سوال
نمبر1:نفلی روزے کسے کہتے ہیں؟
جواب
: فرض واجب کے علاوہ اور جتنے روزے ہیں۔ وہ سب نفلی روزے کہلاتے ہیں۔ ان نفلی
روزوں میں وہ روزے بھی شامل ہیں جنہیں مسنون یا مستحب و مندوب کہا جاتا ہے۔ اور وہ
بھی داخل ہیں جنہیں شریعت کی زبان میں مکرؤہ تحریمی یا مکرؤۃ تنز یہی کہا جاتا ہے۔
سوال
نمبر2: رمضان المبارک کے علاوہ کون سے نفلی روزے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں؟
جواب
: رمضان المبارک کے بعد، روزہ وغیرہ اعمال صالحہ کے لیے سب دنوں سے افضل ذی الحجہ
کا پہلا عشرہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’اللہ عزوجل کو عشرۂ ذی الحجہ سے زیادہ کسی
دن کی عبادت پسندیدہ نہیں۔ اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور ہر شب کا
قیام (نماز تہجد پڑھنا) شب قدر کے برابر ہے‘‘ خصوصاً عرفہ کا دن کہ تمام سال میں
دنوں سے افضل ہے ۔ تو اس کا روزہ بھی اور دونوں کے روزوں سے افضل ۔
سوال
نمبر3:عرفہ کے روز، روزہ کا ثواب کیا ہے؟
جواب
:عرفہ کا روزہ صحیح حدیث سے ہزاروں روزوں کے برابر ہے۔ اور دو سال کامل کے گناہوں
کی معافی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’ عرفہ کا روزہ ایک سال
قبل اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دیتا ہے ‘‘ (ترمذی وغیرہ)
سوال
نمبر4:عرفہ کے بعد کون سے دن کا روزہ ثواب رکھتا ہے؟
جواب
:عرفہ کے بعد سب دنوں سے افضل روزہ عاشورا یعنی دسویں محرم کا روزہ ہے اور بہتر یہ
ہے کہ نویں کو بھی رکھے۔ اس میں ایک سال گذشتہ کے گناہوں کی مغفرت ہے۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’ مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک
سال قبل کے گناہ مٹا دتیا ہے۔ (مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کا روزہ
خود رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری و مسلم)
سوال
نمبر5:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کا روزہ سب سے پہلے کہاں رکھا؟
جواب
:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر جب مدیہ طیبہ میں تشریف
لائے تو یہود کو عاشورا کے دن روزہ دار پایا۔ ارشاد فرمایا ’’ یہ کیا دن ہے کہ تم
روزہ رکھتے ہو‘‘ ؟
یہودیوں
نے عرض کی ’’ یہ عظمت والا دن ہے کہ اس میں موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کی
قوم کو اللہ تعالیٰ نے نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبویا۔ لہٰذا مو سیٰ
علیہ السلام نے بطور شکر اس دن کا روزہ رکھا تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں‘‘۔حضور سید
اکرم عالم اعلم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی موافقت کرنے میں بہ نسبت تمہارے ہم زیادہ حقدار اور زیادہ قریب ہیں‘‘ تو حضور
ﷺنےخودبھی روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی فرمایا ۔ ۱
عاشورا
کا دن اور بہت سے فضائل والا اور بڑا مبارک دن ہے۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ عزوجل کوئی خاص نعمت
عطا فرمائے اس کی یاد گار قائم کرنا درست و محبوب ہے کہ وہ نعمت خاصہ یاد آئے گی
اور اس کا شکر ادا کرنے کا سبب ہوگا۔ خود قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ’’ واذ کرو ا ا یام اللہ ‘‘ ’’خدا نے انعام کے
دنوں کو یاد کرو‘‘۔اور ہم مسلمانوں کے لیے ولادت اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم
سے بہتر کون سا دن ہوگا جس کی یاد گار قائم کریں کہ تمام نعمتیں انہیں کے طفیل
ملیں، ملتی ہیں اور ملتی رہیں گی۔ تو یہ دن عید سے بھی بہتر و بر تر ہے کہ انہیں
