا بلال رد ھذا
إلی صاحبہ، وائتنی بالدرھم فإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لی : إن اللہ أخذ
حبک علی البشر والشجر والثمر والبذر فما أجاب إلی حبک عذب وطاب وما لم یجب خبث ومر
" . وأنی أظن ھذا مما لم یجب.
ترجمہ : سیدناانس بن مالک
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ
نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خربوز ہ خریدنے کے لئے ایک درہم عطا فرمایا،حضرت بلال نے فرمایا کہ
میں ایک خربوزہ آپ کی خدمت میں پیش کیا،جب آپ نے اسے کاٹا تو اسے کڑوا پایا،آپ نے
ارشاد فرمایا :ائے بلال!جس شخص کے پاس سے یہ لائے ہو ؛ اسی کو واپس کردو!اوردرہم
میرے پاس واپس لاؤ! کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے
ارشاد فرمایا:بیشک اللہ تعالی نے تمہاری محبت کا عہد ہر انسان،درخت،پھل اور ہر بیج
سے لیا ہے ،تو جس نے تمہاری محبت کو اپنے دل میں سمالیا وہ شیریں و پاکیزہ ہوگیا
اورجس نے تمہاری محبت کو قبول نہ کیا وہ پلید اور کڑوا ہوگیا ،اور میں سمجھتا ہوں
کہ یہ خربوزہ بھی اس درخت کا ہے؛ جس نے میری محبت کے عہد کو قبول نہیں کیا ہے۔( الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ نزھة المجالس وغيرہ )
غزوۂ خیبر کے موقع پر
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصی فضیلت کو
آشکار فرمایا اور آپ کے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ
میں مقبول ومحبوب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِی سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ
أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ : لأُعْطِیَنَّ ہَذِہِ
الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً ، یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ، یُحِبُّ اللَّہَ
وَرَسُولَہُ ، وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ .
قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوکُونَ لَیْلَتَہُمْ
أَیُّہُمْ یُعْطَاہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُولِ
اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا فَقَالَ :
أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ . فَقِیلَ ہُوَ یَا رَسُولَ اللَّہِ یَشْتَکِی
عَیْنَیْہِ . قَالَ : فَأَرْسِلُوا إِلَیْہِ
.
حضرت ابو حازم رضی اللہ
عنہ سے ورایت ہے،انہوں نے فرمایا،مجھے حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ
غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کل میں
ایسے شخص کو جھنڈاعطا کروںگا؛ جن کے ہاتھ پراللہ تعالیٰ (قلعۂ خیبر) فتح کرے گا،وہ
اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالی
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ
تعالی عنہم ساری رات اس انتظار میں تھے کہ یہ سعادت کس کو ملے گی ؟
جب صحابۂ کرام رضی اللہ
تعالی عنہم نے صبح کی توان میں سے ہر ایک بارگاہ نبوی میں اس امید کے ساتھ حاضر
ہوئے کہ جھنڈا انہیں عطا ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:علی
کہاں ہیں، تو عرض کیا کہ آپ کو آشوب چشم لاحق ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے آپ کو بلانے کا حکم فرمایا : فَأُتِیَ
بِہِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عَیْنَیْہِ
، وَدَعَا لَہُ ، فَبَرَأَ حَتَّی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ ، فَأَعْطَاہُ
الرَّایَۃَ۔ جب آپ کو لایا گیاتوحضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے آپ کی چشمان مبارک میں اپنا مبارک لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی توآپ
ایسے صحت یاب ہوگئے جیسا کہ آپ کو درد ہی نہ تھا ، اورآقانے آپ کو پرچم اسلا م عطا
فرمایا ۔(صحیح البخاری ،کتاب
المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب،حدیث نمبر:3701 مسلم کتاب فضائل صحابہ باب من
