Syed Makhdoom Ashraf Jahangir Simnani


تارک السلطنت حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ

ساتویں صدی ہجری میں ایران کے صوبہ خراسان میں سادات حسینی کی حکومت تھی جسکا دارالحکومت شہر سمنان تھا۔ سلطان سید ابراہیم اس حکومت کے سربراہ تھے جو ظاہری شان و شوکت اور سطوت و جلال کے ساتھ ساتھ باطنی خوبیوں سے بھی پوری طرح بہرہ و ر تھے سلطان سید ابراہیم صرف ایک بیدار مغز حکمران ہی نہ تھے بلکہ متقی و پرہیز گار عالم باعمل بھی تھے۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ ان ہی دین و دنیا کی دولت سے مالا مال مکرم و محترم شخصیت کے فرزند ارجمند تھے سرزمین ہندوستان میں جن بزرگوں کے فیض قدوم سے شمع اسلام فروزاں ہوئی اور جنکے نقوش پاک کی برکت سے اس شمع کی روشنی ہر چہار سمت پھیلی ان مقدس ہستیوں میں سے ایک حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ذات با برکت ہے ۔


ولادت باسعادت
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کی ولادت بھی اپنی جگہ ایک کرامت ہے ۔شہر سمنان میں ایک صاحب حال مجذوب شیخ ابراہیم نامی رہا کرتے تھے ایک روز سلطان سید ابراہیم اور انکی اہلیہ محترمہ شاہی محل کے حرم میں تشریف فرما تھے کہ اچانک شیخ ابراہیم مجذوب اس جگہ پر وارد ہوئے تو سلطان اور ملکہ عالیہ نے ان مجذوب بزرگ کی حد درجہ تعظیم کی انکو نہایت احترام سے اپنی جگہ بٹھایا اور خود انکے سامنے ادب سے کھڑے ہو گئے ۔مجذوب نے پوچھا ’’ابراہیم کیا تو اﷲ تعالی سے بیٹا مانگتا ہے ؟‘‘ یہ سن کر سلطان اور ملکہ بہت خوش ہوئے کیونکہ اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں بہت ملول رہتے تھے اور اکثر بارگاہ خداوندی میں رو رو کر دعائیں کیا کرتے تھے اب مجذوب کی زبان سے اچانک یہ سنا تو دونوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت کی لہریں دوڑ گئیں۔ سلطان نے ادب سے عرض کی ،آپ بزرگ ہیں دعا فرما دیں ۔مجذوب بزرگ نے اولاد نرینہ کی دعا فرمائی اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ چند روز بعد سلطان ابراہیم نے سرور کائنات فخر موجودات ﷺ کو خواب میں دیکھا حضور پُرنور ﷺ نے فرمایا ’’ اے ابراہیم ! تجھ کو اﷲ تعالی دو فرزند عطا کرے گا بڑے کا نام اشرف اور چھوٹے کا نا م اعراف رکھنا اشرف اﷲ کا ولی ہو گا اور مقرب بارگاہ ایزدی ہو گا۔اسکی پرورش اور تربیت بھی خاص طریقے سے کرنا ۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کی ولادت سے تین ماہ قبل اہل سمنان نے ایک مجذوب کو دیکھا جو شہر کے گلی کوچوں میں نہایت بلند آواز میں صدا لگا رہا تھا ’’ با ادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں ‘‘ اس مجذوب کو سب سے پہلے اس سپاہی نے دیکھا جو شہر سمنان کی فصیل پر پہرہ دے رہا تھا کیونکہ رات کو شہر کے دروازے بند کر دئیے جاتے تھے تاکہ ڈاکو و لٹیرے اندر داخل نہ ہوسکیں ۔رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی یہ آواز جب اسکے کانوں پہنچی تو وہ بڑا حیران ہوا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے مجذوب کو فصیل کے اندر پایا کیونکہ فصیل اتنی بلند تھی کہ بغیر کسی ذریعے کے اسکو عبور کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں تھا اب سپاہی پردہشت طاری ہو گئی اور وہ حیرت سے مجذوب کی جانب دیکھ رہا تھا جس کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی اور وہ مسلسل یہی صدا لگا رہا تھا ’’ با ادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں ‘‘ اس آواز سے شہر سمنان کے در و دیوار گونج رہے تھے لوگ حیران تھے کہ یہ دیوانہ کون اور کس کے آنے کی خبر دے رہا ہے ۔