شمس العالم حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی
پتی قد س سرہ النورانی
از: ابومحامد آل رسول
احمد کٹیہاری
آپ کا اسم شریف شمس الدین اور لقب شمس
الاولیاء ’مشکل کشاء‘ ہے والد گرامی کا نام سید احمد ہے ۔ آپ علیہ الرحمہ۲۱ جمادی
الاول ۵۹۷ ہجری بمطابق ۱۱۳۰عیسوی بمقام
سرخس (ترکستان) پیدا ہوئے۔
خاندان عالی شان
پروفیسرخلیق احمد نظامی صاحب
اپنی مشہورتحقیقی کتاب میں فرماتے ہیں
"آپ حضرت خواجہ احمد یسوی )متوفیٰ 562 ہجری) قد س سرہ النورانی کے اولاد میں تھے۔ (بحوالہ تاریخ مشائخ چشت صفحہ233)
حضرت
سیدنا خواجہ احمد یسوی قدس سرہ النورانی )متوفیٰ 562 ہجری) سلطان التارکین غوث العالم محبوب یزدانی حضرت سیدمخدوم اشرف
جہانگیر سمنانی السامانی قدس سرہ النورانی (متوفی ٰ 808ہجری) کے حقیقی نانا تھے جیسا کہ لکھتے ہیں " سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی
قدس سرہ(متوفی ٰ 808ہجری) کی والدہ محترمہ
کا نام "سید ہ خدیجہ بیگم " جو
سلطان العارفین حضرت خواجہ احمدیسوی قدس سرہ )متوفیٰ 562 ہجری) کی بیٹی تھیں۔ (صحائف اشرفی حصہ اول 52)
مزید آپ آگے فرماتے ہیں "حضرت خواجہ احمد یسوی قد س سرہ
النورانی )متوفیٰ 562 ہجری) سلسلہ یسویہ کے بانی تھے آپ مرشد برحق اور ہادی
طریقت تھے آپ ترکستان میں 99 ہزار مشائخ
کے مقتدا تھے"(لطائف اشرفی حصہ اول صفحہ 601)
حضرت
علامہ مفتی غلام سرور علیہ الرحمہ اپنی مشہور کتاب میں فرماتے ہیں "سلطان العارفین حضرت خواجہ
احمد یسوی قدس سرہ ( 552ہجری) صحیح النسب
علوی تھے کیونکہ آپ حضرت محمد بن حنفیہ بن
حضر ت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم (81
ہجری) کی اولاد سے تھے ۔ آپ ترکستان کے سلسلہ خواجگان کے مشہور بزرگ تھے اور آپ کا
شمار مقتدائے کاملین میں تھا ۔ (خزینۃ الاصفیاء صفحہ163)
صاحب مشائخ چشت نے لکھا ہے کہ آپ اتالیسوی کے
نام سے مشہور تھے ۔ اتا ترکی زبان میں باپ کہتے ہیں اور ترکستان کے مقام یسی کے
نسبت سے یسوی کہلائے ۔ حضرت خواجہ احمد یسوی قد س سرہ )متوفیٰ 562 ہجری) حضرت
خواجہ یوسف ہمدانی رضی اللہ عنہ (المتوفی 535ہجری) کے مرید وخلیفہ تھے جن کے بارے
میں نفحات الانس کے الفاظ یہ ہیں کہ "امام عالم ربانی صاحب الاحوال والمواھب
الجزیلہ والکرامات والمقامات الجلیلہ" حضرت یوسف ہمدانی رضی اللہ عنہ کے
چارجلیل القدر خلفاء تھے ان میں سے حضرت خواجہ احمد یسوی قد س سرہ )متوفیٰ 562 ہجری) تبلیغ و اشاعت دین کی خاطر ترکستان پہونچے اور
اپنے سلسلۂ ارادت و بیعت کو خوب پھیلایا ۔
(
نفحات الانس صفحہ 337 )
اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں آپ کے متعلق لکھا
ہے کہ ترکی کے مشہور شاعر اور درویشی کے بانی حضرت خواجہ فرید الدین عطار نے انہیں
پیر ترکستان کا لقب دیا تھا ۔ خواجہ احمد
یسوی قد س سرہ )متوفیٰ 562 ہجری) نے جاہل اجڈ ترکوں تک اسلامی تعلیمات پہونچانے
