کلام: مجاہد دوراں حضرت علامہ مولانا الحاج سید شاہ مظفر حسین اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ

 

خدایا میری دعاؤں کو کامراں کر دے
یہ میرا اجڑا ہوا دل ہے گلستاں کر دے


جو چاہتا ہے کہ عالم میں    سرفراز                          رہے
 تو    اپنی لوح جبیں وقف آستاں کردے

حجاز    والے!                                 جو                                بدر                         و                          حنین                       میں                                          گونجاں
 ان اپنے نعروں سے مسلم کو ہم زباں کر دے

مقام                       جنگ                          احد                            سا                              اگر                   مقام       آئے
ہر ایک نقش قدم کوہ بیکراں کردے

جو                            گھر                                 ہے                    میرے لیے                                   قید                    خانہ                  ہستی
پھر اس کو میرے لیئے خلد آشیاں کر دے

بدل                             دے                           حال                   ہمارا            خدایا ماضی سے
 ہمارے  حوصلہ و عزم کو جواں کر دے

علم ہو                دست       مظفر                                         میں                        اور                                   ظفریابی
الہی                 پیش                    عدد             ہم                 کو کامراں کردے
                          (نسیم حجاز/حضور مجاہد دوراں علیہ الرحمہ  صفحہ ٢٨)

 

 


ہم اہلسنت والجماعت ہیں بریلوی نہیں

 

مسلکِ اہلِ حق یعنی اہلسنت کی ایک پہچان لفظ ’’بریلوی‘‘ بھی ہے لیکن فی زمانہ مسلک حقہ کے لیے اس اصطلاح کا استعمال کرنا ہم اہلسنت کے حق میں نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے ، ہاں یہ بات درست ہے کہ حق و باطل میں امتیاز کرنے کیلیے کسی فَصلِ ممیز کی ضرورت و حاجت پڑتی ہے جس کی بنا پر ہم ایسے الفاظ وضع کرتے ہیں جو صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے میں مُمِدّ و مُعَاوِن ہوتے ہیں ، جیسا کہ ماضی بعید میں جب کئی فتنے اٹھے جو سرکار دوعالم ﷺ کی خبرِ غیب کے مطابق کئی فرقوں کے وجود میں آنے کا سبب بنے تو اکابرینِ امت نے اہل حق کے گروہ کی نشاندہی کرنے اور اسے نمایاں کرنے کیلیے بطور علامت ’’اہلسنت و جماعت‘‘ کے لفظ کا انتخاب کیا اور اس لفظ کے انتخاب کی ایک وجہ اس کا بعض احادیث میں صریحا اور بعض میں مفہوما موجود ہونا ہے۔لیکن لفظِ بریلوی اور لفظِ اہلسنت و جماعت کے فصل ممیز ہونے میں کئی وجوہ کی بنا پر فرق ہے۔

ایک تو یہ کہ لفظِ ’’اہلسنت‘‘ کا انتخاب اکابرینِ امت نے کیا کہ جس کا اشارہ بعض نصوص میں بھی ملتا تھا جبکہ لفظِ بریلوی کا مسلک حقہ  کے لئے استعمال اعلیٰ حضرت سے لے کر اب تک کے اکابر علماء نے نہیں کیا بلکہ یہ نام اغیار نے ہمارے سر تھوپا ہے اور یہ لفظ انہی کا عطیہ ہے جیسا کہ ہمارے اکابرین کے ارشادات سے واضح ہے جو کہ ذیل میں مذکور ہیں، ثانیا یہ کہ لفظِ بریلوی کا تعلق جغرافیائی لحاظ سے خاص ملک کے خاص شہر سے ہے کہ جس سے پوری دنیا کے اہلسنت کی واقفیت ہونا ضروری امر نہیں اور اس لفظ کی اسی عدم مقبولیت کی بنا پر ہمارے مخالفین ہمارے متعلق اکثریت سے اقلیت میں ہونے کا تاثر دینا چاہتے ہیں اور دے بھی رہے ہیں اور یوں خودکے لئے صرف اہلسنت کا ٹائیٹل استعمال کر کے عالمی سطح پر اپنا اکثریت میں ہونے کا تاثر بھی دے رہے ہیں اور اہلسنت کے اکابرین سے اصولی اختلاف ہونے کے باوجود اس لفظ پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب ثابت ہو رہے ہیں۔ میں یہاں پر ایک اور بات کرنا چاہتا ہوں کہ فصل ممیز کے طور پر لفظ بریلوی استعمال کرنے کی بجائے آپ مخالفین کے لئے فقط دیوبندی یا وہابی یا پھر کوئی مخصوص نام استعمال کریں  نہ کہ اپنے لیے کسی ایسے لفظ کا انتخاب کریں جس کے برے نتائج پوری اہلسنت کو بھگتناپڑے، یوں آپ کو فرقۂ باطلہ سے امتیاز کا فائدہ بھی حاصل ہو جائے گا اور اس نقصان سے بھی محفوظ رہیں گے جو اب ہم اٹھا رہے ہیں۔