یہ وہی شیخ ابراہیم مجذوب تھے جنہوں نے سلطان سید ابراہیم کو فرزند سعید کی بشارت دی تھی ۔اور اب ان کی ولادت سے تین ماہ قبل یہ خبر پورے شہر سمنان میں پھیلا دی تھی ۔آخر مجذوب کی دعا اور حضور پرنور ﷺ کی بشارت پوری ہوئی اور۷۱۲؁ھ کو حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ولادت باسعادت ہوئی ۔


تعلیم و تربیت :
سلطان خراسان سلطان سید ابراہیم نے اپنے فرزند کی تعلیم حفظ قرآن سے شروع کروائی اور تربیت پر بطور خاص توجہ دی سات سال کی عمر میں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے بفضل خدا قرآن کریم مع سات قرأت کے حفظ کیا اور چودہ سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ میں عبور حاصل کر لیا ،حضرت مخدوم سمنانی کمسنی ہی میں حضرت شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور صاحب کشف کرامت بزرگ تھے حضرت رکن الدین کی خصوصی توجہ اور اپنے جذبہ صادق کی وجہ سے حضرت مخدوم سمنانی تیزی سے راہ سلوک پر گامزن ہو گئے ۔ جب آپ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو آپ کے والد ماجد سلطان سید ابراہیم وصال فرما گئے ۔ اس طرح اس کم عمری میں سلطنت سمنان کی ذمہ داری کا بار گراں آپکے کندھوں پر آگیا لیکن آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایسا بہترین نظام چلایا کہ لوگ حیران رہ گئے ۔ آپنے اپنے۷۲۷؁ھ سے۷۳۷؁ھ تک دس سال نہایت عدل و انصاف سے حکومت کی اسی دوران حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ کو ’’اسم ذات‘‘ بغیر مدد زبان ورد کرنے کی مشق کرائی اور اس کا ورد کرنے کا حکم دیا ،آپ نے اس ورد کی مشق مسلسل دو سال کی ۔ اس مشق کے بعد اشغال اویسیہ کی جانب رجوع ہوئے تو خواب میں حضرت اویس قرنی رضی اﷲ تعالی عنہہ کی زیارت ہوئی جنھوں نے براہ راست آپ کو اشغال اویسیہ کی تعلیم دی اور اجازت شغل مرحمت فرمائی۔

ترک سلطنت:
آخر وہ وقت آگیا جب آپکو دنیا کی حکومت سے دستبردار ہو کر روحانیت کی بادشاہت پر سرفراز ہونا تھا۔ ۷۳۷؁ھ ۲۷رمضان المبارک کی شب تھی کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا ’’حجاب تخت و تاج دور کر کے لذت وصل الٰہی کے لئے تیار ہو جاؤ حضرت علاؤ الدین گنج نبات تمہارے منتظر ہیں ۔صبح ہوتے ہی آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سید اعراف کی تخت نشینی کا اعلان کیا اور خود ہمیشہ کے لئے تخت و تاج سے دستبردار ہو گئے ،اس وقت آپکا سن ۲۵ سال تھا اور آپ دس سال حکومت فرما چکے تھے ۔آپنے والدہ محترمہ سے سفر کی اجازت لی تو انہوں نے فرمایا بیٹا اس طرح نہ جاؤ لوگ کیا کہیں گے کہ سمنان کا شہنشاہ تن تنہا ہ جا رہا ہے لہذا شہر سے نکلتے وقت وزراء امراء اور کچھ محافظ ساتھ رکھو تاکہ رعایا سمجھے کہ بادشاہ کسی مہم پر جا رہا ہے ۔ والدہ محترمہ کے حکم پر آپ نے وزراء امراء اور کچھ محافظوں کو اپنے ساتھ لیا اور شہر سمنان سے نکل کھڑے ہوئے کچھ دور چلنے کے بعد آپ نے ان تمام وزیروں اور محافظوں کو واپس کر دیا اور خود تن تنہا منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گئے ۔