آپ کانام محمد تاج الدین تھا اور پیار سے چراغ دین
کہلاتے تھے۔ عرف عام میں تاج الدین بابا کہلائے۔ آپ کے القاب یہ ہیں۔
· تاج الاولیاء
· تاج الملّت والدّین
· تاج العارفین
· تاج الملوک
· سراج السّالکین
· شہنشاہ ہفت اقلیم
شہنشاہ ہفت اقلیم
باباصاحب کا ایسا لقب ہے جو تشریح وتوضیح طلب ہے۔ اس کی مختصر تشریح یوں ہے کہ
تمام عالم کو االلہ تعالیٰ کے نظامِ تکوین میں سات حصوں میں تقسیم کیا گیاہے جو
سات (ہفت) اقلیم کہلاتے ہیں۔ چنانچہ باعثِ تکوینِ کائنات حضورِ اکرم صلی االلہ
علیہ وسلم کا وہ نائب جس کے انتظام واختیار میں ساتوں اقلیم ہوتے ہیں، شہنشاہِ ہفت
اقلیم کہلاتاہے۔
سلسلہ نسب: آپ کا شجرہ
نسب پچیس واسطوں سے حضرت امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ اور بتیس واسطوں سے حضرت
امام حسین رضی اللہ عنہ سے جا کر ملتا ہے۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: سید تاج الدین بن
سید بدرالدین بن سید حیدر شاہ بن سید علی شاہ بن سید عبدالقادر شاہ بن سید محی
الدین سیاہ شاہ بن سید جمال احمد شاہ بن سید نصیرالدین بن سید کمال الدین بن سید
عماد الدین بن سید علاؤ الدین بن سید بہاؤالدین بن سید عبداللہ بن سید جلال الدین
بخاری بن سید کمال الدین بن سید حسین لقب بہ محبوب بن سید حسین اکبر بن سید
عبداللہ شاہ بن سید فخرالدین بن سید محمود رومی بن سید عبداللہ بن سید محمد جامع
شاہ بن سید علی اکبر شاہ بن سید امام حسن عسکری بن سید امام علی تقی بن سید امام
موسیٰ رضا بن سید امام موسیٰ کاظم بن سید امام جعفر صادق بن سید امام محمد باقر بن
سید امام زین العابدین بن سید امام حسین بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم (رضی
اللہ علیہم اجمعین)
ولادت باسعادت: 15 رجب المرجب 1277ھ بمطابق 27 جنوری 1861ء کو بھارت کے
صوبہ مہاراشٹر کے شہر ناگپور سے 15 کلو میٹر دور كامٹی گاؤں، محلہ گورا بازار میں
ہوئی۔ آپ پیدائش کے وقت سے ہی غیر معمولی تھے، وہ عام بچوں کی طرح روتے نہیں تھے
۔آپ کے آبا ؤ اجداد عرب سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ خاندانی پیشہ سپہ گری
تھا چنانچہ آپ علیہ الرحمہ کے خاندان کے بیشتر بزرگ فوج میں شامل ہوئے۔ آپ کے
والد محترم سید بدرالدین علیہ الرحمہ آپ کی ولادت کے ایک سال بعد رحلت فرماگئے۔
جبکہ والدہ محترمہ حضرت سیدہ بی اماں مریم رحمۃ اللّٰه علیہا صاحبہ بھی آٹھ سال
بعد خالق حقیقی سے جا ملیں۔
پرورش: آپ کے نانا
حضرت شیخ میراں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں صوبیدار میجر تھے ، ماموں
عبدالرحمٰن اور آپ کی نانی نے کی۔
تعلیم وتربیت : حضرت تاجِ الاولیا علیہ الرحمہ نے ابتدا ئی تعلیم
کا مٹی کے ایک مدرسے میں حاصل کی۔ آپ ایک روز مکتب میں موجود تھے کہ کا مٹی میں
سلسلہ قادریہ کے مشہور مجذوب بزرگ حضرت عبد اللہ شاہ قادری کا مٹی علیہ الرحمہ
مکتب میں تشریف لائے اور بابا صاحب علیہ الرحمہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے معلم سے
فرمایا کہ ‘‘ا س کو کیا پڑھا رہے ہو ۔ یہ تو پڑھا پڑھایا آیا ہے ’’اتنا کہہ کر
عبداللہ شاہ نے اپنی جھولی سے خرما نکال کر نصف خود کھایا اور بچا ہوا تاج الدین
علیہ الرحمہ کے منہ میں رکھ کر کہا :‘‘کم کھاؤ، کم سو اور کم بولو اور قرآن شریف
پڑھو’’۔کہتے ہیں کہ خرما کھاتے ہی تاج الدین علیہ الرحمہ میں تبدیلی آگئی، اور ان
کی اندر کی دنیا ہی بدل گئی، دنیاوی چیزوں میں ان کی دلچسپی بہت کم ہو گئی۔
سیرت و صورت و خصائص: تاج الاولیاء، شہنشاہ ہفت
اقلیم، تاج الملت و الدین، زینت الصلحا، امام العرفاء و الاتقیاء، برہان الاصفیاء،
منبع فیض و جود و سخا، آفتاب علم و حکمت، پروردۂ نگاہ لطف حبیبِ مکرم، حضرت سید
بابا تاج الدین الحسنی و الحسینی ناگپوری چشتی قادری نظامی صابری رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کو خداوند کریم نے حسین و جمیل پیدا فرمایا۔ آپ کا رنگ گندمی قدرے سیاہی
مائل اور قد مبارک درمیانہ، نقشہ رخ باندا کھڑا،گردن صراحی دار، پیشانی فراخ، حالت
جلال و جمال میں یکساں، طبیعت میں خوش مزاج، بات چیت میں نہایت سادگی کے ساتھ دل
خوش کرنے والے الفاظ، آنکھوں میں ایسا نور تھا کہ آپ کے چہرہ مبارک کو کوئی غور سے
نہیں دیکھ سکتا تھا، دست مبارک کافی دراز تھے، آپ سبک خرام تیز رو تھے، آنکھیں بند
کئے مراقبے اور استغراق میں چلے جاتے، آپ کی رفتار سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ
کے پیر مبارک زمین پر نہیں بلکہ آپ ہوا میں معلق چل رہے ہیں۔ آپ کے جسم مبارک کا
یہ عالم تھا کہ ہزاروں کے اجتماع میں قد آور لوگوں کے درمیان بھی دور سے نظر آ
جاتے تھے یعنی ان میں سب سے بلند نظر آتے تھے جو آپ کی سرداری کی علامت تھی۔
بیعت و خلافت: دو ہستیاں ایسی ہیں
جن سے قربت اور نسبت کا ذکر ملتا ہے۔
ایک سلسلہ قادریہ کے حضرت عبداللہ شاہ قادری، دوسرے سلسلۂ چشتیہ کے بابا داؤد مکی
۔
کتاب
"انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام" کے مصنف نے لکھا ہے کہ آپ مختلف سلاسل
طریقت میں مختلف بزرگوں کے دست مبارک پر بیعت سے مشرف ہوئے اور ان سے خرقہ ہائے
خلافت بھی حاصل کئے بعض بزرگوں سے آپ کو اویسی نسبت بھی حاصل ہے۔
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ نوشاہیہ میں حضرت سید عبداللہ قادری نوشاہی علیہ الرحمہ کے
دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے اور قادریہ نوشاہیہ سلسلہ میں خرقہ خلافت پا کر
سرفراز ہوئے۔ آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں حضرت شیخ داؤد حسینی چشتی نظامی
علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور خرقہ خلافت پا کر سرفراز ہوئے۔
آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ
صابریہ میں حضرت شیخ داؤد مکی چشتی صابری علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت سے
سرفراز ہوئے اور انہی سے طریقہ اویسیہ پر خرقہ خلافت پاکر سرفراز ہوئے۔
حضرت عبداللہ شاہ قادری کا مزار کامٹی اسٹیشن کے پاس ہے۔ نوجوانی کے زمانے میں بابا
تاج الدین حضرت عبداللہ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو تے تھے۔ حضرت عبداللہ شاہ کے
سجادہ نشین کی روایت کے مطابق جب حضرت عبداللہ شاہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو تاج
الدین ان کے پاس آئے۔ اس وقت شربت بنا کر شاہ صاحب کو پیش کیا گیا۔ انہوں نے چند
گھونٹ پی کر باقی تاج الدین کو پلا دیا۔ روایت ہے کہ سید تاج الدین نے پندرہ سال
کی عمر میں قرآن پڑھ لیا تھا اور اس کے بعد دیگر علوم کی تحصیل کی۔جب تاج الدین
18 سال کے تھے (سن 1879تا 1880) تب كامٹی میں بہنے والے كنہان دریا میں سیلاب آ
گیا۔ سیلاب سے ان کے مکان کو بھی کو کافی نقصان پہنچا۔ سن 1881 میں ان کے ماموں
عبدالرحمٰن نے انہیں ناگپور کی ریجمنٹ نمبر 13 میں بھرتی کروادیا۔ فوج میں تین سال
ملازمت کے بعد انہیں ساگر (مدھیہ پردیش)جانا پڑا۔
ساگر مدراسی پلٹن کے خیمہ
(ملٹری کیمپ ) میں پہنچنے کے بعد دورانِ ملازمت وہیں ایک علاقے پیلی کوٹھی میں
سلسلہ چشتیہ کے بزرگ حضرت داؤد مکی علیہ الرحمہ کے مزار پر تشریف لے جاتے۔
حضرت دا ؤد مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ ، خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی علیہ الرحمہ کے
خلیفہ تھے اور خواجہ شمس الدین ترک علیہ الرحمہ کو مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر
کلیری علیہ الرحمہ سے خلافت ملی تھی۔ حضرت داؤد مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ
اپنے مر شد کے حکم پر سا گر آئے اور یہیں وصال فر ما یا۔
جب تاج الدین علیہ الرحمہ
فوجی ملازمت کے سلسلے میں ساگر گئے تو آپ نے بابا داؤد مکی کے مزار پر تقریباً دو
سال ریاضت و مر اقبے میں گزارے۔ روایت کے مطابق یہیں تاج الدین کو چشتیہ نسبت
اویسیہ طریقے پرمنتقل ہوئی۔
اب بابا تاج الدین کا روز
کا معمول تھا کہ دن میں کام کے بعد پوری رات حضرت سیدنا داؤد مکی ساگری علیہ
الرحمہ کے مزارا قدس پر گزارتے اور یاد الہٰی میں محو رہتے۔کامٹی میں جب نانی کو
اس بات کی خبر ہوئی کہ نواسہ راتوں کو غائب رہتا ہے تو خیال آیا کہ کہیں کسی بری
صحبت میں نہ پڑ گیا ہو۔ یہ سوچ کر نانی صاحبہ ساگر جاپہنچیں تاکہ یہ معلوم کریں کہ
نواسہ راتوں کو کہاں رہتا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ تاج الدین خدا کی بندگی میں
راتیں گزارتا ہے تو نانی کے دل کا بوجھ اتر گیا اور وہ نواسے کو دعائیں دیتی ہوئی
واپس چلی گئیں ۔لیکن رفتہ رفتہ تاج الدین کا وقت حضرت داؤد مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ
کی درگاہ پر زیادہ اور ڈیوٹی پر کم رہنے لگے ۔ ایک روز فوج کے کیپٹن کے علم میں یہ
بات لائی گئی کہ تاج الدین ڈیوٹی کے اوقات میں پیلی کوٹھی کی درگاہ پر دیکھے گئے
ہیں۔ اس کیپٹن نے تاج الدین کو تنبیہہ کی اور کہا کہ پورے وقت ڈیوٹی پر حاضر رہا
کریں ، میں نوٹ کروں گا!
