Durood Sharif (Image)
•Blogger | •Independent | •Journalist | •Writter | •Teacher | •Social Activities & •Motivator Rts are not endorsement.
Durood Sharif Tashrihat aur Fawaid
•Blogger | •Independent | •Journalist | •Writter | •Teacher | •Social Activities & •Motivator Rts are not endorsement.
Durood Sharif aur Fawaid
درود شریف
تشریحات و فوائد
جو شخص اس میں اچھی بات پائے تو
اُسے چاہے کہ اللہ عزَّوَجَلَّ کی حمد بجا لائے اورحضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک،
سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلَّم پر درود پاک کی کثرت کرے اور جو اس کے علاوہ دیکھے تواُسے ''لَا
حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم'' پڑھنا چاہے کیونکہ یہ کوتاہيوں
کی کمی اور ٹوٹے ہوئے دلوں کی درستگی کا باعث ہے۔صحیح حدیث ِ پاک میں ہے کہ
''یہ(یعنی لَاحَوْل شریف) جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔''
(صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب الدعاء،الحدیث۶۳۸۴،ص۵۳۶)
جان لیجئے! کوئی شخص کمی، فساد،خطا اور لغزش
سے محفوظ نہیں، سوائے فضیلت والے نبی اور عزت والے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہٖ وسلَّم کے جو وصفِ کامل کے مالک، درمیانے قد والے، فضل وکمال والے اور اعلیٰ
خصائل کے جامع ہیں، جنہیں جَوَامِعُ الْکَلِم(جوامع
الکلم سے مراد ایسے کلمات ہیں جو عبارت کے لحاظ سے مختصر اور معانی ومطالب کے لحاظ
سے جامع ہوں)عطا کئے گئے اور علم وفضل، عقل اور انعام کے ساتھ خاص کیا گیا۔
وَھُوَ
الَّذِیْ قَدْ حَازَ کُلَّ الْکَمَال وَخُصَّ بِالْفَضْلِ
وَحُسْنِ الْمَقَالِ
وَھُوَ الَّذِیْ
قَدْ جَآءَ نَا رَحْمَۃً مُفَرِّقًا بَیْنَ الْھُدٰی
َ الضَّلَالِ
مُحَمَّدُنِ
الْمَبْعُوْثُ مِنْ ھَاشِمٍ
اَفْضَلُ مَنْ حَازَ جَمِیْعَ الْخِصَالِ
صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ طُوْلَ الْمُدٰی
مَا عَطَّرَ الْکَوْنَ
نَسِیْمُ الشِّمَالِ
ترجمہ:(۱) حضور نبي پاک صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہی وہ ہستی ہیں جو ہر کمال کی جامع ہے اور آپ صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم فضل وکمال اور عمدہ کلام کے ساتھ خاص ہیں۔
(۲) اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہدایت وگمراہی کے درمیان
فرق کرتے ہوئے ہمارے پاس رحمت بن کر تشریف لائے۔
(۳) حضرت سیِّدنا محمد مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم
(قبیلۂ )بنوہاشم سے مبعوث ہوئے، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم افضل ہیں
جنہوں نے تمام اچھی عادات کو جمع فرما لیا۔
(۴) اللہ عزَّوَجَلَّ آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم پرعرصۂ دراز تک
رحمت نازل فرمائے جب تک کہ شمال کی خوشگوار ہوا کائنات کو معطَّر کرتی رہے۔
اے اللہ عزَّوَجَلَّ کے بندو!نبي
مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے:
''جس نے مجھ پر ایک بار
دُرود پاک پڑھا اللہ عزَّوَجَلَّ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔''
(صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃ
علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعدالتشھد،الحدیث۹۱۲، ص۷۴۳) (صحیح مسلم،کتاب
الصلاۃ،باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعدالتشھد،الحدیث۹۱۲، ص۷۴۳)
پيارے پيارے اسلامی بھائیو! اپنے دلوں کو
حاضر رکھ کر خوب غوروفکر کرو، اور اپنی عقلوں سے امتیاز کرو اور دیکھو! وہ ہستی جو
تم پر رحم فرمائے، تمہیں کفایت کرے اور ایک درود کے بدلے دس رحمتوں کی جزاء عطا
فرمائے تو کون سا نفع اس سے بڑھ کر ہے؟ اور اس سے زیادہ نفع بخش کون ساسودا ہے؟ اے
