چاند کا ثبوت،جدید ذرائع ابلاغ اور ہمارا طرز فکر و عمل
جدید ذرائع ابلاغ کی
ہمہ گیریت اور آفاقیت کے اس دور میں بھی جب کہ پوری دنیا ایک چھوٹی سی بستی کی
شکل میں سمٹ آئی ہے، ابلاغ و ترسیل کے بڑھتے قدم نے مسافت اور دوری جیسے الفاظ کو
بے معنی کردیا ہے، بعض حضرات اپنی سادگی یا حسن تغافل کے سبب دوریاں پیدا کرنے،
دیواریں اٹھانے اورتفریق پیدا کرنے کی شعوری یا غیر شعوری کوششیں کرجاتے ہیں۔ اس
صورت حال کا ایک منظر ہر سال رمضان کی شام کو بھی دیکھنے کو ملتا ہے، جو حسب روایت
اس سال بھی نظر آیا۔ہلال عید کے ثبوت کے لیے ہر گاؤں اور ہر قریہ کا امام شہادت
رویت کے لیے ثقہ افراد کا متلاشی نظر آتا ہے۔بعض حضرات کے اس تجاہل عارفانہ
پرحیرت ہوتی ہے جو چاند کے دوسرے تمام طریقوں؛ مثلا خبر مستفیض، اعلان قاضی وغیرہ
سے خود کو ناواقف بتانے کی کوشش کرتے ہیں، خواہ اس کوشش میں عامۃ المسلمین حیران و
پریشان ہی کیوں نہ ہوں۔
رویت ہلال نہیں، ثبوت
رویت ہلال
بخاری و مسلم کی ایک
متفق علیہ روایت ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ چاند
دیکھے بغیر روزہ مت رہو اور نہ چاند دیکھے بغیر عید کرو ۔اگر فضا ابر آلود ہو تو
گنتی پوری کر لو۔ لاتصوموا حتی تروا الھلال
و لا تفطروا حتی تروہ،فان غم علیکم فاقدروا لہ۔(بخاری،کتاب الصوم، باب اذا رایتم
الہلال فصوموا(
اس حدیث کا ایک لفظی مطلب یہ ہوا کہ جسے بھی روزہ رکھنا ہو وہ پہلے چاند
دیکھے اور اسی طرح جسے بھی عید کرنی ہو وہ پہلے چاند دیکھے۔ چاند دیکھے بغیر نہ
کوئی روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ عید کر سکتا ہے، سواے اس کے کہ وہ۳۰؍ تاریخ پوری کرلے۔لیکن یہ معنی محدثین و فقہا کی
کسی جماعت نے نہیں لیے۔ گزشتہ سوا چودہ سو سالوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا پیدا
نہیں ہوا جو اس حدیث کے مذکورہ معنی سمجھتا ہو ،اس کے بر عکس متفقہ طور پر سب نے
اس حدیث سے یہی سمجھا کہ روزہ رکھنے یا عید کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر
شخص چاند دیکھے ،ہاں! یہ ضروری ہے کہ ہر شخص کے نزدیک چاند دیکھے جانے کا ثبوت
ہو،وہ خود چاند دیکھے یا نہ دیکھے۔ دوسرے لفظوں میں رمضان و عید کے لیے ہر شخص کے
لیے رویت ہلال ضروری نہیں ،ہر شخص کے لیے رویت ہلال کا ثبوت ضروری ہے۔اسی طرح ہر
شخص کے سامنے رویت ہلال کی شہادت گزرے یہ ضروری نہیں، بس اتنا کافی ہے کہ ہر شخص
کے سامنے رویت ہلال کے ثبوت کی کوئی ایسی دلیل یا ذریعہ ہو جس سے علم شرعی یعنی ظن
غالب حاصل ہوجائے۔ اسی استدلال کو آگے بڑھاتے ہوئے فقہ اسلامی کی نامور شخصیت
علامہ ابن عابدین شامی (۱۲۵۲ھ) نے لکھا ہے کہ’’ اہل دیہات پر شہر سے توپوں کی آواز سننے اور قندیلوں
کو دیکھنے سے روزہ لازم ہو جاتا ہے کیوں کہ یہ واضح علامت ہے جس سے غلبۂ ظن حاصل
ہوجا تا ہے اور غلبۂ ظن عمل کے لیے حجت شرعی ہوا کرتا ہے، جیسا کہ علما نے اس کی
تصریح کی ہے۔‘‘
یہاں یہ شبہ ہو سکتا
تھا کہ توپ کی آواز اور قندیل کی روشنی کو علامہ شامی نے رویت ہلال کے ثبوت کے
لیے کافی سمجھا ہے جب کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ بغیر رمضان کے یوں ہی کسی نے توپ
داغ دی ہو یا قندیل روشن کر دی ہو ۔اس کا جواب علامہ شامی نے اپنے زمانے کے عرف کو
سامنے رکھتے ہوئے اس طرح دیا ہے:
یہ احتمال کہ یہ عمل رمضان کے علاوہ کسی اور وجہ
سے ہوا ہو، بعید ہے ،اس لیے کہ لیلۃ الشک(یعنی ،۲۹؍ شعبان)کو یہ عمل ثبوت رمضان کے سوا کسی اور کام
کے لیے عادتاً نہیں ہوتا۔‘‘ (رد المحتار ، جلد ۷،باب سبب صوم رمضان)
علامہ شامی کی مذکورہ
صراحت سے تین چیزیں واضح ہوتی ہیں:
۱۔رمضان
کے ثبوت کے لیے ہر شخص کے لیے چاند دیکھنا ضروری نہیں ہے۔
۲۔چاند
کے ثبوت کے لیے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں ۔مثلا علامہ شامی کے زمانے میں ایک طریقہ
یہ بھی تھا کہ قاضی کے حکم سے شہر میں توپ داغ دی جاتی، جہاں تک اس کی آواز
پہنچتی لوگ اس آواز کو سن کر روزہ رکھنا شروع کر دیتے۔
۳۔چاند
کے ثبوت کے لیے قطعی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ایسی دلیل کافی ہے جس سے غلبۂ ظن حاصل
ہو جائے ، اس لیے ہر زمانے میں اس زمانے کے عرف کے اعتبار سے جن ذرائع سے غلبۂ ظن
کا حصول ہو جائے، اسے کافی سمجھا جائے گا۔ علامہ شامی کی فقہی بصیرت کو سامنے
رکھیے تو آج کے بہت سے سوالات حل ہو سکتے ہیں۔مثلا آج کل رویت ہلال کے موقع پر
یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہر شخص رویت کی شہادت مانگتا ہے ،جب کہ ہر جگہ رویت ہو یا
رویت کی شہادت ہو،یہ ضروری ہی نہیں ہے ۔ضروری فقط یہ ہے کہ ثبوت رویت کا ظن غالب
حاصل ہو جائے، اگر چہ اس میں بعض اعتبار سے احتمال بھی موجود ہو، کیوں کہ ظن غالب،
فقہائے اسلام کے نزدیک شریعت میں عمل کے لیے حجت شرعی ہے۔
اسی طرح ایک بلا یہ عام