تاج الدین کو ملٹری کیمپ
میں اسلحہ خانے پر پہرہ دینے کا کام سونپا گیا ، ایک رات دو بجے کے قریب فوج کا
کیپٹن اچانک معائنے کے لیے آگیا۔ اس نے دیکھا کہ تاج الدین مستعدی سے ڈیوٹی دے
رہے ہیں۔ کیپٹن انہیں دیکھ کر مطمئن روانہ ہوگیا۔آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ایک
چھوٹی سی مسجد کے پاس سے گزرا ۔ مسجد کا صحن چاندنی رات میں صاف نظر آرہا
تھا۔کیپٹن نے دیکھا کہ وہ جس سپاہی کو پہرہ دیتے دیکھ کر آیا ہے۔ وہ خشوع و خضوع
کے ساتھ مسجد کے صحن میں نماز ادا کررہا ہے۔ سپاہی کو ڈیوٹی سے غفلت برتتے دیکھ کر
اسے سخت غصہ آیا اور وہ واپس اسلحہ خانے آیا۔ اس کے قدموں کی چاپ سن کر سپاہی
پکارا ‘‘ہالٹ’’۔ انگریز کیپٹن سپاہی کو اپنی جگہ دیکھ کر سخت حیران ہوا اور کچھ
کہے بغیر مسجد کا رخ کیا اور وہاں جاکر وہ حیران و ششدر رہ گیا کہ تاج الدین علیہ
الرحمہ اسی طرح محویت کے عالم میں مصروف عبادت تھے۔ وہ ایک بار پھر اسلحہ خانے
تصدیق کے لئے گیا اور وہاں ڈیوٹی دیتے دیکھ کر اس نے قریب آکر غور سے دیکھا کہ یہ
وہی شخص ہے یا کوئی اور؟
اس نے تاج الدین علیہ
الرحمہ سے بات چیت کرکے اپنی پوری تسلی کرلی کہ ہاں یہ وہی شخص ہے۔دوسرے دن ایک
افسر کے سامنے تاج الدین کی پیشی ہوئی۔ کیپٹن نے رات کے واقعے کی چشم دیدگواہی دی۔
تاج الدین علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ تم ڈیوٹی چھوڑ کر عبادت کررہے تھے یا بیک
وقت ڈیوٹی بھی ادا کررہے تھے اور عبادت بھی۔ اگر آخری بات سچ ہے تو صاف صاف بتاؤ
تم ایک وقت میں دو کام کس طرح انجام دیتے ہو؟
تم جادوگر تو نہیں
ہو؟
یہ سننا تھا کہ باباتاج
الدین کو جلال آ گیا۔ انہوں نے پیٹی، بندوق ، وردی سمیت تمام سرکاری سامان لاکر
انہوں نے افسر کی میز پر رکھ دیا ’’لوجی حضّت! اب ہم دو دو نوکریاں نہیں کرتے جی
حضّت‘‘۔
یہ کہہ کر تاج الدین فوراً کمرے سے نکل گئے۔ناگ پور اور جبل پور شہروں کو ملانے
والی شاہراہ کامٹی اور رام ٹیک سے ہوکر گزرتی ہے۔ یہاں سے بہت بڑا پہاڑی سلسلہ
شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے گھنے جنگلوں میں قدم قدم پر خونخوار درندے گھومتے ہیں اور
دنیا کے زہریلے ترین سانپ پائے جاتے ہیں۔
ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بابا تاج الدین علیہ الرحمہ نے زیادہ تر وقت ناگپور سے
متصل واکی کے گھنے جنگلوں میں گزارا ، جہاں قدم قدم پر خونخوار شیر اور جنگلی
درندے رہتے تھے اس جنگل کے اژدہے بھی شہرت رکھتے ہیں۔وہاں تاج الدین بابا علیہ
الرحمہ نے کئی برس تک بلا خوف و خطر ریاضت کی۔ کبھی کبھار ریاضت کے بعد آپ ستپڑا
پہاڑ کی بلندیوں اور گھنے جنگلوں سے اُتر کر بستیوں میں آجاتے۔ جذب وکیف کا یہ
عالم تھا کہ انہیں کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کا احساس بھی نہ رہتا۔ ادھر تاج
