قدوۃ الدین حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی علیہ الرحمہ

 

 والد گرامی: سلطان فرسنانہ یا فرغانہ
 
ولادت باسعادت:  6 رمضان المبارک 260ہجری
بمقام ولادت : چشت شریف صوبہ ہرات،افغانستان
 وصال مبارک:  یکم ماہ جمادی الثانی ۳۵۵ہجری
 ظاہری حیات مبارکہ:  95 سال
 
مزار مبارک چشت شریف صوبہ ہرات،افغانستان
           آپ علیہ الرحمہ پانچ واسطوں سے آپ نائب رسول فی الہند، سلطان الہند، عطائے رسول، غریب نواز، ہندالولی، خواجہ خواجگان، خواجہ اجمیر، سلطان سنجرحضرت معین الدین حسن چشتی اجمیری علیہ الرحمہ  کے شیخ طریقت ہیں۔

 حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ کی آپ  علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت کی پیش گوئی:

           آپ علیہ الرحمہ کے والد محترم سلطان فرسنافہ کی ایک نہایت ہی صالحہ ہمشیرہ (بہن) تھیں، جو ولیہ اور عفیفہ خاتون تھیں، حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھیں۔ بسا اوقات حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ ان کے گھرتشریف لے جاتے تھے۔ایک دن حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نے انہیں آپکی (پھوپھی محترمہ) سے فرمایا کہ تمہارے بھائی کو اللہ تعالیٰ عنقریب ایک فرزند عظیم الشان جو صاحب ولایت ہوگا عطا فرماۓ گا اور اس کی تم پرورش کرنا، کوئی چیزمشکوک و مشتبہ انکے شکم میں نہ جانے دینا۔ آپکی پھوپھی محترمہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کی بھابھی امید سے ہیں تو ان کی نگہداشت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ چھوڑی ۔یہاں تک کے خود چرخہ کات کر اپنی حلال کمائی سے ضروریات پوری فرماتیں۔
ولادت باسعادت:  6رمضان المبارک 260ہجری میں چشت شریف میں پیدا ہوئے یہ دور خلیفہ معتصم باللہ کا تھا۔

پیدائشی ولی:

جیسا کہ حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نےآپ کی ولادت باسعادت کی پیش گوئی فرمائی تھی ۔ آپ شکم مادر محترم سے ہی صاحب کرامت تھے ۔آپ کا منور چہرہ دور سے روشن نظر آتا، جس شخص کی نگاہ آپ کے چہرہ پر پڑتی دل و جاں سے محبت کرنے لگتا تھا، آپ کی جبیں نور افشاں سے نور الٰہی کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ رات کو گھر میں روشنی کے بغیر تشریف لاتے تو سارا گھر روشن ہوجاتا تھا آپ اندھیرے میں بیٹھتے تو قرآن پاک کے حروف اعراب سمیت نمایاں نظر آتے ۔

 اسم گرامی:

آپ  علیہ الرحمہ کا اسم گرامی "خواجہ ابو احمد ابدال چشتی علیہ الرحمہ" ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا لقب "قدوۃ الدین" تھا۔ آپکے والد محترم کا نام سلطان فرسنانہ یا فرغانہ تھا  ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمانروائے فرغانہ کے بیٹے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نسب چند واسطوں سے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ  عنہ سے ملتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ حسنی حسینی سادات عظام میں سے تھے ۔

 سلسلہ نسب:

آپ کا نسب نامہ یوں ہے:ابو احمد رحمۃ اللہ علیہ ابدال بن سلطان فرغانہ سید ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ بن سید یحییٰ بن سید حسن بن سید مجدالمعالی المعروف بہ ابوالمعالی بن سید ناصر الدین بن سید عبدالسلام بن سید حسن مثنیٰ بن سید اما م حسن مجتبیٰ بن علی ابن ابی طالب۔
تعلیم و تربیت:

اپنی پھوپھی محترمہ کے زیرتربیت رہے ۔ جب آپ کی عمر سات سال ہوئی تو حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ ظاہری باطنی تعلیم لی اور حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ سے مستفیض ہوتے رہے ۔

شرف بیعت:

آپ علیہ الرحمہ  سولہ سال کی عمر میں ظاہری علوم سے فارغ ہوئے ۔ تو حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نے بیعت فرمالیا۔

ریاضت و مجاہدات:

حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نے خلوت کدہ میں ریاضت میں لگا دیا، بڑے مجاہدے کیے چنانچہ سات روز بعد کھانا کھاتے، وضو کرتے اور تین لقموں سے زیادہ نہ کھاتے۔ چالیس دنوں بعد حاجت انسانی کے لیے باہر جاتے۔ریاضت اور مجاہدہ میں بے مثال خوارق و کرامات میں لاثانی تھے ۔ایک دن خواجہ ابو احمد چشتی اپنے والد گرامی کے ہمراہ پہاڑوں پر شکار کھیلنے چلے گئے اتفاقاً والد اور ان کے ساتھیوں سے جدا ہوگئے اور پہاڑوں میں راستہ بھول گئے۔ رجال الغیب سے چالیس افراد ایک چٹان پر کھڑے تھے اور خواجہ ابو اسحاق شامی بھی انہی کے درمیان کھڑے تھے۔ حضرت خواجہ کو پہچان کر گھوڑے سے اُتر آئے۔ قدم بوسی کی اسلحہ اور گھوڑا تن سے علیحدہ کیے اور خواجہ کی رکاب پکڑ کر پیدل چلنے لگے، آپ کے والد محترم نے اور ان کے لشکر نے پہاڑوں میں آپ کو بڑا تلاش کیا، مگر نوجوان ابواحمد کا کہیں پتہ نہ چلا، چند دنوں بعد خبر ملی کہ ابو احمد فلاں موضع میں حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی قدس سرہ کی خدمت میں موجود ہے۔ بادشاہ نے چند آدمیوں کو بھیجا کہ انہیں لے آئیں، مگر ان کی ساری پند و نصیحت کے باوجود ابو احمد نے حضرت شامی کی مجلس سے جانا پسند نہ کیا آٹھ سال تک محنت شاقہ سے گزرے خرقہ خلافت حاصل کیا، تیس سال تک کبھی بستر پر آرام نہیں کیا۔

ذوق سماع:

حالت سماع میں جس کسی پر بھی آپکی نظر رحمت پڑ جاتی وہ صاحب کرامت بن جاتا تھا ۔ اور اگر کافر آجاتا تو مسلمان ہوجاتا تھا ۔ ایسی حالت میں آپکی پیشانی مبارک سے ایک نور روشن و تاباں ظاہر ہوتا جسکی روشنی و چمک آسمان تک پہنچ کر تمام افق میں پھیل جاتی تھی۔ یہ علامت دیکھ کر لوگ جوق در جوق والہانہ آپکی محفل میں حاضر ہو کر فیضان رحمت و انوار الہی سے مستفید ہوتے ۔
 
آپ کی مجالس سماع پر اعتراضات:

 حضرت ابو احمد علیہ الرحمہ کی کرامات کی شہرت مشرق و مغرب میں پھیلی، تو علما ۓعصر کو آپ سے حسد ہونے لگا، آپ علیہ الرحمہ کے سماع کی مجالس کے خلاف فتوی بازی ہونے لگی، ایک محضرنامہ تیار کیا گیا، اور امیر نصیر جو حاکم عادل بھی تھے ۔ انکی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ حضرت خواجہ کی مجلس سماع کی برائیاں بیان کی گئیں ۔ امیر نے ملک بھر کے جید ترین علماء کی ایک مجلس بلائی جس میں کئی ہزار علماء جمع ہوئے ۔ حضرت ابو احمد علیہ الرحمہ کو بھی اس مجلس میں پیش کیا گیا ۔ حضرت ابو احمد علیہ الرحمہ یہ خبر سن کر خرقہ خلافت پہنے گھوڑے پر سوار ہوکر امیر کے دربار میں پہنچے آپ کے ساتھ ایک خادم محمد خدا بندہ نامی تھے۔ جنھیں سورۃ فاتحہ اور سورۂ اخلاص کے علاوہ قرآن سے کچھ یاد نہیں تھا، امیر نصیر کی بارگاہ میں پہنچے ۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے تمام علماء اور حاسدین کا یہ ارادہ تھا کہ جب خواجہ ابو احمد آئیں تو کوئی شخص نہ استقبال کے لیے جائے اور نہ احترام میں اٹھے مگرایسا ہوا کہ جب خواجہ مجلس کے پاس آئے تو تمام علماء تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بعض نے آگے بڑھ کر استقبال بھی کیا مجلس میں لاکر ایک بلند مسند پر بٹھایا گیا، اور مسئلہ سماع پر گفتگو شروع کردی، جب علماء کرام اپنا نکتہ نظر بیان کرچکے اور اپنے اپنے اعتراضات کی تفصیل سنا چکے تو حضرت خواجہ ابو احمد نے اپنے خادم محمد بند ہ کو اشارہ فرمایا کہ ان علماء کرام کے اعتراضات کا جواب دو، خادم ان پڑھ تھا، مگر اسے یوں محسوس ہوا جیسے آج وہ سب سے زیادہ عالم اور فاضل ہے، اس نے علماء کے ایک ایک اعتراض کا جواب قرآن و احادیث سے دینا شروع کیا۔ بزرگان سلف کے طریقہ کو بھی بیان کرنے لگا تمام علماء اس کے جوباات سن کر دنگ رہ گئے بعض تو شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھے رہے۔

 حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ علیہ  کا فیضان کرم:

حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک سفر میں ایسے ملک میں جا پہنچے جہاں کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔ اور ہر طرف کافر ہی کافر تھے یہ ایسے سخت کافر تھے کہ انہیں کوئی مسلمان نظر آتا تو اسے پکڑ کر آگ میں پھینک دیتے، انہوں نے حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا توپہچان لیا کہ یہ مسلمان ہے، بڑی سختی کرنے لگے، حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو جلانے کے لیے ایک جگہ آگ جلائی گئی اور حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس میں پھینکنے کے لیے تدبیریں کرنے لگے، حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں کہا، تم لوگ مجھے آگ میں پھینکنے کی تکلیف نہ کریں میں خود ہی آگ میں کود پڑتا ہوں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مصلی کندھے پر رکھا، اور آگ کے شعلوں میں کود پڑے، آگ سرد ہوگئی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انگاروں پر مصلی بچھا دیا، اور دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی، ان دشمننانِ اسلام نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کرامت دیکھی تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور دل و جان سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے، جو "شہر کفر" تھا، آپ کی برکت سے"شہر اسلام" بن گیا۔

وصال مبارک: 

یکم ماہ جمادی الثانی ۳۵۵ہجری کو  قدوۃ الدین حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی رحمتہ ﷲ علیہ واصل بحق ہوئے۔
 
مزار پر انوار:

حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی رحمتہ ﷲ علیہ کا مزار مبارک, چشت شریف صوبہ ہرات,افغانستان میں واقع ہے ۔


سید العلماء سید آل مصطفی مارہروی علیہ الرحمہ

 

اسم گرامی:

آپ کا پورا نام آل مصطفی اولاد حیدر ہے، عرفیت ’’سید میاں ہے‘‘ اور لقب ہے ’’سید العلماء‘‘۔

ولادت:

۲۵؍ رجب المرجب ۱۳۳۳ھ مطابق ۹؍ جون ۱۹۱۵ء بروز بدھ مارہرہ مطہرہ میں پیدا ہوئے۔

سلسلہ نسب:

حضرت سید العلماء کا نسب نامہ پدری ونسب نامہ مادری دونوں جاکر حضرت سید محمد صغریٰ قدس سرہ پر ملتے ہیں، سب سے پہلے دونوں سلسلۂ نسب ملاحظہ کرلیں:

شجرۂ پدری:

۱۔ حضرت سیدنا شاہ آل مصطفی اولاد حیدر قادری علیہ الرحمہ

۲۔ حضرت سید شاہ آل عبا قادری قدس سرہ

۳۔ حضرت سید شاہ حسین حیدر قدس سرہ

۴۔ حضرت سید شاہ محمد حیدر قدس سرہ

۵۔ حضرت سید دلدار حیدر قدس سرہ

۶۔ حضرت سید منتجب حسین قدس سرہ

۷۔ حضرت سیدناظم علی قدس سرہ

۸۔ حضرت سید حیات النبی تاتومیاں قدس سرہ

۹۔ حضرت سید سید حسین قدس سرہ

۱۰۔ حضرت سید ابو القاسم قدس سرہ

۱۱۔ حضرت سید جان محمد قدس سرہ

۱۲۔ حضرت سید حاتم قدس سرہ

۱۳۔ حضرت سید بدر الدین عرف بدلے میاں قدس سرہ

۱۴۔ حضرت سید ابراہیم قدس سرہ

۱۵۔ حضرت سید پیارے میاں قدس سرہ

۱۶۔ حضرت سید حسن قدس سرہ

۱۷۔ حضرت سید محمود عرف بدھن میاں قدس سرہ

۱۸۔ حضرت سید بڈھا میاں قدس سرہ

۱۹۔ حضرت سید جمال الدین قدس سرہ

۲۰۔ حضرت سید ابراہیم قدس سرہ

۲۱۔ حضرت سیدناصر قدس سرہ

۲۲۔ حضرت سید مسعود قدس سرہ

۲۳۔ حضرت سید سالار قدس سرہ

۲۴۔ حضرت سید محمد صغریٰ قدس سرہ (فاتح بلگرام)

شجرۂ مادری:

۱۔ حضرت سید آل مصطفی اولاد حیدر قادری قدس سرہ

۲۔ حضرت بی بی سیدہ اکرام فاطمہ لخت جگر شہر بانو رحمۃ اللہ علیہا بنت

۳۔ حضرت سید ابو القاسم اسماعیل حسن قدس سرہ

۴۔ حضرت سید میر محمد صادق قدس سرہ

۵۔ حضرت سید شاہ اولاد رسول قدس سرہ

۶۔ حضرت سید آل برکات ستھرے میاں قدس سرہ

۷۔ حضرت سید شاہ حمزہ قدس سرہ

۸۔ حضرت سید آل محمد قدس سرہ

۹۔ حضرت سید شاہ برکت اللہ (صاحب سلسلہ برکاتیہ)

۱۰۔ حضرت سید میر اویس قدس سرہ

۱۱۔ حضرت سید میر عبد الجلیل قدس سرہ

۱۲۔ حضرت سید میر عبد الواحد بلگرامی قدس سرہ ( صاحب سبع سنابل شریف)

حضرت سید محمد صغریٰ علیہ الرحمہ سے لے کر سرکار دو عالم سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک شجرہ یکساں ہے۔

خاندانی پس منظر:

حضور تاج العلماء سید اولاد رسول محمد میاں قدس سرہ جو بلا شبہہ خانوادۂ برکاتیہ کے مستند تاریخ نویس بھی تھے اپنی کتاب ’’تاریخ خاندان برکات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جاننا چاہیے کہ ہمارا نسب بواسطۂ حضرت زید شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم تک پہنچتا ہے بادشاہان ظالم کے ظلم سے ہمارے دادا سید علی عراقی رحمۃ اللہ علیہ ترک وطن فرما کر قریہ واسطہ میں جو مابین عراق، عرب وعراق، عجم کے ہیں تشریف لاکر قیام پذیر ہوئے، آپ کے احفاد سے حضرت سید ابوالفرح واسطی اپنے چار صاحب زادوں سید ابو نواس جد سادات بلگرام وسید ابو الفضائل وسید داؤد وسید معز الدین کے ساتھ سلطان محمود غزنوی کے زمانہ میں واسط سے غزنی تشریف لائے، اور بعد قیام چند روزہ مع سید معز الدین پھر واسط کو مراجعت فرمائی اور باقی صاحب زادوں نے ہندوستان کا قصد فرمایا اور سید ابو نواس نے جاجیز اور سید ابو الفضائل نے چہاترود اور سید داؤد نے تہن پور میں اقامت اختیار فرمائی۔ سید ابو نواس کے احفاد سے حضرت سید محمد صغریٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حسب ایماے سلطان شمس الدین التمش سری نام راجۂ بلگرام پرجو کافر سخت اور بڑا سرکش تھا جہاد فرمایا اور اس کے قتل کے بعد ۶۱۴ھ چھ سو چودہ ہجری میں فتح پائی۔ سلطان نے اس فتح کے جلدو میں بلگرام مع اس کے توابع ولواحق کے آپ کی جاگیر میں دے دیا، حضرت نے اس کا نام سری نگر سے بدل کر بلگرام رکھا اور وہاں شعار ومراسم اسلام کو رواج دیا اور اپنے توابع شیوخ فرشوری اور ترکمانوں اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ وہیں سکونت اختیار فرمائی۔ ‘‘(تاریخ خاندان برکات، ص:۴)

بلگرام ہندوستان کے صوبہ اودھ کا مشہور ومعروف مردم خیز قصبہ ہے اور آج کل ضلع ہردوئی کے توابع میں ہے، بعد فتح بلگرام حضرت سید محمد صغریٰ نے وہاں اکتیس برس عدل وانصاف، رعایا پروری، رشد وہدایت اور حکمرانی میں عمر شریف گزاری اور وہیں بروز دو شنبہ بوقت دوپہر چودہ شعبان المعظم ۶۴۵ھ میں وصال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے۔ حضرت میر سید صغریٰ کے دوصاحب زادے ہوئے، بڑے سید سالار اور چھوٹے سید عمر، والد کا انتقال ہواتو سید عمر نے قرآن پاک لیا اور سید سالار نے اس قرآن پاک کی حفاظت کے لیے تلوار سنبھالی، ان دونوں کی اولادوں میں وہ صاحب کمال شخصیات اکابر علما وفضلا وکملا پیدا ہوئے جنہوں نے تاریخ میں اپنا نام روشن کیا۔