کے صدقہ میں تو عید ہوئی اسی وجہ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کا سبب ارشاد فرمایا فیہ
ولدت اس دن میری ولادت ہوئی۔ (بہار شریعت وغیرہ)
سوال
نمبر6:روز عاشورا کے کچھ فضائل بیان فرمائیں؟
جواب
:یوم عاشورا وہ مبارک و روشن دن ہے جس میں رب العزت نے ایک جماعت انبیاء کرام
علیہم الصلوٰۃ والسلام کو مخصوص عزت و کرامت سے نوازا اور انہیں مزید قرب و شرافت
سے سرفراز فرمایا۔
یہی
وہ بابرکت دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے
۱۔ حضرت سید نا آدم علیہ السلام کو برگزیدہ خلائق کیا۔ انہیں صفی
اللہ کا لقب بخشا۔
۲۔ سیدنا ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا۔
۳۔ سید نا نوح علیہ السلام کے سفینہ کو کوہ جودی پر ٹھہرایا۔
۴۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو خلعت خلت پہنایا انہیں اپنا خلیل
بنایا۔
۵۔ ان پر نارنمرود کو گلزار کیا۔
۶۔ سیدنا داؤد علیہ السلام کو لغزش کو معاف فرمایا۔
۷۔ سید نا ایوب علیہ السلام سے بلاؤں کو دفع کیا۔
۸۔ سید نا یونس علیہ السلام کو بطن حوت (مچھلی کے پیٹ) سے نکلا۔
۹۔ سید نا یعقوب و سیدنا یوسف علیہاالسلام کو باہم ملایا۔
۱۰۔ سید نا عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور پھر آسمان پر
زندہ اٹھایا۔
۱۱۔ سید نا آدم و حوا علیہا السلام کو پیدا کیا۔
سوال
نمبر7:روز عاشورا کے لیے کچھ اعمال خیر ہوں تو وہ بھی بتا دیں؟
جواب
:روز عاشورا وہ مبارک دن ہے جس کے لیے تو رات مقدس میں مذکور کہ :
۱۔ جس نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا گو یا اس نے تمام سال روزہ رکھا۔
۲۔ جس نے آج کسی یتیم کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا۔ رب عزوجل ہر بال
کے بدلے جنت میں ایک درخت عالی شان اسے عطا فرمائے گا۔ جو قیمتی ملبوسات اور
زیورات سے لدا ہوگا۔ اور ان کی تعداد سوائے خدا کے کسی کو معلوم نہیں۔
۳۔
جو آج کسی بھو کے بھٹکے کو سیدھی راہ پر ڈال دے ، رب عزوجل اس کے دل کو نور سے
معمور فرمائے۔
۴۔
جو آج کے روز کسی فقیر پر صدقہ کرے گویا اس نے تمام فقراء پر صدقہ کیا۔
۵۔ جو آج غصہ کو ضبط کرلے (حالانکہ و ہ غصہ اتار نے پر قدرت رکھتا
ہے اللہ تعالیٰ اسے ان میں لکھ دے گا جو اراضی برضائے الہٰی ہیں۔
۶۔
جو کسی مسکین کی عزت بڑھائے ، مالک و مولیٰ قبر میں اسے کرامت بخشے۔ یہی وہ دن ہے
جس کے متعلق نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(۱) جو شخص آج کے دن اپنے
اہل عیال پر وسعت کرے (ان پر کشادہ دلی سے خرچ کرے) تو اللہ تعالیٰ تمام سال کے
لیے اسے فراخی نصیب فرمائے (بیہقی) حضرت سفیان بن عینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے
ہیں ہم نے پچاس سال اس کا تجربہ کیا اور ہر سال فراخی پائی۔(۲) جو شخص آج کے دن غسل
کرے، مرٗض الموت کے علاوہ اس سال کسی اور مرض میں مبتلا نہ ہو۔ اور جو آج کے روز
سرمہ لگائے اس کی آنکھیں کبھی دکھنے نہ آئیں (یعنی اس کی چشم بصیرت ، دل کی آنکھ
ہمیشہ روشن رہے)۔(۳) جو عاشورا کی شب قیام و ذکر میں، اور اس کا دن
روزے میں گزارے جب مرے گا تو اسے اپنی موت کا پتہ بھی نہ چلے گا۔یعنی موت کی سختی
سے محفوظ رہے گا۔(غنیتہ الطالبین، نزہتہ المجا لس)
سوال
نمبر8:یوم عاشورہ کی فضیلت کیا ہے؟
جواب:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہوئے
پایا۔ ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا : اس دن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت
موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا کیا۔ ہم اس کی تعظیم کرتے
ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہم
موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں، چنانچہ آپ نے اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(مکاشفۃ القلوب، صفحہ ٦٩٨
از امام محمد غزالی علیہ الرحمہ)
سوال
نمبر9:نوافل برائے شبِ عاشورہ کیا کیاہے ؟
٭
جو شخص اس رات میں چار رکعات نماز پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد پچاس ٥٠
مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے تو اللہ عزوجل اس کے پچاس برس گزشتہ اور پچاس سال آئندہ کے
گناہ بخش دیتا ہے۔ اور اس کے لئے ملاءِ اعلیٰ میں ایک محل تیار کرتا ہے۔
٭
اس رات دو ٢ رکعات نفل قبر کی روشنی کے واسطے پڑھے جاتے ہیں جن کی ترکیب یہ ہے کہ
ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے۔ جو آدمی
اس رات میں یہ نماز پڑھے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت تک ا س کی
قبر روشن رکھے گا۔
سوال
نمبر10:عاشورے کے روزے رکھنے کی فضیلت
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اگر مومن اللہ کی راہ میں روئے زمین پر مال خرچ
کرے تو اسے (اس قدر) بزرگی حاصل نہ ہوگی جس قدر کوئی عاشورے کے روز روزہ رکھے۔ اس
کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھل جائیں ، وہ جس دروازے سے داخل ہونا پسند کرے گا داخل
ہوگا۔(لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ /صفحہ ٣٣٦)
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص عاشورے کے دن روزہ رکھے پس شب و روز کی
ساعتوں میں ہر ساعت اللہ تعالیٰ اُن ساعتوں کی ہر ساعت کے بدلے اس پر سات لاکھ
فرشتے نازل فرمائے گا جو قیامت تک دعا اور استغفار کریں گے اور بے شک اللہ تعالیٰ
کی آٹھ جنتیں ہیں، اللہ تعالیٰ ہر بہشت میں ساٹھ لاکھ فرشتے مقرر کرے گا کہ
(عاشورے کے روزے دار کےلئے ) روزہ رکھنے کے دن سے اس بندے اور بندی کی موت تک
محلات اور شہر تعمیر کرے ، درخت اُگائیں، نہریں جاری کریں۔(لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨
/صفحہ ٣٣٦)
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اس کا اجر
توریت، انجیل ، زبور اور قرآن میں جتنے حرف ہیں ان کی تعداد کے مطابق ہر حرف پر
بیس نیکیاں ہونگی۔ جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اسے ایک ہزار شہیدوں کا
ثواب ملے گا۔(لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ / صفحہ ٣٣٦)حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا خاموشی اور سکوت میں وہ
روزہ اس کے اُس سال کے گناہوں اور خطاؤں کا کفارہ ہوگا، اور جو شخص کامل قیام،
رکوع اور سجود کے ساتھ دو رکعت نماز خضوع سے پڑھے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس بندے
کی جزا کیا ہونی چاہیے پس فرشتے عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ تو ہی خوب جانتا ہے
پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کے حساب میں ہزار ہزار نیکیاں لکھی جائیں اور ہزار
ہزار بدی مٹادی جائیں۔ اس کارتبہ ہزار ہزار درجے بلند کیا جائے۔ ہم نے اپنی بزرگی
کے ہزار ہزار دروازے کھول دیے ہیں جو اس پر کبھی بند نہ کیے جائیں گے۔( لطائف اشرفی /
لطیفہ٣٨ /صفحہ ٣٣٦)
سوال نمبر11:ایصالِ ثواب برائے سیدناسرکارامام حسین رضی اللہ
عنہ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے
ایصال ثواب کیلئے دورکعات نماز ادا کرے اور دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے بعد دس بار سورہ
اخلاص پڑھے ۔ سلام کے بعد نو ٩ نو ٩ بار آیت الکرسی اور درود شریف
پڑھے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ اس روز دو
رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ اس کی پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد اَلَمْ نَشْرَحْ اور
دوسری میں اِذَاجَآءَ پچیس بار پڑھے۔(لطائف اشرفی لطیفہ٣٨ /
٣٣٨)
جو
شخص عاشورے کے روز حاجت کے لیے یہ دعا مانگے اس کی حاجت پوری ہوگی بِسْمِ اللّٰہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اِلٰہِیْ بُحُرْمَتِ الْحُسَیْنِ وَ اَخِیْہٖ وَ اُمِّہٖ
وَ اَبِیْہٖ وَجَدِّہٖ وَ بَنِیْہٖ فَرِّجْ عَمَّا ۤاَنَا فِیْہِ وَصَلَّی اللّٰہُ
عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ اَجْمَعِیْنَ اللہ کے نام سے
شروع بڑا مہربان نہایت رحم والا۔ اے اللہ! حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اُن کے
بھائی، اُن کی والدہ، اُن کے والد اور اُن کے نانا کی حرمت کے واسطے سے میں جس
حاجت میں ہوں وہ مجھ پر کھول دے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بہترین خلائق محمد ﷺ پر اور آپ
کی تمام آل پر رحمت فرما۔ (لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ / صفحہ ٣٣٨)
یومِ
عاشورہ کے ممنوعات: عاشورہ کے دن سیاہ کپڑے پہننا، سینہ کوبی کرنا،
کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا، نوحہ کرنا، پیٹنا، چھری چاقو سے بدن زخمی کرنا جیسا کہ
رافضیوں کا طریقہ ہے حرام اور گناہ ہے اِیسے افعال شنیعہ سے اجتناب ِ کلی کرنا
چاہیے۔ ایسے افعال پر سخت ترین وعیدیں آئی ہیں جیساکہ حدیث پاک میں ہے عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے کہ ہمارے طریقے پر وہ نہیں ہے جو رخساروں کو مارے اور گریبان
پھاڑے اور پکارے جاہلیت کا پکارنا۔ (فضائل الایام والشہور ،
صفحہ ٢٦٤۔ بحوالہ مشکوۃ صفحہ ١٥٠)
ایک
سال تک زندگی کا بیمہ (دعائے عاشورہ)
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ جو شخص عاشورہ محرم کے طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک اس دعا کوپڑھ لے یا
کسی سے پڑھوا کر سن لے تو ان شاء اللہ تعالیٰ یقینا سال بھر تک اس کی زندگی کا
بیمہ ہو جائے گا۔
یَا
قَابِلَ تَوْبَۃِ اٰدَمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا فَارِجَ
کَرْبِ ذِی النُّوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا جَامِعَ شَمْلِ یَعْقُوْبَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا سَامِعَ
دَعْوَۃِ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا مُغِیْثَ
اِبْرَاھِیْمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا رَافِعَ
اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَآءِ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا مُجِیْبَ
دَعْوَۃِ صَالِحٍ فِی النَّاقَۃِ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا نَاصِرَ
سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا رَحْمٰنَ
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ رَحِیْمُھُمَا صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ
عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ صَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَ
الْمُرْسَلِیْنَ o وَاقْضِ حَاجَاتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ
اَطِلْ عُمُرَنَا فِیْ طَاعَتِکَ وَ مَحَبَّتِکَ وَ رِضَاکَ وَ اَحْیِنَاحَیٰوۃً
طَیِّبَۃً وَّ تَوَفَّنَا عَلَی الْاِیْمَانِ وَ الْاِسْلَامِ o بِرَحْمَتِکَ یَا
اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ط اَللّٰھُمَّ بِعِزِّ الْحَسَنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ
وَ اَبِیْہٖ وَ جَدِّہٖ وَ بَنِیْہٖ فَرِّجْ عَمَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ o
غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر
سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ النورانی فرماتے ہیں کہ مشرق ومغرب کے تمام اکابر جن سے
ہم نے ملاقات کی ہے ان پر عمل کرتے ہیں تمام مشائخ کے اوراد سے منقول ہے کہ جو شخص
عاشورہ کے روز یہ دعا پڑھے اس کی عمر دراز ہوتی ہے جس سال اس کی موت واقع ہوتی ہے
، اس سال اسے یہ دعا پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ، چنانچہ آپ نے تمام اصحاب و احباب
اولاد و اخفا ء کو روز عاشورہ طلب کرکے یہ دعا پڑھنے کا حکم فرمایا دعا یہ
ہے۔ (لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ /صفحہ ٣٣٥، وظائف اشرفی صفحہ ٦۴)
سُبْحَانَ
اللّٰہِ مِلْءَ الْمِیْزَانِ وَ مُنْتَھَی الْعِلْمِ وَ مَبْلَغَ الرِّضٰی وَ
زِنَۃِ الْعَرْشِ لَا مَلْجَاءَ وَ لَا مَنْجَاءَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا ۤاِلَیْہِ o سُبْحَانَ اللّٰہِ
الْشَفْعِ وَ الْوِتْرِ وَ عَدَدَ کَلِمَاتِ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ o وَ ھُوَ حَسْبُنَا وَ
نِعْمَ الْوَکِیْلُ o نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ
نِعْمَ النَّصِیْرُ o وَ لَا حَوْلَ وَ لَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ o وَ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰیۤ اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَ عَلَی
الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ عَدَدَ
ذَرَّاتِ الْوُجُوْدِ وَ عَدَدَ مَعْلُوْمَاتِ اللّٰہِ وَ الْحَمْد۔
سوال
نمبر12:عشرۂ محرم میں مجالس ذکر شہادت کرنا کیسا ہے؟
جواب
:عشر ۂ محرم یا ماہ محرم میں مجالس منعقد کرنا ااور ان میں واقعات کربلا بیان کرنا
جائز ہے۔ جبکہ روایات صحیحہ بیان کی جائیں۔ ان واقعات میں صبر و تحمل اور رضا ء و
تسلیم کامکمل درس ہے۔ اور پابندی احکام شریعت و اتباع سنت کا زبر دست عملی ثبوت ہے
کہ دین حق کی حمایت میں اس جناب شہزادئہ گلگوں قبا شہید کر بلا رضی اللہ عنہ نے
تمام اعزارو اقرباء ورفقاء اور خود آپ کو راہ خدا میں قربان کیا اور جزع فزع کا
نام بھی نہ آنے دیا۔ مگر ان مجالس میںصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا
بھی ذکر خیر ہونا چاہیے۔ تاکہ اہل سنت و جماعت اور شیعوں کی مجالس میں فرق و
امتیاز ہے۔(بہار شریعت)
سوال
نمبر13:عرفہ و عاشوررا کے بعد اور کون سے روزے رکھے جاتے ہیں؟
جواب
:شش عید یعنی شوال میں چھ دن کے روزے:
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس نے رمضان کے روزے رکھے۔ پھر ان کے بعد چھ
شوال میں رکھے تو ایسا ہے جیسے دہر کا روزہ رکھا (یعنی پورے سال کا) کہ جو ایک
نیکی لائے گا۔ اسے دس ملیں گی۔ تو ماہ رمضان کا روزہ دس مہینے کے برابر ہے اور ان
چھ دنوں کے بدلے میں دو مہینے ۔ تو پورے سال کے روزے ہو گئے۔ (نسائی) اور ایک حدیث میں
ہے جس نے رمضان کے روزے رکھے۔ پھر اس کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو گناہوں سے
ایسے نکل گیا جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ (طبرانی)
سوال
نمبر14:شش عید کے روزے ایک ساتھ رکھے جائیں یا متفرق؟
جواب
: بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق رکھے جائیں اس طرح کہ ہر ہفتہ میں دو (یا جس میں اسے
سہولت ہو) اور عید کے بعد لگا تار چھ دن میں ایک ساتھ رکھ لیے تب بھی حرج نہیں۔ (درمختار وغیرہ)