الدین کے استعفیٰ کی خبر فوج کے ذریعے ان کے گھر بھیجی گئی۔ نانی نے پھر ایک مرتبہ
ساگر آکر دیکھا تو تاج الدین گلی کوچوں کی خاک چھانتے نظر آئے۔ نانی کو لگا کہ وہ
پاگل ہو گئے ہیں اور وہ انہیں اپنے ساتھ كامٹی لے آئیں۔ كامٹی میں ڈاکٹروں، حکیموں
کو دکھایا گیا لیکن کوئی بھی آپ کی حالت سمجھ نہ سکا۔
بابا تاج الدین شہر میں
واپس آکر خوش نہیں تھے۔ انہیں جب بھی موقع ملتا پھر اپنے جنگل میں جانکلتے ۔ عام
لوگوں نے انہیں پاگل سمجھ لیا ، بستی کے آوارہ لڑکے انہیں چھیڑتے اور تنگ کرتے۔
کوئی آوازیں کستا تو کوئی پتھر مارتا۔ دوسری طرف بہت سے لوگ عقیدت سے ان کے ہاتھ
چومتے لیکن تاج الدین باباؒ فنا کی ان منزلوں پر تھے جہاں پتھروں کی مار اور
پھولوں کی بارش میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا ہے۔ بستی میں آپ کادل نہیں لگتا تو
آپ جنگلات میں نکل جاتے اور کبھی واپس کامٹی پہنچ جاتے۔
کچھ عرصے بعد آپ کی کرامات کا چرچا ہوا تو لوگ دور دور سے آپ کے پاس اپنا درد لے
کر آنے لگے۔ بابا صاحب کی دعاؤں سے لوگوں کے کام ہونے لگے تو سائلین اور
عقیدتمندوں کا ہجوم رہنے لگا ایسے میں کچھ لوگوں نے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی سوچی
تو بابا صاحب نے اعلان کر دیا کہ" اب ہم پاگل جھونپڑی جائیں"۔
حالات کچھ ایسے بنے کہ 26
اگست، 1892 کو كامٹھی کے كینٹونمنٹ اور ضلع مجسٹریٹ نے انہیں پاگل خانے بھیج
دیا۔پاگل خانہ کا سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر ما روتی راؤ تھا۔ اس کی پانچ لڑکیاں تھیں، لڑکا
کوئی نہیں تھا،اولاد نرینہ کی اسے بہت تمنا تھی۔ ڈاکٹر نے بابا صاحب کی پاگل خانے
میں موجودگی کا اپنی بیوی سے ذکر کیا ،اُس کی بیوی کے دل میں خیال آیا کہ میں چل
کر حضور بابا صاحب سے عرض کروں۔ اُس نے ایک دن اپنے خاوند سے کہا کہ مجھے بابا
صاحب کے پاس لے چلو۔ اس کا خاوند چونکہ مذہباً مرہٹہ برہمن تھا،اس لیے اپنی بیوی
سے یہ الفاظ سُن کر پہلے تو کچھ ہچکچایا ۔ بعد میں اس نے یہ چاہا کہ کسی طرح بابا
صاحب کو اپنے گھر پر بلالے ۔لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔ آخر ایک دن اُس
کی بیوی اپنی پانچوں لڑکیوں کے ساتھ بابا صاحب کی خدمت میں پہنچ گئی اور عرض کیا
کہ:بابا صاحب علیہ الرحمہ میرے کوئی لڑکا نہیں ہے ۔ میرے لیے دعا کریں۔بابا صاحب
علیہ الرحمہ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ ‘‘ڈاکٹروں کی دوائیاں تو بہت کھاتے
جی ، پن لڑکا نہیں ہوتا۔ ’’یہ سُن کر وہ بیچاری رونے لگی اور پھر عرض کیا کہ بابا
صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، لوگوں کی مرادیں پوری ہورہی ہیں، میرے لیے بھی مہربانی
فرمائی جائے ۔ آپ نے یہ سُن کر پوچھا :"لڑکیاں کتنی جی ؟"
تو اس نے جواب دیا
کہ لڑکیاں تو پانچ ہیں…۔
بابا صاحب نے
فرمایا ۔" اگر لڑکیاں پانچ ہیں تو لڑکے بھی پانچ ہوجاتے جی"…۔!
