والد گرامی: سلطان فرسنانہ یا فرغانہ
ولادت باسعادت: 6 رمضان المبارک 260ہجری
بمقام ولادت : چشت شریف صوبہ ہرات،افغانستان
وصال مبارک: یکم ماہ جمادی الثانی ۳۵۵ہجری
ظاہری حیات مبارکہ: 95 سال
مزار مبارک چشت شریف صوبہ ہرات،افغانستان
آپ
علیہ الرحمہ پانچ واسطوں سے آپ نائب رسول فی الہند، سلطان الہند، عطائے رسول، غریب
نواز، ہندالولی، خواجہ خواجگان، خواجہ اجمیر، سلطان سنجرحضرت معین الدین حسن چشتی
اجمیری علیہ الرحمہ کے شیخ طریقت ہیں۔
حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ کی آپ علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت کی پیش گوئی:
آپ
علیہ الرحمہ کے والد محترم سلطان فرسنافہ کی ایک نہایت ہی صالحہ ہمشیرہ (بہن)
تھیں، جو ولیہ اور عفیفہ خاتون تھیں، حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ سے بے
پناہ عقیدت رکھتی تھیں۔ بسا اوقات حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ ان کے
گھرتشریف لے جاتے تھے۔ایک دن حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نے انہیں آپکی
(پھوپھی محترمہ) سے فرمایا کہ تمہارے بھائی کو اللہ تعالیٰ عنقریب ایک فرزند عظیم
الشان جو صاحب ولایت ہوگا عطا فرماۓ گا اور اس
کی تم پرورش کرنا، کوئی چیزمشکوک و مشتبہ انکے شکم میں نہ جانے دینا۔ آپکی پھوپھی
محترمہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کی بھابھی امید سے ہیں تو ان کی نگہداشت میں کسی
قسم کی کوئی کمی نہ چھوڑی ۔یہاں تک کے خود چرخہ کات کر اپنی حلال کمائی سے ضروریات
پوری فرماتیں۔
ولادت باسعادت: 6رمضان المبارک 260ہجری میں چشت شریف میں پیدا ہوئے یہ دور خلیفہ معتصم
باللہ کا تھا۔
پیدائشی ولی:
جیسا کہ حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نےآپ کی ولادت باسعادت کی
پیش گوئی فرمائی تھی ۔ آپ شکم مادر محترم سے ہی صاحب کرامت تھے ۔آپ کا منور چہرہ
دور سے روشن نظر آتا، جس شخص کی نگاہ آپ کے چہرہ پر پڑتی دل و جاں سے محبت کرنے
لگتا تھا، آپ کی جبیں نور افشاں سے نور الٰہی کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ رات کو گھر
میں روشنی کے بغیر تشریف لاتے تو سارا گھر روشن ہوجاتا تھا آپ اندھیرے میں بیٹھتے
تو قرآن پاک کے حروف اعراب سمیت نمایاں نظر آتے ۔
اسم گرامی:
آپ علیہ
الرحمہ کا اسم گرامی "خواجہ ابو احمد ابدال چشتی علیہ الرحمہ" ہے۔ آپ
رحمۃ اللہ علیہ کا لقب "قدوۃ الدین" تھا۔ آپکے والد محترم کا نام سلطان
فرسنانہ یا فرغانہ تھا ۔ آپ رحمۃ اللہ
علیہ فرمانروائے فرغانہ کے بیٹے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نسب چند واسطوں سے حضرت
امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ حسنی حسینی سادات عظام میں سے تھے ۔
سلسلہ نسب:
آپ کا نسب نامہ یوں ہے:ابو احمد رحمۃ اللہ علیہ ابدال بن سلطان فرغانہ
سید ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ بن سید یحییٰ بن سید حسن بن سید مجدالمعالی المعروف بہ
ابوالمعالی بن سید ناصر الدین بن سید عبدالسلام بن سید حسن مثنیٰ بن سید اما م حسن
مجتبیٰ بن علی ابن ابی طالب۔
تعلیم و تربیت:
اپنی پھوپھی محترمہ کے زیرتربیت رہے ۔ جب آپ کی
عمر سات سال ہوئی تو حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ کی مجلس میں حاضر ہوئے۔
ظاہری باطنی تعلیم لی اور حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ سے مستفیض ہوتے
رہے ۔
شرف بیعت:
آپ علیہ الرحمہ سولہ سال کی عمر
میں ظاہری علوم سے فارغ ہوئے ۔ تو حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نے بیعت
فرمالیا۔
ریاضت و مجاہدات:
حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نے خلوت کدہ میں ریاضت میں لگا دیا،
بڑے مجاہدے کیے چنانچہ سات روز بعد کھانا کھاتے، وضو کرتے اور تین لقموں سے زیادہ
نہ کھاتے۔ چالیس دنوں بعد حاجت انسانی کے لیے باہر جاتے۔ریاضت اور مجاہدہ میں بے
مثال خوارق و کرامات میں لاثانی تھے ۔ایک دن خواجہ ابو احمد چشتی اپنے والد گرامی
کے ہمراہ پہاڑوں پر شکار کھیلنے چلے گئے اتفاقاً والد اور ان کے ساتھیوں سے جدا
ہوگئے اور پہاڑوں میں راستہ بھول گئے۔ رجال الغیب سے چالیس افراد ایک چٹان پر کھڑے
تھے اور خواجہ ابو اسحاق شامی بھی انہی کے درمیان کھڑے تھے۔ حضرت خواجہ کو پہچان
کر گھوڑے سے اُتر آئے۔ قدم بوسی کی اسلحہ اور گھوڑا تن سے علیحدہ کیے اور خواجہ کی
رکاب پکڑ کر پیدل چلنے لگے، آپ کے والد محترم نے اور ان کے لشکر نے پہاڑوں میں آپ
کو بڑا تلاش کیا، مگر نوجوان ابواحمد کا کہیں پتہ نہ چلا، چند دنوں بعد خبر ملی کہ
ابو احمد فلاں موضع میں حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی قدس سرہ کی خدمت میں موجود ہے۔
بادشاہ نے چند آدمیوں کو بھیجا کہ انہیں لے آئیں، مگر ان کی ساری پند و نصیحت کے
باوجود ابو احمد نے حضرت شامی کی مجلس سے جانا پسند نہ کیا آٹھ سال تک محنت شاقہ
سے گزرے خرقہ خلافت حاصل کیا، تیس سال تک کبھی بستر پر آرام نہیں کیا۔
ذوق سماع:
حالت سماع میں جس کسی پر بھی آپکی نظر رحمت پڑ جاتی وہ صاحب کرامت بن جاتا
تھا ۔ اور اگر کافر آجاتا تو مسلمان ہوجاتا تھا ۔ ایسی حالت میں آپکی پیشانی مبارک
سے ایک نور روشن و تاباں ظاہر ہوتا جسکی روشنی و چمک آسمان تک پہنچ کر تمام افق
میں پھیل جاتی تھی۔ یہ علامت دیکھ کر لوگ جوق در جوق والہانہ آپکی محفل میں حاضر
ہو کر فیضان رحمت و انوار الہی سے مستفید ہوتے ۔
آپ کی مجالس سماع پر اعتراضات:
حضرت ابو احمد علیہ الرحمہ کی
کرامات کی شہرت مشرق و مغرب میں پھیلی، تو علما ۓعصر کو آپ سے حسد ہونے لگا، آپ علیہ الرحمہ کے سماع کی مجالس کے خلاف فتوی بازی
ہونے لگی، ایک محضرنامہ تیار کیا گیا، اور امیر نصیر جو حاکم عادل بھی تھے ۔ انکی خدمت
میں پیش کیا گیا ۔ حضرت خواجہ کی مجلس سماع کی برائیاں بیان کی گئیں ۔ امیر نے ملک
بھر کے جید ترین علماء کی ایک مجلس بلائی جس میں کئی ہزار علماء جمع ہوئے ۔ حضرت
ابو احمد علیہ الرحمہ کو بھی اس مجلس میں پیش کیا گیا ۔ حضرت ابو احمد علیہ الرحمہ
یہ خبر سن کر خرقہ خلافت پہنے گھوڑے پر سوار ہوکر امیر کے دربار میں پہنچے آپ کے
ساتھ ایک خادم محمد خدا بندہ نامی تھے۔ جنھیں سورۃ فاتحہ اور سورۂ اخلاص کے علاوہ
قرآن سے کچھ یاد نہیں تھا، امیر نصیر کی بارگاہ میں پہنچے ۔ آپ کی تشریف آوری سے
پہلے تمام علماء اور حاسدین کا یہ ارادہ تھا کہ جب خواجہ ابو احمد آئیں تو کوئی
شخص نہ استقبال کے لیے جائے اور نہ احترام میں اٹھے مگرایسا ہوا کہ جب خواجہ مجلس
کے پاس آئے تو تمام علماء تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بعض نے آگے بڑھ کر استقبال
بھی کیا مجلس میں لاکر ایک بلند مسند پر بٹھایا گیا، اور مسئلہ سماع پر گفتگو شروع
کردی، جب علماء کرام اپنا نکتہ نظر بیان کرچکے اور اپنے اپنے اعتراضات کی تفصیل
سنا چکے تو حضرت خواجہ ابو احمد نے اپنے خادم محمد بند ہ کو اشارہ فرمایا کہ ان
علماء کرام کے اعتراضات کا جواب دو، خادم ان پڑھ تھا، مگر اسے یوں محسوس ہوا جیسے
آج وہ سب سے زیادہ عالم اور فاضل ہے، اس نے علماء کے ایک ایک اعتراض کا جواب قرآن
و احادیث سے دینا شروع کیا۔ بزرگان سلف کے طریقہ کو بھی بیان کرنے لگا تمام علماء
اس کے جوباات سن کر دنگ رہ گئے بعض تو شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھے رہے۔
حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا فیضان کرم:
حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک سفر میں ایسے
ملک میں جا پہنچے جہاں کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔ اور ہر طرف کافر ہی کافر تھے یہ
ایسے سخت کافر تھے کہ انہیں کوئی مسلمان نظر آتا تو اسے پکڑ کر آگ میں پھینک دیتے،
انہوں نے حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا توپہچان
لیا کہ یہ مسلمان ہے، بڑی سختی کرنے لگے، حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ کو جلانے کے لیے ایک جگہ آگ جلائی گئی اور حضرت خواجہ ابو احمد
ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس میں پھینکنے کے لیے تدبیریں کرنے لگے،
حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں کہا، تم لوگ مجھے
آگ میں پھینکنے کی تکلیف نہ کریں میں خود ہی آگ میں کود پڑتا ہوں، آپ رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ نے مصلی کندھے پر رکھا، اور آگ کے شعلوں میں کود پڑے، آگ سرد ہوگئی،
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انگاروں پر مصلی بچھا دیا، اور دو رکعت نماز شکرانہ
ادا کی، ان دشمننانِ اسلام نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کرامت دیکھی تو کلمہ
پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور دل و جان سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ پر بیعت
ہوگئے، جو "شہر کفر" تھا، آپ کی برکت سے"شہر اسلام" بن گیا۔
وصال مبارک:
یکم ماہ جمادی الثانی ۳۵۵ہجری کو قدوۃ الدین حضرت خواجہ ابو
احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی رحمتہ ﷲ علیہ واصل بحق ہوئے۔
مزار پر انوار:
حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی رحمتہ ﷲ علیہ کا مزار
مبارک, چشت شریف صوبہ ہرات,افغانستان میں واقع ہے ۔
No comments:
Post a Comment