ہندوستانی صوفی و مفتی مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند علامہ فضل حق شہید بن
مولانا فضل امام خیر آبادی مسلم رہنمائے جنگ علمائے اہل سنت میں سے تھے۔ فضل حق
خیر آبادی 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے۔ وہ ایک فلسفی، ایک شاعر، ایک مذہبی
عالم تھے، لیکن ان کے شہرت کی بنیادی وجہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انگریز قبضہ
آوروں کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔آپ علیہ الرحمہ 1797ء کو خیرآباد کے علاقے میں پیدا ہوئے،
اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کیے گئے،تصانیف چھوڑ
یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندوستان کو انگریزوں کے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت
کی، عشق ومحبت رسول پر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ علامہ فضل حق خیرآبادی بہت
بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری
ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سور ما ایسے تھے جو گوشہ عافیت کی تلاش میں
مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے
کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا
اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار
تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔مئی ۱۸۵۷ء
میں میرٹھ اور دوسری چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا معاملہ زور پکڑ چکا تھا ۔ گائے اور
سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے مسلم اور ہندوفوجی بگڑ بیٹھے تھے۔علامہ عبدالشاہد
شیروانی لکھتے ہیں:علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے۔مشورہ کے بعد علامہ نے آخری
تیر ترکش سے نکالا۔بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی)میں علما کے سامنے تقریر
کی۔استفتا پیش کیا ۔مفتی صدرالدین آزردہ،مولوی عبدالقادر،قاضی فیض اللہ دہلوی،
مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور سید مبارک شاہ رام
پوری نے دستخط کیے۔اس فتوی کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔دہلی میں نوے
ہزار فوج جمع ہوگئی تھی ۔فتویٰ "جہاد” مسلمانوں کے لئے کیسی حیثیت رکھتا ہے
یہ انگریزوں کو علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کے فتوی جہاد دینے کے بعد
محسوس ہوا۔ دہلی سے علمائے کرام کی جانب سے جاری اس فتوے کے بعد مسلمان جوق در جوق
اپنی جانوں کی پروا کئے ہوے بغیر نکل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر میں
انگریزوں کے خلاف آزادی کی ایک عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ
کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ لڑائی جھگڑا ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔
مگر انگریزوں نے کچھ کو ڈرا دھمکا کر اور کچھ کو حکومتی لالچ دیکر اس تحریک آزادی
کو کچل دیا-آزادی کی اس تحریک کوکُچل تودیا گیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی
نے آزادی کا جو سنگ بنیادرکھا تھا تقریبا نوے سال بعد اس پر ہندوستانی جیالوں نے آخری
اینٹ رکھ کر تعمیر مکمل کردی۔ جزیرہ انڈمان کی جیل میں ایک سال دس ماہ تیرہ دن
اسیری میں رہ کر 12/صفرالمظفر 1278ھ، مطابق 20/ اگست 1861ء کو جہانِ فانی سے رخصت
ہوئے۔ آج بھی آپ کی قبر "آزادی” کی آذانیں سنا رہی ہے۔
مختصر سوانحِ حیات حضور شیخ الہند پیر سید شاہ
کمیل اشرف اشرفی الجیلانی
ازقلم :بلال اشرفی،ممبئی
حضرت پیر سید کمیل اشرف الاشرفی الجیلانی علیہ
الرحمہ
حضور شیخ الہند خانوادۂ اشرفیہ کے چشم و چراغ
تھے۔ آپ مخدوم ابنِ مخدوم تھے۔آپ کے والدِ بزرگوار حاجی الحرمین تاج دارِ
اشرفیت پیر سید طفیل احمد اشرفی الجیلانی المعروف حضور مخدومِ ثانی تھے
جن کا آستانہ آج بھی کچھوچھہ مقدسہ میں مرجعِ خلائق ہے۔ آپ سلطان الواعظین
مولانا سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی کے نواسے اور حضور سرکارِ کلاں
حضرت سید محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی کے ہمشیرزادے ہیں۔
آپ کا شجرۂ نسب حضرت عبد الرزاق نورالعین
جیلانی پروردہ و ہمشیرزادہ و جانشین مخدوم حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی سے
ہوتا ہوا حضور غوث الاعظم شیخ سیدنا عبد القادر الجیلانی علیہ الرحمہ سے ملتا ہے
اور آپ(حضور شیخ الہند) غوثُ العالم مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ
کے خاندان سے ہیں ، لہذٰا آپ کے سر اقدس پر دو اغواث کا دستِ کرم سایہ فگن رہا۔
ولادتِ با سعادت: آپ کی ولادت باسعادت ۱۹۳۴ یا ۱۹۳۵ میں حضور اعلی حضرت سید علی
حسین اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے مسکن میں ہوئی۔
آپ کا نام کمیل اشرف
آپ کے پر نانا حضور اعلی حضرت اشرفی میاں نے خواجہ کمیل ابنِ زیاد جو مولی علی کرم
اللہ وجہہ کے مرید و خلیفہ تھے ان کے نام پر رکھا۔
تعلیم وتربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم کچھوچھہ مقدسہ میں اپنے والدِ گرامی حضور مخدومِ
ثانی کی زیرِ نگرانی ہوئی۔حضرت نے پہلی تقریر 6 سال کی عمر میں حضور محدثِ
اعظمِ ہند اور مولانا سید نعیم الدین مرادابادی علیہما الرحمہ کی موجودگی میں کی۔
جامعہ اشرفیہ میں داخلہ :ہندوستان کی شہرۂ آفاق درس گاہ،دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور
میں حضرت کا داخلہ ۲۰ ذی قعدہ ۱۳۶۸ ھ/۱۳ ستمبر ۱۹۴۹(13sept 1949) میں ہوا۔ آٹھ ۸ برس تک اشرفیہ میں رہ کردرس
نظامی کی تکمیل فرمائی اور ۱۰ شعبان المعظم ۱۳۷۶ھ /۱۲ مارچ ۱۹۵۷ (12march 1957) میں آپ کی دستارِ فضیلت ہوئی۔
عہدِ طالبِ علمی میں آپ نے جن اساتذہ
کرام سے پڑھا اُن میں جلالۃُ العلم حافظِ ملّت حضرت علامہ الشاہ عبد العزیز
محدث مرادآبادی اور علامہ عبد المصطفی اعظمی صاحب جیسے جلیل القدر اور اولوالعزم
علماء تھے۔
دورِ طالبِ علمی میں حضور شیخ الہند کو حافظِ
ملت علامہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے "خطیبِ اصغر” کا لقب عطا فرمایا۔اور اس عمر میں ہی آل انڈیا
کانفرنسوں میں حضور شیخ الہند بحیثیت مقررِ خصوصی مدعو کئے جاتے تھے اور اپنے
خطابِ نایاب سے سامعین کے قلوب میں شمعِ عشقِ مصطفیﷺ روشن فرماتےتھے ۔
آئینِ جواں مردی حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی
نہیں رو باہی
وعظ وخطابت:فراغت کے بعد حضور شیخ الہند نے قریب 60 برس وعظ و
خطابت میں گزارے۔آپ کا اندازِ خطابت بڑا منفرد المثال اور عدیم النظیر تھا۔ جس
کانفرنس میں پہنچ جاتے اس کی کامیابی کی ضمانت بن جاتے۔ آپ کی گفتار کی صحیح
ترجمانی مثنوی شریف کا یہ شعر کرتا ہے:
گفتۂ او گفتہٗ اللہ بود
گرچہ از حُلقوم عبد
اللہ بود
حضرت کی گفتگو میں برجستگی کمال کی تھی۔ سائل
کے لب کو جنبش ہوتی اور حضور شیخ الہند کی زبان مبارک سے جوابِ با صواب حاضر
ہوجاتا۔آپ ایک سنجیدہ صاحبِ قلم بھی تھے،آپ کے مختلف مضامین متعدد رسائل میں شائع
ہوۓ۔
آپ اپنے والد ماجد حضور مخدومِ ثانی سید شاہ
طفیل احمد اشرفی الجیلانی سے بیعت تھے۔دستارِ فضیلت کے بعد آپ کے والدِ گرامی نے
آپ کو سلسلۂ عالیہ قادریہ اشرفیہ اور سلسلہ عالیہ چشتیہ اشرفیہ کی اجازت و خلافت
سے سرفراز کیا۔مزید سرکارِ کلاں حضرت سید محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی نے آپ کو
سلسلۂ عالیہ قادریہ منوریہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔
۵ ربیع الاول ۱۳۹۵ھ19
بمطابق 1975 march میں حضور مخدومِ ثانی کے وصالِ پر ملال کے بعد
آپ ان کے قائم مقام و جانشین ہوۓ اور ہر سال
۵ ربیع الاول کو کچھوچھہ مقدسہ میں عرسِ حضور مخدومِ ثانی منعقد ہوتا جس میں
دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور، دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی جیسے بڑے مدارس کے
علمااور دیگر صوفیا شرکت فرماتے ۔
مساجد ومدارس کی تعمیر :
حضور شیخ الہند تعمیر و ترقی کے شعبے میں بھی
امتیازی خصوصیات کے حامل تھے۔ جہاں بھی دورے کے لئے تشریف لے جاتے وہاں دینی
مدارس،مساجد اور خانقاہیں تعمیر کرواتے۔ حضور شیخ الہند نے کچھوچھہ مقدسہ میں
خانقاہِ اشرفیہ حضور مخدومِ ثانی کے نام سے ہندوستان کی سب سے بڑی، کثیر الوسعت
خانقاہ تعمیر کروائی، جس میں مسافروں کے ٹھہرنے کے لئے 300 کمرے، ایک انتہائی عالی
شان اور خوبصورت جامع مسجد حضور مخدوم ثانی اور دینی مجالس و محافل اور محفلِ سماع
کے لئے ایک کشادہ ہال
Hall تعمیر
کروایا۔ علاوہ ازیں ۱۹۷۵ 1975 میں بسکھاری شریف،کچھوچھہ میں لڑکوں کے لئے سب سے
پہلا مدرسہ دارالعلوم محبوبِ یزدانی اور ۱۹۸۵ 1985میں لڑکیوں کے لئے سب
سے پہلی درسگاہ جامعہ عزیزہ تعمیر کروائی۔ سرزمینِ ممبئی پر گستاخانِ
مصطفی کے مرکزی علاقے آگری پاڑہ میں ۱۹۷۸ 1978 میں ’’المدینہ مسجد ‘‘قائم کی اور وہاں قریب 40 برس میں وعظ و نصیحت
کے ذریعہ باشندگان کے قلوب کو عشقِ رسول و عشقِ اہلِ بیت کا گہوارہ بنادیا۔آپ اس
شعر کے مصداق ہیں :
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم
لاجواب کی
گوامیں مدرسے کا قیام :