فضائلعلی حدیث نمبر 2404 )
عن أم سلمۃ ، قالت : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : علی
مع القرآن والقرآن مع علی لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔
ترجمہ : ام المؤمنین
سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول
اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ علی قرآن کے ساتھ ہیں
اور قرآن علی کے ساتھ ہے،وہ دونوں کبھی
بھی جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر دونوں میرے پاس
اکھٹے آئیں گے ۔ (المعجم الأوسط
للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد، جلد 5 صفحہ 135 حدیث نمبر :477 المعجم الصغیر للطبرانی، باب
العین، من اسمہ : عباد، جلد اول صفحہ 255
مجمع الزواٸد جلد 9 صفحہ 134)
سخاوت شیر خدا بارگاہ
مولی میں مقبول:
حضرت مولائے کائنات رضی
اللہ عنہ کی سخاوت بارگاہ الہی میں مقبول اللہ تعالی کا ارشاد ہے : الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ
سِرًّا وَعَلَانِیَۃً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ
عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ترجمہ
: جو لوگ اپنا مال (اللہ کی راہ میں)رات اور دن،پوشیدہ اور ظاہری طور پر خرچ کرتے
ہیں تو ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کے دن)نہ کسی طرح کا خوف
ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(سورۃ البقرۃ ۔274)
اس آیت کریمہ میں عمومی
طور پر اللہ کے ان پاکباز بندوں کا تذکرہ ہے جو رضاء الہی کی خاطر دن ورات اپنا
مال خرچ کرتے ہیں،لیکن مفسرین کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص
سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں وارد ہوئی ہے،جیساکہ امام جلال
الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تفسیر در منثور میں روایت نقل کی ہے : عن ابن عباس فی قولہ ( الذین ینفقون أموالہم باللیل والنہار سراً
وعلانیۃ)قال : نزلت فی علی بن أبی طالب ، کانت لہ أربعۃ دراہم فأنفق باللیل درہماً
، وبالنہار درہماً ، وسراً درہماً ، وعلانیۃ درہماً
.سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے آیت
کریمہ" الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ
بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا ۔
سے متعلق روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ یہ آیت کریمہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی
عنہ کی شان میں نازل ہوئی،آپ کے پاس چار درہم تھے،آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا
اور ایک دن میں،ایک پوشیدہ طور پر خرچ کیا اور ایک علانیہ طور پر (الدر المنثور فی التفسیرالمأثور، سورۃ البقرۃ)
فضیلت مولائے کائنات : حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا النظر علی وجہ علی عبادة "علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے"۔(المستدرک جلد 3 صفحہ 152 الرقم 4642 )
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ
سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذکر علی عبادة
"علی
کا ذکر بھی عبادت ہے"۔(الدیلمی فی مسند الفردوس و کنز العمال جلد 11 صفحہ 601)
"علی
کو مجھ سے وہی نسبت ہے،جو موسی کو ہارون سے تھی مگر میرے بعد نبی نہیں (الطبرانی فی
المعجم الکبیر جلد 11 صفحہ 93 الرقم 11152)
لشکر روانہ کرتے وقت
فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا
اللھم لا تمتنی حتی ترینی علیا ،اے
اللہ ﷻ مجھے اس وقت تک موت نا دینا جب
تک میں علی کو نہ دیکھ نہ لوں (ترمذی ابواب المناقب
باب مناقب علی ابن ابی طالب الرقم 3814 )
علی حق کے ساتھ ہے اور حق
علی کے ساتھ ہے (صحیح ترمذی جلد
31،صفحہ 166)
اے علی مومن کے علاوہ