یہ خوشخبری سن کر ڈاکٹر
کی بیوی واپس گھر آگئی۔ خدا کی شان کہ ایک سال بعد اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ڈاکٹر
ماروتی راؤ کی بیوی نے غسل کے بعد لڑکے کو حضور بابا صاحب علیہ الرحمہ کے قدموں
میں رکھ دیا۔ بابا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک نظر دیکھا اور تبسم کے ساتھ
فرمایاکہ ‘‘ابھی تو چار اور آتے جی ! لے جانا ، یہ خوش رہے گا ۔’’
پاگل خانے میں بند کئے
جانے کے بعد بھی اکثر بابا تاج الدین شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتے نظر آئے
اور ان سے کئی کرامات کا ظہور ہوا۔اسی دوران ناگپور کے مرہٹہ راجہ مہاراجہ گھوراؤ
جی بھونسلے پٹیل کے بیٹے ونائیک راؤ کی بیوی زچگی کے مرحلے میں نازک صورتحال سے
دوچار تھیں ۔ بڑے بڑے ڈاکٹر، وید، حکیم موجود تھے ۔ مگر کسی قسم کا کوئی افاقہ
نہیں ہو رہا تھا ۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ حاملہ کے رحم میں بچہ مرچکا تھا اب زچہ
کی جان بچانے کے لیے آپریشن کی ضرورت ہوگی۔ جسم میں زہر پھیل گیا تو پھر اس کے
زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں ۔مہاراجہ ڈاکٹروں کو آپریشن کی اجازت نہیں دے رہا
تھا اور ادھر بہو کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی ۔ اسی دوران مہاراجہ کے ایک ڈرائیور نے
جو بابا صاحب ؒ کا بے حد معتقد تھا۔ مہاراجہ سے کہا کہ‘‘میں ایک مسلمان ولی کو جانتا
ہوں۔ آپ ان کے پاس چلیے اور دعاکی درخواست کیجئے ۔ شاید کوئی سبب بن جائے ۔
’’مہاراجہ نے ڈرائیور کی
بات سنتے ہی کہا کہ"ہاں چلو جلد سے جلد ہمیں ان کے پاس لے چلو"۔ اور اسی
طرح ننگے پیر گاڑی میں بیٹھ گیا، راجہ صاحب کی موٹر پاگل خانے کے صدر دروازے پر
جاکر رُکی تو لوگ راجا صاحب کے استقبال کو دوڑے لیکن وہ سب کو نظر انداز کرتے ہوئے
تیزی سے اندر داخل ہوگئے۔ اندر پہنچتے ہی انہوں نے بابا صاحب کے قدموں میں خود کو
گرالیا۔ ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا اور صدمے کی وجہ سے ان کی زبان گنگ
تھی۔ بابا نے سر اُٹھا کر انہیں دیکھا اور بولے‘‘ادھر کیا کرتے جی حضت! ادھر جانا،
لڑکا پیدا ہوا ہے تو خوشیاں منانا…۔!
’’ڈرائیور نے یہ سنتے ہی
کہا کہ مہاراجہ جلد واپس چلیے کام ہوگیا۔مہاراجہ جب محل میں پہنچا تو خادموں نے
دروازے پر ہی مہاراجہ کو مبارک باد دی اور خوشخبری سنائی کہ آپ کی بہو کو بیٹا
ہواہے اور زچہ و بچہ دونوں خیریت سے ہیں۔مہاراجہ کا اعتقاد بابا صاحب پر اس قدر
پختہ ہو اکہ اس نے اسی وقت چیف کمشنر ناگپور بینجمن رابرٹس کے پاس نقد زرضمانت جمع
کرا ئی اور بابا صاحب ؒ سے عرض کہ آپ میرے ساتھ چلیے۔آپ علیہ الرحمہ نے اس کی
درخواست قبول کر لی۔
21 ستمبر، 1908ء کو
ناگپور کے مہاراجہ راگھوجی راؤ بھوسلے بابا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بڑی دھوم
دھام سے ہاتھی پر سوار کرا کے شكردرہ میں اپنے شاہی محل لے آیا ۔ جہاں تمام اہل
خانہ نے بابا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا استقبال کیا ۔
مہاراجہ نے محل کا ایک حصے
میں بنی ‘‘لال كوٹھی’’ آپ کے لیے مخصوص کردی ۔ راجہ خود صبح شام ان کو حاضری دیتے
تھے ۔لال کوٹھی میں بھی ہروقت عام لوگوں کا ہجوم لگا رہتا اور مہاراجہ کی جانب سے
ان عقیدتمندوں کے لیے دونوں وقت چائے اور کھانے کا اہتمام ہوتا ۔ آج بھی یہ محل
عوام کے لیے وقف ہے اور زائرین زیارت کے لیے دور دور سےآتے ہیں۔
ایک مرتبہ بیگم راجہ آف
بھوپال آپ علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ اپنے ساتھ انواع اقسام کے
کھانے لائیں اور بابا صاحب سے عرض کیا ‘‘اس میں سے کچھ تناول فرمائیں ’’۔
بابا صاحب نے چند لقمے لیے اس دوران بیگم صاحبہ نے دل میں سوچا کہ اتنے اچھے کھانے
یہاں کون پکا کر باباصاحب ؒ کو کھلاتا ہوگا۔ آپ نے فوراً ہی فرمایا
‘‘یہ کھانا ہمارے کام کا
نہیں۔ ہمیں ایسا کھانا کون کھلا سکتا ہے’’ اور یہ کہہ کر زمین سے پتھر اٹھا کر
ویسے ہی کھانے لگےجیسے کھانا تناول فرما رہے ہوں۔ بیگم صاحبہ بہت ہی شرمندہ ہوئیں۔
