سید الاولیاء شیخ الکبیر حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ

 

 نام و لقب: السید السند، قطبِ اوحد، امام الاولیاء، سلطان الرجال، شیخ المسلمین، شیخِ کبیر، محی الدین، سلطان العارفین، عارف باللہ، بحر شریعت و طریقت ابوالعباس احمد الرفاعی

بانی سلسلہ : سلسلہ رفاعیہ

حضرت سیدنا امام احمدکبیر رفاعی علیہ الرحمہ کی ولادت سے پہلے ہی آپ کی وِلایت کی بشارتیں دی جانے لگی تھیں۔چنانچہ تاج العارفین،حضرت ابوا لوفا محمدبن محمد کاکیس علیہ الرحمہ کا گزر ام عبیدہ گاؤں کے قریب سے ہوا تو کہا : السلام علیک یا احمد!مریدوں نے عرض کی : ہم نے تو کسی احمد کو نہیں دیکھا،ارشاد فرمایا : وہ اس وقت اپنی والدہ کے پیٹ میں ہیں میری وفات کے بعدپیدا ہوں گے ، ان کا نام احمد رفاعی ہے اورروئے زمین کا ہر عبادت گزار ان کے سامنے عاجزی سے پیش آئے گا۔( طبقات الصوفيہ للمناوی ، ۴/ ۱۹۱، دارصادر بیروت)

آپ علیہ الرحمہ   کی پیدائش سے چالیس دن پہلے آپ کے ماموں حضرت سید منصور بطائحی علیہ الرحمہ   خواب میں پیارے آقا محمد مصطفےٰ کے دیدار سے مشرف ہوئے،دیکھا کہ مکی مدنی سرکار ﷺ  ارشادفرما رہے ہیں : اے منصور ! چالیس دن بعد تیری بہن کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا اس کا نام احمد رکھنا اور جب وہ کچھ سمجھدارہوجائے تو اُسے تعلیم کے لئے شیخ ابوالفضل علی قاری واسطی کے پاس بھیج دینا اور اس کی تربیت سے ہرگزغفلت نہ برتنا۔اس خواب کے پورے چالیس دن بعدحضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ   اس دنیا میں جلوہ افروز ہوگئے۔(  طبقات الصوفيہ للمناوی ، ۴/ ۱۹۱، دارصادر بیروت)

سات درویشوں کی سات بشارتیں: بچپن میں آپ علیہ الرحمہ کےقریب سے سات دَرْویشوں کاگزر ہوا تو وہ ٹھہر کرآپ علیہ الرحمہ کو دیکھنے لگے۔ان میں سے ایک نےکلمۂ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ (ﷺ) پڑھا اور کہنے لگا : اس بابرکت درخت کا ظہور ہوچکا ہے ، دوسرے نے کہا : اس درخت سے کئی شاخیں نکلیں گی،تیسرے نے کہا : کچھ عرصے میں اس درخت کا سایہ طویل ہوجائے گا،چوتھے نے کہا : کچھ عرصے میں اس کاپھلزیادہ ہوگااورچاندچمک اُٹھے گا،پانچویں نے کہا : کچھ عرصے بعد لوگ ان سےکرامات کا ظہور دیکھیں گے اوربہت زیادہ ان کی جانب مائل ہوں گے،چھٹے نے کہا : کچھ ہی عرصے بعد ان کی شان وعظمت بلند ہوجائے گی اورنشانیاں ظاہر ہوجائیں گی،ساتویں نے کہا : نجانے(برائی کے )کتنے دروازے ان کی وجہ سے بند ہوجائیں گےاور بہت سے لوگ ان کے مُرید ہوں گے ؟ ( جامع کرامات الاولیاء ، ۱/ ۴۹۰، مرکز اہل سنت برکات رضاہند)

