امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد
رضا خان علیہ الرحمہ
عرس کی تاریخ : 25 صفر المظفر
قاطع کفر وضلالت ماحئی
بدعت، حامی سنیت،مجدد دین وملت امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ
وقاری الحاج الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی رضی الله عنہ کی ولادتِ
باسعادت 1272/ ہجری مطابق 14/ جون 1856/ عیسوی بروز ہفتہ بوقتِ ظہر شہر بریلی شریف
میں ہوئی۔
شجرہ نسب : امام احمد رضا
خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کا شجرہ نسب اس طرح ہے:
عبد المصطفیٰ احمد رضا
بن، مولانا محمد نقی علی بن، مولانا رضا علی بن، مولانا کاظم علی بن، مولانا شاہ
احمد اعظم بن، محمد سعادت یار خان بن، سعد الله خان رحمہم الله۔
پیدائشی وتاریخی نام : آپ
علیہ الرحمہ کا پیدائشی نام،، محمد،، اور تاریخی نام،، المختار،، ہے۔ آپ کے دادا
محقق اہل سنت حضرتِ علامہ رضا علی خان علیہ الرحمہ نے آپ کا نام احمد رضا تجویز
فرمایا اور اسی نام سے آپ مشہور ہوئے۔آپ علیہ الرحمہ نے اپنے اسم شریف کے ساتھ عبد
المصطفیٰ کا اضافہ فرمایا۔
تعلیم و تربیت: آپ علیہ
الرحمہ نے ابتدائی تعلیم مرزا غلام قادر بیگ سے حاصل کی اور دینیات کی مکمل تعلیم
اپنے والدِ ماجد محقق اہل سنت حضرتِ علامہ مولانا مفتی نقی علی خان علیہ الرحمہ سے
حاصل کی۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنی فطری ذکاوت کی بنا پر تیرہ سال دس مہینے اور پانچ
دن میں علومِ درسیہ سے فراغت حاصل کی۔آپ کے پیر و مرشد حضرت علامہ سید آلِ رسول
احمدی جن کا مزار مبارک مارہرہ شریف میں واقع ہے۔آپ نے چھ سال کی عمر میں معلوم
کرلیا تھا کہ بغداد شریف کدھر ہے، پھر اس وقت سے دم آخر تک بغداد شریف کی طرف پاؤں
نہیں پھیلائے۔
تصانیف: آپ علیہ الرحمہ کے
وسعت مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ آپ نے سماع موتیٰ کے جواز میں جو فتویٰ دیا ہے اس
میں دو سو ستاون ( 257) کتب کا حوالہ پیش کیا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے فتویٰ رضویہ
کا جب خطبہ لکھا تو نوے (90) کتابوں کے ناموں کو اس صنعت کے ساتھ لکھا کہ وہی
اسماء خطبہ بن گیے۔دوسرا نقطہ یہ ہے کہ وہ نوے (90) کتابیں جو صرف فقہی احکام پر
مشتمل ہیں نہ صرف یہ کہ وہ سب آپ کی نگاہوں سے گزر چکی تھیں بلکہ ان کے مضامین پر
ذہن کی گرفت اتنی سخت تھی کہ کوئی بھی گوشہ آپ کے حاشیہ خیال سے اوجھل نہیں تھا۔اس
سے آپ علیہ الرحمہ کے وسعتِ مطالعہ اور قوتِ حافظہ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔فقہ
میں آپ علیہ الرحمہ کی مشہور ومعروف کتاب،، فتویٰ رضویہ،، جو قدیم بارہ جلدوں پر
اور جدید تیس جلدوں پر مشتمل ہے اس کی ہر ایک جلد اپنی مثال آپ ہے۔
آپ
علیہ الرحمہ کو عشقِ رسول ﷺ نے مشہور زمانہ کردیا۔محبت رسول ﷺکا یہ عالم ہے کہ آپ
علیہ الرحمہ احادیث کی کتب کھڑے ہوکر پڑھایا کرتے اور پڑھنے والے بھی کھڑے ہو کر
پڑھتے۔ ( جاء الحق، صفحہ نمبر/ 256)
مسائلِ
حج پر آپ علیہ الرحمہ نے ایک رسالہ تحریر فرمایا جس کا نام ،، انوار البشارت فی
