حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری علیہ الرحمہ

 


اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ سلسلۂ چشت ہے اس سلسلہ کی نامور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارا مل چکا تھا کہ وہ سرزمینِ ہند کو اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں۔ 

چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ ان حضرات کے طریقۂ تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کرلی اور اسے اس شہر چشت کی نسبت سے ’’چشتیہ‘‘ کہا جانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے۔ 

سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی علیہ الرحمہ ہیں۔ سب سے پہلے لفظ ’’چشتی‘‘ ان ہی کے نام کا جز بنا، لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری علیہ الرحمہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوت ِ حق کا جو کام انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ ’’چشتی‘‘ دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ملتا ہے۔

 نام و نسب:

سر زمینِ ہند میں سلسلۂ چشتیہ کے بانی اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سر خیل اور سالار حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری علیہ الرحمہ کا نام ’’معین الدین‘‘ ہے، والدین محبت سے آپ کو’’ حسن ‘‘کہہ کر پکارتے تھے، آپ حسنی اور حسینی سید تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب بارہویں پُشت میں حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ 

پدری سلسلۂ نسب:

خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن کمال الدین بن احمد حسین بن نجم الدین طاہر بن عبدالعزیز بن ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن محمد باقر بن امام علی زین العابدین بن سیدناامام حسین بن علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و رحمہم اللہ تعالیٰ۔ 

مادری سلسلۂ نسب: بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید داود بن سید عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید داود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سید عبداللہ بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و ررحمہم اللہ تعالیٰ۔ 

ولادت اور مقامِ ولات:

 حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ِ باسعات ۵۳۷ ہجری بہ مطابق ۱۱۴۲ عیسوی کو سجستان جسے ’’سیستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، کے قصبۂ سنجر میں ہوئی۔ اسی لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کوحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت پوری دنیا کے لیے باعثِ رحمت اور سعادت بنی۔ آپ نے اس دنیا میں عرفانِ خداوندی، خشیتِ ربانی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا کیا اور کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ کو اسلام و ایمان کی روشنی سے جگمگا دیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ بیان کرتی ہیں :"جب معین الدین میرے شکم (پیٹ) میں تھے تو میں اچھے خواب دیکھا کرتی تھی گھر میں خیر و برکت تھی ، دشمن دوست بن گئے تھے۔ ولادت کے وقت سارا مکان انوارِالٰہی سے روشن تھا۔ ‘‘ ( مرأۃ الاسرار)


تعلیم وتربیت :

آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت خراسان میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم والدِ گرامی کے زیرِ سایا ہوئی جو بہت بڑے عالم تھے۔ نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہوکر تفسیر و حدیث اور فقہ (اسلامی قانون) کی تعلیم حاصل کی، خداداد ذہانت و ذکاوت، بلا کی قوتِ یادداشت اور غیر معمولی فہم وفراست کی وجہ انتہائی کم مدت میں بہت زیادہ علم حاصل کرلیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ گیارہ برس کی عمر تک نہایت ناز و نعم اور لاڈ پیار میں پروان چرھتے رہے۔ جب حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد حضرت غیاث الدین حسن صاحب علیہ الرحمہ کا سایۂ شفقت و محبت سر سے اُٹھ گیا لیکن باہمت والدۂ ماجدہ بی بی ماہ نور نے آپ کو باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ والدِ گرامی کے اس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ترکہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی ملی۔ جوانی کے عالم میں اسی ترکہ کو اپنے لیے ذریعۂ معاش بنایا خود ہی باغ کی دیکھ بھال کرتے اور اس کے درختوں کو پانی دیتے اور باغ کی صفائی ستھرائی کا بھی خود ہی خیال رکھتے۔ اسی طرح پن چکی کا سارا نظام بھی خود سنبھالتے ، جس سے زندگی بڑی آسودہ اور خوش حال بسر ہورہی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کی تعلیم و تربیت اور کائنات کے گلشن کی اصلاح و تذکیر کے لیے منتخب فرمالیا تھا۔ لہٰذا آپ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے آپ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور طریقت و سلوک کے مراتب طَے کرتے ہوئے وہ مقامِ بلند حاصل کیا کہ آج بھی آپ کی روحانیت کو ایک جہان تسلیم کررہا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا وہ واقعہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے جس نے آپ کی دنیا بدل دی مجذوبِ وقت ابراہیم قندوزی کی آمد اور حضرت خواجہ کا ترکِ دنیا کرنا

