Mahboob e Ilahi Hazrat Khwaja Syed Nizamuddin Auliya Chishti Alaihirrahmah

 


محبوب الہی حضرت خواجہ سیدنظام الدین اولیاء چشتی علیہ الرحمہ

ہندوستان ہمیشہ سے  صوفی رشی کا مسکن رہا ہے۔ اس سرزمین نے ایسے ایسے صوفیاء کرام اور سنتوں کو جنم دیا ہے، جنہوں نے اپنی تعلیمات، روحانی تربیت اور پیار محبت سے روئے زمین پر بسنے والوں کو حقیقی خدا سے متعارف کروایا ہے۔ ان کے کارنامے اور ان کے اخلاص نے تاریکی و ظلمت میں ڈوبی  انسانیت کو ایک خدا سے متعارف کرایا ہے۔ ان کی شبانہ روز کی ریاضت و عبادت نے گم گشتہ راہ لوگوں کو معبود حقیقی سے رشتہ استوار کرایا ہے۔ ان کی جفا کشی اور عبادات نے پورے پورے علاقے کو انوار و برکات سے مالامال کیا ہے۔ انہیں نامور اور خدا ترس بندوں میں ایک نام سلطان الاولیاء، محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔ آپ ہندوستان کے ان چنیدہ اور منتخب اولیاء کرام میں سے ہیں جنہوں نے زندگی کا ہر لمحہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت میں صرف کیا ہے۔ آپ سلسلہ چشتیہ کے اس کاروان کے امیر ہیں جس کی بنیاد برصغیر میں  سلطان الہند عطائے رسول خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قد س سرہ النورانی نے رکھی تھی۔ جسے حضرت سیدنا  قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے دہلی میں پروان چڑھایا اور  حضرت  سیدنا شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے پاکپتن کے علاقوں کو ان علوم سے متعارف کروایا اور جس کی ترویج و اشاعت اور گوشہائے عالم میں پھیلانے کا سہرا حضرت  شیخ  خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے سر جاتاہے۔

 

پیدائش:

آپ کی پیدائش 9 اکتوبر 1238 کو بدایوں اتر پردیش میں شیخ سید عبداللہ بن احمد الحسینی بخاری کے گھر ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت حسین رضی اللہ علیہ سے ہوکر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ آپ کے جدِ امجد سید علی بخاری، بخارا سے ہجرت کرکے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے بدایوں پہنچے اور پھر یہاں سکونت اختیار کرلی۔ آپ کے نانا خواجہ عرب بھی بخارا سے ہجرت کرکے تشریف لائے تھے۔ آپ کی والدہ بی بی زلیخا نہایت متقی، پرہیزگار، زہد و ورع کی پیکر اور صابر و شاکر پاکباز خاتون تھیں۔


ابتدائی تعلیم:

آپ کی عمر محض پانچ سال کی تھی جب آپ پر یتیمی کا سایہ فگن ہوگیا۔ اس چھوٹی سی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ لیکن آپ کی جفا کش، نیک صفت، صبر و تحمل کی حامل والدہ نے آپ کی تعلیم و تربیت کا بار اٹھایا اور مسلسل ان کے تعلیمی مشاغل کا جائزہ لیتی رہی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مقری بدایونی کے پاس ہوئی۔ بعد ازاں مولانا علاؤالدین اصولی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے ظاہری علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ پڑھنے کا شوق، بچپن سے ہی للہیت اور زہد پیشانی پر نمایاں تھے۔ شوق تحصیل علوم نے کبھی بھی یتیمی اور دیگر دنیاوی عوارض کو خاطر میں نہیں آنے دیا۔ دہلی میں رہتے ہوئے آپ نے حضرت خواجہ شمس الدین خوارزمی سے شرعی علوم و معارف کے منازل طے کئے۔ بیس سال کی عمر میں آپ ماہر شریعت اور شرعی علوم و معارف کے ان نایاب ہستیوں میں شمار کئے جانے لگے تھے جن کے علوم پر عوام کے علاوہ خواص کا مکمل اعتماد قائم ہوگیا تھا۔

 

بیعت و سلوک:

عظیم ترین ماں کی تربیت نے بچپن سے ہی ایسا مزاج پیدا کردیا تھا جس کی بنا پر زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل و مناقب سے روشناس ہونے کے بعد شرف زیارت کو دل مچلنے لگا تھا۔ لیکن تحصیل علوم کی مشغولیت اس شوق کے درمیان حائل تھی۔ علوم قرآنیہ سے فراغت کے بعد سیدھا اجودھن (پاکپتن)روانہ ہوئے۔ دل میں سلگ رہی شمع معرفت کو ایک نگاہ یار کی ضرورت تھی۔ جب آپ آستانہ شیخ پر پہنچے، تو شیخ نے آپ کو دیکھ کر فرمایا......

اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ

سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ

ترجمہ : تیری فرقت اور جدائی کی آگ نے کئی دلوں کو جلا دیا ہے، اور تیرے شوق کی آگ نے کئی جانوں کو خراب کردیا ہے۔

حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر کا والہانہ تعلق اس شعر سے بخوبی ہوتا ہے۔ آپ کو اپنے مرید اور شاگرد پر اس درجہ اعتماد تھا کہ آپ نے محض چند ملاقاتوں کے بعد ہی انہیں خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا اور اپنا عمامہ اپنے دست مبارک سے حضرت نظام الدین اولیاء کے سر مبارک پر باندھا۔ نیز اپنی کھڑاؤں جو آپ کے زیر استعمال تھی وہ بھی بطور تبرک عطا پیش کردیا۔

 

دہلی میں قیام:

علوم و فنون کے منازل طے کرنے کے بعد جب آپ نے تصوف و سلوک کی وادی میں قدم رکھا، اور وقت کے شیخ کامل شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ سے خلعت خلافت کا شرف نصیب ہوا تو آپ نے خلق خدا کی جانب توجہ فرمائی، ان کی بجھی ہوئی اور تاریک زندگی میں شمع معرفت کو روشن کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ دہلی کے مختلف علاقوں میں قیام کرتے ہوئے آپ نے غیاث پور میں اپنی خانقاہ کی بناء ڈالی، تاکہ شہر کے شور شرابوں سے دور یاد الٰہی میں مصروف رہا جائے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا آپ کی مقبولیت روز افزوں بڑھتی گئی۔ عوام کا سیلاب آپ کے آستانہ پر شرف زیارت کیلئے دن و رات لگا رہتا۔ آپ نے غریبوں اور مسکینوں کے کھانے کا بندوبست کیا، ہر دن بلا ناغہ ہزاروں ضرورت مند اپنی بھوک پیاس بجھانے کیلئے تشریف لاتے اور یہاں سے مستفید ہوکر لوٹ جاتے۔ لیکن خود آپ کا حال یہ تھا کہ، جب خادم آپ کو رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں سحری کیلئے کھانا پیش کرتا تو آپ یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیتے معلوم نہیں کتنے فقراء و مساکین ابھی بھوک پیاس کی شدت جھیل رہے ہوں گے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خلق خدا بھوکی رہے اور ہم شکم سیر ہوکر کھانا تناول فرمائیں۔

آپ نے دہلی میں قیام کرتے ہوئے کئی بادشاہوں کے ادوار دیکھے لیکن آپ کی شان بے نیازی کہ کبھی بھی آپ کسی کے دربار میں حاضری نہیں دی ہے۔ یہ آپ کا وطیرہ تھا کہ آپ شاہوں سے دوری اختیار کئے رہتے لیکن اللہ والوں کی شان نرالی ہوتی ہے۔ اس درویش کے در پر امراء و سلاطین کا ہجوم لگا رہتا۔ تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ دہلی کے تخت پر براجمان قطب الدین ایبک درویش کے لبادہ میں لپٹ کر آستانہ پر حاضری دی ہے، اور اپنی دینی و روحانی ضرورت کیلئے فریاد کی ہے۔

آپ کے متوسلین و منتسبین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ علاوہ ازیں آپ اپنے خلفاء کی مختلف جماعتوں کو مختلف علاقوں میں بغرض تبلیغ روانہ فرماتے۔ برصغیر کے گوشہ گوشہ میں آپ نے باعتبار ضرورت اپنے خلفاء کو داعی بنا کر روانہ کیا ہے۔ آپ کے مشہور ترین خلفاء میں شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی، امیر خسرو اور شیخ برہان الدین غریب، حضرت خواجہ اخی  سراج الدین آئینہ ہند   سعداللہ پورپنڈوہ شریف )وغیرہ ہیں۔ آپ کا امیر خسرو سے والہانہ تعلق ایک ازلی داستان ہے۔ خود کو خدا کی راہ میں لٹانے والوں کو خدا کس طرح آباد کرتاہے۔

آپ زاہد خشک نہیں تھے بلکہ قرآن و حدیث کے جید عالم دین تھے۔ آپ نے تصوف و سلوک میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ سرزمین ہند پر خدا کا عظیم الشان احسان ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے کتابوں کی تصنیف بھی فرمائی ہیں جن میں سیر الاولیاء ، فوائد الفواد، فصل الفواد، راحت المحبین ہیں۔

آپ کے قیمتی اقوال کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ آپ کے در اقدس پر جس طرح آپ کی حیات مبارکہ میں ہر مذہب کے لوگ قدم بوسی کیلئے حاضری دیا کرتے تھے، آج بھی آپ کی آرامگاہ مرجع خلائق ہے۔ دہلی کا پورا علاقہ آپ سے منسوب ہے۔ ہمہ وقت معتقدین گوشہائے عالم سے فاتحہ خوانی کو جوق در جوق تشریف لاتے ہیں۔

 

وفات:

آپ وفات سے قبل تقریباً چالیس دنوں تک نیم بیہوشی کے عالم میں رہے ۔ جب ہوش آتا سب سے پہلے نماز اور وقت نماز کے متعلق سوال فرماتے۔ بسا اوقات ذہنی ذہول کی وجہ سے نماز میں تکرار ہوجاتا۔ لیکن شرعی فرائض کی انجام دہی میں کبھی کوتاہی تو درکنار اس کا شائبہ بھی ذہن سے نہیں گزرا تھا۔ آپ کی وفات بروز بدھ 4 مارچ، 1324 بمطابق 18 ربیع الثانی 725ہجری کو بوقت طلوع آفتاب ہوئی ہے۔ آپ کی تاریخ وفات مسجد کی دیوار پر کندہ ہے۔