ہے کہ موبائل ،فون ،ٹیلی ویژن،ای میل ،فیکس وغیرہ اور دیگرجدید ذرائع ابلاغ سے بعض
علما کو ثبوت ہلال کا یقین حاصل ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود دو گواہوں کو سو دو
سو کیلومیٹر شہادت لانے کے لیے بھیجتے ہیں۔ گویا ایسے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ
جب تک رویت پر شہادت نہ گزرے رویت کا ثبوت ہی نہیں ہوگا، اگر چہ دیگر ذرائع سے
ثبوت کا قطعی یقین بھی کیوں نہ حاصل ہو جائے۔
فاضل بریلوی کی تحقیق
اعلی حضرت مولانا شاہ
احمد رضا خان فاضل بریلوی (۱۹۲۱ء) بیسویں صدی کے زبر دست فقیہ گزرے ہیں ۔آپ کا زمانہ جدید ذرائع ابلاغ سے
پہلے کا زمانہ ہے ۔لیکن آپ نے اپنے زمانے میں بھی چاند کے ثبوت کے لیے رویت کی
شہادت پر اصرار نہیں کیا ۔اس کے بر عکس انہوں نے اپنی تلاش و جستجو سے ثبوت ہلال
کے سات طریقے بیان کیے اور وہ یہ ہیں۔
(۱)شہادت رویت یعنی چاند دیکھنے والے کی گواہی
(۲)شہادت علی الشہادت۔یعنی جن لوگوں کے سامنے چاند دیکھنے کی شہادت
گزری ہو وہ اس شہادت کی شہادت دیں۔
(۳)شہادت علی القضاء ۔ یعنی قاضی کے سامنے کسی دوسرے شہر میں شہادت
گزری ہو ،اس وقت چند لوگ موجود ہوں،
وہ دوسرے قاضی کے پاس اس شہادت کے گزرنے کی
شہادت دیں۔
(۴)کتاب القاضی الی القاضی۔ یعنی جس قاضی کے پاس شہادت رویت گزری
ہو، وہ دوسرے قاضی کے نام مکتوب لکھے اور دو گواہوں کو اس خط کو لے کر اس قاضی کے
پاس بھیجے، جو وہاں جا کر گواہی دیں کہ یہ خط فلاں قاضی کا ہے ۔
(۵)استفاضہ یا خبر مستفیض، یعنی کسی شہر کے بارے میں معلوم ہو کہ
وہاں رمضان و عید قاضی یا مفتی اسلام کے حکم سے ہوتا ہے، عوام خود نہیں کرتے،وہاں
سے متعدد جماعتیں آکر شہادت دیںکہ وہاں فلاں دن روزہ رکھا جا رہا ہے یا فلاں دن
کوعید ہو رہی ہے۔
(۶)اکمال عدت یعنی تیس دن مکمل کرنے کے بعد
(۷)ایسے شہر میں جہاں رمضان یا عید کے لیے ہی توپیں داغی جاتی
ہوں،یا لوگوں میں یہ معروف ہو، تو اگر وہاں۲۹؍ تاریخ کو توپ داغی گئی تو جہاں تک اس کی آوز
پہنچے گی، مسلمان اس آواز پر روزہ یا عید کر سکتے ہیں۔
کیا سات طریقوں پر
اضافہ ممکن ہے؟
فاضل بریلوی نے اپنے
عہد کے لحاظ سے کمال احتیاط کے ساتھ سات طریقے بیان کیے ہیں۔اس کا یہ مطلب قطعی
نہیں کہ حدیث پاک میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور عید کرنے کاجو حکم ہے، اس کو
صرف فاضل بریلوی نے سمجھا اور اس کے سات طریقے بیان کر دیے۔اب اس میں حذف و اضافہ
نہیں ہو سکتا۔گزشتہ سو سالوں میںجدید ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی ترقی نے دنیا کو
کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے ۔آپ غور کریں توموجودہ حالات کے تناظر میں مذکورہ سات
طریقوں کے علاوہ ثبوت رویت کے کئی دوسرے نئے طریقے سامنے آئیںگے بلکہ ان سات میں
سے کئی طریقے محض عبث معلوم ہوںگے ۔آج اپنی بات دوسرے تک پہنچانے کے لیے کتنے لوگ
ہیں جو خط لکھتے ہیں۔ہر شخص کے پاس مخصوص لوگوں کے نمبر ہوتے ہیں اور وہ جب چاہتا
ہے اپنی بات اپنے مخصوص لوگوں تک بذریعۂ موبائل پہنچا دیتا ہے، انہیں اس میں ذرہ
برابر شک و شبہ نہیں ہوتا۔ مثلا اگر آپ کے پاس آپ کے بیٹے کا نمبر ہے اور آپ نے
فون سے یہ بتا دیا کہ آپ کی بیگم کا انتقال ہو گیا تو بیٹے کو ماں کی وفات میں
ذرہ برابر شک نہیں ہوگا۔اسے یقینی طور پر اپنی ماں کی وفات کا علم ہوجائے گا۔ اسی
طرح فرض کیجیے کہ آپ دہلی کے قاضی ہیںاور آپ سے لکھنؤ کے قاضی نے جسے آپ جانتے
ہیں اور جس کا موبائل نمبر بھی آپ کے پاس محفوظ ہے، آپ کو فون کر کے بتایا کہ
میرے پاس لکھنؤ میں چاند کی رویت کی شہادت گزری ہے تو اس سے آپ کو اس شہادت کا
قطعی یقین ہو گیا ۔اب ایسے میں آپ لکھنؤ کے قاضی سے اگر یہ مطالبہ کریں کہ آپ
دو گواہوں کے سامنے ایک خط لکھیے اور بذیعۂ ہوا ئی جہاز دہلی جلد روانہ کیجیے، وہ
میرے سامنے آکر گواہی دیںگے تب آپ کی بات تسلیم کروںگا تو تو کیا آپ کا یہ
مطالبہ معقول مطالبہ ہوگا۔
فقہا کی تمام عبارتوں
کو چھان ڈالیے تو ان سے بس ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ یہ کہ فقہا نے کوشش کی ہے
کہ رویت ہلال کے ثبوت کا ظن غالب حاصل ہو جائے۔صرف افواہ پر روزہ نہ رکھا جائے نہ
عید کی جائے۔ اس بات کا ظنی علم ہونا چاہیے کہ کسی مقام پر چاند ہوا ہے اور قاضی
کے سامنے اس کی شہادت گزری ہے ،اس سیدھی سی بات کو آج کچھ لوگوں نے ٹیڑھی کھیر
بنا کر رکھ دی ہے۔
ثبوت ہلال کے نئے طریقے
بیسویں صدی کے فقہا نے
ثبوت ہلال کے جو سات طریقے بیان کیے ہیں ان پر ذرا دوبارہ نظر ڈالیے اور یہ سمجھنے
کی کوشش کیجیے کہ ذرائع ابلاغ و ترسیل کی غیر معمولی ترقی نے ان سات طریقوں کے
کتنے امثال اور کتنی صورتیں پیدا کردی ہیں۔
شہادت رویت، ثبوت ہلال کا
پہلا طریقہ ہے ۔اس کے مطابق قاضی کے سامنے گواہ آتا ہے اور یہ گواہی دیتا ہے کہ
میں نے رمضان یا شوال کا چاند دیکھا ہے ۔ثبوت ہلال کے اس طریقے میں قدیم زمانے سے
