حضرت سیدنا امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ

 

امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ جو کہ  امام شافعی علیہ الرحمہ کے لقب سے معروف ہیں، سنی فقہی مذہب شافعی کے بانی ہیں۔ ان کے فقہی پیروکاروں کو شافعی (جمع شوافع) کہتے ہیں۔  امام شافعی علیہ الرحمہ کا عرصہ حیات مسلم دنیا کے عروج کا دور یعنی اسلامی عہد زریں ہے۔ خلافت عباسیہ کے زمانہ عروج میں بغداد میں مسلک شافعی کا بول بالا اور بعد ازاں مصر سے عام ہوا۔ مذہب شافعی کے پیروکار زیادہ تر مشرقی مصر، صومالیہ، ارتریا، ایتھوپیا، جبوتی، سواحلی ساحل، یمن، مشرق وسطیٰ کےکردعلاقوں میں، داغستان، فلسطین، لبنان، چیچنیا، قفقاز، انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا کے کچھ ساحلی علاقوں میں، مالدیپ، سنگاپور، بھارت کے مسلم علاقوں، میانمار، تھائی لینڈ، برونائی اور فلپائن میں پائے جاتے ہیں۔ 150ہجری میں جس دن حضرت سیدنا امامِ اعظم رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا اسی دن غزہ (فلسطین)میں آپ کی ولادت ہوئی۔ 

نام و لقب :

آپ علیہ الرحمہ کا نام محمد ہے، کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ مورخین اور محدثین کے نزدیک " امام محمد بن ادریس الشافعی " کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ آپ کے نسب میں ایک صحابی حضرت شافع بن سائب رضی اللہ عنہ ہوئے ہیں جن سے آپ کو شافعی کہا جاتا ہے۔(المنتظم ،ج10،ص134،سیر اعلام النبلاء،ج8،ص378 ملخصاً) 

والدین کریمین:

 امام شافعی علیہ الرحمہ علیہ الرحمہ کے والد ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف قرشی مطلبی ہاشمی ہیں۔ امام شافعی علیہ الرحمہ کے نسب میں سائب صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ سائب بن عبید غزوہ بدر میں گرفتار ہونے کے بعد اسلام لائے بنی ہاشم کا علم اِن کے ہاتھ میں تھا۔ فدیہ اداء کرکے مسلمان ہو گئے اور لوگوں نے اِس پر تعجب کیا تو کہنے لگے : میں نے مسلمانوں کو اُن کے حق سے محروم کرنا پسند نہیں کیا۔

 امام شافعی علیہ الرحمہ کی والدہ فاطمہ بنت عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب تھیں۔  امام شافعی علیہ الرحمہ کی والدہ ہاشمیہ تھیں مگر خطیب بغدادی اور قاضی عیاض مالکی نے انھیں قبیلہ بنو الازد سے بتایا ہے۔

 امام شافعی علیہ الرحمہ کی والدہ فاطمہ بیان کرتی ہیں جس زمانہ میں شافعی مادرِ شکم میں ہی تھے تو میں نے خواب دیکھا کہ سیارہ مشتری میرے جسم سے نکلا اور مصر میں جا گرا اور اُس کی روشنی وہاں سے ہر شہر میں پہنچی۔ معبروں نے بتایا کہ تم سے ایک عالم پیدا ہوگا جس کا علم مصر سے تمام شہروں میں عام ہو جائے گا۔

تعلیم و تربیت:

کم عمری میں ہی آپ یتیم ہو گئے تھے اس لئے آپ کی پرورش اور تربیت آپ کی والدہ نے فرمائی۔(سیر اعلام النبلاء،ج8،ص377)  امام شافعی علیہ الرحمہ خود بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں میری ساری توجہ دو باتوں کی طرف ہی تھیتیر اندازی اور تحصیل علم۔ تیراندازی میں مجھے اِتنی مہارت ہو گئی تھی کہ دس میں دس نشانے صحیح بیٹھتے تھے۔(تاریخ بغداد،ج2،ص57) اِسی زمانہ میں مجھے گھوڑے کی سواری کا شوق بھی ہو گیا تھا۔ تیراندازی اور شہ سواری کے موضوعات پر کتاب السبق دالرمی لکھی جو اپنے موضوع میں عربی ادب کی پہلی کتاب تھی۔تحصیل علم میں آپ مکملاً منہمک رہتے اور بحالت یتیمی و غریبی کے باوجود شب و روز پڑھنے میں مشغول رہا کرتے تھے۔

 امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے زمانہ طالب علمی کے متعلق خود بیان کرتے ہیں کہ:میں یتیم تھا، والدہ میری کفالت کیا کرتی تھیں۔ میرے پاس معلم کی خدمت کے لیے رقم نہیں تھی، مگر ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ معلم اُس کے بغیر پڑھانے پر راضی ہو گیا، وہ بچوں کو جو سبق دیتا تھا میں زبانی یاد کرلیتا تھا اور اُس کی عدم موجودگی میں بچوں کو پڑھا دیا کرتا تھا، میری اِس بات پر معلم بہت خوش ہوا اور مجھے مفت تعلیم دینے پر راضی ہو گیا۔ مکتب کی تعلیم کے بعد میں قبیلہ بنو ہذیل میں چلا گیا جو فصاحت و بلاغت میں عرب میں مشہور تھا اور سترہ سال تک اِس طرح اُن کے ساتھ رہا کہ سفر و حضر میں اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ مکہ مکرمہ میں واپس آ کر اُن کے اشعار سنانے لگا۔ اِس زمانے میں عربی زبان کا ادب اور شعر و شاعری کا میرے ذوق پر بہت غلبہ تھا۔ اِسی دوران میں اپنے چچا (محمد بن شافع) اور مسلم بن خالد الزنجی وغیرہ سے حدیث کی روایت کرتا تھا۔ میں علما کی مجلس درس میں احادیث اور مسائل سن کر یاد کرلیتا تھا چونکہ میری والدہ کے پاس اتنی رقم نہیں رہتی تھی کہ کاغذ خرید سکوں اِس لیے اِدھر اُدھر سے ہڈیاں، ٹھیکرے اور کھجور کے پتے چن کر اُن ہی پر لکھ لیا کرتا تھا۔ سات سال کی عمر میں قرآن اِس طرح حفظ کر لیا تھا کہ اُس کے معانی و مطالب مجھ پر عیاں ہو گئے تھے البتہ دو مقام سمجھ میں نہ آ سکے اُن میں سے ایک " دساہاً " ہے۔ دس سال کی عمر میں موطاء امام مالک یاد کرلی تھی۔مکہ مکرمہ میں  امام شافعی علیہ الرحمہ نے قرات قرآن مجید کی تعلیم مقری اسماعیل بن قسطنطین سے حاصل کی بعد ازاں عبد اللہ ابن کثیر سے قرآت قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔  امام شافعی علیہ الرحمہ خود فرماتے ہیں کہ : میں لوگوں میں نماز کے لیے قرآن کی قرات تیرہ سال کی عمر میں کرنے لگا تھا اور موطاء امام مالک بالغ ہونے سے قبل حفظ کرچکا تھا۔

فتویٰ دینے کی اجازت:

ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ  امام شافعی علیہ الرحمہ کو 15 سال کی عمر میں فتویٰ دینے کی باقاعدہ اجازت مل چکی تھی۔ جبکہ وہ ابھی مکہ مکرمہ میں ہی مقیم تھے۔ یہ اجازت انہیں مسلم بن خالد الزنجی نے دی تھی۔

امام مالک کی مجلس درس میں:

 امام شافعی علیہ الرحمہ کے بیان سے واضح ہو چکا کہ انھوں نے ابتدائی تعلیم کی تحصیل مکہ مکرمہ میں کی تھی اور بعد ازاں حدیث و فقہ کی تعلیم بھی وہیں کے فقہا و محد ثین سے حاصل کی۔ اِس کے بعد وہ شعر و ادب سے وابستہ ہوئے اور ایام عرب میں انتہائے کمال حاصل کر لیا، اِنہی دنوں میں آپ بنو ہذیل کے اشعار سنایا کرتے تھے۔ مگر یہاں ایک دم سے زندگی نے رخ بدلا اور ایک بزرگ کی نصیحت سے مدینہ منورہ جاکر امام مالک کی شاگردی اختیار کرلی۔

بچپن میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تحصیل علم اور تیر اندازی کابے حد شوق تھا، تیر اندازی میں مہارت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے دس میں سے دس نشانے درست لگتے تھے۔