سوال
نمبر15:شعبان میں نفلی روزے کب رکھے جاتے ہیں؟
جواب
: یوں تو رمضان المبارک کی تعظیم کی خاطر شعبان میں روزوں کا بڑا ثواب ہے۔ لیکن
خاص پندرھویں شعبان کے لیے حدیث شریف میں آیا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات آجائے
تو اس رات کو قیام کرو۔ اور دن میںر وزہ رکھو کہ رب تبارک و تعالیٰ غروب آفتاب سے
آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ
اسے بخش دوں ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں۔ ہے کوئی گرفتار بلاکہ
اسے عافیت دوں۔ ہے کوئی ایسا ہے کوئی ایسا ۔ اور یہ اس تک فرماتا ہے کہ فجرطلوع ہو
جائے۔ (ابن ماجہ) اور دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ اس شب میں اللہ
تعالیٰ سب کو بخش دیتا ہے۔ مگر چند لو گ ہیں کہ محروم کے محروم ہی رہتے ہیں۔ کافر،
عداوت والا، رشتہ کاٹنے والا، کپڑا لٹکانے والا۔ والدین کا نافرمان، شرابی اور
قاتل کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا ۔ (طبرانی ، بیہقی)
سوال
نمبر16:ماہ رجب کی کس تاریخ کو روزہ رکھنا مسنون ہے؟
جواب
: ایک حدیث شریف میں آیا ہے’’ کہ جو ۲۷ رجب کا روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اس کے لیے پانچ
برس کے روزوں کا ثواب لکھے ‘‘ اور یوں تو روزہ رکھنے کے لیے پورا مہینہ ہے جب چاہے
رکھے ثواب ہے۔
سوال نمبر17:کیا ہر مہینے میں تین روزوں کے لیے کوئی حکم ہے؟
جواب
:ہاں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ان میں سے ایک یہ کہ ہر مہینے میں تین روزے
رکھوں (بخاری و مسلم) ایک حدیث شریف میں ہے کہ ہر مہینے میں تین دن کے روزے ایسے
ہیں۔ جیسے دہر (ہمیشہ ) کا روزہ (بخاری) ایک اور حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے اور
ہر مہینے میں تین دن کے روزے ، سینہ کی خرابی کو دور کرتے ہیں ‘‘ (امام احمد)
ایک
اور حدیث شریف میں فرمایا کہ جس سے ہو سکے ہر مہینہ میں تین روزے رکھے کہ ہر روزہ
دس گناہ مٹاتا ہے۔ اور گناہ سے ایسا پاک کر دیتا ہے جیسا پانی کپڑے کو۔ (طبرانی)
سوال نمبر18:مہینے کے یہ تین دن متعین ہیں یا جب چاہے رکھے؟
جواب
:سارے مہینے میں جب چاہے یہ روزے رکھے مگر حدیث شریف میں ہے کہ جب مہینے میں تین
دن روزے رکھنے ہوں تو تیرہ چودہ پندرہ کو رکھو۔ (جنہیں ایام بیض یعنی روشن و منور
دن کہا جاتا ہے)تو ان تین تاریخوں میں تین روزے رکھنا مستحب در مستحب ہے یعنی
دوہرے مستحب کا ثواب ملے گا۔ ایک تین دن کے روزے دوسرے ان تین تاریخوں کے روزے ۔
امید رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان مبارک ایام اور روشن راتوں کے طفیل ہمارے قلوب
کو روشن و منور فرمائے۔ آمین
سوال
نمبر19:ہفتہ کے کن ایام میں بالخصوص روزہ رکھنا مستحب ہے؟
جواب
:پیر اور جمعرات کے روزے ، پسندید روزوں میں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
فرماتے ہیں ’’پیرا اور جمعرات کو اعمال (بارگاہ خداوندی میں ) پیش ہوتے ہیں۔ تو میں
پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حالت میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ ام المومنین
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر
اور جمعرات کو خیال کر کے روزہ رکھتے تھے۔ (ترمذی شریف)
صحیح
مسلم شریف میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن کے روزے کا سبب
دریافت کیا گیا تو فرمایا ’’ اسی میں میں میری ولادت ہوئی اور اسی میں مجھ پر وحی
نازل ہوئی‘‘۔
قربان اے دو شنبہ، تجھ
پر ہزار جمعے
چمکا
دیا
نصیبہ صبح شب ولادت
سوال
نمبر20:بدھ اور جمعرات کے روزوں میں بھی فضیلت ہے یا نہیں؟
