رمضان المبارک کا مہینہ اللہ
تبارک وتعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار
وبرکات کا سیلاب آتا ہے اور اس کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں، مگر ہم
لوگ اس مبارک مہینے کی قدرومنزلت سے واقف نہیں، کیونکہ ہماری ساری فکر اور جدوجہد
مادّیت اور دنیاوی کاروبار کے لیے ہے، اس مبارک مہینے کی قدردانی وہ لوگ کرتے ہیں
جن کی فکر آخرت کے لیے اور جن کا محور مابعد الموت ہو۔ آپ حضرات نے یہ حدیث شریف
سنی ہوگی، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اَللّٰہُمَّ
بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وبَلِّغْنَا رَمَضَانَ، (شعب
الایمان۳/۳۷۵) ترجمہ: اے اللہ ہمارے لیے
رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجیے،
یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردیجیے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے۔
جب ماہِ رمضان کا چا ند دیکھے
تو یہ دعا پڑھے: اللّٰھُمَّ
رب رمضان ادخلہ علینا با من و ایما ن
وصحتہ من السقم و فر اغ من الشغل واعنا علی الصیام، والقیام وتلاوۃ
القرآن،حتیّ ینقضی عنا، قد غفرت لنا و رضیت عنا تر جمہ : اے رب! ہم پررمضان دا
خل فر ما،امن اورایمان کےسا تھ اورمرض سے صحت اوراشغال کی فراغت کے ساتھ، ہماری مددفرما
روزہ، نماز اور تلاوت قرآن میں یہاں تک کہ ہم سے ( یہ مہینہ) اس حال میں گز رجا ئے
کہ تو ہمیں بخش دے اور ہم سے را ضی ہو جائے۔(لطائف اشرفی /۳۸/۳۴۵)
اس مہینے میں عبادات و ریاضات
کا عالم کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
سے مروی اس حدیث پر نظر ڈالیے، فرماتی ہیں: جب رمضان کا مہینہ آتا
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کمر ِہمت کس لیتے اوراپنے بستر پرتشریف نہ لاتے
یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا ۔(شعب الایمان۳/۳۱۰)
تہجد کی فضیلت: نماز تہجد کو اپنی پوری
زندگی کا معمول بنانا چاہیے ، ورنہ کم از کم رمضان المبارک میں تو اسے ہر حال میں
ادا کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ ان دنوں میں ہمارے پاس اس کو ادا کرنے کا کافی
وقت ہوتا ہےاور انسان کے دل میں ہدایت و روحانیت کا نور پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان سے
دنیا کی طرف نزول کر کے فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا
کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے کہ میں اسے بخش دوں؟ )صحیح
بخاری(ایک اور حدیث مبارک میں ہے: ”اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں بندے
سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس اگر ہو سکے تو تم ان بندوں سے ہو جاؤ جو اس مبارک وقت
میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔(جامع
الترمذی ( سحری کی فضیلت: یہ اللہ تعالی کا کرم ہے کہ اس ذات نے ہمیں جسمانی ضروریات کو پورا
کرنے پر اجر وثواب عنایت فرماتے ہیں۔ سحری بھی ہماری ان جسمانی ضروریات میں سے ایک
ہے جس پر اللہ تعالی نے انعام و اکرام اور برکت سے نوازتے ہیں۔ چنانچہ حدیث پاک میں
ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سحری کیا کرو ، کیونکہ
سحری کرنے میں یقینا برکت ہے۔) متفق علیہ (
روزہ کی فضیلت: روزہ رمضان المبارک کی بہت اہم عبادت ہےچنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: میری امت
کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئیں ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی
گئیں۔ اول: ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ دوم: ان
کیلئے فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ افطار کے وقت تک دعا کرتے ہیں۔ سوم: جنت ہر روز ان کیلئے سجا دی جاتی ہے۔ پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں
کہ عنقریب میرے نیک بندے مشقتیں اپنے اوپر سے ہٹا کر تیری طرف آئیں گے۔چہارم: اس
مہینہ میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور لوگ رمضان میں ان برائیوں کی طرف
نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں جا سکتے ہیں۔ پنجم: رمضان کی آخری رات
میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ (مسند
احمد: ج۸ص۳۰ رقم الحدیث۷۹۰۴)
فرض نمازوں کی پابندی:نماز