حصول علم میں مشقتیں معاشی اعتبارسے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ابتدائی حالات نہایت دشوار گزار تھے، آپ کی والدہ کے پاس استاد صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تھااور کاغذ نہ ہونے کی وجہ سےکبھی ہڈیوں پراور کبھی صفحات مانگ کر ان پر احادیث مبارکہ لکھا کرتے۔ (سیراعلام النبلاء،ج8،ص379 مفہوماً) شدید تنگ دستی کے باعث تین بار آپ کو اپنا تمام مال حصولِ علم کے لئے فروخت کرنا پڑا۔(تاریخ دمشق، ج51،ص397 ملخصاً) اتنے سخت حالات کے باجود آپ طلب علم میں لگے رہے،حصول علم کےلئےعرب کےدیہاتوں میں آپ نے 20 سال گزارے اور وہاں کی زبانوں اور اشعار پر عبور حاصل کیا۔ (سیراعلام النبلاء،ج8،ص379 ماخوذاً) زبردست قوتِ حافظہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت ذہین تھے،7 سال کی عمر میں کلام مجید اور10سال کی عمر میں حدیث شریف کی کتاب”مؤطا امام مالک“ صرف 9 راتوں میں حفظ کر لی تھی۔ (تاریخ بغداد،ج2،ص60، الدیباج المذہب،ج2،ص157) 15 سال کی عمر میں آپ کو فتویٰ دینے کی اجازت مل گئی(المنتظم،ج10،ص136) لیکن احتیاط کے پیش نظر آپ نےاس وقت تک فتویٰ دینا شروع نہ کیا جب تک دس ہزار حدیثیں یاد نہ کر لیں۔ (المنتظم،ج10،ص135)

 اساتذہ  کرام:

 آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے دور کے عظیم المرتبت علمائے کرام و بزرگان دین سے علم حاصل کیا،ان میں حضرت سیدنا امام مالک ، حضرت سیدنا مسلم بن خالد، حضرت سیدنا سفیان بن عیینہ اورحضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔(الدیباج المذہب،ج2،ص157)

اِن اساتذہ کے علاوہ مشہور اساتذہ یہ ہیں:ابراہیم بن سعد، سعید بن سالم القراح، عبد الوہاب بن عبد المجید الثقفی، اسماعیل بن عُلَیہ، ابو ضمرہ، حاتم بن اسماعیل، ابراہیم بن محمد بن ابو یحییٰ، محمد بن خالد الجندی، اسماعیل بن جعفر، عمر بن محمد بن علی بن شافع، عطاف بن خالد المخزومی، ہشام بن یوسف الصنعانی، عبد العزیز بن ابوسلمہ، ماجشونی، یحییٰ بن حسان، مروان بن معاویہ، محمد بن اسماعیل، ابن ابی فدیک، ابن ابی سلمہ، امام قعنبی، فضیل بن عیاض، امام داود بن عبد الرحمٰن، عبد العزیز بن محمد دَواوری، عبد الرحمٰن بن ابوبکر ملیکی، عبد اللہ بن مومل المخزومی، ابراہیم بن عبد العزیز بن ابو محذورہ، عبد المجید بن عبد العزیز بن ابورداد، محمد بن عثمان بن صفوان الجُمحی، اسماعیل بن جعفر، مطرف بن مازن، ہشام بن یوسف، یحییٰ بن ابوحسان تینسی وغیرہ ۔(علیہم الرحمہ )

آپ علیہ الرحمہ کی جلالت علمی کو دیکھتے ہوئے آپ کو یمن میں نجران کا قاضی مقرر کیاگیا۔ (البدایہ والنہایہ،ج7،ص255) دیگر اَکابرین کے علاوہ آپ نے حضرت سیدنا امام اعظم رضی اللہ عنہ کے جلیل القدر شاگرد حضرت سیدنا امام محمد رضی اللہ عنہ سے بھی اکتساب فیض کیا۔ (البدایہ والنہایہ،ج7،ص255ماخوذاً) علوم مروجہ کی تکمیل کے دوران عراق ہی سے آپ نے اپنی فقہ (یعنی فقہ شافعی) کی ترویج و تدوین کا آغاز فرمایا۔ (ترتیب المدارک،ج3،ص179ملخصاً) آپ نے ہی سب سے پہلے اصول فقہ کے موضوع پر کتاب تصنیف فرمائی نیز ابواب فقہ اور اس کے مسائل کی درجہ بندی فرمائی۔(مرآۃ الجنان،ج2،ص14 ملخصاً)

 تصانیف جلیلہ : 