ٹھیک ہے لفظ بریلوی کے استعمال کے قائلین اگر  منطقی لحاظ سے سبقت بھی لے جائیں تو کم از کم وہ ذیل میں اکابرین اہلسنت کے ١٢ ارشادات کو ایک بار ضرور پڑھ لیں ، انہیں پڑھ کر آپ جان جائیں گے کہ آپ غیروں کی سازش کا خود شکار بن رہے ہیں اور اپنے پاؤوں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں ورنہ یہ کوئی ضروریاتِ دین یا ضروریاتِ مذہب اہلسنت کا مسئلہ نہیں کہ جس کی بنا پر ہمیں طعن کیا جائے اور طعن ہم آپ کو بھی نہیں کر رہے صرف اس کے نقصان دہ نتائج سے محفوظ کرنے کیلیے خیر خواہانہ عرض کر رہے ہیں۔وہ ١٢ /اقوال یہ ہیں:

١۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا الشاہ مصطفی رضا خان نوری  علیہ الرحمہ رحمہ اللہ١٩٦٠ کی دہائی کے آغاز میں اپنے ایک فتوی میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’ہم وہی قدیم چودہ سو سالہ اہلسنت و جماعت ہیں اور وہابیہ،دیابنہ ملاعنہ اہلسنت کو بریلوی کہتے ہیں۔ اگر کوئی تم کو بریلوی کہے تو شدت سے انکار کرو‘‘(عرفان مسلک و مذہب صفحہ ٤٧ بحوالہ مطبوعہ ماہنامہ پاسبان الہ باد )

٢۔ سعودی عرب میں گرفتاری کے بعد سی آئی ڈی سے گفتگو کے دوران تاج الشریعہ اختر رضا خان الازہری حفظہ اللہ نے فرمایا: ہم پر کچھ لوگ یہ تہمت لگاتے ہیں کہ ہم اور قادیانی ایک ہیں ۔ یہ غلط ہے۔ اور وہی لوگ ہمیں بریلوی بھی کہتے ہیں، جس سے وہم ہوتا ہے کہ ’’بریلوی‘‘ کسی نئے مذھب کا نام ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ ہم اہلسنت و جماعت ہیں۔ (حیات تاج الشریعہ صفحہ ٤٢ بحوالہ عرفان مسلک و مذہب صفحہ ٤٥)

٣۔ حضرت علامہ مولانا مفتی اختررضاخاں الازہری علیہ الرحمہ  نے ایک انٹرویو میں فرمایا: ’’ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری١ ١٩٨، صفحہ ١٤)

٤۔ اہلسنت و جماعت  کو بریلوی کہنا  ہندوستانی  دیوبندیوں کا طریقہ ہے ۔ (الحق المبین عربی صفحہ ٣ از تاج الشریعہ  حضرت علامہ اختر رضا خان علیہ الرحمہ  )