تاجروں کے وہ گروہ جو درہم ودینار کمانے میں رغبت رکھتے ہو! اگر تم میں سے کسی سے
کہا جائے کہ فلاں شہر میں ایک درہم کے سامان سے دو درہم کما سکتے ہو اورایک دینار
کے سامان سے دو دینارتو تم لوگ وہاں جانے میں جلدی کرو گے، تکلیف برداشت کرو گے،
ایک دوسرے سے بڑھ کر کوشش کرو گے، اس لئے کہ اس میں نفع وفائدہ ہے (یہ تو دُنیوی
تجارت ہے) پس اس نفع بخش(اُخروی)سامان اور سہل وآسان تجارت کے عوض کیسا نفع ملے
گا؟ جس کے متعلق تمہیں صادق وامین ذات نے رب العلمین عَزَّوَجَلَّ کے حوالے سے خبر
دی کہ جب بھی تم اپنے نبی (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ) پر ایک بار درودِ
پاک پڑھوگے تو اللہ عزَّوَجَلَّ تم پر اس کے بدلے دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ توذرا
اس نفع کو بھی دیکھواور ہاتھ بڑھا کر اس پھل کو بھی توڑ کر چکھو۔
اس معنی میں چند اشعار ہیں،جن کا مفہوم یہ
ہے: ''جس نے اللہ عزَّوَجَلَّ سے معاملہ کیا اس کی تجارت میں گھاٹا نہیں، ہر ویران
دل اپنی عمر میں تقویٰ سے آباد ہوتا ہے اور تُو نبئ مختار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلَّم پر ایک بار درودِپاک پڑھتا ہے مگر رب عَزَّوَجَلَّ تجھ پر دس رحمتیں
نازل فرماتا ہے۔ اے شخص! آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر اپنے درودپاک
پڑھنے کو غنیمت جان! تُو اللہ عزَّوَجَلَّ کے ہاں نفع پانے میں کامیاب ہو جائے
گاکہ کامیاب وہی ہے جو اس کا شکر بجا لاتا ہے۔''
اے عظیم سچّے فقراءِ کرام کے گروہ! ہم نے تم
سے فائدہ اٹھایا اور تم سے احادیث روایت کیں، تمہاری وجہ سے ہم پر رحم کیا گیا۔
اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! میں تمہارا ذکر ِخیر اس لئے نہیں کر رہا کہ تمہیں بھلائی
کا حکم دوں اور برائی سے منع کروں۔ بلکہ میرے سامنے تو کسی کہنے والے کا یہ قول ہے: ''اِحْیَآءَ
الْقُلُوْبِ اِرْحَمُوْا اَمْوَاتَ الْقُلُوْبِ یعنی اے زندہ دل والو! مردہ دل والوں پر رحم کرو۔'' اور تمہارے
لئے شرف و فخر کے طور پر یہی فضیلت کافی ہے کہ اللہ عزَّوَجَلَّ نے اپنی کتاب میں
تمہاری تعریف فرمائی اور تمہیں اپنے خطاب سے مشرف فرمایا۔ چنانچہ ارشادِ باری
تعالیٰ ہے:
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ
اللہِ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ ضَرْبًا فِی الۡاَرْضِ
ترجمۂ کنز الایمان: ان فقیروں
کے لیے جو راہ خدا میں روکے گئے زمین میں چل نہیں سکتے۔(پ۳،البقرۃ:۲۷۳)
تشریح: مفسِّر شہیر، خلیفۂ اعلیٰحضرت، صدرالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین اشرفی
مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت
فرماتے ہیں: '' یعنی صدقاتِ مذکورہ جو آیہ '' وَمَا تُنْفِقُوْا
مِنْ خَیْرٍ'' میں ذکر ہوئے ان کا بہترین مصرف وہ فقراء ہیں جنہوں نے اپنے نفوس
کو جہاد و طاعتِ الٰہی پر روکا۔ شانِ نزول: یہ آیت اہلِ صُفَّہ کے حق میں نازل
ہوئی، ان حضرات کی تعداد چار سو کے قریب تھی، یہ ہجرت کرکے مدینہ طیِّبہ حاضر ہوئے
تھے۔ نہ یہاں ان کا مکان تھا، نہ قبیلہ، نہ کنبہ، نہ ان حضرات نے شادی کی تھی۔ ان
کے تمام اوقات عبادت میں صرف ہوتے تھے، رات میں قرآنِ کریم سیکھنا دن میں جہاد کے
کام میں رہنا۔ آیت میں ان کے بعض اوصاف کا بیان ہے۔''
اور تمہیں مبارک ہو کہ حضورنبئ پاک، صاحبِ
لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلَّم نے تمہارا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''اے فقراء کے گروہ! صبر
کرو یہاں تک کہ تم حوضِ (کوثر) پر مجھ سے ملو اوربے شک تم سب سے پہلے میرے پاس آؤ
گے۔''
(فضائل الصحابۃ لابن
حنبل،الحدیث۱۴۴۹،الجزء۲،ص۸0۵،بدون''یامعشرالفقراء'')
پس پاک ہے وہ ذات جس نے تمہیں خوشی ومسرت اور
