آئینۂ ہندوستان اخی سراج الدین عثمان قد س سرہ

آئینۂ ہندوستان اخی سراج الدین عثمان قد س سرہ النورانی

ایک مختصرتعارف

           آئینہ ہندوستان شیخ اخی سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کا اصل نام عثمان ، عرفی نام سراج الدین ہےاور دونوں ملاکر سراج الدین عثمان لکھاجاتاہے ۔ اکثر مختصر وطویل سوانحی تذکروں میں آپ کا یہی نام ملتاہے ۔

          لطائف اشرفی میں ہے کہ:’’اسم شریف وے حضرت شیخ عثمان بود‘‘۔ حضرت شیخ اخی سراج کا اسم شریف عثمان تھا۔[لطائف اشرفی فی بیان طوائف صوفی،حضرت نظام یمنی،ص:۳۵۵، مکتبہ سمنانی ، فردوس کالونی ،کراچی پاکستان، سال اشاعت ۱۴۱۹ھ /۱۹۹۹ء[

           ’’اخی سراج ‘‘ ، ’’سراج الدین‘‘اور ’’سراج الحق والدین ‘‘ القابات ہیں۔والد گرامی، والدئہ ماجدہ اور دادا کے نام وکام کے تذکروں کے بیان سے سوانحی کتابیں خاموش ہیں،اس سلسلے میں جتنی روایتیں ہیں وہ نا قابل اعتبار اور روایتاً ودرایتاً غیر ثابت شدہ ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بحقیقۃ الحال۔

          آپ کی تاریخ ولادت کاثبوت کسی معبتر ومشہور کتاب میں نہیں ملتا،اخبار الاخیارمترجم کی روایت کے مطابق ۶۵۶ھ سال ولادت ہے۔

تعلیم وتربیت: آئینۂ ہندوستان شیخ اخی سراج الدین عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت اودھ میں ہوئی، یہیں پر بچپن گزرا، نشوونماہوئی اور ابتدائی تعلیم کی تکمیل ہوئی، اوروں کی طرح آپ بھی باشندۂ اودھ ہونے کی وجہ سے اودھی کہلانے لگے ، ابھی سن شعور ہی کوپہنچے تھے کہ آپ کا گھرانا اودھ سے لکھنوتی ہجرت کر گیا۔اس طرح آپ اودھی ثم بنگالی ہوگئے۔

          خلیفۂ مخدوم سید اشرف جہاں گیر سمنانی شیخ نظام یمنی علیہما الرحمہ لکھتے ہیں کہ:’’مسکن و موطن درخطۂ اودھ داشتند‘‘اخی سراج الدین عثمان کا وطن ومسکن مضافات اودھ میں تھا‘‘۔ [لطائف اشرفی فی بیان طوائف صوفی،حضرت نظام یمنی،ص:۳۵۵، مکتبہ سمنانی ، فردوس کالونی ،کراچی پاکستان، سال اشاعت ۱۴۱۹ھ /۱۹۹۹ء[

          حضرت آئینۂ ہندوستان کا گھرانا اودھ سےلکھنوتی منتقل توہوگیا لیکن اکثرافراد خاندان اودھ ہی میں مقیم رہے ۔اور حضرت آئینۂ ہندبنگال سے اعلی تعلیم کے لیے دہلی روانہ ہوگئے۔اودھ سے براہ راست دہلی اس لئے نہیں گئے کہ یہاں لکھنوتی میں آپ کی والدۂ کریمہ پہلے ہی سےقیام فرماتھیں اور ان سے ملاقات واجازت کے بغیردہلی جاناآپ کے لیےممکن نہیںتھا، اس لئے پہلے لکھنوتی تشریف لائے اورپھر یہاں سے عازم دہلی ہوئے۔

آئینہ ہندوستان اخی سراج الدین عثمان، شیخ نظام الدین اولیاکے مرید تھے: آئینۂ ہندوستان شیخ اخی سراج الدین عثمان رحمۃ اللہ علیہ ، سلطان المشایخ حضرت شیخ نظام الدین بدایونی ثم دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید وخلیفہ تھے۔ اکثر سوانح نگاروں نے یہی لکھا ہے۔یہی قول صحیح بھی ہے ۔بعض سوانح نگارنے آپ کو شیخ العالم فرید الدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ کا مرید لکھاہے۔جو یقیناً درست نہیں ہے۔حضرت آئینۂ ہند کو دربارمرشد میں خادم خاص کا درجہ حاصل تھا،خدمت سلطان المشایخ میں ہمیشہ حاضر باش خدام میں آپ کا شمار ہوتاتھا،  آپ کی پرورش وتربیت ان خاصان ِدربارکی صحبت میں ہوتی تھی جو سلطان المشایخ کی خدمت میں ہمہ وقت رہاکرتے تھے۔

           شیخ محمد بن مبارک علوی کرمانی  علیہ الرحمہ نےلکھا ہے کہ:

          ’’درصحبت یاران کہ ملازم سلطان المشایخ بودند پرورش یافتہ‘‘اخی سراج الدین نے ایسے دوستوں کی صحبت میں پرورش پائی جو سلطان المشایخ کی خدمت میں ہمیشہ رہاکرتے تھے۔ ( سیر الاولیا فارسی،مولانامحمد بن مبارک علوی کرمانی،ص: ۲۸۸ ،مطبوعہ مطبع محب ہند دہلی ، سن اشاعت۱۳۰۲ھ)

تکمیل تعلیم اور حصول خلافت : سیر الاولیامیں ہے کہ’’درباب خدمت مولانا سراج الدین فرمان شد کہ اول درجہ دریں کار علم است، یعنی از علم اوچنداں حصہ ندارد‘‘۔ سلطان المشایخ نے مولانا سراج الدین کے حق میں فرمایاکہ: ’خلافت کے لیے پہلادرجہ علم کاہے‘یعنی وہ علم کاچنداں حصہ نہیں رکھتے ہیں۔ ( سیر الاولیا فارسی ،مولاناسید محمدبن مبارک علوی کرمانی،ص: ۲۸۸ ،مطبوعہ مطبع محب ہند دہلی ، سن اشاعت۱۳۰۲ھ)

          نظامی بنسری میں ہےکہ:’’ جب خلافتوں کی تقسیم کا وقت آیا توحضرت سلطان المشایخ نے فرمایا: ’’سراج الدین مجھے سب سے زیادہ مقدم معلوم ہوتے ہیں اور میں ان کو آئینۂ ہندوستان سمجھتاہوں ‘‘، لیکن انہوں نے علوم دین حاصل نہیں کیےاور خلافت کے لیے عالم دین ہونا ضروری ہے‘‘۔[ نظامی بنسری،خواجہ سید حسن نظامی دہلوی،ص:۴۱۲، ناشرخواجہ حسن نظامی میموریل سوسایٹی،بستی درگاہ حضرت نظام الدین اولیادہلی،سال اشاعت۱۴۰۴/۱۹۸۴، اشاعت چہارم[

          ’چنداں حصہ‘کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آپ کے پاس علم تو تھا مگر اتناعلم نہیں تھاجتنا سلطان المشایخ رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت کا مستحق بننے کے لیے ضروری تھا ، یعنی آپ اس وقت بڑے عالم دین نہیں تھے۔چنانچہ حضرت علامہ شیخ فخر الدین زرادی علیہ الرحمہ  جو سلطان المشایخ کے نہایت قریبی اور وقت کےممتاز عالم دین تھے ، انہوں نے سلطان المشایخ رحمۃ اللہ علیہ کے حضور شیخ سراج الدین کی ذات کے تعلق سے عرض کیاکہ: میں اسے چھ مہینے میں عالم متبحر بنادوں گا، چناں چہ بڑی عمر کو پہنچنے کے بعد حضرت آئینۂ ہند نے علم حاصل کیا اور خلافت کے مستحق ہوئے۔لطائف اشرفی میں ہے کہ:

          ’’درحد افادت رسیدند بعدہ خلافت نامہ بمہر اشرف شریف یافتہ‘‘۔ اخی سراج علیہ الرحمہ جب علم میں مہارت حاصل کرکے مرتبۂ افادت پر فائز ہوگئے تو خلافت نامہ انہیں مہر اشرف شریف سے مختوم کرکے دیاگیا۔[لطائف اشرفی فی بیان طوائف صوفی،حضرت نظام یمنی، ص: ۳۵۵، مکتبہ سمنانی ، فردوس کالونی ،کراچی پاکستان، سال اشاعت ۱۴۱۹ھ /۱۹۹۹ء[

          مختصریہ ہے کہ آئینۂ ہندوستان اخی سراج الدین عثمان علیہ الرحمہ نے خلافت سے پہلےچند سال، خلافت کے بعد چند سال اوراپنے مرشد گرامی کے وصال کے بعد تین سال تک ماہرین علوم وفنون سے اکتساب علم کیا،تخمینہ یہ ہے کہ اپنی عمرعزیز کی کل دس سالہ مدت کو آپ نے ظاہری علوم وفنون کی تحصیل میں صرف کیا ،اس دوران روحانیت کے اعلی منازل کا سفر بھی کرتے رہے۔اس طرح سرزمین دہلی پر آئینۂ ہند کی شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے میں چار عظیم ہستیوں نے اہم کردار اداکیا۔ (۱) سلطان المشایخ سید محمد نظام الدین بدایونی ثم دہلوی (۲) چراغ دہلوی مخدوم شیخ نصیر الدین اودھی ثم دہلوی (۳) عالم ربانی حضرت علامہ شیخ فخر الدین زرادی اور(۴) جامع معقول ومنقول علامہ شیخ رکن الدین اندرپتی۔

  شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلی سے ا کتساب فیض اورحصول خلافت :  آئینۂ ہند وستان شیخ اخی سراج الدین عثمان رحمۃ اللہ علیہ جب پنڈوہ شریف سےدوبارہ دہلی تشریف لے گئے تو سلطان المشایخ سید محمد نظام الدین بدایونی ثم دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کاوصال ہوچکاتھا،لیکن آپ نے در مرشد کوچھوڑانہیںبلکہ حظیرۂ مرشد گرامی ہی میںاپناقیام رکھا اور جانشین مرشد گرامی شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی سے تربیت حاصل کرتے رہے۔ محمد قاسم فرشتہ لکھتے ہیں کہ:

          ’’ مریدانِ شیخ نصیر الدین اودھی چراغ دہلی سے شیخ اخی سراج پروانہ ہیں ، اور وہ اگرچہ شیخ نظام الدین اولیاکی نسبت سے ارادت صادق رکھتے تھے اور اس جناب سے تربیت پاکر بنگال کی طرف رخصت ہوئے تھے، لیکن شیخ نظام الدین اولیاکے بعدِ وفات پھر دہلی میں آئے اور دست ارادت شیخ نصیر الدین چراغ دہلی کے ہاتھ میں دے کر درجۂ کمال کو پہنچے اور خرقہ بنگالہ کی خلافت کا پایا‘‘۔[محمد قاسم فرشتہ، تاریخ فرشتہ مترجم،ج:چہارم، ص:۷۷۶،ناشر ایوب پبلی کیشنزدیوبند، سال اشاعت ۲۰۰۹[

 دہلی سے لکھنوتی روانگی: آئینۂ ہندوستان اخی سراج الدین عثمان اودھی رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیرومرشد سلطان الاولیاسید محمد نظام الدین اولیاء دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی دعائے خاص لے کر دہلی سے لکھنوتی کے لیے روانہ ہوئے۔ روانگی کے وقت آپ کا قافلہ کتنابڑاتھا یہ بتاپانابہت مشکل ہے، البتہ بعض مصادرومراجع کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ سلطان المشایخ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو تنہاروانہ نہیں فرمایاتھا،بلکہ معززعلمائے کرام کی ایک جماعت آپ کے ساتھ تھی جن میں سلطان المشایخ رحمۃ اللہ علیہ کےحقیقی برادر زادہ سید محمد ابراہیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے۔ مولاناسید قیام الدین نظامی لکھتے ہیں کہ:

          ’’حضرت محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہ نے اپنے حقیقی بھائی سید جمال الدین بدایونی ابن خواجہ سید احمد بدایونی کے انتقال کے بعد،ان کے خورد سال لڑکے سید ابراہیم کو اپنے پاس دہلی بلوالیا،سید ابراہیم نے اپنے چچامحبوب الہی کی خدمت میں رہ تعلیم وتربیت حاصل کی،بعض تذکرہ نگاروں نے حضرت سید ابراہیم کوحضرت محبوب الہی کے چچازاد بھائی کا بیٹالکھاہے،جب حضرت اخی سراج الدین کوحضرت محبوب الہی کی طرف سے بنگال جانے کاحکم ہوا،توحضرت سید ابراہیم بھی ساتھ کردئے گئے،جہاں آپ کا مستقل قیام پنڈوہ میں ہوا،حضرت سید ابراہیم کی شادی پنڈوہ میں حضرت پیر بدر الدین بدرعالم زاہدی کی ہمشیرہ سے ہوئی،جو حضرت شیخ علاءالحق پنڈوی کی سالی تھیں،اس طرح حضرت ابراہیم ابن سید جلال الدین بدایونی اورشیخ علاء الحق پنڈوی ہم زلف تھے‘‘ ۔[ شرفاکی نگری ،تذکرئہ صوفیائے بہار، سید قیام الدین نظامی ،ج:۱،ص:۱۲۶،ناشر نظامی اکیڈمی کراچی، سال اشاعت ۱۹۹۵[

’’جس وقت آپ کا ورود مسعود لکھنوتی میں ہوااس وقت سیدناعلاء الحق والدین قدس سرہ مبتلائے عوارض تھے، زندگی کی خیرات مانگنے کے لیے درعثمانی میں آئے، دیکھا کہ جبین اقدس نورولایت سے چمک رہی تھی اورچہرۂ مقدس پر فقروعرفان کا جلوہ جگمگارہاتھا، پس چشمہائے وارفتہ محونظارہ ہوگئیں ، آنکھیں عالم سرخوشی وسرمستی میں جام محبت پی پی کر اور بھی مخمور ہوگئیں، دل کی انگیٹھی میں عشق کی آگ روشن ہوگئی، اور آن واحد میں اس کی سوزش وتپش دنیوی حرص وآز کے قلعے اور فانی عزت وشوکت اور جاہ وجلال کے تاج محل کو خاکستر کرگئی، کائنات وجود میں ایک زبردست انقلاب برپاہوااور پیشانی مبارک جس کو کبھی محل وزارت کی عظمتیں سلام کرتی تھیں اب وہ ایک گدائے بے نواکے قدموں پر خم تھیں، اور وہ سراقدس جو کبھی نرم وگداز سجادے کی زینت تھا اب وہ ایاغ بیعت میں سجاکر درویش جہاندیدہ کے دل مصفٰی میں ڈال دیاگیا، اور وہ جسم اطہرجو کبھی لباس فاخرہ سے آراستہ تھا ، اب وہ گدڑی میں ملبوس ودلق پوش تھا، اوروہ زبان مزکیٰ جس پر کبھی شہرت وناموری کے ترانے تھے اب اس پر فقروانکساری کے زمزمے جاری تھے۔’’ان کے درکی بھیک اچھی، سروری اچھی نہیں۔ [لطائف اشرفی، ترجمہ سید عبد الحئی اشرف، مقدمہ ص:۲۷،۲۸، مضمون نگار مولانا عزیزیعقوب ضیائی، ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچھہ شریف، سن اشاعت ندارد۔ملخصاً [

          اس قول کو محدث اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ نے محققین کا قول قرار دیاہے ۔لکھتے ہیں:’’محققین کے نزدیک بیعت کے لیے خودمولانا علاء الحق حضرت مخدوم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے‘‘۔[ شیخ العالم علاء الحق گنج نبات،محدث اعظم ہند سید محمد اشرفی کچھوچھوی،ص:۱۲، ناشر اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن حیدرآباددکن، سال اشاعت ۲۰۱۷ء[

          آئینۂ ہند اخی سراج الدین عثمان علیہ الرحمہ نے بنگال کی سرزمین پر رفاہی وفلاحی اور علمی خدمات کے بڑے کارنامے انجام دئے۔سراجی شفاخانہ،سراجی لنگر خانہ،لائبریری کا قیام فرمایاہے اور اپنی خانقاہ سراجیہ چشتیہ کو دانش کدئہ علم بنادیا۔آپ صاحب تصانیف بزرگ تھے۔کل تصنیفات کتنی ہیں ؟ اس کا مکمل ذکر کہیں نہیں ملتا۔ علامہ مبارک حسین مصباحی چیف ایڈیٹر ماہنامہ اشرفیہ واستاذ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور لکھتے ہیں کہ:

          ’’وللشیخ سراج الدین ید بیضا فی تفہیم قواعد العربیہ ولہ تصانیف غراء فی التصریف نحو’’ میزان الصرف‘‘ و ’’پنج گنج‘‘و فی النحو’’ ھدایۃ النحو‘‘، وھذا[ھذہ] الکتب متداولۃ فی أیدی الاساتذۃ والطلاب من ذالک الزمن الطویل الی یومنا ھذا‘‘شیخ سراج الدین کو قواعد عربی کی تفہیم میں ملکہ حاصل تھا، علم صرف ونحومیں ان کی شاہ کار تصنیفات ہیں ، مثلا: علم صرف میں ’’میزان الصرف‘‘ اور ’’پنج گنج‘‘ اور علم نحومیں ’’ہدایۃ النحو‘‘۔ ہدایۃ النحو اس زمانہ سے آج تک اساتذہ وطلبہ کے درمیان مقبول متداول ہے۔[ہدایۃ النحو، مضمون : مصنف ہدایۃ النحو،مولانا مبارک حسین مصباحی، ص:۵، مطبوعہ مجلس برکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ،سال اشاعت ۲۰۰۱ء/۱۴۲۲ھ [

          آئینۂ ہندوستان اخی سراج الدین عثمان علیہ الرحمہ نے لمبی عمر پائی۔ سیر الاولیا میں میر خورد علیہ الرحمہ نے سال وصال درج نہیں کیاہے ،مگر ایک ایسا جملہ لکھاہے جس سے ان کی عمر کی درازگی کا پتہ چلتاہے ۔وہ جملہ یہ ہے:’’وعمرے باکمال یافت‘‘ اخی سراج نے لمبی عمر پائی۔ ( سیر الاولیا فارسی ،مولانامحمد بن مبارک علوی ،ص:۲۸۹ ،مطبوعہ مطبع محب ہند دہلی ، سن اشاعت۱۳۰۲ھ )

           مفتی غلام سرورلاہوری علیہ الرحمہ خزینۃ الاصفیا میں لکھتے ہیں کہ:’’شیخ اخی سراج الدین قدس سرہ ۷۵۸ھ میں فوت ہوئے ‘‘۔

چوں سراج الدین شد از دنیائے دوں

                                                                                                                                                     سال                                             وصل                                          آں                                                      شہ                                        والا                                       مکاں

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    "عارف                                        احمد                       سراج                     الدین"                                        بگو

سال            ’’ محرم سراج الدین‘‘                  بخواں

          سراج الدین جب اس حقیر دنیا سے وصال فرماگئے ، اس شہ والامکاں کا سال وصال، مادہائےتاریخ ’’عارف احمد سراج الدین‘‘ اور ’’محرم سراج الدین‘‘میں تلاش کیجیے۔ [خزینۃ الاصفیا،مفتی غلام سرور لاہوری،ج:۲،ص:۲۲۶،۲۲۷، مکتبہ نبویہ لاہور۔]مزار اقدس سعد اللہ پور  (نزد پنڈوہ شریف) مالدہ مغربی بنگال میں ہے۔