یہ شرط چلی آ رہی ہے کہ گواہ قاضی کے سامنے موجود ہو۔ ایسا اس لیے کہ گواہی کے
وقت ضروری ہے کہ گواہ کا چہرہ کھلا ہو اور قاضی اسے دیکھے اور اگر قاضی ضرورت
محسوس کرے تو اس سے جرح کر سکے ۔ ظاہر ہے کہ قدیم زمانے میں اس عمل کے لیے گواہ کا
قاضی کی مجلس میں جسمانی طور پر موجود ہونا ضروری تھا ۔اس کے بغیر قاضی کا گواہ کو
دیکھنا اور اس سے جرح و استفسار کرنانا ممکن تھا۔ یہ طریقہ آج بھی اسلامی اور غیر
اسلامی عدالتوں میں رائج ہے ۔
یہاں غور کیجیے تو یہ
حقیقت کھلے گی کہ گواہی کے لیے گواہ کا قاضی کے سامنے ہونا ضروری ہے ۔اس کے بغیر
گواہی نہیں ہو سکتی ۔ قدیم زمانے میں کسی کے سامنے موجود ہونے کے لیے جسمانی وجود
کے ساتھ موجود ہونا ضروری تھا، اس لیے قدیم زمانے میں یہ تصورہی نہیں تھا کہ گواہ
گواہی دے اور جسمانی اعتبار سے قاضی کی مجلس میں موجود نہ ہو ۔ آج ٹکنالوجی کی
غیر معمولی ترقی کے سبب یہ نہ صرف متصور ہے بلکہ آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ ایک شخص
ہزار وں میل دور ہوتے ہوئے بھی ویڈیو کا نفرنسنگ کے ذریعے مجلس میںموجود ہوتا ہے
اور اس سے بالکل اسی طرح بحث و مکالمہ ہوتا ہے جس طرح پچھلے زمانے میں جسمانی وجود
کے ساتھ شریک مجلس شخص سے بحث و مکالمہ ہوتا تھا۔ اب ایسے میں یہ اصرار کرنا کہ
گواہی کے لیے بہر صورت گواہ کا جسمانی وجود کے ساتھ قاضی کی مجلس میں موجود ہونا
ضروری ہے ، ایک غلط ،غیر معمولی اور بے بنیاد مطالبہ ہے۔ ہاں!یہ سچ ہے کہ آج بھی
ویڈیو کانفرنسنگ بہت عام نہیں ہوسکی ہے اور مختلف وجوہات کے سبب اسے عدالتوں نے
بالعموم تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کا وجود سرے سے ناپید ہو ۔
ابھی دوسال قبل کی بات ہے کہ پاکستانی قیدی اجمل قصاب دہلی کے تہاڑ جیل میں تھا
اور طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اس نے سپریم کورٹ میں
اپنے بیانات دیے۔
اسے اس طور پر بھی
دیکھیے کہ بالفرض آپ قاضی کے شناسا ہیں اور۱۰۰۰؍ کیلومیٹر کے فاصلے پر آپ نے چاند دیکھا ۔ آپ
نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے قاضی سے گفتگو کی اور اس سے چاند دیکھنے کی گواہی دی
۔قاضی آپ کو جان رہا ہے، پہچان رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اگر آپ سے یہ مطالبہ
کرے کہ ہر چند کہ میں آپ کو دیکھ رہا ہوں اور پہچان رہا ہوں لیکن آپ کی گواہی اس
وقت تک نہیں مانوںگا جب تک آپ ۰۰ ۱۰؍ کیلومیٹر کی مسافت طے کرکے جسمانی اعتبار سے میری مجلس میں آکر گواہی
نہیں دیتے، تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا ؟اور ہروہ شخص جسے اللہ رب العزت نے تھوڑی
بہت سوجھ بوجھ دی ہو، وہ اس مطالبے کو کیا نام دے گا ؟ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ آج
بھی ہم شہادت رویت کے لیے بہر صورت مجلس میں گواہ کی موجودگی کو شرط سمجھیں۔ کیا
گواہی میں گواہ کے جسم کا بھی کوئی دخل ہے کہ جب تک اس کا جسم مجلس میں نہ آجائے
اس کی بات نہیں مانی جائے ۔ کیا واقعی شہادت رویت کے لیے گواہ کا جسمانی طور پر قاضی
کی مجلس میں موجودہونا ضروری ہے ؟ اس مسئلے پر عصری تناظر میں عقل و ہوش، دیانت
اور غیر جانب داریت کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ شہادت کے لیے ویڈیو کانفرنسنگ،
با تصویر ٹیلی فونی گفتگو، معلوم نمبر سے معلوم شخص کی گفتگو وغیرہ سب کو یک لخت
حرف غلط قرار دینے والے حضرات سے انصاف، تدبر،تفقہ، دیانت اور بصیرت کی گزارش ہے ۔
شہادت رویت کی طرح ہی،
شہادت علی الشہادت اور شہادت علی القضا پر بھی غور کیا جا سکتا ہے ؛کیوں کہ یہ
دونوں صورتیں بھی در اصل شہادت کی ہی ہیں ۔
کتاب القاضی الی القاضی
کی نئی صورتیں
ماضی میں ثبوت ہلال کے
لیے کتاب القاضی الی القاضی کو بھی معتمد و معتبر مانا گیا۔ بقول اعلی حضرت فاضل
بریلوی: ’’قاضی شرع جسے سلطان اسلام نے فصل مقدمات کے لیے مقرر کیا ہو، اس کے
سامنے شرعی گواہی گزری ،اس نے دوسرے شہر کے قاضی شرع کے نام خط لکھا کہ میرے سامنے
اس مضمون پر شہادت شرعیہ قائم ہوئی اور اس خط میں اپنا اور مکتوب الیہ کا نام و
نشان پورا لکھا جس سے امتیاز کافی (مکمل امتیاز) واقع ہو اور وہ خط دو گواہان عادل
کے سپرد کیا کہ میرا خط قاضی فلاں شہر کے نام ہے ۔وہ باحتیاط اس قاضی کے پاس لائے
اور شہادت ادا کی کہ آپ کے نام یہ خط فلاں قاضی فلاں شہر نے ہم کو دیا ،ہمیں گواہ
کیا کہ یہ خط اس کا ہے ۔اب یہ قاضی اگر اس شہادت کو اپنے مذہب کے مطابق ثبوت کے
لیے کافی سمجھے تو اس پر عمل کر سکتا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ:۱۰؍۴۱۳)
واقعہ یہ ہے کہ ماضی
میں ایک شہر سے دوسرے شہرمیں اطلاع دینے کے لیے خط ہی ایک موثر ذریعہ تھا، اس لیے
ثبوت ہلال کے لیے ماضی کے علما نے اسے معتبر قرار دیا ۔اب اس میں ایک احتمال یہ