کے لئے انہی کی زبان میں شاعری کی اور یوں ترکی ادب میں صوفیانہ شاعری کا ایک
معتدبہ حصہ چھوڑا تصوف کی تاریخ میں احمد یسوی ایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جنہوں
نے مریدوں اور پیروں کے کئے سلسلوں کو جنم دیا اور ان سے منسوب"دیوان
حکمت" نے صوفیانہ طرز زندگی پر گہرا اثر ڈالاخصوصا نقشبندی سلسلے نے اپنی
تعلیمات کا مآخذ اس دیوان کو بنایا۔ (سیدقاسم محموداز اسلامی انسائیکلوپیڈیا صفحہ
122)
ذکر اشرف کے مصنف آپ کے متعلق فرماتے ہیں
" سلطان العارفین حضرت خواجہ احمد
یسوی قد س سرہ )متوفیٰ 562 ہجری) یسا کے رہنے والے تھے یسا ترکستان کا ایک شہر
ہے جو روس میں ہے خواجہ صاحب کا مقبر ہ یسا میں موجود ہے جسے بادشاہ تیمور لنگ نے بنوایا تھا۔ (سید قدیر اشرف ازذکر اشرف صفحہ 13)
تعلیم وتربیت
شمس العالم حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی
قد س سرہ النورانی نے بچپن میں قرآن حفظ کیا، اور بہت ہی قلیل عمر میں حدیث ، تفسیر، فقہ ، منطق و فلسفہ ،ریاضی ہیئت اور ہندسہ میں اپنے ملک
ترکستان ہی میں دسترس حاصل کی۔
تلاش مرشد
حضرت عبدالرحمن چشتی صابری
عباسی علوی علیہ الرحمہ (متوفیٰ1094) فرماتے ہیں کہ آپ نے سب کچھ چھوڑ کر مکمل تجرید
وتفرید اختیار کرلی اور مردانہ وار راہ طریقت میں گامزن ہوتے ہوئے آپ تلاش مرش میں
ترکستان چھوڑ کر ماورالنہر تشریف لے گئے اور وہاں کے مشائخ کی زیارت کی ۔ چونکہ آپ
کا نصیب کسی اور جگہ تھا وہاں کے کسی بزرگ کے ساتھ وابستگی پیدا نہ ہوئی ۔ ناچار
ہندوستان کا رخ کیا اور سیر کرتے ہوئے بہت محنت و مشقت کے بعد کلیر شریف پہونچے
اور حضرت خواجہ مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری قد س سرہ النورانی
(متوفیٰ690ہجری) کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
(مراۃ الاسرار صفحہ 933)
سیرالاقطاب کے مصنف سید محمد علی جویا
مرادآبادی (متوفی 1323ہجری) کہتے ہیں کہ
آپ کو حضرت شیخ فریدالحق والدین گنج شکر اجودھنی
قد س سرہ (المتوفیٰ 585 ہجری ) سے
بھی خرقہ خلافت ملا تھا اور آپ انہیں کے کہنے پرآپ حضرت خواجہ مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری قد س سرہ النورانی
(متوفیٰ690ہجری) کےپاس کلیر شریف پہنچے۔
خدمت گزاری کی وجہ سے مخدوم صابرکلیری قد س سرہ (متوفیٰ690ہجری) آپ کو
اپنا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ پندرہ سال تک مخدوم صابرکلیری قد س سرہ
(متوفیٰ690ہجری) کے غسل ، وضو، کھانا پکانے اور لکڑیاں لانے کی
خدمت پر مامور رہے۔ جب مخدوم صابرکلیری قد س سرہ (متوفیٰ690ہجری) کی وفات کا وقت
قریب آیا تو آپ نے شیخ شمس الدین ترک پانی پتی قدس سرہ کو اپنے پاس بلایا اور خرقہ خلافت عطا کیااور
ارشاد فرمایا میرے مرنے کے تین دن بعد پانی پت کو روانہ ہوجانا۔ آپ نے عرض کی کہ حضور
پانی پت کی ولایت پر ان دنوںمخدوم شرف
الدین بو علی قلندر قد س سرہ (متوفیٰ724ہجری) فائض ہیں۔ میں وہاں کیسے جا
سکتا ہوں؟