فتح بلگرام کے بعد سے سید محمد صغریٰ علیہ الرحمہ کا خاندان حضرت میر سید عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ تک بلگرام میں رہا۔ اس کے بعد حضرت میر عبد الواحد بلگرامی کے بڑے صاحب زادے حضرت سید شاہ میر عبد الجلیل (وفات: ۱۰۵۷ھ) ۱۰۱۷ھ میں مارہرہ تشریف لائے، اسے آباد فرمایا، اس وقت سے آج تک حضرت کی اولاد مارہرہ شریف میں ہے۔مارہرہ اور میر عبد الجلیل بلگرامی مارہروی سے متعلق مولانا محمود احمد قادری نے اپنی کتاب ’’حیات آل رسول‘‘ میں یہ تفصیل دی ہے ملاحظہ فرمائیں:"ساتویں صدی ہجری کے اواخر میں سلطان علاؤ الدین خلجی کے عہد میں ۶۹۹ھ میں مذکورہ بادشاہ کی اجازت سے راجہ بینی رام نے مارہرہ کی بنیاد ڈالی۔ "(تاریخ خاندان برکات   صفحہ:۲۹)

تحصیل علم کا آغاز:

سید العلماء سید شاہ آل مصطفی قادری مارہروی قدس سرہ کی تعلیم وتربیت سے متعلق شہزادۂ سید العلماء سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی لکھتے ہیں:

’’حضور سید میاں چوں کہ خاندان میں اپنی نسل کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔ اس لیے سب کی آنکھوں کا تارا تھے۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے نانا شاہ جی میاں یعنی سید شاہ اسماعیل حسن صاحب اپنے نواسے پر جان چھڑکتے تھے۔ سید میاں کی پرورش وپرداخت کا ذمہ خود نانا نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر اس نقیب برکاتیت کی تربیت خانقاہ عالیہ کے مقدس اور اللہ والے ماحول میں ہوئی، زمینداری کا زمانہ تھا، ۲۷ دیہات کی مال گزاری درگاہ برکاتیہ کے لیے بندھی ہوئی تھی، نانا جان بھی ظاہری وباطنی اعتبار سے صاحب ثروت تھے، نواسے کی تربیت اور پرورش شہزادوں کی طرح کی۔ اپنے سے کبھی جدا نہ ہونے دیتے تھے، یہاں تک کہ کبھی دادیہال میں بھیجتے تو تاکید فرمادیتے کہ زیادہ دیر وہاں نہ رکیں۔ دادا سید شاہ حسین حیدر قدس سرہ کو اپنے پوتے کے بہترین مستقبل کی خاطر یہ سب کچھ گوارا تھا۔

نواسا جب چار سال چار ماہ چار دن کا ہوا تو نانا شاہ جی میاں صاحب نے پورے شرعی اہتمام سے تسمیہ خوانی کا جشن کیا۔ سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک کی تحریر کی ہوئی بسم اللہ شریف ہمارے خاندان میں موجود ہے۔ سارے بچے اس کو سامنے رکھ کر بسم اللہ پڑھتے ہیں۔ سید میاں کو بھی علم کا پہلا جام بغدادی میخانہ سے ہی پلایا گیا۔ تسمیہ خوانی کے بعد علم دین کا سفر شروع ہوا، اس سفر کا پہلا مرحلہ تھا حفظ قرآن، جو سید میاں نے سات آٹھ سال کی چھوٹی سی عمر میں طے کرلیا۔ شروع کے پارے والدہ ماجدہ نے ازبر کرائے پھر حافظے کی تکمیل حافظ عاشق علی صاحب برکاتی نے کرائی۔ حافظ سلیم الدین صاحب کی اعانت بھی شامل رہی، اسی چھوٹی سی عمر میں مسجد جامع برکاتی میں پہلی محراب سنائی، سامع تھے نانا جان شاہ جی میاں صاحب۔ فارسی کی پہلی کتاب اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھی۔ نانا حضرت اور خال محترم سید شاہ اولاد رسول محمد میاں صاحب قدس سرہ سے علوم درسیہ مروجہ کا اکتساب کیا، تفسیر قرآن، علم حدیث، منطق، علم کلام، صرف ونحو اور ادب عالیہ میں کمال حاصل کیا۔ جامعہ معینیہ اجمیر مقدس میں حضور صدر الشریعہ،، شیخ الطریقۃ مولانا امجد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بہت ہی چہیتے شاگرد رہے، استاد محترم کی اجازت خاص تھی کہ مدرسہ کے اوقات کے علاوہ جب چاہیں درس لے سکتے ہیں۔ مولوی، عالم (دینیات میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری کے برابر) کی سند پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی، طیبہ کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ادویۂ ہندی ویونانی اور عمل جراحی میں ڈی۔ آئی۔ ایم۔ ایس کا ڈپلوما لیا۔‘‘(سیدین نمبر، ص:۴۷۳، ۴۷۴، مضمون سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی)