تھا کہ کوئی شخص غلط طور پرکسی کا خط پیش کر دیتا ۔یوں ہی بسا اوقات یہ ممکن ہوتا
ہے کہ کوئی ماہر کسی کی تحریر کی نقل اتار دے۔اس لیے اس احتمال کو کم سے کم کرنے
کے لیے علماے اسلام نے اس خط کے ساتھ ایسی شرطیں لگا دیں کہ فراڈ کا احتمال ممکنہ
حد تک دور ہو سکے ، اگر چہ اس کے بعد بھی کذب و فراڈ کا احتمال، ضعیف ہی سہی، باقی
رہتاہے۔
آج اگر ممبئی کا قاضی
بذریعۂ خط بنگال کے قاضی کو مطلع کرنا چاہے اور خط لکھ کر دو گواہوں کو اس پر
گواہ کرے اور ان کو ممبئی سے بنگال بھیجے تو نہ صرف یہ کہ جب تک یہ گواہ وہاں
پہنچیں گے لوگ ۳۰؍ رمضان
مکمل کرکے دوسرے دن عید کرچکے ہوںگے، بلکہ اس عمل کو موجودہ زمانے میںسراسرایک غیر
دانش مندانہ عمل کہا جائے گا ۔ موجودہ زمانے میں خط کے مثل فیکس، ای میل اوروائس
اینڈ ویڈیو چیٹنگ نئی دریافتیں سامنے آئی ہیں، جو ثبوت کے لحاظ سے خط سے زیادہ
قوی ہیں۔اس لیے کہ اگر ممبئی کا قاضی اپنی تحریر بذریعۂ فیکس یا ای میل بنگال کے
قاضی کے دفتر میں اس کے نمبر اور ای میل آئی ڈی پر بھیج دے یا اپنی آئی ڈی سے اس
کی آئی ڈی پر چیٹنگ کرے، تو اولاً یہ ثبوت پہنچنے میں کئی دنوں کے بجائے صرف چند
لمحے لگیںگے۔ پھر اس میں فراڈ کے احتمالات قاضی کے مکتوب کے بہ نسبت بہت ہی کم ہیں
۔ پھر آج کے زمانے میں تحقیق حال کے لیے وہ فوراً فون یاموبائل وغیرہ کے ذریعے
رابطہ بھی کر سکتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود یہ اصرار کرنا کہ آج بھی قاضی کا خط تو
معتبر ہے جسے دو گواہ لے کر جائیں لیکن ثبوت ہلال کے لیے ان جدید ذرائع کا استعمال
بہر حال نا جائز و نا معتبر ہے؛ کیوں کہ ماضی کے علما نے ان کا ذکر نہیں کیا ہے
،نہایت غیر منصفانہ ہے۔
یہاں یہ پہلو بھی قابل
غور ہے کہ اگر ممبئی کا قاضی اپنے یہاںکی شہادت کی اطلاع بنگال کے قاضی کو دینا
چاہتا ہے تو کیا ضروری ہے کہ کتاب القاضی الی القاضی کا سہارا لے، خط لکھے یا فیکس
اور ای میل ہی کرے ۔ایسا کیوں نہیں کر سکتا کہ اگراس کے پاس بنگال کے قاضی کا فون
نمبر ہے تو براہ راست فون پر اسے خود اطلاع دے دے۔ماضی میں قاضی کو خط لکھنے کی
زحمت اس لیے پڑ رہی تھی کہ ماضی میں یہ تصور ہی نہیں تھا کہ ممبئی میں بیٹھ کر وہ
بنگال کے قاضی سے براہ راست گفتگو کر سکے ۔آج جدید ذرائع ابلاغ کی برکات کی بدولت
جب اس کے لیے براہ راست قاضی سے گفتگو کرنا ممکن ہے اور اس گفتگو سے قاضی بنگال کو
ثبوت ہلال کا جو یقین حاصل ہوگا، وہ اس خط سے بدرجہازیادہ ہوگا جسے دو شخص لے کر
آئیں۔پھر ایسے میں آج بھی قاضی ممبئی کو خط لکھنے کا مکلف کرنا اور فون سے بات
کرنے کو اس کے لیے نا جائز و حرام قرار دینا، شریعت کو مشکل اور معاملات کو پیچیدہ
بنانے کے سوا آخر اور کیا ہے؟فرض کیجیے کہ دو نمازی اور دیندار اشخاص ممبئی سے
آپ کے بھائی کا خط لے کر آئیں اور یہ بتائیں کہ آپ کے دو بھائی جو ممبئی میں
تھے ان میں سے ایک کا انتقال ہو گیا اور دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کا بھائی خود فون
کر کے بتائے کہ ایک بھائی کا انتقال ہو گیا، ان دونوں صورتوں میں زیادہ آسان اور
مفید یقین کون سی صورت ہے ،کیا یہ بھی کوئی ارسطو کا فلسفہ اور بطلیموس کا کوئی
فارمولہ ہے جس پر دماغ سوزی کرنے کی ضرورت ہو ۔ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم عام مسلمانوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں،
مشکلات پیدا نہ کریں۔ انہیں مانوس کریں، بیزار نہ کریں۔ یسروا و لا تعسروا و بشروا
ولا تنفروا(بخاری، کتاب العلم، باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یتخولہم
بالموعظۃوالعلم)مگر ہمارا معاملہ یکسر مختلف ہے۔
استفاضہ یا خبر مستفیض
کی نئی صورتیں
استفاضہ یا خبر مستفیض
کو بھی علما نے ثبوت ہلال کے باب میں بطور دلیل شرعی کے تسلیم کیا ہے ۔علامہ نجم
الدین سلیمان بن عبد القوی عراقی صرصری(۷۱۶ھـ)لکھتے
ہیں:
’’مستفیض فاض الماء و الاناء سے مشتق ہے۔یہ اس وقت
کہتے ہیںجب پانی لبالب ہو کر کناروں سے بہنے لگے، جیسا کہ شرح خطبہ میںمذکور ہوا۔
اس اشتقاق اور عامۃ الناس کے عرف کی بنیاد پر خبر مستفیض کے سلسلے میں تحقیق یہ ہے
کہ خبر مستفیض اس مشہورومعروف خبر کو کہتے ہیں جولوگوںمیں اس طرح عام ہوچکی ہو کہ
اس کا جھوٹ اور غلط ہونا عادۃً بعید ہو۔‘‘(شرح مختصر الروضۃ2/108)
خبر مستفیض کے سلسلے
میں علامہ ابن حجر ہیتمی(۹۷۴ھ) لکھتے ہیں :
’’ خبر مستفیض وہ خبر ہے جو لوگوں میں مشہور ہو اور
اس کی کوئی نہ کوئی بنیاد ہو، جوخبر لوگوں میں تو مشہور ہو لیکن اس کی کوئی بنیاد
نہ ہو، تو وہ خبر مستفیض نہیں ہے۔ کبھی خبر مستفیض کو خبر مشہور بھی کہتے ہیں، اس
طرح وہ دونوں مترادف ہوتے ہیں،جب کہ ایک قول یہ ہے کہ مستفیض اس مشہور خبر کو کہتے
ہیں جو متواترہواور ایک قول یہ ہے کہ خبر مستفیض، خبر متواتر اور خبر آحاد سے
الگ، خبر کی ایک تیسری قسم ہے، جب کہ محدثین کے یہاں مستفیض، متواتر سے عام ہے۔
