Hazrat Khwaja Gharib Nawaz (Urdu)


نائب رسول خواجہ خواجگاں
 حضور خواجہ غریب نواز (اجمیر شریف) علیہ الرحمہ
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی  رضی اللہ عنہ کے والد 551 ہجری میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 15 سال تھی۔         والد گرامی کی رحلت پر آپ ہر وقت اداس رہنے لگے۔ ایسے لمحات میں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی نور نے بڑی استقامت کا ثبوت دیا اور بڑے حوصلے کے ساتھ بیٹے کو سمجھایا۔ اے فرزند! زندگی کے سفر میں ہر مسافر کو تنہائی کی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے اگر تم ابھی سے اپنی تکلیفوں کا ماتم کرنے بیٹھ گئے تو زندگی کے دشوار گزار راستے کیسے طے کرو گے۔
اٹھو اور پوری توانائی سے اپنی زندگی کا سفر شروع کرو۔ ابھی تمہاری منزل بہت دور ہے یہ والد سے محبت کا ثبوت نہیں کہ تم دن رات ان کی یاد میں آنسو بہاتے رہو۔ اولاد کی والدین کیلئے حقیقی محبت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہر عمل سے بزرگوں کے خواب کی تعبیر پیش کرے۔ تمہارے والد کا ایک ہی خواب تھا کہ ان کا بیٹا علم و فضل میں کمال حاصل کرے۔ چنانچہ تمہیں اپنی تمام تر صلاحیتیں تعلیم کے حصول کیلئے ہی صرف کر دینی چاہئیں۔ مادر گرامی کی تسلیوں سےحضرت خواجہ معین الدین چشتی رح کی طبیعت سنبھل گئی اور آپ زیادہ شوق سےعلم حاصل کرنے لگے۔ مگر سکون و راحت کی یہ مہلت بھی زیادہ طویل نہ تھی مشکل سے ایک سال ہی گزرا ہو گا کہ آپ کی والدہ حضرت بی بی نور بھی خالق حقیقی سےجا ملیں۔ اب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اس دنیا میں اکیلے رہ گئے۔ والد گرامی کی وفات پر ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی آپ کو ورثےمیں ملی۔ والدین کی جدائی کے بعد باغبانی کا پیشہ آپ نے اختیار کیا۔ درختوں کو خود پانی دیتے۔ زمین کو ہموار کرتے پودوں کی دیکھ بھال کرتے۔ حتیٰ کہ منڈی میں جا کر خود ہی پھل بھی فروخت کرتے۔ آپ کاروبار میں اس قدر محو ہو گئے کہ آپ کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ آپ کو اس کا بڑا افسوس تھا لیکن یہ ایک ایسی فطری مجبوری تھی کہ جس کا بظاہر کوئی علاج ممکن نہ تھا۔ آپ اکثر اوقات اپنی اس محرومی پر غور کرتے جب کوئی حل نظر نہ آتا تو شدید مایوسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھتے اور رونے لگتے۔ یہ خدا کےحضور بندے کی ایک خاموش التجا تھی۔ ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ ادھر سےمشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی کا گزر ہوا۔ آپ نےبزرگ کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے گئے اور حضرت ابراہیم قندوزی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ حضرت ابراہیم قندوزی ایک نوجوان کے اس جوش عقیدت سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے کمال شفقت سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگے جانے لگے تو آپ نے حضرت ابراہیم قندوزی کا دامن تھام لیا۔ حضرت ابراہیم نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا اے نوجوان! ”آپ کیا چاہتے ہیں؟“ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے عرض کی کہ آپ چند لمحے اور میرے باغ میں قیام فرما لیں۔ کون جانتا ہے کہ یہ سعادت مجھے دوبارہ نصیب ہوتی ہے کہ نہیں۔ آپ کا لہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ حضرت ابراہیم سے انکار نہ ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سے بھرے ہوئے دو طباق لئے آپ حضرت ابراہیم کے سامنے رکھ دئیے اور خود دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ اس نو عمری میں سعادت مندی اور عقیدت مندی کا بےمثال مظاہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم حیران تھے۔ انہوں نےچند انگور اٹھا کر کھا لیے۔ حضرت ابراہیم کے اس عمل سے آپ کے چہرے پر خوشی کا رنگ ابھر آیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم قندوزی نے فرمایا۔ معین الدین بیٹھ جائو ! آپ دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے۔ فرزند! تم نے ایک فقیر کی خوب مہمان نوازی کی ہے۔ یہ سرسبز شاداب درخت، یہ لذیذ پھل، یہ ملکیت اور جائیداد سب کچھ فنا ہو جانے والا ہے۔ آج اگر یہاں بہار کا دور دورہ ہے تو کل یہاں خزاں بھی آئے گی۔ یہی گردش روز و شب ہے اور یہی نظام قدرت بھی۔ تیرا یہ باغ وقت کی تیز آندھیوں میں اجڑ جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ تجھے ایک اور باغ عطا فرمائےگا جس کےدرخت قیامت تک گرم ہوائوں سےمحفوظ رہیں گے ان درختوں میں لگے     پھلوں کا ذائقہ جو ایک بار چکھ لے گا پھر وہ دنیا کی کسی نعمت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے اپنے پیرھن میں ہاتھ ڈال کر جیب سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر حضرت خواجہ کی طرف بڑھا دیا اور فرمایا "وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے۔" یہ کہہ کر خشک روٹی کا وہ ٹکڑا حضرت معین الدین چشتی کے منہ میں ڈال دیا۔ پھر باغ سے نکل کر اپنی منزل کی جانب تیزی سے چل دیئے۔ حضرت ابراہیم کی دی ہوئی روٹی کا ٹکڑا اس قدر سخت اور خشک تھا کہ اس کا چبانا دشوار تھا۔ مگر آپ نے ایک بزرگ کا تحفہ سمجھ کر وہ روٹی کا ٹکڑا کھا لیا۔ اس ٹکڑے کا حلق سے نیچے اترنا ہی تھا کہ حضرت معین الدین چشتی کی دنیا ہی بدل گئی۔ آپ کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے کائنات کی ہر شے فضول ہے۔ دوسرے ہی دن آپ نے اپنی چکی اور باغ فروخت کر دیا اور اس سےحاصل ہونے والی رقم غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دی۔ عزیز و اقارب آپ کی اس حرکت کو دماغی خلل قرار دے رہے تھے لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ذہن و دل کے کس گوشے سے روشنی کی وہ لکیر پھوٹ رہی ہے جس نے دنیا کے تمام اجالوں کو دھندلا کر کے رکھ دیا ہے۔   (گلدستہءاولیاء)
ایک موقع پر حضرت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
میں سالہا سال تک بارگاہ خداوندی میں طلب گار کی حیثیت سے کھڑا رہا لیکن مجھے حیرت و ہیت کے سوا کچھ نہ ملا پھر جب اللہ عزوجل نے کرم فرمایا اور اپنی قربت بخشی تو کوئی دشواری نہ رہی۔ دنیا والوں کو میں نے دنیا میں مشغول دیکھا ۔ اور آخرت والوں کو ہر حال میں شرمندہ پایا۔ عاشق وہ ہے کہ اگر صبح کی نماز ادا کرے تو دوسری صبح تک خیال دوست میں ڈوبا رہے۔ دل محبت کا آتش کدہ ہے کہ جو چیز اس طرف آئے گی جل کر خاک ہو جائے گی۔ محبت کی آگ سے بڑھ کر کوئی آگ نہیں ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ بہت بلند پایہ کے ولئ کامل تھے، آپ نے ہندوستان میں اسلام کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا، آپ حضرت عثمان ہارونیؒ سے بیعت تھے، آپ۱۱۶۱ء میں حضرت علی بن عثمانؒ داتا گنج بخش کی مزارِ اقدس پر تشریف لانے کے بعد پہلی فرصت میں چلہ کشی فرمائی اور روحانی فیض حاصل کئے، بعد ازاں آپ نے حضرتا میراں حسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزاق مقدس پر بھی چلہ کشی فرمائی، مختلف شہروں کا مشاہدہ کرتے ہوئے آپ نے ۱۲۰۶ء اجمیر کو رونق بحشنے کا مصمم ارادہ کرلیا، اجمیر اس وقت راجہ پرتھوی راج کا دار الحکومت تھا اور ایک طرح سے تمام ہندوستان کے ہندوؤں کا مرکز تھا اور اسی وجہ سے یہاں عام طور پر اسلام کی تبلیغ کو مشکل کام جاتا تھا۔

