اقوال
حضرت الحافظ القاری مولانا الملك الناصر ابو المظفر
سلطان صلاح الدین الدین ایوبی الشافعی علیہ الرحمہ
ê
میں اپنی قوم کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی یہ حدیث یاد کرانا چاہتا ہوں کہ ''اپنے آپ کو جان لو کہ تم کون ہو اور کیا
ہواور اپنے دشمن کو اچھی طرح پہچان لو کہ وہ کون ہے اور کیا ہے اور تمہارے متعلق
وہ کیا ارادے رکھتا ہے''۔
ê
جس قوم کے نوجوان روحانیت (دین) کو چھوڑ کر مردہ دلی اور فحاشی کی زندگی
گزارنے پر اتر جائیں وہ قوم بغیر جنگ کے ہار جاتی ہے۔
ê
جس قوم کے نوجوان بیدار ہوجائیں اس قوم کو
کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ê
مجھے نہیں معلوم کہ اسلام تلوار سے پھیلا یا
اخلاق سے مگر میں اس بات کو بخوبی جانتاہوں کہ اسلام کی حفاظت کے لئے تلوار کی
ضرورت پڑتی ہے۔
ê
یادرکھو میرے دوستو! فوج بغیر قوم کے
اور قوم بغیر فوج کے دشمن کے لئے آسان شکار ہوتی ہے۔
ê
صلیبی اور یہودی ہر دور میں اسلام کی فوج
اورقوم کے درمیان منافرت پیداکرنے کی کوششیں کریں گے۔
ê
حکمراں جب اپنی جان کی حفاظت کو ترجیح دینے
لگے تو ملک اور قوم کی حفاظت کے قابل نہیں رہتا۔
ê
جہاں روٹی مزدوری کی تنخواہ سے مہنگی
ہوجائے وہاں تین چیزیں سستی ہوجاتی ہے (الف) عورت کی عزت (ب) مرد کی غیرت (ج)مسلمان کاخون
ê
مسلمان کی تلوار پر جب عورت اور شراب کا سایہ
پڑجائے تو یہ لوہے کا بے کار ٹکڑا بن جاتا ہے ۔
ê
اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہوتو
اسکے نوجوانوں میں فحاشی پھیلادو۔
ê
سلطنت اسلامیہ کی کوئی حد نہیں تم نے جس دن
اپنے آپ کو اور خدا کے اس عظیم مذہب اسلام کو سرحدوں میں پابند کر لیا اُس روز سے
یہ سمجھو کہ تم اپنے ہی قید ہوجاؤ گےپھر تمہاری سرحدسکڑنے لگیں گے۔
ê
مجھے نظر آرہا ہے کہ فلسطین کا خطہ
خون میں ڈوبا رہے گا۔
ê
حکومت کا نشہ ، دولت اور عورت ، اچھے اچھے
انسانوں کو اندھا کردیتے ہیں۔
ê
کافرسے پہلے غدار کو قتل کرنا ضروری ہے۔
ê
ایک جاسوس دشمن کے پورے لشکرکو شکست دے سکتا
ہے اور ایک غدار اپنی قوم کو شکست کی ذلت میں ڈال سکتاہے۔
ê
باوقار قوم کی طرح زندہ رہنا چاہیئے ہو تو
اپنی روایات نہ بھولو۔
ê
دفاع کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دشمن تمہیں
مارنے کے لئے نیام سے تلوار نکال ہی رہا ہو پہلے ہی اس کی گردن اڑا دے۔ وہ اگر کل
حملے کے لئے آرہا ہو ، توتم اس پر ہی حملہ کردو۔
ê
اگرہم کفر کے طوفان کو نہ روکیں توہم مسلمان
نہیں بلکہ بے غیرت ہونگے اور اگر اسلام کا دفاع اس طرح کریں کہ دشمن کے انتظار میں
گھر بیٹھے رہیں اور جب وہ حملہ کرے تو گھر ہی میں اس کے خلاف لڑیں اور پھر یہ فخر
بھی کریں کہ ہم نے دشمن کو پسپا کردیا تو یہ ہماری بزدلی کا ثبوت ہوگا۔
ê
ہم عصمتوں کے پاسباں ہیں اور صلیبی عصمتوں کے
بیوپاری۔
ê
تمہیں یہ اصول قرآن نے دیا ہے کہ جنگ ہو تو
لڑو اورنہ ہو تو جنگ کی تیاری کرو۔
ê
حکمراں اپنی حکومت کی حفاظت کرتا ہے اور مجاہد
اپنے ملک پر قربان ہوتاہے۔
ê
بری عادت اور اچھے تعلقات کی طاقت کا
اندازه تب ہوتا ہے جب انھیں چھوڑنے کی کوشش کی جائے۔
ê
کبھی قوم اور فوج میں نفرت پیدا ہو جائے
سمجھ لو سلطنت اسلامیہ کا زوال شروع ہو گیا۔
ê
مجھے ایک لاکھ عیسائیوں اورانکی تلواروں سے
کوئی خطرہ نہیں ہے مجھے توخطرہ ہے ان ایک ہزارمسلمانوں سے جو شراب کے پیالوں میں
غرق ہوچکے ہیں۔
ê
آزادی کی تکلیف غلامی کے آرام سے بہتر ہے ۔
ê
اسلام کے محافظ شراب کے مٹکوں میں ڈوب گئے اور
پاسبانوں نے خود کو گھروں میں قید کر لیا اور عورتیں ان کے پیروں کی زنجیریں بن
گئی ہیں۔
ê
مجھے اس بات سے بحث نہیں کہ، اسلام اخلاق سے
پھیلا یا تلوار سے،لیکن اسلام کی حفاظت کے لیے تلوار ضروری سمجھتا ہوں ۔
ê
زندگی ضرورت کے مطابق گزارو خواہش کے مطابق
نہیں، کیونکہ ضرورت فقیرکی بھی پوری ہوجاتی ہےلیکن خواہش بادشاہ کی بھی ادھوری رہ
جاتی ہے۔
ê
" اللہ نہ کرے، اسلام کا نام جب بھی ڈوبا
مسلمانوں کے ہاتھوں سے ڈوبے گا۔ ہماری تاریخ غداروں کی تاریخ بنتی جا رہی ہے۔یہ
رجحان بتا رہا ہے کہ ایک روز مسلمان جو برائے نام مسلمان ہوں گے اپنی سرزمین کفّار
کے حوالے کر دیں گے۔ اگر اسلام کہیں زندہ رہا تو وہاں مسجدیں کم اور قبحہ خانے زیادہ
ہوں گے۔ہماری بیٹیاں صلیبیوں کی طرح بال کھلے چھوڑ کر بےحیا ہو جائیں گی۔کفار
انھیں اسی راستے پر ڈال رہے ہیں۔
ê
ہمارے زوال کا باعث تخت و تاج کا نشہ اور زر و
جواہرات کی محبت ہے۔ کہاں وہ وقت تھا کہ ہم دنیا پر چھا گئے تھے اور کہاں ہمارا
وقت ہے کہ دنیا ہم پر چھا گئی ہے اور ہم آخرت کو فراموش کئے بیٹھے ہیں۔
ê
مسلمانوں کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ۔جانتے
نہیں ہو صلیبی سلطنت اسلامیہ کو چوہوں کی طرح کھا رہے ہیں اور جانتے ہو کہ وہ کیوں
کامیاب ہو رہے ہیں؟ صرف اس لئے کہ ہم نے پھولوں کی پتیوں پر چلنا شروع کر دیا ہے۔
ê
تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی
کیلئے ایک خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلداہ ہو۔