بچّہ کی پیدائش
اورمروّ جہ رسمیں
(۱) لڑکا پیدا ہونے پر عام
طور زِیادہ خوشی کی جاتی ہے اور اگر لڑکی پیدا ہو تو بعض لوگ بجائے خوشی کے رنج
وغم محسوس کرتے ہیں۔
(۲) پہلے بچّہ پر زِیادہ
خوشی کی جاتی ہے پھر اور بچّوں پر خوشی منائی تو جاتی ہے مگر کم۔
(۳) لڑکا پیدا ہوتو پیدائش
کے چھ روز تک عورتیں مل کر ڈھول بجاتی ہیں۔
(۴) پیدائش کے دن لڈّو یا
کوئی مٹھائی اہلِ قرابت میں تقسیم ہوتی ہے۔
(۵) اس دن میراثی ڈوم،
دوسرے، گانے بجانے والے گھر گھیر لیتے ہیں اور بیہودہ گانے گاکر انعام کے خواستگار
ہوتے ہیں۔ منہ مانگی چیز لے کر جاتے ہیں۔
(۶) بہن،بہنوئی وغیرہ
کوجوڑے روپیہ وغیرہ بہت سی رسموں کے ماتحت دیئے جاتے ہیں۔لٹ دھلائی، گوند بنوائی
وغیرہ۔
(۷) دلہن کے ماں باپ
بھائی کی طرف سے چھوچھک آنا ضروری ہوتا ہے جس
میں (یہ ہے )کہ دولہادلہن،
ساس سسر، نند نندوائی، حتٰی کہ گھر کے بہشتی بھنگی کیلئے بھی کپڑوں کے جوڑے نقدی
اور اگر لڑکی پیدا ہوئی ہے تو بچّی کیلئے چھوٹا چھوٹا زیور ہونا ضَروری ہے غرضیکہ
میکہ و سسرال کا دیوالیہ ہوجاتا ہے۔
(۸) مالن اور بھٹیاری (یعنی روٹی پکانے والی)گھر
کے دروازے پر پتّوں کا سہرا یا کاغذ کے پھول باندھتی ہیں جس کے معاوضہ میں ایک
جوڑا اور روپیہ کم از کم وصول کرتی ہیں۔
لڑکی پیدا ہونے سے رنج کرنا کفّار کا طریقہ
ہے۔ جس کے متعلق قراٰنِ کریم فرماتا ہے :
بلکہ حق یہ ہے کہ جس عورت کے پہلے لڑکی
پیداہو وہ رب تعالیٰ کے فضل سے خوش نصیب ہے کیوں کہ حضور سیِّدِ عالم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دولت خانہ میں اوّل دختر ہی پیدا ہوئی تو گویا رب
تعالیٰ نے سنّتِ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم عطا فرمادی۔
جو
ان لڑکیوں کا گانا بجانا حرام ہے کیوں کہ عورت کی آواز کا بھی نامحرموں سے پردہ
ہونا ضروری ہے۔ اگر عورت نَماز پڑھ رہی ہو اور کوئی آگے سے گزرنا چاہے تو یہ عورت
سبحان اللہ عزوجل !کہہ کر اس کی اطِّلاع نہ دے بلکہ تالی سے خبر دے جب آواز کی اس
قدر پردہ داری ہے تو یہ مروّجہ گانے اور باجے کا کیا پوچھنا۔
فرزند
کی پیدائش کی خوشی میں نوافل پڑھنا اور صدقہ خیرات کرنا کارِ ثواب ہے مگر برادری
کے ڈر، ناک کٹنے کے خوف سے مٹھا ئی تقسیم کرنا بالکل بے فائدہ ہے اور اگر سُودی
قرضہ لے کر یہ کام کئے تو آخرت کا گناہ بھی ہے۔ اس لئے اس رسم کو بند کرنا چاہے۔
ڈوم
میراثی لوگو ں کو دینا ہر گز جائز نہیں کیوں کہ ان کی ہمدردی کرنا دراصل ان کو
گناہ پر دلیر کرنا ہے۔ اگر ان موقعوں پر ان کو کچھ نہ ملے تو یہ تما م لوگ ان حرام
پیشوں کو چھوڑ کر حلال کمائی حاصِل کریں گے مجھے تعجّب ہوتا ہے کہ یہ قومیں یعنی
زنانے خنثٰی(یعنی ہیجڑے)ڈوم میراثی، رنڈیاں صرف مسلمان قوم ہی میں ہیں۔ عیسائی،
یہودی، ہندو،سکھ اور پارسی قوموں میں یہ لوگ نہیں۔اس کی کیا وجہ ہے ؟ وجہ صر ف یہ
ہے کہ مسلمانوں میں خرافات رسمیں زِیاد ہ ہیں،اور ان لوگوں کی انہی رسموں کی وجہ
سے پرورش ہوتی ہے اور دیگر قوموں میں نہ یہ رسمیں ہیں نہ اس قسم کے لوگ اور یقینا
ایسی پیشہ ور قومیں مسلم قو م کی پیشانی پر بدنُما داغ ہیں، خدا کرے یہ لوگ حلال
روزی کماکر گزارہ کریں۔
بہن،
بہنوئی یا دیگر اہلِ قرابت کی خدمت کرنا بے شک کارِ ثواب ہے مگر جب کہ اللہ و رسول
عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوش کرنے کیلئے کی جائے اگر دنیا کے
نام و نمود اوردکھلاوے کیلئے یہ خدمتیں ہوں تو بالکل بے کار ہے۔ دکھلاوے کی نماز
بھی بے فائدہ ہوتی ہے اور اس موقع پر کسی کی نیّت رضائے الٰہی عزوجل نہیں ہوتی،
محض رسم کی پابندی اور دکھلاوے کیلئے سب کچھ ہوتا ہے ورنہ کیا ضَرورت ہے کہ چھوچھک
کے آگے باجا بھی ہودنیا کو بھی جمع کیا جائے، پھر مالدار آدمی اس خرچ کو برداشت
کرلیتا فرزند کی پیدائش کی خوشی میں نوافل پڑھنا اور صدقہ خیرات کرنا کارِ ثواب ہے
مگر برادری کے ڈر، ناک کٹنے کے خوف سے مٹھا ئی تقسیم کرنا بالکل بے فائدہ ہے اور
اگر سُودی قرضہ لے کر یہ کام کئے تو آخرت کا گناہ بھی ہے۔ اس لئے اس رسم کو بند
کرنا چاہے۔
ڈوم
میراثی لوگو ں کو دینا ہر گز جائز نہیں کیوں کہ ان کی ہمدردی کرنا دراصل ان کو
گناہ پر دلیر کرنا ہے۔ اگر ان موقعوں پر ان کو کچھ نہ ملے تو یہ تما م لوگ ان حرام
پیشوں کو چھوڑ کر حلال کمائی حاصِل کریں گے مجھے تعجّب ہوتا ہے کہ یہ قومیں یعنی
زنانے خنثٰی(یعنی ہیجڑے)ڈوم میراثی، رنڈیاں صرف مسلمان قوم ہی میں ہیں۔ عیسائی،
یہودی، ہندو،سکھ اور پارسی قوموں میں یہ لوگ نہیں۔اس کی کیا وجہ ہے ؟ وجہ صر ف یہ
ہے کہ مسلمانوں میں خرافات رسمیں زِیاد ہ ہیں،اور ان لوگوں کی انہی رسموں کی وجہ
سے پرورش ہوتی ہے اور دیگر قوموں میں نہ یہ رسمیں ہیں نہ اس قسم کے لوگ اور یقینا
ایسی پیشہ ور قومیں مسلم قو م کی پیشانی پر بدنُما داغ ہیں، خدا کرے یہ لوگ حلال
روزی کماکر گزارہ کریں۔
بہن،
بہنوئی یا دیگر اہلِ قرابت کی خدمت کرنا بے شک کارِ ثواب ہے مگر جب کہ اللہ و رسول
عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوش کرنے کیلئے کی جائے اگر دنیا کے
نام و نمود اوردکھلاوے کیلئے یہ خدمتیں ہوں تو بالکل بے کار ہے۔ دکھلاوے کی نماز
بھی بے فائدہ ہوتی ہے اور اس موقع پر کسی کی نیّت رضائے الٰہی عزوجل نہیں ہوتی،
محض رسم کی پابندی اور دکھلاوے کیلئے سب کچھ ہوتا ہے ورنہ کیا ضَرورت ہے کہ چھوچھک
کے آگے باجا بھی ہودنیا کو بھی جمع کیا جائے، پھر مالدار آدمی اس خرچ کو برداشت
کرلیتاصحابہ کرام علیہم الرضوان سرکارِ عالی وقار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے اپنے بچّوں کو تھنیک کرایا کرتے تھے۔ دائی کی اُجرت مقرر ہونی چاہے جو
اس کام کے بعد دی جائے اگر فرزند کی خوشی میں میلاد شریف یا فاتحہ بزرگانِ دین
کردی جائے تو بہت اچھّا ہے اس کے سوا تمام رسومات بند کردی جائیں۔چھوچھک و بھات کو
مٹانا سخت ضَروری ہے۔