Kichhauchha Sharif Ka Tarikhi Pase Manzar (Urdu)


 وہ جگہیں اور وہ مقامات مقدس ومطہر ، شریف و پاکیزہ اور تاریخی و قابل ذکر ہو جایا کرتے ہیں جنہیں رجال اللہ اور مردان خدا سے نسبت وتعلق حاصل ہوتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں اور لوگوں کی زبان پر بے شمارا ایسے مقامات ہیں جن کے ساتھ مقدس و شریف جیسی نسبت لگی ہوئی ہے ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے مکتہ المکرمہ ،مد ینہ طیبہ، بیت المقدس ،  نجف اشرف ، بغدادشریف ،اجمیر شریف ، گلبرگہ شریف ، بہرائچ شریف ، کلیر شریف اور پنڈ وہ شریف وغیرہ۔ قرآن وسنت کے مطالعے ، انبیاء وصالحین کے آثار وقصص اور ان کے نصائح و وصایا سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شخصیتوں کے تقدس سے مقامات مقدس ہو جایا کرتے ہیں۔

کچھوچھہ مقد سہ: سرزمین  کچھوچھہ کو مقدس ہونے کا شرف اس لئے حاصل ہے کہ اسے آٹھویں صدی ہجری کے اس مردحق آگاہ سے نسبت وتعلق ہے جو اپنے وقت کا عظیم داعی حق ، بندہ بے نفس، درویش کامل اورغوثیت  و جہانگیری کے بلند مقام پر فائز تھا۔

کچھو چھہ مخدوم پاک کی آمد سے قبل: مخدوم پاک کی آمد سے پہلے کچھوچھہ کا حال کچھ اچھا نہ تھا، یہاں جوگیوں ، جادوگروں اور ساحروں کا راج تھا، ہر طرف کفرو بے دینی کی چہل پہل تھی یہاں کی فضابڑی مسموم اور  آلودہ تھی  ۔

کچھوچھہ شریف کا انتخاب: حضور غوث العالم تارک السلطنت میرسید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمتہ والرضوان کے مرشد گرامی حضوری علاءالحق والدین قدس سرہ  نے آپ کی تربیت گاہ کے لئے اس جگہ کا انتخاب فرمایا اور بذریعہ کشف اس دیار کا معائنہ بھی کرایا ۔

کچھوچھہ میں مخدوم پاک کی آمد: مخدوم پاک نے دارالسلطنت شہر جون پور سے کوچ کیا اور مختلف جگہوں سے ہوتے ہوتے موضع بہدوند ( بھدوڑ) پہنچے باہر ایک باغ تھا وہاں قیام فرمایا سب سے پہلے جو شخص آپ کی خدمت میں حاضری سے مشرف ہوئے۔وہ ملک محمود تھے۔ آپ نے ان پر بڑی مہربانی اور عنایت فرمائی جب قیلولے کا وقت ہوا تو آپ نے آم کے ایک درخت کے نیچے جو بے حد سایہ دار تھا آرام فرمایا۔ زوال کے وقت آپ بیدار ہوئے تو اصحاب نے دیکھا کہ درخت کی مشرقی شاخ مغرب کی جانب آگئی تھی۔ کچھ وقت تک ملک محمود کے ساتھ گول تالاب کی سیر کی اس کے اطراف کوغور سے دیکھا اور فرمایا کہ ہمیں حضرت مخدوی ( پیر ومرشد ) نے اس جگہ کا حکم دیا تھا یہاں کون سی جگہ مناسب رہے گی۔ ملک محمود نے عرض کیا یہاں ایک جگہ ایک جوگی رہتا ہے وہی جگہ بہتر رہے گی ۔ اس کے چاروں طرف تالاب کا پانی ہے لیکن وہ جگہ کا فرانہ شعبدے سے خالی نہیں ہے اگر اس جوگی کے باطل شعبدوں کا مقابلہ کر لیا جائے تو اس سے بہتر اور کوئی جگہ  نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا''  و قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل كان زهوقا‘‘خیر جگہ دیکھ لیتے ہیں ۔ اصحاب کی ایک جماعت اور ملک محمودآ گے چل رہے تھے ۔سیر گاہ پہنچے جب آپ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو فرمایا کہ یہ ہماری وہی جگہ ہے جس کا حکم حضرت مخددی ( پیرومرشد ) نے دیا تھا لہذا حضرت مخدوم پاک  نے اپنے ایک خادم کو حکم دیا کہ اس (جوگی ) سے کہو یہاں سے چلا جائے ۔ جوگی نے جواب میں کہلوایا، مجھے یہاں سے نکالنا آسان نہیں ہے میں پانچ سو جوگی کے برابر ہوں۔ اگر کوئی قوت ولایت سے نکالے تو نکالے ورنہ ممکن نہیں ہے۔ حضرت مخدوم کچھوچھہ علیہ الرحمہ  نے جمال الدین راوت کو جو اسی دن شرف بیعت سے مشرف ہوئے تھے حکم دیا کہ جاؤ اور جو کچھ وہ طلب کرے سہی اس کے سامنے لاکر دکھاؤ۔ جمال الدین کو تھوڑا ساتا مل ہوا۔ حکم ہوا سا منے آ ؤ اور جو پان آپ تناول فرمارہے تھے۔ اپنے ہاتھ سے ان کے منہ میں ڈال دیا۔ پان چباتے ہی ان کی حالت بدل گئی اور وہ دلیرانہ آگے بڑھے ۔ جوگی نے بہت حربے استعمال میں لائے مگر جب اسے اپنے تمام ٹوٹکوں کی ناکامی کا احساس ہوا تو عاجزی کے ساتھ سامنے آیا اور کہا کہ مجھے حضرت مخدوم پاک علیہ الرحمہ کے پاس لے چلوتا کہ میں اسلام قبول کرلوں۔  جمال الدین نے جوگی کا ہاتھ پکڑا اور حضرت قدوۃ الکبری کے قدموں میں ڈال دیا۔ آپ نے جوگی کوکلمہ شہادت پڑھایا اس کے کے تمام ساتھی بھی نور ایمانی سے منور ہوئے اس نے اپنے مذہب کی تمام کتابیں حضرت قدوۃ الکبری کے سامنے جلا دیں۔ آپ نے اسے عبادت و ریاضت کے کام میں لگا دیا اور اس کے رہنے کے لئے تالاب کے کنارے ایک جگہ مقرر کر دی جس روز وہ جوگی مشرف بہ اسلام ہوا اس کے ساتھ پانچ ہزار آدمی بھی آپ کی ارادت سے مشرف ہوئے۔  جب وہ علاقہ آپ کو حاصل ہو گیا تو آپ نے اس کا نام’’روح آباد رکھا۔ خانقاہ جو آپ نے باہرتعمیر کرائی تھی اسے کثرت آباد سے موسوم فرمایا۔ اسی  طرح ایک چھوٹا سا حجرہ جو یہاں تعمیر کرایا تھا اس کا نام وحدت آباد رکھا۔ آپ بعض اوقات مخلص اصحاب کو ساتھ لے کر روح آباد کے مشرق کی جانب تشریف لے جاتے اور وہاں تشریف فرما ہوتے اور معارف وحقائق کے اسرار و آثار پر گفتگو ہوتی رہتی جب آپ یہاں آ کر تشریف فرما ہوتے تو فرماتے کہ یہاں دل کو بڑ اسکون ملتا ہے اسی بنا پر اس جگہ کو ’دارالامان‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ایک اور جگہ جانب شمال تھی ۔ جب آپ کا جی چاہتا وہاں تشریف فرما ہوتے ۔ اس جگہ کا نام’’روح افزا‘‘ رکھا۔ آپنے کئی مرتبہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے فرمایا کہ یہاں ایسی رونق ہوتی جواطراف کے لوگوں کو حاصل نہیں ۔

سرزمین کچھو چھہ سے مخدوم پاک کی انسیت:  سر زمین کچھوچھہ(روح آباد) سے  آپ کی جوانسیت تھی اس کا اندازہ اس شعر سے لگایا   جاسکتا ہے ۔  ترجمہ فارسی : اشرف دل سے (ملک)  سمناں (ایران)  کی محبت دور کر کیوں کہ روح آباد( کچھوچھہ شریف ) ہمارے لئے سمناں ہے ۔

بارگاہِ مخدومی کی حاضری اور بشارت:  ہر سال عرس مخدومی میں لاکھوں عقیدت مندوں کی حاضری ہوتی ہے، عرس مخدومی میں جانے والے بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں انہیں اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیے کیوں کہ سلطان التارکین غوث العالم محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ نے اپنے زائرین(اہل ایمان زائرین) کو بشارت عظمیٰ سنائی ہے،جی ہاں! حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ:"ہر کہ بر سر قبر من رسد حاجت او بر آید و آمز زیدہ شود ان شاء اللہ و عاقبت او بخیر باشد و آتش دوزخ بروئے حرام کردد"  ترجمہ:جو شخص میری قبر پر حاضری دے گا ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری ہوگی اس کا انجام اچھا ہوگا وہ بخشا جائے گا اور اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہوگی۔(بشارت المریدین قلمی/ ماہنامہ جام نور کا محدث اعظم ہند نمبرصفحہ ١١؛بابت اپریل سنہ ٢٠١١ء/بشکریہ:شبیر احمد راج محلی)