آپ نے شدید مزاحمت کے باوجودتبلیغ دین کا کام جاری رکھا اور کچھ ہی سالوں میں لوگ جو ق در جوق مسلمان ہوگئے، آپ کےمریدین بھی بڑے بلند پایہ اولیاء تھے، جن میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں، حضرت معین الدین چشتیؒ نے سماع کو رواج دیا جس نے بعد میں قوالی کی شکل اختیار کرلی۔
آپ کے لازوال و بے مثال ملفوظات دیکھئے
(1)         نماز مومن کی معراج ہے، قرب الٰہی کے لئے نماز ہی ذریعہ ہے۔
(2)سن لو کہ کوئی گناہ اس قدر نقصان نہیں پہنچاتا جتنا کسی مسلمان کو ذلیل اور بے عزت کرنا پہنچاتا ہے۔
(3)        عذاب جنہم سے بچنا چاہتے ہو تو بے بسوں کی مدد کرو، مجبوروں اور لا چاروں کی حاجت روائی کرو اور بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔
(4)          درویش و ہے کہ کسی کو محروم نہ کرے۔
(5)         لوگوں سے مدد کی امید نہ رکھنا اور حرف شکایت زبان پر نہ لانا ہی توکل ہے۔
(6)         محبت کی علامت یہ ہے کہ اطاعت کے ساتھ ہی محبوب (اللہ) کی ناراضگی سے ڈرتے رہو۔
(7)         صادق وہ ہے جو کسی چیز کا بھی مالک نہ ہو اور دنیوی معاملات میں داخل نہ دیتا ہو۔
(8)                 بلند آواز میں قہقہ لگانا اچھی بات نہیں کہی جاسکتا۔
(9)                قبرستان میں ہنسی مذاق نہیں بلکہ عبرت حاصل کرنے کے لئے جاؤ۔
(10)               اللہ کے عارفین سورج کی طرح پوری دنیا کو معرفت کی روشنی سے چمکاتے ہیں۔
(11)               اے دنیا والو اللہ کے سواء کسی اور کو لائقِ عبادت مت سمجھو۔
(12)                 جو دونوں جہانوں سے اپنی توجہ ہٹالے وہی عارف ہے۔
(13)               عارف کا کم تر درجہ یہ ہے کہ وہ صفاتِ الٰہی کا مظہر ہے۔
(14)               اللہ کا عاشق وہ ہے جو ابتدائے عشق میں ہی فناء ہوجائے۔
(15)قرب حق حاصل کرنے کے لئے دریا جیسی سعادت، آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی تواضع کی ضروری ہے۔
(16)عارف وہ ہے جو موت کو عزیز رکھے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ اور کسی چیز سے تعلق نہ رکھے۔
(17)                               جھوٹوں کے گھروں سے برکات اٹھالی جاتی ہیں۔
(18)  عاشقِ حق وہ ہے جو نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد اگلی نمازِ فجر تک یادِ حق میں محو رہے۔
(19)                    عارف وہ ہے جو دونوں جہانوں سے بیزار ہو۔
(20)               دل تو محبت کا آتشکدہ ہے اس میں جو داخل ہوتا ہے جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔
(21)              اہل اللہ کا مقام بہت بلند ہے، یہ تو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں۔
(22)               محنت اور حدمت سے ہی بلند درجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
(23)               توبہ کی امید پر گناہ کرنے والا بدترین ہے۔
(24)               لوگوں سے اپنی پریشانیاں بیان کرتے پھرنا توکل نہیں۔
(25)     نفس کی زینت بھوکے کو کھانا کھلانا، حاتمند کی حاجت روائی کرنا اور مخالفوں سے حسنِ سلوک کرنے میں ہے۔

