کلام: شیخ اعظم حضرت مفتی سید شاہ اظہاراشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ


سارے نبیوں میں                  چمکتا                             ہے اجالا تیرا
مل گئی                         اس کو بلندی                              جو ہے منگتا تیرا

اس کی نظروں میں سمائے گا کہاں حسن چمن
جس                        نے                           دیکھا                      ہے                            یقیناً                    در                        والا                                 تیرا

انبیاء آئے زمانے کی ہدایت کے لئے
لیے ہر زباں پہ سدا جاری رہا چرچا تیرا

جس کو اللہ (تعالیٰ) نے محبوب بنایا اپنا
اپنا مثل             پیدا نہ ہوا                                     اے                          شہ بطحا تیرا

تیرا ہو کر  اسے غیروں سے بھلا کیا مطلب
تیرے                    منگتے کو فقط                             چاہیے                    ٹکڑ ا                                تیرا

مظہر ذات خدا تیرے ہیں اوصاف جدا
ایسے محبوب کہ جس میں نہیں میرا تیرا

میرے مولیٰ میرے ملجا میرے داتا تم ہو
ہم                  غریبوں                کو                      اگر                      ہے                   تو                        سہارا تیرا

ہوکرم حالت اظہار                  پہ                   اے شاہ  عرب
 واسطہ خواجہ پیا کا ہے جو ہے پیارا تیرا


                                                                                                                                                                                                                      (مجموعہ کلام شیخ اعظم صفحہ ٨٥)


بوہری فرفہ کا افکار و نظریات



امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے۔آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ ان کے بعد حضرت اسماعیل رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی امام ہوں گے لیکن حضرت اسماعیل رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وفات امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ کی زندگی میں ہی ہو گئی۔

جب امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثر لوگوں نے امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کو امام مان لیا لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے،اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاہیے ، یہ لوگ "اسماعیلی" کہلائے۔اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔

جن لوگوں نے امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے "خلافت فاطمی" کی بنیاد رکھی۔ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا،مستعلی اور نزار دو بھائی تھے،مستعلی کو خلافت ملی لیکن لوگوں میں دو گروہ ہو گئے،ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے" بوہری" ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے "آغا خانی" ہیں۔

دوسری طرف بوہریوں کی خلافت ایک طویل عرصے تک مصر میں رہی لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پے در پے حملوں کے بعد اس شیعہ اسماعیلی حکومت کو ختم کر دیا۔جب مصر میں بوہریوں کی امامت ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا،ان کی امامت کا سلسلہ خلافت فاطمی کے ختم ہوتے ہی ختم ہو چکا ہے،البتہ ان کے ہاں"داعیوں" کا سلسلہ جاری ہے،موجودہ دور میں برھان الدّین ان کے داعی ہیں جن کا انتقال پچھلے دنوں ہوا۔آگے چل کر بوہریوں کے ہاں بھی دو فرقے ہوئے۔

(1) داؤدی            (2) سلیمانی

ان کا اختلاف محض علاقائی ہے،داؤدی بوہریوں کے داعی ہندوستانی ہوتے ہیں اور گجرات کے شہر سورت میں ان کا مرکز ہے جبکہ سلیمانی بوہریوں کے داعی یمن میں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی ہیں،پاکستان میں بھی سلیمانی بوہریوں کی ایک قلیل تعداد ہے،داؤدی بوہری کے لوگ بہت آرام سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مرد مخصوص ٹولی اور لباس پہنتے ہیں اور ان کی عورتیں ایک مخصوص حجاب کرتی ہیں جبکہ سلیمانی بوہری پہچانے نہیں جاتے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص لباس نہیں ہے۔

"بوہری فرقہ کے عقائد و نظریات"

واضح رہے کہ"بوہری فرقہ" کا نظریاتی تعلق شیعوں کے اسماعیلی مستعلوی فرقہ سے ہے جس کا مرکز کتب تاریخ کے مطابق ۹۴۶ھ میں یمن سے احمد آباد(گجرات) ہندوستان منتقل ہوا جہاں وہ اپنے مخصوص کاروبار کی وجہ سے جو کہ تجارت ہے "بوہرے" کہلائے۔(تاریخ فاطمیین مصر ص:۳۷۲‘ط:میرمحمد کراچی)