کوئی تم سے محبت نہیں کرسکتا، منافق کے علاوہ کوئی تم سے بغض نہیں رکھ سکتا"۔( ترمذی ابواب المناقب باب
علی 3717 )
میں علم کا شہر ہوں اور
علی اسکا دروازہ ہے
(المستدرک جلد 3،صفحہ 137حدیث 4637 )
اے علی تو میرا
دنیا و آخرت بھائی ہے
(المستدرک جلد 3 صفحہ
15 )
مقام علی شان علی علم علی: جب منافقین مدینہ نے تاجدار کائنات کے علم غیب پر اعتراض کیا تو جب علی شیرا خدا کو معلوم ہوا تو آپ منبر رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم پر جلوہ فگن ہوۓ اور پورے شہر مدینہ میں اعلان کرادیا کہ نبی کا غلام علی آج ممبر پر بیٹھ کر عرش و فرش کی باتین بتائے گا جب مسجد نبوی میں لوگ جمع ہوگۓ تو علی المرتضی شیر خدا نے فرمایا سلونی عما دون العرش کہ آج مجھ سے جو پوچھنا ہے پوچھ لو میں تم کو عرش اعظم کی باتیں بھی بتاؤں گا ایک آدمی کھڑا ہوا اور بولا جب آپنے اتنا بڑا دعوی کیا تو یہ بتاؤ ھل رأیت ربک کیا تم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو آپ نے کمال جوش میں فرمایا خدا کی قسم علی ایک سجدہ کرتا ہے دوسرا اس وقت تک نہیں جب تک کہ خدا کو دیکھ نہیں لیتا ہے (تفسر روح البیان جلد 2 صفحہ 105 تحت و فی انفسکم افلا تبصرون )
پھر حضرت علی نے فرمایا سلونی عن طرق السموات فانی اعلم بھا من طرق الارض مجھ سے پوچھو میں
زمین و آسمان کی ہر چیز کو جانتا ہو فجا ٕ جبریل
فی صورة رجل پس حضرت جبرائیل انسانی شکل میں آے اور
کہا اے علی اگر اتنا بڑا دعوی ہے تو یہ بتاٶ
اس وقت جبرائیل کہاں ہیں
تب آپنے مشرق و مغرب اتر
دکھن میں نظر ڈالی پھر آسمان کی جانب دیکھا پھر مسکراکر جواب عطا کیا اے مجھ سے
شکل انسانی میں سوال کرنے والے تم ہی جبرائیل
ہو( نز ہۃ المجالس جلد 2 صفحہ 210 )
ایک بار کسی بھکا ری نے کفار
سے سو ال کیا، اُنہوں نے مذاقاً امیر
المؤمنین حضرت سیدنا مولیٰ مشکل کشا علی المرتضی شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم کے
پاس بھیج دیا جو کہ سا منے تشریف فرما تھے ۔ اُس نے حا ضِر ہو کر دستِ سوال دراز
کیا، آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے 10 بار دُرُود شریف پڑھ کر اُس کی ہتھیلی پر دم
کر دیا اور فرمایا: مُٹّھی بند کر لو اور جن لوگوں نے بھیجا ہے اُن کے سامنے جا کر
کھول دو۔ (کُفّار ہنس رہے تھے کہ خالی پھو
نک مارنے سے کیا ہوتا ہے! ) مگر جب سائل
نے اُن کے سامنے جاکر مٹّھی کھولی تو اُس میں
ایک دِینار تھا! یہ کر امت دیکھ کر
کئی کافِر مسلمان ہو گئے۔ (راحت القلوب صفحہ 142 )
لمحے بھر میں قراٰن ختم کر لیتے
حضرتِ سیدنا مولی علی
مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم جب سُواری کرتے وقت گھوڑے کی رِکاب میں پاؤں
رکھتے توتلاوتِ قراٰن شروع کرتے اور دوسری رِکاب میں پاؤں
رکھنے سے پہلے پورا قراٰنِ مجیدختم فرمالیتے۔ (شواہدُ النّبوۃ صفحہ 280)
چشمہ اُبل پڑا!
مقامِ صفین جاتے
ہوئے حضرت سیدنا مولیٰ مشکل کشا علی
المرتضی شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم کا لشکر ایک ایسے میدان سے گزرا جہاں پانی نہیں
تھا، پورا لشکر پیاس کی شدت سے بے تاب ہوگیا۔وہاں ایک گِرجا گھرتھا، اُس کے راہِب نے بتایا کہ
یہاں سے دو فَرسَخ (یعنی تقریباً
14کِلومیڑ) کے فاصلے پر پانی مل سکے گا۔
کچھ حضرات نے وہاں جا کر پانی پینے کی
اِجازت طلب کی، یہ سنکر آپ کرم اللہ وجہہ
الکریم اپنے خچر پر سوار ہوگئے اور ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے کھودنے کا حکم
فرمایا، کُھدائی شروع ہوئی ، ایک پتَّھر ظاہِر ہوا، اُسے نکالنے کی تمام تر کوشِشیں ناکام ہو گئیں ، یہ دیکھ کر حضرت سیدنا مولیٰ
مشکل کشا علی المرتضی شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم سواری سے اُترے، اور دونوں
ہاتھوں کی اُنگلیاں اُس پتھرکی دراڑ میں ڈال کر زور لگایاتو وہ پتھر نکل پڑا اور اُس کے
نیچے سے ایک نہایت صاف و شَفّاف اور شیریں
(یعنی میٹھے ) پانی کا چشمہ اُبل پڑا!
