Gheebat / Backbite (Urdu)


پیارے اسلامی بھائیو!
     ان نُفُو س کو لگا م دو اوردلو ں کوگناہوں سے روک لو اور سمجھداری سے عبرت کے صحیفو ں کو پڑھو ،۔۔۔۔۔۔ اے خواہشات میں مبتلا رہنے والو! تمہارے پیچھے موت لگی ہوئی ہے ،۔۔۔۔۔۔ اے گناہوں میں منہمک رہنے والو! اے سونے والو! بیدار ہوجاؤ، ۔۔۔۔۔۔تم نے کتنے سال بر باد کردئیے،۔۔۔۔۔۔ ساری دنیا خوابِ غفلت میں ہے کیونکہ اس کے جھوٹے خواب بہت سہانے ہیں اور بو ڑھے کی عقل بچو ں کی سی ہے لیکن جس نے اپنے نفس پر قابو پالیا حقیقت میں وہی عقلمندہے،۔۔۔۔۔۔ غفلت انتہاء کو پہنچ چکی ہے اورسزائیں قریب آگئیں ۔۔۔۔۔۔پس ہم اللہ عزوجل کے لئے ہیں اورہمیں اسی کی طرف لوٹ کرجاناہے،اللہ عزوجل سلامتی عطا فرمائے۔

غیبت کسے کہتے ہیں؟

    سرکارِ مدینہ قرارِقلب وسینہ ،صاحب معطر پسینہ، باعث نزول ِسکینہ ،فیضِ گنجینہ ، شہنشاہ ِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے غیبت کے بارے میں سوال کیا گیا: ''غیبت کیا ہے ؟''تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :'' غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس میں پائے جانے والے کسی عیب کا تذکرہ کرو اور اگر تم کسی ایسے عیب کو اس کی طرف منسوب کرو جو اس میں نہ ہوتو بے شک تم نے اس پر بہتان لگا دیا۔''

(جامع الترمذی،کتاب البروالصلۃ،باب ماجاء فی الغیبۃ،رقم۱۹۴۱،ج۳،ص۳۷۵)

دیہاتی عورت کی نصیحت:

    امام اصمعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ''میں نے ایک دیہاتی عورت کو دیکھا جو اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہہ رہی تھی :'' بیٹا! عمل کی تو فیق اللہ عزوجل کی طرف سے ہے اور میں تجھے نصیحت کرتی ہوں کہ چغلی کرنے سے بچتے رہنا کیونکہ یہ دو قبیلوں میں دشمنی ڈال دیتی ہے ،دو ستو ں کو جدا کردیتی ہے اور لوگو ں کے عیب کی ٹوہ میں رہنے سے بچو کہ کہیں تم بھی عیب دار نہ ہوجاؤ،عبادت میں دکھاوے اور مال خرچ کرنے میں بخل سے بچتے رہنااور دو سروں کے انجام سے سبق حاصل کرنااو رلوگو ں کاجو عمل تمہیں اچھا لگے اس پرعمل کرنااور ان میں جو کام تمہیں برا لگے اس سے بچتے رہنا کیونکہ آدمی کواپنے عیب نظر نہیں آتے ۔''پھر وہ عورت خاموش ہوگئی تومیں نے کہا کہ ''اے دیہاتن ! تجھے خداعزوجل کی قسم !مزید نصیحت کرو ۔'' اس نے پوچھا :'' اے شہری ! کیاتجھے ایک دیہاتی کی باتیں اچھی لگی ہیں؟ ''میں نے کہا:''خدا عزوجل کی قسم ! اچھی لگی ہیں۔'' تو وہ بولی کہ ''بیٹا ! دھوکا دہی سے بچتے رہنا کیو نکہ تو لوگوں سے جو معاملات کرتا ہے دھوکا دینا ان میں سب سے برا ہے ۔ سخاوت، علم، تواضع اورحیا ء کو اپنا لینا اور اب میں تجھے خدا عزوجل کے سپر د کرتی ہوں ،تم پر سلامتی ہوں،اللہ عزوجل تم پر رحم کرے یاد رکھو کہ غیبت کرنا حالت اسلام میں تیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی سخت گناہ ہے ۔''
    بعض علماء رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :'' غیبت وضو توڑ دیتی ہے اور روزہ دار کا روزہ بھی غیبت کرنے سے ٹو ٹ جاتاہے ۔''(مگرصحیح قول یہ ہے کہ'' غیبت کی توروزہ نہ گیا اگرچہ غیبت کی وجہ سے روزہ کی نورانیت جاتی رہتی ہے۔''بہارشریعت،حصہ۵ص۵۸)
    اوربعض فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:''غیبت ہوجانے کی صورت میں دوبارہ وضوکیاجائے ۔''(یعنی دوبارہ وضوکرنا مستحب ہے۔بہارشریعت،حصہ۲ص۱۳)

