حکیم الاسلام حضرت مولانا حسنین رضا خان بریلوی
علیہ الرحمہ
وصال کی تاریخ : 5 صفرالمظفر
حضرت مولانا حسنین رضا خان۱۳۱۰ھ/ ۱۸۹۲ء بریلی
شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ علیہ الرحمہ اعلیٰ حضرت کے منجھلے بھائی، حضرت مولانا
حسن رضا خاںکے فرزند اکبر مولانا حکیم حسین رضا خاں، فرزند اوسط مولانا حسنین رضا
خاں اور فرزند اصغر مولانا فاروق رضا خاں تھے۔آپ علیہ الرحمہ اپنے تایا زاد بھائی،
سیّدی سندی مرشدی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے صرف چھ ماہ بڑے تھے اور علوم دینیہ
کی تحصیل میں دونوں عم زاد ہم سبق رہے ہیں۔رسم بسم اللہ خوانی کے بعد گھر ہی میں
حصولِ تعلیم میں مصروف و مشغول ہوئے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے اپنے
فرزند اصغر مفتی اعظم کو پڑھانے کے ساتھ اپنے عم زاد حضرت حسنین رضاکو بھی پڑھانا
شروع کیا، اور جب فرزند حقیقی اور عم زاد و فرزندِنسبتی، دونوں کی عمریں بارہ برس ہوگئیں،
تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ۱۳۲۲ھ/ ۱۹۰۴ء میں دارالعلوم منظر اسلام قائم فرمایا،
تو اس دارالعلوم میں دونوں متذکرہ نوجوان، محمد مصطفےٰ رضا، حسنین رضا کے ساتھ
ساتھ اعلیٰ حضرت کے تین تلامذہ مزید، ملک العلماء حضرت علامہ ظفرالدین بہاری اور
مولانا عبدالرشید عظیم آبادی اور مولانا نواب مرزا، پانچوں تلامذہ سے دارالعلوم
منظر اسلام کا آغاز ہوا۔حضرت علامہ حسنین رضا خاں صاحب نے معقولات کی چند کتب،
مناظر اہلسنت حضرت علامہ ہدایت رسول صاحب رامپوری سے بھی رامپور جاکر پڑھیں۔ نیز
قطب الارشاد حضرت علامہ مفتی ارشاد حسین رامپوریکے درس میں بھی شریک ہوکر مستفاد
ہوئے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے شرف تلمذ کے ساتھ ساتھ، اجازت و خلافت بھی حاصل
تھی۔ حضرت علامہ حسنین رضا خاں بریلوی اپنے مادر علمی دارالعلوم منظر اسلام
میں بحیثیت مدرس خدمت سر انجام دیتے رہے، بحیثیت مدرس تقرر کے لیے سفارش اعلیٰ حضرت
نے فرمائی تھی اور تقرر حجۃ الاسلام حضرت علامہ حامد رضا خاںنے فرمایا ،جو مہتمم
اول حضرت استاذ زمن مولانا حسن رضا خاں بریلویکے وصال کے بعد ’’منظر اسلام‘‘ کے
مہتمم مقرر کیے گئے تھے۔ آپ علیہ الرحمہ کے معروف تلامذہ میں شیر بیشۂ اہلسنت حضرت
مولانا حشمت علی خاں، حضرت مولانا ابرار حسن صدّیقی تلہری ،مولانا حامد علی رائے
پوری، مولانا سردار علی خاں عرف عزو میاں، مولانا ادریس رضا خاں، مولانا اعجاز ولی
خاں اور مولانا تقدس علی خاں بریلوی رحمہم اللہ شامل ہیں۔جامعہ رضویہ منظر اسلام
میں تدریسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ بریلی شریف سے ایک ماہنامہ
’’الرضا‘‘ جاری کیا۔ یہ ماہوار جریدہ بہت معروف ہوا۔ امام احمد رضاکی حیات میں اس
کے متعدد شمارے شائع ہوئے۔ جغرافیائے ہند کے بلا دو امصار میں بذریعہ ڈاک بھیجا
جاتا تھا۔ حسنی پریس کی نگرانی اور اعلیٰ حضرت کی تصنیفات کی اشاعت کی
ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے پورا کرتے تھے۔ نیز حالت حاضرہ کے تحت مختلف فتنوں (تحریک
ترک موالات، تحریک ہجرت، متحدہ قومیت، ندوہ تحریک، مرزائیت و قادیانیت، فتنہ وہابیت)
کی بیخ کنی کے لیے اور اسلامیان ہند کے ایمان و عقائد کو بچانے کے لیے پمفلٹ،
رسائل اور کتابچے شائع کرکے مفت تقسیم کرتے تھے ۔ مسلمانوں اور بالخصوص غریب
مسلمانوں سے آپ کو ہمیشہ قلبی تعلق اور گہرا لگاؤ رہا۔ جہاں امرأ و روسأ آپ کی
محفل میں ہوتے وہاں بہت سے ضرورت مند غریب بھی بیٹھے نظر آتے،۔آپ علیہ الرحمہ نے اکیانوے
(۹۱) برس کی عمر شریف میں، ۵صفر ۱۴۰۱ھ/ ۱۴؍دسمبر ۱۹۸۰ء میں بروز اتوار وصال پر
ملال فرمایا۔
No comments:
Post a Comment