مسائلِ حج و زیارت،، ہے جو اس طرح ہے۔
فصل اول: آدابِ سفر،
مقدمات حج میں
فصل دوم: احرام اور اس کے
احکام داخل حرم محترم مکہ مکرمہ و مسجد حرام
فصل سوم: طواف وسعی صفا و مروہ
و بیان عمرہ
فصل چہارم: روانگی منی و وقوف
عرفات
فصل پنجم: منی و مزدلفہ و باقی
افعال حج
فصل ششم: جرم اور اس کے کفارے
وصل ہفتم: حاضری سرکارِ اعظم حضورِ اقدس ﷺاس رسالہ
میں حج کے مسائل کا بیان مکمل ہو جانے کے بعد جہاں زیارت روضہ رسول صلی الله
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا تذکرہ شروع ہوا ہے وہاں جذبہ عشق کا تلاطم دیکھنے کے
قابل ہے۔ یہاں تک کہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کو
یہ بھی گوارہ نہیں ہے کہ جس ساتویں فصل میں وہ دیار حبیب صلی الله تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلّم کے آداب بیان کرنے جارہے ہیں اسے وہ فصل سے تعبیر کریں۔ بلکہ اس کو
سرکارِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے وصل سے تعبیر کیا ہے فصل ہفتم کے بجائے سرکار
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے وصل ہفتم کی سرخی قائم کی ہے۔
آپ
علیہ الرحمہ کی ذات "الحب فی لله والبغض لله" کی زندہ تصویر تھی ۔آپ کے
مزاج میں بہت شدت تھی کسی نے شدت کے بارے میں آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ حضور
ﷺ کی امت کے علما کو قرآن کی عزت کے سبب گرمی پیش آئے گی جو ان کے دلوں میں ہے۔
حج و رزیارت روضہ رسولﷺ: آپ علیہ الرحمہ نے 1296/ ہجری مطابق
1878/ عیسوی میں اپنے والدِ گرامی محقق اہل سنت حضرتِ علامہ نقی علی خان علیہ الرحمہ
کے ساتھ پہلا حج کیا۔دوسرا حج 1323/ ہجری مطابق 1906/عیسوی میں کیا، اس سفر حج میں
آپ نے شاہکار تصانیف ،،حسام الحرمین اور الدولتہ المکیہ اور کفل الفقیہ،، تصنیف
فرمائیں ۔سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے فتویٰ کو دیکھنے کے بعد مکہ مکرمہ کے
ایک مشہور فاضل علامہ مفتی سید اسماعیل خلیل حافظ کتب الحرم نے لکھا کہ" خدا
کی قسم میں کہتا ہوں اگر ان کے فتویٰ کو حضرتِ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت
رضی الله تعالیٰ عنہ دیکھتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور اس کے لکھنے والے کو
اپنے تلامذہ میں سے بناتے"۔ ( الاجازات المتینہ، صفحہ نمبر،9/ فقیہ اسلام
پنجم، صفحہ نمبر 163)
رویت
ہلال کے متعلق آپ علیہ الرحمہ نے ،،ازکی الھلال فی امر الھلال،، کتاب تحریر
فرمائی، ماء مستعمل کے متعلق آپ نے ،،الطراس المعدل،، کتاب تحریر فرمائی، عیسائیوں
کے سوالات کے جواب میں آپ نے ایک مکمل کتاب ،،ندم النصرانی و تقسیم الایمانی،،
تحریر فرمائی، آریہ کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ،،کیفر کفر آریہ،، کتاب تحریر
فرمائی، آپ علیہ الرحمہ نے ہندوستان کے دارالسلام ہونے پر ،،اعلام الاعلام،، کتاب
تحریر فرمائی، رسوم شادی کے متعلق آپ نے ،،ہادی الناس فی رسوم الاعراس،، کتاب
تحریر فرمائی- حضرتِ امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ کےسوا حضرتِ امام ابو یوسف