غیبت کرنے والے کی مثال:

    منقول ہے :'' غیبت کرنے والا اس شخص کی طر ح ہے جس نے ایک منجنیق (توپ)نصب کی ہواور اس کے ذریعے
 اپنی نیکیاں دائیں ، بائیں اور مشرق ومغرب کی جانب پھینکنے لگے ۔''

سب سے پہلے جہنم میں داخل ہونے والا:

     اللہ عزوجل نے حضرتِ سَیِّدُنا موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف وحی فرمائی: '' کیاتم پسند کرتے ہو کہ میں تمہارے دشمن کے مقابلے میں تمہاری مدد کروں۔'' عرض کیا: '' وہ کیسے؟''فرمایا:''تمہیں لوگو ں کی غیبت سے بچا کر(پھرفرمایا) غیبت اور چغل خوری سے توبہ کر کے مرنے والا سب سے آخرمیں جنت میں داخل ہوگا اورجو ان دو نوں گناہوں پر اصرار کرتے ہوئے مرے گا وہ سب سے پہلے جہنم میں داخل ہوگا۔''

دس پسندیدہ خصلتیں:

    حضرتِ سَیِّدُنا سلیمان علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے بارگاہ ِ الٰہی عزوجل میں عرض کی: '' یارب عزوجل ! کون سا عمل سب سے افضل اور تیرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے ؟'' اللہ عزوجل نے فرمایا:''اے سلیمان !وہ دس خصلتیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تم میرے ہر بندے کا تذکرہ بھلائی ہی کے ساتھ کرو اور نہ توکسی کی غیبت کرواور نہ کسی کی عیب جوئی کرو۔'' تو آپ علیہ السلام نے عرض کیا :'' یارب عزوجل ! بقیہ سات چیزوں کو مجھ سے روک لے کیونکہ مجھے ان تین باتو ں ہی نے کرب میں مبتلا کر دیا ہے ۔''

(کتاب الزھد لابن مبارک ،باب ذکر الانبیاء صلوات علیھم ، رقم ۴۷۱،ص ۱۶۱،بتصرف وفیہ داؤد علیہ السلام )

    حضرتِ سَیِّدُنا عطاء سلمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' عذابِ قبر کے تین حصے ہیں، ایک تہائی عذاب پیشاب کے سبب ،ایک تہائی غیبت کے سبب اورایک تہائی

چغل خوری کے سبب ہوتاہے ۔''
اس لئے اے میرے اسلامی بھائی! عزت دری کرنے اور کسی کی اُس عیب پرغیبت کرنے سے بیچتے رہو جواللہ عزوجل نے اس میں پیدا فرمایا ہے کیونکہ اللہ عزوجل اسے زیادہ جانتا ہے اور تجھ سے زیادہ اس پر قادر ہے اگر وہ چاہتا تو اسے ہلاک کر کے انتقام لے لیتا۔

حکمتِ الٰہی عزوجل:

    منقول ہے کہ حضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃوالسلام کسی نہر کے قریب سے گزرے تو کچھ بچو ں کو اس نہر میں کھیلتے دیکھا ان کے ساتھ ایک نابینا بچہ بھی تھا جسے وہ پانی میں غوطہ دے کر دائیں بائیں بھاگ جاتے اور وہ انہیں تلاش کرتا رہتا مگر کامیاب نہ ہوتا۔ حضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃوالسلام اس کے بارے میں غور وفکر کرنے لگے پھر آپ علیہ السلام نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس بچے کی بصارت لوٹ آنے کی دعا کی تواللہ عزوجل نے اس بچے کی بینائی لوٹادی ۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں اور بچو ں کو دیکھا تو ایک بچے کو پکڑا کراسے چمٹ گیا اورپانی میں ا س قدر غوطہ دیا کہ وہ مرگیا پھر دوسرے کو پکڑا اور اسے بھی غوطے دیکر قتل کردیا ۔یہ دیکھ کر باقی بچے بھاگ گئے۔ جب حضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ معاملہ دیکھا تو بہت حیران ہوئے اور عرض کی :'' یاالٰہی عزوجل ! اے میرے آقا ومولیٰ ! تو ان کی تخلیق کو زیادہ جاننے والا ہے پھر اس بچے کوپچھلی حالت پر لوٹانے اور اس کے معاملہ کی کفایت کرنے کی دعا مانگی۔'' تو اللہ عزوجل نے حضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی طرف وحی فرمائی :'' میں تجھ سے زیادہ جانتاہوں پھر بھی تو نے میرے حکم اور تدبیر کا سامنا کیا۔''تو حضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃوالسلام سجدے میں گر گئے ۔
    یادرکھو !اس کا ئنات میں جوکام بھی ہوتاہے اس میں اللہ عزوجل کا حکم اور تدبیر کا ر فرما ہوتی ہے ۔

بری صحبت کا انجام:

     ایک بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ''جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ عزوجل کی نافرمانی کے لئے مل کربیٹھنے والے اور گناہوں پر ایک دوسرے کی مدد کرنے والے جمع ہوں گے ۔پھر وہ گھٹنوں کے بل کھڑے ہوں گے اور ایک دو سرے کو کتو ں کی طر ح کاٹتے اور نوچتے ہوں گے ،یہ وہ بد نصیب ہوں گے جو بغیر تو بہ کئے دنیا سے رخصت ہوئے ہوں گے ۔ ''
غیبت کے سبب اعمال ضائع ہوگئے:

    حضرتِ سَیِّدُنا سعید بن جبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب بندے کو لایا جائے گا اور اسے اعمال نامہ پکڑا دیاجائے گا تو وہ اس میں اپنی نمازیں ، روزے اورد یگر نیک اعمال نہ پائے گا تو عرض کریگا:'' یارب عزوجل ! یہ کسی اور کا اعمال نامہ ہے، میں نے بہت سی نیکیاں کی تھیں وہ اس میں درج نہیں ہیں ۔ ''تو اس سے کہا جائے گا :'' تیرا رب عزوجل نہ تو غلطی کرتاہے نہ ہی بھولتا ہے تیرے نیک اعمال لوگو ں کی غیبت کرنے کی وجہ سے ضائع ہوگئے ۔''

    اے میرے بھائی ! غیبت اور چغل خوری سے بچتے رہو کیونکہ یہ دونوں گناہ دین کے لئے نقصان ر ساں ہیں اور عاملین کے عمل بر باد کردیتے ہیں نیز مسلمانوں میں عداوت ڈالتے ہیں اللہ عزوجل ہمیں اپنی پنا ہ میں رکھے ۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم


غیبت کی سزا

    سرکارِ مدینہ، قرارِقلب وسینہ ،صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نزول ِسکینہ ،فیض گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ حقیقت بنیادہے:'' مسلمان کے قتل ،اس کے مال اور اس کی عزت کو اللہ عزوجل نے حرام قرار دیا ہے۔''  (صحیح مسلم،کتاب البرو الصلۃ والآداب،باب تحریم ظلم المسلم،رقم۲۵۶۴،ص۱۳۸۷)

    دل میں غیبت کرنابھی اسی طرح حرام ہے جس طرح زبان سے حرام ہے، مگر جبکہ کسی کی پہچان کے لئے ضروری ہو اور اس کے بغیر پہچاننا نا ممکن ہو۔

غیبت کی تعریف :

     نور کے پیکر،تمام نبیوں کے سرور،دوجہاں کے تاجور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت کی جو تعریف بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے:'' تو اپنے بھائی کو ایسی چیز کے ذریعے یاد کرے کہ اگروہ سن لے یا یہ بات اسے پہنچے تو اسے ناگوار گزرے اگر چہ تو اس میں سچا ہو خواہ اس کی ذات میں کوئی نقص بیان کرے یا اس کی عقل میں یا اس کے کپڑو ں میں یا اس کے فعل یا قول میں کوئی کمی بیان کرے یا اس کے دین یا اس کے گھر میں کوئی نقص بیان کرے یا اس کی سواری یا اس کی اولاد ، اس کے غلام یا اس کی کنیز میں کوئی عیب بیان کرے یااس سے متعلق کسی شئے کا (برائی کے ساتھ)تذکرہ کرے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا کہ اس کی آستین یادامن لمباہے سب غیبت میں داخل ہیں۔''

کمزور شخص:

    سرکارِ مدینہ ،قرارِقلب وسینہ ،صاحب معطر پسینہ، باعث نزول ِسکینہ ،فیض گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا تذکرہ اس انداز میں کیاگیا کہ وہ کتنا کمزور ہے تواللہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزّہٌ عنِ العُیُوب عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :'' تم نے اس کی غیبت کی ۔''

 (مسندابی یعلیٰ،مسندابی ھریرۃ،الحدیث۶۱۲۵،ج۵، ص ۳۶۲ )

چھوٹے قد والی:

     حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت سیدتنا صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طر ف اشارہ کر کے انہیں پَستہ قد کہا توسرکارِ مدینہ، قرارِقلب وسینہ ،صاحب معطر پسینہ، باعث نزول ِسکینہ ،فیض گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :'' اے عائشہ ! تم نے اس کی غیبت کردی ۔''عرض کیا :''یارسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ان کاقد چھوٹا نہیں ؟'' فرمایا:'' تو نے اس کی سب سے بری چیز کا تذکرہ کیا ۔''
    غیبت زبان ہی کے ذریعے نہیں ہوتی بلکہ کسی کا تذکرہ کسی ایسی چیز سے کرنا کہ اگر وہ بات شخص مذکور تک پہنچے یاوہ خود اسے سنے تو اسے برالگے خواہ وہ ہاتھ کے ذریعے ہو یا پاؤں کے ذریعے،اشارہ کے ذریعے ہو یاحرکت کے ذریعے ، تعریض(یعنی اشاروں، کنایوں) میں ہو یا حکایت کی صورت میں، یہ تمام صورتیں غیبت میں داخل ہیں، اللہ ربُّ العزت ارشاد فرماتا ہے :

وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُکُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ

ترجمهٔ کنزالایمان :اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کاگوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا۔(پ26،الحجرات:12)



ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣۙ

ترجمہ کنزالایمان: خرابی ہے اس کے لئے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے بدی کرے۔(پ: 30، الھمزۃ: 1)
     اس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد لوگو ں پر طعن وتشنیع کرنے والا شخص ہے کیونکہ وہی لوگوں کا گو شت کھاتاہے ۔


ناخنوں سے چہرے کھرچنے والے:


    نور کے پیکر،تمام نبیوں کے سرور،دوجہاں کے تاجور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :'' معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو اپنے ناخنوں سے اپنے چہرے نوچ رہی تھی مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جولوگو ں کی غیبتیں کیا کرتے تھے۔''

(رواہ ابو داود ،کتاب الادب ،باب فی الغیبۃ ،رقم ۴۸۷۸ ، ج ۴،ص ۳۵۳بلفظ لما خرج بقوم ...الخ)

نیکیاں ضائع کرنے والی:

    اللہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزّہٌ عنِ العُیُوب عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :'' آگ خشک لکڑیوں کو اتنی تیزی سے نہیں جلاتی جتنی تیزی سے غیبت بندے کی نیکیاں ختم کردیتی ہے ۔'' (ابن ابی الدنیا،کتاب الغیبۃ والنمیمۃ،باب الغیبۃ وذمھا،رقم ۵۴،ج۴،ص۳۵۶،مفھوماً)

شرائطِ قبولیت:

    حضرت عبدالملک بن حبیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت سیدنامعا ذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا :'' مجھے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث سنائيے ۔''تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ
نبئ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :''اے معا ذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں اگر تم نے اسے یاد کرلیا تواللہ عزوجل تمہیں نفع دے گا اور اگر اسے ضائع کردو گے اور یاد نہیں کروگے تو قیامت کے دن اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہاری حجت ختم ہوجائے گی۔''
    پھرارشاد فرمایا:''اے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! اللہ عزوجل نے زمین وآسمان پیدا فرمانے سے پہلے سات فرشتے پیدا فرمائے پھر ہرآسمان پرایک فرشتے کو دربان مقر ر فرمایا۔بندے کے اعمال لکھنے والے فرشتے اس کے صبح سے شام تک کے اعمال آسمانوں تک لے جاتے ہیں ،ان کا نور سورج کے نور جیسا ہوتا ہے یہاں تک کہ جب وہ آسمان دنیا پر پہنچتے ہیں توان کے اعمال کوپاکیزہ اور کثیر تعداد والا بناکر پیش کرتے ہیں تو مؤکل فرشتہ ان فرشتوں سے کہتاہے :'' یہ عمل اس بندے کے منہ پر دے مارو، میں غیبت پر نگران ہوں، میرے رب عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ لوگو ں کی غیبت کرنے والے کے عمل کوآگے نہ بڑھنے دوں کہ وہ کسی دوسرے فرشتے کے پاس پہنچے ۔'' پھر وہ فرشتے بندے کے نیک اعمال لے کرپرواز کرتے ہیں او رانہیں بڑھا چڑھا کرپیش کرتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ دوسرے آسمان تک پہنچتے ہیں تو مؤکل فرشتہ ان سے کہتا ہے :''رُک جاؤ !یہ اعمال عمل کرنے والے کے منہ پر دے مارو کیونکہ اس نے ان کے ذریعے دنیا کے مال کا ارادہ کیا تھا، میرے رب عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کا عمل اگلے فرشتے تک نہ جانے دو ں کیونکہ یہ شخص لوگوں کی مجالس میں ان پر فخر کیاکرتاتھا۔''
     پھرفرمایا :ملائکہ کسی بندے کے عمل لے کرپرواز کرتے ہیں اور تیسرے آسمان پر پہنچ جاتے ہیں تو آسمان پر مؤکل فرشتہ ان سے کہتاہے :'' رُک جاؤ! یہ عمل اس کے کرنے والے کے منہ پر دے مارو کیونکہ میں تکبر پر نگران فرشتہ ہوں، میرے رب عزوجل نے مجھے حکم دیاہے کہ میں اس کا عمل دوسرے فرشتے تک نہ جانے دو ں کیونکہ یہ شخص لوگوں پر تکبر کیا کرتاتھا ۔''