چیف کمشنر بینجمن رابرٹس
کی بھتیجی بہت شدید بیمار تھی۔ لندن میں ہر طرح کا علاج کروایا لیکن اس کے سر میں
شدید قسم کا درد ہوتا تھا ۔ اسے کسی طرح بھی آرام نہ آرہا تھا ۔ بابا تاج الدین
رحمہ اللہ کا شہر ہ سن کر وہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ رگھو راؤ نے ڈرتے
ڈرتے بابا صاحب سے سوال کیا ۔ ‘‘چیف کمشنر رابرٹس آئے ہیں ۔ اگر اجازت ہو تو بلا
لاؤں ؟’’
‘‘بلالے بلالے ، بے چارہ
پریشان ہے، تاج الدین کسی کو نکو روکتاجی ۔ ’’
راجہ کے ہمراہ سر بینجمن
ننگے پاؤں حجرے میں داخل ہوا…
بابا جی نے بڑے اطمینان
سے کہا…۔‘‘تو کائے کو اتنا خرچہ کیا ؟ بچی کو ناحق تکلیف دیا۔ بٹیا کو مٹی سنگھاتے
،اچھے ہو جاتے ۔ ’’
کوئی نہ سمجھ سکا بابا
صاحب کیا کہہ رہے ہیں ۔ باباصاحب خواتین کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ دورازے کی
جانب سر بینجمن کی میم اور جواں سال بھتیجی رگھوجی راؤ کی بیوی کے ہمراہ کھڑی
تھیں۔ بابا نے ان کو دیکھا فوراً کھڑے ہوگئے …۔‘‘آجاؤ رے’’…۔
رانی لڑکی کا ہاتھ پکڑے
آگے بڑھی جس کے سر پرپٹی بندھی تھی۔
‘‘بابا ! اس کے سر میں
درد رہتا ہے۔ لندن میں کسی بھی علاج سے فائدہ نہیں ہوا ہے۔ سر بینجمن نے اسے آپ
سے دم کرانے کے لیے وہاں سے بلوایا ہے’’…۔وہ ایک ہی سانس میں پوری بات کہہ گئی ۔
‘‘یہ تو پگلا ہے جی بچی کو تکلیف دیا۔ تاج الدین علیہ الرحمہ کو بولنا تھا…۔’’ پھر
بڑی شفقت سے لڑکی کو اپنے قریب بٹھایا اور بولے‘‘پریشان نکو ہوتے …۔بیٹی۔ مٹی
سونگھ لیتے۔ اچھے ہوجاتے۔ پٹی کھول دیتے…۔’
’ شفقت اور مٹھاس ان کے
لہجے سے پھوٹی پڑتی تھی ۔ لڑکی کچھ بھی نہ سمجھی۔ وہ اردو سے ناآشنا تھی۔ وہ حیرت
بھری نگاہوں سے بابا کو دیکھ رہی تھی۔
‘‘ کونسی مٹی۔ رگھوجی نے
پوچھا …۔’’
بینجمن رابرٹس کی طرف
اشارہ کرکے فرمایا‘‘یہ لائے گاجی ۔ بچی کو سونگھا دے۔ جی اچھے ہوجاتے’’۔
سر بینجمن رابرٹس بابا کی خدمت میں پہلے بھی حاضری دے چکاتھا۔ بات سمجھ گیا فوراً
تھوڑی سی مٹی ا ٹھا لایا اور بچی کو اُسے سونگھ لینے کی ہدایت کی۔ مٹی کو سونگھتے
ہی بچی کو تین چار چھینکیں آئیں
‘‘بس بیٹی…۔! بس اب اچھے ہوگئے ’’ باباصاحب نے فرمایا ۔
رانی نے بچی کے سر کی پٹی
کھولی۔ درد سر بالکل غائب ہوگیاتھا…۔ فرط مسرت سے لڑکی کی آنکھوں سے آنسو نکل
آئے ۔
یہ سب لوگ سراپا تشکر اور
سپاس بنے ہوئے تھے، سر بینجمن نے احساس تشکر کے ساتھ ساتھ بابا صاحب کی خدمت میں
کثیر رقم پیش کی تو آپ کی پیشانی پر بل پڑگئے ۔ مگر آپ کے الفاظ میں بڑی نرمی
تھی ۔
‘‘بیٹی باپ کو نذزانہ
نہیں، باپ بیٹی کو دیتا ہے …۔’’ یہ کہا اور گاؤ تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور چند
سکے لڑکی کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔
اس نے خوشی خوشی تحفہ
قبول کر لیا اور وہ لوگ شاداں وِِفرحاں رخصت ہوگئے ۔
سر بینجمن کی بابا صاحب سے یہ ملاقات مہاراشٹر کے مسلمانوں کے حق میں رحمت ثابت
ہوئی۔ سربینجمن نے بڑی تعداد میں وہاں اسکول اور مدرسے قائم کیے، مسلمانوں کی
درسگاہوں کے لیے زمینیں فراہم کیں، عمارتوں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور
تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے لیے روزگار فراہم کرتے رہے۔
جبل پور میں مسلمانوں کا اسکول آج بھی رابرٹس انجمن اسلامیہ ہائی اسکول کے نام سے
موجود ہے۔ انہوں نے وہاں ہزاروں مخالفتوں کے باوجود رابرٹس کالج بھی قائم
کیا…۔ناگپور کا انجمن اسلامیہ ہائی اسکول بھی سر بنجمن اور تاج الدین بابا کی اسی
ملاقات کی یاد گار ہے۔
عبد الصمدنام کے بزرگ
بھیکی پورجائس سے بابا کے پاس آئے۔ ان کے دل میں یہ خواہش تھی کہ کسی طرح انہیں
کشف عطا ہوجائے۔ لیکن جب بابا سے آمنا سامنا ہوا تو وہ مدعا نہ کہہ سکے۔ بابا اس
وقت بیڑی پی رہے تھے۔بابا نے بیڑی ان کو دیتے ہوئے کہا‘‘یہ لو کشف"۔
عبد الصمد نے بیڑی کا ایک
ہی کش لیا تھا کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔
بابا نے کہا‘‘اب جاؤ
تمہارے پانی سے شفا ہوتی حضت…۔!’’
