امیرالمومنین حضرت سیدنا امام حسین رضی
اللہ عنہ بارہ اماموں میں سے تیسرے امام تھے۔ آپ ابوالائمہ ہیں، آپ کی کنیت عبداﷲتھی
اور لقب شہید اور سید تھا۔
تنویر الازہار ترجمہ نوروالابصار2/3 میں علامہ شبلنجی الشافعی لکھتےہیں کہ حضرت سیدنا امام حسین کی کنیت
ابو عبداللہ ہے ان کی کوئی کنیت نہیں آپ کے القاب رشید، طیب، زکی، وفی، سید، مبارک،
تابع لمرضات اللہ اور سبط ہیں۔ آپ کا سب سے مشہور لقب"زکی" ہے اور رتبہ کے
اعتبار سے سب سے اعلی لقب وہ ہے جو سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اور آپ
کے بھائی کو لقب دیا کہ حسین و حسن جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اسی طرح "
سبط " کیونکہ یہ صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے حسین
اس اسباط میں سے سبط ہے۔
آپ کی ولادت مدینے میں سہ شنبے (منگل ) کے روز چار شعبان 4 ہجری میں
ہوئی۔
تاریخی ذرائع نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی یوم ولادت مختلف روایتوں کا
تذکرہ کیا ہے امام
ابن کثیر ، امام عز الدین بن الاثیر ، ملاحسین واعظ کاشفی ، محی السنۃ امام حسین
بن مسعود الفراء البغوی( رحمہم اللہ علیہم اجمعین) اور دیگرتاریخ نگاروں کے نزدیک سید
الشہداء حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کی ولادت پانچ شعبان المعظم چار ہجری کو
ہوئی۔ جبکہ بعض دوسرے مؤرخین خاص طور پر عارف باللہ حضرت عبدالرحمن جامی علیہ
الرحمہ لکھتے ہیں کہ خصوصی مدت حمل صرف چھ ماہ گزرکرنورنظررسول امام حسین بتاریخ 3 شعبان 4 ہجری بمقام مدینہ
منورہ بطن مادرسے آغوش مادرمیں آ گئے۔(شواہدالنبوۃ
صفحہ303)
کہتے ہیں کہ آپ کی مدت حمل چھ ماہ تھی۔ سوائے آپ کے کسی بچے کی مدت
حمل چھ ماہ نہیں ہوئی۔
حضرت یحیٰ بن زکر یا علیہماالسلام اور
امیرالمومنین حضرت امام حسن رضیﷲعنہ کی ولادت کے درمیان کی مدت نیز فاطمہ کے بطن
میں امیرالمومنین حضرت امام حسین رضیﷲعنہ کے علق کی مدت پچاس دن بتائی جاتی ہے۔
اعلیٰ حضرت علامہ جیلانی اشرفی چاندپوری علیہ الرحمہ(خلیفہ حضور اعلی حضرت
اشرفی میاں کچھوچھوی قد س سرہ النورانی ) نےعلامہ واقدی علیہ الرحمہ کی
کتاب الاصابہ نزول الابرار حوالے سے فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا
علوق مسرت حسن علیہ السلام کے پچاسویں دن کے بعد ہوا ہے ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی
علیہ الرحمہ نے اصابۃ فی تمیز الصحابہ میں لکھاہے کہ اور علامہ بدخشی بھی لکھتےہیں
کہ سب روایتوں میں رائج ہے۔ (مناقب
مولی حسین ابن علی صفحہ 8) اور امام المتاخرین حضرت علامہ سیدنا یوسف بن اسماعیل نبہانی علیہ الرحمہ
کی تالیف مقدسہ "اشرف الالموبد
لآل محمد" صفحہ 174میں اور شواہد النبوۃ صفحہ 303میں
علامہ عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ نے بھی تحریر کیں ہیں۔ اور بعض روایتوں کا قول
ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام چھ ماہ میں پیدا ہوئے ہیں ۔
جب آپ پیدا
ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام حسین رکھا۔ آپ کو ایسا جمال حاصل
تھا کہ اگر آپ تاریکی میں بیٹھتے تو آپ کی پیشانی اور رخسار کی تابانی سے راستہ
نظر آ جاتا ۔
علامہ عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ نے شواہد النبوت صفحہ 305میں بھی ذکر کیا
ہے۔ بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ امام حسن اور امام حسین ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں حاضر تھے یہاں تک کہ رات ہوگئی۔ آپ نے فرمایا میرے بچو! اب رات ہو
گئی ہے۔ تم اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ۔ حسب الحکم بچے روانہ ہو گئے۔ راوی کا بیان ہے
کہ جیسے یہ بچے گھر کی طرف چلے ایک روشنی پیدا ہوئی جو ان کے راستے کی تاریخ کو دور
کرتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ یہ بچے اپنے ماں کی خدمت میں جا پہنچے۔ محمد بن سیرین
اور ان بہن حفصہ نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ وہ بیان کرتےہیں کہ میں ابن زیا د
کے پاس موجود تھا کہ حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کا لایا گیا اور وہ آپ کی
ناک پر چھڑی رکھ کر کہنے لگا ، میں نے اس کی مانند خوبصورت کبھی نہیں دیکھا۔ میں
نے اسے کہا کہ آپ سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔ (صحیح بخاری 18/429)
علماء کرام فرماتے ہیں کہ جب آپ بھوکے ہوتے تو سرورکائنات صلی اللہ علیہ
وسلم تشریف لاکر زبان مبارک دہن اقدس میں دے دیتے تھے اور امام حسین اسے چوسنے
لگتےتھے۔ یہاں تک کہ سیر و سیرآب ہوجاتے تھے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اسی سے امام
حسین کو گوشت پوست بنا اور لعاب دہن رسالت سے حضرت سیدنا امام حسین پرورش پاکر
کاررسالت انجام دینے کی صلاحیت کے مالک بنے ۔ یہی وجہ ہےکہ آپ رسول کریم سے بہت
مشابہ تھے۔ (نورالابصار2/3) مزید امام احمد ، ابن ماجہ، ابن حبان اور کئی محدثین
نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
آپ سینے سے
پیروں تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مشابہ تھےجیسے کہ امیرالمومنین امام
حسن رضی اﷲ عنہ سینے سے پیشانی تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مشابہت
رکھتے تھے ۔
محمد بن اسحاق بن عثمان خزاعی کی روایت کے مطابق
حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد
اطہر کے مشابہ تھا۔ طبرانی نے اس روایت ثقہ راویوں کے حوالے سے روایت کی ہے ۔ ( مجمع الزوائد 9/185،البدایہ والنہایہ11/474)
حضور اکرم
صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اﷲ
تعا لی اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتاہے ۔ (ترمذی شریف 5/430،مطالب السؤل صفحہ242 ،نورالابصار صفحہ 113 ،صحیح
ترمذی 6/307،مستدرک 3/ومسنداحمد4/972،اسدالغابہ 2/91،کنزالعمال 4/221) حسین نواسوں میں نواسہ ہے ۔
بیان کر تے
ہیں کہ (ایک روز ) حضرت امام حسن رضی ﷲعنہ اورحضرت امام حسین رضی اﷲعنہ رسول اﷲ
صلی اﷲعلیہ وسلم کے سامنے کشتی لڑ رہے تھے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے امام حسن
رضی ﷲ عنہ سے فرمایا کہ حسین رضی ﷲ عنہ کا نام لو (یعنی پکڑلو)۔ حضرت سید ہ فا طمہ
رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول ﷲصلی ﷲعلیہ وسلم! آپ بڑے سے فرمارہے ہو کہ
چھوٹے کا نام لو (یعنی چھوٹے کو پکڑ لو)۔ حضور اکرم صلی اﷲعلیہ
وسلم نے فرمایا ' اس وقت جبر ئیل( علیہ السلام) کہہ رہے ہیں کہ حسین بزرگ (بڑے) ہیں۔
علامہ علامہ یوسف نبہانی علیہ الرحمہ نے اشرف الالموبد لآل محمد صفحہ 193، علامہ نورالدین عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ
نے شواہد النبوت صفحہ 304، ملا حسین واعظ کاشفی نے روضۃ الشہداء صفحہ 174 اور علامہ مومن شبلنجی نے تنویر الازہار ترجمہ نوروالابصار 2/4 پر تحریر فرمایا ہے۔
ام الجسارت
سے روایت کر تے ہیں ، انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہو ئی اور میں نے عرض کیا ، یا رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم! میں نے ایک خواب
دیکھا ہے اور میں اس سے خوف زدہ ہوں ۔ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا تم نے کیا
خواب دیکھا؟
میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کے جسم
مبارک کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں ڈال دیا گیا ہے ۔ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم
نے فرمایا، تم نے ٹھیک ہی دیکھا ہے ۔ فاطمہ کا ایک بیٹا ہوگا جو تمہاری گود میں
ہوگا ۔ اس کے بعد امیرالمومنین حضرت امام حسین رضی ﷲعنہ پیدا ہو ئے ۔ (مشکوۃ شریف صفحہ572)
حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کا علمی: صحابہ کرام عام طور پر نبوی علوم سے استفادہ کرتے
رہتے تھے جس قدر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں صرف کی، اسی قدرعلم
و فقاہت بھی حاصل کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو نبوی نگاہ کا نورعین رہا ہو، جس کے ہونٹوں
کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسہ دیا ہو اور جس کی پیاس خود نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی چساکر بجھائی ہو اس کے علم و فضل کا اندازہ کیسے لگایا
جاسکتا ہے ؟
وہ یقینا علم و فضل و فصاحت و بلاغت کے ایسے اوج ثریا پر فائز ہوگا جس کا اندازہ
لگانا مشکل ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے علمی برتری کا کیا کہنا۔ تفسیر،
حدیث ،فقہ و ادب اور شاعری میں یکساں مہارت تھی۔ جب کوئی مسئلہ ان کے سامنے آتا تو
بغیر کسی پریشانی کے حل کر دیتے۔ فقہ وبلاغت کا مسئلہ سامنے آتا تو بڑی خوش اسلوبی
سے حل کرتے۔ ادب اور شاعری تو ان کے گھر کا غلام ہی رہی ہے۔
ابن عمر نے ایک موقع پر حضرت سیدنا
امام حسن وحسین دونوں کے علمی مقام ومرتبہ اور علمی دلچسپی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں شہزادے علم کو بڑی اہمیت دیا کرتے ہیں۔ (تاریخ بغداد 9/366)
علم حدیث کے ذخیرہ میں ان سے کئی روایتیں موجود ہیں۔ صحاح ستہ میں ان کی
روایتیں بڑی نمایاں ہیں۔ امام بزار نے اپنے مسند میں سیدنا امام حسین علیہ السلام
کے چار مسانید کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے مروی
ہے تمام روایتوں کا احاطہ مشکل ہے ۔ مگر چندرواتیں بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے۔ دارقطنی
نے نماز کا ابواب میں ایک حدیث حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے طریقہ پر اس طرح
تخریج کی ہے۔ سیدنا امام حسین اور اپنے والد سیدنا مولی ٰ علی (کرم اللہ وجہہ
الکریم ) کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص بیمار ہو اور کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکتا ہوتو اسے
کھڑا ہوکر نماز پڑھنا چاہیے اگر کھڑا ہوکر نماز پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے تو بیٹھ
کر پڑھے اگر سجدہ کرنےمیں دشواری ہوتی ہو تو سجدہ میں رکوع سے زیادہ جھک کر رکوع و
سجدہ میں فرق کرے اگر اس کی بھی صلاحیت نہیں ہے تو دائیں پہلو پر قبلہ کی طرف رخ کر
کے نماز ادا کرے اور اگر اس پر بھی قادر نہیں ہے تو لیٹ کر نماز ادا کریں۔ (سنن دار قطنی حدیث 1496)
امام بخاری اور مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کی
سند سے یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی(کر م اللہ
وجہہ الکریم) کے دروازے پر دستک دی۔ سیدہ فاطمہ بھی گھر میں موجود تھیں، نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ لوگ نماز نہیں پڑھی گے؟
سیدنا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) نے
جواب دیا: یا رسول اللہ(ﷺ) ہمارے امور اللہ تعالیٰ کے حوالے ہیں جب وہ چاہے گا ہم اپنا
کام کر لیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر واپس چلے گئے پھر تھوڑی دیر بعد
واپس تشریف لائے، اور قرآن کی ایک آیت تلاوت کی جس کا مفہوم ہے انسان بہت زیادہ
بحث و مباحثہ کا عادی ہے۔ (صحیح
بخاری ، صحیح مسلم 1/537 حدیث 775)
امام نسائی نے اپنی سند سے یہ حدیث اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ ابوعلی کہتے
ہیں کہ (حضرت سیدنا امام) حسین( علیہ السلام) بن علی نے اپنے والد (حضرت مولی )
علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) کے حوالے سے روایت کی ہے کہ انہوں نے (حضرت علی) ایک دن
سے وضو کے لیے پانی مانگا۔ سیدنا مولیٰ علی نے اپنے دونوں ہاتھ کو برتن میں ڈالنے سے
پہلے تین مرتبہ دھویا، پھر تین مرتبہ کلی کی، پھر تین مرتبہ ناک صاف کی، تین مرتبہ
اپنے چہرے کو دھویا، پہلے تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ اور تین مرتبہ اپنے بائیں ہاتھ
کو کہنیوں تک دھویا، ایک مرتبہ سر کا مسح کیا، پھر دایاں پاؤں تین مرتبہ، اسی طرح بایاں
پاؤں تین مرتبہ ٹخنوں تک دھویا، اس کے بعد کھڑے ہوکرمجھ سے فرمایا کہ برتن اٹھاؤ، میں
نے بچا ہوا پانی کا برتن اٹھایا، پھر انہوں نے اس پانی کو پی لیا، سیدنا امام حسین
رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ان کے اس عمل سے بڑا تعجب ہوا۔ میں تعجب کی نگاہ
سے دیکھ ہی رہا تھا کہ انہوں نے فرمایا ہے تعجب پڑنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے آپ
کے باپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔ (سنن نسائی 1/69حدیث نمبر95)
ابن حبان نے اپنی سند سے امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے یہ حدیث تخریج کی
ہے۔ سیدنا حسین علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ وہ شخص
جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے وہ بخیل ہے۔(صحیح ابن حبان 3/189)
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں فاطمہ بنت حسین کی ایک روایت امام حسین کے حوالے
سے ذکر کی ہے جس میں کہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
"للسائل حق و ان جاء علی فرس" بھکاری اگرگھوڑے پر بھی سوار ہو کر آئے تو
اس کا حق اسے دینا چاہیے۔ یہاں حدیث و تفسیر اور دیگر کتب سے یہ چند مثالیں پیش کی
گئی ہیں مگر جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ صحاح میں امام حسین کے متعدد روایاتیں
موجود ہیں۔ اس حدیث دانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ ابن حجرعسقلانی علیہ الرحمہ
نے تہذیب میں حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کی تعارف کرانے کے بعد ذکر کیا ہے کہ
