لاریب تمام صحابہ کرام
رضوان ﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین، نجوم ہدایت اور عدول ہیں، اعلیٰ بصیرت کامل فہم و
فراست اور قرآن و حدیث دانی میں یکتا اجتہادی قوت کے جامع گذرے ہیں،رسول ﷲ ﷺ کی
تربیت صحبت بافیض کا یہ اثر تھا، کہ صحابہ کی پوری جماعت مبارک ومسعود ملکوتی فکر
کے حامل تھی،ہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بعض کو بعض پر فضیلت دی
گئی ہے، ان میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں پھر عشرہ مبشرہ ،پھر بدر والے، پھر
بیعت رضوان والے، پھر اصحاب قبلتین افضل ہیں، اب قیامت تک کوئی ان کے مقام ومرتبہ
تو کیا خاک کف پا کی عظمتوں تک رسائی نہیں پاسکتا، تاجدار کائنات ﷺ کے انتقال
مکانی فرمانے کے بعد دھیرے دھیرے صحابہ کرام بھی وصال یار کرنے لگے،زمین بارگاہ
رسالت مآب ﷺ کے سنوارے ہوئے مزکیٰ نفوس قدسیہ کے ظاہری وجود سے تہی دامن ہونے لگی،
بس چند صحابہ رہ گیے تھے، ڈر تھا کہ اب ان کے رخصت ہونے پر کشتی ملت کا ناخدا
اسلامی وراثتوں کا امین و محافظ امت کی تنگ وتاریک راہوں کا چراغ کون ہوگا، قرآن
وحدیث سےمسائل کا استخراج و استنباط کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھا، قریب تھا، کہ
لوگ اجتہاد کے نام پر بکھر جاتے، اور دین کا شیرازہ منتشر ہو کر رہ جاتا، لہذا امت
کو انتظار تھا اس جلیل القدر مجتہد مطلق سراج امت کا جن کی بشارت زبان نبوت
سے پہلے مل چکی تھی۔
امام جلال الدین سیوطی
شافعی متوفیٰ ۹۱۱ھ/۱۵۰۱۵ نے ”التبیض الصحیفہ فی مناقب
امام الابی حنیفہ“میں فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ حضور ﷺ نے حضرت سیدنا امام اعظم
ابوحنیفہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے اس حدیث میں بشارت دی ہے، جسے ابونعیم نے حلیہ
میں بروایت ابوہریرہ نقل فرمایاہے، کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لوکان العلم منوطا
بالثریالتناولہ رجال من ابناء فارس اگر علم ثریا پر پہونچ جائے تو فارس کے
جواں مردوں میں سے ایک جواں مرد ضرور اس تک پہونچ جائیگا“۔
قارئین !امام سیوطی نے
اسی مفہوم کی حدیث حضرت قیس بن سعد بن عبادہ حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کی
روایت صحیح بخاری، مسلم معجم طبرانی کبیر، کے حوالے سے بھی نقل فرمائی ہے، حضور ﷺ
کی بشارت عظمیٰ کے پیکر میں 80ھجری کو عراق کے شہر کوفہ میں حضرت امام اعظم
ابوحنیفہ کی ولادت ہوئی، آپ کا خاندان اہل ثروت اور زہد تقوی کا نمونہ تھا، پیشے
سے لوگ تاجر تھے، ولادت کے بعد آپ کا نام نعمان رکھا گیا، والد حضرت ثابت ہیں،
زبان وبیان کے اعتبار سے فارسی النسل تھے، ضروری علوم سے فارغ ہوکر آپ تجارت کے
پیشہ سے وابستہ ہوگیے۔
ایک دن حضرت عامر شعبی
سے ملاقات ہوگئی، عامر شعبی اپنے وقت کے جلیل القدر محدث اور خدا ترس بزرگ تھے،
فراست ایمانی اور ینظر بنور ﷲ کے کمال سے نعمان بن ثابت جیسے خوبرو
نوجوان کو دیکھا تو فرمایا: ”غفلت میں نہ پڑو خود کو
حصول علم میں لگاو علماء کی مجلسوں میں جایا کرو میں تم میں بیدار مغزی اور کھوج
لگانے کا مادہ دیکھتا ہوں“۔
حضرت شعبی کے کلمات
نصیحت نے امام اعظم کو حددرجہ متاثر کیا اور تحصیل علم میں مستغرق ہوگیے،اور جہاں
کہیں علم کی شمع جلتے دیکھا وہاں پہونچ گیے، راہ علم کے سفر میں آپ نے سرد وگرم
خشک وتر دور نزدیک بھوک وپیاس کسی کا پرواہ نہیں کیے، حرمین شریفین کوفی بصرہ جاکر
مجالس علماء کی خاک چھانتے رہے، ہزاروں علماء ومشائخ فقہاء ومحدثین سے ملے، یہی
وجہ ہے کہ آپ کے اساتذہ کی تعداد چارہزار بتائی جاتی ہے، ان میں چند صحابہ کرام سے
بھی ملاقات ثابت ہے۔
امام سیوطی علیہ
الرحمہ نے سات کا نام خاص طور پر ذکر کیاہے۔ حضرت انس بن مالک، حضرت
عبدﷲ بن جزءالزبیدی، حضرت جابر بن عبدﷲ، حضرت معقل بن یسار، حضرت واثلہ بن الاسقع،
حضرت عائشہ بنت عجر رضی ﷲ تعالیٰ عنہم۔ مشاہیر مشائخ جن سے روایت اخذ فرمائی ہے،ان
کی تعداد ”تہذیب الکمال“میں 74اور آپ سے اخذ روایت کرنے والے 95نفوس قدسیہ کے
اسماء مذکور ہیں۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ
نے جن مشائخ سے استفادہ کیا ان میں ایک معروف نام سیدنا امام جعفر صادق رضی ﷲ
تعالیٰ عنہ کا بھی ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ امامت کے اس منصب پر
فائز ہیں کہ امام سیوطی نے لکھا ہے۔
”امام ابوحنیفہ کے مناقب
میں سے یہ بھی ہے کہ اس کام میں وہ منفرد ہیں کہ آپ ہی کی وہ ذات ہے جس نے علم
شریعت کی تدوین کی اور ان کو ابواب پر مرتب فرمایا پھر امام مالک نے آپ کی پیروی
کرتے ہوئے مؤطا کو مرتب کیا تبویب وتدوین کتب میں امام ابو
حنیفہ رضی ﷲ
عنہ پر
کوئی سبقت نہیں لے سکا۔“
امام شافعی رضی ﷲ تعالیٰ
عنہ فرماتے ہیں، الناس کلھم عیال علی الامام ابوحنیفہ تمام لوگ فقہ میں
امام ابوحنیفہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی اولاد ہے۔
دوسرے مقام پر گویا
ہیں: کان
ابوحنیفہ وقولہ فی الفقہ مسلما لہ فیہ امام ابوحنیفہ کا قول فقہ میں
مسلم ہے۔ امام شافعی کو امام اعظم کی عظمت کا اعتراف اس درجہ تھاکہ آپ کے مزار پر
حاضر جاتے جیساکہ ردالمحتار شامی نے نقل کیا ہے، ”میں امام ابوحنیفہ رضی ﷲ تعالیٰ
عنہ سے برکت حاصل کرتا ہوں اور آپ کی قبر کے پاس جاتا ہوں اور جب مجھے کوئی جاجت
پیش آتی ہے میں دورکعت نماز پڑھتا ہوں اور آپ کی قبر کے پاس جاکر ﷲ تعالیٰ سے دعا
کرتا ہوں بہت جلد میری وہ حاجت پوری ہوجاتی ہے“۔
قارئین! امام شافعی اس
عمل سے جہاں امام اعظم کی عظمت پر روشنی پڑتی ہے وہیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ
مزارات اولیاء پر جانا اور وہاں نماز پڑھنا ﷲ تعالیٰ عزوجل سے اپنی حاجت طلب کرنا
امر مباح اور امام شافعی کی سنت ہے۔
ائمہ اربعہ میں امام
مالک رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بھی ایک ہیں انہوں نے ایک بزرگ سے فرمایا۔ ”یہ ابوحنیفہ نعمان ہیں
جو یہ اگر کہدیں کہ یہ ستون سونے کا ہے تو ویسا ہی نکل آئیگا ان کو فقہ میں ایسی
توفیق دی گئی ہے کہ اس فن میں انہیں ذرا مشقت نہیں ہوتی“۔
حضرت امام احمد بن حنبل
رضی ﷲ تعالیٰ عنہ امام اعظم سے متعلق کیا خیال رکھتے تھے، شامی نے ابن حجر سے نقل
کیا کہ امام احمد فرماتے ہیں”امام ابوحنیفہ علم اور تقوی اور زہد واختیار آخرت میں ایسی جگہ تھے
کہ کوئی ان کو نہیں پہونچا“ اور محدث علی قاری حنفی نے تو اپنے استاذ ابن حجر
شافعی سے یہاں تک نقل فرمایا کہ ”امام احمد جب امام ابو حنیفہ کی ضرب علی القضا
اور ان کا ان سے باز رہنا ذکر کرتے تو روتے اور آپ پر رحم کرتے یعنی رحمت ﷲ علیہ
کہتے، اب ابن حجر فرماتے ہیں میں کہتا ہوں کہ گویا وہ (امام احمد بن حنبل) مسئلہ
خلق قرآن کی آزمائشوں میں امام اعظم ابوحنیفہ کے مقتدی تھے“۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ
کے مناقب اور عظمتوں کے اعتراف میں درجنوں کتب سیکڑوں فقہاء و مجتہدین کے ارشادات
موجود ہیں، جس کا احاطہ اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، مندرجہ بالا سطور سے یہ واضح
ہوگیا کہ ائمہ ثلاثہ بھی آپ کے قائل تھے، اور آپ اپنے وقت کے امام اعظم ہیں، اعلیٰ
حضرت فاضل بریلوی فرماتے ہیں۔
ہم اہلسنت کے امام اعظم
ہمام امام الائمہ سراج الامہ امام ابوحنیفہ رضی الله عنہ کےارشاد واجب الانقیاد
ہے، ایک دوسرے مقام پر ہے، حسبی من الخیرات ما اعددتہ یوم القیامۃ فی رضی الرحمٰن دین النبی
محمد خیرالورٰی ثماعتقادی مذھب النعمٰن وارادتی وعقیدتی ومحبتی للشیخ عبدالقادر
الجیلانی۔
میرے لیے نیکیوں سے وہ
کافی ہے جو روز قیامت خوشنودی الٰہی کی راہ میں، میں نے تیار کررکھا ہے نبی اکرم
مخلوق میں سب سے افضل حضرت محمد مصطفی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کا دین پاک پھر مذہب
نعمان امام اعظم ابوحنیفہ پر اعتقاد، اورسیدی شیخ عبدالقادر جیلانی سے ارادت اور
عقیدت ومحبت۔
اعلیٰ حضرت کا رسالہ اَجْلَی الْاِعْلَامِ
اَنَّ الْفَتْوٰی مطلقًاعَلٰی قَوْلِ الْاِمَامِ۔ فتوٰی
مطلقًا امام اعظم کے قول پرہوتاہے“ کا خطبہ ملاحظہ کریں
الحمد لله الحفی، علی
دینہ الحنفی، الذی ایدنا بائمۃ یقیمون الاود، ویدیمون المدد، باذن الجواد الصمد،
وجعل من بینھم امامنا الاعظم کالقلب فی الجسد،والصّلوۃ والسلام علی الامام الاعظم
للرسل الکرام
ہر ستا ئش خدا کے لئے جو
دین حنفی پر نہایت مہربان ہے جس نے ہمیں ایسے ائمہ سے قوت دی جو جو د وسخا والے بے
نیاز رب کے اذن سے کجی درست کرنے والے او ر ہمیشہ مدد پہنچا نے والے ہیں ، او ران
کے درمیان ہمارے امام اعظم کو یوں رکھاجیسے جسم میں قلب کو رکھا،اور درودو سلام ہو
معزز رسولوں کے امام اعظم پر (فتاویٰ رضویہ)
سبحان ﷲ رسولوں کے امام
اعظم سید المرسلین ﷺ اور ان کی امت کے امام ان کا عاشق صادق مجتہد مطلق امام اعظم
اما ابوحنیفہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ہیں، اور ان کا مقام ایسا ہی ہے جیسا کہ جسم میں
قلب کا، مزید امام اعظم کی شان بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں،
اﷲاکبر! امام اعظم
ابوحنیفہ رضی اﷲتعالٰی عنہ وُہ عظیم الشان جلیل البرہان امام ہیں کہ مستقل مجتہد
مطلق سیّدنا امام شافعی رضی اﷲتعالٰی عنہ نے جب اس امام الائمہ سراج الامّہ کے
مزارِ پُرانوار کے پاس نمازِصبح پڑھائی بسم اﷲ آواز سے نہ پڑھی نہ رفع یدین کیا نہ
قنوت پڑھی کسی نے سبب پوچھا،فرمایا:ان صاحب قبر کے ادب سے ہے کما فی الخیرات الحسان
للامام ابن حجرالمکی الشافعی(جیساکہ خیرات الحسان للامام ابن حجر مکی شافعی
میں ہے، اور ایك روایت میں ہے مجھے حیا آئی کہ اس امام جلیل کے سامنے اس کا خلاف
کروں کما
فی المسلك المتقسط للمولی علی قاری(جیساکہ المسلك المتقسط للمولی علی قاری میں ہے) سبحان اﷲ
مجتہد مستقل تو ادبِ امام سے حضورامام میں اتباعِ امام اختیار کریں۔(فتاویٰ رضویہ)
حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا
تقوی
اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا رقم طراز ہیں: امام الائمہ سیّدنا امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے تیس برس
کامل ہررات ایک رکعت میں قرآن مجید ختم کیاہے۔ ردالمحتارمیں ہے:قال الحافظ الذھبی
قدتواتر قیامہ باللیل و تھجدہ وتعبدہ، ای ومن ثم کان یسمی بالوتد لکثرۃ قیامہ
باللیل، بل احیاہ بقرأۃ القراٰن فی رکعۃ ثلاثین سنہ۔
حافظ ذہبی نے فرمایا کہ
آپ کاقیام اللیل، تہجد اور تعبد تواتر کے ساتھ منقول ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کو وتد
(کِیل) کہاجاتاہے کیونکہ آپ کے قیام لیل میں کثرت تھی بلکہ آپ تیس سال تک رات کو
ایك رکعت میں پورے قرآن کی تلاوت کرتے،خود امام اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے دورکعت
میں قرآن شریف ختم کیا کما فی الدر المختار٢ (جیسا کہ درمختارمیں ہے۔تہمارے امام
مذہب سیّدنا اماماعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے پینتالیس 45برس عشا کے وضو سے صبح کی
نماز پڑھی،حضرت امام شافعی اور دیگر علماء واہل حاجات حاجت روائی کے لئے امام اعظم
ابوحنیفہ رضی الله عنہ کے مزار پر حاضر ہوکر ان سے توسل کرتے، (فتاویٰ رضویہ)
وضو سے اہل ایمان کے
گناہ جھڑتے ہیں امام اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی نگاہ بصیرت کا کمال اور مشاہداتی
قوت کیا ہے، ملاحظہ کریں! اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:
اقول:تحقیق یہ ہے کہ
کبائر بھی دھلتے ہیں اگرچہ زائل نہ ہوں یہ سیدنا امام اعظم رضی الله عنہ وغیرہ
اکابر اولیائے کرام قدست اسرارہم کا مشاہدہ ہے جسے فقیر نے رسالہ"الطرس المعدل فی حدالماء
المستعمل(١٣٢٠ھ)"میں ذکر کیا،
حضرت سیدنا امام اعظم
ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ پر مظالم
بنو امیہ کے دور
حکومت میں امام اعظم کو قاضی القضاة کا عہدہ پیش کیا گیا، آپ نے قبول
کرنے انکار کر دیا،انکار کرنے کے پاداش میں گورنر کوفہ آپ کو 10 دس دس کوڑے روزانہ
مرواتا رہا لیکن آپ آپ کے ہائے استقلال میں لغزش نہیں آئی، خلیفہ ابو جعفر منصور
نے اپنے دور میں دوبارہ قاضی القضاة کی پیشکش کی، آپ نے ٹھکرادیا، دوسری
بار انکار کرنے کی سزا یہ ملی کہ حاکم بغداد نے آپ کو عمر قید کی سزا سنائی، جیل
میں قید کردیا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ جیل میں بھی آپ نے عبادت ریاضت اور تعلیم کا
سلسلہ موقوف نہیں فرمایا، علوم دینیہ کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا۔ غور کریں ہمارے
عہد میں تو ہر کوئی قاضی القضاة بننے پر تلا ہوا ہے، اور آج ایسے لوگوں کی بھی کمی
نہیں جو خود ساختہ قاضی بنے بیٹھے ہیں۔
امام اعظم نے آخر قضاۃ
کے عہدہ کو قبول کرنے سے کیوں انکار فرمایا اور مظالم گوارہ کرلیا؟
آپ کو ڈر تھا کہ حکومت
اپنی مرضی کے مطابق غلط فیصلے کرنے پر مجبور کرے گی اور قرآن وسنت کے خلاف میں
کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔
حضرت سیدنا امام اعظم
ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا اجتہاد: فرماتے ہیں ”میں پہلے
کتاب اللہ اور سنت نبوی کو اختیار کرتا ہوں جب کوئی مسئلہ کتاب اللہ اور سنت رسول
میں نہیں ملتا تو صحابۂ کرام کے اقوال وعمل کو اختیار کرتا ہوں اس کے بعد دوسروں
کے فتاویٰ کے ساتھ اپنے اجتہاد وقیاس پر توجہ دیتا ہوں جب مسئلہ قیاس واجتہاد پر
آجاتا ہے تو پھر میں اپنے اجتہاد کو ترجیح دیتا ہوں۔
عالم اسلام میں حضرت
سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے مقلدین: دنیا بھر میں فقہ شافعی،
حنبلی، مالکی کی پیروی کرنے والے مسلمان موجود ہیں، لیکن مسلمانوں کی اکثریت امام
اعظم کی تقلید کرتی ہے، اور اسلامی نظریہ یہ ہے کہ چاروں فقہی مذاہب مبنی برحق
ہیں، ایک دوسرے کی تنقیص کیے بغیر آپ جن کی چاہیں پیروی کریں ۔
دنیا بھر کے کثیر اولیاء
ومشائخ نے امام اعظم کے فقہی مذہب کو اپنایا، ہندوپاک کے مشہور بزرگ حضرت داتاگنج
بخش علی ہجویری سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی محبوب الٰہی ، مخدوم الملک
یحییٰ منیری، آئنہ ہند قطب بنگال مخدوم سمنانی شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی اور خود اعلیٰ
حضرت فاضل بریلوی وغیرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہم آپ ہی کے مقلد ہوئے، اور آپ ہی کے مذہب
پر فتاویٰ صادر کرتے رہے، مسلم سلاطین ہند بھی حنفی المذہب ہی تھے۔
حضرت سیدنا امام اعظم
ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے خاص تلامذہ: ان کے خاص تلامذہ میں
امام ابویوسف امام محمد اور امام حسن بن شیبانی رحمت ﷲ علیھم اجمعین وغیرہ بڑے
معروف ہوئے اور گراں قدر کارنامے انجام دیے۔
حضرت سیدنا امام اعظم
ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ خدا ورسول میں مقبولیت: مختصر یہ ہے کہ آپ کو
عندﷲ وہ پذیرائی حاصل تھی کہ ہر چہار دانگ عالم میں آپ کی رفعت شان کمال عظمت کے
چرچے ہوئے، اور آج بھی ہورہے ہیں ۔
آپ کی رکھی ہو بنیاد پر
علماء فقہاء مجتہد ومجدد سب اپنے مسائل کا حل نکالتے ہیں، ﷲ ورسول عزوجل وﷺ کے
ایسے محبوب وعزیز ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی میں متعدد بار عالم رویا میں حق تعالیٰ
جل شانہ اور رحمت عالم ﷺ کا دیدار کیا۔
وصال
پرملال: 2شعبان المعظم 150 ہجری بغداد مقدسہ میں آپ کا انتقال ہوا، پہلی بار
نمازِ جنازہ میں کم و بیش پچاس ہزار کی بھیڑ تھی، روایات کے مطابق چھ بار آپ کا
جنازہ پڑھاگیا۔ پروردگار ان کی تربت پر نور کی برسات فرمائے، اور امت مسلمہ کو
رحمتوں انور کی چھینٹوں شاد کام فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