حضرت خواجہ سید معین الدین چشتی اجمیر ی علیہ الرحمہ

 

اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ سلسلۂ چشت ہے اس سلسلہ کی نامور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارا مل چکا تھا کہ وہ سرزمینِ ہند کو اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں۔ 

چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ ان حضرات کے طریقۂ تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کرلی اور اسے اس شہر چشت کی نسبت سے ’’چشتیہ‘‘ کہا جانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے۔ 

سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ سب سے پہلے لفظ ’’چشتی‘‘ ان ہی کے نام کا جز بنا، لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوت ِ حق کا جو کام انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ ’’چشتی‘‘ دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ملتا ہے۔
         نام و نسب:

سر زمینِ ہند میں سلسلۂ چشتیہ کے بانی اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سر خیل اور سالار حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام ’’معین الدین‘‘ ہے، والدین محبت سے آپ کو’’ حسن ‘‘کہہ کر پکارتے تھے، آپ حسنی اور حسینی سید تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب بارہویں پُشت میں حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ 

پدری سلسلۂ نسب:

خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن کمال الدین بن احمد حسین بن نجم الدین طاہر بن عبدالعزیز بن ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن محمد باقر بن امام علی زین العابدین بن سیدناامام حسین بن علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و رحمہم اللہ تعالیٰ۔ 

مادری سلسلۂ نسب: بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید داود بن سید عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید داود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سید عبداللہ بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و ررحمہم اللہ تعالیٰ۔ 

ولادت اور مقامِ ولات:

 حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ِ باسعات ۵۳۷ ہجری بہ مطابق ۱۱۴۲ عیسوی کو سجستان جسے ’’سیستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، کے قصبۂ سنجر میں ہوئی۔ اسی لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کوحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت پوری دنیا کے لیے باعثِ رحمت اور سعادت بنی۔ آپ نے اس دنیا میں عرفانِ خداوندی، خشیتِ ربانی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا کیا اور کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ کو اسلام و ایمان کی روشنی سے جگمگا دیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ بیان کرتی ہیں :"جب معین الدین میرے شکم (پیٹ) میں تھے تو میں اچھے خواب دیکھا کرتی تھی گھر میں خیر و برکت تھی ، دشمن دوست بن گئے تھے۔ ولادت کے وقت سارا مکان انوارِالٰہی سے روشن تھا۔ ‘‘ ( مرأۃ الاسرار)

بچپن:

آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت خراسان میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم والدِ گرامی کے زیرِ سایا ہوئی جو بہت بڑے عالم تھے۔ نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہوکر تفسیر و حدیث اور فقہ (اسلامی قانون) کی تعلیم حاصل کی، خداداد ذہانت و ذکاوت، بلا کی قوتِ یادداشت اور غیر معمولی فہم وفراست کی وجہ انتہائی کم مدت میں بہت زیادہ علم حاصل کرلیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ گیارہ برس کی عمر تک نہایت ناز و نعم اور لاڈ پیار میں پروان چرھتے رہے۔ جب حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد حضرت غیاث الدین حسن صاحب علیہ الرحمہ کا سایۂ شفقت و محبت سر سے اُٹھ گیا لیکن باہمت والدۂ ماجدہ بی بی ماہ نور نے آپ کو باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ والدِ گرامی کے اس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ترکہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی ملی۔ جوانی کے عالم میں اسی ترکہ کو اپنے لیے ذریعۂ معاش بنایا خود ہی باغ کی دیکھ بھال کرتے اور اس کے درختوں کو پانی دیتے اور باغ کی صفائی ستھرائی کا بھی خود ہی خیال رکھتے۔ اسی طرح پن چکی کا سارا نظام بھی خود سنبھالتے ، جس سے زندگی بڑی آسودہ اور خوش حال بسر ہورہی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کی تعلیم و تربیت اور کائنات کے گلشن کی اصلاح و تذکیر کے لیے منتخب فرمالیا تھا۔ لہٰذا آپ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے آپ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور طریقت و سلوک کے مراتب طَے کرتے ہوئے وہ مقامِ بلند حاصل کیا کہ آج بھی آپ کی روحانیت کو ایک جہان تسلیم کررہا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا وہ واقعہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے جس نے آپ کی دنیا بدل دی 
مجذوبِ وقت ابراہیم قندوزی کی آمد اور حضرت خواجہ کا ترکِ دنیا کرنا

ایک دن ترکے میں ملے ہوئے باغ میں آپ درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ اس بستی کے ایک مجذوب ابراہیم قندوزی اشارۂ غیبی پر باغ میں تشریف لائے۔ جب حضرت خواجہ کی نظر اِس صاحبِ باطن مجذوب پر پڑی تو ادب و احترام کے ساتھ ان کے قریب گئے اور ایک سایا دار درخت کے نیچے آپ کو بٹھا دیا اور تازہ انگور کا ایک خوشہ سامنے لاکر رکھ دیا ، خود دوزانو ہوکر بیٹھ گئے۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے انگور کھائے اور خوش ہوکر بغل سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اپنے منہ میں ڈالا دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ غریب نواز کے منہ میں ڈال دیا اس طرح حق و صداقت اور عرفانِ خداوندی کے طالبِ حقیقی کو ان لذّتوں سے فیض یاب کردیا۔ روٹی کا حلق میں اترنا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی۔ روح کی گہرائیوں میں انورِ الٰہی کی روشنی پھوٹ پڑی ، جتنے بھی شکوک و شبہات تھے سب کے سب اک آن میں ختم ہوگئے ،دنیا سے نفرت اور بے زاری پیدا ہوگئی اور آپ نے دنیاوی محبت کے سارے امور سے کنارہ کشی اختیار کرلی، باغ، پن چکی اور دوسرے ساز و سامان کو بیچ ڈالا، ساری قیمت فقیروں اور مسکینوں میں بانٹ دی اور طالبِ حق بن کر وطن کو چھوڑ دیااور سیر و سیاحت شروع کردی۔ 