سب سے پہلے آپ ملتان کے نواح میں قصبہ اوچ شریف میں وارد ہوئے جہاں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اﷲ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ جب حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اوچ شریف پہنچے تو حضرت مخدوم اس وقت اپنے مریدین کو تعلیم دے رہے تھے اچانک انہوں نے فرمایا ’’ بوئے یار می آید‘‘ مجھے اپنے دوست کی خوشبو آرہی ہے یہ کہہ کر تیزی سے اپنی خانقاہ کے دروازے کی طرف آئے اسی وقت حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی وہاں پہنچے تو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے آگے بڑھ کر آپکی پیشانی کو بوسہ دیا اور سینے سے لگایا اور فرمایا ’’سرداری و سیادت کے باغ میں ایک مدت بعد نسیم بہار آئی ہے ‘‘ پھر فرمایا عزیز جلدی راہ سلوک میں قدم رکھو برادرم علاؤالدین تمہارے منتظر ہیں ۔ پھر کچھ عرصے اپنی خانقاہ میں ٹھہرا کر چلہ کشی کرائی اور تمام روحانی نعمتیں عطا فرمائیں اور خرقہ خلافت عطا فرمانے کے بعد فرمایا :اب تک جن اکابرین سے میں نے استفادہ کیا ہے وہ سب تمہیں عطا کر دیا ۔ان تمام نعمتوں سے سرفراز ہوکر آپ پا پیادہ یہاں سے روانہ ہو گئے اور ہندوستان کے قصبہ بہار اس وقت پہنچے جب مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد ےٰحییٰ منیری رحمتہ اﷲ علیہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا حضرت مخدوم نے وصیت فرمائی تھی کہ انکی نماز جنازہ وہی شخص پڑھائے گا جو صحیح النسب سید ہو ۔ تارک السلطنت ہو اور سات قرأت کا قاری ہو وہ مغرب کی طرف سے کالا کمبل اوڑھے نمودار ہو گا اسی سے میری نماز پڑھوانا ۔ یہ سب شرطیں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی میں موجود تھیں اس لئے انہوں نے ہی حضرت مخدوم کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی اور تجہیز و تکفین کے بعد مزار کے پاس مراقبہ کیا تو انکو اپنے سامنے پایا انہوں نے روحانی طور پر آپکو تمام نعمتوں سے نوازا اور فرمایا ’’فرزند اشرف ‘‘ کاش تم میرے حصے میں آئے ہوتے لیکن تمہیں بھائی علاؤ الدین آواز دے رہے ہیں میں اب تمہیں زیادہ دیر نہیں روک سکتا جاؤ یہ سفر تمہیں مبارک ہو ۔سید اشرف جہانگیر سمنانی یہاں سے روانہ ہوئے دشت و بیاباں کو ناپتے ،ندی نالوں کو پھلانگتے ،پہاڑوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔صحراء کے کانٹوں اور چٹانوں کے نوکیلے پتھروں پاؤں زخمی کر دئیے اﷲ اﷲ طلب حق کایہ راہی اور راہ سلوک کا یہ مسافر جو بھوکا پیاسا بے سرو سامان صحراؤں کو پیدل ناپ رہا ہے یہ کون ہے یہ شہنشاہ شمنان ہے فلک بوس محلوں کا مکیں کوہ و بیاباں میں گزر اوقات کر رہا ہے جہاں رات ہوئی وہاں ٹھہر جاتے اور فجر تک عبادت میں مصروف رہتے صبح ہوتے ہی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے ۔جنگلوں کے پُر خطر راستوں اور پہاڑوں کی ہیبت ناک وادیوں کو پیچھے چھوڑکر اور سینکڑوں میل کی دشوارگزار راہیں طے کر کے سر زمین بنگال میں قدم رکھا اور پنڈوا شریف کے قریب پہنچ گئے جہاں شیخ علاؤ الدین علاؤ الحق گنج نبات رحمتہ اﷲ علیہ رشد و ہدایت کے جواہر لٹا رہے تھے اور یہی آپ کے سفر کی آخری منزل تھی ۔