طب کی تحصیل:

درس نظامی سے فراغت کے بعد حضرت سید العلماء قدس سرہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جاکر شاہی حکیم عبد اللطیف لکھنوی سے علم طب کی تحصیل کی اور اس کا فائدہ عوام تک پہنچانے کی غرض سے سید میاں مارہرہ مطہرہ میں مطب کرتے رہے، خانقاہ شریف کے سامنے سڑک پر جو بڑا گیٹ ہے اس کے اوپر آپ کا مطب تھا۔ دوا اور دعا کا سنگم ہوا تو مریضوں کو شفا تقسیم ہونے لگی، حکمت چلی اور خوب چلی۔ دیہات سے دور دراز کا سفر طے کرکے لوگ مارہرہ مطہرہ آتے اور خانقاہ برکاتیہ کے مطب سے فیض یاب ہوکر لوٹتے۔

بیعت وخلافت:

حضور سید العلماء کی خاندان کے جن بزرگوں سے بیعت وخلافت ہے وہ یہ ہیں:نانا سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں، ماموں تاج العلماء سید شاہ اولاد رسول محمد میاں، خالو سیدشاہ مہدی حسن علیہم الرحمۃ والرضوان۔ اس کی جو تفصیل آپ کے فرزند سید حسنین میاں نظمی مارہروی نے اپنے مقالہ ’’نقیب مسلک برکاتیت۔ (سید العلماء علیہ الرحمہ‘‘ مشمولہ سیدین نمبر ص:۴۷۲) میں دی ہے اس کا خلاصہ نذر قارئین ہے:

’’نانا جان شاہ جی میاں نے اپنے پیارے نواسے کو تیرہ سال کامل خانقاہی تربیت عطا فرمائی، اپنی بیعت کے ساتھ ساتھ خلافت واجازت سے بھی نوازا۔ نانا کے وصال کے بعد سید میاں کی تربیت خال محترم تاج العلماء سیدشاہ اولاد رسول محمد میاں صاحب قدس سرہ نے اپنے ذمہ لی۔ سونے کو کندن بنانے میں جوکسر رہ گئی تھی وہ پوری ہوگئی۔ تقریر وخطابت کا آغاز خانقاہ ہی سے ہوگیاتھا۔ ۱۰؍ ربیع الاول شریف ۱۳۴۷ھ کے مبارک دن خال محترم نے اپنے چہیتے بھانجے کو خلافت سے نوازا۔‘‘ (سیدین نمبر، ص:۴۷۴)

خلفائے کرام:

حضور سیدالعلماء علیہ الرحمہ نے جن اشخاص کو سلاسل عالیہ قادریہ برکاتیہ کی اجازت وخلافت سے نوازا، ان میں کل سات افراد کے اسما راقم کو دست یاب ہوسکے وہ درج ذیل ہیں:

1.سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی(جانشین حضور سید العلماء)

2.سید محمد اشرف برکاتی مارہروی (شہزادۂ حضور احسن العلماء)

3.مولانا سخاوت علی برکاتی (مگہر بستی)

4.شیر نیپال مفتی جیش محمد قادری (نیپال)

5.حضرت مولانا عبد القادر کھتری (ممبئی)

6.حضرت مولانا غلام عبد القادر علوی (براؤں شریف)

6. حاجی غلام احمد صاحب برمو والے (بہار)

علمی جلالت:

حضور سید العلماء علیہ الرحمہ کو اللہ عزوجل نے غضب کی قوت حافظہ عطا فرمائی تھی، اس اعلیٰ درجے کی ذہانت وذکاوت پر حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ جیسے مربی استاذ کی استاذانہ مہر لگ جائے تو پھر کیا پوچھنا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ذات علوم جدیدہ وقدیمہ کی سنگم اور ظاہری اور باطنی جامعیت کا منبع نظر آتی ہے، مفتی ظفر احمد قادری بدایونی آپ کے وفور علم اور جلالت شان کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"آپ کے مبارک سینے میں علوم وفنون کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، مناظرہ میں امام المناظرین، گفتگو میں سید المتکلمین، تحریر وتقریر کے مانے ہوئے بادشاہ اور قادر الکلام تھے، ایک ہی موضوع پر مختلف عنوانات اور متعدد پیرائے سے بیان آپ کے لیے معمولی بات تھی۔ قوت حافظہ کا یہ عالم کہ آٹھ نو سال کی عمر شریف میں آپ نے قرآن پاک حفظ کرلیاتھا۔ جب مدارس عربیہ کے طلبا کے امتحان لیتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مسند تدریس کے بادشاہ ہیں، دورۂ حدیث شریف کا امتحان لیتے تو احادیث نبویہ خود سناتے کہ حافظ حدیث کا گمان ہوتاتھا۔‘‘(اہل سنت کی آواز، شمارہ۶، اکتوبر، ۱۹۹۹ء ص:۲۳۲، بحوالہ آہ سید العلماء بدر الفضلاء، ص:۸)