شیخ عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ  قدس سرہ  لکھتے ہیں: جب اس فقیر کے دل میں حضرت خضر علیہ السلام اور دوسرے رجال اللہ کی زیارت کی خواہش پیدا ہوئی اور دل بے قرار ہوا تو حضرت خواجہ معین الدین  چشتی اجمیری قدس سرہ النورانی کی طرف سے اشارہ ہوا کہ پیر سید اشرف جہانگیر کے مزار پر جاؤ۔ وہاں تمہاری مراد پوری ہو جائے گی۔ لہذا جب پہلی بار آستانے پر حاضری ہوئی تو حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت سے شرف یاب ہوا۔ مگر ہم کلامی کا شرف حاصل نہ ہوسکا۔ پھر جب دوسری بار حاضر ہوا تو تمام’’ر جال وقت‘‘ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور قسم قسم کے فیوض و برکات حاصل کئے۔ اسی جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت پاک، بعض صحابہ کرام اور اکثر مشائخ چشت کی بھی زیارت کا شرف حاصل ہوا‘‘ ۔  مزید آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’اس حکایت کا مقصد یہ ہے کہ ولایت جہانگیری کے تصرف کی وجہ سے آج تک ولایت صوری و معنوی کا عزل و نصب میرسید اشرف جہانگیر قدس سرہ کے مزار پر جاری ہے اور اکثر رجال اللہ کا مجمع وہاں رہتا ہے‘‘ ۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی  رقم طراز ہیں’’:آپ کی قبر بڑا فیض کا مقام ہے اور ایک حوض کے درمیان میں ہے اس علاقہ میں جنات کو دور کرنے کے لئے آپ کا نام لے دینا بڑا تیر بہدف نسخہ ہے‘‘۔  بادشاہ ہندوستان حضرت اورنگ زیب علیہ الرحمہ نے سادات کچھوچھہ مقدسہ  سے اپنی عقیدت و وارفتگی  اور اپنی بے پناہ محبت والفت کا اعلان ان لفظوں میں کیا’’ سادات کچھوچھہ ہمہ داںمقبولان خالق وخلائق ہیں‘‘ ۔  اس خانوادے میں ایسی ایسی عظیم ہستیاں اور اولوالعزم شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں جو حکمت و دانائی کے تاجدار علم وروحانیت کے شہسوار، اپنے وقت کے غزالی و رازی اور بایزید بسطامی تھے۔ حضرت سید عبد الرزاق نورالعین صاحب قبلہ علیہ الرحمتہ والرضوان سے لے کرحضرت شیخ مبارک بودلے  (پیرومرشد حضرت نظام الدین بندگی میاں امیٹھوی و ملک محمد جائسی  علیہما الرحمہ ) حضرت مولانا غلام مصطفیٰ اشرفی جیلانی عرف مُلاَّ باسو جائسی علیہ الرحمہ ، مُلاَّ علی قلی اشرف اشرفی الجیلانی  علیہ الرحمہ (استاذ مُلاَّنظام الدین فرنگی محلی علیہ الرحمہ) ، حضرت مولانا سید باقر اشرفی جیلانی ملقب بہ فاضل جائسی علیہ الرحمہ ، حضرت مولانا امام اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ ، حضرت مولانا سید امین اشرف جیلانی  جائسی  علیہ الرحمہ ، ہم شبیہ غوث الاعظم محبوب ربانی  حضرت سید محمد علی حسین المعروف  اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ ،  عالم ربانی سلطان الواعظین سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ ، حضرت سید محمد المعروف محدث اعظم ہند  علیہ الرحمہ ،حضور سرکارکلاں سیدمختار اشرف اشرفی الجیلانی  علیہ الرحمہ ، مجاہد دوراں سید محمد مظفر حسین علیہ الرحمہ ،  قطب ربانی حضرت ابو مخدوم شاہ سید محمدطاہر اشرف الاشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ ، امیر ملت سید امیر اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ ،اشرف العلما ء سید محمد حامد اشرف اشرفی علیہ الرحمہ ،حکیم الملت  سید شاہ قطب الدین اشرف   اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ ، شیخ اعظم سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ ، حضور محبوب العلماء حضرت سید محبوب اشرف  علیہ الرحمہ اور اشرف المشائخ حضرت ابو محمد شاہ سید محمد اشرف الاشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ تک سے وہ برگزیدہ اور جلیل القدر شخصیتیں ہیں جنہوں نے اپنی دعوتی سرگرمیوں اور مسلسل تبلیغی دوروں کے ذریعہ ان گنت و بے شمار بندگان خدا کو مضبوط ایمان و عقیده عطا کیا اور انہیں اہل سنت و جماعت کے عقائد ونظریات پر قائم فرما کران کے دین و مذہب کی حفاظت فرمائی ۔