جس وقت آپ پنڈوا شریف کے قریب پہنچے تو حضرت شیخ علاؤ الدین گنج نبات رحمتہ اﷲ علیہ اپنے مریدین کو طریقت کی تعلیم دے رہے تھے انہوں نے اہل محفل سے فرمایا ’’ بوئے یار می آید‘‘ مجھے اپنے دوست کی خوشبو آرہی ہے جس کا دو سال سے ہم انتظار کر رہے ہیں وہ عنقریب یہاں پہنچنے والا ہے ۔پھر تمام مریدین کے ہمراہ شہر سے باہر تشریف لائے اور سید اشرف جہانگیر سمنانی کا استقبال کیا اور اپنے ساتھ پالکی میں بٹھا کر خانقاہ تک لائے خانقاہ پہنچنے کے بعد آپکو بیعت کیا اور فرمایا فرزند اشرف جس وقت تم سمنان سے چلے تھے اس وقت سے میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں بارہ سال رہے اور سخت ریاضت و مجاہدے کئے مرشد کامل نے آپ کو اپنی تمام روحانی نعمتیں عطا کیں اور خرقہ و خلافت سے نوازا۔


 سیاحت و دین تبلیغ:
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے پیر و مرشد حضرت علاؤ الدین گنج نبات رحمتہ اﷲ علیہ کے حکم پر تبلیغ دین کے لئے روانہ ہوگئے آپ نے پوری دنیا کی سیاحت کی اور اس دوران لاکھوں انسانوں کو راہ ہدایت دکھائی تبلیغ کے سلسلے میں بڑی بڑی رکاوٹیں آئیں اور بہت ہی خطرناک جادوگروں سے مقابلے ہوئے ،لیکن کوئی بھی آپکے سامنے نہ ٹھہر سکا آپ نے اس سلسلے میں تقریر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تحریری کام بھی جاری رکھا آپ نے 31تصنیف فرمائیں جو مرور ایام کے ساتھ ساتھ وہ ناپید ہو گئیں ، لیکن اب بھی الحمد اﷲ 10کتابیں ایسی ہیں جو صحیح حالت میں ہیں ۔ اور عالم اسلام کی مختلف جامعات میں محفوظ ییں اکثر کتابیں فارسی میں تھیں بعد میں آپ نے ان کا عربی میں ترجمہ کیا جسطرح ایک کتاب فوائد العقائد تھی یہ کتاب فارسی میں تھی بعد میں اسکا عربی میں ترجمہ کیا گیا ۔ آپ کے خلیفہ و جانشین حضرت سید عبدالرزاق نورالعین فرماتے ہیں کہ جب آپ عرب میں تشریف لے گئے تو بدوؤں نے تصوف کے مسائل جاننے کی خواہش کی تو آپ نے فوائد العقائد کا عربی زبان میں ترجمہ کیا آپکی تصانیف میں لطائف اشرفی کو بڑی اہمیت حاصل ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ نے تصوف کے بڑے اہم اسرار و رموز بیان فرمائے ہیں طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے یہ کتاب دیگر جامعات کے علاوہ جامعہ کراچی کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔
سید اشرف جہانگیر سمنانی صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اردو زبان کے پہلے ادیب بھی مانے جاتے ہیں ۔ چنانچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ آپ کا ایک رسالہ اردو نثر میں ’’ اخلاق و تصوف‘‘ بھی تھا۔ پروفیسر حامد حسن قادری ؒ کی تحقیق بھی یہی ہے کہ اردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالہ ’’اخلاق و تصوف‘‘ ہے جو ۷۵۸؁ھ مطابق ۱۳۰۸؁ ء میں میں تصنیف کیا گیا یہ قلمی نسخہ ایک بزرگ مولانا وجہہ الدین کے ارشادات پر مشتمل ہے اور اس کے ۲۸ صفحات ہیں قادری صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مذکورہ رسالہ اردو نثر ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی پہلی کتاب ہے اور داستان تاریخ اردو میں لکھے ہیں ۔ اردو نثر میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں پس محققین کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی اردو نثر نگاری کے پہلے ادیب و مصنف ہیں۔

وصال مبارک:
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی زندگی سیاحت و تبلیغ دین میں گزاری اور سیاحت کے دوران کئی سو بزرگان دین سے فیض حاصل کیا ۔سن ۸۳۲؁ھ میں ہندوستان میں ہندؤں کے مقدس مقام اجودھیا کے قریب پہنچے اور کچھوچھہ شریف میں اپنی خانقاہ قائم کی ۔محرم الحرام کا چاند دیکھ کر آپ نے بڑی طمانیت کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا’’ کاش جد مکرم حضرت سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی موافقت جلد نصیب ہوتی اسکے بعد آپ کی طبعیت ناساز ہوگئی اور آپ بستر علالت پر دراز ہو گئے اور آپ نے مریدین کو بلا کر فرمایا میں چاہتا ہوں کہ میری قبر میری زندگی میں تیار ہو جائے ۔حسب الحکم لحد مبارک تیار کی گئی اور اس وقت نصف محرم گزر چکا تھا آپ ایک قلم اور کاغذ لے کر قبر میں تشریف لے گئے اور وہاں بیٹھ کر مریدین کے لئے ہدایت نامہ تحریر فرمایا جس میں اپنے عقیدے اور مسلک کی وضاحت فرمائی اور مریدین کو راہ سلوک طے کرنے دین کے احکام پر پوری استقامت کے ساتھ عمل کرنے اور شریعت اور طریقت پر عمل کرنے کی سخت تاکید فرمائی یہ ہدایت نامہ رسالہ قبریہ کے نام سے مشہور ہے ۔
آپ نے اپنے حجرہ خاص میں مریدین اور خلفاء کی موجودگی میں حضرت سید عبدالرزاق نورالعین کو طلب فرمایا اور انکو خرقہ مبارک تاج اشرفی اور تبرکات خاندانی عطا فرما کراپنا جانشین مقرر فرمایا ۔ ظہر کے وقت آپ نے نورالعین کو امامت کا حکم دیا اور خود انکی اقتداء میں نماز پڑھی ۔نماز کے بعد آپ خانقاہ میں رونق افروز ہوگئے اور سماع کا حکم فرمایا قوالوں نے شیخ سعدی کے اشعار پڑھے ایک شعرپر آپ کو کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وجد کی کیفیت میں خالق حقیقی کے دربار اقدس میں پہنچ گئے ۔آپ کا مزار پر انوار کچھوچھہ شریف ضلع فیض آباد یو پی میں مرجع خلائق ہے ۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب الاخبار الاخیار میں فرماتے ہیں کہ آپکا مزار کچھوچھہ شریف میں ہے یہ بڑا فیض کا مقام ہے اس علاقے میں جنات کو دور کرنے کے لئے آپ کا نام لینا تیر بہدف ہے۔
آپ کا مزار مبارک کچھوچھہ شریف میں آج بھی مرجع خلائق ھے اگرچہ مخدوم سمنانی کے وصال مبارک کو چھ سو سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے لیکن آج بھی آپکی یاد لوگوں کے دلوں میں موجود ہے آپکا عرس مبارک ہر سال۲۶تا۲۸ محرم الحرام کو کچھوچھہ شریف میں نہایت شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔جسمیں ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی لوگ وہاں جا کر شرکت کرتے ہیں ۔

سلسلہ اشرفیہ:
حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کی نسبت سے یہ سلسلہ اشرفیہ کہلاتا ہے ۔ حضرت مخدوم سمنانی نے کیونکہ مناکحت نہیں فرمائی تھی اس لئے کوئی صلبی اولاد حضرت نے نہیں چھوڑی حضرت شاہ عبد الرزاق نورالعین حضرت کے روحانی فرزند خلیفہ اول اور پہلے سجادہ نشین تھے اس لئے آپکی اولاد ہی حضرت مخدوم کی اولاد کہلاتی ہے ۔اور اسی نسبت سے یہ خاندان خاندان اشرفیہ اور اس کے مریدین کا سلسلہ ۔سلسلہ اشرفیہ کہلاتا ہے ۔اس سلسلہ اشرفیہ میں وقتاً فوقتاً بڑی علمی و روحانی جلیل القدر ہستیاں گذری ہیں جن میں ہم شبہیہ غوث الاعظم حضرت ابو احمد محمد علی حسین اشرفی المعروف اشرفی میاں رحمتہ اﷲ علیہ ۔ حضرت محدث اعظم ہند سید محمد اشرفی کچھوچھوی اور قطب ربانی حضرت ابو مخدوم شاہ سید محمدطاہر اشرف الا شرفی الجیلانی رحمتہ اﷲ علیہ اور اشرف المشائخ حضرت ابو محمد شاہ سید محمد اشرف الاشرفی الجیلانی قدس سرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔سلسلہ اشرفیہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے مریدین و معتقدین اسوقت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں علماء و مشائخ بھی کثیر تعداد میں شامل ہیں۔