مخدوم
صابرکلیری قد س سرہ (متوفیٰ690ہجری) نے فرمایاکہ ان کی ولایت کا دور ختم ہوچکا ہے
تم وہاں پہنچوگے تو وہ شہر کے دروازے پر آکر تمہیں ملیں گے ۔( سیرالاقطاب صفحہ174)
شیخ کے وصال، تجہیز و تکفین کے بعد پانی پت
تشریف لے گئے وہاں پہنچے تو آپ کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس لئے ایک دیوار کے
سائے کے نیچے بیٹھ گئے۔ حضرت مخدوم شرف
الدین بو علی قلندر قدس اللہ سرہ (متوفیٰ724ہجری) نے نور باطن سے آپ کی حالت کو دیکھ لیا اور
حجرے سے باہر آگئے۔ ایک حلوہ فروش کا بیٹا جو پرمخدوم شرف الدین بو علی قلندر قدس اللہ سرہ (متوفیٰ724ہجری) کا منظور نظر تھا۔ اس نے بو علی قلندرشاہ
قلندر قد س سرہ (متوفیٰ724ہجری) سے پوچھا
کہ آپ کہاں جارہے ہیں؟
اس پرمخدوم
شرف الدین بو علی قلندر قدس سرہ (متوفیٰ724ہجری) نے کہا کہ بیٹا اس
علاقے کی ولایت ایک اور بزرگ کے حوالے ہوگئی ہے اب میرے لئے حکم نہیں کہ اس شہر
میں رہ سکوں۔ حلوہ فروش کے بیٹے نے کہا کہ حضور مجھے اس صاحب ولایت سے ملاقات
کروائیں۔ حضرت مخدوم شرف الدین بو علی
قلندر قدس اللہ سرہ (متوفیٰ724ہجری) نے
فرمایا کہ فلاں محلے میں دیوار کے سائے میں تم کو ایک مرد درویش ملے گا بس وہی
صاحب ولایت ہیں۔ وہ حلوہ فروش وہاں پہنچا تو اس نے آپ کو دیکھا اور واپس آگیا۔ اس
وقت بوعلی قلندر شہر سے نکل چکے تھے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی
قد س سرہ شہر میں داخل ہوئے اور بو علی
قلندر قدس سرہ کے حجرے میں آئے اور غرضیکہ شمس الدین ترک پانی پتی قد س سرہ اپنے پیرو مرشد
کی وصیت کے مطابق سکونت اختیار کر لی۔
(مراۃ
الاسرار صفحہ 933)
آپ نے تبلیغ کا کام شروع کیا۔ آپ قدس سرہ کی
دلسوز قرأت سے تبلیغ اور قرآن کی اشاعت خوب ہوئی۔ یہی فیضان ہے کہ آج بھی جس قدر
چھوٹے نابالغ حافظِ قرآن پانی پت میں ملتے ہیں، اتنے شاید کہیں اور نہیں ہوتے۔
کرامات
پانی
پت کے ایک سید شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ آپ کی سیادت کس طریقے سے
ثابت ہے۔حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی
پتی قد س سرہ نے فرمایا ہم نے اپنے اباؤا
جداد سے ایسے ہی سنا ہے اور ہمارے پاس نسب نامہ بھی ہے۔ اس بزرگ نے کہا کہ اس بات
کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے ہماری تسلی نہیں ہوئی۔ جب حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی قد س سرہ نے یہ بات سنی تو دل میں جوش پیدا ہوااور فرمایا
عوام الناس میں یہ بات مشہور ہے کہ جو شخص حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد سے
ہوگا اس پر آگ اثر نہیں کرتی۔آؤ ہم دونوں مل کر آگ میں کودجاتے ہیں جسے آگ نہ
جلائے گی وہ سید ہوگا۔ یہ کہہ کر آپ خانقاہ کے تنور میں کود گئے اور تھوڑی دیر بعد
اس سید کو آواز دی کہ تم بھی اندر آجاؤ تاکہ تمہاری سیاست کا بھی پتہ چل جائے۔ اس