اورتمام لشکر اُس سے سیراب ہوگیا۔ لوگوں
نے اپنے جانوروں کو بھی پلایا
اورمشکیزے بھی بھر لئے، پھرآپ کرم اللہ
وجہہ الکریم نے وہ پتھر اُس کی جگہ پررکھ دیا۔ گِرجا گھر کا عیسائی راہِب یہ کرامت
دیکھ کر حضرت سیدنا مولیٰ مشکل کشا علی المرتضی شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت میں
عرض گزار ہوا: کیا آپ نبی ہیں
؟ فرمایا : نہیں۔ پوچھا: کیا آپ
فرشتے ہیں ؟ فرمایا: نہیں
۔ اُس نے کہا: پھر آپ کون ہیں ؟
فرمایا: میں پیغمبرمرسل حضرت سیدنا
محمدبن عبد اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا صَحابی ہوں اور مجھ کو تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے
چند باتوں کی وصیت بھی فرمائی ہے۔اتناسنتے
ہی وہ عیسائی راہِب کلمہ شریف پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا۔آپ کرم اللہ وجہہ
الکریم نے فرمایا :تم نے اتنی مدَّت تک اسلام کیوں قَبول نہیں
کیا تھا؟
راہِب نے کہا : ہماری کتابوں میں یہ
لکھا ہوا ہے کہ اِس گِرجا گھر کے قریب پانی کا ایک چشمہ پوشیدہ ہے ، اِس چشمے کو وُہی شخص ظاہر کرے گا جو نبی ہوگا
یا نبی کاصَحابی۔ چُنانچِہ میں اور مجھ سے
پہلے بہت سے راہِب اِس گرجا گھر میں اِسی
انتِظار میں مُقِیم رہے۔ آج آپ کرم اللہ
وجہہ الکریم نےچشمہ ظاہِر کردیا تو میری مراد
بَرآئی اس لئے میں نے دینِ اسلام قبول کرلیا ۔ راہِب کا بیان سن کر شیرِ خدا کرم
اللہ وجہہ الکریم روپڑے اور اِس قدر روئے کہ رِیش مبارَک آنسوؤں سے تر ہوگئی،
پھر ارشاد فرمایا: الحمد للہ کہ ان
لوگوں کی کتابوں میں
بھی میرا ذکر ہے۔ یہ راہِب مسلمان ہوکر آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کے
خادِموں اور مجاہدوں میں
شامِل ہوگیا اور شامیوں سے جنگ
کرتے ہوئے شہید ہوگیا اورمولیٰ مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے دست مبارک
سے اُسے دفن کیا اور اُس کے لیے مغفِرت کی دُعا فرمائی۔ (
کرامات صحابہ ، 175 شواہد النبوۃص 283 )
دریا کی طُغیانی ختم
ایک مرتبہ نہرِ
فُرات میں ایسی خوفناک طُغیانی آگئی (یعنی طوفان آگیا) کہ سَیلاب میں تمام کھیتیاں
غَرقاب ہو (یعنی ڈوب) گئیں
لوگوں نے حضرت سیدنا مولی علی کرم
اللہ وجہہ الکریم بارگاہِ بیکس پناہ میں
فریاد کی ۔ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے اوررسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کا جبۂ مبارکہ وعِمامۂ مُقدسہ و چادر مبارَکہ زیب تن فرما کر
گھوڑے پر سوار ہوئے، حضراتِ حسنین کریمنین رضی اللہ عنہمااوردیگر کئی
حَضْرات بھی ہمراہ چل پڑے ۔فُرات کے کَنارے آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے دو رَکْعت
نَماز ادا کی، پھرپُل پر تشریف لا کراپنے عَصا سے نَہر فُرات کی طرف اشارہ کیا تو
اُس کا پانی ایک گز کم ہوگیا، پھر دوسری
مرتبہ اشارہ فرمایا تو مزید ایک گز کم ہو ا جب تیسری بار اشارہ کیا تو تین گز پانی
اُتر گیا اور سیلاب ختم ہوگیا۔ لوگوں نے
التجا کی: یا امیرُ الْمُؤْمِنِین! بس
کیجئے یِہی کافی ہے ۔ (شواہدُ النّبوۃ صفحہ 282)
شاہِ مرداں شیرِ
یزداں قوّتِ پروَرْدگار