حضرت سیدنا  امام شافعی علیہ الرحمہ نے درس و تدریس اور تصانیف کے ذریعے علم دین کی خوب اشاعت فرمائی جس کا فیضان آج تک جاری ہے، آپ کی تصانیف میں کتاب ”الام“، ”اَلرسالۃ“، ”اخْتلاف الْحدیث“، ”ادب الْقاضی“ اور ”السبق و الرمْی“ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ (اعلام للزرکلی، ج6، ص26) عبادات اور زہد وقناعت مجتہد وقت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نہایت عبادت گزار اور قراٰن پاک کی کثرت سے تلاوت کرنے والے تھے، آپ روزانہ ایک قراٰن پاک اور رمضان المبارک میں ساٹھ قراٰن مجید کا ختم فرماتے۔ آپ رضی اللہ عنہ نہایت خوش آواز قاری قراٰن تھے، آپ رضی اللہ عنہ کی تلاوت سن کر لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی تھی۔ (المنتظم،ج10،ص135ماخوذاً) زہد و قناعت میں بھی آپ کا اعلیٰ مقام تھا،چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نےسولہ سال سےکبھی سیر ہو کرکھانا نہیں کھایا۔ (لباب الاحیاء، ص32 ) بزرگوں کا آپ کی عظمت کا اعتراف آپ کی شرافت و عظمت کا شہرہ زبانِ زدِ عام تھا یہاں تک کہ اس دور کے صاحِبانِ کمال نے بھی آپ کے فضائل و مناقب بیان فرمائے، چنانچہ حضرت سیدنا سفیان بن عیینہ ر  حمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:  امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے زمانے کے افراد میں سب سے اَفضل ہیں۔ (الانتقاء، ص120) حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:  امام شافعی علیہ الرحمہ دنیا کے لئے سورج اور لوگوں کے لئےخیر و عافیت کی طرح ہیں جس طرح ان دونوں کا کوئی متبادل نہیں اسی طرح ا ن کا بھی کوئی متبادل نہیں۔ (الانتقاء، ص125ماخوذاً) 

بوقت وفات تلامذہ کے متعلق پیشگوئی:

ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ  امام شافعی علیہ الرحمہ کے وقتِ نزاع کے دوران میں حاضر تھا، اُن کے پاس دوسرے شاگرد بویطی، مزنی اور ابن عبد الحکم بھی موجود تھے۔  امام شافعی علیہ الرحمہ نے ہماری طرف دیکھ کر کہا: اے ابو یعقوب (بویطی)! تم لوہے کی زنجیر اور بیڑی میں انتقال کروگے اور اے مزنی! تمہارے لیے مصر میں چہ میگوئیاں ہوں گی۔ مگر آگے چل کر تم اپنے زمانہ کے سب سے بڑے فقہی قیاس کرنے والے ہوگے۔ اور تم اے محمد (ابن عبد الحکم)! تم امام مالک کے مذہب کو اختیار کرو گے اور مجھ سے کہا اے ربیع! تم میری کتابوں کی نشر و اشاعت میں میرے حق میں نافع و مفید ہوگے۔ اے ابو یعقوب! اُٹھو اور میرا حلقہ درس سنبھال لو۔ ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ  امام شافعی علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد ہم میں سے ہر ایک وہی ہوا جو انھوں نے فرمایا تھا۔ جیسے کہ وہ باریک پردے کے پیچھے غیب کو دیکھ رہے تھے۔ امام شافعی علیہ الرحمہ کی یہ پیشگوئی آئندہ سالوں میں پوری ہو گئی کہ بویطی 231ھ میں بغداد کے قید خانہ میں فوت ہوئے اور وہ مسئلہ فتنہ خلق قرآن میں قید کر لیے گئے تھے، مزنی آپ کے علم کے داعی بنے اور مصر میں اُن کا چرچا عام ہوا۔ محمد ابن عبد الحکم نے مذہب مالکیہ اختیار کر لیا۔ ربیع بن سلیمان مرادی  امام شافعی علیہ الرحمہ کی کتب کے ناشر بنے اور  امام شافعی علیہ الرحمہ سے روایت کردہ کتاب المبسوط اِنہی کے توسط سے علمائے اسلام تک پہنچی۔

اولادو امجاد:

