عطائے رسول نظام ملت سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین نظام الاولیاء محبوب الہی رحمة الله تعالى عليه کی ولادت با سعادت 636 ھجری 1234 عیسوی کو بدایون میں ہوئی آپ کے والد گرامی کا نام نامی محمد بن احمد بن علی بخاری بدایونی ہے آپ خاندان اہل بیت کے چشم و چراغ ہیں کم عمری میں ہی والد گرامی کا وصال ہو گیا والدہ ماجدہ نے تربیت فرمائی آپ کے والد کے دادا اور والدہ کے دادا مل کر بخارا سے لاہور آئے تھے اور وہاں سے بدایون چلے گئے
خواجہ احمد آپ کے والد ماجد بدایون کے قاضی مقرر ہوئے وہیں مزار زیارت گاہ خلائق ہے اس قرآن السعدین سے وہ بہت اعظم ظہور پذیر ہوا جسکا تسلط فقر سارے برصغیر پر چھا گیا اساتذہ گرامی آپ ظاہری علوم کے مایہ صد افتخار عالم دین تھے آپکے چند اساتذہ کے نام یہ ہیں فقہ ادب و عربی آپ نے علامہ علاءالدین اصولی سے پڑے پندرہ سال کی عمر میں بدایون چھوڑ کر دہلی تشریف لائے اور وہاں شیخ شمس الدین خوازمی سے مقامات حریری پڑھی حریری کے چالیس مقالے آپ کو زبانی یاد تھے شیخ گرامی کمال الدین محمد الزاھد سے مشارق الانوار اور اسکے کچھ حصے زبانی یاد فرمائے تاکہ صرف ادب ہی یاد نا ہو
اپنے مرشد حق حضرت زہدالانبیاء حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر سے قرآن حکیم کی تفسیر ، عوارف المعارف، التمہید مؤلفہ شیخ ابوالشکور سالمی جیسی اہم علمی کتابیں پڑھیں یہ کتابیں اجودھن (پاک پتن شریف) میں رہ کر پڑھیں
بیعت و خلافت
آپ نے مرشد جہاں حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمة الله تعالى عليه کے دست حق پرست پر بیعت کی واقعہ یوں پیش آیا کہ ابوبکر خراطہ ملتان سے بدایون آپ کے استاد گرامی کو ملنے آئے انہوں نے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمة الله تعالى عليه کے کمالات کا بہت تذکرہ کیا بعد میں حضرت فرید العصر کا زکر ان کی زبان پر جاری ہوا تو ان کی محبت حضر نظام الاولیاء کے دل میں موجزن ہوئی۔
حالت اس حد تک پہنچی کہ حضرت کے نام نامی اسم گرامی کی تسبیحیں نماز کے بعد پڑھی جانے لگیں کبھی شیخ فریدالدین،اور کبھی مولانا فرید الدین زبان پر جاری رہتا سولہ برس کی عمر میں دہلی میں والدہ مکرمہ اور ہمشیرہ محترمہ کے ساتھ آ مقیم ہوئے پڑوس میں حضور گنج شکر کے بھائی حضرت نجیب الدین متوکل تھے انکی صحبت نے محبت کی مزید آگ بھڑکا دی مگر تکمیل علم کے لئے تین چار سال آپ دہلی میں رہے اور سند حدیث حاصل فرمائی۔۔
حضرت نجیب الدین متوکل کی خدمت میں عرض کیا دعا فرمائیں میں قاضی بن جاؤں انہوں نے جواب دیا خدا تجھے قاضی نا بنائے وہ بنائے جس کی ہم آس لگائے بیٹھے ہیں
اب شوق منزل کی طرف چل پڑا اجودھن کا راستہ تھا اور محبت کے پاؤں تھے بیس سال کی عمر مبارک تھی اس اٹھتی جوانی میں حضرت گنج شکر کی خدمت عالیہ میں پہنچ گئے۔ خود راحتہ القلوب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ دس ماہ رجب 655 ھجری بروز بدھ زیارت ہوئی تھی۔
جاتے ہی حضور فرید دوراں نے کلاہ چار چار ترکی اپنے سر مبارک سے اتار کر پہنا دی اور چوبیں نعلیں (کھڑاؤں) عطا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کسی اور کو ہندوستان کی ولایت دینا چاہتا تھا مگر تم سامنے آرھے تھے مجھے آواز دی گئی ذرا ٹھہرو! نظام بدایونی پہنچنے والا ہے ولایت اسی کو دو حضرت کی اندرونی کیفیت کو پا کر ان کے بولے بغیر بابا کریم نے فرمایا " ہاں تمہارا شوق بیان سے باہر ہے "
پھر یہ شعر پڑھا۔۔۔
اے آتش فراقت دلہا کباب کردا
سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردا
تیرے فراق کی آگ نے دلوں کو کباب کر دیا ہے اور تیری محبت و اشتیاق کے طوفان نے دلوں کو لوٹ کر تباہ کر دیا ہے۔۔