Hazrat Moinuddin Chishti Ajmeri (Urdu)


عطائے رسول، سلطان الہند غریب نواز حضرت خواجہ
معین الدین چشتی اجمیری  رضی اللہ عنہ
کے حالات و کرامات
 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ذی الحجہ کا مہینہ تھا پانچ سو تراسی سن ہجری اور گیارہ سو ستاسی عسیوی تھی، مکۃ المکرمہ کی سر زمین پر میدان محشر کا سا سماں تھا، چہار دانگ عالم سے فرزندان توحید اپنے معبود حقیقی کے اس فرمان “واتموا الحج والعمرۃ للہ، کی تعمیل کیلئے سر نیاز خم کئے سیل رواں کی طرح جوق در جوق جمع ہو گئے تھے ایک ہی ترانہ جو ہر زبان پہ جاری تھا ایک ہی آواز جس سے مکۃ المکرمہ کی فضا گونج رہی تھی وہ مقدس ترانہ یہ تھا، “لبیک اللھم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک“ خالق کائنات جل جلالہ کے یہ وفا شعار بندے دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہر کر مناسک حج کی ادائیگی میں مصروف تھے لیکن ایک خلش جو دلوں کو بے چین کر رہی تھی وہ تھی روضۃ الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کیونکہ ہادی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در اقدس ہی تو اصل مراد اور قبولیت کا پروانہ ہے جیسا کہ سیدی اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں

اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے
 بشارت :۔
 آخر وہ لمحہ جانفزا آ ہی گیا جب حجاج فرائض حج سے فراغ ہو کر اپنا مال و متاع اونٹوں پر لاد کر دیوانہ وار عشق و مستی میں سرشار جانب طیبہ قافلہ در قافلہ کوچ کرنے لگے اور اپنے غمخوار آقا کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کے نذرانے پیش کرنے لگے انہی میں ایک خوب رو، خوش قامت، عاشق رسول تھا جس کی عمر تاریخ میں اس وقت چھیالیس سال بتائی جا رہی ہے اور حالت یہ تھی برہنہ سر، آنکھیں نم اور کثرت سفر کی وجہ سے پاؤں میں چھالے ہیں لیکن صورت بتا رہی تھی یہ کوئی اللہ والے ہیں۔ اپنے محسن آقا کی بارگاہ میں ہر کوئی اپنا درد دل بیان کر رہا تھا لیکن محبوب رب العالمین کا یہ عاشق ان سب سے بے نیاز ہو کر اپنے معبود حقیقی کی عبادت و ریاضت میں مشغول تھا اچانک گنبد خضرٰی سے آواز آئی۔ اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر و ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے ظلمت کفر دور ہو گی اور اسلام رونق پذیر ہوگا۔“ ہر دل مخمور اور ہر چہرہ مسرور تھا اگر کسی چہرے پر پریشانی کی لکیر اور تکفرات کی سلوٹیں نمایاں تھیں تو وہ اسی عاشق رسول کا چہرہ تھا کیونکہ سلوک و معرفت کا یہ محبتوں بھرا تحفہ اسی کو عطا کیا گیا تھا۔ یہ مژدہ دلنواز اسی کو سنایا گیا تھا۔ آخر خوشخبری پہ خیران کیوں ؟ جب یہ سوال تاریخ کے ورق الٹنے والے مؤرخوں سے کیا گیا تو جواب ملا اس وجہ سے کہ وہ انجان تھا اس ملک سے۔ جس کا مژدہ سنایا گیا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ شہر اجمیر کہاں ہے ؟ سمت سفر کیا ہو گی ؟ مدینہ سے مسافت کتنی ہے ؟ راستہ کے پیچ و خم کیا ہیں ؟ ابھی وہ انہی فکروں میں گم تھا کہ گنبد خضرٰی کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے اس پر غنودگی طاری کر دی خواب میں محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اپنے جمال جہاں آراء کے دیدار سے مشرف فرمایا اور ایک نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا۔ تمام بلا و امصار نگاہوں کے سامنے تھے شہر اجمیر وہاں کا قلعہ اور پہاڑیاں نظر آنے لگیں۔ سرکار نے اپنے اس عاشق صادق کو ایک جنتی انار عطا فرما کر ارشاد فرمایا ہم تم کو خدا کے سپرد کرتے ہیں آنکھیں کھولیں تو ہندوستان کا پورا نقشہ پیش نظر تھا۔ چنانچہ تعمیل آقا کے لئے چالیس اولیاء کے ساتھ ہندوستان کا رُخ کیا۔
 سفر ہند :۔
 مدینہ منورہ سے وہ عاشق صادق بغداد پہنچا جہاں کچھ دنوں مشائخین وقت سے صحبتیں رہیں پھر 586ھ / 1190ء کو بقصد اجمیر بغداد سے عازم سفر ہوا۔ دوران سفر چشت، خرقان، جہنہ، کرمان، استرآباد، بخارا، تبریز، اصفہان، ہرات، سبزہ وار ہوتا ہوا بلخ پہنچا جہاں کچھ ایام شیخ احمد خضریرہ کے یہاں قیام کیا۔ پھر بلخ سے روانہ ہو کر سمر قند ہوتا ہوتا غزنین پہنچا یہاں شمس العارفین عبدالواحد ‌ سے ملاقات کی اور کچھ دنوں روحانی صحبت گرم رہی پھر اپنے روحانی قافلہ کے ساتھ لاہور پہنچا حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش علیہ الرحمہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور روحانی فیوض سے مالا مال ہوا جب روانہ ہونے لگا تو مزار مبارک پر یہ شعر پڑھا