 امام شافعی علیہ الرحمہ کی اولاد کے متعلق ابن حزم نے لکھا ہے کہ آپ کے 2 صاحبزادے تھے، ایک ابو الحسن محمد جو علاقہ قنسرین اور عواصم میں قاضی تھے، انھوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی اور دوسرے عثمان تھے جو احمد بن حنبل کے شاگرد ہوئے، اِن سے بھی اولاد کا سلسلہ منقطع رہا۔امام تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیۃ الکبریٰ میں لکھا ہے کہ  امام شافعی علیہ الرحمہ کے 2 صاحبزادے تھے : ایک قاضی ابو عثمان محمد اور دوسرے ابو الحسن محمد، ابو عثمان بڑے تھے اور  امام شافعی علیہ الرحمہ کے اِنتقال کے وقت مکہ میں تھے، یہ اپنے والد امام شافعی، امام سفیان بن عینیہ، امام عبد الرزاق صاحب المصنف اور احمد بن حنبل سے روایت کیا کرتے تھے۔ حلب میں بھی عہدہ قضا پر فائز رہے، اِن کی تین اولادیں ہوئیں: عباس، ابو الحسن اور ایک بیٹی فاطمہ۔ عباس اور ابو الحسن تو بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور بیٹی فاطمہ سے اولاد کا سلسلہ منقطع رہا۔ ابوعثمان محمد کا اِنتقال 240ھ مطابق 854ء میں الجزیرہ کے مقام پر ہوا۔ دوسرے صاحبزادے ابو الحسن محمد تھے جن کی والدہ دنانیر کنیر تھیں۔ یہ بچپن میں ہی اپنے والد  امام شافعی علیہ الرحمہ کے ہمراہ مصر آ گئے تھے اور یہیں مصر میں ماہ شعبان 231ھ مطابق ماہ اپریل 846ء کو فوت ہوئے۔ابو الحسن محمد کی ایک صاحبزادی زینب تھیں جس سے ابو محمد احمد بن محمد بن عبد اللہ بن عباس بن عثمان بن شافع پیدا ہوئے۔ یہ اپنے والد کے ذریعہ سے اپنے نانا  امام شافعی علیہ الرحمہ سے روایت کیا کرتے تھے۔ آل شافع یعنی خاندان  امام شافعی علیہ الرحمہ میں اِن کے مثل کوئی عالم پیدا نہیں ہوا، اِن کو اپنے نانا  امام شافعی علیہ الرحمہ کی برکت حاصل تھی۔

تلامذہ کرام:

 امام شافعی علیہ الرحمہ سے خلق کثیر نے روایت کیا ہے مگر آپ کے مشہور تلامذہ میں سے چند یہ ہیں جن کے اسمائے گرامی مورخ اسلام الحافظ ذہبی نے نقل کیے ہیں:الحُمَیدی، ابو عبید القاسم بن سلام، احمد بن حنبل، سلیمان بن داود الہاشمی، ابو یعقوب یوسف البُوَیطی، ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبی، حرملہ بن یحیی، موسیٰ بن ابی الجارود المکی، عبد العزیز المکی صاحب الحیدہ، حسین بن علی الکرابیسی، ابراہیم بن المنذر الحزامی، الحسن بن محمد الزعفرانی، احمد بن محمد الاذرقی، احمد بن سعید الہمدانی، احمد بن ابی شُریح الرازی، احمد بن یحیی بن وزیر المصری، احمد بن عبد الرحمٰن الوہبی، ابراہیم بن محمد الشافعی، اسحاق بن راہویہ، اسحاق بن بُہلُول، ابو عبد الرحمٰن احمد بن یحیی الشافعی المتکلم، الحارث بن سُریج النقال، حامد بن یحیی البلخی، سلیمان بن داود المھری، عبد العزیز بن عمران بن مقلاص، علی بن معبد الرقی، علی بن سلمہ اللبیقی، عمرو بن سواد، ابو حنیفہ قحزم بن عبد اللہ الاسوانی، محمد بن یحیی العدنی، مسعود ابن سہل المصری، ہارون بن سعید الایلی، احمد بن سنان القطان، ابوالطاہر احمد بن عمرو بن السرح، یونس بن عبد الاعلیٰ، الربیع ابن سلیمان المرادی، الربیع بن سلیمان الجِیزی، محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم المصری، بحر بن نصر الخولانی۔

وصال پر ملال:

یہ چمکتا سورج 30رجب المرجب 204ہجری جمعرات کی رات کو مصر میں غروب ہوا۔ (الدیباج المذہب،ج2،ص160،الانتقاء،ص160)

 مزار مبارک:

 جبل مقطم کے قریب قرافہ صغریٰ (قاہرہ مصر)میں مرجع عوام وخواص ہے ۔