 ولادت باسعادت: آپ علیہ الرحمہ بروز جمعرات، ماہِ رجب کے نصف اوّل (15رجب) کو 512ھ میں مستر شد باللہ عباسی کے زمانہ خلافت میں مقام ام عبیدہ کے حسن نامی ایک قصبہ میں پیدا ہوئے ۔ اُم عبیدہ علاقہ بطائح میں واسط وبصرہ کے درمیان واقع ہے ۔

نسب نامہ: حضرت سید احمد کبیر رفاعی ،بن سید علی، بن سید حسن رفاعی مکی الاشبیلی،بن سید احمد اکبر صالح ،بن سید موسی ثانی ،بن سید ابراھیم مرتضی، بن امام موسی کاظم، بن امام جعفر صادق ، بن امام محمد باقر ،بن امام زین العابدین، بن امام حسین ،بن امیرالمؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجھہ و رضی اللہ عنہم اجمعین۔

اساتذہ کرام: آپ علیہ الرحمہ نےاپنے وقت کے ناموراور جلیل القدر اساتذہ سے اکتساب علم کیا ۔آپ کے ماموں جان شیخ الاسلام حضرت سیدمنصور علیہ الرحمہ اور قاضی ابو الفضل علی واسِطی المعروف ابن القاری تو آپ کے اساتذہ میں سرفہرست ہیں کیونکہ ماموں جان کی نگرانی ہی میں آپ کی تعلیم و تربیت پایۂ تکمیل کو پہنچی اور دیگر تمام اساتذہ کے مقابلے میں سب سے زیادہ علوم وفنون قاضی ابو الفضل علیہ الرحمہ ہی سے حاصل کئے البتہ ان دونوں حضرات کے علاوہ شیخ ابُو الفتح محمد بن عبد الباقی علیہ الرحمہ ،شیخ محمد بن عبد السمیع عباسی ہاشمی علیہ الرحمہ اورشیخ عارف باللہ سیدعبد الملک بن حسین حربونی واسِطی علیہ الرحمہ بھی آپ کے اساتذہ میں شامل ہیں۔( سیرت سلطان الاولیا، ص۴۷)

فرمانِ غوث اعظم پر گردن جُھکا لی: بہجۃ الاسرار میں ہے کہ قطب ربانی ،شہبازلامکانی،محی الدین حضرت سید عبدالقادرجیلانی علیہ الرحمہ نےجس وقت قدمی ہذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ  (میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے )فرمایا تو حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ  نے اپنی گردن جھکا کرعرض کی : علی رقبتی(میری گردن پربھی آپ کاقدم ہے) حاضرین نے عرض کی : حضور!آپ یہ کیا فرما رہے ہیں ؟

تو آپ نے ارشاد فرمایا : اس وقت بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ قدمی ہذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ   کا اعلان فرمایا ہے اور میں نے گردن جھکا کر تعمیل ارشاد کی ہے۔ (  بہجۃالاسرار، ذکرمن حناراسہ من المشایخ ، ص۳۳)

 آپ علیہ الرحمہ کا سجادہ نشینی کا واقعہ: جب حضرت سیدنا شیخ منصورعلیہ الرحمہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی زوجہ محترمہ نے عرض کی:اپنے فرزندکے لئے خِلافت کی وصیت کردیں ، شیخ منصورعلیہ الرحمہ نے فرمایا: نہیں بلکہ میرے بھانجے احمد کے لئےخلافت کی وصیت ہے،زوجہ محترمہ نےجب اصرار کیا تو آپ نے اپنے بیٹے اور بھانجے امام رفاعی علیہ الرحمہ کو بلوایا اور دونوں سے فرمایا : میرے پاس کھجور کے پتے لاؤ ،بیٹا تو بہت سے پتے کاٹ کرلے آیا مگر سیدنا امام رفاعی کوئی پتا نہ لائے،وجہ پوچھی تو حکمت سے بھرپور جواب دیتے ہوئے عرض کی: میں نے سب کواللہ تعالی کی تسبیح کرتے ہوئے پایا،اسی لئے کسی پتے کو نہیں کاٹا ،جواب سن کر شیخ منصورعلیہ الرحمہ نے اپنی زوجہ محترمہ کی طرف مسکرا کردیکھااورفرمایا: میں نے بھی کئی مرتبہ یہی دعا کی تھی کہ میرا خلیفہ میرا بیٹا ہو مگر مجھ سے ہرمرتبہ یہی فرمایا گیا کہ تمہارا خلیفہ تمہارا بھانجا ہے۔لہٰذا (28) سال کی عمرمیں سیداحمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کو ماموں جان کی طرف سے خلافت عطا ہوئی اور اُسی سال شیخ منصورعلیہ الرحمہ کا انتقال ہوگیا۔

مشہور خلفاءو تلامذہ: حضرت سیدنااحمد کبیررفاعی علیہ الرحمہ اللہ تعالیٰ بارگاہ میں اس قدر مقبول تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے دل ان کی طرف پھیر دئیے تھے جہاں جہاں مسلمان آبادتھے وہاں آپ کے متبعین ومریدین پائے جاتے تھے عقیدت مندوں کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی حیات میں صرف آپ کے خلفاء اورخلفاء كےخلفاءکی تعداد ہی ایک لاکھ اسی ہزار تک پہنچ چکی تھی ۔ان میں شیخ عمر فاروثی ،شیخ ابو شجاع فقیہہ شافعی ،شیخ یوسف حسینی سمر قندی،عارف باللہ عبدالملک بن حماد مَوْصِلی،قطبِ کبیرابو عبد الرَّحیم بن محمد بن حسن براعی وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ آپ کے مشہور خلفاءو تلامذہ میں شامل ہیں۔(  سیرت سلطان الاولیا، ص۷۹ ، ۸۰)

آپ کے سجادہ نشین: حضرت امام کبیر محی الدین ،سید ابواسحاق ابراہیم اعزب رفاعی علیہ الرحمہ سلسلۂ رفاعیہ کےسجادہ نشین بنائے گئے۔ ہند میں سب سے پہلے آپ کا فیضان آپ علیہ الرحمہ  کے خلیفہ حضرت شیخ عبداللہانصاری بدایونی رفاعی علیہ الرحمہ  المعروف جھنڈے والے پیرنے تقسیم فرمایا جن کا مزاراندرونِ شہر بدایوں (یوپی) ہند میں ہے۔(تاریخ مشائخ قادریہ، ص۴۴)

تصنیفات و تالیفات : آپ علیہ الرحمہ نے دین و سنیت کی وہ خدمات انجام دی ہیں جنہیں فراموش کرنا آپ کی عظیم خدمات کو بھلا دینا ہے، مختلف علوم وفنون میں آپ کی تصانیف موجود ہیں، آپ کو مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل تھی مگر جس فن کے ذریعہ آپ کو شہرت ملی وہ تصوف ہے۔ آپ علیہ الرحمہ کے یہ بہت مشہورکتابیں ہیں:

·      الب رہان المؤید

·      الحکم الرفاعیۃ

·      الأحزاب الرفاعیۃ

·      النظام الخاص لأھل الاختصاص

·      الصراط المستقیم فی تفسیر معانی بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

·      الرؤیۃ

·      الطریق إلی اللّٰہ

·      العقائد الرفاعیۃ

·      المجالس الأحمدیۃ

·      تفسیر سورۃ القدر

·      حالۃ اہل الحقیقۃ مع اللّٰہ

·      الأربعین

·       شرح التنبیہ(ست مجلدات)

·      رحیق الکوثر

·      البہجۃ فی الفقہ

·      حکمت رفاعی

·      ارشادات سید احمد کبیر

·      السیر والمساعی (اوراد رفاعیہ)

·      نصائح رفاعیہ

آپ علیہ الرحمہ کے فضائل و کمالات بے شمار ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیر و تواریخ کی بے شمار کتابوں میں آپ کی تعریف و توصیف کا تذکرہ ملتا ہے اور آپ کے معاصرین و متاخرین نے آپ کا ذکر اعلیٰ اوصاف عمدہ خصلتیں، بلندمحاسن ومحامد کے ساتھ کیا ہے۔ ذیل میں چند اہل علم کے اقوال و فرمودات نقل کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔

امام اجل سیدی ابوالحسن علی بن یوسف نور الملۃ والدین شطنو فی بہجۃ الاسرار میں فرماتے ہیں:

حضرت سیدی احمد رفاعی رضی اللہ عنہ سرداران مشائخ و اکابر عارفین و اعاظم محققین و افسران مقربین سے ہیں، جن کے مقامات بلند اور عظمت رفیع اور کرامتیں جلیل اور احوال روشن اور افعال خارق عادات اور انفاس سچے عجیب فتح اور چمکا دینے والے کشف اور نہایت نورانی دل اور ظاہر تر سر اور بزرگ تر مرتبہ والے۔( الاسرار ومعدن الانوار ج : ۲۳۵ مصطفی البابی مصر )

حضرت شیخ علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

سید احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے طریق الی اللہ کے لیے ایسا راستہ اپنایا ہے کہ سالکین اس پر چلنا چاہیں تو عاجز رہ جائیں، اس راستے کی وضاحت کرنا چاہیں تو ان کی زبانیں ساتھ نہ دیں، انھوں نے اپنے نفس کو تواضع وانکسار کا پیکر بنایا تو اللہ رب العزت نے ان کو معزز و مکرم کر دیا ، انھوں نے اپنے نفس کو موخر کیا تو پروردگار عالم نے اسے مقدم فرمادیا، انھوں نے اپنی انانیت کو کچل دیا تو رب تعالیٰ نے ان کو ایسا منور کردیا کہ دوسرے لوگ نور پا رہے ہیں، اللہ پاک نے آپ کو ایسا پہاڑ بنایا کہ لوگ اس کی پناہ لے رہے ہیں ، آپ اللہ عز وجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نزدیک بڑی وجاہت ومرتبت والے ہیں، ہم بظاہر ان کے شیخ ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے شیخ ہیں ۔(المجالس الرفاعيہ ، ص: ۲۳)

امام شہاب الدین ابو الفلاح عبد الحی بن احمد بن محمد العکری الحنبلی الدمشقی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

آپ تو اضع اختیار کرنے والے آلودگیوں سے پاک سینہ والے تھے دنیا سے بے نیاز تھے، آپ نے کبھی بھی ذخیرہ اندوزی نہ کی۔

حضرت شیخ علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

ترجمہ: سب لوگ اپنے مشایخ پر فخر کرتے ہیں مگر میں سید احمد رفاعی پر فخر کرتا ہوں، اور ان کی ذات یقیناً فخر کے لائق ہے۔ اللہ نے آپ کے ذریعہ سنت کو تقویت بخشی ، طریقت کو زندہ فرمایا، اور حقیقت کے منار کو بلند فرمایا۔نیز فرمایا: اگر سر امتثال نہ ہوتا تو میں سید احمد سے بیعت ہوتا، اس میں شک نہیں کہ میں ان کا صور تاً شیخ ہوں مگر حقیقتا ًوہ میرے شیخ ہیں۔ (ارشاد المسلمين لطريقۃ شيخ المتقين، ص: ۸)

قطب ربانی حضور شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

اللہ رب العزت کا ایک بندہ (سید کبیر رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ) ہے جو مقام عبدیت پر ممکن ہے۔ جو اپنے مریدوں کا نام بدبختوں کی فہرست سے ہٹا کر نیک بختوں کی فہرست میں درج کر دیتا ہے۔ (المعارف المحمدیہ ص: ۴۹)

امام رافعی قاضی ابو شجاع شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

ترجمہ: سید احمد رفاعی علیہ الرحمہ  بلند پایہ شخصیت، جبل راسخ، عالم جلیل، محدث، فقیہ، مفسر ، صاحب روایات عالیہ واجازات رفیعہ، عمدہ قاری قرآن ، اچھے حافظ قرآن، حجت کاملہ، دین پر مضبوطی سے کاربند، اپنے ہم عصروں میں کتاب وسنت کے سب سے بڑے عالم و عامل، بحر شریعت ، سیف اللہ اور اپنے جد کریم رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے سچے وارث تھے۔ ( المعارف المحمدیہ ص: ۴۴)

مورخ ابن اثیر جزری رقم طراز ہیں :

سید احمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مرد صالح اور عوام و خواص کے مابین حد درجہ مقبول تھے، آپ کے تلامذہ کی تعداد شمار سے باہر ہے۔

فقیہ صلاح الدین صفدی فرماتے ہیں:

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مام و پیشوا، عابد وزاہد اور اہل اللہ کے شیخ تھے۔

محدث عبدالسمیع ہاشمی واسطی فرماتے ہیں:

سید احمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اللہ رب العزت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور رسول اللہ لی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اصلاح و تزکیہ کا طریق کار کتاب وسنت سے ماخوذ ہے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عمل کے دھنی تھے نہ کہ قول کے۔ اگر تم نے انھیں دیکھ لیا تو گویا تمام اسلاف کو دیکھ لیا۔ اور اللہ کی ذات سے یہ کچھ بعید نہیں کہ ایک شخص واحد میں پوری دنیا کو سمیٹ دے۔ (المعارف المحمدیہ، ص: ۴۹)

شیخ منصور بطائحی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

ترجمہ: میں نے اپنے جملہ اصحاب اور خود سے آپ کا موازنہ کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سب سے بالا تر پایا۔

ابن خلکان فرماتے ہیں:

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مرد صالح اور شافعی المذہب فقیہ تھے۔

ابن عماد خیلی کہتے ہیں:

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شیخ ، زاہد اور امام تھے۔

ابن قاضی شہب فرماتے ہیں:

این قاضی شہبہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر طبقات شافعیہ میں کیا اور شافعی فقہا میں آپ کو شمار کیا۔

امام تاج الدین سبکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

آپ عظیم زاہد اور بلند پایہ اولیاے عارفین اور بڑے درجہ کے سید اور واضح کرامتوں کے حامل ہیں۔

شیخ عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ کا قول ہے:

آپ غوث اکبر مشہور زمانہ قطب اور ان اصحاب طریقت اور ائمہ عارفین میں سے ایک ہیں جن کی امامت اور عقیدت امت کے نزدیک مسلم ہے۔ (لوا  قح الانوار، ج:۱)

حضور غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

ان کا اخلاق سر تا پا شریعت اور قرآن وسنت کے عین مطابق ہے اور ان کا دل اللہ رب العزت کے ساتھ مشغول ہے۔ انھوں نے سب کچھ چھوڑ کر سب کچھ پالیا ( یعنی رضاے الٰہی کی خاطر کا ئنات کو چھوڑا تو رب کو پا لیا اور جب رب مل گیا تو سب کچھ مل گیا ۔(سیرت سلطان الاولیا، ص: ۲۰۰)

ولی کبیر حضرت سید نا ابراہیم ہواز نی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

 میں سید احمد کبیر کی کیا تعریف کر سکتا ہوں۔ ان کے جسم کا ہر بال ایک آنکھ بن چکا ہے جس کے ذریعہ وہ دائیں بائیں مشرق و مغرب ہر سمت میں دیکھتے ہیں ۔ (سیرت سلطان الاولیا ص: ۲۰۰)

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

آپ کا شمار اقطاب اربعہ سے یعنی ان چہارم میں جو اقطاب میں اعلیٰ ۲ممتاز گنے جاتے ہیں۔ اول حضور پرنورسیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوم سید احمد رفاعی ، سوم حضرت سید احمد کبیر بدوی، چہارم حضرت سید ابراہیم دسوقی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ۔ ( فتاوی رضویہ ص ۵۵۰، ج : ۲۱ )

اولادوامجاد: حضرت سلطان العارفین سید الاولیاء سیدنا امام احمد کبیر رفاعی رحمۃاللہ علیہ کے بارہ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تھی جس کے بارے میں صاحب تریاق المحبین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :سلطان العارفین سیدی امام شیخ احمدکبیر رفاعی معشوق اللہ رحمۃاللہ علیہ کثیر الاعیال تھےآپ کے بارہ بیٹے اور دو بیٹیاں تھی جن کے نام اس طرح ہیں

(۱)سید صالح رفاعی

 (۲)سید ابراہیم رفاعی

 (۳)سید محمدمعدن اسراراللہ رفاعی

 (۴)سید علی سکران رفاعی

 (۵)سید عبداللہ رفاعی

 (۶)سید موسیٰ رفاعی

 (۷)سید محمود رفاعی

 (۸)سید اسماعیل رفاعی

 (۹)سید عبد الفتح رفاعی

(۱۰)سید عبد المحسن رفاعی

 (۱۱)سید یوسف رفاعی

 (۱۲)سید اسحاق رفاعی علیہم الرحمن

آپ کے ملفوظات: آپ علیہ الرحمہ اپنے مریدین و محبین کی حسن تربیت کے لئے وقتاً فوقتا ًشریعت و طریقت کے بہترین رہنما اصول بھی بیان کرتے رہے ۔آئیے !ان کےچند ملفوظات ملاحظہ کیجئے :

·      جو اپنے اوپر غیر ضروری باتوں کو لازم کرتاہے وہ ضروری باتوں کو بھی ضائع کردیتا ہے ۔

·      مخلوق کو اپنے ترازو میں مت تولو بلکہ اپنے آپ کو مومنین کے ترازو میں تولو تاکہ تم ان کی فضیلت اور اپنی مُحتاجی جان سکو ۔

·      جوشخص یہ خیال کرے کہ اس کے اعمال اسے رب قدیر تک پہنچادیں گےتو اس نے اپنا راستہ کھو دیا ۔(اپنے اعمال کے بجائے رحمت لہٰی پر نظر کرے ۔)

·      اللہ تعالیٰ سے وہی اُنسیت رکھ سکتاہے جو کامل درجہ کی طہارت رکھتاہو ۔

·      اللہ تعالیٰ غوث و قطب کو غیبوں پر مطلع فرمادیتاہے پس جو بھی درخت اُ گتا ہےاورپتا سر سبز ہوتاہے تو وہ سب جان لیتے ہیں ۔

·      جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں حکمت داخل فرماتاہےاورہر مشکل گھڑی میں اسے کافی ہوجاتاہے۔

·      کتنےہی خوش ہونےوالےایسے ہیں کہ ان کی خوشی ان کے لئے مصیبت بن جاتی ہےاور کتنے ہی غمگین ایسے ہیں کہ ان کا غم ان کے لئے باعثِ نجات بن جاتاہے ۔  

·      افسوس ہے ایسے شخص پر جو دنیا مل جانے پر اس میں مشغول ہوجاتاہے اور چھن جانے پرحسرت کرتاہے ۔

·      اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اولیاءُاللہ کے علاوہ تمام مخلوق سے وحشت ہو کیونکہ اولیا سے محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ہے ۔

·      ہمارا طریقہ تین چیزوں پر مشتمل ہے : نہ تو کسی سے مانگو ،نہ کسی سائل کو منع کرو اور نہ ہی کچھ جمع کرو ۔

·      مرید کےلئے سب سےزیادہ نقصان دہ بات یہ ہےکہ وہ اپنے نفس کےلئے رخصت اورتاویلات قبول کرنےمیں چشم پوشی سے کام لے۔ ( طبقات الصوفیۃ للمناوی ، ۲/ ۲۲۱ تا ۲۲۷)

سیرت وکردار: سیرت و کردارمیں آپ اپنے جدامجد حضورسرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کامل نمونہ تھے۔ سنت وشریعت کی اسی پیروی نے آپ کو اپنے زمانے ہی میں شہرت وعظمت کی اعلیٰ بلندیوں پر فائز کر دیا تھا۔ مؤرخین نے آپ کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اور اَرباب فکروقلم نے آپ کے فضائل ومناقب میں قلم توڑ توڑ دئے ہیں۔آپ رمزتصوف اور رازِ طریقت آشکار کرتے ہوئے کبھی کبھار فرمایا کرتے تھے:’’ میں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچنے کا اِس سے زیادہ سہل اور قریب ترین کوئی راستہ نہیں دیکھا کہ رضاے الٰہی کی خاطر تواضع وانکسار اِختیار کی جائے، خلق خدا کے ساتھ لطف ونرمی سے پیش آیاجائے، اورسرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کی پیروی میں زندگی کا سفرطے کیا جائے۔ خدمت خلق کا عنصر آپ کی حیاتِ طیبہ میں بہت غالب نظر آتا ہے۔ اگر کسی شخص کو بیمار سن لیتے تو وہ خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ سکونت پذیر ہو، اس کی عیادت کے لیے ضرور جاتے تھے۔ اور بعدِ مسافت کے باعث ایک دو دن کے بعد اُدھر سے لوٹتے تھے۔ نیز ع الم یہ تھا کہ راستے میں جا کر اندھوں کی آمد کا اِنتظار کرتے کہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں منزل تک پہنچائیں۔ اور جب بھی کوئی بزرگ دیکھتے، انھیں علاقے تک پہنچا آتے، اور اہل علاقہ کو نصیحت فرماتے کہ لوگو! میرے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے :جس نے کسی بوڑھے مسلمان کی خدمت وتکریم کی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے اپنے بڑھاپے میں کسی کو اُس کا سہارا اور خدمتی بنا دے گا۔ ایک مرتبہ اپنے سلسلے کا نشان امتیاز بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہمارا طریقہ مبنی بر اِخلاص، اور بالکل صاف و شفاف ہے، لہٰذا یاد رہے کہ جس کے عمل سے ریاونمود اورفسق وفجورکی بوآنے لگے، پھر اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے، اوراس کا قدم ہمارے دائرہ طریق سے باہر نکل چکا ہے۔

  شیخ اجل کے لئے رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ نمودار ہوا: جب 555 ہجری میں زیارت بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئےتو سرکار رسالت ﷺ کے روضہ مقدس کی حاضری کے لئے حاضر ہوے۔ گبند خضریٰ کے قریب پنہچ کرآپ نے باآواز بلند کہا،"السلام علیک یا جدی" (ﷺ)فوراً روضۂ اطہر ﷺ سے آواز آئی،"وعلیک السلام یا ولدی"اس ندا مبارک کو سن کر آپ پر وجد طاری ہوگيا۔ آپ کے علاوہ جتنے آدمی وہاں موجود تھے، سب نے آواز کو سنا۔ تھوڑی دیر کے بعد بحالت گریہ آپ نے یہ دو شعر پڑھےترجمہ:جدائی کی حالت میں تواپنی روح کوروضۂ مطہر ﷺ پر بھیجا تھا تاکہ میری طرف سے آپ کی آستانہ بوسی کا شرف حاصل کرلےاور جبکہ یہ دولت دیدار مجھے اصالتہً حاصل ہےتو آپ اپنا مبارک ہاتھ دیجئے کہ میں اسے بوسہ دیکرعزت حاصل کرلوں۔اسی وقت قبر مبارک ﷺ سے دست مبارک نکلا اور آپ نے اسی بوسہ دیا۔ اس وقت روضۂ مقدس ﷺ پر تقریباً (90) ہزار عاشقان جمال محمدی ﷺ و مشتاقان روضۂ نبوی ﷺ کا مجمع تھا، جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا اور سرور کائنات کے دست مبارک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ زیارت سے مشرف ہونے والوں میں حضرت محبوب سبحانی، قطب ربانی، شیخ عبدالقادر جیلانی نور اللہ مرقدہٗ اور حضرت شیخ عدی اور حضرت شیخ عبدالرزاق حسینی جیسے جلیل القدر بزرگ بھی تھے۔ ( جامع کراماتِ اولیاء،جِلد ١،صفحہ ۴٩۴/فتاویٰ رضویہ ۔ ج:۲۲، ص:۳۷۵، رضا فاؤنڈیشن لاہور/ نسیم الریاض شرح الشفاء فصل ومن اعظامہ واکبارہ صلی اللہ علیہ وسلم دارالفکر بیروت ۳: ۴۴۲)

 وصال مباک: وصال سے پہلے آپ علیہ الرحمہ مرضِ اسہال (پىٹ کى بىمارى )میں مبتلا ہوئے،اىک ماہ تک اسی تکلىف میں مبتلا رہے اوربىس دن تک نہ کچھ کھاىانہ پىا ۔ نیز زندگی کے آخری لمحات میں آپ علیہ الرحمہ پر نہایت رقت طاری تھی اپنا چہرہ اور داڑھی مبارک مٹى پر رگڑتے اور رو تے رہتے ،لبوں پریہ دُعائیں جاری تھیں ”یااللہ عَفْوودرگزر فرما، یااللہ مجھے مُعاف فرمادے،ىا اللہ تعالیٰ مجھے اس مخلوق پر آنے والى مصىبتوں کے لىے چھت بنادے۔(طبقات کبریٰ للشعرانی ، ص۲۰۲)

بالآخر۶۶ سال اس دارِ فانی میں رہ کر مخلوقِ خدا کی رُشد وہدایت کا کا م سرانجام دینے کے بعدبروزجمعرات ۲۲جمادی الاولی ۵۷۸ھ بمطابق 13ستمبر 1182ء بوقتِ ظہر آپ علیہ الرحمہ نے اس عالمِ فنا سے عالمِ بقا کا سفر اختیار کیا،آپ علیہ الرحمہ کی زبانِ مبارک سے ادا ہونے والے آخریکلمات یہ تھے : اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد عبدہ و رسولہ  تھوڑی ہی دیر میں بستی اُم عبیدہ کے گرد و نَواح میں آپ کے وصالِ پُر ملال کی خبر مشہور ہوگئی ،بس پھر کیا تھا! آپ کے آخری دیدار اور نمازِ جنازہ میں شرکت کے لئے لوگ دور دور سے جمع ہونے لگے یہاں تک کہ نمازِ جنازہ کے وقت کئی لاکھ کا مجمع موجود تھا،بعدنمازِ جنازہ خانقاہ اُم عبیدہ ہی میںآپ علیہ الرحمہ کی تدفین کی گئی۔ آج آپ علیہ الرحمہ کے وصال مبارک کو صدیاں ہوچکیں مگر اس کے باوجود جنوبی عراق میں آپ کا مزارمبارک بے شمار عقیدت مندوں کی اُمیدوں کا مرکز بنا ہواہے۔ (طبقاتِ کبریٰ للشعرانی ، ص۲۰۲ )

حضرت شیخ عمرفاروثی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : مجھے کئی مرتبہ امام رفاعی علیہ الرحمہ کے مزارِ اقدس پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی،ایک مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ آپ علیہ الرحمہ نےقبر مبارک سے بآوازبلند میری ایک حاجت کے بارے میں فرمایا : جا!تیری حاجت پوری کردی گئی۔( سیرت سلطان الاولیاء ، وکیپیڈیا۔ البنیان المشید ترجمہ۔البرہان الموید، مناقب الاقطاب الاربعہ الشیخ یونس بن ابراہیم السامرائی)