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما

دہلی میں آمد :۔
لاہور سے سمانا ہوتا ہوا ہندوستان کی راجدھانی دہلی پہنچ کر راجہ کھانڈے راؤ کے راج محل کے سامنے ایک بت کدہ کے پاس قیام کیا اور اپنے اعلٰی اخلاق و کردار، سادہ مؤثر نصیحتوں سے راج کھانڈے راؤ کے کاریگروں اور بہت سے راجپوتوں کو کلمہ اسلام پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ لوگ جوق در جوق آنے لگے اور اسلام کا نور پھیلنے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے دہلی کی سر زمین پر مسلمانوں کا ایک وسیع حلقہ تیار ہو گیا چونکہ اس مرد مجاہد کی منزل مقصود اجمیر تھی اس لئے اپنے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو دہلی میں خلق خدا کی ہدایت کے لئے چھوڑ کر عازم اجمیر ہو گیا۔

 اجمیر میں آمد :۔
 چند ثقہ مؤرخوں کے مطابق وہ مرد مجاہد 587ھ / 1191ء کو وارد اجمیر ہوا جہاں روز اول ہی سے باطن شکن کرامتوں کے ظہور نے ایک بوریہ نشیں درویش کی روحانی عظمت و قوت کا سکہ اہل اجمیر کے دلوں پر بٹھا دیا۔ اجمیر کے عوام و خواص کی کثیر تعداد شرک و بت پرستی کے قعر عمیق سے نکال کر فرمان باری تعالٰی ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا کی ڈور سے منسلک ہونے لگی اور ایک وقت وہ آیا کہ شہر اجمیر کی پوری فضا کلمہ توحید سے گونجنے لگی۔ قبل ازیں کہ اس مرد خدا کی کچھ کرامتیں سپرد قرطاس کی جائیں نام و نسب اور ولادت و بچپن کا بیان بھی ضروری ہے۔

نام و نسب اور والدین :۔
تاریخ میں اس عظیم مرد مجاہد کا نام معین الدین بتایا جاتا ہے۔ جنہیں والدین پیار سے حسن کہا کرتے تھے اور غریب پروری کی وجہ سے غریب نواز کے نام سے مشہور ہوئے۔ پدر بزرگوار کا نام خواجہ غیاث الدین حسن ہے جو زہد و ورع، تقوٰی و طہارت میں ممتاز اور علم ظاہر و باطن سے بھی آراستہ تھے۔ یہ آٹھویں پشت میں حضرت موسٰی کاظم کے پوتے ہوتے ہیں۔ آپ کا شجرہ نسب ہوں ہے:
سید معین الدین حسن بن غیاث الدین بن سید سراج الدین بن سید عبد اللہ بن سید عبد الکریم بن سید عبد الرحمن بن سید علی اکبر بن سید ابراھیم بن امام موسی کاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین بن حضرت علی المرتضی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین
 
اور مادر مہربان کا نام بی بی ام الورع ہے جو بی بی ماہ نور سے مشہور تھیں یہ بھی بلند کردار، پاکیزہ باطن خاتون تھیں، عبادت و ریاضت آپ کا محبوب مشغل تھا۔ چند واسطوں سے یہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی تھیں۔ اس لئے حضرت خواجہ کی نجیب الطرفین سید کہا جاتا ہے۔ حضرت خواجہ حضرت غوث اعظم کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ اور ایک روایت کے مطابق آپ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک رشتے سے ماموں زاد ہوتے ہیں۔

ولادت، بچپن اور تعلیم :۔
حضرت خواجہ کی ولادت با سعادت 537ھ 1142ء کو موضع سنجر علاقہ سبحستان (جسے سبستان بھی کہا جاتا ہے) میں ہوئی۔ آپ نے متقی و پارسا والدین کی آغوش تربیت میں پرورش پائی تھی اس لئے عام بچوں کی طرح آشنائے لہوو لعب نہ تھے۔ پیشانی مبارک پر لمعہ نور اور شائستہ اطوار اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ آپ آگے چل کر غیر معمولی شخصیت اور فکر و عملDescription: http://cdncache-a.akamaihd.net/items/it/img/arrow-10x10.png، صلاح و تقوٰی کا روشن مینار ہوں گے۔ ابتدائی تعلیم والد گرامی کے زیر سایہ ہوئی۔ نو برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہو کر تفسیر و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور بہت قلیل مدت میں کثیر علم حاصل کر لیا۔

انقلاب اور تلاش حق :۔
جب عمر شریف پندرہ سال کی ہوئی تو والد کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا ترکہ پدری سے ایک باغ اور ایک پن چکی ملی تھی جس کو آپ نے ذریعہ معاش بنایا اور خوشگوار زندگی گزرنے لگی مگر قدرت نے آپ کو اپنی مخلوق کے دلوں کی باغبانی کے لئے پیدا فرمایا تھا۔ چنانچہ ایک دن ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی باغ میں تشریف لائے اور ایک کھلی کا ٹکڑا کھلا کر دل کی دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا۔ فوراً حضرت خواجہ نے باغ اور پن چکی بیچ کر اس کی قیمت فقراء میں تقسیم کردی اور تلاش حق میں نکل پڑے۔ کئی مقامات سے گزرتے ہوئے قریہ ہارون پہنچے جہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو اپنے حلقہ اردات میں داخل فرما کر اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اوپر عرش اعظم اور نیچے تحت الثرٰی تک دکھا دیا۔ بیس سال تک اپنے مُرشد کی خدمت کرتے رہے یہاں تک کہ ایک دن پیرو مُرشد نے آپ کو ساتھ لیکر خانہ کعبہ کا سفر کیا۔ طواف و زیارت کے بعد ہاتھ پکڑ کر حق تعالٰی کے سپرد کردیا۔ جب زیر حطیم کعبہ مناجات کی تو ندا آئی “ہم نے معین الدین کو قبول کیا“ بعد ازاں بارگاہ آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر بحکم مُرشد حضرت خواجہ نے سلام عرض کیا تو روضہ انور سے اس طرح جواب ملا “وعلیکم السلام یاقطب المشائخ بروبحر“ یہ تو مُرشد برحق کے ساتھ کا واقعہ ہے لیکن جب دوسری مرتبہ اپنے مُرید خاص حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو ساتھ لیکر حج و زیارت کے لئے تشریف لے گئے تو ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ حرم کعبہ کے اندر یادِ الٰہی میں مشغول تھے کہ ہاتف کی آواز سنی “اے معین الدین ہم تجھ سے خوش ہیں، تجھے بخش دیا، جو کچھ چاہے مانگ تاکہ عطا کروں“ اور جب روضہ انور کی زیارت کیلئے پہنچے تو یہ خوشخبری سنی “اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے ہندوستان کی ولایت میں نے تجھے عطا کی“ یہی وہ بشارت عظمٰی ہے جس سے میں نے اپنے مقالہ کا آغاز کیا تھا، اب لگے ہاتھوں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی چند بصیرت افروز کرامتیں بھی ملاحظہ فرمائیں۔

کرامات خواجہ ہندالولی :۔
دوران قیامِ بغداد ایک دن خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ شیخ وحدالدین، شیخ شہاب الدین سہروردی اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ تعالٰی عنہم کی ایک مجلس میں تھے۔ انبیاء علیہم السلام کا ذکر خیر ہو رہا تھا کہ سامنے سے ایک بارہ سال کا لڑکا ہاتھ میں ایک پیالہ لئے جا رہا تھا (دوسری کتابوں میں تیرو کمان کا ذکر ہے) جب بزرگوں کی نگاہیں اس پہ پڑی تو حضرت خواجہ نے فرمایا، یہ لڑکا ایک دن دہلی کا بادشاہ بنے گا۔ چنانچہ یہی وہ لڑکا شمس الدین التمش کے نام سے دہلی کا بادشاہ گزرا ہے۔
زیارتِ کعبہ :۔
حضرت قطب الدین بختیار کاکی کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ ہر سال زیارتِ کعبہ کے لئے بقوت روحانی اجمیر سے تشریف لے جاتے تھے جب کام پایہ تکمیل کو پہنچا تو آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ ہر شب بعد نمازِ عشاء کعبۃ اللہ شریف تشریف لے جایا کرتے تھے اور نمازِ فجر اجمیر میں ادا فرماتے تھے۔

رھزنوں کا تائب ہونا:۔
ایک مرتبہ حضرت خواجہ اپنے مُریدوں کے ساتھ ایک گھنے جنگل سے گزر رہے تھے کہ وہاں بسنے والے ڈاکوؤں نے آپ کے مُریدوں پر حملہ کر دیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر حضرت خواجہ نے جب نگاہِ جمال ان ڈاکوؤں پر ڈالی تو وہ کانپنے لگے اور قدموں میں گر پڑے۔ چھینا ہوا سامان واپس کیا اور آپ کے دستِ حق پرست پر سب کے سب مشرف باسلام ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے ان کو چند نصیحتیں فرمائیں۔ جو نہایت گارکر ثابت ہوئیں۔ سب نے رہزنی سے توبہ کی اور پوری عُمر دین حق پر کاربند رہے اور سچائی کا دامن کبھی بھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