نوازشات کی رعنائیاں
حضرت نظام غریب نواز خود فرماتے ہیں کہ حضور فرید پاک کی خدمت میں میرے ساتھ بابا حضور کے فرزند نظام الدین بھی تشریف فرما تھے ارشاد ہوا "تم دونوں میرے فرزند ہو" اپنے صاحبزادے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تم فرزند نانی (وہ بیٹا جو روٹی میں باپ کے ساتھ شریک ہو) اور میری طرف اشارہ کر کے ارشاد ہوا تم فرزند جانی (روحیو باطنی) ہو ایک عارضی دوستی لگانے والے کا ذکر فرما کر مزید ارشاد ہوا " یہ نظام الاولیاء ایسا آدمی ہے کہ جب سے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس پر قائم ہے محبت میں فرق نہیں آیا "
نظام الاولیاء واقعہ سنا کر گریہ ہوئے اور فرمایا وہ محبت آج بھی قائم ہے اور مرنے کے بعد بھی قائم رہے گی حضرت فرید پاک نے منہ میں لعاب ڈال کر فرمایا " قرآن پاک بھی یاد کرو " اے نظام الدین! مجھے ساری دنیا دی گئی ہے ہمارے ھاں سب کچھ ہے جاؤ ہندوستان کا ملک تیرے حوالے۔۔۔
حضرت نظام ملت محبوب الہی غریب نواز ساری زندگی مجرد رہے کوئی رات قیام اور کوئی دن صیام کے بغیر نہیں گزرا اپنے لئے گھر اور در بنانا گوارا نہیں فرمایا اناث البیت اور ساز و سامانی کا تو ذکر ہی بے معنی ہے
بادشاہوں نے خوشامدیں بھی کیں مگر آپ ہمیشہ ان سے گریزاں رہے بقول کرمانی سلطان جلال الدین فیروز خلجی نے کہلا بھیجا مجھے پتا ہے آپ شاہوں اور امراء سے نہیں ملتے لہذا میں بلا اطلاع قدم بوسی کے لئے آجاؤں گا آپ اس کے آنے سے پہلے ہی دہلی کو خیر باد کہہ کر پاک پتن شریف اپنے مرشد کے آستانے پر حاضر ہوگئے
آپ غریب نواز حضرت نظام الملتہ اپنے دور کے نہ صرف ایک جید عالم دین بلکہ کئ معاملات میں اجتہادی مقام کے مالک تھے اتباع سنت کی وجہ سے کئی مسائل میں منفرد بھی تھے
آپ جب مسند سجادہ پر تشریف فرما ہوئے تو آپکا در اقدس سب کے لئے کھل گیا بادشاہ، امراء،علماء،شعرا،فقرا،قلندر اور عوام سیلاب کی طرح اس درگاہ عظمت پناہ کی طرف پلٹ پڑے آپکی شفقت و کریمی بادل کی طرح سب چھا جاتی جوکہ سلسلہ عالیہ چشتیہ کا طرہ امتیاز رہا ہے
حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی کا ارشاد مبارک ہے جب بھی سلطان المشائخ محبوب الہی غریب نواز کے محرم راز دوست آجاتے تو آپ چشتی روایات کے مطابق چاہتے تھے کہ محفل سماع کا انعقاد ہوجائے امیر خسرو اور میر حسن سنجری آجاتے حسن کی آواز بڑی حسین تھی علم موسیقی میں دونوں حضرات بے حد ماہر تھے مبشر نامی ایک اور صاحب تھے جو خسرو کا ساتھ دیا کرتے تھے یہ حضرت نظام الملتہ غریب نواز لے زر خرید غلام تھے اور بے حد حسین ہونے کے ساتھ ساتھ لحن داؤدی بھی انہیں عطا فرما رکھا تھا حضرت خسرو غزل کا آغاز فرماتے جس شعر پر حضرت نظام الاولیاء سر مبارک ہلاتے اسکا تکرار و اعادہ مخصوص لے اور آواز سے ہوتا حضرت پر وجد طاری ہو جاتا محفل ایک روحانی انداز میں ڈوب جاتی۔
دو سو قوال وظیفہ خوار تھے اور سب اپنے کلام میں بے مثل تھے وہی بات تھی کہ انکی آواز سے اڑتے پرندے بھی نیچے اتر آیا کرتے تھے مگر سب پر غلبہ اوپر والے تینوں حضرات ۔۔خسرو ۔۔حسن ۔۔اور مبشر۔۔کا ہی تھا۔۔
آپکی عمر مبارک چورانوے سال آٹھ ماہ ہو چکی تھی پیغام یار آرھا تھا بیماری کا بہانہ بننے لگ گیا بقول سید کرمانی یہ بیماری چالیس دنوں سے آگے نا بڑھ سکی یہ بیماری بھی محبوب الہی جلا جلالہ کی اداؤں اور اسکی ذات مطلق میں مشاہدے کا کا تحیر تھا جمعہ شریف کا دن تھا کہ آپ پر حال طاری ہوا مشاہدہ حق سے جو سینہ ہر وقت منور تھا اس میں مزید دوام عطا ہوا نماز میں سجدے کرتے آستانہ اقدس پر لائے گریہ پہلے سے بڑھ گیا روزانہ کئ دفعہ لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہو جاتے اور پھر ظہور پو جاتا دریافت فرماتے آج جمعہ ہے؟ کیا میں نے نماز پڑھی ہے لوگ عرض کرتے حضور نے نماز پڑھی ہے فرماتے چلو ایک بار پھر پڑھ لیتا ہوں اسی طرح ہر نماز پڑھی جارہی تھی اور یہ مثرہ زبان پر آرھا تھا
می رویم و می رویم و می رویم
ہم جارہے ہیں ہم جا رہے ہیں ہم جا رہے ہیں
اسی عالم کیف و مستی میں اپنے اعزا و اقارب خدام و ارادت مندوں کو طلب فرما کر خادم خاص خواجہ اقبال کو حکم فرمایا
جو کچھ بھی گھر میں ہے سب لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے ایک پیسہ بھی باقی نا چھوڑا یعنی امام الانبیاء صلوات اللہ علیہ اور امام الاولیاء بانی سلسلہ عالیہ چشتیہ سیدنا حیدر کرار سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی سنت مقدسہ پر دنیا سے جاتے ہوئے عمل فرمایا نیز نماز بار بار دھراتے ہوئے اپنے مرشد حق گنج شکر غریب نواز کی سنت پوری فرمائی وہ بھی آخری رات نماز عشاء تین بار پڑھ کر حاضر دربار خدا وندی ہوئے تھے
حاضرین نے عرض کیا اب ہم مسکینوں کا کیا بنے گا؟ کہ ہمارا داتا دنیا سے جا رھا ہے ارشاد ہوا " میرے روضہ سے اتنا ملتا رھے گا جو تمہیں کافی ہورھے گا"
چالیسویں دن بروز بدھ طلوع آفتاب کے بعد اٹھارہ ربیع الثانی 725 ھجری 1364 عیسوی مشاہدہ حق میں مستغرق ہو کر جان اپنے خالق کے حوالے کر دی دہلی میں ہی مزار پر انوار میں تشریف فرما ہوئے مصنف سیرالاولیاء فرماتے ہیں کہ کہ آپ کی وصیت کے مطابق حضور گنج شکر رضی اللہ عنہ کا عطا فرمودہ خرقہ آپکے جسد پاک پر قبر میں ڈال دیا گیا اور فرید دوراں کا مصلی مبارک آپ کے سر مبارک کے نیچے رکھ دیا گیا عموما اولیائے گرامی نے اپنے مرشد کا خرقہ قبر میں اپنے پاس رکھا یا اپنے جانشین کو عطا فرما دیا ہے نماز جنازہ غوث امت حضرت زکریا ملتانی کے پوتے حضرت شاہ رکن الدین نے پڑھائی اور فرمایا چار سال تک مجھے صرف اس جنازے والے اہم کام کے لئے دہلی رکھا گیا ہے آج مجھے یہ سعادت مل گئی
حضرت محبوب الہی غریب نواز نے اپنی حیات طیبہ میں بہت سے حضرات کو خلافت و نیابت سے نوازا اپنی وفات سے تین چار ماہ پہلے دس حضرات کو خلافت عطا فرمائی یہ تحریری خلافت تھی اور تحریر پر حسب حکم انکے دستخط بھی تھے حضور گنج شکر غریب نواز رضی اللہ عنہ نے بھی شیخ جمال الدین ہانسوی کو ایسا ہی حکم دے رکھا تھا خلافت ناموں پر انکی مہر ہوتی تھی اپنے شیخ کی یہی سنت نظام پاک نے بھی پوری فرمائی
تمام خلفاء تو اپنے مقام پر رہے حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین ہلی بنایا اور وہاں کی مخلوق کا غمخوار رہنے کی تلقین فرمائی
آپ کے خلفاء گرامی کی تعداد بہت ذیادہ ہے ہم کچھ نام تبرکا عرض کردیتا ہوں جنہیں خلافت عطا فرمائی وہ افق ہند پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکے اس گروہ اصفیاءمیں پانچ بہت محبوب تھے
١- خواجہ سید رفیع الدین ھارون
٢- مولانا خواجہ سید محمد امام
٣- خواجہ حسن علاء سنجری مولانا سید حسین کرمانی جو منہ بولے بیٹے بھی تھے
٤- اور حضرت خواجہ امیر خسرو
٥- حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی
٦- شیخ سراج الدین عثمانی
٧- شیخ برھان الدین غریب
٨- مولانا جمال الدین
٩- مولانا فخرالدین
١٠- مولانا ابو بکر منڈوی
١١- مولانا فخرالدین روزی
١٢- مولانا وجیہ الدین یوسف
١٣- مولانا شہاب الدین روم
١٤- قاضی محی الدین کاشانی
١٥- مولانا فصیح الدین
١٦- مولانا شمس الدین یحیی
١٧- خواجہ کریم الدین سمرقندی
١٨- شیخ جلال الدین اودھی
١٩- قاضی شرف الدین
٢٠- مولانا کمال الدین یعقوب رضی اللہ عنہم اجمعین