اس فرقہ کے ساتھ مسلمانوں کا اختلاف فقط فروعی مسائل ہی میں نہیں بلکہ بہت سے بنیادی عقائد میں بھی ہے۔،ذیل میں ان کے عقائد ونظریات درج کئے جاتے ہیں۔

(1)توحید: مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ایک ہے،ذات وصفات میں اس کا کوئی شریک نہیں مگر اسماعیلیوں کے ہاں اللّٰہ تعالیٰ کو کسی صفت سے موصوف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی تمام صفات درحقیقت ائمہ کی صفات ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے کسی صفت کا اقرار کرنا شرک ہے چنانچہ ڈاکٹر زاہد علی صاحب اپنی کتاب ”تاریخ فاطمیین مصر“میں رقمطراز ہیں:"مبدع سبحانہ وتعالیٰ ایک ہے اور وہ کسی صفت یا نعت سے موصوف ومنعوت نہیں کیا جاسکتا،اسے کسی صفت سے موصوف کرنا گویا اس کی ذات میں کثرت ثابت کرنا ہے جو شرک کا مترادف ہے"۔(تاریخ فاطمیین مصر ص:۵۳۹‘ نیز ”الملل والنحل“ للشہر ستانی: ۲۲۹‘ ط:بیروت)

(2)کلمہ:مسلمانوں کا کلمہ "لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ  (ﷺ) " ہے مگراسماعیلی بوہریوں کا کلمہ " لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ  مولانا علی ولی اللّٰہ وصی رسول اللّٰہ" ہے۔(اسماعیلیہ ص:۱۲۳‘ط: الرحیم اکیڈمی)

(3)رسالت:مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے انتہائی مقرب اور برگزیدہ بندے ہیں،وہ معصوم ہیں ان سے خطا سرزد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مخلوق میں کسی کو ان جیسا مقام حاصل ہے اس کے برعکس اسماعیلیوں کے نزدیک انبیائے کرام سے گناہ بھی سرزد ہو سکتے ہیں اور ان کے ائمہ کا درجہ بھی انبیائے کرام سے بڑھا ہوا ہے،ملاحظہ کریں۔"دور ستر میں امام خدا کے الہام سے حسب ضرورت اپنی جگہ پر اپنے نائبوں کو مقرر کرتا ہے جو "مستودع یعنی انبیاء: کہے جاتے ہیں اور جن میں مشہور آدم،نوح،موسیٰ اور عیسیٰ ہیں"۔(تاریخ فاطمیین مصر ص:۴۹۴)اور جعفر بن منصور الیمن لکھتا ہے:"تمام انبیاء کی حد تنزیل ہے،ان کی شریعتوں میں اختلاف اور شبہ پایا جاتا ہےان سے گناہ صادر ہوئے کیونکہ انہوں نے ایسے مراتب طلب کئے جن کے وہ مستحق نہ تھے،وہ سب غیر معصوم تھے ان میں آنحضرتﷺ بھی شامل ہیں بخلاف اس کے آپ کے وصی مولانا علی اور آپ کی نسل میں جتنے ائمہ ہوئے ان کی حد تاویل ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔(ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام‘ ص:۷۰-۷۱ بحوالہ ”تاویل الزکاة“ للسید جعفر بن منصور ص:۱۴۹-۱۵۶)

(4)ختمِ نبوت: مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرت محمدﷺ خاتم النبیین ہیں‘آپ کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی رسول مگر فرقہ اسماعیلیہ کے امام معز (متوفی ۳۶۵ھ) سے منقول ساتویں دعا جسے اسماعیلی شنبہ(ہفتہ) کے روز پڑھتے ہیں اور اسے نہایت متبرک سمجھتے ہیں اس میں امام محمد بن اسماعیل کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ ساتویں امام ہونے کے علاوہ ساتویں وصی،ساتویں ناطق اور ساتویں رسول بھی ہیں،اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے قیام سے ”عالم الطبائع“ کو ختم کیا اور (حضرت محمد ﷺ) کی شریعت کو معطل کیا۔(تاریخ فاطمیین مصر ص:۵۴۳)