اسی کتاب حیات تاج الشریعہ میں یہ بھی درج ہے اقرار نامہ میں تاج الشریعہ نے ان الفاظ کا اضافہ کروایا: ’’بریلویت کوئی نیا مذہب نہیں ہے، ہم لوگ اپنے آپ کو اہلسنت و جماعت کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں‘‘۔(حیات تاج الشریعہ صفحہ ٤٢ بحوالہ عرفان مسلک و مذھب صفحہ ٤٥)

٥۔ ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے۔‘‘ (آئینہ رضویات، صفحہ ٣٠٠)

٦۔  آستانہ عالیہ شاہ آبادشریف کے سجادہ نشین صاحبزادہ سید محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛"اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں۔‘‘ (فاضل بریلی اور اموربدعت، صفحہ ٦٩)

٧۔ سیالکوٹ کے مشہور عالم دین مفتی حافظ محمد عالم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسے مخالفین کی سازش قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بریلوی ہمارا مسلک نہیں ہے‘‘ کچھ آگے چل کر یوں رقمطراز ہوتے ہیں: ’’اگر لوگ ہمیں بریلوی کہ دیتےہیں تو ہمیں خود کو بریلویت کے تنگ حصار میں بند نہیں کرنا چاہیے، یہ ہمارے خلاف ایک سازش ہے کہ ہم اجماع امت کے مسلک حقہ اہلسنت کی وسیع شناخت کھو کر بریلویت کا لیبل اور بقیہ فرقہ وارانہ جماعتیں خود کو اہلسنت کہلوائیں۔ ‘‘ (ماہنامہ العلماء، صفحہ ٥٢ ، لاہور، دسمبر جنوری ١٩٩٥-١٩٩٦)

٨۔ حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری رحمہ اللہ بھی بریلوی نام کو مخالفین کا عطیہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام احمد رضا بریولی کے افکار و نظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہو کر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء و مشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا۔ ‘‘ (البریلویہ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ)

٩۔ جناب سید صابر حسین شاہ بخاری لکھتے ہیں: ’’دشمنوں نے (اعلی حضرت اور انکے ہم مسلک علماء کو) اہل سنت سے الگ کرنے کیلیے ’فرقہ بریلویہ‘‘ مشہور کر دیا۔‘‘(امام احمد رضا کاملین کی نظر میں صفحہ ٢٩)

١٠۔ دیوبندی مولوی سرفراز گکھڑوی کی کتابوں کا مدلل اور باکمال رد لکھنے والے حضرت مفتی غلام فرید ہزاروی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’وہابی دیوبندی اس دور میں یہ پراپگنڈہ زور شور سے کر رہے ہیں کہ بریلوی کہلانے والے اب پیدہ ہوئے ہیں‘‘(النجدیت بجواب بریلویت صفحہ ٤٩)

١١۔ مناظر اہلسنت مولانا سعید احمد اسعد لکھتے ہیں: ’’مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تابناک مساعی سے گھبرا کر مخالفین نے اعلی حضرت اور انکے مریدین، متوسلین اور شاگردوں کو بدنام کرنے کیلیے کہیں ’’رضا خانی فرقہ‘‘ کے نام سے یاد کرنا شروع کیا اور کہیں ’’بریلوی فرقہ‘‘ کے نام سے اور اس نام کو خوب اچھالا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بے علم حضرات کو یہ تاثر دیا جائے کہ یہ نیا فرقہ ہے۔‘‘ (وہابیت و بریلویت بجواب بریلویت صفحہ ٤٥)

١٢۔ اہلسنت کے موجودہ بڑے علماء میں سے ایک نام شاگرد حکیم الامت مفتی کبیر علامہ اشرف القادری حفظہ اللہ ہے ، آپ ایک بیان میں فرماتے ہیں: ’’میں تو عرصہ دراز سے ہمارے اپنے احباب کو عرض کرتا رہا ہوں کہ بریلوی نہ کہلوایا کرو ٹھیک ہے فاضل بریلوی ہمارے بہت بڑے عالم اور ہمارے امام ہیں، بریلوی   تو تب ہم کہلائیں کہ جب انہوں نے نیا عقیدہ ایجاد کیا ہو اور ہم اس عقیدے میں انکی پیروی کرتے ہوں انہوں نے تو کوئی عقیدہ ہی ایجاد نہیں کیا  انہوں نے تو اسی اہلسنت و جماعت کے پرانے مذہب پر پہرا دیا ہے اس پر جو اعتراض تھے اس کا جواب دیاہے اس کے مخالفین کا رد کیا ہے ہمارے لوگ جو ہیں وہ بریلوی بن گئے اور بریلوی کہلوانا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ بریلوی کہلوانے سے زیادہ فرق محسوس ہوتا ہے اور اس سے Strenth آتی ہے اور اہلسنت و جماعت کا آدھا میدان خالی دیکھ کر اس پر انہوں(دیوبندیوں/وہابیوں) نے قبضہ کر لیا ‘‘۔ المختصر اس لئے ہم لوگ اہلسنت والجماعت ہیں نہ کہ بریلوی۔  (بشکریہ فقیر المصطفی /سنی عقائد786  بلاگ)


تفسیر اشرفی از افادات محبوب یزدانی سید مخدوم سمنانی قد س سرہ النورانی

 

 

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ

  (القران الکریم/آل عمران ٣١)

ترجمہ کنز القرآن:  اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا ۔

حاشیہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی محبت کا دعویٰ جب ہی سچا ہو سکتا ہے جب آدمی سید عالم ﷺ کا منبع ہو اور حضور کی اطاعت اختیار کرے۔  شان نزول : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مردی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے پاس ٹھہرے، جنہوں نے خانہ کعبہ میں بت نصب کئے تھے اور انہیں سجا سجا کر ان کو سجد ہ کر رہے تھے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا، اے گروہ قریش ! خدا کی قسم تم اپنے آباء حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کے دین کے خلاف ہو گئے ۔ قریش نے کہا ہم ان بتوں کو اللہ کی محبت میں پوجتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کریں ۔ اس پر یہ آیتہ کو یمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ محبت الہی کا دعویٰ سید عالم ﷺ کے اتباع و فرمانبرداری کے بغیر قبول نہیں ۔ جو اس دعوے کا ثبوت دنیا چاہے حضور کی غلامی کرے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بت پرستی کو منع فرمایا تو بت پرستی کرنے والا حضور کا نافرمان اور محبت الہی میں جھوٹا ہے ۔

غوث العالم محبوب یزدانی سلطان  حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر  سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ نے لطائف اشرفی کے لطیفہ ششم میں اس کی تفسیر پیش کی ہے لیکن اس کے بہت سے مضمرات مختلف مقامات پر مختلف حالات کے تحت بیان کئے ہیں۔ ہم انہیں زیادہ وضاحت کے ساتھ آسان طریقہ سے پیش کرنے کی کوشش کریں گے جو سبھی قارئین کے لئے قابل فہم ہو جائے۔ محبت اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس لئے یہ قدیم ہے یہ خود اسی آیت میں يحببكم اللہ (اللہ تم سے محبت کرے گا) سے ظاہر ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ محبت کرنے والا ہے یعنی محب ہے تو محبت کا تقاضا ہے کہ اس کا کوئی محبوب ہو اور یہ صفت یعنی محبت قدیم محبوب کی ذات میں منعکس ہو۔

 حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محبت قدیم جذبۂ حقیقت محمدی میں ایسا ہی ہے جیسے مقناطیس کی کشش لوہے میں۔ مقناطیس سے جو لوہا متصل ہو گا اُس میں مقناطیس کی صفت سرایت کر جائے گی، اور پھر اس دوسرے مقناطیس سے جو لوہا متصل ہو گا اس میں بھی مقناطیس کی صفت آجائے گی، اسی طرح ہر مقناطیس لوہے سے جو لوہا ملتا جائے گا ان سب میں مقناطیس کی صفت پیدا ہو جائے گی ۔ روح محمدی ﷺ سب  سے پہلے وہ بندہ ہیں جو حق تعالیٰ سے پہلے سب سے زیادہ قریب ہیں ، اس لئے حق تعالیٰ کی مقناطیسیت ان کی روح کے اندر سب سے زیادہ جذب ہوئی ہے ۔ اس کے بعد ان کی روح سے سب سے زیادہ جو متصل ہوا ان کے اندر اسی درجہ حسب استعداد مقناطیسیت جذب ہوتی گئی  اور یہ سلسلہ جذب و الجذاب قیامت تک جاری رہے گا اور اس طرح مرید اور مراد کا سلسلہ قائم رہے گا  اور ہر روح اپنی استعداد کے مطابق فیضیاب ہوتی رہے گی ۔ اسی طرح ہر مرید جو اپنے پیر سے متصل ہوا حسب استعداد وہ بشرط اجازت مراد بھی ہے ، یعنی جو مرید ہے وہ مراد بھی ہے ، اور یہ متابعت رسول ﷺ کی برکت کے اثر سے ہے۔ جو جتنا زیادہ اتباع رسول ﷺ کرے گا اس کے اندر جاذبیت کا اثر اتنا ہی زیادہ ہو گا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ مراد وہی ہے جو پہلے مرید ہو۔ جس کا مراد نہیں وہ مرید نہیں اور جو مرید نہیں وہ اس جاذبیت کے اثر سے محروم ہے۔ مشائخ کی روح سے مسلسل اتصال کے سبب مرید کی روح روح پیغمبر ﷺ سے متصل اور فیضیاب ہوتی ہے ۔ اور مریدی کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ روح پیغمبر ﷺ سے متصل اور مستفید ہو کیوں کہ وہی تمام مریدوں کے مراد اعظم ہیں ۔ وہ مل گئے تو سب مل گیا ، وہ نہ ملے تو کچھ نہ ملا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر مرید کا سلسلہ اپنے مرادا عظم سے اس طرح ملتا ہو کہ وہ درمیان میں کہیں سے منقطع نہ ہو اگر وہ درمیان میں کہیں سے منقطع ہو گیا تو سلسلہ کی برکت سے محروم ہو جائے گا ، اس میں وہ اثر جاذبیت پیدا نہ ہو سکے گی جس طرح ایک مقناطیس سے ملنے کے بعد دوسرے لوہے میں بھی مقناطیسیت پیدا ہو جاتی ہے۔  اس مقناطیسیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ارادے کو اپنی مراد کے ارادے کے تابع بنا کے یعنی خود کو ادارے سے خالی کر لے اور مراد کے آگے ایسا ہو جائے جسے غسال کے سامنے مردہ ۔ جب اس کا دل اپنے ہر ا را دے سے خالی ہو جائے گا تو وہ محبت الہی کا خزینہ بن جائے گا اور اپنی استعداد کے مطابق اس کے اندر مقناطیسیت پیدا ہو جائے گی لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی مراد یعنی اس کا شیخ خود اپنے شیخ سے محبت الہی کی میراث پائے ہوئے ہو اور محبوبیت کے درجہ تک پہونچ چکا ہو ۔ اگر کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم ، عابد اور زاہد ہو لیکن خود مرید نہ ہو تو وہ فیض رسانی کے اثر سے محروم رہے گا کیونکہ وہ مراد اعظم رسول اکرم ﷺ کی روح سے فیضیاب نہ ہو سکے گا ، اور روح مراد اعظم کی برکت کے اثر کے بغیر فیضیاب او رفیض رساں ہونا ممکن نہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی شیخ کامل نہ ہو لیکن مرید ہو اور اس کا سلسلہ ارادت روح رسول اللہ ﷺ سے سلسلہ بسلسلہ ملتا ہو تو اس کی روح خود اپنے مراد اعظم علیہ السلام سے مستفید ہوگی اور دوسروں کو بھی فیض پہونچائے گی۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ عام طور سے اسباب کے تابع ہے لیکن اس کا مسبب صرف اللہ تعالیٰ ہے اسلئے خلقت میں بھی جسم روح اور اس کے تمام خصائص اسباب کے تابع ہیں محبت جو انسان کی فطرت میں داخل ہے یہ بھی پیدائشی اور فطری ہے اس لئے بچے بہت جلد اپنی ماں سے محبت کرنے لگتا ہے اس کی وجہ ماں کی صفت رحمت ہے جو خالق ہی کا عطیہ ہے اور رحمت بھی اسی خالق کی صفت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محبت کا رحمت سے خاص تعلق ہے کیونکہ جذب محبت بغیر صفت رحمت کے نہیں ہو سکتی ۔ چونکہ رحمت اور محبت دونوں اللہ تعالی کی صفات ہیں اس لئے وہی سب سے زیادہ رحمت والا اور وہی سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ محبت کا مستحق خالق کائنات ہے جو بے مثل ہے۔ اس لئے صرف وہی معبود ہے۔