ایک دن ترکے میں ملے ہوئے باغ میں آپ درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ اس بستی کے ایک مجذوب ابراہیم قندوزی اشارۂ غیبی پر باغ میں تشریف لائے۔ جب حضرت خواجہ کی نظر اِس صاحبِ باطن مجذوب پر پڑی تو ادب و احترام کے ساتھ ان کے قریب گئے اور ایک سایا دار درخت کے نیچے آپ کو بٹھا دیا اور تازہ انگور کا ایک خوشہ سامنے لاکر رکھ دیا ، خود دوزانو ہوکر بیٹھ گئے۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے انگور کھائے اور خوش ہوکر بغل سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اپنے منہ میں ڈالا دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ غریب نواز کے منہ میں ڈال دیا اس طرح حق و صداقت اور عرفانِ خداوندی کے طالبِ حقیقی کو ان لذّتوں سے فیض یاب کردیا۔ روٹی کا حلق میں اترنا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی۔ روح کی گہرائیوں میں انورِ الٰہی کی روشنی پھوٹ پڑی ، جتنے بھی شکوک و شبہات تھے سب کے سب اک آن میں ختم ہوگئے ،دنیا سے نفرت اور بے زاری پیدا ہوگئی اور آپ نے دنیاوی محبت کے سارے امور سے کنارہ کشی اختیار کرلی، باغ، پن چکی اور دوسرے ساز و سامان کو بیچ ڈالا، ساری قیمت فقیروں اور مسکینوں میں بانٹ دی اور طالبِ حق بن کر وطن کو چھوڑ دیااور سیر و سیاحت شروع کردی۔ 

 علمِ شریعت کا حصول:

 زمانۂ قدیم سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ علمِ طریقت کی تحصیل کے خواہش مند پہلے علمِ شریعت کو حاصل کرکے اس میں کمال پیداکرتے ہوئے عمل کی دشوار گزار وادی میں دیوانہ وار اور مستانہ وار چلتے رہتے ہیں اور بعد میں علمِ طریقت کا حصول کرتے ہیں۔ چناں چہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طریقۂ کار کو اپنایا اور وطن سے نکل کر سمرقند و بخارا کا رخ کیا جو کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں علم و فن کے مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے جہاں بڑی بڑی علمی ودینی درس گاہیں تھیں جن میں اپنے زمانے کے ممتاز اور جید اساتذۂ کرام درس و تدریس کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ ان درس گاہوں میں دنیا بھر سے علمِ دین کی طلب رکھنے والے افراد کھنچ کھنچ کر آتے اور اپنی تشنگی کو بجھاتے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں آکر پورے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ طلبِ علم میں مصروف ہوگئے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور دیگر ضروری علوم کا درس لیا اور کامل مہارت حاصل کرلی ، آپ کے اساتذہ میں نمایاں طور پر مولانا حسام الدین بخاری اور مولانا شرف الدین صاحب شرع الاسلام کے نام لیے جاتے ہیں۔ 

 پیرِ کامل کی تلاش:

 سمر قند اور بخارا کی ممتاز درس گاہوں میں جید اساتذۂ کرام کے زیرِسایہ رہ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے علومِ شریعت کی تکمیل کرنے کے بعد روحانی علوم کی تحصیل کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں علمِ طریقت کے مراکز کے طور پر پوری دنیائے اسلام میں عراق و حجازِ مقدس مشہور و معروف تھے، جہاں صالحین اور صوفیائےکاملین کی ایک کثیر تعداد بادۂ وحدت اور روحانیت و معرفت کے پیاسوں کی سیرابی کا کام کررہی تھی۔ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کائناتِ ارضی میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مختلف اشیاء کا مشاہدہ و تفکراور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اولیاء و علماء اور صلحا و صوفیا کی زیارت کرتے ہوئے بغداد، مکہ اورمدینہ کی سیر و سیاحت اور زیارت کی سعادتیں حاصل کیں۔ پھر پیرِ کامل کی تلاش و جستجو میں مشرق کی سمت کا رُخ کیا اورعلاقۂ نیشاپور کے قصبۂ ہارون پہنچے جہاں ہادیِ طریقت حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں روحانی وعرفانی مجلسیں آراستہ ہوتی تھیں۔ خانقاہِ عثمانی میں پہنچ کر حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو منزلِ مقصود حاصل ہوگئی اور آپ مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے اور ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی۔ 

حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیعت کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے:’’ایسی صحبت میں جس میں بڑے بڑے معظم و محترم مشائخِ کبار جمع تھے میں ادب سے حاضر ہو ا اور روئے نیاز زمین پر رکھ دیا ، حضرت مرشد نے فرمایا: دورکعت نماز ادا کر ، میں نے فوراً تکمیل کی۔ رو بہ قبلہ بیٹھ ، میں ادب سے قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہوا سورۂ بقرہ پڑھ ، میں نے خلوص و عقیدت سے پوری سورت پڑھی ، تب فرمایا : ساٹھ بار کلمۂ سبحان اللہ کہو، میں نے اس کی بھی تعمیل کی ، ان مدارج کے بعد حضرت مرشد قبلہ خود کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا ان جملہ امور کے بعد حضرت مرشد قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی جو کلاہِ چارتَرکی کہلاتی ہے میرے سر پر رکھی ، اپنی خاص کملی مجھے اوڑھائی اور فرمایا بیٹھ میں فوراً بیٹھ گیا ، اب ارشاد ہوا ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ میں اس کو بھی ختم کرچکا تو فرمایا ہمارے مشائخ کے طبقات میں بس یہی ایک شب و روز کا مجاہدہ ہے لہٰذا جا اور کامل ایک شب و روز کا مجاہدہ کر، اس حکم کے بہ موجب میں نے پورا دن اور رات عبادتِ الٰہی اور نماز و طاعت میں بسر کی دوسرے دن حاضر ہوکے ، روے نیاز زمین پر رکھا تو ارشاد ہوا بیٹھ جا، میں بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہو ا اوپر دیکھ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے ، عرض کیا عرشِ معلّی تک ، تب ارشاد ہوا نیچے دیکھ میں نے آنکھیں زمین کی طرف پھیری تو پھر وہی سوال کیا کہاں تک دیکھتا ہے عرض کیا تحت الثریٰ تک حکم ہوا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ اور جب اس حکم کی بھی تعمیل ہو چکی تو ارشاد ہوا کہ آسمان کی طرف دیکھ اور بتا کہاں تک دیکھتا ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا حجابِ عظمت تک ، اب فرمایا آنکھیں بند کر ، میں نے بند کرلی ، ارشاد فرمایا ا ب کھول دے میں نے کھول دی تب حضرت نے اپنی دونوں انگلیاں میری نظر کے سامنے کی اور پوچھا کیا دیکھتا ہے ؟ عرض کیا اٹھارہ ہزار عالم دیکھ رہا ہوں ، جب میری زبان سے یہ کلمہ سنا تو ارشاد فرمایا بس تیرا کام پورا ہوگیا پھر ایک اینٹ کی طرف دیکھ کر فرمایا اسے اٹھا میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے سے کچھ دینار نکلے ، فرمایا انھیں لے جاکے درویشوں میں خیرات کر۔ چناں چہ میں نے ایسا ہی کیا۔ ‘‘ (انیس الارواح ، ملفوظاتِ خواجہ ، صفحہ ۱/ ۲)

حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی خلافت و جانشینی:

 جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو آپ کے پیر ومرشد نے ولایت اور روحانیت کے تمام علوم و فنون سے آراستہ کرکے مرتبۂ قطبیت پر فائز کر دیا تو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حج کے بعد حضرت خواجہ کو قبولیت کی سند مل گئی۔ اس واقعہ کے بعد پیرو مرشد نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہوگیا ، چناں چہ اس کے بعد بغداد میں ۵۸۲ھ / ۱۱۸۶ء کو حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا نائب اور جانشین بنا دیا۔ اس ضمن میں خود حضرت مرشدِ کامل نے یوں اظہارِ خیال فرمایا ہے :"معین الدین محبوبِ خدا ہے اور مجھے اس کی خلافت پر ناز ہے۔ ‘‘

حضرت خواجہ کی سیر و سیاحت اور ہندوستان کی بشارت:

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو پیر ومرشد نے اپنی خلافت و اجازت سے نواز کر رخصت کیا۔ آپ نے مرشدِ کامل سے فیض حاصل کر کے اللہ جل شانہ کی کائنات کا مشاہدہ اور اہل اللہ کی زیارت اور ملاقات کی غرض سے سیر وسیاحت کا آغاز کیا۔ سفر کے دوران آپ نے اپنے پیرومرشد کی ہدایت پر مکمل طور پر عمل کیا۔ چوں کہ حضرت خواجہ نے اپنی یہ سیاحت علومِ باطنی وظاہری کی مزید تحصیل کی غرض سے اختیار کی اس لیے وہ وہیں جاتے جہاں علما و صلحا اور صوفیہ و مشائخ رہتے۔ سنجان میں آپ نے حضرت شیخ نجم الدین کبری رحمۃ اللہ علیہ اور جیلان میں بڑے پیرحضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد میں حضرت شیخ ضیاء الدین کی زیارت کی اور ان سے معرفت و ولایت کے علوم و فنون حاصل کیے۔ 

بغداد کے بعد حضرت خواجہ اصفہان پہنچے تو یہاں حضرت شیخ محمود اصفہانی سے ملاقات فرمائی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ان دنوں اصفہان میں موجود تھے۔ جب آپ نے حضرت خواجہ کے چہرۂ زیبا کی زیارت کی تو بہت متاثر ہوئے دل کی دنیا بدل گئی اور آپ پر نثار ہوکر مریدوں میں شامل ہوگئے اور حضرت خواجہ کی اتنی خدمت کی کہ بعد میں وہی آپ کے جانشین ہوئے۔ اصفہان سے حضرت خواجہ ۵۸۳ھ / ۱۱۸۷ء میں مکۂ مکرمہ پہنچے اور زیارت و طوافِ خانۂ کعبہ سے سرفراز ہوئے۔ ایک روز حرم شریف کے اندر ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے کہ غیب سے آپ نے ایک آواز سنی کہ:"اے معین الدین ! ہم تجھ سے خوش ہیں تجھے بخش دیا جو کچھ چاہے مانگ ، تاکہ عطا کروں۔حضرت خواجہ صاحب نے جب یہ ندا سنی تو بے حد خوش ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر بجالایااور عاجزی سے عرض کیا کہ ، خداوندا! معین الدین کے مریدوں کو بخش دے۔ آواز آئی کہ اے معین الدین تو ہماری مِلک ہے جو تیرے مرید اور تیرے سلسلہ میں مرید ہوں گے انھیں بخش دوں گا۔ ‘‘

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید کچھ دن مکہ میں قیام کیا اور حج کے بعد مدینۂ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مدینۂ منورہ میں حضرت خواجہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزارِ پاک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ یہاں آپ اپنے روز و شب عبادت و ریاضت ، ذکرِ الٰہی اور درود وسلام میں بسر کرتے ، ایک دن بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو ہندوستان کی ولایت و قطبیت کی بشارت اس طرح حاصل ہوئی کہ :"اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر کی ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے کفر کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام کا نور ہر سو پھیلے گا۔ ‘‘ ( سیر الاقطاب ص ۱۲۴)

جب حضرت خواجہ نے یہ ایمان افروز بشارت سنی تو آپ پر وجد و سرور طاری ہوگیا۔ آپ کی خوشی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جب مقبولیت اور ہندوستان کی خوش خبری حاصل کرلی تو تھوڑا حیرا ن ہوئے کہ اجمیر کہاں ہے؟ یہی سوچتے ہوئے آپ کو نیند آگئی ، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہوئے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواب کی حالت میں ایک ہی نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا، دنیا کے تمام شہر اور قصبے آپ کی نظروں میں تھے یہاں تک کہ آپ نے اجمیر ، اجمیر کا قلعہ اور پہاڑیاں بھی دیکھ لیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خواجہ کو ایک انار عطا کرکے ارشاد فرمایا کہ ہم تجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں۔ ( مونس الارواح ص ۳۰) نیند سے بیدار ہونے کے بعد آپ نے چالیس اولیا کے ہمراہ ہندوستان (اجمیر ) کا قصد کیا۔

 حضر ت خواجہ کی اجمیر میں آمد:

 حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کس سن میں اجمیر تشریف لائے اس سلسلے میں آپ کے تذکرہ نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ویسے زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۵۸۷ھ / ۱۱۹۱ء کو اجمیر شہر پہنچے۔ جہاں پہلے ہی دن سے آپ نے اپنی مؤثر تبلیغ ،حُسنِ اَخلاق، اعلی سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اہلِ اجمیر نے جب اس بوریہ نشین فقیر کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اجمیر جو کبھی کفر و شرک اور بت پرستی کا مرکز تھا ، اسلام و ایمان کا گہوارہ بن گیا۔ 

تلامذہ اور خلفاء کرام:

خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ نے اپنے طویل سیر و سیاحت اور دہلی و اجمیر کے طویل قیام کے زمانے میں سیکڑوں خلفاء کو تعلیم و تربیت دیکر بندگان خدا کی ارشاد و ہدایت پر معمور فرمایا جو ہندوستان کے مختلف مقامات پر اپنا فرض بڑی مستعدی اور سرگرمی سے بجا لاتے رہے۔ آپ کے فرمان کے مطابق قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی آپ کے خلیفہ اکبر تھے۔ اور پینسٹھ خلفاء اصغر اور پچپن خلفاء مجاز ہیں۔ آپ کے مشہور خلفاء کرام کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

۱۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ (دہلی)

۲۔ حضرت خواجہ فخر الدین فرزندِ ارجمند حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمہ (سرور شریف)

۳۔ حضرت خواجہ برہان الدین عرف بدرعلیہ الرحمہ (بدر شریف)

۴۔ حضرت شیخ وجیہہ الدین علیہ الرحمہ (ہرات)

۵۔ حضرت خواجہ برہان الدین عرب بدر علیہ الرحمہ (اجمیر شریف)