اہم العبادات ہے ، اس کی پابندی ضروری ہے ، بے شمار آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ
اس کی فضیلت ثابت ہےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ جس نے نماز
کی پابندی کی تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور، حجت اور نجات کا سبب بنے گی۔(مشکوٰۃ شریف) تلاوت قرآن:قرآن کریم کو رمضان المبارک سے بہت نسبت ہے۔ اسی مبارک مہینے میں
قرآن کریم نازل ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن مجید پڑھو
کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرےگا۔)صحیح مسلم(
توبہ و استغفار کی فضیلت:ہم فرشتے بھی نہیں کہ
کبھی ہم سے گناہ نہ ہو اور ہمیں شیطان کی طرح ہمیشہ گناہ بھی نہیں کرتے رہنا چاہیے
بلکہ اگر گناہ ہو جائے تو توبہ استغفار کر نی چاہیے تاکہ آئندہ کے لیے ہم اللہ اور
اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں سے بچ سکیں۔ تاہم اگر بار بار بھی
توبہ ٹوٹ جائے تب بھی ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے۔
صدقہ وخیرات کی فضیلت: رمضان
المبارک میں جہاں اور اعمال کا اجر بڑھ جاتا ہے اسی طرح صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب
بھی بڑھ جاتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم جود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے، اور رمضان المبارک میں
جبکہ جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تھے آپ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی، جبریل
علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ کے پاس آتے تھے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم فیاضی و سخاوت اور نفع رسانی میں بادِ رحمت سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری)
نوٹ : اس مہینہ میں اللہ کی راہ میں
خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور وجوبی صدقات
تو ادا کرنا تو انسان کے ذمہ ہیں ان کے ساتھ ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ نفلی صدقات
کا اہتمام بھی کیا جائے۔ کسی نادار روزہ دار کا روزہ افطار کرانا، کسی محتاج کی
مدد کرنا، کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا، یتیم اور بیواؤں کا خیال رکھنا وغیرہ
ایسی نیکیاں ہیں کہ انسان ان کو اس ماہِ مقدس میں ضرور ادا کرے۔
صبر و تحمل کی فضیلت:بعض اہل علم فرماتے ہیں
کہ صبر و تحمل تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ صبر میں غصہ اور اشتعال کو روکا جاتا
ہے اور تحمل میں غصہ اور اشتعال کو برداشت کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں روزوں
کی وجہ سے خشکی آجاتی ہے اور مزاج میں چڑچڑا پَن پیدا ہو جاتا ہے اس لیے ایسے موقع
پر اپنے آپ پر قابو پانا اور صبر سے کام لینابہت ضروری ہے۔
نوٹ : جیسا کہ حدیث پاک میں یہ بات بالکل وضاحت کے ساتھ آچکی ہے کہ رمضان
المبارک میں نوافل کا ثواب فرضوں کے ثواب تک جا پہنچتا ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی
چاہیے کہ فرائض کے علاوہ سنن اور نوافل کا بھی ذوق شوق سے اہتمام کریں۔ تہجد ،
اشراق ، چاشت،تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد،اوابین اور قضا نماز کو ادا کرنے وغیرہ کو
اپنا معمول بنائیں ۔
وظیفہ : خلیفہ غوث العالم شیخ الاسلام حضرت نظام الدین غریب یمنی قد س سرہ فرماتے
ہیں ماہ رمضان کی پہلی شب میں سورہ انا فتحنا (سورہ فتح) پڑھے۔ اُس سال اوردوسر
ےسال اللہ تعالی کی اما ن میں ہو گا ۔(لطائف اشرفی /لطیفہ ۳۸/۳۴۵)
گناہوں سے پرہیزکریں: ہر موٴمن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ورحمت اورمغفرت کے مہینے
میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول
باتوں سے مکمل پرہیز کرے، یہ کیا روزہ ہوا کہ روزہ رکھ کر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ
گئے اور فحش وگندی فلموں سے وقت گزاری ہورہی ہے، کھانا، پینا اورجماع جو حلال تھیں
ان سے تو اجتناب کرلیا لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر کسی کی غیبت ہورہی ہے، چغل خوری
ہورہی ہے، جھوٹے لطیفے بیان ہورہے ہیں، اس طرح روزے کی برکات جاتی رہتی ہیں۔ اللہ
تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،
رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور
پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین!