ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برأت کہا جاتا
ہے شب کے معنی ہیں رات اور برأت کے معنی بَری ہونے اور قطع تعلق کرنے کے
ہیں ۔ چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ
کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برأت کہتے
ہیں ۔ اس رات کو لیلۃ المبارکۃ یعنی برکتوں والی رات، لیلۃ الصک یعنی تقسیم امور
کی رات اور لیلۃ الرحمۃ یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا جاتا ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدتنا
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ،میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ جل
جلالہ (خاص طور پر) چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے: (1) بقرعید کی
رات (2) عید الفطر کی رات(3) شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے
نام اور لوگوں کا رزق اور ( اس سال) حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں۔ (4) 8یا
9 ذوالحجہ کی درمیانی رات آذانِ فجرتک۔ (تفسیر درمنثورجلد 7صفحہ
402)
پندرہ شعبان المعظم کی رات
کتنی نازک ہے ! نہ جانے کس کی قسمت میں کیا لکھ دیا
جائے! بعض اوقات بندہ غفلت پڑا رہ جاتا ہے اور اس کے بارے میں کچھ کا کچھ ہوچکا
ہوتا ہے ۔ بہت سے کفن دُھل کر تیار رکھے ہوتے ہیں مگر کفن پہننے والا بازاروں میں
گھوم پِھر رہے ہوتے ہیں ،کافی لوگ ایسے ہیں کہ ان کی قبریں کھدی ہوئی تیار ہوتی ہے
مگر ان میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں ، بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں
حالانکہ ا ن کی موت کا وقت قریب آچکا ہوتا ہے ۔ کئی مکانات کی تعمیرات کا کام پورا
ہوگیا ہوتا ہے مگر ساتھ ہے ان کے مالکان کی زندگی کا وقت بھی پورا ہوچکا ہوتا ہے۔ (غنیۃ الطالبین جلد 1 صفحہ 348)
پندرہ شعبان کا روزہ: امیر المؤمنین حضرت سیدنا مولیٰ علی مشکل کشا شیر خدا کرم
اللہ وجہہ الکریم سےروایت ہے کہ نبی کریم ﷺکا فرمان عظیم ہے: جب پندرہ شعبان
المعظم کی رات یعنی شب براءت آئے تو اسمیں قیام (عبادت) کرو اور دن میں روزہ رکھو
۔ بے شک اللہ جل جلالہ غروب ِ آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا اور کہتا ہے
:"
ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ اسےبخش دوں !
ہے کوئی روزی طلب
کرنے والا کہ اسے روزی دوں !
ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے عافیت عطا کروں !
ہے کوئی ایسا ! !!!اور یہ اس وقت تک فرماتا ہے کہ فجر طلوع
ہوجائے۔"(صحيح البخاري – 1145)
فائدے کی بات: شب براءت میں اعمال تبدیل ہوتے
ہیں لہذا ممکن ہو تو 14 شعبان المعظم کو بھی روزہ رکھ
لیا جائے تاکہ اعمال نامے کے آخری دن میں بھی روزہ ہو ۔ 14شعبان
المعظم کو عصر کی نماز با جماعت پڑھ کر وہیں نفلی اعتکاف کرلیا جائے اور نمازِمغرب
کے انتظار کی نیت سے مسجد ہی میں ٹھہرا جائے تاکہ اعمالنامہ تبدیل ہونے کے آخری
لمحات میں مسجد میں حاضری ، اعتکاف اور انتظار نماز وغیرہ کا ثواب لکھا جائے۔بلکہ
زہے نصیب ! ساری ہی رات عبادت میں گزاری جائے۔جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسار
رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ''لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں شب سے
افضل کوئی رات نہیں ۔ (لطائف المعارف 145)
جس طرح مسلمانوں کے لیے زمین میں دو عیدیں ہیں اسی
طرح فرشتوں کے آسمان میں دو عیدیں ہیں ایک شبِ برأت اور دوسری شبِ قدر جس طرح
مومنوں کی عیدیں عید الفطر اور عید الاضحٰی ہیں فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لیے ہیں
کہ وہ رات کو سوتے نہیں جب کہ آدمی رات کو سوتے ہیں اس لیے ان کی عیدیں دن کو ہیں
۔ (غنیۃ
الطالبین 449)
تقسیم امور کی رات: ارشاد باری تعالیٰ ہوا: قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا بے
شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام''۔ ( سورۃ
الدخان2 تا 4 ترجمہ : کنزالایمان)
''اس رات سے مراد شبِ قدر
ہے یا شبِ برأت'' (خزائن العرفان) ان آیات کی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ، اور بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ''لیلۃ مبارکۃ'' سے پندرہ
شعبان کی رات مراد ہے ۔ اس رات میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے
والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشہ
نہیں ہوتی ۔ اس روایت کو ابن جریر، ابن منذر اور ابنِ ابی حاتم نے بھی لکھا ہے۔
اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کا کام لیلۃ القدر میں مکمل ہوتا ہے۔
اگرچہ اس کی ابتداء
پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔ (ماثبت من السنہ صفحہ197)
علامہ قرطبی مالکی
رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ایک قول یہ ہے کہ ان
امور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ
القدر میں ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن جلد16 صفحہ128)
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ
میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ
امور بلاشبہ لوح محفوظ میں تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح
محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امور ہیں ۔
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم
جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرمائیے۔ ارشاد ہوا آئندہ سال میں
جتنے بھی پیدا ہونے
والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے
ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ
دئیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتاہے۔ (مشکوٰۃ جلد1صفحہ277)
حضرت عطاء بن یسار رضی
اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں
رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کو ایک فہرست دے کر حکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں
کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کو آئندہ سال مقررہ وقتوں پر قبض کرنا۔ تو اس
شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے
کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے۔ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوا رہا ہوتا ہے حالانکہ
ان کے نام مُردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں ۔(مصنف عبد الرزاق جلد4ٍصفحہ
318 ، ماثبت من السنہ صفحہ193)
حضرت عثمان بن محمد رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
سرکار مدینہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے
کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے
پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔(الجامع الاحکام القرآن
جلد16صفحہ126شعب الایمان للبیہقی جلد3صفحہ386) چونکہ یہ رات گذشتہ سال
کے تمام اعمال بارگاہِ الہٰی میں پیش ہونے اور آئندہ سال ملنے والی زندگی اور رزق
وغیرہ کےحساب کتاب کی رات ہے اس لیے اس رات میں عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب
کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کا باعث ہے اور
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔
مغفرت کی رات: شبِ برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے اسی حوالے سے
چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے
دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی
دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق)
جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت
فرماتا ہے۔ (ترمذی جلد1صفحہ156 ، ابن ماجہ صفحہ 100، مسند احمد جلد6صفحہ236، مشکوٰۃ جلد1صفحہ277 ٢، مصنف ابنِ ابی شعبہ
جلد1صفحہ337 ، شعب الایمان للبیہقی جلد3صفحہ379)شارحین فرماتے ہیں کہ
یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کو پہنچ گئی۔
حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے
روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شعبان کی پندرہویں شب
میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور اس شب
میں ہر کسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے''۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد3صفحہ380)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان
کی پندرہویں شب مین اپنے رحم و کرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور
کینہ رکھنے والے کے''۔ (ابنِ ماجہ ٍصفحہ 101، شعب الایمان جلد3صفحہ382)، مشکوٰۃ جلد1صفحہ277)
حضرت ابوہریرہ ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت
ابو ثعلیۃ اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایسا ہی مضمون مروی
ہے۔ (مجمع الزوائد جلد8صفحہ65)
حضرت عبد اللہ بن عمرو
بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آقا
و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ''شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ
تعالیٰ اپنی رحمت سے دو شخصوں کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ
پرور اور دوسرا کسی کو ناحق قتل کرنے والا''۔ (مسند احمد جلد2صفحہ176)، مشکوٰۃ جلد1صفحہ278)
امام بیہقی نے شعب الایمان جلد3صفحہ384) میں حضرت عائشہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں
میں ان لوگوں کا بھی ذکر رشتے ناتے توڑنے والا، بطور تکبر ازار ٹخنوں سے نیچے
رکھنے والا، ماں باپ کا نافرمان، شراب نوشی کرنے والے۔
غنیۃ
الطالبین صفحہ449 پر
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی طویل حدیث میں مزید ان لوگوں کا بھی
ذکر ہے جادوگر، کاہن، سود خور اور بد کار، یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے
توبہ کیے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی۔ پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے گناہوں
سے جلد از جلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اور بخشش و مغفرت کے
حقدار ہوجائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا ''اے ایمان والو اللہ کی
طرف ایسی توبہ کرو جو آگے نصیحت ہوجائے''۔(التحریم٨8 ، کنزالایمان)
یعنی
توبہ ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اور اس کی
زندگی گناہوں سے پاک اور عبادتوں سے معمور ہوجائے۔
حضرت
معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
عرض کی۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توبۃ النصوح کسے کہتے ہیں ارشاد ہوا
بندہ اپنے گناہ پر سخت نادم اور شرمسار ہو۔ پھر بارگاہ الہٰی میں گڑگڑا کر مغفرت
مانگے۔ اور گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل
نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزد نہ ہوگا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ علیہ
الرحمہ کا پیام تمام مسلمانوں کے نام
امام اہلسنت مجدددین وملت حضرت علامہ مولانا الحافظ القاری
الشاہ امام احمدرضاؔ علیہ الرحمہ نے اپنے ایک اِرادتمند(معتقد) کوشب براءت سے قبل
توبہ اور معافی تلافی کے تعلق سے ایک مکتوب ارسال فرمایا جو کہ اس کی افادیت کے
پیش نظر حاضر خدمت ہے چنانچہ"کلیات مکاتیب رضاؔ"صفحہ 356 تا257 پر ہے :
شب براءت قریب ہے ، اس رات تمام بندوں کے اعمال حضرت عزت میں پیش ہوتے ہیں ۔
مولابطفیل حضور ﷺ مسلمانوں کے ذنوب (گناہ) معاف فرما دیتا ہےمگر چند،ان میں وہ
مسلمان جوباہم دنیوی وجہ سے رنجش رکھتے ہیں ،فرماتا ہے "ان کو رہنے دوجب تک
آپس میں صلح نہ کرلیں"۔لہذا اہلسنت کو چاہیے کہ حتی الوسع قبل غروب آفتاب
14شعبان باہم ایک دوسرے سے صفائی کرلیں ۔ایک دوسرے کے حقوق اداکردیں یا معاف
کرالیں کہ باذنہ تعالی حقوق العباد سے صحائف اعمال (اعمالنامے) خالی ہوکر بارگاہ
عزت میں پیش ہوں۔حقوق مولی تعالیٰ کے لئے توبہ صادقہ (سچی توبہ)کافی ہے۔حدیث پاک
میں ہے۔ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ترجمہ
:گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسےاس نے گناہ کیا ہی نہیں(ابن ماجہ حدیث4250)
ایسی حالت میں باِذنہ تعالی ضرور اس شب میں مغفرت تامہ (مغفرت کی پکی امید ہے بشرط
صحت عقیدہ۔(عقیدہ درست ہونا شرط ہے) وھوالغفور الرحیم(اور وہ
گناہ مٹانے والااور رحمت فرمانے والا ہے) یہ سب مصالحت اخوان(بھائیوں میں صلاح
کروانا)و معافئ حقوق بحمدہ تعالیٰ یہاں سالہائے دراز (کافی برسوں )سے جاری ہے،
امید ہے کہ آپ بھی وہاں کے مسلمانوں میں اس کا اجرا کرکے من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ
اجرھاواجرمن عمل بھا الی یوم القیامۃلا ینقص من اجورھم شئی(جو
اسلام میں اچھی راہ نکالے اس کے لئے اس کا ثواب ہے اور قیامت تک جو عمل کرین ان سب
کا ثواب ہمیشہ اسکے نامہ اعمال میں لکھا جائےگابغیر اس کے کہ ان کے ثوابوںمیں کچھ
کمی آئے) کے مصداق ہوں اور اِس فقیر کے لئے عفووعافیت دارین کی دعافرمائیں۔فقیر
آپکے لئے دعا کرتا ہےاور (ان شاء اللہ) کرے گا۔سب مسلمانوں کو سمجھادیا جائےکہ
وہاں (بارگاہ الہی میں )نہ خالی زبان دیکھی جاتی ہےنہ نفاق پسندہے،صلح و معافی سب
سچے دل سے ہو۔
والسلام
فقیر
احمدرضا عفی عنہ ازبریلی
رحمت کی رات: شبِ برأت فرشتوں کو بعض
امور دئیے جانے اور مسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک او ر خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں
کے نزول کی اور دعاؤں کے قبول ہونے کی رات ہے۔
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ''جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش
دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو
مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک
کے''۔ (شعب الایمان
للبیہقی جلد3صفحہ383)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ
غیب بتانے والے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاجب شعبان کی
پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت
سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد
فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی رزق
مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں
، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔(ابنِ ماجہ صفحہ100 ، شعب الایمان للبیہقی جلد3صفحہ378،
مشکوٰۃ جلد1صفحہ278)
اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت و رحمت کی ندا کا ذکر
ہے اگرچہ یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں جیسا کہ کتاب کے
آغاز میں شبِ بیداری کی فضیلت کو عنوان کے تحت حدیث پاک تحریر کی گئی
شبِ برأت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع
ہوجاتی ہے گویا صالحین اور شبِ بیدار مومنوں کے لیے تو ہر رات شبِ برأت ہے مگر یہ
رات خطاکاروں کے لیے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے اس لیے ہمیں چاہیےکہ اس رات میں اپنے
گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور ربِ کریم سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگیں ۔
اس شب رحمتِ خداوندی ہر پیاسے کو سیراب کردینا چاہتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی
گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔ بقول شاعرمشرق ڈاکٹر محمد اقبال (علیہ الرحمہ) ، رحمت الہٰی یہ ندا
کرتی ہے
ہم
تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں ۔۔۔ راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی نہیں
شبِ بیداری کا اہتمام: شبِ برأت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے خود بھی شبِ بیداری کی اور دوسروں کو بھی شبِ بیداری کی تلقین فرمائی آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان اوپر مذکور ہوا کہ "جب شعبان کی
پندرہویں رات ہو تو شبِ بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو'' اس فرمان جلیل کی تعمیل
میں اکابر علمائے اہلسسنت اور عوام اہلسنت کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ رات میں
شبِ بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔
شیخ عبد الحق محدث
دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں"تابعین میں سے جلیل القدر
حضرات مثلاً حضرت خالد بن معدان، حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر اور حضرت اسحٰق
بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہو کر شعبان کی پندرہویں شب میں شبِ
بیداری کرتے تھے اور رات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے۔ (ما ثبت من السنہ202، لطائف المعارف صفحہ144) ١
علامہ ابنِ الحاج مانکی
رحمتہ اللہ علیہ شبِ برأت کے متعلق رقم طراز ہیں"اور کوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک
بڑی عظمت والی ہے۔ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کی بہت تعظیم کرتے اور اس
کے آنے سے قبل اس کے لیے تیاری کرتے تھے۔ پھر جب یہ رات آتی تو وہ جوش و جذبہ سے
اس کا استقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ
بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔ (المدخل جلد1صفحہ392)
مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مقد رات مین مسجد
مین جمع ہوکر عبادات میں مشغول رہانا اور اس رات شبِ بیداری کا اہتمام کرنا تابعین
کرام کا طریقہ رہا ہے۔
شیخ
عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں"اب جو شخص شعبان کی پندرہویں رات مین شبِ بیداری کرے تو یہ فعل
احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے
کہ شبِ برأت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لیے
قبرستان تشریف لے گئے تھے۔" (ماثبت من السنہ صفحہ205)
آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت قبور کی ایک بڑی
حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس رات موت یاد آتی ہے۔ اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔
شبِ برأت میں زیارتِ قبور کا واضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کو
یاد کریں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہی شبِ بیداری کا اصل مقصد
ہے۔
اس
سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا ایمان افروز واقعہ بھی ملاحظہ
فرمائیں منقول ہے کہ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شبِ برأت میں گھر سے باہر تشریف لائے
تو آپ کا چہرہ یوں دکھائی دیتا تھا جس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر
نکالا گیا ہو۔ آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے فرمایا
خدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمند میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب
رہا ہو اور بچنے کی کوئی امید نہ ہو۔ پوچھا گیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کی ایسی
حالت کیوں ہے؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں ۔ لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں
جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھر رد کردی جائیں گی۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ250)
اللہ اکبر نیک و متقی لوگوں کا یہ حال ہے جو ہر
رات شبِ بیداری کرتے ہیں اور تمام دن اطاعتِ الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے
برعکس کچھ لوگ ایسے کم نصیب ہیں جو اس مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت و دعا میں
مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو و لعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں آتش بازی پٹاخے اور دیگر
ناجائز امور میں مبتلا ہوکر وہ اس مبارک رات کا تقد س پامال کرتے ہیں ۔ حالانکہ
آتش بازی اور پٹاخے نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ
ارد گرد کے لوگوں کی جان کے لیے بھی خطرتے کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسے لوگ 'مال برباد اور گناہ لازم''
کا مصداق ہیں ۔
ہمیں
چاہیے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور بچوں
کو سمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ناراض ہوتے ہیں ۔ مجدد برحق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی
رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے بے
شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضائع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی
فرمایا گیا۔ ارشاد ہوا
اور
فضول نہ اڑا بے شک (مال) اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ''۔٭بنی اسرائیل٭
آتشبازی کا موجد کون؟؟؟
شب
برأت جہنم سے" برأت" یعنی چھٹکارا پانے کی رات ہے مگر افسوس ! مسلمانوں کی ایک
بھاری تعداد آگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے خود پیسے خرچ کرکے اپنے لیے آگ یعنی
آتشبازی کا سامان خریدتی اور خوب پٹاخے وغیرہ چھوڑکر اس مقدس رات کا تقدس پامال
کرتی ہے۔مفسرشہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خاں نعیمی اشرؔفی علیہ الرحمہ
اپنی مختصر کتاب "اسلامی زندگی" میں فرماتے ہیں : اس رات کو گناہ میں
گزارنا بڑی محرومی کی بات ہے آتشبازی کے متعلق مشہور یہ ہے کہ یہ نمرودبادشاہ نے
ایجاد کی جبکہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا اور آگ گلزار ہوگئی
تواس کے آدمیوں نے آگ کے اناربھرکران میں آگ لگا کر حضرت خلیل اللہ علیٰ
نبیناوعلیہ الصلاۃوالسلام کی طرف پھینکے "۔
(اسلامی
زندگی صفحہ 77)
شب برأت کی مروجہ آتشباری
حرام ہے:
افسوس!
شب برأت میں "آتشبازی" کی ناپاک رسم اب مسلمانوں کے اندر زور پکڑتی
جارہی ہے۔ اسلامی زندگی" میں ہے:مگر مسلمانوں کا لاکھوں روپیہ سالانہ اس رسم
میں برباد ہوجاتا ہے اور ہر سال خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ سے اتنے گھر آتشبازی سے
جل گئے اور اتنے آدمی جل کر مر گئے۔اس میں جان کا خطرہ اور مال کی بربادی مکانوں
میں آگ لگنے کا اندیشہ ہے اپنے مال میں اپنے ہاتھ سے آگ لگانا اور پھر خدا تعالیٰ
کی نافرمانی کا وبال سرپر ڈالنا ہے ،خدا عزوجل کیلئے اس بیہودہ اور حرام کام سے
بچو۔ اپنے بچّوں اور قرابت داروں کو روکو جہاں آوارہ بچے یہ کھیل کھیل رہے ہوں
وہاں تماشا دیکھنے کیلئے بھی نہ جاؤ۔آتشبازی بنانااس کابیچنا۔ اس کا خریدنا اور
خریدوانا اس کا چلانا یا چلوانا سب حرام ہے۔
سال بھر جادو سے حفاطت : اگر اس رات (شب براءت) سات پتے بیری (بیرکے درخت) کے پانی
میں جوش دیکر (جب نہانے کے قابل ہوجائے تو )غسل کرےان شاء اللہ تمام سال جادو کے
اثر سے محفوظ رہے گا۔ (اسلامی زندگی مصنف حضرت مفتی احمد یار
خاں نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ )
شعبان کے روزے:نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے،"جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے ناموں کی فہرست ماہِ
شعبان میں ملک الموت کو دی جاتی ہے اس لیے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرا نام اس وقت
فہرست میں لکھا جائے جب کہ میں روزے کی حالت میں ہوں''۔
یہ حدیث پہلے مذکورہ ہو چکی کہ مرنے والوں کے ناموں کی فہرست
پندرہویں شعبان کی رات کو تیار کی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس
ارشاد سے معلوم ہوا کہ اگرچہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا اس کے باوجود روزہ دار
لکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بوقت کتاب (شب) اللہ تعالیٰ روزی کی برکت کو جاری
رکھتا ہے (ماثبت من السنہ ٍصفحہ 192)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ،میں نے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
ماہِ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا''۔(بخاری، مسلم، مشکوٰۃ جلد1صفحہ441)
ایک اور روایت میں
فرمایا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند دن چھوڑ کر پورے ماہِ شعبان کے روزے
رکھتے تھے''۔
قبر پر موم بتیاں جلانا : شب برأت میں اسلامی بھائیوں کا قبرستان جانا سنت ہے (اسلامی
بہنوں کو شرعاً اجازت نہیں ) قبروں پر موم بیتاں نہیں جلاسکتے ہاں اگر تلاوت وغیرہ
کرنا ہو تو ضرورتاً اجالا حاصل کرنے کے لئے قبر سے ہٹ کر موم بتی جلاسکتے ہیں اس
طرح حاضرین کو خوشبو پہنچانے کی نیت سے قبر سے ہٹ کر اگر بتیاں جلانے میں کوئی حرج
نہیں ۔مزارات اولیاء رحمھم اللہ تعالی پر چادر اور اس کے پاس چراغ جلانا جائز ہے
کہ اس طرح لوگ متوجہ ہوتے اور ان کے دلوں میں عظمت پیداہوتی اوروہ حاضر ہو کر
اکتساب فیض کرتے ہیں ۔اگر اولیاء اور عوام کی قبریں یکساں رکھی جائیں تو بہت سارے
دینی فوائد ختم ہو کر رہ جائیں ۔
مغرب کے بعد چھ نوافل: معمولات اولیائے کرام رحمھم اللہ السلام سے ہے کہ مغرب کے فرض و سنت کے بعد چھ رکعت نفل دودو رکعت کرکے ادا کئے جائیں۔ پہلی دورکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے: "یا اللہ جل جلالہ ان دورکعتوں کی برکت سے مجھے درازی عمر باالخیر عطافرما۔دوسری دورکعتوں میں یہ نیت فرمائیے: " یا اللہ ان دورکعتوں کی برکت سے بلاؤں سے میری حفاظت فرما"۔ تیسری دورکعتوں کے لئے یہ نیت کیجئے:"یا اللہ ان دورکعتوں کی برکت سے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر"ان 6 رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے بعد جو چاہیں وہ سورتیں پڑھ سکتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد تین تین بار سورۃ الاخلاص پڑھ لیجئے۔ ہر دورکعت کے بعد اکیس بار قل ھو اللہ احد (پوری سورت) یا ایک بار سورہ یاسین شریف پڑھئے بلکہ ہوسکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی اسلامی بھائی بلند آواز سے یاسین شریف پڑھیں اور دوسرے خاموشی سے خوب کان لگا کرسنیں ۔اس میں یہ خیال رہے کہ دوسرا اس دوران زبان سے یاسین شریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھےاور یہ مسئلہ خوب یاد رکھئے جب قراٰن کریم بلند آواز سے پڑھاجائے تو جو لوگ سننے کے لیے حاضر ہیں ان پر فرض عین ہے کہ چپ چاپ خوب کان لگاکر سنیں ان شاء اللہ رات شروع ہوتے ہی ثواب کا نبار لگ جائے گا۔ ہر بار یاسین شریف کے بعد "دعائے نصف شعبان بھی پڑھئے۔
شب برأت کے نفل نماز:
٭غوث العالم محبوب یزدانی سید سلطان مخدوم
اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شب برأت میں سورکعت نماز ادا کرے
پچاس سلام کے ساتھ۔ اس کی ہر رکعت میں فا تحہ کے بعد دس بار قل ھو اللہ احد پڑھے ۔
جب نماز سے فارغ ہو جائے تو سجدے میں سررکھ کر یہ دعاپڑھے: بسم اللہ
الرحمن الرحیم اعوذبنوروجھک الذی بصارت بہ السموات والارض السبع وکشف بہ الظلمات
وصلح علیہ امر من الاولین و الآخرین من فجاء نعمتک ومن تحویل عاقبتک ومن شر کتاب
سبق۔ اعوذ بعفوک من عقابک واعوذ برضاک من سخطک اعوذبک منک جل ثناء ک وما ابلغ ولا
احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک۔(لطائف اشرفی حصہ دوم صفحہ345)
ترجمہ: میں پناہ مانگتا ہوں
تیرے چہرے کے نور سے جس سے سات آسمان اورسات زمین روشن ہیں اور اس سے تاریکیاں چھٹ
گئیں اور صالح ہوگیا اس پر امر اولین و آخیرین ۔ تیری نعمت کے آنے سے اور تیری
آخرت کے لپیٹنے سے اور تحریر شدہ بدی سے جو سابق میں سرزد ہوئی۔ میں پناہ مانگتا
ہوں تیرے عفو کے ساتھ تیرے عذاب سے ۔ میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے ،تیری ثنا عظیم
ہے ، تیری رحمت بے انتہاہے میں تیری ثنا کا احاطہ اس طرح نہیں کرسکتا جس طرح تونے
خود اپنی ثنا کی ہے۔اس کے بعد بیٹھ جائے اور درودشریف پڑھ کر یہ دعامانگے:اللھم
ھب لی قلبا نقیا من الشرک بریاو لا شقیا ترجمہ: اے اللہ مجھے ایسا
دل عطافرما جو شرک سے پاک اور بدبختی سے بری ہو۔اس کے بعد اللہ تعالی سے حاجت طلب
کرےالبتہ قبول ہوگی۔ (لطائف اشرفی حصہ دوم صفحہ345)
شیخ امام عارف بااللہ
ابوالحسن رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ بہتر ہے اس رات میں یہ دعا پڑھے: اللھم
انک عفوکریم تحب العفوفاعف عنی اللھم انی اسئلک العفووالعافیۃ والمعافاۃ الدائمۃ
فی الدین والآخرۃ۔ترجمہ: یا اللہ تو عفوکرنے والا بزرگ ہے دوست رکھتاہے تو
عفوکو پس عفو کر مجھ سے یا اللہ میں چاہتاہوں عفواور عافیت دنیا اور آخرت میں ۔ (بیان قدر شب براءت مولف بطل حریت حضرت علامہ مفتی عنایت
احمد کاکوروی رحمۃ اللہ علیہ)
٭ سورکعت نفل پڑھے اس طرح
سے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دس دس بار سورۃ الاخلاص پڑھے۔
فضیلت: اس نماز کوصلاۃ الخیر کہتے ہیں جو شخص یہ نماز پرھے گا تو
اللہ تعالیٰ اس کی طرح ستر دفعہ نگاہ کرم فرمائےگا اور ہر نگاہ میں اس کی ستر
حاجتیں پوری فرمائےگا۔ ادنی حاجت بخشش ہے۔(غنیۃ الطالبین)
٭حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ
میرانیاز مند امتی شب براءت میں دس رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ
الفاتحہ کے بعد سورۃ الاخلاص گیارہ گیارہ بار پڑھے۔
فضیلت: اس کے پڑھنے والے کے گناہ
معاف ہوں گے اور اس کی عمر میں برکت ہوگی۔ (نزہۃ المجالس)اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
الہ وصحابہ وسلم کی مقدس زندگی اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین