قدوۃ السالکین، زبدۃ العارفین بانی سلسلہ عالیہ وارثیہ حضرت حاجی حافظ سید وارث علی شاہ علیہ الرحمہ

 

قدوۃ السالکین، زبدۃ العارفین بانی سلسلہ عالیہ وارثیہ حضرت حاجی حافظ سید وارث علی شاہ علیہ الرحمہ

عرس: یکم صفرالمظفر 1445 ہجری

آپ علیہ الرحمہ   سلسلۂ وارثیہ کے بانی اور بہت بلند پائے بزرگ ہیں  ۔آپ والد گرامی  (حضرت سید قربان علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ) دیوا ضلع بارہ بنکی (یوپی) میں رہتے تھے، اور وہاں کے رئیسوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ آپ کے خاندان کے بزرگ نیشاپور کے رہنے والے تھے۔ نیشاپور سے سکونت ترک کرکے ہندوستان آئے۔ آپ کی ولادت باسعادت 1232ھ، مطابق 1817ءکو "دیوا شریف" (ضلع بارہ بنکی، اتر پردیش انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ جب آپ کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو آپ کی تعلیم باقاعدہ شروع ہوئی۔ مکتب جانے لگے۔ آپ نے قرآن مجید سات سال کی عمر میں حفظ کر لیا۔ ساتھ ضروری دینی مسائل بھی سیکھ لیے تھے۔ عشق و محبت کے جذبات بچپن ہی سے جنگلوں اور ویرانوں میں لئے پھرتے تھے۔ آپ کا دل شہر میں نہیں لگتا تھا۔ آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ قادریہ میں اپنے بہنوئی حضرت سید خادم علی شاہ لکھنوی کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ آپ کے پیر و مرشد کا قیام لکھنؤ میں تھا۔

 آپ اپنے وقت کے ولیِ کامل تھے۔آپ "سیروفی الارض" پر عمل پیرا تھے۔ خوب سیر و سیاحت کی۔ آپ جنگلوں، بیابانوں اور پہاڑوں میں گھومتے اور قدرتِ خداوندی کا مشاہدہ کرتے رہتے تھے۔ اجمیر شریف سے ممبئی تشریف لے گئے۔ ممبئی سے جدہ گئے۔ 29 شعبان 1253ھ کو مکہ معظمہ پہنچے۔ حج کا فریضہ ادا کرکے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ کچھ دن وہاں رہے، پھر رخت سفر باندھا۔ بیت المقدس، دمشق، بیروت، بغداد، کاظمین، نجف اشرف، کربلائے معلیٰ، ایران، قسطنطنیہ کی سیاحت کرکے اور درویشوں سے مل کر پھر مکہ پہنچے۔ حج سے فارغ ہوکر افریقہ تشریف لے گئے۔ وطن واپس آکر آپ نے دیکھا کہ مکان شکستہ ہو چکا ہے اور آپ کے ساز و سامان پر آپ کے رشتہ دار قابض ہیں۔ ان کو یہ فکر ہوئی شاید آپ جائیداد وغیرہ واپس لیں گے اور ممکن ہے عدالتی کارروائی کریں ان لوگوں کی بے اعتنائی اور بےرخی سے آپ کو تکلیف پہنچی، آپ نے وطن میں زیادہ قیام کرنا مناسب نہیں سمجھا اور نہ آپ نے شادی کی پھر آپ  ہمیشہ کے لئے جائیداد، مکان، ساز و سامان وغیرہ سے بےنیاز  ہوگئے۔

آپ کے مریدین نے بہت شہرت پائی، جن میں حضرت بیدم شاہ وارثی، حیرت وارثی، عنبر شاہ وارثی، حضرت اکمل شاہ وارثی حضرت عزت شاہ وارثی نمایاں  حیثیت کے حامل ہیں ، وارثی طریقۂ درویشی انہی سے منسوب ہے۔ان کے پیروکاروں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ عام طور پر زرد رنگ کا احرام باندھتے ہیں ۔سبز، کالا ، کلیجی اور سفید احرام بھی باندھا جاتا ہے۔ آپ نے سخت مجاہدانہ زندگی گذار کر 30/محرم الحرام 1323ہجری، مطابق 7/اپریل 1905عیسوی میں ضلع بارہ بنکی کے قصبہ دیوہ شریف میں اس جہانِ فانی سے پردہ فرمایا اور آپ کا مزار "دیواشریف" ضلع بارہ بنکی یوپی انڈیا میں مرجعِ خلائق ہے۔ ( تذکرہ اولیائے پاک و ہند۔ انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام،ج:6)


حکیم الاسلام حضرت مولانا حسنین رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ

 

حکیم الاسلام حضرت مولانا حسنین رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ

وصال کی تاریخ  : 5 صفرالمظفر

 حضرت مولانا حسنین رضا خان۱۳۱۰ھ/ ۱۸۹۲ء بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ علیہ الرحمہ اعلیٰ حضرت  ﷫کے منجھلے بھائی، حضرت مولانا حسن رضا خاں﷫کے فرزند اکبر مولانا حکیم حسین رضا خاں، فرزند اوسط مولانا حسنین رضا خاں اور فرزند اصغر مولانا فاروق رضا خاں تھے۔آپ علیہ الرحمہ اپنے تایا زاد بھائی، سیّدی سندی مرشدی حضور مفتی اعظم  ہند  علیہ الرحمہ سے صرف چھ ماہ بڑے تھے اور علوم دینیہ کی تحصیل میں دونوں عم زاد ہم سبق رہے ہیں۔رسم بسم اللہ خوانی کے بعد گھر ہی میں حصولِ تعلیم میں مصروف و مشغول ہوئے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی﷫ نے اپنے فرزند اصغر مفتی اعظم کو پڑھانے کے ساتھ اپنے عم زاد حضرت حسنین رضا﷫کو بھی پڑھانا شروع کیا، اور جب فرزند حقیقی اور عم زاد و فرزندِنسبتی، دونوں کی عمریں بارہ برس ہوگئیں، تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ۱۳۲۲ھ/ ۱۹۰۴ء میں دارالعلوم منظر اسلام قائم فرمایا، تو اس دارالعلوم میں دونوں متذکرہ نوجوان، محمد مصطفےٰ رضا، حسنین رضا کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حضرت کے تین تلامذہ مزید، ملک العلماء حضرت علامہ ظفرالدین بہاری اور مولانا عبدالرشید عظیم آبادی اور مولانا نواب مرزا، پانچوں تلامذہ سے دارالعلوم منظر اسلام کا آغاز ہوا۔حضرت علامہ حسنین رضا خاں صاحب نے معقولات کی چند کتب، مناظر اہلسنت حضرت علامہ ہدایت رسول صاحب رامپوری سے بھی رامپور جاکر پڑھیں۔ نیز قطب الارشاد حضرت علامہ مفتی ارشاد حسین رامپوری﷫کے درس میں بھی شریک ہوکر مستفاد ہوئے۔

  اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ  سے شرف تلمذ کے ساتھ ساتھ، اجازت و خلافت بھی حاصل تھی۔  حضرت علامہ حسنین رضا خاں بریلوی ﷫اپنے مادر علمی دارالعلوم منظر اسلام میں بحیثیت مدرس خدمت سر انجام دیتے رہے، بحیثیت مدرس تقرر کے لیے سفارش اعلیٰ حضرت  ﷫نے فرمائی تھی اور تقرر حجۃ الاسلام حضرت علامہ حامد رضا خاں﷫نے فرمایا ،جو مہتمم اول حضرت استاذ زمن مولانا حسن رضا خاں بریلوی﷫کے وصال کے بعد ’’منظر اسلام‘‘ کے مہتمم مقرر کیے گئے تھے۔  آپ علیہ الرحمہ  کے معروف تلامذہ میں شیر بیشۂ اہلسنت حضرت مولانا حشمت علی خاں، حضرت مولانا ابرار حسن صدّیقی تلہری ،مولانا حامد علی رائے پوری، مولانا سردار علی خاں عرف عزو میاں، مولانا ادریس رضا خاں، مولانا اعجاز ولی خاں اور مولانا تقدس علی خاں بریلوی رحمہم اللہ شامل ہیں۔جامعہ رضویہ منظر اسلام میں تدریسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ بریلی شریف سے ایک ماہنامہ ’’الرضا‘‘ جاری کیا۔ یہ ماہوار جریدہ بہت معروف ہوا۔ امام احمد رضا﷫کی حیات میں اس کے متعدد شمارے شائع ہوئے۔ جغرافیائے ہند کے بلا دو امصار میں بذریعہ ڈاک بھیجا جاتا تھا۔  حسنی پریس کی نگرانی اور اعلیٰ حضرت  ﷫کی تصنیفات کی اشاعت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے پورا کرتے تھے۔ نیز حالت حاضرہ کے تحت مختلف فتنوں (تحریک ترک موالات، تحریک ہجرت، متحدہ قومیت، ندوہ تحریک، مرزائیت و قادیانیت، فتنہ وہابیت) کی بیخ کنی کے لیے اور اسلامیان ہند کے ایمان و عقائد کو بچانے کے لیے پمفلٹ، رسائل اور کتابچے شائع کرکے مفت تقسیم کرتے تھے  ۔ مسلمانوں اور بالخصوص غریب مسلمانوں سے آپ کو ہمیشہ قلبی تعلق اور گہرا لگاؤ رہا۔ جہاں امرأ و روسأ آپ کی محفل میں ہوتے وہاں بہت سے ضرورت مند غریب بھی بیٹھے نظر آتے،۔آپ علیہ الرحمہ نے اکیانوے (۹۱) برس کی عمر شریف میں، ۵صفر ۱۴۰۱ھ/ ۱۴؍دسمبر ۱۹۸۰ء میں بروز اتوار وصال پر ملال فرمایا۔


حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ

 

حضرت سیدنا  امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ

ولادت  باسعادت کی تاریخ 7 صفرالمظفر

 

حضرت موسیٰ بن جعفر ساتویں  امام ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ  کنیت ابوالحسن اور ابوابراہیم تھی۔ ان کےعلاوہ اسی طرح کی اور بھی کنیتیں بھی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ  کا لقب کاظم تھا۔      کاظم کا لقب اس لئے دیا گیا تھاکہ آپ (رضی اللہ عنہ) علم میں کامل تھے اور مفسدین پر غصہ نہیں کرتےتھے۔ (تذکرة الخواص صفحہ 312، الکامل  فی التاریخ 6/164)  آپ (رضی اللہ عنہ ) کی والدہ حمیدہ بربریدہ ام ولد (کنیز)تھیں۔  آپ  رضی اللہ عنہ بتاریخ 07 صفرالمظفر 128ھ مطابق 745ء بمقام "ابوا" جو "مکہ" اور "مدینہ" کے درمیان واقع ہے پیدا ہوئے۔آپ بہت بڑے عالم اور محدث تھے بڑے بڑے محدثین نے آپ سے روایت لی ہے چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام موسیٰ کاظم بن جعفر بن محمد باقر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب الہاشمی ابولحسن المدنی الکاظم سے روایت کرنے والے آپ کے دونوں بھائی محمد(ابوجعفرمحمد الدیباج بن جعفر الصادق) اورعلی (علی العریضی بن جعفر الصادق)  ہیں اور آپ کی اولاد سے ابراہیم بن موسیٰ کاظم، حسین بن موسیٰ کاظم ، اسماعیل بن موسیٰ کاظم اور ابوالحسن علی الرضا بن موسیٰ کاظم بھی آپ (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں نیز صالح بن یزید اور محمد بن صدقۃ العنبری  اور سہل بن ابراہیم المروزی بھی روایت کرتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب 18/340، التکمیل فی الجرح /ابن کثیر، مسند الشہاب/امام ابوسلامہ القضاعی، الحجۃ فی بیان الحجۃ /امام قوام السنۃ الاصبہانی، الطب /ابن نعیم) آپ  رضی اللہ عنہ سے  یہ حدیث مروی ہے کہ کھانے سے پہلے وضو کرنا فقر اور غربت کو دفع کرتا ہے، اور  کھانے کے بعد وضو کرنا غم  کو دور کرتا ہے اور نظر کو صحیح رکھتا ہے۔ (میزان الاعتدال فی نقدالرجال 4/202)ابوبصیرکابیان ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام دل کی باتیں جانتے تھے اورہرسوال کاجواب رکھتے تھے ہرجاندارکی زبان سے واقف تھے۔ (روائح المصطفی صفحہ162) آپ علیہ السلام کی عادت تھی کہ ہمیشہ در گزر سے کام لیتے اور خلق خدا پر آسانی فرماتے تھے، بلکہ معاف کرنے کے ساتھ ساتھ مزید بلند کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے تکلیف پہنچانے والے کو تحائف بھجوایا کرتے تھے، ایک شخص آپ کی برابربلاوجہ برائیاں کرتاتھا جب آپ کواس کاعلم ہواتوآپ نے ایک ہزاردینار(اشرفی) اس کے گھرپربطورانعام بھجوادیاجس کے نتیجہ میں وہ اپنی حرکت سے بازآگیا۔(روائح المصطفی صفحہ264) آپ( رضی اللہ عنہ) سے متعدد کتب منسوب ہیں،کچھ کی تصنیف تو آپ( رضی اللہ عنہ) نے اپنے دست مبارک سے کی اور اکثر آپ( رضی اللہ عنہ) کے ملفوظات پر مبنی ہیں۔ جیسا کہ ’’مسند امام کاظم‘‘ آپ( رضی اللہ عنہ) سے منسوب ہے۔  علامہ ابن حجرمکی  شافعی لکھتے ہیں کہ خلیفہ ہارون رشیدنے آپ کوبغدادمیں قیدکردیا ”فلم یخرج من حبسہ الامیتامقیدا“ اورتاحیات قیدرکھاآپ کی وفات کے بعدوفات کے بعدہتھکڑی اوربیڑی کٹوائی گئی آپ کی وفات ہارون رشیدکے زہرسے ہوئی جواس نے ابن شاہک کے ذریعہ سے دلوایا تھا جب آپ کوکھانے یاخرمہ میں زہردیاگیاتوآپ تین روزتک تڑپتے رہے یہاں تک کہ انتقال ہوگیا۔(صواعق محرقہ  صفحہ676  ،ارحج المطالب صفحہ454)  


حضرت علامہ جیلانی میاں بریلوی علیہ الرحمہ


حضرت علامہ جیلانی میاں  بریلوی  علیہ الرحمہ

عرس  کی تاریخ  : 11 صفرالمظفر

محمد ابراہیم رضا خان قادری رضوی  علیہ الرحمہ ایک ہندوستانی اسلامی اسکالر، صوفی، خطیب، مصنف، اور برصغیر پاک و ہند میں سنی تحریک کے رہنما تھے۔ جنہیں عام طور پر مفسر اعظم ہند اور جیلانی میاں کے نام سے جانا جاتا ہے۔آپ علیہ الرحمہ  حجۃ الاسلام حامد رضا خان  بریلوی علیہ الرحمہ کے بڑے بیٹے اور احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ   کے بڑے پوتے تھے۔ آپ علیہ الرحمہ   10 ربیع الآخر 1325 ہجری کو بریلی شریف میں پیدا ہوئے ۔ آپ علیہ الرحمہ  نے ابتدائی تعلیم قرآن مجید، اردو زبان کی کتابیں اور دیگر کتابیں اپنی نانی اور والدہ سے پڑھیں، 7 سال کی عمر میں انہوں نے دارالعلوم جامعہ رضویہ منظر اسلام میں داخلہ لیا اور 19 سال کی عمر میں گریجویشن مکمل کیا۔  دارالعلوم جامعہ رضویہ منظر اسلام میں آپ علیہ الرحمہ کے احسن علی محدث فیض پوری علیہ الرحمہ ، والد حامد رضا خان قادری علیہ الرحمہ اور سردار احمد محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ اساتذہ تھے۔ گریجویشن تقریب (دستار بندی) کے وقت ان کے والد حامد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے خود اپنے بیٹے کے سر پر پگڑی باندھی۔ آپ علیہ الرحمہ  کی شادی آپ ہی کی  چچا زادی سے ہوئی جو مفتی اعظم ہند مصطفٰی رضا خان علیہ الرحمہ کی بڑی بیٹی ہیں۔ اس نکاح کا اہتمام امام  احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے کیا تھا جب یہ دونوں بچے تھے۔ رخصتی کی تقریب( 2 ربیع الآخر 1347ھ (1929ء کو ہوئی۔4سال کی عمر میں ابراہیم رضا اپنے دادا امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ سے مرید ہوئے، امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ  نے انہیں سلسلہ عالیہ کی قادریہ برکاتیہ رضویہ نوریہ کی خلافت عطا کی اور اپنے والد حامد رضا خان علیہ الرحمہ اور چچا مصطفٰی رضا خان علیہ الرحمہ سے بھی خلافت حاصل ہے۔ 1372ہجری  میں آپ نے حرمین کا دورہ کیا، انہوں نے مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ کے علماء سے حدیث، دلائل الخیرات اور حزب البحر وغیرہ کی مختلف اجازتیں حاصل کیں۔آپ علیہ الرحمہ  نے تعلیمات اہلسنت کی تبلیغ کے لیے ماہنامہ اعلیٰ حضرت کا آغاز کیا۔ یہ رسالہ کامیاب رہا اور آج بھی شائع ہوتا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ مسلسل 3 سال بیمار رہنے کے بعد پیر 11 صفر المظفر 1385ہجری   بمقطابق12 جون 1965ءکو صبح 7 بجے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اگلے دن 12 صفر المظفر 1385ہجری 13 جون 1965ء کو ان کی نماز جنازہ اسلامیہ انٹر کالج میں ادا کی گئی، نماز جنازہ کی امامت سید محمد افضل حسین نے کی۔ محمد احسن علی، سید عارف علی، سید اعجاز حسین اور محمد غوث خان  نےقبر میں اتارا۔آپ علیہ الرحمہ  درگاہ اعلیٰ حضرت بریلی میں مدفون ہیں۔  

مجاہد جنگِ آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی حنفی ماتریدی چشتی علیہ الرحمہ



 ہندوستانی صوفی و مفتی مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند علامہ فضل حق شہید بن مولانا فضل امام خیر آبادی مسلم رہنمائے جنگ علمائے اہل سنت میں سے تھے۔ فضل حق خیر آبادی 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے۔ وہ ایک فلسفی، ایک شاعر، ایک مذہبی عالم تھے، لیکن ان کے شہرت کی بنیادی وجہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انگریز قبضہ آوروں کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔آپ علیہ الرحمہ 1797ء کو خیرآباد کے علاقے میں پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کیے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندوستان کو انگریزوں کے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی، عشق ومحبت رسول پر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ علامہ فضل حق خیرآبادی بہت بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سور ما ایسے تھے جو گوشہ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ اور دوسری چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا معاملہ زور پکڑ چکا تھا ۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے مسلم اور ہندوفوجی بگڑ بیٹھے تھے۔علامہ عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں:علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے۔مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی)میں علما کے سامنے تقریر کی۔استفتا پیش کیا ۔مفتی صدرالدین آزردہ،مولوی عبدالقادر،قاضی فیض اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔اس فتوی کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔دہلی میں نوے ہزار فوج جمع ہوگئی تھی ۔فتویٰ "جہاد” مسلمانوں کے لئے کیسی حیثیت رکھتا ہے یہ انگریزوں کو علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کے فتوی جہاد دینے کے بعد محسوس ہوا۔ دہلی سے علمائے کرام کی جانب سے جاری اس فتوے کے بعد مسلمان جوق در جوق اپنی جانوں کی پروا کئے ہوے بغیر نکل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی ایک عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ لڑائی جھگڑا ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر انگریزوں نے کچھ کو ڈرا دھمکا کر اور کچھ کو حکومتی لالچ دیکر اس تحریک آزادی کو کچل دیا-آزادی کی اس تحریک کوکُچل تودیا گیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا جو سنگ بنیادرکھا تھا تقریبا نوے سال بعد اس پر ہندوستانی جیالوں نے آخری اینٹ رکھ کر تعمیر مکمل کردی۔ جزیرہ انڈمان کی جیل میں ایک سال دس ماہ تیرہ دن اسیری میں رہ کر 12/صفرالمظفر 1278ھ، مطابق 20/ اگست 1861ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آج بھی آپ کی قبر "آزادی” کی آذانیں سنا رہی ہے۔



 

مختصر سوانحِ حیات حضور شیخ الہند پیر سید شاہ کمیل اشرف اشرفی الجیلانی

ازقلم :بلال اشرفی،ممبئی

 

حضرت پیر سید کمیل اشرف الاشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ 

حضور شیخ الہند خانوادۂ اشرفیہ کے چشم و چراغ تھے۔ آپ مخدوم ابنِ مخدوم تھے۔آپ کے والدِ بزرگوار حاجی الحرمین تاج دارِ اشرفیت پیر سید طفیل احمد اشرفی الجیلانی المعروف حضور مخدومِ ثانی تھے جن کا آستانہ آج بھی کچھوچھہ مقدسہ میں مرجعِ خلائق ہے۔ آپ سلطان الواعظین مولانا سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی کے نواسے اور حضور سرکارِ کلاں حضرت سید محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی کے ہمشیرزادے ہیں۔

آپ کا شجرۂ نسب حضرت عبد الرزاق نورالعین جیلانی پروردہ و ہمشیرزادہ و جانشین مخدوم حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی سے ہوتا ہوا حضور غوث الاعظم شیخ سیدنا عبد القادر الجیلانی علیہ الرحمہ سے ملتا ہے اور آپ(حضور شیخ الہند) غوثُ العالم مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان سے ہیں ، لہذٰا آپ کے سر اقدس پر دو اغواث کا دستِ کرم سایہ فگن رہا۔

ولادتِ با سعادت: آپ کی ولادت باسعادت ۱۹۳۴ یا ۱۹۳۵ میں حضور اعلی حضرت سید علی حسین اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے مسکن میں ہوئی۔
آپ کا نام کمیل اشرف آپ کے پر نانا حضور اعلی حضرت اشرفی میاں نے خواجہ کمیل ابنِ زیاد جو مولی علی کرم اللہ وجہہ کے مرید و خلیفہ تھے ان کے نام پر رکھا۔

تعلیم وتربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم کچھوچھہ مقدسہ میں اپنے والدِ گرامی حضور مخدومِ ثانی کی زیرِ نگرانی ہوئی۔حضرت نے پہلی تقریر  6 سال کی عمر میں حضور محدثِ اعظمِ ہند اور مولانا سید نعیم الدین مرادابادی علیہما الرحمہ کی موجودگی میں کی۔

جامعہ اشرفیہ میں داخلہ :ہندوستان کی شہرۂ آفاق درس گاہ،دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں حضرت کا داخلہ ۲۰ ذی قعدہ ۱۳۶۸ ھ/۱۳ ستمبر ۱۹۴۹(13sept 1949) میں ہوا۔ آٹھ ۸ برس تک اشرفیہ میں رہ کردرس نظامی کی تکمیل فرمائی اور ۱۰ شعبان المعظم ۱۳۷۶ھ /۱۲ مارچ ۱۹۵۷ (12march 1957) میں آپ کی دستارِ فضیلت ہوئی۔

عہدِ طالبِ علمی میں آپ نے جن اساتذہ کرام  سے پڑھا اُن میں جلالۃُ العلم حافظِ ملّت حضرت علامہ الشاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی اور علامہ عبد المصطفی اعظمی صاحب جیسے جلیل القدر اور اولوالعزم علماء تھے۔

دورِ طالبِ علمی میں حضور شیخ الہند کو حافظِ ملت علامہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے "خطیبِ اصغر” کا لقب عطا فرمایا۔اور اس عمر میں ہی آل انڈیا کانفرنسوں میں حضور شیخ الہند بحیثیت مقررِ خصوصی مدعو کئے جاتے تھے اور اپنے خطابِ نایاب سے سامعین کے قلوب میں شمعِ عشقِ مصطفیﷺ روشن فرماتےتھے ۔

آئینِ جواں مردی حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رو باہی

وعظ وخطابت:فراغت کے بعد حضور شیخ الہند نے قریب  60 برس وعظ و خطابت میں گزارے۔آپ کا اندازِ خطابت بڑا منفرد المثال اور عدیم النظیر تھا۔ جس کانفرنس میں پہنچ جاتے اس کی کامیابی کی ضمانت بن جاتے۔ آپ کی گفتار کی صحیح ترجمانی مثنوی شریف کا یہ شعر کرتا ہے:

گفتۂ او گفتہٗ اللہ بود
گرچہ از حُلقوم عبد اللہ بود

حضرت کی گفتگو میں برجستگی کمال کی تھی۔ سائل کے لب کو جنبش ہوتی اور حضور شیخ الہند کی زبان مبارک سے جوابِ با صواب حاضر ہوجاتا۔آپ ایک سنجیدہ صاحبِ قلم بھی تھے،آپ کے مختلف مضامین متعدد رسائل میں شائع ہوۓ۔

آپ اپنے والد ماجد حضور مخدومِ ثانی سید شاہ طفیل احمد اشرفی الجیلانی سے بیعت تھے۔دستارِ فضیلت کے بعد آپ کے والدِ گرامی نے آپ کو سلسلۂ عالیہ قادریہ اشرفیہ اور سلسلہ عالیہ چشتیہ اشرفیہ کی اجازت و خلافت سے سرفراز کیا۔مزید سرکارِ کلاں حضرت سید محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی نے آپ کو سلسلۂ عالیہ قادریہ منوریہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔

۵ ربیع الاول  ۱۳۹۵ھ19 بمطابق 1975 march میں حضور مخدومِ ثانی کے وصالِ پر ملال کے بعد آپ ان کے قائم مقام و جانشین ہوۓ اور ہر سال ۵ ربیع الاول کو کچھوچھہ مقدسہ میں عرسِ حضور مخدومِ ثانی منعقد ہوتا جس میں دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور، دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی جیسے بڑے مدارس کے علمااور دیگر صوفیا شرکت فرماتے ۔

مساجد ومدارس کی تعمیر :

حضور شیخ الہند تعمیر و ترقی کے شعبے میں بھی امتیازی خصوصیات کے حامل تھے۔ جہاں بھی دورے کے لئے تشریف لے جاتے وہاں دینی مدارس،مساجد اور خانقاہیں تعمیر کرواتے۔ حضور شیخ الہند نے کچھوچھہ مقدسہ میں خانقاہِ اشرفیہ حضور مخدومِ ثانی کے نام سے ہندوستان کی سب سے بڑی، کثیر الوسعت خانقاہ تعمیر کروائی، جس میں مسافروں کے ٹھہرنے کے لئے 300 کمرے، ایک انتہائی عالی شان اور خوبصورت جامع مسجد حضور مخدوم ثانی اور دینی مجالس و محافل اور محفلِ سماع کے لئے ایک کشادہ ہال Hall تعمیر کروایا۔ علاوہ ازیں ۱۹۷۵ 1975 میں بسکھاری شریف،کچھوچھہ میں لڑکوں کے لئے سب سے پہلا مدرسہ دارالعلوم محبوبِ یزدانی اور ۱۹۸۵ 1985میں لڑکیوں کے لئے سب سے پہلی درسگاہ جامعہ عزیزہ تعمیر کروائی۔ سرزمینِ ممبئی پر گستاخانِ مصطفی کے مرکزی علاقے آگری پاڑہ میں ۱۹۷۸ 1978 میں ’’المدینہ مسجد ‘‘قائم کی اور وہاں قریب 40 برس میں وعظ و نصیحت کے ذریعہ باشندگان کے قلوب کو عشقِ رسول و عشقِ اہلِ بیت کا گہوارہ بنادیا۔آپ اس شعر کے مصداق ہیں :

پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی

گوامیں مدرسے کا قیام :

سرزمینِ گووا پر شہرِ واسکو VASCO کا سب سے پہلا مدرسہ جامعہ حضور مخدومِ ثانی کی سنگِ بنیاد رکھی۔

۲۰۰۸  میں ممبئی سے کچھ فاصلے پر ممبرا میں دارالعلوم مخدومِ سمنانی تعمیر کروایا۔علاوہ ازیں متحدہ عرب امارات DUBAI میں مساجد و مدارس قائم کئے۔مسجد الفُطّیم(دبئی) masjid al futtaim میں آپ کے کافی بیانات ہوۓ۔ عروس البلاد ممبئی میں اُمراو رؤسا شہر آپ کے قدموں میں رہتے تھے۔ شہر کے رئیس میمن گھرانے آپ کے دامن سے وابستہ رہے۔جب کوئی نا اتفاقی ہوتی تب آپ نے ہمیشہ مسلمانوں میں صلح کروائی۔

حضور شیخ الہند کے مریدین ممبئی، یو۔پی، فیض آباد، امرڈوبھا،نیپال حیدرآباد، بنگلور، مدراس، سورت، دھوراجی اور بیرونِ ملک دبئی، اجمان ، شارجا، سنگاپور، لاہور وغیرہ میں کثیر تعداد میں پاۓ جاتے ہیں۔حضرت کے خلفا کی فہرست بھی بڑی طویل ہے۔

آپ ایک جیّد عالمِ دین اور فاضلِ جلیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک واعظِ بے بدل، اپنے پیر کے مریدِ صادق، ایک بہترین شاعر، صوفئ باصفا، حقیقی معنوں میں پیر ِ کامل، مرشدِ برحق اور ایک با اخلاق انسان تھے۔

 فنِ شاعری کا ایک نمونہ:

کوئی جانِ بہار آتا ہے
دل کہیں آج داغدار نہ ہو

جامِ اشرف ہے ہوش میں آؤ
مے کشوں اتنے بے قرار نہ ہو

اشرفی دور چل رہا ہے کمیلؔ،
تو بھی کیوں آج بادہ خوار نہ ہو،
د ر و دیوار پر ہے جلوۂ طور،
یہ کہیں اشرفی دیار نہ ہو۔

 حضور شیخ الہندکالقب :

حضرت پیر سید شاہ کمیل اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۲۰۱۳ میں عازمِ عراق ہوۓ،وہاں پر کربلائے معلی، نجف اشرف، کاظمین و دیگر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کرتے ہوے بغدادِ مقدس پہنچے، اُس وقت دربارِ غوثیہ کے سجادہ نشین شیخ یوسف الگیلانی نے حضرت کو طلب فرمایا اور اُسی شام بعد نمازِ مغرب آستانہ حضور غوث الاعظم پر دونوں قادری شہزادوں کی ملاقات ہوئی۔

حضرت شیخ یوسف الگیلانی نے حضرت کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا "آپ ہمارے رزاقی بھائی ہیں” اور سینکڑوں کے مجمع میں فرمایا "ھذا شیخ الہند ھذا شیخ الہند” اور وہیں دربارِ غوثیہ میں شیخ الہند زندہ باد کافلک بوس نعرہ بلند ہوا۔

حضور شیخ الہند نے ساری زندگی دین و سنیت اور سلسلۂ اشرفیہ کی اشاعت میں صرف کردی۔بڑی بڑی کانفرنسوں میں بحیثیت صدر و سرپرست جلوہ فرما ہوتے۔جیسے ۱۹۸۲ 1982 میں حضورمفتئ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد جلسہ بیادگار حضور مفتئ اعظم جو مستان تالاب میدان ممبئی میں منعقد ہواتھا اس میں حضور شیخ الہند نے خطبۂ صدارت پڑھا اوراس کی سرپرستی فرمائی۔

اور تقریباً ۱۲ سال تک ممبئی میں حاجی علی درگاہ پر شاہانہ انداز سے ہونے والے عرس حضور غوثُ العالم مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی سرپرستی فرماتے رہے جس میں علما، صوفیا، و دیگر محبین و معتقدین کا جمِ غفیر ہوتا۔