انہوں نے اپنے نانا جان(حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام) اپنے والد، اپنی والدہ، اپنے ماموں
ہند بن ابی ہالہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہم سے حدیث روایت کی ہیں۔ اِن سے جن لوگوں
نے روایت کی ان میں حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ، ان کے صاحبزادے علی (امام
زین العابدین ) و امام زیدشہید(استاذ امام اعظم ابوحنیفہ) ، شہزادی سکینہ و فاطمہ،
پوتے ابوجعفرالباقر، شعبی، عکرمہ، کرزتیمی، سنان بن ابی سنان دؤلی، عبداللہ بن عمر
و بن عثمان ، فزردق اور محدثین کی ایک جماعت سر فہرست ہیں۔ (تہذیب التہذیب 2/299)
امام حسین کے فتوے: زہد وتقوی اور علم و ہنر میں اعلی درجہ پر فائز
ہونے کے ساتھ ساتھ امام حسین علیہ السلام کو فقہ و افتاء میں بھی پورا درک حاصل تھا
یہی وجہ ہے کہ ابن قیم جوزیہ نے قفہاء صحابہ کی ایک فہرست ذکر کرنے کے بعد کہا کہ صحابہ
میں ان حضرات کے علاوہ جو لوگ فتویٰ دینے کی صلاحیت رکھتے تھے ان میں ابو درداء اورامام
حسن و امام حسین بھی ہیں۔ ابن عبدالبر نے استیعاب میں امام حسین علیہ السلام کے حوالے
سے کئی مسئلوں کا ذکر کیا ہے اسی ضمن میں یہ بھی ہے کہ ابن زبیر نے امام حسین علیہ
السلام سے پوچھا ابو عبداللہ آپ یہ بتائیں کہ
متی یجب عطاء الصبی ؟ قال اذا استھل وجب عطاوہ ورقہ اس کے بعد کھڑا ہوکر پینے کے بارے میں مسئلہ
پوچھا تو حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام نے ایک برتن منگایا اور اس میں دودھ دوہ
کر کھڑے ہو کر پی لیا ۔ (استیعاب
1/399)
فصاحت وبلاغت: نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کو اللہ تعالی نے الجوامع الکلم سے سرفراز کیا ہے اس لئے حدیث پاک کی مختصر جملوں
میں معنی کا بحر ذخار آتا ہے۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے اس وصف خاص کے وارث ہوئے ۔ نہج البلاغہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ سیدنا
امام حسین رضی اللہ عنہ نبوی چشمہ فیض کے ساتھ ساتھ علمی فیضان کرم سے بھی سرشار ہوئے۔
اس لئے ان کے اندر بھی فصاحت وبلاغت کی خوبی پوری طرح موجود تھی۔ برمحل جامع و
معنی کلام کرنا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ مصری ادیب عباس العقاد نے اپنی کتاب
میں سیدنا امام حسین علیہ السلام کے برمحل کلام کی ایک کئی مثالیں پیش کی ہیں ان
مثالوں میں یہاں صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے ملاحظہ کیجئے۔
ایک اعرابی مسجد حرام میں آیا تو دیکھا کہ امام حسن اپنے مریدین کے ساتھ بیٹھے
ہیں۔ مریدین نے تعارف کرایا تو اعرابی نے کہا کہ میں ان ہی سے ملنے آیا ہوں اور میرا
مقصد یہ ہے کہ ان سے بات چیت کروں اور عربی کے سخت سے سخت الفاظ استعمال کروں،
حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ اگر تمہارا مقصد یہ ہے تو پھر تم اس نوجوان (حضرت
سیدنا امام حسین علیہ السلام) سے بات کرو۔ اعرابی حضرت امام حسین علیہ السلام کے پاس
پہونچا اور سلام کیا۔ حضرت سید نا امام حسین علیہ السلام نے آنے کی وجہ دریافت کی تو
اس نے جواب دیا: انی جئتک من الھر قل و الجعلل والآیتم
والھمم آپ علیہ
السلام نے اس جملہ کو سن کر مسکرانے لگے اور کہا" یا اعرابی لقد تکلمت بکلام
مایعقلہ الا العالموناے
اعرابی ! تم نے ایسے جملوں کا استعمال کیا ہے جو صرف ماہرین ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اعرابی
نے کہا میرے پاس اس سے بھی زیادہ ثقیل جملوں کو ادا کرنے کے کرنے کی صلاحیت ہے، اگر
میں تمہارے سامنے پیش کروں تو کیا تم اس کا جواب دے سکو گے۔
آپ علیہ السلام نے اس سے کہا تم اپنا کلام پیش کرو۔ اس نے نو اشعار پیش کیے۔
حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اسی وقت اسی محفل میں فی البدیہہ اسی وزن اور
قافیہ پر اس کے نو اشعار کے جواب میں نو اشعار کہا ۔ ان اشعار کے بعد حضرت سیدنا
امام حسین علیہ السلام نے اعرابی کے جملوں کی تشریح کی اس پر اعرابی نے کہا:
"ما رایت کالیوم احسن من ھذا الکلام کلاما و
اذرب لسانا ولا افصح منطقا میں نے آج تک اس نوجوان سے زیادہ حسن کلام، خوش سخن اور فصیح و بلیغ کسی کو
نہیں پایا ۔ (عبقریات صفحہ 222 بشکریہ
مولانا منظر الاسلام ازہری امریکہ/ تذکرہ اہل بیت صفحہ 244)
روایت ہے کہ
ایک روز رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی ﷲعنہ کو اپنی دائیں ران پر
بٹھا رکھا تھا اور بائیں ران پر آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے صاحبزاد ے ابراہیم(رضی اللہ
عنہ) تھے۔ جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ اﷲتعالی ان دونوں کو آپ کے
لیے یکجانہ رکھے گا ۔ ایک کو آپ صلی اﷲعلیہ و سلم سے لیا جا ئے گا ۔ اب آپ ان میں
سے ایک کو اختیار کریں ۔رسول صلی اﷲعلیہ وسلم نے فر ما یا کہ اگر حسین (رضی اللہ
عنہ) فوت ہو گا تو اس کے فراق میں میری(صلی اللہ علیہ وسلم )،علی (رضی اﷲعنہ) اور
فاطمہ(رضی اللہ عنہا) کی جان جلے گی اور اگر ابراہیم(رضی اللہ عنہ) جاتا ہے تو اس
کا غم میری جان پر ہو گا ۔ میں ان کے غم پر اپنا غم اختیار کرتاہوں تین دن بعد
حضرت ابراہیم (رضی اللہ عنہ) کی وفات کا واقعہ وقوع میں آیا۔ حضرت امام حسین جب بھی
نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کےپاس آتے آپ صلی اﷲعلیہ وسلم انہیں پیار کرتے اور
فرماتے،خوش آمدید (یہ وہ ہے) جسں کے لئے میرا بیٹا ابراہیم (رضی اللہ عنہ) فدیہ
بنا۔
عارف باللہ حضرت علامہ
عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ نے شواہد النبوت صفحہ 305 ابن عساکر نے تاریخ بغداد
2/204 پر بھی ذکر ہے۔
ام سلمہ رضی
اﷲعنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم میرے حجرہ سے باہر گئے
اور بہت دیر کے بعدواپس ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کےمبارک بال الجھے ہوئے اور گرد
میں اٹے ہوئے تھے اور آپ کے ہاتھ میں کوئی چیزتھی۔ میں نے عرض کیا " یا رسول
ﷲصلی اﷲعلیہ وسلم میں آپ (صلی اﷲعلیہ وسلم) کو عجیب حال میں دیکھ رہی ہوں۔
فرمایا مجھے عراق کے ایک مقام پرلے جایا گیا جسے
کربلا کہتے ہیں۔ یہ حسین کے قتل ہونے کی جگہ ہے مجھے میری اولاد میں ایک
جماعت کو دکھایا گیا۔ میں نےان کا خون زمین سے اٹھایا جو میرے ہاتھ میں ہے۔ یہ لو
اور اسے حفاظت سے رکھو۔ میں نے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے دست مبارک سے وہ چیزلےلی۔ وہ
سرخ رنگ کی مٹی تھی۔ میں نے اسے شیشے کی بوتل میں ڈال دیا اوراس منہ اچھی طرح سے
بند کر دیا۔ جب حسین بن علی رضی اﷲعنہ عراق کے سفر پر چلے گئے تو میں ہرروزوہ شیشی
باہر نکالتی ، اسے دیکھتی اور روتی تھی، جب دسویں محرم ہوئی اور میں نے اسے دیکھا
تو وہ اپنی حالت پر بر قرار تھی۔ جب دن ڈھلے اسے دیکھا تو مٹی تازہ خون ہوگئی۔ (اس
تبدیلی سے ) میں نے جان لیا کہ حسین رضی ﷲعنہ کو قتل کر دیا گیا۔ میں بہت روئی پھر
دشمنوں کے طعنوں کے خیال سے اپنی طبیعت سنبھالی۔ جب حضرت حسین رضی ﷲتعالی عنہ کی
شہادت کی خبر آئی تو یہ اس دن کی عین مطابق تھی ۔(البدایہ والنہایہ 8/205، 160، تاریخ الخلفاء 428، صواعق محرقہ118)
.آپ کی شہادت دس محرم اکسٹھ ہجری میں جمعہ کے دن ہوئی تھی ۔ اس وقت
آپ کی عمر ستاون سال پانچ ماہ تھی ۔
سیدنا امام حسین کا
قاتل کون تھا؟
علامہ کمال الدین دمیر ی علیہ
الرحمہ نے اپنی مشہور کتاب "حیاۃ الحیوان" میں فرماتے ہیں کہ سیدنا حسین
بن علی بن ابی طالب کو شہید کرنے والا الشمر بن ذی
الجوشن ہے۔ بعض نے قاتل کا نام سنان انس النخعی بتایا ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے
کہ الشمربن ذی الجوشن نے آپ کے سر پر نیزہ مارا اور گھوڑے سے گرا دیا اس کے بعد
خولی بن یزید الاصبحی نے آگے بڑھ کر سر جدا کرنا چاہا تو اس کے ہاتھ کانپنے لگے
اسی دوران اس کا بھائی شبل بن یزید نے آکر گردن الگ کردی اور اپنے بھائی خولی بن
یزید کو دے دیا ۔اس لشکر کا سپہ سالار عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ تھا اور اسے یزید
(پلید) نے سپہ سالار بنایا تھا۔ مزید آپ علیہ الرحمہ نے حافظ ابن عبدالبر کی کتاب بہجۃ
المجالس و انس المجالس کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق
علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا کہ خواب کی تعبیر کتنے دن تک مؤخر ہو سکتی ہے تو
فرمایا کہ پچاس سال تک مؤخر ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میرے نواسے حسین کو سیاہ سفید رنگ کا کتا خون میں لت پت
کر دے گا توآپ نے اس کی یہ تعبیر بتائی تھی کہ میری بیٹی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے
پیارے بیٹے (امام) حسین (علیہ السلام) کو قتل کر دے گا ۔سیدنا امام حسین علیہ
السلام کو قتل کرنے والا الشمر ذی الجوشن کتا ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے برص کی
بیماری تھی ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواب کی تعبیر دیکھنے کے پچاس سال کےبعد
تک واقع ہوسکتی ہے۔
مؤرخین فرماتے ہیں کہ متعدد بار آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ گویا
کہ ہم دیکھ رہے کہ ایک ابلق(سفید و سیاہ) کتا میری اہل بیت کا خون پی رہا ہے۔ (طبقات ابن سعد 3/63، مسند احمد2/60، خصائص الکبریٰ 2/332)
محمد بن عمرو بن حسین بیان کرتے ہیں : کنا مع الحسين بنهر
کربلا فنظر إلي شمر ذي الجوشن فقال : صدق اﷲ ورسوله! فقال رسول اﷲ صلي الله عليه
وآله وسلم کائي أنظر : إلي کلب أبقع يلغ في دماء أهل بيتي و کان شمر أبرص ہم سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا کے دریا پر
موجود تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے شمر کے سینے کی طرف دیکھا اور فرمایا : اللہ اور
اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گویا میں اس سفید داغوں والے کتے کی طرف دیکھ رہا ہوں
جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے اور شمر برص کے داغوں والا تھا۔ (کنز العمال/ ابن عساکر، فضائل اہل بیت صفحہ 13)
چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بدبختی تیرا ہی
مقدر ہے، وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر اقدس کو تن سے جدا کر دیا۔ ادھر روح نے قفس
عنصری سے پرواز کی ادھر ندا آئی۔ يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO
امام و خاتم
آل عبا سلام علیک
برادر حسن
مجتبی سلام علیک
قراربخش
دل مرتضی سلام علیک
ضیائے
چشم رسو ل خدا سلام علیک
سرورخاطر
خیر النساء سلام علیک
شہید
خنجر کرب و بلا سلام علیک
(السیدمحمد محدث اعظم ہند اشرفی
الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ)
مورخین لکھتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد نے علی بن حسین اور ان عورتوں کو جو
سیدنا حسین کے ساتھ تھیں ان کو اپنے ہموار کر لیا تھا حالانکہ ان لوگوں کو جو
عبیداللہ بن زیاد نے اعتماد دلایا تھا اس پر عمل نہیں کر سکا ۔اس کے بعد پھرجو اس
نے وعدہ کے خلاف ظلم ڈھائے مثلاً عورتوں کو قید کیا ۔ چھوٹے بچوں کو اس قدر قتل
کیا کہ جس کے تذکرے سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل گھبرا جاتا ہے۔
ابو
محنف نے بحوالہ جعفر بن محمد بیا ن کیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام جب شہید ہوئے
تو آپ کے جسم اطہر نیزوں کے 33 اور تلواروں کے 34 زخم تھے اور شمر بن ذی الجوشن
ملعون نے امام حسین کے بیٹے علی زین العابدین کو بھی قتل کرنے کا ارادہ کیا جو کہ
بیمار تھے اور شمر کے ساتھیوں میں سے ایک شخص حمید بن مسلم نے اسے اس ناپاک ارادہ
سے روک دیا ۔ (طبقات ابن سعدی 5/212،
تاریخ طبری 4/279،تذکرہ امام حسین صفحہ178)
محمد ابن جریر طبری، ابن خلدون و علامہ ابن کثیر غرض کہ بہت سے مفسرین اور مورخین نے لکھا ہے کہ
ابن زیاد نے خاندان رسالت کو کربلا میں قتل کیااور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے
سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔
جیساکہ علامہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اہل بیت نبوت کا یہ
مصیبت زدہ قافلہ ابن زیاد نے یزید لعین کے پاس بھیجاتو اس نے ملک شام کے امراء اور
درباریوں کو جمع کیا پھر بھرے دربار میں خانوادۂ نبوت کی خواتین اس کے سامنے پیش
کی گئیں اور اس کے سب درباریوں نے یزید (پلید) کو اس فتح پر مبارکباد دی۔ (تاریخ طبری،4/181،البدایہ والنہایہ ،8/197)
گریہ سماوی کے متعلق
مختلف روایات: جاننا چاہیے کہ گریۂ آسمان کے متعلق
سلف سے متعدد روایات منقول ہیں۔ چنانچہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن سیرین رحمۃ
اللہ علیہ سے روایت کی ہے کہ قتلِ حسین کے دن سے تین روز تک دنیا تاریک رہی۔اس کے
بعد آسمان میں سرخی ظاہر ہوئی۔
ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ سے
منقول ہے کہ قتلِ حسین پر آسمان رویا اور آسمان کا رونا اس کی سرخی ہے۔منقول ہے کہ
آسمان چھ مہینے تک سرخ رہا۔ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ آسمان کے کنارے
پر جو سرخیِ شفق ہے یہ قتلِ حسین کے واقعہ کے بعد ظاہر ہوئی۔ اس سے قبل آسمان پر
اس سرخی کا وجود نہ تھا۔ ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی روایت ہے کہ شفق کی سرخی
سید الشہداء کی شہادت سے قبل نظر نہ آتی تھی۔
آسمان کی سرخی غضب
خداوندی کی علامت ہے: ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ
کہتے ہیں کہ آسمان کے سرخ ہوجانے میں یہ حکمت ہے کہ جب غصے کی وجہ سے خون جوش میں
آتا ہے تو چہرے کی رنگت سرخ ہو جاتی ہے لیکن ذات باری تعالیٰ جو جسم اور دیگر
لوازم سے منزہ ہے،نے اپنے غضب کے اظہار کا ذریعہ کنارۂ آسمان کی سرخی کو بنایاتاکہ
شفق کی یہ سرخی قاتلانِ حسین کی انتہائے معصیت اور غضب الٰہی کی شدت پر دلیل بن
جائے اور بعض کا کہنا ہے کہ قتلِ حسین کے بعد سات روز تک آسمان نے گریہ کیااور
آسمان کا یہ رونا اس درجہ تک پہنچ گیا تھا کہ آسمان کی سرخی کے سبب تمام درو دیوار
اور عمارتیں بھی زردو سرخ ہو گئیں اور آسمان سے اتنے شہاب برسے کہ ایک دوسرے سے
ٹکراتے تھے ۔اسی طرح قتلِ حسین کے دن آسمان سے خون برساجس کے نشانات ایک عرصے تک
زمین پر باقی رہے۔اور جو کپڑا یا لباس اس خون سے رنگین ہوا اس کی سرخی کپڑے کے
بوسیدہ اور پارہ پارہ ہونے تک زائل نہ ہوئی۔بعض روایات میں آیا ہے کہ قتل حسین کے
روز آسمان سے ایسا خون برسا کہ خراسان،شام اور کوفہ کے گلی کوچوں میں آب رواں کی
صورت جاری ہو گیا۔ منقول ہے کہ جب امام عالی مقام کے سر مبارک کو دارالامارۃ کوفہ
میں لایا گیا اور وہاں رکھا گیا تو دارالامارۃ کی دیواروں سے خون جاری ہوگیا۔
سانحہ کربلا کے بعد حجازمیں
یزید کے خلاف غم و غصہ اور نفرت اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا اور وہاں سے ایک انقلاب
اٹھ رہا تھا۔ اہل مکہ
نے عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اہل مدینہ نے بھی یزیلید کے خلاف
کارروائی شروع کردی۔
جب یزید پلید کو یہ خبر
ملی کہ اہل مکہ و مدینہ نے اس کی بیعت توڑدی ہے تو اس نے ایک عظیم لشکر مکہ مکرمہ
ومدینہ منورہ(زادھا اللہ شرفا و تعظیما )پر
حملہ کے لیے روانہ کیا ۔علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس لشکر کے سالار اور اس کے
سیا ہ کارناموں کے متعلق لکھتے ہیں :۔
مسلم بن عقبہ جسے اسلام
مسرف بن عقبہ کہتے ہیں ، خدا اس ذلیل و رسوا کرے ، وہ بڑا جاہل اور اجڈ بوڑھا تھا
۔ اس نے یزید کے حکم مطابق مدینہ طیبہ کو تین دن کے لئے مباح کردیا ۔اللہ تعالیٰ
کو جزائے نہ دے ، اس لشکر نے بہت سے بزگوں اور قاریوں کو قتل کیا اموال لوٹ لئے ۔( البدایہ 8/220)
مدینہ طیبہ کو مباح کرنے
کا مطلب یہ ہے وہاں جس کو چاہو قتل کرو، جو مال چاہولوٹ ہواور جس کو چاہوآبرویزی
کرو ۔ (العیاذباللہ) یزیدی لشکر کے کرتوت پڑھ کر ہر مومن خوف خدا سے کانپ جاتا ہے
اور سکتہ میں آجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو
اس شخص نے حلال کردیا جسے آج لوگ امیر المومین بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔
بدبخت یزیدی لشکر نے صرف
سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید ہی نہیں کیا بلکہ بے شمار عصمت شعار
خواتین کی عزتیں بھی لوٹیں ا ور پھر کیا ہوا، امام ابن کثیر سے پوچھئے کہ ایک
بدبخت نے اپنے کردار کو دیکھنے اور کفر سے توبہ کرنے کی بجائے ہزاروں مسلمانوں کو
شہید کروایا۔ ہزاروں مسلمانوں، جن میں بیشتر صحابہ کرام بھی تھے، کو قتل کروانے
والا جہنمی اگر لعنت کا مستحق نہ قرار پائے تو اور کیا اسے پھول مالا پیش کی
جائے؟؟؟
علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ
علیہ لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے دوران میں انہوں نے (یزیدی لشکر نے) عورتوں کی عصمت
دری بھی کی۔ ایک روایت ہے کہ ان دنوں میں ایک ہزار عورتیں حرامکاری کے نتیجے میں
حاملہ ہوئیں۔ (البدایہ ج 8/221)
حضرت علامہ سبط ابن
الجوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: مدینہ منورہ کی ایک ہزار عورتوں نے جنگ حرہ کے
بعد حرامی بچوں کو جنم دیا۔ تاریخ میں اس واقعہ کو واقعہ حرہ کہا جاتا ہے۔
اعلیٰ حضرت الشاہ امام
احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، اس شک نہیں کہ یزید نے والی ملک
ہوکر زمین میں فساد پھیلایا۔
·
حرمین
طیبین وخود کعبہ معظمہ وروضہ طیبہ کی سخت بے حرمتیاں کیں۔
·
مسجد
کریم میں گھوڑے باندھے۔
·
ان
کی لید اور پیشاب منبر اطہر پر پڑے۔
·
تین
دن مسجد نبوی بے و نماز رہی۔
·
مکہ
ومدینہ و حجاز کے ہزاروںصحابہ وتابعین بے گناہ شہیدکئے گئے۔
·
کعبہ
معظمہ پر پھینکے۔
·
غلاف
شریف پھاڑا اور جلایا ۔
·
مدینہ
طیبہ کی پاک دامن پارسائیں تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کردیں۔
·
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر پارے کو تین دن بے آب و دانہ رکھ کر مع ہمراہیوں
کے تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا۔
·
مصطفیٰ
ﷺ کے گود کے پالے ہوئے تن نازنین پر بعد شہادت گھوڑے دوڑائے گئے کہ تمام استخوان
مبارک چور ہوگئے۔
·
سر
انور کہ محمد ﷺ کا بوسہ گاہ تھا کاٹ کر نیزہ پرچڑھایا اور منزلوں پھرایا۔