شخص نے تنور میں دیکھا آپ بڑے مزے سے تنور میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ یہ منظر دیکھ کر
خوف زدہ ہوا اور واپس ہوا ہی تھا کہ تنور کے اندر سے ایک شعلہ نکلا اور اس کے
کپڑوں پر گرا جس سے اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ وہ چیختا چلاتا ہائے ہائے کرتا دوڑ
رہا تھا کہ حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی
پتی قد س سرہ تنور سے باہر نکلے اور اس کی
آگ بجھائی۔ جب اس شخص کی حالت ٹھیک ہوگئی تو اس نے توبہ کی اور آپ کا مرید ہوگیا۔ (خزینۃ الاصفیاءجلددوم،صفحہ 167)
آپ نام پاک میں ایسی برکت ہےکہ جو کوئی وقت
مشکل سخت کے آپ کا نام لاکھ بار تنہا پڑھے یا جلسہ سے پڑھوائے اور یا شمس الدین
ترک کہے ان شاء اللہ لاکھ پر نوبت نہ پہونچے گی کہ کام اس شخص کا فورا ہوجائے
گااور یہ بارہا امتحان کیا ہے خصوصا معاش کے حق میں میں بہت جلد مؤثر ہے اور اکثر
ایسا ہی ہوا کہ پندرہ بیس ہزار تک نوبت نہیں پہونچی کہ وہ کام اسی وقت ہوگیا ۔ اب
بند ہ اجازت عام دیتا ہے کہ جس کا جی چاہے
وہ اس عمل مجرب کو کرے لیکن باوضو
صدق دل سے محبت کے ساتھ پڑھے۔ (سیرالاقطاب صفحہ 174)
حضرت شاہ علی چشتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں بستر پر
سویا ہوا تھا کہ میرے شریکوں میں سے ایک بھائی میرے قتل کی نیت سے داخل ہوا۔ اس نے
تلوار کھینچی مجھے مارنا ہی چاہتا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے فوراً شمس
الدین ترک پانی پتی قد س سرہ کا تصور کرکے
فریاد کی۔ میں نے دیکھا کہ ایک ہاتھ جس میں چاندی کی انگوٹھی تھی اچانک نمودار ہوا
اور اس شخص کو گردن سے پکڑ کر باہر پھینک دیا۔ میں اسی وقت اٹھا وضو کیا اور شمس
الدین ترک پانی پتی کی روضے کہ طرف چل دیا۔ روضے پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ ایک
ہاتھ روضہ اقدس سے باہر نکلا اور میرے سر پر رکھ دیا گیا۔ میں نے اس ہاتھ کو
تبرکاً چوما اور آنکھوں کو لگایا۔
سیرالاقطاب
کے مصنف نے شاہ علی چشتی علیہ الرحمہ کے واقعہ نقل کیا فرماتے ہیں کہ اندھیرے کی وجہ سے میں اس ہاتھ کو
دیکھ نہیں سکتا تھا دل میں آرزو ہوئی کاش اندھیری رات نہ ہوتی اور دن ہوتا تو میں
اس ہاتھ کی زیارت بھی کرسکتا تھا۔ میرا یہ سوچنا ہی تھا کہ اسی وقت ہاتھ کے ناخن
سے روشنی کی کرن نکلی اور میں نے دیکھا یہ وہی ہاتھ ہے جس میں چاندی کی انگوٹھی ہے
جو میرے قتل کو ناکام کرنے کے لئے ظاہر ہوا تھا۔ میں نے روضے پر شکرانے کے ہزار
نوافل ادا کئے، فاتحہ کا تحفہ پیش کیا اور گھر واپس آگیا۔ (خزینۃ الاصفیاءجلددوم، صفحہ 168)
تاریخ وصال
دسویں ما ہ جمادی الثانی 717 ہجری کو اس دار فانی ملک بقا کی طرف رحلت فرمائی ۔ تاریخ
واصل"شمس الحق محبوب الحق" پائی
ہے۔رضی اللہ عنہ
مآخد ومراجع:
صحائف اشرفی، خزینۃ الاصفیاء ، لطائف اشرفی، تاریخ
مشائخ چشت ، مراۃ الاسرار، نفحات الانس،
ذکر اشرف ، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، سیرالاقطاب ،