علیہ الرحمہ کے قول پر کیوں فتویٰ ہوتا ہے اس کا جواب دیتے ہوئے ایک مکمل کتاب
،،اجلی الاعلام،، تحریر فرمائی، آپ نے اسپرٹ کے متعلق ،،الاحلی من السکر کتاب،،
تحریر فرمائی، بعد دفن میت اذان دینے کے جواز میں آپ نے ،،ایذان الاجر فی اذان
القبر،، کتاب تحریر فرمائی، انگوٹھے چومنے کے جواز میں آپ نے ،،تقبیل الا بھامین،،
کتاب تحریر فرمائی، حضورِ اقدس ﷺ کے نسب شریف کے متعلق ،،ارات الادب بفاضل النسب،،
کتاب تحریر فرمائی، حضورِ اکرم ﷺ بے سایہ ہیں اس کے ثبوت میں آپ نے ایک کتاب ،،جسم
بے سایہ،، کتاب تحریر فرمائی، ماں باپ کے حقوق کے متعلق ،،حقوق الوالدین،، کتاب
تحریر فرمائی، بندوں کے حق کے متعلق ،،حقوق العباد،، کتاب تحریر فرمائی، آپ نے
چالیس احادیث سے عمامہ کی فضیلت پیش فرمائی ہے، آپ نے اخلاق پر ،،شرح الحقوق لطرح
العقوق،، کتاب تحریر فرمائی، آپ نے گائے کی قربانی کے ثبوت میں ،،انفس الفکر فی
قربانی البقر،، کتاب تحریر فرمائی، آپ نے زمین کی حرکت کے رد میں معرکتہ الآرا
کتاب ،،الفوز المبین،، کتاب تحریر فرمائی، آپ نے کرنسی پر ،،کفل الفقیہ،، کتاب
تحریر فرمائی، آپ نے حضورِ اقدس ﷺ کے علم غیب پر ایک معرکتہ الآرا کتاب ،،الدولتہ
المکیہ،، کتاب تحریر فرماکر علماء حرمین الشریفین سے خراجِ تحسین حاصل کیا ہے، آپ
نے شفاعت رسولﷺپر ،،اسماع الاربعین،، کتاب تحریر فرمائی، آپ نے امیر المومنین
حضرتِ صدیق اکبر رضی الله عنہ کے فضائل کے ثبوت میں ،،الزلال الانقی،، کتاب تصنیف
فرمائی، آپ نے بسملہ کی تحقیق میں ایک تحقیق کتاب ،،وصاف الرجیح،، تحریر فرمائی،
آپ نے روحوں کے متعلق ضخیم کتاب ،،حیات الموت،، تحریر فرمائی، آپ نے صحیح بخاری
شریف پر تحقیق حاشیہ تحریر فرمایا ہے، آپ نے مسلم شریف اور ترمذی شریف پر بھی شرح
تحریر فرمائی ہے، آپ نے حضرتِ علامہ شامی کی مشہور و معروف کتاب ،،ردالمحتار،، پر
سب سے زیادہ حاشیہ تحریر فرمایا ہے اگر اس حاشیہ کو الگ کرلیا جائے تو اس حاشیہ کی
کئی جلدیں تیار ہوسکتی ہیں۔
آپ
کی تصنیفات کا اجمالی خاکہ کچھ اس طرح ہے:آپ علیہ الرحمہ نے تفسیر
میں 16/ کتابیں، حدیث میں 34/ کتابیں، عقائد و کلام میں 112/ کتابیں، رسم الخط
قرآن میں ایک کتاب، اسانید احادیث میں چار کتابیں، اسماء الرجال میں سات کتابیں،
جرح تعدیل میں دو کتابیں، تخریج احادیث میں چار کتابیں، لغت حدیث میں ایک کتاب،
تجوید میں چار کتابیں، اصول فقہ میں چار کتابیں، رسم المفتی میں تین کتابیں، فرائض
میں چار کتابیں، نحو کی ایک کتاب، صرف میں ایک کتاب، ادب میں 19/ کتابیں، عروض میں
ایک کتاب، لغت میں دو کتابیں، فلسفہ میں پانچ کتابیں، مناقب میں 16/ کتابیں، سیر
میں چار کتابیں، تصوف میں 13/ کتابیں، سلوک میں چار کتابیں، اذکار میں آٹھ کتابیں،
اخلاق میں تین کتابیں، نصائح میں تین کتابیں، ہیئت میں 16/ کتابیں، حساب میں تین
کتابیں، ریاضی میں چھ کتابیں، ہندسہ میں پانچ کتابیں، تکسیر میں پانچ کتابیں، وفاق
میں ایک کتاب جفر میں تین کتابیں، لوگارثم میں دو کتابیں، زیجات میں سات کتابیں،
جبر و مقابلہ میں تین کتابیں، ارثماطیقی میں تین کتابیں، توقیت میں 16/ کتابیں،