خبر مستفیض میں فقہا کے
نزدیک کم از کم دو مخبر کا ہونا ضروری ہے اور علماے اصول کے یہاں تین سے زائد
افراد کا ہونا ضروری ہے جب کہ محدثین کے یہاں کم از کم تین افراد کا ہونا ضروری
ہے۔اس تفصیل سے استفاضہ اور تواتر کا فرق واضح ہوگیا۔اسی طرح یہ بات بھی واضح
ہوگئی کہ خبر مشہور عام ہے جب کہ خبر مستفیض خاص ہے؛ کیوں کہ ہر خبر مشہور خبر
مستفیض نہیں۔اسی وجہ سے فقہا نے کہا ہے کہ استفاضے میں یہ شرط ہے کہ خبراتنی بڑی
جماعت سے سنی جائے کہ دل میں ان کی صداقت جم جائے اورسب کے بالاتفاق جھوٹے ہونے کا
خوف نہ رہ جائے۔اس لیے اس میں فقط دو عادل سے سننا کافی نہیں ہے۔ خبر متواتر کی
طرح ہی خبر مستفیض میں بھی گواہوں کا عادل، آزاداور مردہونا شرط نہیں ہے۔
(الفتاوی الفقہیۃ الکبریٰ، (2/61
ایک سوال یہ ہے کہ
استفاضے کا تحقق کیسے ہوگا؟علامہ ابن عابدین شامی نے لکھا ہے کہ’’ اگر آسمان ابر
آلود نہ ہو تواس وقت چاند کے ثبوت کے لیے اتنی بڑی تعداددرکار ہے جس سے علم شرعی
حاصل ہوجائے،ا ور علم شرعی یہ ہے کہ ان کی خبر سے غلبۂ ظن حاصل ہوجائے۔ مذہب حنفی
کے رو سے یہ تعداد امام کے سپرد ہے، اس کا تعین نہیں کیا جاسکا ہے، اور امام صاحب
سے ایک روایت یہ ہے کہ دوگواہوں کی گواہی پر بھی اکتفا کیا جاسکتا ہے۔‘‘
(بلا علۃ جمع
عظیم یقع العلم) الشرعی وہو غلبۃ الظن بخبرہم وہو مفوض إلی رای الامام (من غیر
تقدیر بعدد) علی المذہب، وعن الامام انہ یکتفی بشاہدین۔(رد المحتار7/367
اس سلسلے میں علامہ
رحمتی کی یہ عبارت علما کے یہاں مشہور ہے:
معنی الاستفاضۃ ان تاتی من تلک البلدۃ
جماعات متعددون کل منہم یخبرعن اہل تلک البلدۃ انہم صاموا عن رویۃ لا مجرد الشیوع
من غیر علم بمن اشاعہ۔(رد المحتار2/429)
استفاضہ کے معنی یہ ہیں
کہ اس شہر سے متعدد جماعتیں آئیں اور وہ تمام یہ اطلاع دیں کہ اس شہر میں لوگوں
نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے، محض ایسی افواہ جس کا پھیلانے والا معلوم نہ ہو،
استفاضہ نہیں ہے۔
یہ توضیح استفاضے کی
حقیقت کو نہیںبتاتی ، استفاضے کے تحقق کی ایک صورت کو بتاتی ہے، جو قدیم زمانے میں
رائج تھی ۔فقہا کی عبارتوں کی روشنی میں خبر مستفیض کی حقیقت صرف یہ ہے کہ وہ
مشہور خبر جو نہ متواتر ہو نہ مجہول ہو، مشہور اور شائع و ذائع ہو، اس کے ساتھ اس
کی کوئی بنیاد ہو،خبر دینے والوں کا اتا پتہ ہو، وہ محض افواہ نہ ہو، ایسی خبر سے
ظن غالب کا حصول ہوجاتا ہے جو شریعت میں عمل کے باب میں حجت ہے ۔اب ایسی خبر جس
طریقے سے بھی حاصل ہو جائے وہ خبر مستفیض ہی ہوگی نہ کہ کچھ اور ۔علامہ رحمتی نے
خبر مستفیض کی جو ایک شکل بتائی ہے بعض علما نے اسی ایک شکل کو اس کی حقیقت سمجھ
لیاجو ان کا تسامح ہے۔ ماضی میں ایک شہر سے جب کوئی دوسرے شہر جاتا تھا جب ہی اس
شہر کے حالات دوسرے لوگوں کو ملتے تھے۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ ہی نہیں تھا۔
آج مواصلات کی دنیا میں ایسا انقلاب آیا کہ دوریاں رہ کر بھی دوریاں نہیں
رہیں۔ہر شہر کا آدمی دوسرے شہر کے حالات سے ہر وقت اسی طرح واقف ہوتا ہے جس طرح
وہ اپنے شہر کے حالات سے واقف ہوتا ہے ،بلکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک
شہر کے حالات ا س کے تمام شہریوں تک پہنچنے سے بہت پہلے دوسرے شہر تک پہنچ جاتے
ہیں ۔مثال کے طور پر ایک شخص الٰہ آباد کا رہنے والا ہے ،وہ دہلی کے اوکھلا علاقے
میں ملازمت کرتا ہے ، ۲۹؍رمضان کو شاپنگ کے لیے مینا بازار جامع مسجد جاتا ہے ۔جامع مسجد کے
میناروں سے اعلان ہوتا ہے کہ آج ۲۹؍رمضان کو چاند کی رویت ہو گئی ہے، کل عید کی نماز ادا کی جائے گی۔ یہ شخص
اپنی قیام گاہ اوکھلا، نئی دہلی پہنچنے سے قبل ہی الٰہ آباد اپنے وطن کے قاضی کو
فون کر دیتا ہے ،اس طرح جامع دہلی کے مینار سے ہونے والا اعلان دہلی کے اوکھلا
علاقے تک پہنچنے سے قبل الٰہ آباد پہنچ گیا ۔اسی وقت پٹنہ،لکھنؤ، بنارس،مبارک
پور، بریلی، بدایوں، کچھوچھہ اور کانپور کے معتبر مقامات سے بھی اعلان عید کی خبر
قاضی صاحب تک آگئی۔اتنی خبریں آنے کے بعداس خبر کے صحیح و درست ہونے کا یقین یا
کم از کم ظن غالب حاصل ہو جاتا ہے۔یہ خبر عام خبر کے درجے سے بلند ہو کر خبر
مستفیض کا درجہ حاصل کر لیتی ہے جسے شریعت نے دلیل و حجت تسلیم کیا ہے، لیکن بعض
حضرات کو اب بھی اصرار ہے کہ خبر مستفیض وہی ہوگی جسے لے کر مختلف جماعتیں آئی
ہوں۔یہ اصرار ایسا ہی ہے جیسے کوئی ایٹمی عہد کے زمانے میں سیف و سنان سے جہاد
کرنے کا اصرار کرے۔
علامہ رحمتی کی تشریح
پرشیخ الاسلام کا حاشیہ
شیخ الاسلام علامہ سید
محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی( کچھوچھہ شریف) نے ۲۱؍ رمضان المبارک۱۴۲۴ ھ مطابق۱۷؍ نومبر۲۰۰۳ ء بروز دوشنبہ مبارکہ کسی مولانا عبدالرشید کو
ایک خط لکھا ہے جس میں علامہ رحمتی کی تشریح کو ذکر کرتے ہوئے خبر مستفیض کی ایک
