مخدوم سید نصیر الدین اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ

 

اسم گرامی: سید نصیرالدین اشرف. القابات: برہان العاشقین، شیخ الحدیث

ولادت باسعادت: ٢٢ ذی الحجہ ٩٩٥ ہجری  کو مرکز عقیدت کچھوچھہ مقدسہ کے علم وعرفان والے گھرانے میں آپ کی پیدائش ہوئی۔آپ کے والد ماجد قطب مشرق حضرت سید دیوان محمد صادق اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ کا تعلق تارک السلطنت, غوث العالم, محبوب یزدانی سلطان مخدوم سید اوحدالدین اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے پسر معنوی شہزادہ غوث الاعظم حضرت مخدوم سلطان سید عبدالرزاق نورالعین اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ کے خانوادہ مقدسہ سے ہے۔

سلسلہ نسب اس طرح سے ہے: سید نصیر الدین اشرف بن سید محمد صادق اشرف بن سید شاہ عبد الرحیم اشرف بن سید شاہ محمد راجو اشرف بن سید شاہ حاجی چراغ جہاں اشرف بن سید شاہ جعفر اشرف بن سید حسین اشرف قتال بن سید عبد الرزاق نورالعین اشرف سجادہ نشین کچھوچھہ مقدسہ رحمہم اللہ علیہم اجمعین

آپ کا سلسلہ نسب بیسویں پشت میں محبوب سبحانی غوث الاعظم دستگیر حضور سیدنا شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔

تعلیم و تربیت: ابتدائی تعلیم وحفظ قرآن اپنے جد امجد حافظ سید شاہ عبد الرحیم اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے مکمل کیا۔ کچھوچھہ مقدسہ میں متعدد علمائے کرام سے تکمیل علم کے بعد فراغت حاصل کی۔ روحانی تربیت اپنے والد ماجد قطب مشرق حضرت مخدوم سید شاہ دیوان محمد صادق اشرف علیہ الرحمہ سے پائی اور مرید ہوئے۔والد ماجد علیہ الرحمہ نے اپنی ظاہری حیات میں ہی خرقه خلافت و اجازت عطا فرماکر اپنا سجادہ نشین منتخب فرمایا۔ ابتداء میں خانقاہ صادقیہ اشرفیہ میں ہی تشنگان علم کی پیاس بجھاتے رہے اور تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے جلیل القدر علمائے کرام میں ہوتا ہے۔

آپ علیہ الرحمہ کے علم وفضل کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا کافی ہیکہ سلطان العارفین، سند المحدثین، جامع المنقولات، بحرالسلاسل حضرت مولانا سید شہباز محمد بھاگلپوری قدس سرہ نے باصرار آپ کو خانقاہ شہبازیہ میں شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز کیا۔ اور آپ کو اپنے جیسا عالم قرار دیا۔ حضرت مولانا سید شہباز محمد قدس سرہ آپ کو بہت چاہتے تھے۔

جب شاہ جہاں بادشاہ نے موضع جھنجھری سابق ضلع بھاگلپور میں مدرسہ کی بنیاد رکھی تو سید شہباز پاک قدس سره سے مدرسہ کی سرپرستی کے لئے عرض کیا تو حضرت سید شہباز پاک قدس سره نے فرمایا کہ میں اپنے جیسا عالم سید زادہ دونگا جوکہ اس کام کو بخوبی انجام دے سکتا ہے۔

بادشاہ نے کہا جو آپ کریں گے بہتر ہی ہوگا۔

 پھر حضرت سید شہباز پاک علیہ الرحمہ نے آپ کو بادشاہ شاہ جہاں سے ملوایا۔بادشاہ نے آپ سے مل کر دست بوسی کی اور بہت خوش ہوا۔ الغرض حضور سلطان العارفین کے حکم پر آپ علیہ الرحمہ کئی سالوں تک اس مدرسہ میں شیخ الحدیث کا کام انجام دیتے رہے۔آپ نے پانچ مرتبہ حرمین شریفین کی زیارت کی۔ اپنی ظاہری حیات میں ہی اپنے بڑے صاحبزادے حضرت سید شاہ عنایت مخدوم اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کو خرقۂ خلافت عطا کرکے سجادہ نشین منتخب فرمایا۔اللہ رب العزت نے آپ کو دو فرزند ارجمند عطا فرمایا۔ اول حضرت سید شاہ عنایت مخدوم اشرفی الجیلانی سجادہ نشین دوئم حضرت سید شاہ غلام مخدوم اشرفی الجیلانی (علیھما الرحمہ)

وصال پاک: 15 شعبان المعظم ١١١٧ ھ کو بمقام بنسی ٹیکر بھاگلپور میں علم وحکمت کا یہ آفتاب اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔

16 شعبان المعظم کو بعد نماز عصر تدفین کا کام انجام دیا گیا۔مزار پاک بھاگلپور (بہار) ہوائی اڈہ سے دکھن وپورب کی جانب تھوڑی دور بنسی ٹیکر میں باغ میں زیارت گاہ خاص وعام ہے۔16-17 شعبان المعظم کو آپ کا عرس پاک منایا جاتا ہے۔


وقتِ نکاح و رخصتی سیدہ عائشہ صدیقہ کی عمر کتنی تھی؟



 السلام علیکم ! ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اور رخصتی کس عمر میں‌ ہوئی؟ براہِ مہربانی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

منکرین حدیث نے اس بات کو بہت اچھالا ہے کہ حدیث شریف میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے وقت 9 سال عمر بتائی گئی ہے جو عقل و نقل کی رو سے غلط ہے۔ اس سے غیر مسلموں بلکہ پڑھے لکھے مسلمانوں کو بھی انکار حدیث کا بہانہ مل گیا ہے۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک شادی کے وقت کم سے کم 17 یا 19 سال تھی۔

دلائل: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بڑی بہن سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا طویل العمر صحابیات میں سے ہیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ ہیں۔ بڑی خدا رسیدہ عبادت گذار اور بہادر خاتون ان کی عمر تمام مورخین نے سو سال لکھی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان سے دس سال چھوٹی ہیں۔ سیدہ اسماء حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے پانچ یا دس دن بعد فوت ہوئیں۔ سن وفات 73ھ ہے۔ اس حساب سے سیدہ اسماء کی عمر ہجرت کے وقت 27 سال ہوئی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان سے دس سال چھوٹی ہیں تو آپ کی عمر ہجرت کے وقت 17 سال ہوئی۔ اگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی 2ھ کو مانی جائے تو رخصتی کے وقت آپ کی عمر مبارک 19 سال ہوئی۔ حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔اسلمت اسماء قديما وهم بمکة فی اول الاسلام... وهی آخر المهاجرين والمهاجرات موتا. وکانت هی اکبر من اختها عائشة بعشر سنين.. بلغت من العمر ماته سنة.

اسماء مکہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں۔ مہاجرین مردوں عورتوں میں سب سے آخر فوت ہونے والی ہیں۔ اپنی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال بڑی تھیں‘‘۔(ابن کثير، البدايه والنهايه 8 / 346 طبع بيروت)

اسلمت قديما بعد اسلام سبعة عشر انسانا... ماتت بمکة بعد قتله بعشره ايام وقيل بعشرين يوماً وذلک فی جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين.

مکہ معظمہ میں سترہ آدمیوں کے بعد ابتدائی دور میں مسلمان ہوئیں۔۔۔ اور مکہ مکرمہ میں اپنے بیٹے (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ) کی شہادت کے دس یا بیس دن بعد فوت ہوئیں اور یہ واقع ماہ جمادی الاولیٰ سن 73ھ کا ہے‘‘۔(علامه ابن حجر عسقلانی، تهذيب التهذيب 12 ص 426 طبع لاهور، الامام ابوجعفر محمد بن حرير طبری، تاريخ الامم والملوک ج 5 ص 31 طبع بيروت، حافظ ابونعيم احمد بن عبدالله الاصبهانی م 430ه، حلية الولياء وطبقات الاصفياء 2 ص 56 طبع بيروت)

اسلمت قديما بمکة وبايعت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم.. ماتت اسماء بنت ابی بکرالصديق بعد قتل ابنها عبدالله بن الزبير وکان قتله يوم الثلثاء لسبع عشرة ليلة خلت من جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين.

’’سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں قدیم الاسلام ہیں۔ آپ نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی۔ اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے چند دن بعد فوت ہوئیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت بروز منگل 12 جمادی الاولیٰ 73ھ کو ہوئی ہے‘‘۔ (محمد ابن سود الکاتب الواقدی 168ه م 230ه الطبقات الکبریٰ ج 8 / 255 طبع بيروت)

کانت اسن من عائشة وهی اختها من ابيها.. ولدت قبل التاريخ لسبع وعشرين سنة.

’’سیدہ اسمائ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ عمر کی تھیں۔ باپ کی طرف سے سگی بہن تھیں۔ ہجرت سے 27 سال قبل پیدا ہوئیں‘‘۔ (امام ابن الجوزی، اسدالغايه فی معرفة الصحابة ج 5 ص 392 طبع رياض)

اسلمت قديما بمکة قال ابن اسحق بعد سبعة عشر نفسا.. بلغت اسماء مائة سنة ولدت قبل الهجرة لسبع وعشرين سنة.

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ میں ابتدائً مسلمان ہوئیں۔ ابن اسحاق نے کہا سترہ انسانوں کے بعد سو سال عمر پائی ہجرت سے 27 سال پہلے پیدا ہوئیں‘‘۔(شهاب الدين ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی، الاصابة فی تميز الصحابة 4 ص 230 م 773ه طبع بيروت، سيرة ابن هشام م 1 ص 271 طبع بيروت، علامه ابن الاثير، الکامل فی التاريخ 4، ص 358 طبع بيروت، علامه ابوعمر يوسف ابن عبدالله بن محمد بن عبدالقرطبی 363ه، الاستيعاب فی اسماء الاصحاب علی هامش الاصابة 463ه ج 4 ص 232 طبع بيروت، حافظ شمس الدين محمد بن احمد الذهبی، تاريخ الاسلام ودفيات المشاهير والاسلام ج 5 ص 30 طبع بيروت، الروض الانف شرح سيرة ابن هشام ج 1 ص 166 طبع ملتان)

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سن ہجری کا آغاز نہیں ہوا اور سن عیسوی یا کسی اور سن کا عرب معاشرے میں تعارف یا چلن نہ تھا۔

اہل عرب کسی مشہور تاریخی واقعہ سے سالوں کا حساب کرتے تھے مثلاً واقعہ اصحاب فیل، سے اتنا عرصہ پہلے یا بعد وغیرہ۔ باقاعدہ سن ہجری کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں کیا اور اس کا آغاز سال ہجرت سے کیا۔

پہلی سن ہجری، دوسری سن ہجری، تیسری سن ہجری میں کم سے کم امکانی مدت۔ پہلی سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ لیں اور دوسری سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم، دو سنوں میں وقفہ ایک دن۔ دوسرے رخ سے دیکھیں پہلی سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم، دوسری سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ، کل مدت دو سال مکمل۔ دونوں صورتوں میں سن بدل گئے مگر ایک طرف ایک دن ملا اور دوسری طرف پورے دو سال۔ جب تک تاریخ اور مہینہ متعین نہ ہو یہ فرق باقی رہ کر ابہام پیدا کرتا رہے گا۔

آج کل پرنٹ میڈ یا کتنی ترقی کرچکا ہے مگر کتابوں میں، اخبارات میں، حد تو یہ کہ قرآن کریم کی طباعت و کتابت میں غلطی ہوجاتی ہے، پہلا دور تو ہاتھوں سے کتابت کا دور تھا، ممکن ہے ’’تسع عشر‘‘ انیس سال عمر مبارک ہو، مگر کتابت کی غلطی سے تسع یا تسعاً رہ گیا اور عشر کا لفظ کتابت میں ساقط ہوگیا ہو، تسع عشر انیس سال کی جگہ تسعاً یا تسع یعنی نو سال باقی رہ گیا اور آنے والوں نے نقل درنقل میں اسی کو اختیار کرلیا کہ نقل کرنے والے اعلیٰ درجہ کے ایماندار، پرہیزگار، علوم وفنون کے ماہر، صحیح و سقیم میں امتیاز کرنے والے، نہایت محتاط لوگ تھے۔ وجہ سقوط کچھ بھی ہونا ممکن نہیں۔ حقائق بہر حال حقائق ہوتے ہیں، ان کے چہرے پر گردو غبار تو پڑسکتا ہے مگر ہمیشہ کے لئے اسے مسخ نہیں کیا جاسکتا۔ احادیث کی تمام کتب میں ایسے تسامحات کا ازالہ کیا جانا چاہئے تاکہ بد اندیش کو زبان طعن دراز کرنے کی ہمت نہ رہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔    مفتی: عبدالقیوم ہزاروی