فتویٰ نویسی:

حضور سید میاں قدس سرہ کے علمی تبحر اور جلالت فن کا مشاہدہ آپ کے تحریر کردہ فتاویٰ اور کتب ومقالات میں کیا جاسکتاہے بالخصوص’’اہل سنت کی آواز‘‘ اور ’’ملفوظات مشایخ مارہرہ‘‘ میں شامل شدہ علمی اور ٹھوس مضامین کو ضرور مثال میں پیش کیا جاسکتا ہے جن کا مطالعہ آج بھی دور رس نتائج کا حامل ہے۔ آپ کو فقہ وافتا میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ جزئیات فقہ پر کامل عبور رکھتے ہوئے جب کوئی محققانہ فتویٰ تحریر فرماتے تو اس کے استناد میں ذرہ بھر شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی، آپ کا قول قول فیصل مانا جاتا بلکہ آپ کے فتاویٰ ممبئی ہائی کورٹ تک میں تسلیم کیے جاتے تھے۔ شہزادۂ سید العلماء حضور نظمی میاں مارہروی آپ کی فتویٰ نویسی سے متعلق رقم طراز ہیں: ’’سید میاں نے فتویٰ نویسی میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی سنت پر عمل کیا، وہ جب تک مسئلے کی گہرائی کو نہ سمجھ لیتے اس وقت تک کوئی حکم نہ لگاتے۔ ‘‘ (سیدین نمبر، ص:۵۱۳)

تصنیف وتالیف:

شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ’’مارہرہ کے قیام کے دوران آپ نے متعدد کتابیں لکھیں۔ انہی ایام میں مارہرہ شریف سے ماہانہ رسالہ ’’اہل سنت کی آواز‘‘ جاری فرمایا جس میں انتہائی اہم مفید مضامین لکھتے رہے۔‘‘(سیدین نمبر، ص:۴۶۶)

 حضور سید العلماء سید آل مصطفی قادری مارہروی علیہ الرحمہ کی بے پناہ مصروف زندگی نے انہیں اتنا موقع نہ دیا کہ پوری توجہ تصنیف وتالیف کی جانب کر پاتے، آل انڈیا سنی جمعیۃالعلماء کی صدارت، جلسوں اور کانفرنسوں میں شرکت وخطابت، دوروں کی کثرت، اوردیگر مسائل اس قدر زیادہ تھے کہ تحریر وقلم کے میدان کو زیادہ مالا مال نہ کرسکے لیکن جتنا بھی لکھا وہ اپنے کیف وکم ہر دو اعتبار سے انتہائی جامع اور وقیع تسلیم کیا جاتاہے، آپ کے تحریر کردہ مضامین ومقالات اور چندقلمی نگارشات جو یادگار ہیں ان سے آپ کی تحریری مہارت اور جودت فکر کا اندازہ ہوتاہے۔ ڈاکٹر محمد ارشاد ساحلؔ شہ سرامی لکھتے ہیں: ’’حضرت سید العلماء قدس سرہ کو نثر ونظم، تقریر وتحریر کے اصناف سخن پر یکساں د سترس حاصل تھی۔ لیکن قدرت نے خدمت اسلام کا کام آپ کی لسانی خوبیوں سے زیادہ لیا۔‘‘ آگے مزید رقم طراز ہیں: ’’لیکن آپ کی جو بھی قلمی یادگاریں ہیں ان سے آپ کی تحریری مہارت، زبان وبیان پر پوری دسترس، قلم کی برق رفتاری، زبان کی سلاست، فکر کی جولانی، اسلوب کا اچھوتا پن اور نثر ونظم کی اعلیٰ خوبیوں کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘‘ (اہل سنت کی آواز، اکتوبر ۱۹۹۹ء ص:۲۳۳)اس کے بعد ساحل صاحب نے نو صفحات میں آپ کی مستقل تین تصنیف (۱)فیض تنبیہ (۲)نئی روشنی (۳)مقدس خاتون اور ایک خطبۂ صدارت پر وقیع تبصرہ وتجزیہ پیش کیا ہے اور اخیر میں آپ کے چند علمی مضامین کی نشان دہی کی ہے۔