نئی شکل لکھی ہے۔ اس خط کو کسی خطاط سے لکھواکر اس کی کاپیاں تقسیم کی گئی ہیں، اس
کی ایک کاپی میرے سامنے ہے، شیخ الاسلام اس میں لکھتے ہیں:
’’ثبوت ہلال کے لیے خبر واحد معتبر نہیں، اس کے لیے
خبر مستفیض چاہیے۔متون میں صرف لو استفاض الخبر(جب خبر مشہو ر ہو جائے) کے الفاظ
ہیں۔خبر مستفیض کی جو تشریح علامہ رحمتی قدس سرہ نے کی ہے اپنے عہد کے لحاظ سے کی
ہے، اس لیے کہ اس عہد میں ایک جگہ سے دوسری جگہ خبر پہنچانے کے لیے اس کے سوا کوئی
صورت نہیں تھی کہ جماعت وہاں جاکر خبر دے۔ خبر مستفیض کے لیے متعدد جماعتوں کی خبر
کی ضرورت ہوتی ہے ،خواہ وہ جماعتیں آکر خبر دیں یاکسی آلۂ خبر کے ذریعہ خبر دیں
مگر آلۂ خبر وہ ہو جس سے براہ راست مخبر کی آواز سنی جا سکے اور اس کی کسی نہ
کسی حد تک پہچان ہو سکے ۔اس طرح حاصل شدہ خبر کو خبر مستفیض ہی قرار دیا جائے
گا۔اب اس کی شکل یہ ہے کہ ایک شہر کا قاضی یااس کا قائم مقام(مثلاً رویت ہلال
کمیٹی) دوسرے ثبوت والے شہر کے جانے پہچانے اتنے افراد سے جن کو متعدد کہا جا سکے
ہر ایک سے الگ الگ نمبر پر ٹیلی فون کے ذریعہ خبریں حاصل کرے ، یہ ساری خبریں مل
کر خبر مستفیض ہو جائیں گی اور اس پر رویت ہلال کے ثبوت کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے
اور بلا تکلف عید وغیرہ کا اعلان کیا جا سکتا ہے ۔قاضی یارویت ہلال کمیٹی کا
دائرۂ عمل جہاں تک ہے وہاں کے رہنے والوں کو اس اعلان پر عمل کرنا لازمی ہوگا ۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ کتنے لوگوں کو متعدد جماعت کہا جائے؟اور ان کی خبر کو خبر
مستفیض کہا جائے ؟ اس کے لیے پہلے یہ متعین کرنا ہوگا کہ ایک جماعت کا اطلاق کتنے
لوگوں پر کیا جائے؟ اگر دو فرد کو ایک جماعت قرار دیا جائے تو متعدد جماعت چار یا
چھ افراد پر مشتمل ہوگی۔یوں ہی اگر ایک جماعت تین کو کہا جائے تو متعدد جماعت میں ۶؍یا۹؍ افراد ہوںگے۔ اسی طرح اگر ایک جماعت چار افراد کو کہا جائے تو متعدد
جماعت ۸؍ یا ۱۲؍ افراد پر مشتمل ہوگی۔ اس مقام پر سب سے زیادہ
خوب صورت بات یہ ہے کہ متعدد جماعت کے مسئلے کو قاضی یااس کے قائم مقام کے صواب
دید پر چھوڑ دیا جائے ،وہ خود تعداد مقرر کرے، وہ تعداد ایسی ہو جن کا غلط بیانی
پر اتفاق کر لینا خود قاضی کی نگاہ میں عادۃً نا ممکن ہو اور جن کی خبروںسے خود
قاضی کو ثبوت ہلال کایقین شرعی(ظن غالب) حاصل ہو جائے ۔ اس مقام پر یہ خاص طور پر ذہن
نشین رہے کہ ایک شکل ہے دور والے سے خود بذریعۂ ٹیلی فون خبر لینا اور دوسری شکل
ہے دور والے کا خود بذریعہ ٹیلی فون خبر دینا ۔ان دونوں شکلوں میں فرق ظاہر ہے۔
پہلی شکل میں ہم اپنے جانے پہچانے لوگوںسے رابطہ پیدا کر کے ان سے خبر لیتے ہیں،
اس لیے اس میں کوئی دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے بر عکس دوسری شکل میں خبر دینے
والوں سے ہم خود بے خبر ہوتے ہیں تو اس میں دھوکے کا امکان ہے کہ خبر دینے والے
اپنے ہم مسلک ہیں بھی کہ نہیں ۔نیز خبر مستفیض کے لیے جتنی تعداد مطلوب ہے اتنے ہی
افراد خبر دے رہے ہیںیا چند لوگ ہیںجوآواز بدل بدل کر کثیر بنے ہوئے ہیں ؟الغرض
دوسری شکل سے قاضی کو وہ یقین حاصل نہیں ہو سکتا جو پہلی شکل سے حاصل ہوتا ہے ،اس
لیے دور فتنہ میں اعتبار پہلی ہی شکل کا ہوگا۔
خبر مستفیض کی تشریح
علامہ رحمتی نے اپنے عہد کے لحاظ سے فرمائی ہے اور یہ خاکسار اس کی تشریح اپنے عہد
کے لحاظ سے کر رہا ہے۔ اس مقام پر یہ ذہن نشین رہے کہ اس خاکسار کی تشریح علامہ
موصوف قدس سرہ کی تشریح کو باطل قرار نہیں دیتی، بلکہ خبر مستفیض کی ایک دوسری شکل
کی نشان دہی کرتی ہے ۔اس خاکسار کی تشریح کو بہت سے علمائے کرام کی تائید حاصل ہو
چکی ہے اور بعض مقامات پر اس پر عمل بھی شروع ہو گیا ہے ۔ اس تشریح نے بحمدہ تعالی
بہت سارے فتنوں کا سد باب بھی کر دیا ہے۔‘‘
مفتی عبید الرحمن رشیدی
(کٹیہار بہار)کی تحقیق
علامہ مفتی عبید
الرحمٰن رشیدی فاضل اشرفیہ مبارک پور اور سجادہ نشین آستانۂ عالیہ رشیدیہ جون
پور کی شخصیت فقہ و تصوف کے حوالے سے ایک معتبر و مستند شخصیت ہے۔ علمی رسوخ،
عالمانہ وقار، تواضع اور اعتدال کے سبب مختلف فقہی مسائل و مباحث میں منفرد
فکروتحقیق رکھنے کے باوجود وہ علما میں غیر متنازع اور محبوب ہیں۔خبر مستفیض کے
سلسلے میں ان کی ایک مختصر تحریرمیرے سامنے ہے۔ یہ تحریر مجھے مولانا ابرار رضا
رشیدی مصباحی نے بذریعۂ ای میل بھیجی ہے جو حضرت مفتی صاحب قبلہ کے مرید ہیں۔ اس
تحریر کا عنوان ہے:’’موبائل کی خبروں سے استفاضۂ شرعی کا تحقق‘‘۔ اس تحریر میں
انہوں نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی تحریروں کو اپنے مدعا کے اثبات میں پیش کیا
ہے۔لکھتے ہیں:
’’ثبوت ہلال کے طریقوں میں سے ایک طریقہ استفاضۂ
شرعی بھی ہے جو از قبیل شہادت نہیں بلکہ از قبیل خبر ہے جب کہ مشہور اور با تحقیق
ہو۔ فتاوی رضویہ میں ہے:
"ہمارے ائمہ نے صرف استفاضہ و اشتہار کافی نہ جانا
بلکہ اس کے ساتھ تحقیق کی قید زیادہ فرمائی۔‘‘ (۴؍۵۶۲)
معلوم یہ ہوا کہ خبر
مشہور اگر با تحقیق ہو تو یہ استفاضۂ شرعی ہے اور ثبوت ہلال میںمعتبر ہے ۔اب رہی
یہ بات کہ علامہ رحمتی نے استفاضۂ شرعی کا جو معنی بتایا ہے کہ بلدۂ ثبوت سے
متعدد جماعتیں آکر بیان دیں تو یہ ان کے دور کے اعتبار سے ہے کہ ان کے دور میں
تحقیق کی یہی ایک صورت تھی ۔ موجودہ ذرائع ابلاغ ان کے دور میں نہیں تھے مگر اس کے
یہ معنی نہیں کہ تحقیق اسی معنی میں منحصر ہو۔‘‘
اگلے صفحہ پر لکھتے ہیں:
’’اعلی حضرت کے دور میں ٹیلیفون کا حال تار جیسا
تھا یعنی جس طرح تار کی خبر میں وسائط کثیرہ ہوا کرتے ہیں ، اسی طرح ٹیلیفون کی
خبر میں بھی وسائط ہوا کرتے تھے، مخبر کی خبر براہ راست موصول نہیں ہوا کرتی تھی،
اس لیے اعلی حضرت کے فتاویٰ میں عام طور پرٹیلی فون کا وہی حکم دیا گیا جو تار کا
تھا، پھر یہ کہ تار ہو کہ ٹیلیفون یا موبائل اگر ان کے ذریعہ موصولہ خبر حد شہرت
کو نہ پہنچتی ہو تو یہ مطلقاً غیر معتبر ہے، اس لیے کہ نہ تو یہ شہادت ہے، نہ
استفاضہ اور اگر حد شہرت کو پہنچتی ہو مگر بے تحقیق ہو تو یہ بھی غیر معتبر ہے اور
افواہ ہے اور اگر حد شہرت کو پہنچتی ہو اور بے تحقیق نہ ہو بلکہ با تحقیق ہو تو یہ
استفاضۂ شرعی ہے اور معتبر ہے ، موبائل کا حال، تار،ٹیلی فون سے کافی مختلف ہے،
اس میں وسائط نہیں ہوتے، مخبر کی خبر براہ راست موصول ہو جاتی ہے۔یہ خبر لا یعلم
من اشاعھا کی منزل میں نہیں ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر مختلف جگہوں سے رویت ہلال کی خبریں
موصول ہوں اور باتحقیق ہوں تو یہ استفاضۂ شرعی ہوجائیں گی۔‘‘
چاند کے ثبوت کے دیگر
ذرائع میں ایک اعلان قاضی بھی ہے۔ رویت ہلال کے سلسلے میں قاضی کا اعلان اس کے
دائرۂ قضا میں ثبوت ہلال کے لیے ایک معتبر ذریعہ ہے۔ ماضی میں اعلان کے لیے منادی
کا استعمال ہوتا تھا ۔ایک شخص نگاڑا پیٹتا ہوا گشت کرتا اور حاکم شہر یا قاضی شہر
کی طرف سے اعلان کرتا جاتا ۔اعلان کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مسجد کے مینارے پر
شمع روشن کر دی جاتی یا توپ داغ دی جاتی ،اس حوالے سے علامہ ابن عابدین شامی کی
عبارت اس مضمون کے آغاز میں گزر چکی ۔
سوال یہ ہے کہ اس زمانے
میں رویت کے اعلان کے لیے حاکم اسلام ،قاضی اسلام یا مفتی شہر کون سا طریقہ
اپنائے۔کیا آج بھی عظیم الشان اور پر شور شہروں کے گلی کوچوںمیں نگاڑا پیٹا جائے
یا جامع مسجد کے میناروں پر قندیل روشن کی جائے؟ اب تو شہر اتنے بڑے ہو چکے ہیں کہ
قندیلوں کی روشنی اور توپوں کی آواز پورے شہر میں بھی نہیں پہنچ سکتی چہ جائے کہ
اطراف کی بستیوں تک پہنچ سکے۔
آج مسلم اور غیر مسلم
حکومتیں اپنا اعلان ٹیلی ویژن،ریڈیو، اخبارات اور انٹر نیٹ کے ذریعے کرتی ہیں۔ آج
خود مسلمانوں کے اپنے ٹیلی ویژن چینل ہیں ،ایف ایم ریڈیو چینل آسانی سے چھوٹے
چھوٹے ادارے اپنے طور پر قائم کر لیتے ہیں، بعض اخبارات مسلمان خود نکالتے ہیں،
اکثر بڑے مدارس ،خانقاہوں،علما کی اپنی ذاتی ویب سائٹس ہیں،ان وسائل کا استعمال کر
کے آج رویت ہلال کا اعلان کیوں نہیں ہو سکتا؟اعلان رویت ہلال کے لیے ان جدید ذرائع
کے استعمال سے کون سی چیز مانع ہے؟بطور خاص اس زمانے میں جب کہ ان ذرائع سے شائع
خبروں کی تحقیق بہت ہی آسان ہے۔ کیا صرف اس لیے ان ذرائع اعلان کو مسترد کردیا
جائے کہ یہ ذرائع ماضی میں نہیں تھے؟یا اس لیے انہیں رد کردیاجائے کہ ڈھول تاشہ
اور نگاڑا بجانے، شمع روشن کرنے اور توپ داغنے کے بہ نسبت ان ذرائع میں شبہات اور
احتمالات زیادہ ہیں؟ کیا واقعی ایسا ہے؟ قاضی شہر کے ذاتی موبائل نمبر سے اطراف
اور قرب و جوار کے ائمہ و مدرسین رابطہ کریں اور قاضی کی طرف سے بتایا جائے کہ
رویت کا اعلان کردیا گیا ہے تو کیا یہ اطلاع کافی نہیں؟کیا اس دلیل میں مینارکی
قندیلوں سے بھی کم روشنی ہے؟یہ مسئلہ بھی حل طلب ہے کہ اگر قاضی القضاۃ فی الملک
اعلان کردے اور وہ اعلان ان جدید ذرائع کے توسط سے اس طور سے ملک بھر میں شائع و
ذائع ہوجائے کہ اس اعلان کا یقین یا ظن غالب حاصل ہوجائے تو کیا اس کے بعد بھی ہر
مفتی محلہ اور امام مسجد کے لیے عینی شاہد کے مطالبے کاحق رہتا ہے؟آخر ہمیں کیا
ہوگیا ہے کہ شریعت تو آسانی چاہتی ہے لیکن ہم پریشانی اور مشکل پسندی کی خواہاں
ہے؟
علامہ غلام رسول سعیدی
کا موقف
شارح صحیح مسلم محقق
عصر علامہ غلام رسول سعیدی (پاکستان) لکھتے ہیں:
’’حکومت پاکستان نے ہر بڑے شہر میں ایک زونل رویت
ہلال کمیٹی بنائی ہے اور ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی ہے۔ جس شہر میں چاند کا ثبوت
شرعی ہو جائے تو اس شہر کی رویت ہلال کمیٹی چاندکا فیصلہ کرتی ہے اور اپنے اعلان
سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو مطلع کرتی ہے اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا چیر مین