علمِ شریعت کا حصول:

 زمانۂ قدیم سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ علمِ طریقت کی تحصیل کے خواہش مند پہلے علمِ شریعت کو حاصل کرکے اس میں کمال پیداکرتے ہوئے عمل کی دشوار گزار وادی میں دیوانہ وار اور مستانہ وار چلتے رہتے ہیں اور بعد میں علمِ طریقت کا حصول کرتے ہیں۔ چناں چہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طریقۂ کار کو اپنایا اور وطن سے نکل کر سمرقند و بخارا کا رخ کیا جو کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں علم و فن کے مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے جہاں بڑی بڑی علمی ودینی درس گاہیں تھیں جن میں اپنے زمانے کے ممتاز اور جید اساتذۂ کرام درس و تدریس کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ ان درس گاہوں میں دنیا بھر سے علمِ دین کی طلب رکھنے والے افراد کھنچ کھنچ کر آتے اور اپنی تشنگی کو بجھاتے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں آکر پورے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ طلبِ علم میں مصروف ہوگئے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور دیگر ضروری علوم کا درس لیا اور کامل مہارت حاصل کرلی ، آپ کے اساتذہ میں نمایاں طور پر مولانا حسام الدین بخاری اور مولانا شرف الدین صاحب شرع الاسلام کے نام لیے جاتے ہیں۔ 

پیرِ کامل کی تلاش:

 سمر قند اور بخارا کی ممتاز درس گاہوں میں جید اساتذۂ کرام کے زیرِسایہ رہ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے علومِ شریعت کی تکمیل کرنے کے بعد روحانی علوم کی تحصیل کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں علمِ طریقت کے مراکز کے طور پر پوری دنیائے اسلام میں عراق و حجازِ مقدس مشہور و معروف تھے، جہاں صالحین اور صوفیائےکاملین کی ایک کثیر تعداد بادۂ وحدت اور روحانیت و معرفت کے پیاسوں کی سیرابی کا کام کررہی تھی۔ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کائناتِ ارضی میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مختلف اشیاء کا مشاہدہ و تفکراور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اولیاء و علماء اور صلحا و صوفیا کی زیارت کرتے ہوئے بغداد، مکہ اورمدینہ کی سیر و سیاحت اور زیارت کی سعادتیں حاصل کیں۔ پھر پیرِ کامل کی تلاش و جستجو میں مشرق کی سمت کا رُخ کیا اورعلاقۂ نیشاپور کے قصبۂ ہارون پہنچے جہاں ہادیِ طریقت حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں روحانی وعرفانی مجلسیں آراستہ ہوتی تھیں۔ خانقاہِ عثمانی میں پہنچ کر حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو منزلِ مقصود حاصل ہوگئی اور آپ مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے اور ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی۔ 

حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیعت کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے:

’’ایسی صحبت میں جس میں بڑے بڑے معظم و محترم مشائخِ کبار جمع تھے میں ادب سے حاضر ہو ا اور روئے نیاز زمین پر رکھ دیا ، حضرت مرشد نے فرمایا: دورکعت نماز ادا کر ، میں نے فوراً تکمیل کی۔ رو بہ قبلہ بیٹھ ، میں ادب سے قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہوا سورۂ بقرہ پڑھ ، میں نے خلوص و عقیدت سے پوری سورت پڑھی ، تب فرمایا : ساٹھ بار کلمۂ سبحان اللہ کہو، میں نے اس کی بھی تعمیل کی ، ان مدارج کے بعد حضرت مرشد قبلہ خود کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا ان جملہ امور کے بعد حضرت مرشد قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی جو کلاہِ چارتَرکی کہلاتی ہے میرے سر پر رکھی ، اپنی خاص کملی مجھے اوڑھائی اور فرمایا بیٹھ میں فوراً بیٹھ گیا ، اب ارشاد ہوا ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ میں اس کو بھی ختم کرچکا تو فرمایا ہمارے مشائخ کے طبقات میں بس یہی ایک شب و روز کا مجاہدہ ہے لہٰذا جا اور کامل ایک شب و روز کا مجاہدہ کر، اس حکم کے بہ موجب میں نے پورا دن اور رات عبادتِ الٰہی اور نماز و طاعت میں بسر کی دوسرے دن حاضر ہوکے ، روے نیاز زمین پر رکھا تو ارشاد ہوا بیٹھ جا، میں بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہو ا اوپر دیکھ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے ، عرض کیا عرشِ معلّی تک ، تب ارشاد ہوا نیچے دیکھ میں نے آنکھیں زمین کی طرف پھیری تو پھر وہی سوال کیا کہاں تک دیکھتا ہے عرض کیا تحت الثریٰ تک حکم ہوا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ اور جب اس حکم کی بھی تعمیل ہو چکی تو ارشاد ہوا کہ آسمان کی طرف دیکھ اور بتا کہاں تک دیکھتا ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا حجابِ عظمت تک ، اب فرمایا آنکھیں بند کر ، میں نے بند کرلی ، ارشاد فرمایا ا ب کھول دے میں نے کھول دی تب حضرت نے اپنی دونوں انگلیاں میری نظر کے سامنے کی اور پوچھا کیا دیکھتا ہے ؟ عرض کیا اٹھارہ ہزار عالم دیکھ رہا ہوں ، جب میری زبان سے یہ کلمہ سنا تو ارشاد فرمایا بس تیرا کام پورا ہوگیا پھر ایک اینٹ کی طرف دیکھ کر فرمایا اسے اٹھا میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے سے کچھ دینار نکلے ، فرمایا انھیں لے جاکے درویشوں میں خیرات کر۔ چناں چہ میں نے ایسا ہی کیا۔ ‘‘ (انیس الارواح ، ملفوظاتِ خواجہ ، صفحہ ۱/ ۲)

حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی خلافت و جانشینی:

  جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو آپ کے پیر ومرشد نے ولایت اور روحانیت کے تمام علوم و فنون سے آراستہ کرکے مرتبۂ قطبیت پر فائز کر دیا تو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حج کے بعد حضرت خواجہ کو قبولیت کی سند مل گئی۔ اس واقعہ کے بعد پیرو مرشد نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہوگیا ، چناں چہ اس کے بعد بغداد میں ۵۸۲ھ / ۱۱۸۶ء کو حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا نائب اور جانشین بنا دیا۔ اس ضمن میں خود حضرت مرشدِ کامل نے یوں اظہارِ خیال فرمایا ہے :

’’معین الدین محبوبِ خدا ہے اور مجھے اس کی خلافت پر ناز ہے۔ ‘‘

حضرت خواجہ کی سیر و سیاحت اور ہندوستان کی بشارت:

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو پیر ومرشد نے اپنی خلافت و اجازت سے نواز کر رخصت کیا۔ آپ نے مرشدِ کامل سے فیض حاصل کر کے اللہ جل شانہ کی کائنات کا مشاہدہ اور اہل اللہ کی زیارت اور ملاقات کی غرض سے سیر وسیاحت کا آغاز کیا۔ سفر کے دوران آپ نے اپنے پیرومرشد کی ہدایت پر مکمل طور پر عمل کیا۔ چوں کہ حضرت خواجہ نے اپنی یہ سیاحت علومِ باطنی وظاہری کی مزید تحصیل کی غرض سے اختیار کی اس لیے وہ وہیں جاتے جہاں علما و صلحا اور صوفیہ و مشائخ رہتے۔ سنجان میں آپ نے حضرت شیخ نجم الدین کبری رحمۃ اللہ علیہ اور جیلان میں بڑے پیرحضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد میں حضرت شیخ ضیاء الدین کی زیارت کی اور ان سے معرفت و ولایت کے علوم و فنون حاصل کیے۔ 

بغداد کے بعد حضرت خواجہ اصفہان پہنچے تو یہاں حضرت شیخ محمود اصفہانی سے ملاقات فرمائی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ان دنوں اصفہان میں موجود تھے۔ جب آپ نے حضرت خواجہ کے چہرۂ زیبا کی زیارت کی تو بہت متاثر ہوئے دل کی دنیا بدل گئی اور آپ پر نثار ہوکر مریدوں میں شامل ہوگئے اور حضرت خواجہ کی اتنی خدمت کی کہ بعد میں وہی آپ کے جانشین ہوئے۔ اصفہان سے حضرت خواجہ ۵۸۳ھ / ۱۱۸۷ء میں مکۂ مکرمہ پہنچے اور زیارت و طوافِ خانۂ کعبہ سے سرفراز ہوئے۔ ایک روز حرم شریف کے اندر ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے کہ غیب سے آپ نے ایک آواز سنی کہ:"اے معین الدین ! ہم تجھ سے خوش ہیں تجھے بخش دیا جو کچھ چاہے مانگ ، تاکہ عطا کروں۔حضرت خواجہ صاحب نے جب یہ ندا سنی تو بے حد خوش ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر بجالایااور عاجزی سے عرض کیا کہ ، خداوندا! معین الدین کے مریدوں کو بخش دے۔ آواز آئی کہ اے معین الدین تو ہماری مِلک ہے جو تیرے مرید اور تیرے سلسلہ میں مرید ہوں گے انھیں بخش دوں گا۔ ‘‘

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید کچھ دن مکہ میں قیام کیا اور حج کے بعد مدینۂ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مدینۂ منورہ میں حضرت خواجہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزارِ پاک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ یہاں آپ اپنے روز و شب عبادت و ریاضت ، ذکرِ الٰہی اور درود وسلام میں بسر کرتے ، ایک دن بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو ہندوستان کی ولایت و قطبیت کی بشارت اس طرح حاصل ہوئی کہ :

’’ اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر کی ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے کفر کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام کا نور ہر سو پھیلے گا۔ ‘‘ ( سیر الاقطاب ص ۱۲۴)

جب حضرت خواجہ نے یہ ایمان افروز بشارت سنی تو آپ پر وجد و سرور طاری ہوگیا۔ آپ کی خوشی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جب مقبولیت اور ہندوستان کی خوش خبری حاصل کرلی تو تھوڑا حیرا ن ہوئے کہ اجمیر کہاں ہے؟ یہی سوچتے ہوئے آپ کو نیند آگئی ، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہوئے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواب کی حالت میں ایک ہی نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا، دنیا کے تمام شہر اور قصبے آپ کی نظروں میں تھے یہاں تک کہ آپ نے اجمیر ، اجمیر کا قلعہ اور پہاڑیاں بھی دیکھ لیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خواجہ کو ایک انار عطا کرکے ارشاد فرمایا کہ ہم تجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں۔ ( مونس الارواح ص ۳۰)

نیند سے بیدار ہونے کے بعد آپ نے چالیس اولیا کے ہمراہ ہندوستان (اجمیر ) کا قصد کیا۔

 حضر ت خواجہ کی اجمیر میں آمد:

 حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کس سن میں اجمیر تشریف لائے اس سلسلے میں آپ کے تذکرہ نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ویسے زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۵۸۷ھ / ۱۱۹۱ء کو اجمیر شہر پہنچے۔ جہاں پہلے ہی دن سے آپ نے اپنی مؤثر تبلیغ ،حُسنِ اَخلاق، اعلی سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اہلِ اجمیر نے جب اس بوریہ نشین فقیر کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اجمیر جو کبھی کفر و شرک اور بت پرستی کا مرکز تھا ، اسلام و ایمان کا گہوارہ بن گیا۔ 

حضرت خواجہ کا وصالِ پُر ملال

عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے لیے ہندوستان کی سرزمین پر تقریباً ۴۵ سال گذارے۔ آپ کی کوششوں سے ہندوستان میں جہاں کفر و شرک اور بت پرستی میں مصروف لوگ مسلمان ہوتے گئے وہیں ایک مستحکم اور مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت خواجہ کی روحانی کوششوں سے تقریباً نوے لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ جو کہ ایک طرح کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اخیر عمر میں حضرت خواجہ کو محبوبِ حقیقی جل شانہ سے ملاقات کا شوق و ذوق بے حد زیادہ ہوگیا اور آپ یادِ الٰہی اور ذکرِ و فکر الٰہی میں اپنے زیادہ تر اوقات بسر کرنے لگے۔ آخری ایام میں ایک مجلس میں جب کہ اہل اللہ کا مجمع تھا آپ نے ارشاد فرمایا:"اللہ والے سورج کی طرح ہیں ان کا نور تمام کائنات پر نظر رکھتا ہے اور انھیں کی ضیاء پاشیوں سے ہستی کا ذرّہ ذرّہ جگمگا رہا ہے۔۔۔ اس سرزمین میں مجھے جو پہنچایا گیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہیں میری قبر بنے گی چند روز اور باقی ہیں پھر سفر درپیش ہے۔ ‘‘ (دلیل العارفین ص ۵۸)

عطائے رسول سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ نے جس روز اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طر ف سفر اختیار فرمایاوہ ۶ رجب المرجب ۶۳۳ھ بہ مطابق ۱۶ مارچ ۱۲۳۶ء بروز پیر کی رات تھی۔ عشا کی نماز کے بعد آپ اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے اور خادموں کو ہدایت فرمائی کہ کوئی یہاں نہ آئے۔ جو خادم دروازہ پر موجود تھے ساری رات وجد کے عالم میں پیر پٹکنے کی آواز سنتے رہے۔ رات کے آخری پہر میں یہ آواز آنا بند ہوگئی۔ صبح صادق کے وقت جب نمازِ فجر کے لیے دستک دی گئی تو دروازہ نہ کھلا چناں چہ جب خادموں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے مالکِ حقیقی کے وصال کی لذت سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔ اور آپ کی پیشانی پر یہ غیبی عبارت لکھی ہوئی ہے:"ہٰذا حبیبُ اللہ ماتَ فِی حُب اللہ۔"

 آپ کے صاحب زادے حضرت خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کا جسمِ مبارک اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں آپ کی قیام گاہ تھی۔ 

ازواج و اولاد:

پہلی شادی: حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃاللہ علیہ کو دین کی تبلیغ و اشاعت کی مصروفیت کی بنا پر ازدواجی زندگی کے لیے وقت نہ مل سکا ایک مرتبہ آپ کو خواب میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ نے فرمایا:’’ اے معین الدین! توہمارے دین کا معین ہے پھر بھی تو ہماری سنتوں سے ایک سنت چھوڑ رہا ہے۔ ‘‘ بیدار ہونے کے بعد آپ کو فکر دامن گیر ہوئی۔ اور آپ نے ۵۹۰ھ / ۱۱۹۴ء میں بی بی امۃ اللہ سے پہلا نکاح فرمایا۔ 

دوسری شادی: ۶۲۰ھ / ۱۲۲۳ء کو سید وجیہ الدین مشہدی کی دخترِ نیک اختر بی بی عصمۃ اللہ سے دوسرا نکاح فرمایا۔

اولاد و امجاد: حضرت خواجہ صاحب کی اولاد میں تین لڑکے: (۱) خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری (وفات ۵ شعبان المعظم ۶۶۱ھ) (۲) خواجہ ضیاء الدین ابو سعید (۳) خواجہ حسام الدین، جو بچپن میں ابدالوں کے زمرے میں شامل ہوکر غائب ہوگئے۔ اور ایک دختر حافظہ بی بی جمال تھیں۔


حضور حافظ ملت حضرت علامہ مولانا شاہ عبد العزیز اشرفی محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ

 


نام ونسب: اسم گرامی ، عبد العزیز اور لقب حافظ ملت ہے ۔

سلسلہ نسب: عبد العزیز بن حافظ غلام نور بن ملا عبد الرحیم۔ آپ کا یہ نام آپ کے دادا ملا عبد الرحیم صاحب نے شیخ عبد العزیز محدث دہلوی کی نسبت سے رکھا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا بڑا عالمِ دین بنے گا۔ وقت ولادت پاس پڑوس کی بڑی بوڑھیوں نے ’’پیرا‘‘ کہا، دنیائے اسلامیان ہند میں استاذ العلماء جلالۃ العلم اور حافظ ملت کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔

تاریخ ولادت: آپ ۱۳۱۲ھ بمطابق ۱۸۹۴، قصبہ بھوج پور (ضلع مراد آباد، یو پی ہند ) بروز پیر صبح کے وقت پیدا ہوئے۔