جواب
:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو چہار شنبہ اور پنج شنبہ (بدھ، جمعرات)
کو روزے رکھے اس کے لیے دوزخ سے برات لکھ دی گئی ہے۔(ابو الیعلیٰ) اور ایک حدیث شریف میں
ہے کہ جس نے چہار شنبہ پنج شنبہ جمعہ کو روزے رکھے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں
ایک مکان بنائے گا۔ جس کا باہر کا حصہ اندر سے اور اندر کا باہر سے دیکھائی دے گا۔
اور دوسری روایت میں ہے کہ جو ان تین دنوں کے روزے رکھے پھر جمعہ کو تھوڑا یا
زیادہ تصدیق کرے تو جو گناہ کیا ہے ۔ بخش دیا جائے گا اور ایسا ہو جائے گا جیسے اس
دن اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ (طبرانی)
سوال
نمبر21:صرف جمعہ کا روزہ رکھنا کیسا ہے؟
جواب
:خصوصیت کے ساتھ جمعہ کے دن روزہ رکھنا کہ نہ اس سے پہلے رکھے نہ بعد میں یہ مکرؤہ
تنز یہی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ راتوں میں سے جمعہ کی رات
کی قیام کے لیے، اور دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے خاص نہ کرو۔ ہاں کوئی
کسی قسم کا روزہ رکھتا تھا اور جمعہ کا دن روزہ میں واقع ہو گیا۔ تو حرج نہیں۔
(مسلم شریف) اور ابن خزیمہ کی روایت میں ہے کہ جمعہ کا دن عید ہے لہٰذا عید کے دن
کو روزہ کا دن نہ کرو۔ مگر یہ کہ اس سے قبل یا بعد روزہ رکھو۔ حضرت جابر رضی اللہ
عنہ سے خانہ کعبہ کے طواف کے دوران پوچھا گیا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
جمعہ کے روز، روزہ سے منع فرمایا ہے۔ کہا ’’ہاں اس گھر کے رب کی قسم‘‘ (بخاری۔ مسلم )
سوال
نمبر22:نفلی روزہ توڑ دینا کن صورتوں میں جائز ہے؟
جواب
:نفلی روزہ بلا عذر توڑ دینا ناجائز ہے مگر بعض صورتوں میں نفلی روزہ توڑ دینے کی
اجازت ہے۔ مثلاً مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا۔ یہ کسی
کا مہمان ہے اگر کھانا نہ کھائے گا تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑنے کے
لیے یہ عذر ہے بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا۔ اور بشرطیکہ ضحوئہ
کبریٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں۔ ہاں ماں باپ نفلی روزہ رکھنے پر ناراض ہوں (مثلاً
شوق میں روزہ رکھ لیا مگر اس کی برداشت نہیں) تو زوال کے بعد بھی ماں باپ کی ناراضگی
کے سبب توڑ سکتا ہے۔ اور اس میں بھی عصر سے قبل توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں۔
(عالمگیری) اور ماں باپ اگر بیٹے کو روزہ نفل سے منع کر دیں اس وجہ سے کہ مرض کا
اندیشہ ہے تو ماں باپ کی اطاعت لازم ہے۔ (ردالمحتار )
سوال
نمبر23:دعوت کی خاطر روزہ توڑ دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب
:مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرنا سنت ہے۔ اور اس کے لیے ضحوئہ کبریٰ سے قبل روزہ
نفل توڑنے کی اجازت ہے۔ (درمختار)
سوال
نمبر24:شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنے کی بابت کیا حکم ہے؟
جواب
:عورت بغیر شوہر کی اجازت کے نفل اور منت اور قسم کے روزے نہ رکھے۔ اور رکھ لیے تو
شوہر توڑا سکتا ہے۔ مگر توڑے گی تو قضا واجب ہوگی۔ مگر اس کی قضا میں بھی شوہر کی
اجازت درکار ہے۔ہاں اگرشوہر کا کوئی حرج نہ ہو۔ مثلاً وہ سفر میں ہے یا بیمار ہے
یا احرام میں ہے تو ان حالتوںمیں بغیر اجازت کے بھی قضا رکھ سکتی ہے۔بلکہ اگر وہ
منع کرے جب بھی اور ان دنوں میں بھی بے (بغیر) اس کی اجازت کے نفل روزہ نہیں رکھ
سکتی۔ رمضان اور قضائے رمضان کے لیے شوہر کی اجازت کی کچھ ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کی
ممانعت پر بھی رکھے۔ (درمختار۔ردالمحتار)