ذوق شعر وادب:

حضور سید العلماء قد س سرہ کا ذوق شعر وسخن بھی بڑا ستھرا، نکھرا اور پاکیزہ تھا، آپ فن ادب اور نعت گوئی میں کامل مہارت رکھتے تھے اور زبان دانی کے عظیم جوہر سے مالا مال تھے، آپ کا اردو کلام اہل سنت کی آواز کے مختلف شماروں میں شائع ہوتا رہتا تھا۔ حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کے مرتب کردہ رسالہ ’’مدائح مرشد‘‘ میں بھی آپ کی متعدد منقبتیں شامل ہیں۔ سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی لکھتے ہیں: ’’حضور سید العلماء سید شاہ آل مصطفی سید میاں علیہ الرحمہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ مرزا داغؔ دہلوی مرحوم کے شاگرد رشید اورفرزند معنوی سید شاہ احسنؔ مارہروی کے تلامذہ میں سے تھے۔ سید میاں نے بہت کم سنی میں شاعری شروع کردی تھی۔ بہاریہ شاعری کا الگ انداز تھا اور نعتیہ شاعری کے تیور کچھ اور۔ سیدؔ تخلص فرماتے تھے۔ ایک دیوان بھی ترتیب دے رکھا تھا مگر وہ شعری بیاض سفر پاکستان کے دوران سامان کے گم ہوجانے کے ساتھ ضائع ہوگئی اور ہم اردو والے ایک روایت سے محروم ہوگئے۔‘‘ (سیدین نمبر، ص:۵۰۰)

بحث ومناظرہ:

مذکورہ تمام خوبیوں کے ساتھ حضور سید العلماء علیہ الرحمہ ایک باکمال اور بلند پایہ مناظر تھے۔ اپنی تقریر میں بدمذہبوں کا رد وتعاقب تو کرتے ہی تھے باقاعدہ تحریری طور پر بھی ان کا تعاقب فرمایا اور بدمذہبوں کے ایوان میں زلزلہ برپا کردیاتھا۔ آپ کے ایک تحریری مناظرے کی روداد و تفصیل’’اہل سنت کی آواز‘‘ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے شمارے میں صفحہ ۳۴؍ پر دی گئی ہے جس کے مطالعے سے آپ کی مناظرانہ شان نمایاں نظر آتی ہے، جس کے آغاز میں آپ کے بلند اقبال فرزند سید نظمی میاں لکھتے ہیں: ’’حضور والد ماجد سرکار سید میاں علیہ الرحمہ نے بمبئی کے قیام کے ا بتدائی دور میں وہابیت سے کافی مچیٹے لیے۔ بھیونڈی کامناظرہ ایسی ہی ایک اہم کڑی تھی، ان دنوں وہابی لابی کا ایک سرگرم رکن مولوی محمد یونس بگھیروی بمبئی کی سرزمین پر بڑا فعال تھا اور چاہتا تھا کہ بمبئی کے سنی عوام کو اپنے مکر وفریب سے صراط مستقیم سے بہکادے اور شیطان کی راہ پر لگادے۔ حضور سید میاں نے ابھی نہیںتو کبھی نہیں، یہ سوچ کر یونس بگھیروی کا تعاقب کیا اور جھوٹے کو جھوٹے کے گھر تک پہنچا کر دم لیا۔ ایک دن یوں ہی میں ابا حضور کے کاغذات کو دیکھ رہاتھا کہ ان میں یونس بگھیروی سے متعلق خط وکتابت نظر آئی، ابا حضرت نے جس طرح اس کا پیچھا کیا اسے آپ بھی پڑھ لیں۔‘‘ (اہل سنت کی آواز، شمارہ۶، ص:۳۵، اکتوبر، ۱۹۹۹ء)

وفات حسرت آیات:

حضرت سید العلماء علیہ الرحمہ کی وفات ممبئی میں یکم جولائی ۱۹۷۴ء/ ۱۰؍ اور ۱۱؍ جمادی الآخرہ ۱۳۹۴ھ کی درمیانی شب ۱۱؍ بج کر ۴۰؍ منٹ بروز دو شنبہ ہوئی، وصال کے وقت حضرت سید العلماء کی عمر ساٹھ برس کی تھی۔ انہیں سرکاری توپوں کی سلامی دی گئی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ بذریعہ طیارہ مارہرہ شریف لے جایاگیا، جہاں آپ کے صاحب زادے سید آل رسول حسنین میاں نظمی دام ظلہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ خانقاہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ شریف میں پیرومرشد کے پہلو میں آپ کی آخری آرام گاہ زیارت گاہ خلائق ہے۔