Fazail o Barkaat Ism e Muhammad Sallallahu Alaihi Wa Sallam

اللہ جل جلالہ نے اپنے حبیب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان محامدو محاسن، خصائص و امتیازات اور کمالات و معجزات سے نوازا جو کائنات میں کسی دوسرے نبی یا رسول کو عطا نہیں کئے گئے۔ قرآن کریم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو ذاتی نام ’’محمد‘‘ اور ’’احمد‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان ہوئے ہیں جبکہ متعدد صفاتی نام مذکور ہیں جیسے مدثر، مزمل، طہ، یسین اور کہیں بشیر، مبشر، نذیر، منذر مزید برآن کہیں پر رحمن، رحیم، شاہد، مشہود، شہید، ھادی، کریم، سراج منیر اور نور وغیرہ منقول ہیں۔

جس طرح اللہ تعالیٰ کے ان گنت اسمائے حسنیٰ منقول ہیں لیکن ذاتی نام صرف اللہ ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صفاتی نام تو بے شمار ہیں لیکن ذاتی نام صرف دو ہیں۔ محمد اور احمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )  چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد عالی شان ہے:زمین پر میرا نام محمد اور آسمان پر احمد ہے۔(قسطلانی، المواهب اللدنيه، ١: ٧٠)

اسی طرح رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں اپنے ذاتی اسماء کے ساتھ ساتھ دیگر صفاتی اسماء مبارکہ بھی بیان فرمائے چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لی خمسة اسماء انا محمد و احمد وانا الماحی الذی يمحوا الله بی الکفر وانا الحاشد الذی يحشر الناس علی قدمی وانا العاقب (متفق علیہ ) ’’میرے پانچ نام ہیں میں محمد اور احمد ہوں، میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو محو کردے گا۔ میں حاشر ہوں۔ سب لوگ میری پیروی میں ہی (روز حشر) اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب ہوں (سب سے آخر میں آنے والا ہوں)‘‘۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ  وسلم نے ہمارے لئے اپنے کئی اسمائے گرامی بیان فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:انا محمد و احمد والمقفی والحاشر ونبی التوبة ونبی الرحمة (صحيح مسلم، کتاب الفضائل، رقم: ٢٣٥٥) ’’میں محمد ہوں، احمد ہوں، مقفی ہوں، حاشر ہوں، نبی توبہ اور نبی رحمت ہوں‘‘۔

اس حوالے سے کتاب اسمائے مصطفی  (صلی اللہ علیہ وسلم )میں  مصنف نے سیرت نگاروں کے تقریباً تمام اقوال نقل فرمائے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے: امام قسطلانی نے المواہب اللدنیہ میں ١٣٣٧ اسماء مبارکہ اور کنیتیں نقل فرمائی ہیں، امام سیوطی نے الریاض الانیقہ فی شرح اسماء خیرالخلیقہ میں ٣٤٠ اسماء مبارکہ اور کنیتیں ذکر فرمائی ہیں۔ امام صالحی نے سبل الھدی والرشاد میں ٧٥٤ اسمائے مبارکہ اور کنیتیں بیان کی ہیں۔ ابن فارس کا کہنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے مبارکہ ١٢٠٠ ہیں۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے ١٠٠٠ اسماء مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درج کئے ہیں۔ اسی طرح ابن دحیہ نے ٣٠٠درج کئے اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ١٤٠٠ اسماء نقل فرمائے۔ یوں مجموعی طور پر اسماء مبارکہ کی تعداد ١٤٠٠ سے زائد بن جاتی ہے ۔ (اسماء مصطفی صلی الله علیہ  وآلہ وسلم، ص١٧)

اسم گرامی کے حروف کی برکات

اس سلسلے میں علامہ مُلّا معین واعظ کاشفی  حنفی علیہ الرحمہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف معارج النبوت میں ایک روایت نقل کی ہے:حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے بنی آدم کو مکرم مخلوق بنایا ’’ولقد کرمنا بنی آدم‘‘ اور اس کی کرامت یہ ہے کہ وہ نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل پر پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ اس کا گول سر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میم ہے اور اس کے ہاتھ حا کی مانند ہیں اور جوف دار شکم میم ثانی اور اس کے پائوں دال کی طرح ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ جس کافر کو بھی دوزخ میں ڈالیں گے۔ اس کی انسانی شکل کو مسخ کردیں گے اور شیطانی ہئیت پر پھیر دیں گے کیونکہ انسانی شکل میرے نام کی شکل پر ہے جو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ حق تعالیٰ اس شخص کو میرے نام کی صورت پر عذاب نہیں کرتا وہ بندہ جو میرا ہم نام، فرماں بردار اور محب ہو اس کو کیسے عذاب دے گا ۔ (معارج النبوت، ص٨ ٢)

اسمِ گرامی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و خصائص کا شمار جس طرح ممکن نہیں اُسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک کے فضائل بے شمار ہیں، جن کا تعین ممکن نہیں۔ نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات بہت ہیں ذیل میں اُن کا ذکر مختصراً کیا جاتا ہے :

  مشہور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :قال ا للہ تعالي : وعزتي وجلالي  محمدلا أعذب أحداً تسمي باسمک في النار’’اﷲ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور بزرگی کی قسم! (اے حبیب مکرم!) میں کسی ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دوں گا جس کا نام آپ کے نام پر ہوگا۔‘‘ (حلبی، اِنسان العيون، ١ :١٣٥ ) اِمام حلبی لکھتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں نام سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشہور نام یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے : يوقف عبدان بين يدي اﷲ عزوجل، فيقول اﷲ لهما : ادخلا الجنّة، فإنّي آليت علي نفسي أن لا يدخل النار من اسمه محمد ولا أحمد’’دو آدمی اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے، تو اﷲ تعالیٰ اُنہیں فرمائے گا : تم جنت میں داخل ہو جاؤ کیونکہ میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جس کا نام ’محمد‘ یا ’احمد‘ رکھا گیا۔( حلبی، إنسان العيون، ١ : ١٣٥)

مناوی نے ’فیض القدیر (٥ : ٤٥٣)‘ میں کہا ہے کہ اِسے ابنِ سعد نے ’الطبقات الکبریٰ‘ بیان کیا ہے۔ امام شعرانی نے ’کشف الغمۃ (١ : ٢٨ ٣)‘ میں کہا ہے کہ اسے محمد بن حنفیہ نے روایت کیا ہے۔

معضل سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے : إذا کان يوم القيامة نادي مناد : يا محمد! قم فادخل الجنة بغير حساب، فيقوم کل من اسمه محمد، يتوهّم أن النداء له، فلکرامة محمد صلي الله عليه وآله وسلم ’’روزِ محشر ایک پکارنے والا پکارے گا : اے محمد! جنت میں داخل ہو جا۔ پس ہر وہ شخص جس کا نام محمد ہوگا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ نداء اُس کے لئے ہے کھڑا ہو جائے گا۔ پس یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرامت کے سبب ہے۔‘‘ ( حلبی، إنسان العيون، ١ : ١٣٦)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :إذا سمّيتم محمدًا فلا تضربوا ولا تقبّحوه وأکرموه وأوسعوا له في المجلس ’’جب تم کسی کا نام محمد رکھو تو نہ اسے مارو اور نہ اس کی برائی بیان کرو بلکہ اس کی تکریم کرو اور مجلس میں اس کے لیے جگہ چھوڑ دو۔‘‘(شعرانی، کشف الغمة، ١ : ٢٨ ٣/مناوی، فيض القدير، ١ : ٣٨ ٥/ عجلونی، کشف الخفا ومزيل الإلباس، ١ : ٩٤، رقم : ٢٣٩/حلبی، إنسان العيون، ١ : ١٣٥) ایک روایت میں ہے کہ محمد نام رکھنے سے انسان میں برکت آجاتی ہے اور جس گھر یا مجلس میں محمد نام کا شخص ہو وہ گھر اور مجلس بابرکت ہو جاتی ہے۔ (حلبی، إنسان العيون، ١ : ١٣٥)

سیدنا اِمام حسین رضی اللہ عنہ کا قول ہے : من کان له حمل فنوي أن يسميه محمداً حوله اﷲ تعالي ذکراً، وإن کان أنثي ’’جس کی عورت حمل سے ہو اور وہ نیت کرے کہ (پیدا ہونے والے) بچے کا نام محمد رکھے گا تو اِن شاء اﷲ تعالیٰ لڑکا پیدا ہو گا اگرچہ حمل میں لڑکی ہی ہو۔‘‘(بحوالہ : حلبی، إنسان العيون، ١ : ١٣٦/شعرانی، کشف الغمہ، ١ : ٢٨ ٣)  حضرت عطاء رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ جس نے حمل میں موجود بچہ کا نام محمد رکھا تو لڑکا ہی پیدا ہو گا۔ ابنِ وہب کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے سات بچوں کا نام دورانِ حمل ہی میں محمد رکھنے کی نیت کر لی تھی، جس کی برکت سے سب لڑکے پیدا ہوئے۔(ایضاً)حلبی نے ’انسان العیون ص ١  : ١٣٥ ‘ میں کہا ہے حفاظِ حدیث نے اِس روایت کی صحت کا اِقرار کیا ہے۔

سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ الکریم  سے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ما اجتمع قوم قط فی مشورة معهم رجل اسمه محمد، لم يدخلوه في مشورتهم إلا لم يبارک لھم’’کوئی قوم مشورہ کے لئے جمع ہو اور محمد نام والا کوئی شخص اُن کے مشورہ میں داخل نہ ہو تو اُن کے کام میں برکت نہیں ہو گی۔‘‘ (خطيب بغدادی، موضح أوهام الجمع والتفریق، ١ : ٤٤٦)حلبی نے ’انسان العیون (١ : ١٣٥)‘ میں کہا ہے حفاظِ حدیث نے اِس روایت کی صحت کا اِقرار کیا ہے۔

حضرت محمد بن عثمان عمری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ما ضر أحدکم لو کان فی بيته محمد ومحمدان وثلاثة. ’’تم میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اگر اُس کے گھر کے اِفراد میں ایک یا دو یا تین شخص محمد نام کے ہوں۔‘‘(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ٥ : ٥٤/ مناوی، فيض القدير، ٣ : ٢٤٦)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ما أطعم طعام علي مائدة، ولا جلس عليها، وفيها اسمي إلا قدسوا کل يوم مرتين’’کوئی بھی دستر خوان ایسا نہیں جس پر کھانا کھایا جائے اور وہاں میرا ہم نام بیٹھا ہو تو فرشتے ہر روز دو مرتبہ (اُس دستر خوان کی) تعریف نہ کرتے ہوں۔‘‘ خطيب بغدادی، موضح أوهام الجمع والتفريق، ١ : ٤٤٦)امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :ما کان في أهل بيت اسم محمد إلا الغرماء برکته. ’’جس گھر میں بھی محمد نام کا شخص ہو اُس میں برکت پھیل جاتی ہے۔ ‘‘ (مناوی، فيض القدير، ٥ : ٤٥٣)

اِمام حلبی  علیہ الرحمہ ’اِنسان العیون (١ : ١٣٦)‘ میں روایت کرتے ہیں’’جس کی بیوی حاملہ ہو اور وہ بچہ کا نام محمد رکھنے کا اِرادہ کر ے تو اﷲ تعالیٰ اُسے بیٹا عطا کرے گا۔ جس کا بچہ زندہ نہ رہتا ہو اور وہ اﷲ تعالیٰ کے بھروسہ پر اِرادہ کرلے کہ وہ ہونے والے بچہ کا نام محمد رکھے گا تو اُس کا بچہ زندہ رہے گا۔‘‘ اِسماعيل حقی، تفسير روح البيان، ٧ : ١٨ ٤)

مولائے کائنات سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ جنت میں سب کو اُن کے ناموں سے پکارا جائے گا یعنی اُن کی کنیت نہیں ہوگی، سوائے حضرت آدم علیہ السلام کے۔ اُنہیں تعظیما ’ابو محمد‘ کہہ کر پکارا جائے گا، اور یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توقیر کے سبب ہے۔‘‘ حلبی، انسان العيون، ١ : ١٣٦) غرض کہ اسم محمد کی فضیلت سے متعلق احادیث کریمہ اور مفسرین کرام کی عبارتیں مختلف کتابوں میں موجود ہیں یہاں ان تمام کو جمع کرنے سے ضخامت بڑھ جائیگی اس لئے اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں ۔

بعض صحابہ کا نام آپﷺ نے خود محمد رکھا:  محمد نام رکھنے کے سلسلے میں آپ نے صرف زبانی ترغیب نہیں دی بلکہ متعد دصحابہ کرام کے یہاں پیدا ہونے والے لڑکوں کا نام بھی آپ نے محمد رکھا چنانچہ مہاجرین میں سے سب سے پہلے آپ ﷺ نے اپنے چچازاد بھائی حضرت جعفر طیار کے فرزند کا نام محمد رکھا۔ عام مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے لڑکے کا نام محمد رکھا۔ اس کے علاو ومتعددصحابہ کرام کے لڑکوں کا نام خود نبی کریم ﷺ نے محمد رکھا۔ مثلا محد بن ابی بکر، محمد بن سعد بن ابی وقاص، محمد بن المنذر، محمد بن طلحہ اور محمد بن ضمر ہ وغیرہ کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔ اس کی تفصیل الاصابة في تميز الصحابہ کی پانچویں جلد میں موجود ہے۔ مشہور تاریخ نگار ا بن سعد نے اپنے طبقات میں لکھا ہے کہ حضرت علی کر م اللہ وجہہ الکریم  کی صلبی اولاد میں ۴الر کے اور لڑکیاں تھیں ۔ان ۱۴ لڑکوں کے نام حضرت علی نے محمد رکھا۔

رسول اللہ ﷺ خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ کی اس سنت سے عام صحابہ کرام میں محمد نام رکھنے کی ایسی عملی تحریک چلی کہ الاصابہ اور امام بخاری کی التاریخ الکبیر کے اعداد و شمار کے مطابق تقریبا محمد نامی صحابہ کی تعداد٠ ۶ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔  مجھے اس مقام پر حیرت ہوئی کہ سب سے پسند یدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہے لیکن محمد نام رکھنے کا شوق حضرات صحابہ تابعین اور تبع تابعین میں اتنا شدید تر ہو چکا تھا کہ محمد نامی صحابہ تابعین اور تبع تابعین ( جن سے کسی نہ کسی سے حدیث مروی ہے ) کی تعداد بقول امام ذہبی  علیہ الرحمہ  کے حساب و شمار ۱۲۶۶  کے قریب آتی ہے ۔ ان سب کا یہ عمل اسم محمد سے عقیدت و محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔    (الحاج ابومحامد)