    مزیدفرمایا : محافظ فرشتے کسی بندے کے عمل مثلاً نماز ،تسبیح ،حج وعمرہ وغیرہ لے کرپرواز کرتے ہیں،یہ عمل ستاروں کی طر ح چمکدار ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ چوتھے آسمان تک پہنچ جاتے ہیں تو اس کا مؤکل فرشتہ ان سے کہتا ہے :'' رُک جاؤ اور یہ عمل اس بندے کے منہ پر دے مارو، میں خود پسندی پر نگران فرشتہ ہوں، میرے رب عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کے عمل کو دوسرے موکل فرشتے تک نہ جانے دوں کیونکہ یہ شخص جب کوئی عمل کیاکرتاتھا تو اس کی وجہ سے خودپسندی کا شکارہوجایا کرتا تھا ۔'' فرشتے کسی بندے کے نماز ،روزہ، صدقہ ،زکوٰۃ اور حج وعمرہ جیسے عمل لے کرپرواز کرتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ پانچویں آسمان پرپہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ شب زفاف کی دلہن کی طر ح سجا ہوا ہے۔وہاں کا مؤکل فرشتہ ان سے کہتا ہے :''رُک جاؤ! یہ عمل اس بندے کے منہ پر دے مارو اور ان کا بو جھ اس کی گردن پر لاددو، میں حسد پر نگران فرشتہ ہوں کیونکہ یہ طا لب علم سے حسد کرتا تھا لیکن اس جیسا عمل نہیں کرتا تھا اور جو بھی اس سے عبادت میں بڑھتا ،یہ اس سے حسد کرتاتھا میرے رب عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کا عمل دو سرے فرشتے تک نہ پہنچنے دو ں ۔'' اور کچھ فر شتے کسی بندے کے نماز ، روزے ، زکوٰۃ اور حج وعمرہ جیسے اعمال لے کرجب چھٹے آسمان پر پہنچتے ہیں تو اس کا موکل فرشتہ ان سے کہتا ہے :'' رُک جاؤ ! اور یہ عمل اس بندے کے منہ پرماردو کیونکہ اللہ عزوجل کے بندو ں میں سے کسی کو مصیبت یا بلاپہنچتی تو یہ نہ کسی انسا ن پر رحم کرتاتھا نہ ہی کسی مسکین پر تر س کھاتا تھا بلکہ اس کی مصیبت پر خوشی کا اظہارکیا کرتا تھا ،میں رحمت کا فرشتہ ہوں اور میرے رب عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کاعمل دوسرے فرشتے تک نہ پہنچنے دو ں۔''
    فرشتے کسی بندے کے نماز ،روزہ ، صدقہ ، جہاد اور تقوی جیسے اعمال لے کر آتے ہیں جن کی آواز شہد کی مکھیوں کی طرح اور ان کی چمک سو رج جیسی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ تین ہزار فرشتے ہو تے ہیں جب وہ ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں تو اس پر موکل فرشتہ ان سے کہتا ہے:'' رُک جاؤ اور یہ عمل اس بندے کے منہ پر دے مارو اور اس کے دل پر تالا لگا دو کیونکہ میں کوئی ایسا عمل اپنے رب عزوجل کی بارگاہ میں پیش ہونے نہیں دیتا جسے میرے رب عزوجل کے علاوہ کسی غیر کے لئے کیا جاتا ہے کیونکہ یہ بندہ اپنے عمل سے فقہاء کے نزدیک رفعت ،علماء کے نزدیک تذکرے اور لوگو ں میں شہرت کا ارادہ کرتا تھا میرے رب عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کا عمل دوسرے فرشتے تک نہ پہنچنے دو ں کیونکہ ہر وہ عمل جوخالص اللہ عزوجل کے لئے نہ ہو وہ ریاء ہے اور اللہ عزوجل ریا کار کا عمل قبول نہیں فرماتا ۔'' کچھ فرشتے کسی بندے کے نماز، زکوۃ ،عمرہ، حسن اخلاق ، خاموشی،ذکراللہ عزوجل جیسے اعمال لے کر آتے ہیں اور ساتوں آسمانوں کے فرشتے بھی ساتھ ہوجاتے ہیں اور تمام حجابات اٹھا دئیے جاتے ہیں اوروہ اللہ جَلَّ مجدُہٗ کی بارگاہ میں حاضر ہوکراس بندے کے نیک اعمال میں اخلاص کی گواہی دیتے ہیں تو اللہ عزوجل ان سے فرماتا ہے :'' تم میرے بندے کے عمل لکھنے پر مامور ہو جبکہ میں ا س کے د ل کا نگہبان ہوں،اس نے ان اعمال سے میراارادہ
نہ کیاتھا بلکہ کسی غیر کے ارادے سے یہ عمل کئے تھے، لہذااس پر میری اور زمین وآسمان والوں کی لعنت ہے ۔'' تمام فرشتے عرض کرتے ہیں :''جب اس پر تیری لعنت ہے تو ہماری بھی لعنت ہے ۔'' اور تمام آسمان والے کہتے ہیں :'' اس پر اللہ عزوجل کی لعنت ہے تو ہماری بھی لعنت ہے۔'' اور ساتو ں آسمان اور ان میں رہنے والے اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔''
    حضرت سیدنامعا ذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ،میں نے عرض کی: ''یارسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم!آپ تو اللہ عزوجل کے رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، میں تو معاذ ہوں۔''اللہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزّہٌ عنِ العُیُوب عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:'' میری پیروی کرو اگرچہ تمہارا عمل ناقص ہی کیوں نہ ہواور قرآن کے محافظین (یعنی علماء،قراء اور حفاّظ) کے معاملے میں پڑنے سے اپنی زبان قابو میں رکھواور اپنے گناہ اٹھاؤ ،دو سروں کے گناہ اپنے سر نہ لو اور ان کی مذمت کر کے خود کو پاک ظاہر نہ کرو اور ان کوبرا نہ کہواور آخرت کے معاملے میں دنیا کو پیشِ نظر نہ رکھو اورا پنی مجلس میں لوگوں پر تکبر نہ کرو کہیں لوگ تمہاری بداخلاقی سے نہ ڈرنے لگیں اور غیر کی موجودگی میں کسی سے مزاح نہ کرو اور لو گوں پربڑائی اختیار نہ کرو کہیں تم سے دنیاوآخرت کی بھلائیاں سلب نہ کرلی جائیں اور اپنی زبان سے لوگوں کا گو شت مت نوچو ،کہیں جہنم کے کتے قیامت کے دن تمہیں جہنم میں چیر پھاڑ نہ دیں۔
اللہ عزوجل فرماتاہے:

وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا ۙ﴿2﴾

ترجمہ کنزالایمان :اور نرمی سے بند کھولیں۔(پ30،النازعات:2)


    اے معا ذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! کیا تم جانتے ہو کہ اس آیت سے کیا مراد ہے ؟''

میں نے عرض کیا :''یا رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر قربان! اس سے مراد کون ہیں ؟'' فرمایا:''یہ جہنم کے کتے ہیں جو گوشت اور ہڈیاں نوچ لیں گے ۔'' میں نے عرض کیا :''یارسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم! اتنے اعمال کرنے کی طاقت کس میں ہوسکتی ہے او رجہنم کے کتو ں سے کون نجات پا سکتا ہے ؟ ''فرمایا :''اے معا ذ ! یہ اعمال اس شخص کے لئے آسان ہیں جس کے لئے اللہ عزوجل آسان فرمادے۔''راوی کہتے ہیں،'' میں نے اس حدیث کی وجہ سے حضرت سیدنا معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ تلاوت قرآن کرنے والاکسی کو نہیں پایا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..ا ور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)