تحصیل علم:  آپ نے ابتدائی تعلم اپنے والد ماجد  حضرت  محمد غلام نور اورمولانا عبدالحمید بھوجپوری  سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ حکیم محمد شریف حیدر آبادی صاحب سے علم طب پڑھا۔ اس کے علاوہ جامعہ نعیمیہ ( مراد آباد) میں حضرت مولانا عبد العزیز خان فتح پوری، حضرت مولانا اجمل شاہ سنبھلی، حضرت مولانا وصی احمد سہسرامی اور جامعہ معینیہ عثمانیہ(اجمیر شریف) میں حضرت مولانا مفتی امتیاز احمد ، حضرت مولانا حافظ سید حامدحسین اجمیری اور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی جیسے جلیل القدراساتذہ سے اکتساب علم بالخصوخ صدرالشریعہ کی نگاہ فیض سے آسمان علم کے درخشاں ستارے بن کر چمکے۔

بیعت و ارادت: آپ کو شرف بیعت محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم  اعلیٰ حضرت حضرت  مولانا سید علی حسین صاحب اشرفی میاں کچھوچھوی قد س سرہ النورانی  سے حاصل ہے۔ انہوں نے مرید کرکے خلافت سے نوازا۔

اخلاق و کردار: حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ  ایک عظیم مفسر و محدث بہترین مدرس، مصنف، مناظر اور منتظم اعلی تھے۔ آپ کاسب سے عظیم کارنامہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ یوپی ہندکو پروان چڑھانا ہے آپ علیہ الرحمہ نے اس جامعہ کے لئے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں ۔ جہاں سے فارغ التحصیل علماء ہند کی سرزمین سے لیکر پوری دنیا میں دین اسلام کی سربلندی اور مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہیں۔ آپ نے زندگی کے قیمتی لمحات انتہائی خوبی سے دین ومسلک کی خدمت و اہتمام میں گزارے۔ آپ کے پاکیزہ اور روحانی کیفیات سے سرشار وجود میں بھی اخلاق کریمانہ اور اوصاف بزرگانہ کا ایک جہاں آباد تھا۔ آپ اخلاق، جہد مسلسل، استقلال، ایثار، ہمت، کردار، علم، عمل، تقوی، تدبر، اسلامی سیاست، ادب، تواضع، استغناء، توکل، قناعت اور سادگی جیسے بے پناہ اوصاف سے بھی مزین تھے۔

آپ کی تصانیف: آپ علیہ الرحمہ  تحریر وتصنیف میں بھی کامل مہارت رکھتے تھےآپ نے مختلف موضوعات پر کتب تحریر فرمائیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:
 (1)معارف حدىث  (احادىثِ کرىمہ کا ترجمہ اور اس کى عالمانہ تشرىحات کا مجموعہ )

(2) ارشاد القرآن۔

(3) الارشاد (ہند کی سیاست پر ایک مستقل رسالہ )۔

(4) المصباح الجدىد (بد مذہبوں کے عقائد سے متعلق30سوالوں کے جوابات بحوالہ کتب،یہ رسالہ  مکتبۃ المدینہ سے ”حق و باطل میں فرق “کے نام سے شائع ہوچکا ہے )۔

(5) العذاب الشدىد (المصباح الجدىدکے جواب ’’مقامع الحدىد‘‘کا جواب)

(6)  انباء الغىب (علم غىب کے عنوان پر اىک اچھوتا رسالہ)

(7)   فرقۂ ناجىہ(اىک استفتاکا جواب)

(8)   فتاوىٰ عزىزىہ(ابتداءً دار العلوم اشرفىہ کے دارالافتاء سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کا مجموعہ،غىرمطبوعہ)

(9)حاشیہ شرح مرقات ۔

آپ کے تلامذہ: ملک اور بىرون ملک حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ کے تلامذہ کى تعداد پانچ ہزار سے زائد ہى ہوگى اور ان مىں اىسے اىسے ذى علم قابل قدر و فخر اور قائدانہ صلاحىت کے حامل افراد ہىں جن پر مذہبى ، سىاسى ، سماجى، علمى، روحانى، اصلاحى اور تبلىغى دنىا کو فخراور ناز ہے۔ آپ کے تراشے ہوئے چند انمول و نایاب ہیروں کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

(1)عزىز ملت حضرت علامہ شاہ  عبدالحفىظ حفظہ اللہ   خلف اکبر حافظِ ملت و موجودہ سربراہ ِاعلىٰ الجامعۃ الاشرفىہ مبارک پور

(2)قائد اہلسنت رئیس  القلم حضرت علامہ ارشدالقادرى

(3)بحرالعلوم حضرت مفتى عبدالمنان اعظمى

(4)خطیب البراہین حضرت علامہ صوفی محمد نظام الدىن بستوی

(5)مصلح اہلسنت  حضرت علامہ قارى مصلح الدین  صدیقی قادری

(6)بانی دارالعلوم امجدیہ حضرت علامہ مفتى ظفر على نعمانی

(7) فقیہ اعظم ہندحضرت علامہ مفتی محمد شرىف الحق امجدى

 (8) بدراہلسنت حضرت علامہ مفتی بدرالدین احمد گورکھپوری

(9)شیخ القرآن حضرت علامہ عبداللہ خان عزیزی

(10)اشرف العلماءسید حامد اشرف اشرفی کچھوچھوی 

 (11)ادیب اہلسنت مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی

 (12)شیخ اعظم مفتی سید محمد اظہاراشرف اشرفی کچھوچھوی

(13) نائب حافظ ملت علامہ عبدالرؤف بلياوی( رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین)۔

آپ علیہ الرحمہ  کےملفوظات

1.     بلاشبہ اىسى تعلىم جس مىں تربىت نہ ہو آزادى و خود سرى ہى کى فضا ہو ،بے سود ہى نہىں بلکہ نتىجہ بھی  مضر (نقصان دہ )ہے۔

2.     مىں نے کبھى مخالف کو اس کى مخالفت کا جواب نہىں دىا، بلکہ اپنے کام کى ر فتار اور تىز کردى ، جس کا نتىجہ ىہ ہوا کہ کام مکمل ہوا اور  مىرے مخالفىن کام کى وجہ سے مىر ے موافق بن گئے۔