نجوم میں پانچ کتابیں، مکتوبات میں دو کتابیں، خطبات میں ایک کتاب، مناظرہ میں
پانچ کتابیں، تاریخ میں چھ کتابیں، فقہ میں 148/ کتابیں تحریر فرمائیں، فقہ میں آپ
کی معروف و مشہور کتاب فتویٰ رضویہ ہے جو قدیم بارہ جلدوں پر اور جدید تیس جلدوں
پر مشتمل ہے جس کی ہر ایک جلد ایک انسائکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے- اس کے علاوہ
اور بہت سی کتابیں جن کی تعداد تقریباً ایک ہزار بتائی جاتی ہے جن میں بہت سی
کتابیں غیر مطبوعہ ہیں۔
اجمالی
تمثیل: فن تفسیر میں آپ کی کتاب الصمصام ہے، فن عقائد و کلام پر آپ کی کتاب تمہید
ایمان بآیات القرآن اور سیف الزمان لدفع حرب الشیطان ہے۔ فن تجوید و قرآت پر آپ کی
کتاب الجام الصاد ہے، فن فرائض پر آپ کی کتاب المقصد النافع ہے، فن فوقیت پر آپ کی
کتاب جدول اوقات ہے، فن مناظرہ پر آپ کی کتاب صمصام سنت بگلوئے نجدیت (2) فتح خیبر
ہے، فن تصوف پر آپ کی کتاب کشف حقائق و اسرار دقائق ہے، فن فلسفہ پر آپ کی کتاب
الفوز المبین ہے، فن لغت پر آپ کی کتاب فتح المعلیٰ ہے۔
آپ
علیہ الرحمہ کے احیاء دین اور احیاء علوم کے کارناموں کو دیکھ کر علمائے حرمین
شریفین نے آپ کو مجدد اور امام اہل سنت کے مبارک خطابوں سے مخاطب کیا ہے۔اس میں آپ
علیہ الرحمہ نے بہت ہی باریک نقطہ پیش فرمایا ہے کہ یاد حضور ذکر رسول ہے اور ذکر
رسول ذکر الله ہے اور ذکر الله صفت باری تعالیٰ ہے- گویا یاد حضور کی قسم صحیح
ہے۔(فتاویٰ مصطفویہ)
غرض
آپ علیہ الرحمہ نے 54/ علوم و فنون کے گوہر لٹائے، آپ نے وصال سے چار ماہ بائیس
روز قبل اپنی وفات شریف کی تاریخ اس آیتِ کریمہ سے استخراج فرمائی۔ "ويطاف
عليهم بانية من فضة واكواب"۔خدام چاندی کے کٹورے اور گلاس لیے ان کو گھیرے
ہیں۔
وصال مبارک : آپ علیہ
الرحمہ کا وصال شریف 25/ صفر المظفر 1340/ ہجری کو جمعہ کے دن دو بجکر 38/ منٹ پر
عین اذان جمعہ میں ادھر حی علی الفلاح سنا ادھر روح پر فتوح نے داعی الی الله کو
لبیک کہا۔ اس طرح آپ کی کل عمر شریف 68/ سال کی ہوئی۔آپ کے غسل شریف میں علمائے
عظام اور سادات کرام و حفاظ کرام شریک تھے، جناب سید اطہر علی صاحب نے لحد تیار
کی، حضرتِ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمتہ والرضوان مصنف بہار شریعت
نے حسبِ وصیت شریف آپ کو غسل دیا، جناب حافظ امیر حسن صاحب مرادآبادی نے مدد دی،
حضرتِ علامہ سید سلیمان اشرف بہاری سابق صدر دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے و
سید محمود جان اور سید ممتاز علی صاحب نے پانی ڈالا، سرکارِ مفتی اعظم ہند علیہ
الرحمہ نے علاوہ دیگر خدمات غسل کے وصیت نامہ کی دعا بھی لوگوں کو یاد کرائی۔حضرتِ
حجۃالاسلام علامہ حامد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے مواضع سجود پر کافور لگایا،
صدر الافاضل حضرتِ علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی اشرفی علیہ الرحمہ نے کفن شریف
بچھایا، اور نماز جنازہ حضرتِ حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان قادری علیہ الرحمہ
نے پڑھائی۔
No comments:
Post a Comment