کمال عطا فرمایا! تم سے محبت کی اور تمہیں فقر اختیار کرنے کی ترغیب دی اور نور کے
پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے اس فرمانِ عالیشان کے ساتھ تمہیں اس کے مانگنے کاحکم
فرمایا کہ ''میری امت کے فقراء، امیروں سے نصف دن پہلے جنت میں داخل ہو جائیں گے
اور وہ( نصف دن) پانچ سوسال کا ہو گا، وہ کھائیں گے، پئیں گے، نعمتیں لوٹیں گے،
اور لوگ حساب کے غم میں ہوں گے۔''
(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند
ابی ھریرۃ،الحدیث۱0۷۳۵،ج۳،ص۶0۵)
(جامع الترمذی،ابواب الزھد،باب ما
جاء ان فقراء۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۳۵۴، ص۱۸۸۸)
پاک ہے وہ ذات جس نے فقراء کے مقام کو
بلندکیا!ان کے ذکر کوعام کیا، صبر عطاکیا، ان کے لئے اجر وثواب دُگنا کر دیا۔اور
کیا ہی اچھا کلام ہے جو اُن کے غلام حریفیش(رَحِمَہ، اللہ تعالیٰ) نے ان کی شان
میں کہاہے:
ھُمُ الْفُقَرَآءُ
اَھْلُ اللہِ حَقًّا
وَقَدْ حَازُوْا بِضِیْقِ الْفَقْرِ فَخْرًا
ھُمُ الْفُقَرَآءُ قَدْ
صَبَرُوْا وَاُوْذُوْا
فَعَوَّضَھُمْ بِذَاکَ الصَّبْرِ اَجْرًا
ھُمُ الْفُقَرَآءُ
وَالسَّادَاتِ حَقًّا وَّمِنْھُمْ تَکْتَسِی
الْاَکْوَانُ عِطْرًا
ھُمُ الْفُقَرَآءُ
عَنْھُمْ فَارَ وذِکْرًا
وَحَدَثَ عَنْھُمُوْ سِرًّا وَّ جَھْرًا
فَکَمْ صَبَرُوْا عَلٰی
ضَیْمِ اللَّیَالِیْ فَعَوَّضَھُمْ
بِذَاکَ الْکَسْرِ جَبْرًا
وَقَدْ زَارُوْا
الْحَبِیْبَ وَشَاھَدُوْہ،
وَقَدْ سَجَدُوْا لَہٗ حَمْدًا وَّشُکْرًا
ترجمہ:
(1) یقیناً فقراء ہی اللہ والے ہیں، تحقیق فقر کی تنگی کے بدلے انہوں نے
فخر(یعنی بلند مقام ) کو پا لیا۔
(2) انہوں نے صبر کیا اور اذیتیں جَھیلیں تواللہ تعالیٰ نے انہیں اس صبر
پر اجر عطا فرمایا۔
(3) یہی لوگ حقیقی فقراء اورسردار ہیں اور انہی کی بدولت کائنات خوشبو میں
لپٹی ہوئی ہے۔
(4) کتنی ہی بار انہوں نے زمانے کی سختیوں پر صبر کیا لہٰذا اللہ
عزَّوَجَلَّ نے اس صبرکے عوض ان کو درستی عطا فرما دی۔
(5) انہوں نے اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ اور دیدار کیا اور اس کی حمد اور شکر
بجا لاتے ہوئے اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوگئے۔
اے اللہ عزَّوَجَلَّ کے مقرَّب بندو! اس ذات
کی قسم جس نے تم پر انعام اور احسانِ عظیم فرمایا! بے شک ہم چاہتے ہیں کہ تم ہماری
خامیاں دور کرو،ہماری مدد کرو، اورنبئ مکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ
ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر درودِ پاک پڑھنے میں ہمارے ساتھ
اپنی آوازوں کو بلند کرو۔ بے شک جو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر ایک
بار درودپاک پڑھتا ہے اللہ عزَّوَجَلَّ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، تو یہ
نو(9) گنا مزیدرحمت نازل ہوگی، تو کیا کوئی نفع یا فائدہ اس سے بڑ ھ کر ہے؟
حضور سیِّدُ الَمُبَلِّغِیْن،جنابِ رَحْمَۃٌ
لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ تقرب نشان ہے:'' جس
نے مجھ پر ایک بار درود پاک پڑھا اللہ عزَّوَجَلَّ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتاہے،
اورجس نے دس بار درودپاک پڑھا اللہ عزَّوَجَلَّ اس پر سو رحمتیں بھیجتا ہے، اور جس
نے سو بار درودپاک پڑھا اللہ عزَّوَجَلَّ اس پر ہزار رحمتیں نازل فرماتاہے، اورجس
نے ہزاربار درود پاک پڑھا میں اور وہ جنت کے دروازے پر ایک ساتھ ہوں گے۔''
(المعجم الاوسط،الحدیث۷۲۳۵،ج۵،
ص۲۵۲، مختصر۔ القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع للسخاوی،الباب الثانی فی
ثواب الصلاۃ والسلام علی رسول اللہ،ص۲۴۱)
پیارے اسلامی بھائیو! اب کیا کوئی دُرود پاک