(5) صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بغض و عداوت: مسلمانوں کو یہ عقیدہ ہے کہ پیارے آقاﷺ کے تمام صحابہ کرام پاکباز،سچے،اللّٰہ ان سے راضی اور وہ اللّٰہ سے راضی اور قطعی جنتی ہیں مگر "اسماعیلیہ"(یعنی بوہری اور آغاخانی) چونکہ "امامیہ" کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے اس کے بنیادی عقائد میں صحابہ سے بغض اور ان سے بیزاری کا اظہار کرنا بھی ہے یہاں تک کہ اکابر صحابہ کرام کی تکفیر بھی کرتے ہیں۔علامہ شہرستانی لکھتے ہیں:"ثم ان الامامیة تخطت عن ھذہ الدرجة الی الوقیعة فی کبار الصحابة طعناً وتکفیراً"(الملل والنحل :191،192،ط۔بیروت)

(6)امامت: عمومی طور پر ائمہ سے متعلق ان کے عقائد یہ ہیں:

ان کا درجہ رسول اللّٰہﷺ کے برابر اور دوسرے نبیوں سے بالا ترہوتا ہے۔(اس کی ایک مثال عقیدہ ”رسالت“ کے تحت گذرچکی ہے)

·      امام حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے سکتا ہے۔)اسماعیلیہ ص:۴۶-۴۷(

·      امام کو‘ شریعت میں ترمیم وتنسیخ کا اختیار ہے۔)اسماعیلیہ ص:۱۲۱(

·      ائمہ‘خدا کے اوصاف سے موصوف ہوتے ہیں۔)اس کی وضاحت عقیدہ ”توحید“ کے بیان میں ہوچکی ہے(

·      اماموں کو اللہ کی طرف وحی آتی ہے۔)ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت ص:۳۵۸(

·      امام معصوم ہوتا ہے اس سے کوئی خطا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وہ کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کا قصد و ارادہ کرسکتا ہے۔)ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت ص:۵۵۴-۵۵۵ بحوالہ ”تاویل الزکاة“ ص:۱۴۹-۱۵۶(

·      ہرزمانے میں ایک امام کا وجود ضروری ہے،اسی کے وجود کی برکت سے زمین برقرار ہے ورنہ وہ متزلزل ہوجائے۔)تاریخ فاطمیین مصر ص:۳۷۸(

·      امام مذہبی اور سیاسی دونوں حکومتوں کا مالک ہوتا ہے زمین کے ہرحصے پر وہ حکومت کرسکتاہے اس کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔)تاریخ فاطمین مصر ص:۳۷۸(

(7) قرآن پاک:نبی یا رسول کا کام یہ ہے کہ وہ جو بات اس کے دل میں آتی ہے اور بہتر معلوم ہوتی ہے وہ لوگوں کو بتا دیتا ہے اور اس کا نام کلام الٰہی رکھتا ہے تاکہ لوگوں میں یہ قول اثر کر جائے اور وہ اسے مان لیں،نبی کریم ﷺ نے اس کا ظاہر بیان کیا جب کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے بہ حیثیت صامت کے اس کا باطن بیان کیا جو مقصود اصلی ہے۔ (اسماعیلیہ ص:۱۲۱(

ان تمام عقائد کے بعد ظاہر ہے کہ بنیادی اور اصولی مسائل میں اس طرح کے عقائد رکھنا سراسر کفر والحاد ہے اور ایسے عقائد کا حامل شخص یا فرقہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔اللّٰہ پاک ہمیں ان باطل فرقوں سے محفوظ فرمائے اور ہمیشہ مسلکِ حق اہلسنّت و الجماعت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم الانبیاء و المرسلینﷺ

ابو جنید محمد زید عطاری