لا فتی اِلاَّ
علی،
لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقار
علی جیسا کوئی بہادُر
نہیں
حضرت سیدنا مولیٰ
مشکل کشا علی المرتضی شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم
کا ایک نمایاں ترین وصْف شُجاعت وبہادُری ہے اور اس بہادری کو غیبی
تائید بھی حاصل ہے جیسا کہ ایک رِوایت میں
ہے: جب حضرت سیدنا مولیٰ مشکل کشا علی المرتضی شیرخداکرم اللہ وجہہ
الکریم ایک غزوہ میں کفارکو گاجر مُولِی
کی طرح کاٹ رہے تھے تو غیب سے یہ آوازآئی:
’’ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَارِ وَلَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّی یعنی علی
جیسا کوئی بہادُر نہیں اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں۔ (جزء الحسن بن عرفۃ
العبدی ص 42 حدیث 38 کرامات شیر خدا وغيرہ )
مولٰی علی کا اِخلاص
حضرت سیدنا مولیٰ مشکل
کشا علی المرتضی شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم
اس قدر بہادُر ہونے کے باوجود تکبر،
ریا کاری اور خودنُمائی وغیرہ ہر طرح کے رَذائل سے پاک اورپیکرِعمل واِخلاص
تھے جیسا کہ حضرت عَلَّامہ علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ’’ حضرت سیدنا مولیٰ مشکل کشا علی المرتضی
شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم نے جہاد
میں ایک کافر کو پچھاڑا اور اُسے قتل کے
اِرادے سے اُس کے سینے پر بیٹھے، اُس نے شیرخداکرم
اللہ وجہہ الکریم پر تھوک دیا ، آپ کرم
اللہ وجہہ الکریم نے اُسے چھوڑ دیا، سینے
سے اُٹھ گئے۔ اُس نے وجہ پوچھی تو آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ تیری اِس حرکت سے مجھے غصہ
آگیا، اب تیرا قتْل نفسانی وجہ سے ہوتا نہ
کہ اِیمانی وجہ سے، اِس لیے میں نے تجھے چھوڑ دیا، وہ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ اخلاص دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ ‘‘(مرقاۃ المفاتیح جلد 7 صفحہ 12 تَحتَ الحدیث 34 5 )
حضرت علی کو غیب سے غسل و
کفن دیا گیا
حضرت امیر المؤمنین سیدنا
امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے وفات
پائی تو میں نے ایک کہنے والے کو کہتے ہوئے سنا کہ باہر چلے جاؤ اس بندۂ خدا کو ہمارے پاس
چھوڑ دو۔ فرماتے ہیں امام
حسین میں باہر نکل گیا اندر سے آواز آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے تشریف
لے جانے کے بعد وصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید ہوگئے۔جو دین کی
نگہبانی کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل پیرا ہوتے تھے اور ان کی اتباع کرتے تھے جب یہ آواز آنا
بند ہوئی تو ہم اند ر آگۓ
ہم دیکھا کہ حضرت علی کی تغسیل و تکفین ہو چکی ہے(شواہد
النبوة صفحہ 294 )
نماز جنازہ:حضرت
امام حسن رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی ((الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحاب) پھر آپ کو
غریبین میں دفن کر دیا۔
ترتیب
و پیشکش
محمدقاسم
القادری چشتی اشرفی غفرلہ
شیشگڑھ
بریلی خادم غوثیہ دار الافتا اتراکھنڈ