·
حرم
محترم محذرات مشکوئے رسالت قید کئے گئے اور بے حرمتی کے ساتھ اس خبیث کےدربار میں
لائے گئے اس سے بڑھ کر قطع رحم اور زمین پر فساد کیا ہوگا۔ ملعون ہے وہ جو ان
ملعون حرکات کو فسق و فجور نہ جانے قرآن عظیم میں صراحۃ اس پر لعنھم
اللہ فرمایا۔(عرفان
شریعت/اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ حصہ دوم صفحہ 56 /طبع سنی
دارالاشاعت لائل پور پاکستان)
حضرت سعید بن مسیب رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایام حرہ میں مسجد نبوی میں تین تک اذان واقامت نہ ہوئی ۔ جب
بھی نماز کا وقت آتا تو میں قبر انور سے اذان اور اقامت آواز سنتا تھا۔ (دارمی، مشکوۃ ، وفاالوفاء) اور عبداللہ بن وہب امام
مالک علیہ الرحمہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یوم الحرہ کو سات سو ایسے افراد قتل کئے
گئے جو حافظ قرآن تھے۔ (البدايہ و النہايہ ، 6 / 234)
علامہ سیوطی الشافعی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب مدینہ پر لشکر کشائی ہوئی تو وہاں کا کوئی ایسا شخص نہ
تھا جو اس لشکر سے پناہ میں رہا ہو۔ یزیدی لشکر کے ہاتھوں ہزاروں صحابہ کرام علیہم
الرضوان شہید ہوئے ، مدینہ منورہ کو خوب لوٹا گیا ، ہزاروں کنواری لڑکیوں کی
آبروریزی کی گئ۔
مدینہ منورہ تباہ کرنے کے
بعد یزیدملعون نے اپنا لشکر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کے لیے
مکہ معظمہ بھیج دیا اس لشکر نے مکہ مکرمہ پہونچ کر ان کا محاصرہ کرلیا اور ان پر
منجنیق سے پتھر برسائے ۔
ان پتھر وں کی چنگاریوں
سے کعبہ شریف کا پردہ جل گیا ، کعبہ کا چھت اور اس دنبہ کا سینگ جو حضرت سیدنا اسماعیل
علیہ السلام کے فدیہ میں جنت سے بھیجا گیا تھا اور وہ کعبہ کی چھت میں آویزاں تھا،
سب کچھ جل گیا ۔ یہ واقعہ 64 ہجری میں ہوا اور اس کے اگلے ماہ یزید لعین مرگیا۔
جب یہ خبر مکہ مکرمہ
پہونچی تو یزیدی لشکر بھاگ کھڑا ہوا اور لوگوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پر
بیعت کرلی۔ ( تاریخ الخلفاء صفحہ307)
یزید پلید
کے دیوانو ! اس
ظلم و ستم کے باوجود آپ کے دل میں یزیدپلید کی محبت اس قدر گھر کر گئی اور صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قاتل کے دفاع میں حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ
کی شہادت کو صحابہ کرام کی شان میں گستاخی قرار دینے پر تل گئے ؟ بجائے اس کے
قاتلِ صحابہ کرام یزید کو برا بھلا کہتے ۔ آپ الٹا اسے شہادتِ حسین رضی اللہ سے
بری الذمہ قرار دے کر اس پر خاموشی اختیار فرمانے کو ترجیح دیتے ہیں ؟ انا للہ
وانا الیہ راجعون
ذرا سوچیں! کل قیامت کے
روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حضرت سیدنا امام حسن اور حضرت
سیدنا حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں کے مطابق آپ کا سامنا حضرت امام حسین یا نانائے
امام حسین سیدنا محمد مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوگیا تو یزید کی شان میں آپ کے
حوالہ جات اور لمبے لمبے مضامین کام آئیں گے ؟
الغرض حضرت سیدنا امام
حسین علیہ السلام کی شہادت کوئی حادثہ اور اچانک پیدا ہوجانے والا کوئی واقعہ نہیں
ہے بلکہ یہ تو حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی وراثت کے لئے دی جانے
والی قربانی ہے جسے خاندان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح جانتےتھے۔ دراصل
خاندان رسالت ﷺ کی کربلا میں کستگی حلال و حرام اور جائز و ناجائز یا ظلم و ستم کے
رواج اور یزید کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی علت سے پاک ہے حضرت خواجۂ خواجگان
سلطان الہند حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ نے تمام اولیا ئے کرام کی
نمائندگی کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
سر داد نہ داد در دست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ ہست حسین
(ماخدو مراجع: ملفوظات
محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی کچھوچھوی علیہ
الرحمہ المعروف لطائف اشرفی جامع شیخ
الاسلام حضرت نظام یمنی علیہ الرحمہ تذکرہ ہفتم لطیفہ 53/الصواعق الحرقہ/بارہ امام مفتی
غلام رسول نقشبندی علیہ
الرحمہ/تنویرالازہارترجمۃ نورالابصار /حیاۃ الحیوان/روضۃ الشہداء /سفینۃ الاولیاء شہزادہ
داراشکوہ قادری علیہ الرحمہ سفینہ نوح علامہ شفیع اوکاڑوی علیہ الرحمہ/ شواہد النبوۃ
علامہ عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ و دیگرمضامین)