سورۃ الفاتحہ / مترجم حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ


 

؎قرآن سورہ فاتحہ مکی بھی ہےاورمدنی بھی کیونکہ مکہ مکرمہ میں فرض صلوٰۃ اورمدینہ منورہ میں تحویل قبلہ کے موقع پر نازل ہوئی۔ اس میں ۷آیات، ٢۵ کلمات اور ایک ٢۳ ۱ حروف ہیں۔(غرائب القرآن)

یہ سورت اصول دین اور فروغِ دین مثلاً عقیدہ، عبادت تشریع یوم آخرت پر اعتقاداللہ تعالی کے صفات حسنہ پر ایمان، عبادت واستعانت میں اسے خاص کرنے وغیرہ پر مشتمل ہے اس سورت کو سورۃ الفاتحہ، ام الکتاب،سبع مثانی، شافعہ، وافعہ، اساس اور حمد بھی کہتے ہیں۔علامہ قرطبی نے اس سورت کے بارہ نام لکھے ہیں۔(صفوۃ التفاسیر)

۲؎ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ پڑھوں گے تو گویا کہ تم نے اللہ کا شکر ادا کیا اس لیے اللہ تمہیں اور زیادہ دے گا۔ (ابن جریر) ۳؎ حضرت عزری فرماتے ہیں کہ اللہ رحمان ہے جمیع خلق کے لئے اور رحیم خاص مومنین کے لیے ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  کی روایت کے مطابق رحمان سے مراد رحمن الدنیا ولآخرت( دنیا اور آخرت میں رحم فرمانے والا) ہے جو صرف ایمان والوں کے لیے ہے (ابن جریر) ۴؎ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یوم حساب یعنی قیامت کا دن ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس دن مجازی بادشاہ بھی نہ ہوگا۔ (ابن جریر)  ۵؎ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تجھے ایک مانتے ہیں، تجھ ہی سے ڈرتے ہیں اور تجھ ہی سے امید رکھتے ہیں اور وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیری اطاعت میں اوراپنے تمام امور میں تیری ہی مدد طلب کرتے ہیں (ابن جریر)  ۶؎ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ (الصِّرٰطَ  الۡمُسۡتَقِیۡمَ) سے مراد قرآن ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرمات ے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! اِہۡدِ نَا  الصِّرٰطَ  الۡمُسۡتَقِیۡمَ پڑھیئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے ہدایت والے راستے کے بارے میں الہام کیا ہے اور وہ اللہ کا دین ہے جس نے کوئی کجی نہیں ہے۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ الصِّرٰطَ  الۡمُسۡتَقِیۡمَ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھی یعنی ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا راستہ ہے۔ (ابن جریر)  بے شک مومن جب اللہ کو دلیل واحد سے پہچان لیتا ہے تو اس کی نظر میں ممکنات کی اقسام میں کوئی موجود ایسا نہیں ہوتا ہے جس میں اللہ تعالی کے وجودو علم، قدرت جودو رحمت اور حکمت پر دلائل نہ ہوتے ہوں اور کبھی دین انسان دلیل واحد سے صحیح ہوتا ہے اور باقی دلائل سے غافل رہتا ہے اس لیے مومن کا  اِہۡدِ نَا  الصِّرٰطَ  الۡمُسۡتَقِیۡمَکہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ "اے ہمارے معبود! ہم نے جان لیا کہ ہر شے میں تیری ذات، صفات، قدرت اور علم پر دلائل کی کیفیت موجود ہے" اس لیے ان دلائل کی راہ ہمارے لئے ظاہر فرما!" (تفسیر کبیر) ۷؎ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ وہ راستہ جس پر اللہ نے انعام فرمایا ہے وہ ملائکہ، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کا ہے۔(ابن جریر)   ۸؎؎حضرت عدی بن حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ  کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس سے مراد یہود ہیں اور وَلَا الضَّآلِّیۡنَ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا اس سے مراد نصاریٰ ہے۔(ابن جریر)   پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ سورۃ فاتحہ کی مثل کوئی سورت توریت میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ خود قرآن میں۔( ترمذی شریف) سورہ فاتحہ کے اختتام پر تھوڑی سی خاموشی کے بعد آمین کہنا سنت ہے تھوڑی سی خاموشی کے بعد آمین اس لیے کہنا چاہیے تاکہ قرآن اور غیرقرآن کے درمیان فصل ہو جائے۔ (القرطبی)                  اشرف البیان مع تفسیر اظہار العرفان:  حضرت علامہ سید شاہ ممتاز اشرفی الجیلانی حفظہ اللہ ملک پاکستان کے ایک ذی استعداد با عمل عالم دین ہیں۔ دارالعلوم اشرفیہ رضویہ اورنگی ٹاؤن کراچی میں درس و تدریس کا کام انجام دے رہے ہیں۔ تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف بھی ان کا مشغلہ ہے۔ ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جن میں درسی کتابوں کی شروحات بھی شامل ہیں۔  غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سیدمخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ نے سب سے پہلے قرآن پاک کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔  حضورمخدوم کچھوچھہ قد س سرہ کا تحریر كرده فارسی ترجمہ کا نسخہ مدینہ منورہ میں حرم شریف کے قریب کسی مکان میں موجود تھا۔  جب حرم شریف کی توسیع ہوئی تو یہ قرآن شریف مع ترجمہ بزبان فارسی جناب محمد علی صاحب مہاجر مدنی کو ملا اور ان سے ڈاکٹر حضرت سید مظاہر اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کو ملا۔ اورمولانا موصوف صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ بعد ازاں آپ نے "تفسیر اظہار العرفان" کے نام سے چھ جلدوں میں اس کی تفسیر بھی لکھی۔ جو دار العلوم اشرفیہ رضویہ اورنگی ٹاوَن کراچی سے شائع ہوئی۔  [رفیع الشان قرآن عظیم مترجم/ص: ٣ - ۵] اور اس کا ایک  نسخہ مختار اشرف لائبریری خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں کچھوچھہ شریف( امبیڈکر نگر ،اترپردیش)میں موجود ہے ۔ )ابومحامد)

No comments:

Post a Comment