پڑھنے والے خوش نصیب کے فضائل بیان کر سکتا ہے؟ جبکہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے
سَرْوَر، دوجہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحروبَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم
کا فرمانِ عالیشان ہے کہ ''جس نے ہزار بار مجھ پر دُرود پاک پڑھا میں اور وہ جنت
کے دروازے پرایک ساتھ ہوں گے۔''
صَلُّوْا عَلٰی
الْہَادِیِّ الْبَشِیْرِ مُحَمَّدٍ تَحَظُّوْا مِنَ
الرَّحْمٰنِ بِالْغُفْرَانِ
فَاللہُ قَدْ اَثْنٰی
عَلَیْہِ
مُصَرِّحًا فِیْ مُحْکَمِ الْاٰیَا وَالْقُرْآنِ
ترجمہ:
(1) تم ہدایت اور خوشخبری دینے والے حضرت سیِّدُنا محمدِمصطفی صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر درود ِپاک پڑھو رحمن عَزَّوَجَلَّ سے مغفرت کا حصہ پاؤ
گے۔
(2) تحقیق اللہ عزَّوَجَلَّ نے واضح نشانیوں اور قرآنِ پاک میں آپ صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی صراحتًا تعریف فرمائی۔
منقول ہے کہ جو شخص آپ صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ وآ لہ وسلَّم پر کھڑا ہوکر درودِپاک پڑھے تو بیٹھنے سے پہلے اور اگر بیٹھ کر
پڑھے تو کھڑے ہونے سے پہلے بخش دیا جاتا ہے۔ اور جو نیند کی حا لت میں آپ صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر دُرودِ پاک پڑھے بیدار ہونے سے پہلے بخش دیاجاتا
ہے۔ اور یہ اس طرح ہے کہ بندہ جب تک اللہ عزَّوَجَلَّ چاہے کفر کی حالت میں زندگی
بسر کرتا رہتاہے، اورجب اللہ عزَّوَجَلَّ اس کے لئے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو
اس کو کلمۂ شہا دت الہا م کر دیتا ہے، اور کوئی مسلمان اس کے پاس جا کر اسے کلمۂ
شہادت کی تلقین کرتا ہے اور اس کے سامنے بار بار کلمہ پڑھتا ہے۔ پھر وہ (مسلما ن )
اس کو کہتا ہے:''حضور نبي کریم،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر
درودِ پاک پڑھ۔'' جب وہ ایسا کر تا ہے اور اپنے اسلا م میں حسن پیدا کرتا ہے
اورنور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دوجہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحروبَر صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر درودِپاک پڑھتا ہے، تو اگر کھڑا تھا تو بیٹھنے سے
پہلے اور بیٹھا تھا تو کھڑے ہونے سے پہلے بخش دیا جاتا ہے۔
صَلُّوْا عَلٰی خَیْرِ
الْاَنَامِ مُحَمَّدٍ اِنَّ
الصَّلٰوۃَ عَلَیْہِ نُوْرٌ یَعْقِدُ
مَنْ کَانَ صَلَّی
قَاعِدًا یُّغْفَرُ لَہٗ قَبْلَ
الْقِیَامِ وَلِلْمَتَابِ یُجَدَّدُ
وَکَذَاکَ اِنْ صَلَّی
عَلَیْہِ قَآئِمًا یُغْفَرُ
لَہٗ قَبْلَ الْقُعُوْدِ وَیُرْشَدُ
ترجمہ:
(1) مخلوق میں سب سے بہترحضرت سیِّدنا محمد ِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلَّم پر دُرودِپاک پڑھو، بے شک ان پر درود پاک پڑھنا ایسا نور ہے جو
ضامن ہے۔یعنی بخشش کی گارنٹی ہے۔
(2) جو بیٹھنے کی حالت میں درود پاک پڑھے اُسے کھڑا ہونے سے پہلے بخش دیا
جا تا ہے۔ اور توبہ کرنے والے کو گناہوں سے پاک کر دیا جاتا ہے۔
(3) اور ایسے ہی اگر کھڑے ہو کر درودِپاک پڑھے تو بیٹھنے سے پہلے بخش دیا
جاتا اور اس کی رہنما ئی کی جا تی ہے۔
(4)
درود شریف
درود شریف پڑھنابھی جنت میں لے
جانے والاعملِ خیرہے اوردرودشریف کے برکات و فضائل کے بارے میں بکثرت احادیث موجود
ہیں۔ اس میں سے چند حدیثیں ہم تبرکاًذکر کرتے ہیں:
حدیث:۱
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ
اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ
اَکْثَرُھُمْ عَلَیَّ صَلٰوۃً۔رواہ الترمذی
(مشکاۃالمصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃعلی
النبی وفضلہا،الحدیث۹۲۳،ج۱، ص۱۸۹)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا
کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمام لوگوں
میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب قیامت کے دن وہ شخص ہوگا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود
شریف پڑھتا ہوگا۔(ترمذی)
اللهم صلى على محمد عبدك
و رسولك و صلى على المؤمنين والمؤمنات والمسلمين والمسلمات
حدیث:۲
عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَلاَۃً وَّاحِدَۃً صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ عَشَرَ صَلَوَاتٍ وَحُطَّتْ عَنْہُ عَشَرُ خَطِیَّاتٍ وَرُفِعَتْ
لَہٗ عَشَرُ دَرَجَاتٍ۔
( مشکاۃالمصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃعلی
النبی وفضلہا،الحدیث۹۲۲،ج۱،ص۱۸۹)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول
اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاہے کہ جو مجھ پر ایک مرتبہ
درود شریف پڑھتاہے اللہ تعالیٰ اس پر دس درودیں بھیجتاہے اوراس کے دس گناہ معاف
کردیئے جاتے ہیں اوراس کے لیے دس درجے بلند کردیئے جاتے ہیں۔(نسائی)
جزي
الله عنا سيدنا ومولانا محمداماهواهله صَلىَّ الله عَلَيهِ وَسلّم
حدیث:۳
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ
رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ
عَلَیَّ اِلَّا رَدَّ اللہُ عَلَیَّ رُوْحِیْ حَتّٰی اَرُدَّ عَلَیْہِ
السَّلَامَ۔رواہ ابوداود
(مشکاۃالمصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃعلی
النبی وفضلہا،الحدیث۹۲۵،ج۱، ص۱۸۹)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ
رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاہے کہ جو شخص بھی مجھ
پرسلام عرض کرتاہے تواللہ تعالیٰ میری روح کومجھ پرلوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس
کے سلام کا جو اب دیتا ہوں۔(ابو داود)
اللهم
صلى على سيدنا محمد وانزله المقعدالمقرب عندك يوم القيامه
حدیث:۴
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
رَغِمَ اَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ وَرَغِمَ اَنْفُ
رَجُلٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ اَنْ یُّغْفَرَ لَہٗ وَ
رَغِمَ اَنْفُ رَجُلٍ اَدْرَکَ عِنْدَہٗ اَبَوَاہُ الْکِبَرَ اَوْاَحَدُہُمَا
فَلَمْ یُدْخِلاَہُ الْجَنَّۃَ۔رواہ الترمذی
(مشکاۃالمصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃعلی
النبی وفضلہا،الحدیث۹۲۷،ج۱، ص۱۸۹)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،
انہوں نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ
اس شخص کی ناک مٹی میں مل جائے کہ جس کے پاس میراذکرکیاگیاتواس نے میرے
اوپردرودنہیں پڑھااوراس مردکی ناک مِٹی میں مل جائے کہ اس پررمضان کامہینہ داخل
ہواپھراس کی مغفرت ہونے سے قبل ہی رمضان گزر گیااور اس آدمی کی ناک مِٹی میں مل
جائے کہ جس کے پاس اس کے والدین نے بڑھاپے کو پالیا اور اس کے والدین نے اس کو جنت
میں نہیں داخل کیا۔(ترمذی)
اللهم صلى على سيدنا و
مولانامحمدو على اله و اصحابه واولاده وازواجه وذرياته و اهل بيته و اصحاره و
انصاره و اشياعه و محبيه وامته وعلينامعهم اجمعين يا ارحم الرحمين
حدیث:۵
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ اِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوْفٌ بَیْنَ السَّمَاءِ
وَالْاَرْضِ لَا یَصْعَدُ مِنْھَا شَیْءٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ عَلٰی نَبِیِّکَ۔رواہ
الترمذی
(مشکاۃالمصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃعلی
النبی وفضلہا،الحدیث۹۳۸،ج۱، ص۱۹۱)
حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
مروی ہے،انہوں نے کہاکہ دعا آسمان وزمین کے درمیان ٹھہری رہتی ہے دعاؤں میں سے
کوئی دعابھی اوپرنہیں چڑھتی یہاں تک کہ تو اپنے نبی پر درود شریف پڑھ لے۔(ترمذی)
اللهم صلى على سيدناومولانامحمدوسيدناادم
وسيدنانوح وسيدناإبراهيم وسيدناموسى وسيدناعيسى وما بينهم من النبيين والمرسلين
صلوات الله و سلامه عليهم اجمعين اللهم صلى على سيدناجبرائيل وسيدناميكائيل وسيدنا
إسرافيل وسيدناعزرائيل و حملة العرش و على الملائكةوالمقربين وعلى جميع الانبياء
والمرسلين صلوات الله و سلامه عليهم اجمعين
حدیث:۶
عَنْ اَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ
رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکْثِرُوا الصَّلٰوۃَ عَلَیَّ
یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاِنَّہٗ مَشْھُوْدٌ یَشْھَدُہُ الْمَلٰئِکَۃُ وَاِنَّ
اَحَدًا لَمْ یُّصَلِّ عَلَیَّ اِلَّا عُرِضَتْ عَلَیَّ صَلٰوتُہٗ حَتّٰی یَفْرُغَ
مِنْھَا قَالَ قُلْتُ وَبَعْدَ الْمَوْتِ قَالَ اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی
الْاَرْضِ اَنْ تَأْکُلَ اَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ فَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ
یُّرْزَقُ۔ رواہ ابن ماجہ (مشکاۃالمصابیح،کتاب
الصلاۃ،باب الجمعۃ،الحدیث:۱۳۶۶،ج۱، ص۲۶۵)
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی
ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم
لوگ جمعہ کے دن مجھ پربکثرت درودشریف پڑھو۔ کیونکہ جمعہ کادن فرشتوں کی حاضری کا
دن ہے کہ اس دن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو کوئی بھی مجھ پر درود شریف پڑھتا
ہے اس کا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ درود پڑھنے سے فارغ
ہوجائے ۔ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا آپ کی وفات کے بعد بھی؟
تو آپ نے فرمایا کہ بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام فرمادیا ہے کہ وہ انبیاء
علیہم السلام کے بدنوں کو کھائے۔ اس لیے اللہ عزوجل کا نبی زندہ ہے اور اس کو روزی
ملتی ہے۔(ابن ماجہ)
اللهم اختم لنا بحسن
الخاتمه ولا تختم عليلنابسوءالخاتمه اللهم ارزقني شهادة في سبيلك واجعل موتي في بلد
رسولك صلى الله عليه وسلم وصلى الله تعالى على خيرخلقه محمد و اله و اصحابه اجمعين
برحمتك يا ارحم الراحمين
تشریحات و فوائد
(۱)اس عنوان کی حدیث نمبر ۱کامطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ
میرے قریب وہ شخص رہے گاجودنیامیں سب سے زیادہ درودشریف پڑھتارہاہوگا۔
حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلم قیامت کے دن کبھی مقام محمود یعنی شفاعت کبریٰ کے مقام میں ہوں گے، کبھی حوض
کوثر کے پاس رہیں گے، پھر آخر میں فردوس اعلیٰ کی اُس منزل اعلیٰ میں تشریف
فرماہوں گے جو رب العالمین نے خاص طور پر اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلم کے لیے تیار کررکھا ہے، بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہ وسلم قیامت کے دن جہاں بھی اور جس مقام پر بھی ہوں گے حضور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے سب سے زیادہ قُرب اس خوش نصیب کو حاصل رہے گا جو دنیا
میں سب سے زیادہ درود شریف پڑھتا رہا ہوگا۔
درودشریف کی کثرت کے بارے میں
ترمذی شریف کی ایک حدیث بہت زیادہ رقت خیز وعبرت انگیز ہے۔
حدیث:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں
بہت زیادہ آپ پر درود پڑھا کرتا ہوں تو آپ بتادیجئے کہ دن رات کا کتنا حصہ میں
درود خوانی کے لیے مقرر کردوں؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا
کہ جس قدر تم چاہو مقرر کرلو ۔تو میں نے کہا کہ دن رات کا چوتھائی حصہ میں درود
خوانی کے لیے مقرر کرلوں؟ توحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ جس
قدر چاہو مقرر کرلو اگر تم چوتھائی سے زیادہ مقرر کرلو گے تو تمہارے لیے بہترہی
ہوگا۔ توحضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میں دن رات کا نصف حصہ
درود خوانی کے لیے مقرر کرلوں؟تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا
کہ جس قدر تم چاہو
مقرر کرلو اور اگر تم اس سے زیادہ وقت مقرر کرلو گے تو تمہارے لیے بہتر ہی ہوگا۔
توحضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ دن رات کا دو تہائی مقرر کرلوں؟تو حضور
صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ تم جتنا چاہو وقت مقررکرلو اور اگر
تم اس سے زیادہ وقت مقرر کرلو گے تو تمہارے لیے بہتر ہی ہوگا۔ تو حضرت ابی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں دن رات کا کل حصہ درود خوانی ہی میں خرچ کروں گا۔
تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ایسا کرو گے تو درود
شریف تمہاری تمام فکروں اور غموں کو دور کرنے کے لیے کافی ہو جائے گااور تمہارے
تمام گناہوں کے لیے کفارہ ہوجائے گا۔( مشکاۃالمصابیح،کتاب
الصلاۃ،باب الصلاۃعلی النبی وفضلھا،الحدیث۹۲۹،ج۱، ص۱۹۰)
(۲)حدیث نمبر۳ کامطلب ہے کہ جب میرا
کوئی اُمتی مجھ پر سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو اُس سلام کرنے
والے کی طرف متوجہ فرمادیتا ہے اور میں اس کے سلام کے جواب دیتا ہوں۔روح کو لوٹانے
کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کی روح جو آپ کے بدن سے جدا ہوچکی ہے وہ دوبارہ آپ کے بدن
میں داخل کی جاتی ہے۔ بلکہ روح کو لوٹانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی روح رب العزۃجل
جلالہ کے مشاہدہ میں ہر دم مستغرق رہتی ہے۔ مگر جب کوئی امتی سلام کرتا ہے تو اللہ
تعالی آپ کی روح کو عالم استغراق سے سلام کرنے والے کی طرف متوجہ فرمادیتا ہے اور
آپ متوجہ ہو کر اس کے سلام کا جواب عطا فرماتے ہیں۔چنانچہ حضرت شیخ محقق علامہ
عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے فرمایاکہ
لَیْسَ الْمُرَادُ بِعَوْدِ الرُّوْحِ
عَوْدُھَا بَعْدَ الْمُفَارَقَۃِ عَنِ الْبَدْنِ وَاِنَّمَا الْمُرَادُ اَنَّہٗ
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْبَرْزَخِ مَشْغُوْلٌ حَوْلَ الْمَلَکُوْتِ
فِی مُشَاہَدَۃِ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَزَّوَجَلَّ کَمَا
کَانَ فِی الدُّنْیَا فِیْ حَالَۃِ الْوَحْیِ وَفِی الْاَحْوَالِ الْاُخْرِ
فَعُبِّرَعَنْ اِفَاقَتِہٖ مِنْ تِلْکَ الْمُشَاھَدَۃِ وَ ذٰلِکَ الْاِسْتِغْرَاقِ
بِرَدِّالرُّوْحِ
(لمعات شرح مشکوۃ،از شیخ عبدالحق محدث دہلوی
علیہ الرحمۃ)
روح کے لوٹنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ بدن سے
جدا ہونے کے بعد پھر روح بدن میں آئی بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم عالمِ برزخ میں ملکوت کے ماحول میں رب العزۃ عزوجل کے
مشاہدہ میں مشغول ہیں جیسا کہ دنیا میں نزول وحی اور دوسرے خاص احوال میں حضور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اس قدر مشغول و مستغرق ہو جایا کرتے تھے کہ آپ کی
توجہ دوسری چیزوں کی طرف نہیں ہوا کرتی تھی تو اس مشاہدہ واستغراق سے افاقہ ہونے
اور آپ کی توجہ دوسری طرف مبذول و متوجہ ہونے کو روح لوٹانے کے لفظ سے بیان کردیا
گیا ہے۔(لمعات، مصنفہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ)
(۳) حدیث نمبر ۴ کا یہ مطلب ہے کہ حضور
صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے تین شخصیتوں کے لیے یہ دعا فرمائی کہ ''ان کی
ناک مٹی میں مل جائے۔'' ناک مٹی میں مل جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ذلیل و خوار
اور ناکام و نامراد ہوجائیں۔ عرب کے لوگ جب کسی آدمی کو انتہائی ذلیل کرتے تھے تو