مقتول زندہ ہو گیا :۔
حاکم وقت نے ایک بے قصور شخص کو پھانسی دی اس کی ماں روتی پیٹتی ہوئی خدمتِ خواجہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا بیٹا بے قصور تھا حضور مجھ پر کرم فرمائیں۔ آپ عصا لیکر اس کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ مقتول کے پاس پہنچ کر عصا سے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اگر تو بے نگاہ قتل کیا گیا ہے تو خدا کے حکم سے زندہ ہوجا اور دار سے نیچے اتر آ۔ مقتول یہ سنتے ہی زندہ ہو گیا اور سولی سے اتر کر آپ کے قدموں پر سر رکھا اور اپنی ماں کے ساتھ اپنے گھر کو روانہ ہو گیا۔

بُت پرستوں کا تائب ہونا :۔
کلمات الصادقین میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ کا گزر کفار کے ایک بُت کدے کی طرف سے ہوا۔ اس وقت سات کافر بُت پرستی میں مشغول تھے آپ کا جمال جہاں آراء دیکھتے ہی بے بس ہو گئے اور قدموں میں آ کر گر گئے فوراً توبہ کی اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ آپ نے ان میں سے ایک کا نام حمیدالدین رکھ دیا۔ چنانچہ شیخ حمید الدین دہلوی ان سات حضرات میں سے ایک ہیں جنہوں نے شہرت پائی۔

آتش پرستوں کا قبولِ اسلام :۔
 ایک روز حضرت خواجہ غریب نواز صحرا سے گزرے وہاں آتش پرستوں کا ایک گروہ آگ کی پرستش میں مشغول تھا یہ لوگ اس قدت ریاضت و مجاہدات کرتے تھے کہ چھ چھ مہینے تک دانہ پانی زبان پر نہیں رکھتے تھے سرکار خواجہ نے ان لوگوں سے آتش پرستی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آگ کو اس لئے پُوجتے ہیں کہ دوزخ میں یہ آگ ہمیں تکلیف نہ پہنچائے۔ آپ نے فرمایا دوزخ سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں بلکہ نارِ دوزخ سے بچنے کیلئے خالق نار کی پُوجا کرو پھر یہ آگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تم لوگ اتنے دنوں سے آگ کی پوجا کرتے ہو ذرا اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر دکھاؤ ؟ ان لوگوں نے جواب دیا۔ آگ کا کام جلانے کا ہے، ہمارا ہاتھ تو جل جائے گا لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حق پرستوں کو آگ نہ جلائے گی۔ حضرت خواجہ نے فرمایا، دیکھو ہم خدا کے پرستار ہیں۔ یہ آگ ہمارے جسم کو تو دور کی بات ہماری جوتی کو بھی نہیں جلا سکتی۔ یہ فرما کر آپ نے اپنی ایک جوتی آگ میں ڈال دی بہت دیر تک وہ آگ میں رہی مگر اس پر آگ کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا یہ دیکھ کر سب مسلمان ہو گئے۔

فریاد رسی :۔
 ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سلطان شمس الدین التمش کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مصروف سیر و تفریح تھے بعض امراء و اعیان سلطنت بھی ہمراہ تھے کہ ایک بدکار عورت نے بادشاہ کے حضور میں عرض کیا کہ آپ میرا نکاح کر دیں ورنہ عتابِ الٰہی میں گرفتار ہو جاؤنگی بادشاہ نے کہا تو کس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے تو عورت نے حضرت قطب الدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس مرد سے جو قطب الاقطان بنے پھرتے ہیں (نعوذاللہ) انہوں نے میرے ساتھ حرام کی ہے اور یہ حمل (پیٹ کی طرف اشارہ کرکے) انہیں کا ہے۔ حضرت قطب صاحب کو یہ بیہودہ بات سن کر شرم و ندامت سے پسینہ آ گیا۔ بادشاہ و امراء ششدر رہ گئے۔ فوراً قطب صاحب نے اجمیر کی طرف منہ کرکے کہا “یا پیرو مُرشد میری مدد فرمائیے“ فوراً سامنے حضرت خواجہ تشریف لاتے دکھائی دئیے حضرت قطب صاحب اور بادشاہ قدم بوس ہو گئے۔ سرکار خواجہ نے فرمایا کیا بات ہے ؟ تم نے مجھے کیوں یاد فرمایا ؟ حضرت قطب صاحب نے سارا ماجرا بیان کیا تو سرکار خواجہ نے اس عورت کے پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اے بچے سچ سچ بتا تو کس کا بچہ ہے۔ بچہ فوراً اپنی ماں کے پیٹ سے بول اٹھا کہ میں ایک چرواہے کا بچہ ہوں۔ میری ماں نہایت بدکار عورت ہے۔ چنانچہ عورت نے بھی اعتراف کرکے معافی مانگی۔