3.     انسان کو مصىبت سے گھبرانا نہىں چاہىے، کامىاب وہ ہے جو مُصىبتىں جھىل کر کامىابى حاصل کرے مصىبتوں سے گھبرا کر مقصد کو چھوڑ دىنا بُزدلى ہے۔

4.      جب سے لوگوں نے خدا سے ڈرناچھوڑ دىا ہے، سارى دُنىا سے ڈرنے لگے ہىں۔

5.      کامىاب انسان کى زندگى اپنانى چاہىے، مىں نے حضرت صدرالشرىعہ علیہ الرحمہ  کو ان کے تمام معاصرىن مىں کامىاب پاىا، اس  لىے خود کو انہىں کے سانچے مىں ڈھالنے کى کوشش کى۔

6.      بزرگوں کى مجلس سے بلاوجہ اٹھنا خلاف ادب ہے۔

7.      جس کى نظر مقصد پر ہوگى اس کے عمل مىں اخلاص ہوگا اور کامىابى اس کے قدم چومے گى۔

8.      جسم کى قوت کے لىے ورزش اور روح کى قوت کے لىے تہجد ضرورى ہے۔

9.      کام کے آدمى بنو، کام ہى آدمى کو معز زبناتا ہے۔

10. ہر ذمہ دار کو اپنا کام  ٹھوس کرنا چاہىے، ٹھوس کام ہى پائىدارى کى ضمانت ہوتے ہىں۔

11. انسان کو دوسروں کى ذمہ دارىوں کے بجائے اپنے کام کى فکر کرنى چاہىے۔

12. احساس ذمہ دارى سب سے قىمتى سرماىہ ہے۔

13.     تَضْىىع اوقات(وقت ضائع کرنا) سب سے بڑى محرومى ہے۔ 

وصال مبارک : 84برس کی عمر پا کر یکم جمادی الآخرۃ 1396ھ مطابق 31 مئی 1976 ء بروز دوشنبہ کے دن وفات پائی۔

حضرت مخدوم سید شاہ رکن الدین شہباز حسینی اشرفی علیہ الرحمہ


 قدوۃ السالکین شہباز لامکانی حضرت مخدوم سید شاہ رکن الدین شہباز حسینی اشرفی   علیہ الرحمہ

(خلیفہ حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ)

آپ کا اسم مبارک سید شاہ رکن الدین بن سید شاہ علاؤ الدین بن سید شاہ سراج الدین اور لقب 'شہباز' ہے ۔ آپ نسبتاً حسینی سید ہیں ۔ اکیس واسطوں سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہونچتا ہے آپ اتراک لاچین سے تھے آپ کے خاندان نے ایک لمبے عرصے تک عراق اور اس کے گرد ونواح میں حکومت کی ہے بچپن ہی سے طبیعت تصوف کی جانب مائل تھی ۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمۃ والرضوان جب اپنے دوسرے دورۂ وطن سے فارغ ہو کر واپس ہندوستان تشریف لانے لگے تو آپ اور آپ کے صاحبزادے سید شاہ قیام الدین علیہ الرحمہ حضور مخدوم اشرف علیہ الرحمہ کے ہمراہ ہندوستان آ گئےچونکہ آپ اور حضور مخدوم اشرف علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب مادری رشتہ سے حضرت خواجہ احمد یسوی تک پہونچ کر متحد ہو جاتا ہے اور آپ دونوں حضرات کا خاندانی سلسلہ ابراہیمیہ،امیہ،سمنانیہ،سامانیہ، بھی ایک ہی ہے اس لیے آپ کی ذات حضور مخدوم اشرف علیہ الرحمہ کا خاص مرکز توجہ تھی۔ آپ حضور مخدوم اشرف علیہ الرحمہ کے چہیتے خلیفہ بھی تھے ۔حضرت کے خلفاء کے درمیان آپ کو ایک امتیازی شان حاصل تھی آپ صاحب طیر وسیر تھے چنانچہ اپنے پیر و مرشد حضور مخدوم پاک کے اشارہ پر چشم و زون میں روضہ مخدوم اشرف علیہ الرحمہ میں لگانے کے لئے پتھر اور نیر شریف میں ڈالنے کے لئے آب زمزم لیکر حاضر ہوگئے۔حضور مخدوم اشرف علیہ الرحمہ نے آپ کو شہباز لقب عطا فرمایا۔ دین و تبلیغ کی اشاعت کے لئے ایک فرحت بخش مقام نبی پورہ میں قیام کا حکم دیا ۔اطراف کچھوچھہ مقدسہ میں ایک جگہ نبی پورہ نام کی ہے جو اب "نئی پورا "سے مشہور ہے قصبہ ٹانڈا سے تقریبا 16کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔یہ جگہ گھاگرا (سرجو) ندی کے کنارے ہونے کی وجہ سے سرسبز و شاداب ہے جب غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید  مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کا گزر اس جگہ سے ہوا تو آپ قد س سرہ  نے اسے پسند فرمایا اور یہی قیام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن پھر یہ ارادہ کسی وجہ سے بدل دیا اور شیخ رکن الدین شہباز علیہ الرحمہ کو یہاں بسایا۔ نئی پورہ سے متصل مقام میں آپ کی درگاہ زیارت گا عام و خاص ہے۔آپ علیہ الرحمہ غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید  مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کی حیات طیبہ کے بہت سے واقعات کے مشاہد ہیں۔ لطائف اشرفی میں کئی مقامات پر آپ علیہ الرحمہ کا ذکر ہے مکتوبات اشرفی مرتبہ مخدوم الآفاق سید عبدالرزاق نورعین اشرفی علیہ الرحمہ  جو الرحمہ غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید  مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کے مکاتیب کا مجموعہ ہے کل 42 مکاتیب پر مشتمل ہے ان میں  33 واں مکتوب حضرت مخدوم سید شاہ رکن الدین شہباز حسینی کے نام ہے ۔حضرت مخدوم سید شاہ رکن الدین شہباز حسینی علیہ الرحمہ کے مزار اقدس کو گھاگرا ندی کی تباہ کاریوں کی وجہ سے دوبارہ منتقل کیا گیا ۔ایک بار وصال کے تقریبا 200 سال کے بعد یہ واقعہ رونما ہوا جس کا ذکر صاحب بحر ذکار مولانا وجیہ الدین لکھنوی نے کیا ہے۔ دوسری بات 1916 میں جب شدید سیلاب آیا تو متولیان وصاحبزادگان  نے اس کی اطلاع اپنے پیر و مرشد مخدوم المشائخ محبوب ربانی اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو دی اور انہوں نے اپنے پیر و مرشد اشرف الصوفیاء  حاجی ابو محمد حسین اشرف اشرفی الجیلانی  قد س سرہ کی خدمت میں تذکرہ کیا آپ نے مراقبہ کے بعد جسد خاکی  نکال کر باغ کے قریب دفن کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔اس کے علاوہ خود مخدوم المشائخ محبوب ربانی اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو بحالت خواب صاحب مزار کی طرف سے اس کام پر مامور کیا گیا اس واقعہ کا پوری تفصیل صحائف اشرفی میں درج ہے۔آپ علیہ الرحمہ کا عرس مبارک 23 محرم الحرام کو نہایت ہی تزک و اہتما م سے ساتھ منایا جاتا ہے اور  آج بھی آپ کا فیضان جاری ہے۔ (صحائف اشرفی /اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ ) 

حضور شعیب الاولیاء الشاہ محمد یارعلی چشتی علیہ الرحمہ

Mazar Sharif 


حضور شعیب الاولیاء الشاہ محمد یارعلی  چشتی علیہ الرحمہ

حضرت شعیب الاولیاء شیخ المشائخ حضرت سیدنا شاہ محمد یارعلی رحمہ اللہ تعالی بانی دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف کی شخصیت اسلامیان ہند کے لئے محتاج تعارف نہیں۔آپ علیہ الرحمہ   سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ ہیں، آپ مظہر شعیب الاولیاء، غلام عبدالقادر علوی جیسے عظیم الشان پیرانِ طریقت کے مرشد ہیں۔ مہانوں بالخصوص طالبان علوم نبویہ کی مہمان نوازی کرنے کے عوض دور کے عوام وخواص نے آپ کو شعیب الاولیاء کا لقب دیا جو آج بھی زبان زدِ عام ہے۔آپ کی پیدائش 1307ھ بمطابق 1887 عیسوی میں ہندوستان کے شمالی مشرقی صوبہ اترپردیش کے ضلع (بستی (موجودہ سدھارتھ نگرکے ایک گاؤں براؤں شریف (براؤں نانکار)  میں ہوئی۔یہ گاؤں قصبہ بانسی سے اٹوا کے راستے پر تقریبا 14 کلومیٹر پر ایک چوراہا گولہورا سے دکھن کی جانب ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔آپ علیہ الرحمہ  کا نام محمد یار علی ہے اور لقب شیخ المشائخ اور شعیب الاولیاء ہے۔ آپ کے والد گرامی کا نام محمد فجر علی ہے۔ آپ کا تعلق علوی سادات سے ہے۔سلسلہ نسب حسب ذیل ہے: شعیب الاولیاء محمد یار علی علیہ الرحمہ بن محمد فجر علی بن خورشید علی بن خان محمد بن عبد المنان بن عبد الرحمن بن خدا بخش بن سالار بخش بن محمد علی بن ہدایت علی بن جان محمد بن تاج محمد غازی بن محمد داؤد بن محمد قاسم بن سالار محمد تاج بن سالار محمد بن سالار سیف الدین سرخرو بن عطاء اللہ غازی بن طاہر غازی بن طیب غازی بن اشرف غازی بن عمر غازی بن ملک آصف غازی بن شاہ بطل غازی بن عبد المنان غازی عرف فریدالدین بن محمد بن حنفیہ بن سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم۔

آپ علیہ الرحمہ نے سلسلہ عالیہ قادریہ کے مسلم الثبوت بزرگ حضور شاہ محبوب علی علیہ الرحمہ ڈھلمؤ شریف (فیض آباد) کے دست حق پرست پر بیعت کی اور ان سے اجازت و خلافت بھی حاصل کی۔ ایک عرصہ تک حضرت محبوب علی علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہ کر روحانی وعرفانی فیوض وبرکات حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں کی نشان دہی پر آپ سلسلہ چشتیہ کے عظیم ترین بزرگ قطب الاقطاب حضرت شاہ عبداللطیف علیہ الرحمہ (سرکار ستھن شریف) کے پاس تشریف لے گئے جہاں حضرت شاہ عبداللطیف علیہ الرحمہ  نے آپ کو سلسلہ چشتیہ کی اجازت و خلافت سے نوازا۔ سلسلہ نقشبندیہ سہروردیہ میں آپ کو حضرت شاہ عبد الشکور علیہ الرحمہ (جھونسی شریف) نے اجازت و خلافت سے نوازا۔ اس طرح آپ نے تین سلسلوں؛ سلسلہ قادریہ، سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ نقشبندیہ سہروردیہ سے اجازت و خلافت حاصل کی۔

آپ علیہ الرحمہ  نے اپنی حیات مستعارمیں بہت سے عظیم الشان اورمحیر العقول کارنامے انجام دیئے ہیں، آپ کے انھیں زریں خدمات اور فقید المثال کارناموں میں آپ کا ایک عظیم الشان کارنامہ ایسے معتبر ادارے کی تاسیس ہے جسے دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف کے نام سے جانا اور پہچاناجاتاہے۔آپ   علیہ الرحمہ نے اپنا روحانی مشن پورا کر کے اور انتہائی ضعف نقاہت اور شدید مرض کی حالت میں بھی زندگی کے آخری  نماز عشاء باجماعت تکبر اولیٰ کے ساتھ ادا کر کے 23 محرم الحرام 1387 بمطابق4 مئی 1967 عیسوی شب جمعرات ایک بج کر 25منٹ پر دنیا فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرمائی۔آپ علیہ الرحمہ  کا مزار مبارک جو براؤں شریف، سدھارتھ نگر یوپی انڈیا میں زیارت گاہ خلائق ہے۔

عاشق رسول حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ

عاشق رسول حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ

حضرت ابوعبداﷲ بلال کا شمار دربارِ رسالت ﷺ کے ان عظیم المرتبت ہستیوں میں ہوتا ہے جن کا اسم گرامی سُن کر ہر مسلمان کی گردن فرطِ احترام و عقیدت سے جُھک جاتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ  کے والد کا نام رباح اور والدہ ماجدہ کا نام حمامہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ  کے والدین غلام تھے۔ والد اُمیہ بن خلف کا غلام تھا اور والدہ حبشہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جو ابرہہ کے بیت اﷲ پر حملہ آور ہونے کی مہم میں شریک تھیں۔جب اصحابِ الفیل کا لشکر عبرت آموز شکست سے دوچار ہوا تو شہزادی کنیز بن گئی اور بعد میں ایک غلام کی شریکِ حیات بنی۔اسی غلامی کی حالت میں بعثت سے تقریباً آٹھائیس برس پہلے ایک بچے نے جنم لیا جس کو تاریخ بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے۔

حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مؤذنین کے سرخیل، قدیم الاسلام، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گہرے دوست اور اصحابِ صفہ میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ظاہری شکل کے لحاظ سے ایک سیاہ فام حبشی تھے۔ آئینۂ دل شفاف تھا۔ اس کو نورِ ایمان نے اس وقت منور کیا، جب کہ معدودے چند بزرگوں نے آپ ﷺ کی دعوتِ اسلام پر لبیک کہا تھا۔ اسلام لانے کی پاداش میں آپ رضی اللہ عنہ کو تپتی ہوئی ریت، جلتے ہوئے سنگ ریزوں اوردہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا گیا تاکہ وہ اپنی رائے بدلیں، لیکن ان تمام روح فرسا آزمائشوں کے باوجود آپ نے توحید و آزادیٔ رائے کی مضبوط رسی کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ایک روز حضرت  سیدنا بلال رضی اللہ عنہ حسبِ معمول مشقِ ستم بنائے جا رہے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف سے گزرے اور یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ کا دل بھر آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک گراں قدر رقم معاوضے میں دے کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کردیا۔ حضور اکرم ﷺ نے جب یہ سنا تو فرمایا: ’’ابوبکر! تم مجھے اس میں شریک کرلو‘‘، عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں آزاد کراچکا ہوں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمرفاروق فرمایا کرتے تھے: ’’ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انھوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا‘‘۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو آپ ﷺ نے ان کے اور عبیدہ بن حارث مطلبی رضی اللہ عنہ کے درمیان یا ایک روایت میں ابو عبیدہ بن الجراح کے درمیان مواخات  ( ایک شخص کا دوسرے کو بھائی بنانا ) کرائی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  سب سے پہلے وہ بزرگ ہیں جو اذان دینے پر مامور ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ  کی آواز نہایت بلند وبالا اور دِل کش تھی۔ وہ فصیح و بلیغ تھے۔ ان کی ایک صدا توحید کے متوالوں کو بے چین کردیتی تھی۔ لوگ اپنے کام چھوڑ کروالہانہ وارفتگی کے ساتھ ان کے ارد گرد جمع ہوجاتے۔

آپ رضی اللہ عنہ  سفروحضر میں ہر موقع پر رسول اللہ ﷺکے مؤذنِ خاص، آپ ﷺ کے اہل و عیال کے نان و نفقہ کے نگران اور آپ ﷺ کے خزانچی تھے۔ عیدین و استسقا کی نمازوں میں بلال رضی اللہ عنہ  آپ ﷺ کے آگے لاٹھی لے کر چلتے ۔ راستہ میں کوئی پتھر ہوتا تو اس کو لاٹھی سے ہٹا دیتے۔ سامنے سے آنے والوں پر نظر رکھتے، تاکہ کہیں سامنے سے کوئی دشمن نہ آجائے اور آپﷺ کوکوئی تکلیف پہنچے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  غزوات بدر، اُحد، خندق اور تمام مشاہد میں رسول اللہ کے ساتھ حاضر رہے۔ فتح مکہ پر آپ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کو کعبۃ اللہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیا تاکہ سابقہ ظالمانہ طبقاتی نظام کی شکست اور کمزور پسے ہوئے طبقوں کی عزت اور قانونِ الٰہی کی بلندی کا اظہار ہو۔ گویا حضرت سیدنا  بلال رضی اللہ عنہ  مظلوم عوام کی ترقی اور عزت کا استعارہ بن گئے۔ حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ  جہاد کے لیے شام کے محاذ پر گئے اور پھر وہیں قیام پذیر ہوگئے۔ آپ  رضی اللہ عنہ  دمشق میں ٦٠ سال سے زائد عمر۲۰ محرم الحرام  سن۲۰ہجری عہد ِفاروقی میں فوت ہوئے۔