شہادتِ امامِ حسین پر حضور شیخ الہند کے خطبات عدیم المثال تھے۔ جو ربّانی نکات و الہامی غوامض حضرت کی لسانِ مبارک سے سرزد ہوتے تھے اس کا اثر سامعین کے قلوب پر ایسا ہوتا تھا کہ دورانِ تقریر مجمع میں کہرام برپا ہو جاتا تھا۔ عشقِ حسین میں آنسؤوں کے دریا بہہ جاتے۔

حضرت شیخ الہند نے گوشت بازار مدنپورہ ممبئی میں مسلسل ۱۷ برس تک شہدائے کربلا پر وعظ فرمایا علاوہ ازیں شہرِ پونہ و دیگر بلادِ ہند میں بیانات کا سلسلہ جاری رہا۔

اگر گوئی کہ فخرِ خاندانم
نظربرخاندانِ مصطفی کُن

دِگر گوئی کہ بر من ظلم گشتم
نظر بر کشتگانِ کربلا کُن

آپ کی زندگی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کی عکسِ جلی تھی، حضور شیخ الہند صحیح معنوں میں شریعت اور طریقت کے مجمع البحرین تھے۔

ہے تیری شان میں شانِ علی کمیل اشرف
کہ تو ہے وارثِ غوثِ جلی کمیل اشرف
شریعت اور طریقت کے مجمع البحرین
عجب یہ شان ہے تم کو ملی کمیل اشرف

علمانوازی:

حضور شیخ الہند کو "علماء نواز” بھی کہا جاتا تھا۔ علما کی میزبانی کے لئے اور مالی امدادوتعاون کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہتے۔

اقوال زریں:

حضور شیخ الہند کے ۳ اقوالِ زریں پیشِ خدمت ہیں۔

۱) آہنی شمشیر سے کافر کی گردن کٹتی ہے اور شمشیرِ محبت سے کافر کا کفر کٹتا ہے اور وہ داخلِ اسلام ہوتا ہے۔

۲)نظریں ۳ اقسام کی ہوتی ہیں:
۱ وہ جس سے انسان دیکھتا ہے۔
۲ نظرِ بد جس سے انسان ہلاک ہو سکتا ہے۔
۳ کسی اللّٰہ والے کی نظر کرم اگر پڑ جائے تو انسان دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جاۓ۔

۳) ہمیشہ لوگوں کو معاف کرو اس بات کو اِس شعر سے سمجھاتے:

مجاہد کا وہ نعرہ ہو کہ کوہ و دشت تھرّاۓ
مگر دشمن بھی زخمی ہو تو خیمہ میں اُٹھا لاۓ

وصال پرملال:

حضور شیخ الہند سرزمینِ ممبئی پر ۵ نومبر ۲۰۲۰ بمطابق ۱۸ ربیع الول ۱۴۴۲ ھ بروز جمعرات نمازِ ظہر کے وقت دارِ بقا کی جانب روانہ ہوۓ۔اناللہ واناالیہ راجعون

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں  سے  آبِ  بقاۓ  دوام  لا ساقی

نماز کی پابندی :

آخری دنوں میں بسترِ علالت پر جب بدن کو جنبش دینا مشکل تھا،اس وقت بھی شریعت محمدی پر کاربند رہتے ہوئے نماز ادا کرتے اور ہاسپٹل روانہ ہونے سے پہلے حضورﷺ کے وقتِ وصال کے واقعات بیان فرمائے اور اولاد و مریدین کو صبر کی تلقین فرمائی۔

حضرت کو ممبئی میں غسل دیا گیا اور پہلی نمازِ جنازہ ممبئی میں ادا کی گئی جس کی امامت جانشینِ حضور اشرف العلماء مولانا سید نظام اشرف اشرفی الجیلانی نے کی
اور دوسری کچھوچھہ مقدسہ میں ادا کی گئی جس کی امامت حضرت کے فرزندِ ارجمند مولانا سید شاہ احمد اشرف اشرفی الجیلانی نے کی۔

آپ کا مزار مبارک :

حضور شیخ الہند کا مزارِ فائزالانوار ان کے پیرومرشد و والد محترم حضور مخدوم ثانی سید شاہ طفیل احمد اشرفی الجیلانی کے مزارِ مقدس کے پہلو میں کچھوچھہ مقدسہ میں منبعِ فیضانِ اشرفی و حیدری ہے۔

صاحبِ علم و ولایت ہے مرا آقا کمیل
کیوں نہ ہو جب ہے علی حیدر کا شہزادہ کمیل

حیدر و غوث و معین و اشرف و سید طفیل
مصطفی کی انجمن میں سب کا ہے پیارا کمیل

ہے بلالِؔ اشرفی کی اول و آخر دعا
تا ابد اللہ رکھے تم سے وابستہ کمیل

آمین بجاہِ سید المرسلینﷺ

از قلم: بلال اشرفی،ممبئی