پرتھوی راج اور حضرت خواجہ :۔
جب حضرت خواجہ اجمیر میں مقیم ہوئے اور وہاں آپ کی ذات بابرکت سے کرامتوں کا مسلسل ظہور ہونے لگا اور لوگ اسلام کی صداقت کے معترف ہونے لگے پرتھوی راج کی دفاعی کوششوں کے باوجود حضرت خواجہ کا اثر بڑھنے لگا تو پرتھوی راج دل سے حضرت خواجہ کا دشمن ہوگیا، جوگی جے پال کی ناکامی اور اس کے قبول اسلام کے بعد پرتھوی راج کی آتش عداوت تیز ہوگئی اور وہ حضرت خواجہ کو اجمیر سے نکالنے کا منصوبہ بنانے لگا جب وہ اپنے منصونے کو عملی شکل دینے کا ارداہ کرتا اندھا ہو جاتا اور جب باز آتا بینائی واپس آ جاتی اس کرامت کو بار بار دیکھنے کے باوجود بھی شرک و بُت پرستی کی ظلمت اس کے دل سے نہ نکل سکی بالآخر اپنے کیفر کردار کو پہنچا۔

مجلس کرامات :۔
حضرت خواجہ ایک مجلس کا تذکرہ فرماتے ہیں جس میں خواجہ عثمان ہارونی خواجہ اوحدالدین کرمانی اور حضرت خواجہ بھی موجود تھے۔ گفتگو اس بارے میں شروع ہوئی کہ جو شخص بھی اس مجلس میں ہے وہ اپنی کرامت دکھائے یہ سنتے ہی خواجہ عثمان ہارونی نے مصلے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور مٹھی بھر اشرفیاں نکال کر ایک درویش کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ درویشوں کے لئے حلوہ لے آؤ۔ شیخ اوحدالدین نے قریب ہی پڑی ہوئی ایک لکڑی پر ہاتھ مارا تو فوراً وہ لکڑی سونا بن گئی۔ میں پیچھے رہ گیا جو پیر و مُرشد کی وجہ سے کوئی کرامت ظاہر نہیں کر سکتا تھا شیخ نے میری طرف رُخ کرکے فرمایا تم کوئی کرامت کیوں نہیں دکھاتے ؟ اس مجلس میں ایک بھوکا درویش تھا جو شرم کی وجہ سے سوال نہیں کرتا تھا میں نے اپنی گدڑی میں سے جوکی چار روٹیاں نکالیں اور اس درویش کے حوالہ کر دیں۔

 رام دیو کا قبول اسلام :۔
جب حضرت خواجہ اجمیر میں اناساگر کے قریب مقیم ہوئے وہ انا ساگر جس کے گرد و نواح میں ہزاروں بُت خانے تھے جن پر سینکڑوں من تیل اور پھول صرف ہوتے صُبح و شام تک پرستاروں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔ برہمنوں اور پرستارا صنام کو حضرت کا قیام ناگوار گزرا جب راجہ اور اہل شہر کی کثیر تعداد مندروں میں پُوجا کیلئے حاضر ہوئی پجاریوں کا سردار رام دیو (دوسری کتابوں میں شادی دیو آیا ہے) ایک جماعت کثیر کے ساتھ حضرت کی بارگاہ میں آیا تاکہ اس مرد درویش کو یہاں سے نکال دیا جائے لیکن حضرت خواجہ کے جمال باکمال پر نظر پڑتے ہی لوگوں کے جسموں پر لرزہ طاری ہو گیا۔ بید کی طرح کانپنے لگے۔ حضرت کی نگاہِ کرم کی تاثیر نے رام دیو کے دل کی کیفیت بدل دی بصد خلوص و عقیدت آگے بڑھا اور دستِ حق پرست پر اسلام قبول کرلیا۔ حضرت خواجہ نے اس کا نام شادی دیو رکھا۔ تلک عشرۃ کاملۃ یہ آپ کی دس کرامتیں مکمل ہوئیں ویسے تو آپ کی بے شمار کرامتیں ہیں اور الحمدللہ !! آج بھی آپ کی تربیت گہوارہء کرامت بنی ہوئی ہے۔
خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تم پر