عبد الصمدوہاں سے کشف
وکرامات لے کر واپس ہوئے۔ دنیا خود بخود ان کی طرف متوجہ ہوئی اور اتنی کثرت سے
ضرورت مند پہنچنے لگے۔ ہندوستان کے طول وعرض میں ان کی دھوم مچ گئی۔ جہاں بھی ان
کا دیا ہوا پانی پہنچا کیسا ہی مرض ہوتا ختم ہوجاتا۔ یہ سلسلہ عرصے تک جاری رہا۔
ایک بار کسی عورت کا بچہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ لیکن اتفاق سے وہ ایسے
وقت میں عبد الصمد کے ہاں پہنچی جب عورتیں بے نماز ہوتی ہیں۔ عبد الصمد اس عورت کو
دیکھ کر جلال میں آگئے اور چیخے کہ اس عورت کو باہر نکال دو ناپاک ہے۔ عورت نکال دی گئی۔
وہ پریشان حال شکستہ دل
عورت بابا تاج الدین سے ناگپور ملنے گئی لیکن ناپاکی کے خیال سے دور ایک موسری کے
درخت کے نیچے جاکر بیٹھ گئی۔ دل میں سوچنے لگی کہ جانے گھر جاکر بچہ زندہ بھی ملے
گا یا نہیں۔ ادھر بابا نے ایک خادم کو حکم دیا کہ جاؤ موسری کے درخت کے نیچے ایک
عورت بیٹھی ہے اسے بلالاؤ۔ خادم اس عورت کو بلالایا۔ وہ آتے ہی ایک فاصلے پر کھڑی
ہوگئی۔ بابا انتہائی شفقت سے بولے :
‘‘ اماں!…۔’’
سہمی ہوئی عورت قریب
آگئی۔
بابا بولے :‘‘عبد
الصمد ایک لٹیا پانی تھا گندہ ہوگیا تاج الدین سمندر ہے’’۔
عورت روتی ہوئی ان کے قدموں
پر گر پڑی۔
بابانے کہا :‘‘نکو اماں!
روتے نہیں، گھر جاتے بچہ کھیلتا ملتا، اچھا رہتا’’۔
عورت خوشی خوشی واپس چلی
گئی۔ اس کے جاتے ہی بابا نے جائس کی طرف منہ کرکے انگریزی میں کہا ‘‘عبد الصمد
سسپنڈڈ’’۔
اسی لمحے جائس میں عبد
الصمد کی تمام صلاحیت سلب ہوگئی۔
بیرہٹ اب تاج آباد کے
نام سے مشہور ہے۔ ایک دن بابا گھومتے ہوئے اس جگہ جاکر رُک گئے جہاں اب ان کا مزار
ہے وہاں انہوں نے زمین سے تھوڑی مٹی اُٹھائی اور کہا : سبحان ﷲ کیا اچھی مٹی ہے۔
ذیقعد 1343ھ میں بابا ڈگوری کے پل پر مقیم تھے یکایک وہ اپنے ایک معتقد سے پوچھنے لگے
۔
‘‘عید کا چاند دکھ گیا…۔؟’’۔
جواب ملا’’رمضان کی
عید ہوچکی ہے اب بقرعید کا چاند دکھے گا’’…۔
بابا تاج الدین بولے
‘‘ہوبابو اب اس کے بعد چاند دکھے گا’’۔
اس کے بعد سے بابا تاج
الدین کی طبیعت ناساز رہنے لگی۔ راجہ رگھو راؤ نے بابا صاحب کے علاج کے لیے ناگپور
سے ماہر ڈاکٹر بلوائے، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔
شعرو شاعری: حضرت بابا تاج الدین
اولیاء ناگپوری علیہ الرحمہ نہ صرف شاعرانہ ذوق کے
حامل تھے بلکہ شعرگوئی کی صلاحیت بدرجۂ کمال ان کے اندر موجود تھی لیکن بے نیازی
اورمزاج میں استغراق کی وجہ سے آپ مروجہ طرزوں میں شاعر ی کی طرف رجوع نہیں ہوئے۔
جو کچھ باباصاحب نے کہا اس کو نہ خود ضبطِ تحریر میں لائے اور نہ ایسے حالات پیدا
ہوئے کہ کوئی اور سن کر لکھ لیتا۔ صرف چند اشعار ریکارڈ میں آسکے۔ باقی کلام
لاعلمی اورعدم دستیابی کے اندھیروں میں گم ہوکر رہ گیا۔ باباتاج الدین داس ملوؔ
کاتخلص کرتے تھے جس کے معنی خداکابندہ ہے۔ ذیل میں ہم باباتاج الدین کے اشعار اور
ان کے معانی اورمختصر تشریح پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین کو اشعار کی معنویت سمجھنے
میں مدد ملے۔
اجگر کریں نہ چاکری پنچھی کریں نہ کام