اس کو مجبور کرتے تھے کہ وہ اپنی ناک کوزمین پر رگڑ کر اُس کو خاک آلود کرے۔ یہیں
سے''رَغِمَ اَنْفُہ، ''کا محاورہ چل پڑا کہ جب کسی کو انتہائی ذلیل کردیا جاتا ہے
تو یہ کہا جاتا ہے:''رَغِمَ اَنْفُہ،'' یعنی اس کی ناک مٹی میں مل گئی ۔فرمان حدیث
کا حاصل یہ ہے کہ تین شخصوں کے لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ذلیل و خوار ہونے کی دعا فرمائی ہے۔
(۱) جس کے سامنے حضورصلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کاذکرہو اور وہ درود شریف نہ پڑھے۔
(۲)جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور
رمضان میں عبادت کرکے اپنے کو مغفرت کے لائق نہ بنایا۔
(۳) وہ شخص کہ جس کے والدین
بڑھاپے کی حالت میں اُس کے پاس رہے اور اس نے والدین کی خدمت کرکے اپنے کو جنت کا
اہل نہ بنایا۔
اللہ اکبر!ان تینوں کی منحوسیت میں کیا شبہ کیا
جاسکتا ہے؟ جبکہ رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ان تینوں سے اِس قدر
خفا ہیں کہ ان لوگوں کی ذلت و خواری کی دعا فرمارہے ہیں۔ (معاذ اللہ تعالیٰ)
(۴) حدیث نمبر ۵ کا مضمون بالکل ظاہر ہے کہ کوئی دعا دربارِ الٰہی میں پہنچتی ہی نہیں
بلکہ زمین و آسمان کے درمیان معلق ہی رہتی ہے جب تک درود شریف نہ پڑھا جائے اس لیے
مستحب ہے کہ ہر دعا کے اول وآخر میں درود شریف پڑھ لیا جائے جیسا کہ اہلِ سنت
وجماعت کا طریقہ ہے۔
(۵)حدیث نمبر ۶سے ثابت ہوگیاکہ حضرات
انبیاء علیہم الصلاۃوالسلام بالخصوص حضرت سیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلم اپنی اپنی قبروں میں لوازمِ حیات جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور ہر گز ہرگز ان
کے جسموں کو مِٹی نہیں کھاسکتی کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام ٹھہرادیا ہے
کہ وہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے جسموں کو کھاسکے۔
اس حدیث کا آخری فقرہ کہ ''
فَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ یُّرْزَقُ'' یعنی
اللہ عزوجل کے نبی زندہ ہیں اور انہیں روزی دی جاتی ہے۔اس کا کیا مطلب ہے؟ تو اس
بارے میں صاحبِ
مرقاۃ کا بیان ہے کہ
یُرْزَقُ اَیْ رِزْقًا مَعْنَوِیًّا
فَاِنَّ اللہَ تَعَالٰی قَالَ فِیْ حَقِّ الشُّھَدَاءِ مِنْ اُمَّتِہٖ بَلْ
اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ فَکَیْفَ سَیِّدُھُمْ بَلْ رَئِیْسُھُمْ
وَلَا یُنَافِیْہِ اَنْ یَکُوْنَ ھُنَاکَ رِزْقٌ حِسِّیٌّ اَیْضًا
وَھُوَالظَّاھِرُ الْمَتَبَادِرُ (مرقاۃ ملخصًا)
یعنی انہیں رزقِ معنوی دیا جاتا
ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کے شہیدوں کے بارے میں فرمایا کہ '' بلکہ
وہ زندہ ہیں اور روزی دیئے جاتے ہیں۔'' تو پھر کیا حال ہوگا ان شہیدوں کے
سردارکابلکہ رئیس کا اور یہ جو ہم نے لکھ دیا ہے کہ رزق معنوی دیاجاتا ہے تو یہ
اسکے منافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں رزق حسی بھی عطا فرمائے اور یہاں یہی رزق
حسی مراد لینا ظاہر ہے جو جلد ذہنوں میں آجاتا ہے۔ (یعنی ظاہری طور پر کھانا پینا)
بہرحال درود شریف کی کثرت اعمال جنت میں سے
ایک بہت ہی امید افزا عمل ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ درود شریف کا وظیفہ ضرور
پڑھتا رہے تاکہ قیامت کے دن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا قرب نصیب ہو
جو دونوں جہان کی نعمتوں میں سب سے زیادہ عظیم نعمت اوردارین کی دولتوں میں سب سے
بڑھ کرانمول دولت ہے۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی
سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔
•Blogger | •Independent | •Journalist | •Writter | •Teacher | •Social Activities & •Motivator Rts are not endorsement.
Subscribe to:
Posts (Atom)