سرزمینِ گووا پر شہرِ واسکو VASCO کا سب سے پہلا مدرسہ جامعہ حضور مخدومِ ثانی کی
سنگِ بنیاد رکھی۔
۲۰۰۸ میں ممبئی سے کچھ فاصلے پر ممبرا میں دارالعلوم
مخدومِ سمنانی تعمیر کروایا۔علاوہ ازیں متحدہ عرب امارات DUBAI میں مساجد و مدارس قائم کئے۔مسجد الفُطّیم(دبئی) masjid al futtaim میں آپ کے کافی بیانات ہوۓ۔ عروس البلاد ممبئی میں اُمراو رؤسا شہر آپ کے قدموں میں
رہتے تھے۔ شہر کے رئیس میمن گھرانے آپ کے دامن سے وابستہ رہے۔جب کوئی نا اتفاقی
ہوتی تب آپ نے ہمیشہ مسلمانوں میں صلح کروائی۔
حضور شیخ الہند کے مریدین ممبئی، یو۔پی، فیض
آباد، امرڈوبھا،نیپال حیدرآباد، بنگلور، مدراس، سورت، دھوراجی اور بیرونِ ملک
دبئی، اجمان ، شارجا، سنگاپور، لاہور وغیرہ میں کثیر تعداد میں پاۓ جاتے ہیں۔حضرت کے خلفا کی فہرست بھی بڑی طویل ہے۔
آپ ایک جیّد عالمِ دین اور فاضلِ جلیل ہونے کے
ساتھ ساتھ ایک واعظِ بے بدل، اپنے پیر کے مریدِ صادق، ایک بہترین شاعر، صوفئ
باصفا، حقیقی معنوں میں پیر ِ کامل، مرشدِ برحق اور ایک با اخلاق انسان تھے۔
فنِ شاعری کا ایک نمونہ:
کوئی جانِ بہار آتا ہے
دل کہیں آج داغدار نہ
ہو
جامِ اشرف ہے ہوش میں آؤ
مے کشوں اتنے بے قرار
نہ ہو
اشرفی دور چل رہا ہے کمیلؔ،
تو بھی کیوں آج بادہ
خوار نہ ہو،
د ر و دیوار پر ہے
جلوۂ طور،
یہ کہیں اشرفی دیار
نہ ہو۔
حضور شیخ الہندکالقب :
حضرت پیر سید شاہ کمیل اشرف اشرفی الجیلانی
رحمۃ اللہ علیہ ۲۰۱۳ میں عازمِ عراق ہوۓ،وہاں پر کربلائے معلی، نجف اشرف، کاظمین و دیگر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کرتے
ہوے بغدادِ مقدس پہنچے، اُس وقت دربارِ غوثیہ کے سجادہ نشین شیخ یوسف
الگیلانی نے حضرت کو طلب فرمایا اور اُسی شام بعد نمازِ مغرب آستانہ حضور غوث
الاعظم پر دونوں قادری شہزادوں کی ملاقات ہوئی۔
حضرت شیخ یوسف الگیلانی نے حضرت کی پیشانی کو
بوسہ دیا اور فرمایا "آپ ہمارے رزاقی بھائی ہیں” اور سینکڑوں کے مجمع میں فرمایا "ھذا شیخ الہند ھذا شیخ الہند” اور وہیں دربارِ غوثیہ میں شیخ الہند زندہ باد
کافلک بوس نعرہ بلند ہوا۔
حضور شیخ الہند نے ساری زندگی دین و سنیت اور
سلسلۂ اشرفیہ کی اشاعت میں صرف کردی۔بڑی بڑی کانفرنسوں میں بحیثیت صدر و سرپرست
جلوہ فرما ہوتے۔جیسے ۱۹۸۲
1982 میں
حضورمفتئ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد جلسہ بیادگار حضور مفتئ اعظم جو
مستان تالاب میدان ممبئی میں منعقد ہواتھا اس میں حضور شیخ الہند نے خطبۂ صدارت
پڑھا اوراس کی سرپرستی فرمائی۔
اور تقریباً ۱۲ سال تک ممبئی میں حاجی علی درگاہ
پر شاہانہ انداز سے ہونے والے عرس حضور غوثُ العالم مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی
رحمۃ اللّٰہ علیہ کی سرپرستی فرماتے رہے جس میں علما، صوفیا، و دیگر محبین و
معتقدین کا جمِ غفیر ہوتا۔
شہادتِ امامِ حسین پر حضور شیخ الہند کے
خطبات عدیم المثال تھے۔ جو ربّانی نکات و الہامی غوامض حضرت کی لسانِ مبارک سے
سرزد ہوتے تھے اس کا اثر سامعین کے قلوب پر ایسا ہوتا تھا کہ دورانِ تقریر مجمع