داس ملوؔ کا کہہ گئے، سب
کے داتا رام
ترجمہ: چوپائے ملازمت نہیں کرتے اور پرندے کاروبار
نہیں کرتے پھربھی رزق ان کو ملتا رہتا ہے۔ داس ملو کا(باباتاج الدین) کا کہنا ہے
کہ دوستو! سب کی پرورش کرنے والا اللہ ہے۔
حضرت
بابا تاج الدین اولیاء ناگپوری علیہ الرحمہ کا تخلص داس ملوؔ
کا ہےآپ علیہ الرحمہ اکثر بات بات میں اپنے آپ کو داس ملوکا بولا کرتے
تھے جس کے معنی خداکابندہ ہے۔
مانُس ہے سب آتما، مانُس ہے سب راکھ
بِندی
کی گنتی نہیں، بِندی میں
سو لاکھ
ترجمہ: آدمی سب کا سب روشنی (آتما) ہے اور سب کا
سب مٹی (راکھ) بھی ہے۔ صفر اگر چہ شمار نہیں کیا جاتا لیکن صفرہی سے گنتی کی قیمت
لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔
تشریح: باباصاحب آدمی کو مخص مٹی(گوشت پوست)سے
مرکب تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی بظاہرمٹی معلوم ہوتاہے لیکن مٹی کے
ساتھ ساتھ وہ روشنیوں کا مجموعہ بھی ہے۔ ایسا مجموعہ جو کائنات کی ترجمانی کرتاہے۔
مایوس کن بات یہ ہے کہ انسان نے خود کو مظاہر (مٹی) کا پابند بنا رکھا ہے۔ اگر
انسان اپنی ذات (روشنی ) سے واقف ہو جائے تومظاہر (اسپیس) کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور
وہ اپنی مرضی اور اختیار سے مظاہر میں تبدیلی کر سکتاہے۔ یہی عرفانِ نفس ہے۔
دام و دُر کی رِیس میں رام کرت گن گائے
پربھوکی سوگند ہے دُشٹ اسے مل جائے
ترجمہ:
ظاہر پرست خدا کی تسبیح اورعبادت کا دکھاوا کرتاہے۔ اللہ کی قسم! اس کو اللہ تو
نہیں مل سکتا، البتہ شیطان اسے مل جاتاہے۔
تن پاپی، من کاہرہ ، اُجیارے سب کیس
مندر کا دیپک نہیں، رشیوں کا سابھیس
ترجمہ:
جسم گناہوں سے آلودہ ہے، دل سیاہ ہوچکاہے مگر ان چیزوں کو سفید بالوں نے چھپا رکھا
ہے۔ محض اللہ والوں کا حلیہ بنا لینے سے یا ان کے جیسا لباس پہن لینے سے دل کے
اندر روشنی نہیں ہوسکتی۔
سائے بن کی رات میں بن باسی بن جائیں
داس ملوؔ کا ساتھ میں جاگیں اورلہرائیں
ترجمہ:
جنگل کی رات میں سائے آدمی بن جاتے ہیں۔ داس ملوکا (تاج الدین) ان کے ساتھ جاگتے
رہتے ہیں اورخوش گپیاں کرتے رہتے ہیں۔
تشریح:
یہ دوہا اس زمانے سے تعلق رکھتا ہے جب بابا صاحب رات کو ریاضت ومراقبہ کی غرض سے
بابا داؤد مکیؒ کے مزار پر جایا کرتے تھے۔ باباصاحب کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا
ہے کہ مظاہر بےحس وحرکت ہیں اور ان میں زندگی نہیں ہے لیکن درحقیقت ان میں زندگی
کے تمام آثار موجود ہیں۔ شب بیداری کی وجہ سے موجودات کا باطنی رخ سامنے آجاتا ہے
اورتاج الدین رات بھر غیبی مشاہدات میں مستغرق رہتے ہیں۔
وصال مبارک: 26 محرم
الحرام 1344ھ بمطابق17اگست 1925ء بروز پیر مغرب کے وقت بابا نے ہاتھ اُٹھا کر ایک
لمحے کے لیے دعا کی۔ پلنگ سے اُٹھ کر چاروں طرف دیکھا پھر سکون سے آنکھیں بند
کرکے لیٹ گئے، اسی حالت میں دارفانی سے کوچ فرمایا۔ آپ کا مزار پُر انوار تاج آباد
(تاج باغ) امریڈ روڈ، ناگپور میں مرجع خلائق ہے۔(بحوالہ : سوانح حیات
بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ/ مصنف : سہیل احمد عظیمی صفحہ 140)