۶۔ حضرت شیخ احمد علیہ الرحمہ (اجمیر شریف)

۷۔ حضرت شیخ محسن علیہ الرحمہ

۸۔ حضرت خواجہ سلیمان غازی علیہ الرحمہ

۹۔ حضرت شیخ شمس الدین علیہ الرحمہ

۱۰۔ حضرت خواجہ حسن خیاط علیہ الرحمہ

۱۱۔ حضرت عبداللہ (جن کا نام جے پال تھا) علیہ الرحمہ (اجمیر شریف)

۱۲۔ حضرت شیخ صدر الدین کرمانی علیہ الرحمہ

۱۳۔ حضرت بی بی حافظہ جمال صبیہ سعیدہ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ (اجمیر شریف)

۱۴۔ حضرت شیخ محمد ترک نارنونی علیہ الرحمہ (دہلی)

۱۵۔ حضرت شیخ علی سنجری علیہ الرحمہ

۱۶۔ حضرت خواجہ یادگار علی سبزداری علیہ الرحمہ

۱۷۔ حضرت خواجہ عبداللہ بیابانی علیہ الرحمہ

۱۸۔ حضرت شیخ متا علیہ الرحمہ

۱۹۔ حضرت شیخ وحید علیہ الرحمہ

۲۰۔ حضرت شیخ مسعود غازی علیہ الرحمہ (واضح رہے کہ یہ حضرت سالار مسعود غازی بہرائچی کے علاوہ ہیں)

تصانیف جلیلہ : آپ علیہ الرحمہ نے تحریر و تصنیف کے ذریعے بھی اشاعت دین اور مخلوقِ خدا کی اصلاح کا فریضہ سر انجام دیا۔

انیس‌الارواح : یا انیس دولت، جو ملفوظات خواجہ عثمان ہاروَنی‌ علیہ الرحمہ تحریر کیے۔

گنج اسرار، مجموعہ دیگر از ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی اور شرح مناجات خواجہ عبد اللّہ انصاری ہیں۔

دلیل‌العارفین، یہ کتاب مسائل طہارت، نماز، ذکر، محبت، وحدت و آداب سالکین ہیں۔

بحرالحقائق، ملفوظات‌خواجہ معین‌الدین چشتی خطاب ہے خواجہ قطب‌الدین بختیار۔

اسرارالواصلین، اس میں شامل آٹھ خطوط جو خواجہ قطب‌الدین اوشي بختیار کو لکھے۔

رسالہ وجودیہ

کلمات خواجہ معین‌الدین چشتی

دیوان معین الدين چشتی، اس میں شامل غزلیات فارسی ہیں ۔

آپ علیہ الرحمہ نےتقریباً45 سال سر زمین ہند پر دینِ اسلام کی خدمت سرانجام دی اور ہند کےظلمت کدے میں اسلام کا اجالا پھیلایا۔

حضرت خواجہ کا وصال پر ملال:

عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے لیے ہندوستان کی سرزمین پر تقریباً ۴۵ سال گذارے۔ آپ کی کوششوں سے ہندوستان میں جہاں کفر و شرک اور بت پرستی میں مصروف لوگ مسلمان ہوتے گئے وہیں ایک مستحکم اور مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت خواجہ کی روحانی کوششوں سے تقریباً نوے لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ جو کہ ایک طرح کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اخیر عمر میں حضرت خواجہ کو محبوبِ حقیقی جل شانہ سے ملاقات کا شوق و ذوق بے حد زیادہ ہوگیا اور آپ یادِ الٰہی اور ذکرِ و فکر الٰہی میں اپنے زیادہ تر اوقات بسر کرنے لگے۔ آخری ایام میں ایک مجلس میں جب کہ اہل اللہ کا مجمع تھا آپ نے ارشاد فرمایا:"اللہ والے سورج کی طرح ہیں ان کا نور تمام کائنات پر نظر رکھتا ہے اور انھیں کی ضیاء پاشیوں سے ہستی کا ذرّہ ذرّہ جگمگا رہا ہے۔۔۔ اس سرزمین میں مجھے جو پہنچایا گیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہیں میری قبر بنے گی چند روز اور باقی ہیں پھر سفر درپیش ہے۔ ‘‘ (دلیل العارفین ص ۵۸)

عطائے رسول سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ نے جس روز اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طر ف سفر اختیار فرمایاوہ ۶ رجب المرجب ۶۳۳ھ بہ مطابق ۱۶ مارچ ۱۲۳۶ء بروز پیر کی رات تھی۔ عشا کی نماز کے بعد آپ اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے اور خادموں کو ہدایت فرمائی کہ کوئی یہاں نہ آئے۔ جو خادم دروازہ پر موجود تھے ساری رات وجد کے عالم میں پیر پٹکنے کی آواز سنتے رہے۔ رات کے آخری پہر میں یہ آواز آنا بند ہوگئی۔ صبح صادق کے وقت جب نمازِ فجر کے لیے دستک دی گئی تو دروازہ نہ کھلا چناں چہ جب خادموں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے مالکِ حقیقی کے وصال کی لذت سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔ اور آپ کی پیشانی پر یہ غیبی عبارت لکھی ہوئی ہے:"ہٰذا حبیبُ اللہ ماتَ فِی حُب اللہ۔"

 آپ کے صاحب زادے حضرت خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کا جسمِ مبارک اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں آپ کی قیام گاہ تھی۔ 

ازواج و اولاد:

پہلی شادی: حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃاللہ علیہ کو دین کی تبلیغ و اشاعت کی مصروفیت کی بنا پر ازدواجی زندگی کے لیے وقت نہ مل سکا ایک مرتبہ آپ کو خواب میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ نے فرمایا:’’ اے معین الدین! توہمارے دین کا معین ہے پھر بھی تو ہماری سنتوں سے ایک سنت چھوڑ رہا ہے۔ ‘‘ بیدار ہونے کے بعد آپ کو فکر دامن گیر ہوئی۔ اور آپ نے ۵۹۰ھ / ۱۱۹۴ء میں بی بی امۃ اللہ سے پہلا نکاح فرمایا۔ 

دوسری شادی: ۶۲۰ھ / ۱۲۲۳ء کو سید وجیہ الدین مشہدی کی دخترِ نیک اختر بی بی عصمۃ اللہ سے دوسرا نکاح فرمایا۔

اولاد و امجاد: آپ علیہ الرحمہ کی اولاد میں تین لڑکے: (۱خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ (وفات ۵ شعبان المعظم ۶۶۱ھ) (۲خواجہ ضیاء الدین ابو سعید علیہ الرحمہ (۳خواجہ حسام الدین علیہ الرحمہ ، جو بچپن میں ابدالوں کے زمرے میں شامل ہوکر غائب ہوگئے۔ اور ایک دختر حافظہ بی بی جمال علیہا الرحمہ تھیں۔

ارشادات کریمہ:آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ

§    جس نے کچھ پایا خدمت سے پایا تو لازم ہے کہ مرشد کے فرمان سے ذرہ برابر تجاوز نہ کرے اور خدمت میں مشغول رہے۔

§    نماز بندوں کے لیے خدا کی امانت ہے تو بندوں کو چاہیے کہ اس کا حق اس طرح ادا کریں کہ اس میں کوئی خیانت پیدا نہ ہو۔

§    نماز دین کا رکن ہے اور رکن ستون ہوتا ہے تو جب ستون قائم ہو گیا تو مکان بھی قائم ہو گیا۔

§    جو بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل کردے گا جن میں سے ہر ایک پردہ پانچ سو سال کی راہ کے برابر ہوگا۔

§    جس نے جھوٹی قسم کھائی گویا اس نے اپنے خاندان کو ویران کر دیا۔ اس کے گھر سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔ 

§    (خدا کی) محبت میں صادق یعنی سچا وہ ہے کہ جس پر شوق و اشتیاق اس قدر غالب ہو کہ سو ہزار شمشیریں اس کے سر پر ماریں تب بھی اس کو خبر نہ ہو۔

§    دوستی مولیٰ میں وہ شخص سچا ہوتا ہے کہ اگر اس کا جسم ذرہ ذرہ کر دیا جائے اور آگ میں جلا کر خاکستر کر لیا جائے تب بھی دم نہ مارے۔

§    عاشق کا دل محبت کی آگ کا آتش کدہ ہے۔ حق کے سوا جو اس کے دل میں آتاہے جل کر ناپید ہو جاتا ہے کیونکہ آتشِ محبت سے بڑھ کر کوئی آگ نہیں۔

§    قبرستان میں عمدا کھانا پیناکبیرہ گناہ ہے جو عمداً کھائے وہ ملعون اور منافق ہے کیونکہ گورستان عبرت کا مقام ہے نہ کہ حرص و ہوا کا۔

§    اس سے بڑھ کر کوئی کبیرہ گناہ نہیں کہ مسلمان بھائی کو بغیر سبب تکلیف دی جائے اس میں خدا و رسول دونوں ناراض ہوتے ہیں۔

§    یہ بھی کبیرہ گناہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا نام سنے یا کلام اللہ سنے تو اس کا دل نرم نہ ہو اور ہیبتِ الٰہی سے اس کا ایمان زیادہ نہ ہو۔

§    اور فرمایا: ذکر الٰہی یا کلامِ الٰہی سنتے وقت جو ہنستے ہیں وہ ضرور بالضرور منافق ہیں (کیونکہ ذکرِ الٰہی کے وقت ہنسی مذاق مومن کا کام نہیں)

§    جس دل میں علما اور مشائخ کی محبت ہوتی ہے ہزار سال کی عبادت اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے، اگر وہ اسی اثنا میں مر جائے تو اسے علما کا درجہ ملتا ہے اور اس مقام کا نام علیین ہوتا ہے۔

§    اور فرمایا: فتاویٰ ظہیریہ میں لکھا دیکھا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص علما کے پاس آمد و رفت رکھے اور سات دن ان کی خدمت کرے، اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ بخش دیتا ہے اور سات ہزار سال کی نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھتا ہے ایسی نیکی کہ دن کو روزہ رکھے اور رات کو کھڑے ہو کر (نماز میں) گزار دے۔

§    مرید کو لازم ہے کہ جو کچھ پیر کی زبان سے سنے اس پر بڑی خوشی سے عمل کرے اور پیر کی خدمت بجا لائے، حاضر خدمت رہے، اگر متواتر خدمت بجا نہ لاسکے تو اس بات کی کوشش ضرور کرے۔

§    سورۂ فاتحہ تمام دردوں اور بیماریوں کے لیے شفا ہے جو بیماری کسی علاج سے درست نہ ہو وہ صبح کی نماز کے فرض اور سنتوں کے درمیان اکتالیس مرتبہ بسم اللہ کے ساتھ سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے سے دور ہو جاتی ہے۔

§    اور فرمایا حدیث میں ہے: اَلْفَاتِحَۃُ شِفَاءٌ مِنْ کُلِّ دَاءٍ یعنی سورۂ فاتحہ ہرمرض کی دوا ہے۔

§    جو شخص وِرد مقرر کر لے اسے روزانہ پڑھنا چاہیے اور دن میں اگر نہ پڑھ سکے تو رات میں ضرور پڑھے لیکن پڑھے ضرور۔ اس کے بعد کسی اور کام میں مشغول ہو کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ ورد کا تارک یعنی چھوڑنے والا لعنتی ہے۔

§    اور فرمایا: ایک دفعہ مولانا رضی الدین رحمۃ اللہ علیہ گھوڑے پر سے گر پڑے جس سے پاؤں میں چوٹ آگئی، جب گھر آئے تو سوچا کہ یہ بلا مجھ پر کہاں سے آئی؟ تو یادآگیا کہ صبح کی نماز کے بعد سورۂ یٰسین پڑھا کرتا تھا وہ آج نہیں پڑھی۔

§    جب تک انسان راہ سلوک میں پہلے دنیا و مافیہا اور اپنی ذات کو ترک نہ کرے وہ اہل سلوک میں داخل ہی نہیں ہو سکتا، اگر سالک کی یہ حالت نہ ہو تو سمجھو جھوٹا ہے۔

§    کوئی گناہ تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا مسلمان بھائی کو ذلیل و خوار کرنا۔

§    اگر قیامت کے دن کوئی چیز بہشت میں لے جائے گی تو زُہد (دنیا سے بے رغبتی) نہ کہ علم (اس لیے علم کے ساتھ اس پر عمل ضروری ہے اور عمل اخلاص کے ساتھ ہوتو ضرور عالم کے اندر زُہد پیدا کرے گا) ۔

§    نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر ہے اور بروں کی صحبت برے کام سے بھی بری۔

§    دنیا میں تین شخص بہتر ہیں: (۱) وہ عالم جو اپنے علم سے بات کہے (۲) وہ جو حرص و طمع سے دور ہو (۳) وہ عارف جو ہمیشہ دوست (یعنی خدا) کی توصیف بیان کرے۔

§    درویشی اس بات کا نام ہے کہ جو آئے اسے محروم نہ کیا جائے، اگر بھوکا ہے کھانا کھلایا جائے اگر ننگا ہے تو عمدہ کپڑا پہنایا جائے۔ (یہ سب اقوال دلیل العارفین سے منتخب ہیں)

§    خدا شناسی کی علامت یہ ہے کہ انسان خلقت سے بھاگے اور معرفت میں خاموش رہے۔

§    اہل محبت کی علامت یہ ہے کہ ہمیشہ اطاعت میں مشغول رہے اور پھر بھی ڈرتا رہے کہ کہیں عتاب کا شکار نہ ہو جائے۔

§    مرید اس وقت فقیر کہلانے کا مستحق ہوتا ہے جب عالم فانی میں باقی نہ رہے، لوگوں نے دریافت کیا مرید کو کب ثابت قدم سمجھنا چاہیے فرمایا جب بیس برس ہو جائے اور گناہ لکھنے والا فرشتہ اس کا ایک گناہ بھی نہ لکھ سکے۔ (ماخوذ از سیر الاولیا، کرمانی)

§    عارف وہ شخص ہے جو اپنے ما سوا کا خیال دل سے نکال دے تاکہ یکہ وتنہا ہوجائے جیسا کہ دوست (خدا) واحد ویکتا ہے۔

§    میرے مرشد خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مومن وہ ہے جو تین چیزوں کو پسند کرے: ۱) فقیری ۲) بیماری ۳) موت۔ جو ان چیزوں کو دوست رکھتاہے خداے تعالیٰ اور فرشتے اس کو دوست رکھتے ہیں اور اس کا بدلا جنت ہوگا۔

§    فقیر وہ ہے کہ جس کے پاس کوئی اپنی ضرورت پیش کرے تو وہ اسے محروم نہ کرے۔

§    متوکل (توکل والا) وہ ہے جو مخلوق سے تکلیف برداشت کرے اور اس کو کسی سے بطور شکایت بیان نہ کرے۔

§    لوگ قربِ خداوندی سے بہرہ ور نہیں ہوسکتے جب تک کہ نماز کی پابندی نہ کریں؛ کیوں کہ یہی نماز مومن کی معراج ہے۔ میں ایک مدت تک کعبے کا طواف کرتا رہا جب حق تک پہنچ گیا، کعبہ میرا طواف کرنے لگا۔

§    اہل محبت کی توبہ کی تین قسمیں ہیں: ۱: ندامت ۲: ترکِ مجادلت (جھگڑا چھوڑد ینا) ۳: ظلم وستم سے پاک رہنا۔

§    محبت میں سچا وہ ہے کہ جب وہ آزمایش میں مبتلا ہو تو اسے خوش دلی اور رغبت کے ساتھ قبول کرے۔

§    رابعہ بصریہ نے فرمایا: مولیٰ کی دوستی میں سچا وہ ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف یا دردِ دل پہنچے تو دوست کے مشاہدے سے اس غم اور تکلیف کو بھول جائے۔ (از مونس الارواح: ۳۸تا۴۱،ازشہزادی جہاں آرا بیگم، مترجمہ مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی گھوسوی)

§    راہِ محبت میں ولی وہ ہے جو دوعالم سے اپنے دل کو ہٹالے۔

§    حقیقی صابر (صبر کرنے والا) وہ ہے کہ اسے مخلوق سے تکلیف واَذیت پہنچے تو وہ کسی سے شکایت کرے نہ کسی سے اس کا ذکر کرے۔

§    ولی کی علامت یہ ہے کہ موت کو پسند کرے، عیش وراحت کو چھوڑ دے اور اللہ عزوجل کی یاد میں مشغول رہے۔

§    سب سے بہتر وقت وہ ہے کہ جب دل وسوسوں سے پاک ہو۔

§    جہاں بھی جاؤ کسی کا دل نہ دکھانا اور جہاں بھی رہنا گمناموں کی طرح رہنا۔

§    چار چیزیں نفس کا جوہر ہیں (یعنی نفس کی خوبیوں سے ہیں): ۱: درویشی میں تونگری ظاہر کرنا۔ ۲بھوک میں آسودہ نظر آنا۔ ۳: غم میں مسرور (خوش) معلوم ہونا۔ ۴: دشمنوں کے ساتھ بھی دوستی کا برتاؤ کرنا۔ (مناقب العارفین ازشیخ یٰسین جھونسوی مترجم: ۲۵۴تا۲۵۶)

§    فرمایا: مرید اپنی توبہ میں اس وقت راسخ اور ثابت قدم سمجھا جائے گا جب کہ اس کی بائیں طرف والا فرشتہ بیس سال تک اس کا ایک بھی گناہ نہ لکھے۔

§    فرمایا: عارفوں کا بڑا بلند مقام ہوتا ہے جب وہ مقام عرفان پر پہنچ جاتے ہیں تو تمام دنیا ومافیہا (اور جوکچھ دنیا میں ہے) اپنی دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہیں، (جب ایک عارف کا یہ حال ہے تو بھلا نبی کا کیا حال ہوگا!)

§    فرمایا: محبت میں عارف کا کم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ وہ صفاتِ حق کا مظہر ہوجائے اور محبت میں عارفِ کامل کا درجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اس کے مقابلے پر دعویٰ کرکے آئے تو وہ اپنی قوت کرامت سے اسے گرفتار کرلے۔

§    فرمایا: بدبختی کی علامت یہ ہے کہ کوئی گناہ کرتارہے، پھر بھی مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہونے کی اُمید رکھے۔

§    سخاوت کا بڑا درجہ ہے جس نے بھی نعمت پائی سخاوت سے پائی۔

§    لوگ منزلِ قرب نہیں پاتے مگر نماز کی ادائیگی میں کیوں کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ (اخبار الاخیارو مونس الارواح)