میں کہرام برپا ہو جاتا تھا۔ عشقِ حسین میں آنسؤوں کے دریا بہہ جاتے۔
حضرت شیخ الہند نے گوشت بازار مدنپورہ ممبئی
میں مسلسل ۱۷ برس تک شہدائے کربلا پر وعظ فرمایا علاوہ ازیں شہرِ پونہ و دیگر
بلادِ ہند میں بیانات کا سلسلہ جاری رہا۔
اگر گوئی کہ فخرِ خاندانم
نظربرخاندانِ مصطفی
کُن
دِگر گوئی کہ بر من ظلم گشتم
نظر بر کشتگانِ کربلا
کُن
آپ کی زندگی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
کی سیرتِ مبارکہ کی عکسِ جلی تھی، حضور شیخ الہند صحیح معنوں میں شریعت اور
طریقت کے مجمع البحرین تھے۔
ہے تیری شان میں شانِ علی کمیل اشرف
کہ تو ہے وارثِ غوثِ
جلی کمیل اشرف
شریعت اور طریقت کے
مجمع البحرین
عجب یہ شان ہے تم کو
ملی کمیل اشرف
علمانوازی:
حضور شیخ الہند کو "علماء نواز” بھی کہا جاتا تھا۔ علما کی میزبانی کے لئے اور
مالی امدادوتعاون کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہتے۔
اقوال زریں:
حضور شیخ الہند کے ۳ اقوالِ زریں پیشِ خدمت
ہیں۔
۱) آہنی شمشیر سے کافر کی گردن کٹتی ہے اور شمشیرِ محبت سے
کافر کا کفر کٹتا ہے اور وہ داخلِ اسلام ہوتا ہے۔
۲)نظریں ۳ اقسام کی ہوتی ہیں:
۱ وہ جس سے انسان دیکھتا ہے۔
۲ نظرِ بد جس سے انسان ہلاک ہو سکتا ہے۔
۳ کسی اللّٰہ والے کی نظر کرم اگر پڑ جائے تو
انسان دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جاۓ۔
۳) ہمیشہ لوگوں کو معاف کرو اس بات کو اِس شعر سے سمجھاتے:
مجاہد کا وہ نعرہ ہو کہ کوہ و دشت تھرّاۓ
مگر دشمن بھی زخمی ہو
تو خیمہ میں اُٹھا لاۓ
وصال پرملال:
حضور شیخ الہند سرزمینِ ممبئی پر ۵ نومبر ۲۰۲۰
بمطابق ۱۸ ربیع الول ۱۴۴۲ ھ بروز جمعرات نمازِ ظہر کے وقت دارِ بقا کی جانب روانہ
ہوۓ۔اناللہ واناالیہ راجعون
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے
آبِ بقاۓ دوام لا ساقی
نماز کی پابندی :
آخری دنوں میں بسترِ علالت پر جب بدن کو جنبش
دینا مشکل تھا،اس وقت بھی شریعت محمدی پر کاربند رہتے ہوئے نماز ادا کرتے اور ہاسپٹل روانہ ہونے سے پہلے حضورﷺ کے وقتِ وصال
کے واقعات بیان فرمائے اور اولاد و مریدین کو صبر کی تلقین فرمائی۔
حضرت کو ممبئی میں غسل دیا گیا اور پہلی نمازِ
جنازہ ممبئی میں ادا کی گئی جس کی امامت جانشینِ حضور اشرف العلماء مولانا سید
نظام اشرف اشرفی الجیلانی نے کی
اور دوسری کچھوچھہ
مقدسہ میں ادا کی گئی جس کی امامت حضرت کے فرزندِ ارجمند مولانا سید شاہ احمد اشرف
اشرفی الجیلانی نے کی۔
آپ کا مزار مبارک :
حضور شیخ الہند کا مزارِ فائزالانوار ان کے
پیرومرشد و والد محترم حضور مخدوم ثانی سید شاہ طفیل احمد اشرفی الجیلانی کے مزارِ
مقدس کے پہلو میں کچھوچھہ مقدسہ میں منبعِ فیضانِ اشرفی و حیدری ہے۔
صاحبِ علم و ولایت ہے مرا آقا کمیل
کیوں نہ ہو جب ہے علی
حیدر کا شہزادہ کمیل
حیدر و غوث و معین و اشرف و سید طفیل
مصطفی کی انجمن میں
سب کا ہے پیارا کمیل
ہے بلالِؔ اشرفی کی اول و آخر دعا
تا ابد اللہ رکھے تم
سے وابستہ کمیل
آمین بجاہِ سید المرسلینﷺ
از
قلم: بلال اشرفی،ممبئی