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ اس فیصلے کا اعلان پورے ملک میں نشر کرتا ہے اور ملک
کے مسلمان اس فیصلہ کے مطابق روزے اور عید وغیرہ کے احکام بجا لاتے ہیں۔ بعض علما
کی طرف سے رویت ہلال کمیٹی پر مسلسل اعتراضات کیے جاتے ہیں، اگر حسن نیت سے مسئلہ
کی چھان بین کے لیے اعتراضات کیے جائیں تو یہ مستحسن امر ہے؛کیوں کہ اس سے مسئلہ
کے تمام پہلو واضح ہو جاتے ہیں اور اگر رویت ہلال کمیٹی کے طریقۂ کار میں سقم ہو
تو اسے درست کرنے کا موقع ملتا ہے۔ علامہ محمد کرم شاہ الازہری رویت ہلال کمیٹی کے
طریقۂ کار کو دلائل سے واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فقہا ے کرام نے جب توپ کی گونج دار آواز اور
قندیلوں کی روشنی کو طرق موجبہ میں شمار کیا ہے جو رویت ہلال کے لیے شرعی شہادات
ہیں تو ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے اعلان کو طرق موجبہ میں شمار نہ کرنا بے انصافی کی
انتہا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی شرعی شہادات کے بعد رویت کا فیصلہ کرتی ہے اور اس کا
چیر مین صاف الفاظ میں اس کا اعلان کرتا ہے کہ ہم نے شرعی ثبوت کی بنا پر رویت
ہلال کے متحقق ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ کل رمضان ہوگا یا
عید ہوگی ۔اس کے بیان سے جو علم شرعی یعنی غلبۂ ظن حاصل ہوتا ہے وہ اس علم شرعی
سے بدرجہا اقویٰ اور ارفع ہے جو توپ کے داغے جانے سے حاصل ہوتا ہے۔
باقی رہا اعلان رویت
،تو یہ بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی تعمیل ہے جو اس
حدیث مبارک میں مذکور ہے :
ایک اعرابی نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالی میں حاضر ہوا اور عرض کیا :’’یا رسول اللہ !میں
نے رمضان کا چاند دیکھا ہے۔ حضور نے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے بغیر
اور کوئی خدا نہیں ؟ اس نے جواب دیا جی ہاں!پھر فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ
محمد(روحی فداہ)اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے جواب دیا جی ہاں!حضور نے فرمایا: اے
بلال!لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں ۔
اس حدیث کو امام احمد کے سوا پانچ اصحاب صحاح نے
روایت کیا ہے۔
اور کسی روایت میں یہ
نہیں ہے کہ حضرت بلال کے اعلان کو اس بنا پر نظر انداز کر دیا گیا ہو کہ نہ ہم نے
چاند خود دیکھا ہے اور نہ ہمارے سامنے دو گواہوں نے شہادت دی ہے، اس لیے ہم اس
اعلان پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ،سیدھی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ اعلان شرعاً معتبر
نہ ہوتا تو صادق بر حق صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال کو اعلان کرنے کا حکم ہی نہ
دیتے ،حاکم اسلام کے فیصلہ کا اعلان حضرت بلال کی سنت ہے اور اس پر عمل کرنا جملہ
صحابہ کرام کی سنت۔‘‘(شرح صحیح مسلم، ۳؍ ۵۶)
مذکورہ بحث سے یہ واضح
ہوجاتا ہے کہ رویت ہلال کے باب میں جدید ذرائع ابلاغ کے تعلق سے ہندوپاک کے اکثر
علما کا موقف واضح ہے۔ تنگ دامانی کا شکوہ ہے ، ورنہ عالم عرب کے علما کی آرا بھی
نقل کی جاتیںجس سے واضح ہوتا کہ اس باب میں عالم اسلام کے جمہور علما کی عام رائے
کیاہے اور ہم مٹھی بھر دیوانے کہاں جارہے ہیں۔
آخر میں صرف ایک بات
کہوںگا ، وہ یہ کہ ہمیں فقہی معاملات میں فیصلے کرتے وقت عرف اور حالات سے مکمل
چشم پوشی یکسر زیب نہیں دیتی۔ اس چشم پوشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سالہا سال
لکیریں پیٹنے کے بعد جب ہمیں ہوش آتا ہے تو قافلۂ حیات کافی آگے بڑھ چکا ہوتا ہے
اور لوگ ہم پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔ٹیلی ویژن پر اسلامی پروگرام کی نمائش،
لاؤڈاسپیکر پر نماز، ٹرین پر نماز اور اس قسم کے کئی مسائل میں ہم اپنا حشر دیکھ
چکے ہیں۔ رویت ہلال کے باب میں اگر ہم نے دور اندیشی سے کام نہیں لیا اور اپنی
پرانی روش سے باز نہیں آئے تو اس میں بھی ہمارا حشر کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ رویت
ہلال کے باب میں جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کو روکنے کی کوشش کرنا طوفان کو
روکنے کے لیے شتر مرغ کا ریت میں اپنا سر چھپانے جیسا ہے۔فیصلہ ہمارے ہاتھ میں
ہے۔ورنہ ۔ع سب کچھ لٹاکے ہوش میں آئے تو کیا کیے
مقام غور ہے کہ جو امت
چودہ سو سال پہلے سیکڑوں میل کے فاصلے پر بغیر کسی مادی وسیلے کے یا ساریۃ الجبل
کے نعرے سن کر معرکے فتح کررہی تھی اس کے بعض افراد آج اس قدر وہمی ہوچکے ہیں کہ
وہ آج مادی وسائل سے آنے والی آواز کا بھی یکسر انکار کردیتے ہیںاور مستزاد یہ
کہ رویت ہلال کے علاوہ عبادات و معاملات کی دیگر تمام صورتوں میں اس پر یقین بھی
رکھتے ہیں۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بہ کجا!!
ازقلم۔ ذیشان احمد مصباحی