ترجمہ: حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  نقل فرماتے ہیں کہ  اسباب محبت پانچ ہیں ۔ اول: اپنے نفس کے وجود و بقا کی محبت ، اور ہر شخص کو یہ معلوم ہے کہ وہ اپنے وجود کے بقا کا طالب ہے اور سبھی اپنے وجود کے بقا کے لئے نفع کے حصول اور مضرت کے دفع کا اہتمام کرتے ہیں ، چونکہ وجود و بقا کی محبت انسانی ضرورت ہے تو اس کے باقی رکھنے والے اور اس موجد کی محبت بطریق اولی ضروری ہے۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کوئی گرمی سے بچنے کیلئے درخت کے سایہ کو دوست رکھے اور درخت جس سے سایہ کا قیام ہے اس کو دوست نہ رکھے اس لئے کہ یہ خود بے خبر ہےاور اس میں شک نہیں کہ جاہل حق تعالیٰ کو دوست نہیں رکھتا کہ اس کی محبت کا ثمرہ خود اس کی محبت ہی ہے۔ دوم: محبت محسن و منعم ۔ یہ ظاہر ہے کہ منعم و محسن کو پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے ، وہی منعم کے دل میں یہ ڈالتا ہے کہ اسکی سعادت اور فلاح دوسروں کوفلاح پہونچانے میں ہے اور حق تعالیٰ اس کو اس امر میں بے قرار کردیتا ہے  پس حضرت حق سبحانہ کی ذات بدرجۂ اولیٰ محبوب ہے ہر منعم اور محسن سے۔  سوم:  صاحب کمال کی محبت ، جب کوئی شخص صفات کمال میں سے کسی صفت سے موصوف ہوتا ہے۔ مثلا علم سخاوت ، تقوٰی وغیرہ تودہ صفت کمال محبت کا سبب بن جاتی ہے ، پس وہ ذات جو جمیع کمالات کا منبع ہے اور تمام مکارم اخلاق اور محامد اوصاف اسکے کمال کے فیض کا ایک شمہ ہے وہ محبت کی بدرجہ اولیٰ مستحق ہے ۔ چہارم : محبت جمیل ہے ، جب یہ عاریتی حسن جو حقیقت میں عکس و خیال سے زیادہ نہیں ہے جو کہ آب و گل اور گوشت و پوست کے پردہ سے باہر اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور پھر معمولی عارضہ سے متغیر ہو جاتا ہے اور پھر بھی وہ محبوب ہے پس وہ جمیل علی الاطلاق کہ تمام ممکنات کا جمال اس کے جمال کے انوار کا ایک پر تو ہے اور جس کا ظہور کسی صورت اور مظہر میں مقید نہیں ہے محبت میں اولیٰ تر ہے ۔پنجم :وہ محبت جو آپس میں ایک دوسرے کی روح کے تعاون کا نتیجہ ہے خلاصہ یہ ہے کہ ایک روح اپنے سے بلند مرتبہ روح کی طرف صعود کرتی ہے ایسا نہیں ہے کہ اعلیٰ مرتبہ والی روح نزول کرے ، اسطرح جب ایک روح دوسرے بلند مرتبہ روحانیت سے مناسبت پیدا کر لیتی ہے اور اسطرح اس میں نزول کے بجائے صعود کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو وہ اپنے سے بر تر مرتبہ والی روح سے محبت کرنے لگتی ہے لیکن محبت کے ان اسباب کا مسبب تو حق تعالیٰ ہی ہے جس نے بغیر استحقاق اور علت کے بندے کو یہ قربت بخشی تو محبت میں وہ بدرجہ اولیٰ مستحق ہے۔ (تفسیر اشرفی از فادات  عالم ربانی  غوث العالم سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ/  حضرت سید وحید اشرف اشرفی  جیلانی کچھوچھوی حفظہ اللہ صفحہ ٣-١٢)

حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جنازہ کس نے پڑھایا؟


 نوٹ: عرصہ دراز سے کافی لوگ شیعہ کا یہ الزام مجھے پیش کر رہے تھے اور بار بار اصرار کررہے تھے کہ اس پر کچھ لکھیں کیونکہ اس مسئلہ کی وجہ سے شیعہ عام مسلمانوں کو بہت گمراہ کر رہے تھے تو میں نے اپنی مصروفیت میں کچھ وقت نکال کر اس مسئلے پر لکھنا ضروری سمجھا آپ سب اس حقیقت کو امت مسلمہ تک پہنچائیں ۔(–نقیہ کاظمی)

------------------ 

زیر نظر مسئلہ یہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جنازہ کس نے پڑھایا؟؟؟ 

اس مسئلہ کو شیعہ زاکرین دن رات جھوٹ بولتے ہوے یہ ثابت کرنے کی کوشش لغو کرتے ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض تھیں ۔اور آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ وہ میرے جنازے میں شریک نہ ہوں ۔تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو رات کو ہی دفن کر دیا تھا ۔اور خلیفۃ المسلمین کو اس کی خبر ہی نہ ہونے دی۔اُس رات سے ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے درمیان ناراضگی اور اختلاف کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

لیکن جمہور علماء اہلسنت کا موقف ہے اور مستند ترین کتابوں میں یہ موجود ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جنازہ خلیفہ بلا فصل انبیاء کے بعد رسول اللہ ﷺ کے ظاہری و باطنی اور روحانی خلیفہ و جانشین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ہے اور اسی پر اکثر امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔

اس لیے ثبوت کے لیے ہم معتبر کتب سے دلائل دیتے ہیں:۔

حوالہ نمبر ١۔عن حماد عن ابراھیم النخعی قال صلی ابوبکر الصدیق علی فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکبر اربعا۔

ترجمہ۔حضرت ابرھیم نخعی نے کہا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت رسول اللہﷺ کی نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیریں کہیں۔(طبقات ابن سعد جلد ثامن صفحہ ١٩ تذکرہ فاطمہ مطبوعہ لیدن یورپ)

حوالہ نمبر ٢:۔عن مجاھد عن الشعبی قال صلی علیھا ابوبکر رضی اللہ عنہ وعنہا

ترجمہ:۔حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ فاطمہ پر ابوبکر الصدیق نے نماز جنازہ پڑھایا (بحوالہ طبقات ابن سعد جلد ٨ صفحہ ١٩تذکر ہ فاطمہ طبع لیدن یورپ)

حوالہ نمبر ٣:۔تیسری روایت امام بہیقی سے اپنی سند کیساتھ منقول ہے لکھتے ہیں کہ حدثنا محمد بن عثمان ابن ابی شیبۃ حدثنا عون بن سلام حدثنا سوار بن مصعب عن مجالدعن الشعبی ان فاطمۃ اماماتت دفنھا علی لیلا واخذ بضبعی ابی بکر الصدیق فقدمہ یعنی فی الصلوۃ علیھا(رضوان اللہ علیہم اجمعین)

ترجمہ:۔یعنی جب حضرت فاطمہ فوت ہوئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنھما نے انکو رات میں ہی دفن کردیا اور جنازے کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دونوں بازو پکڑ کر جنازہ پڑھانے کیلئے مقدم کردیا۔(بحوالہ السنن الکبریٰ للبیہقی مو الجواھر النقی جلد٤ صفحہ ٢٩کتاب الجنائز)

حوالہ نمبر ٤:۔شیعہ امام معصوم محمد باقر سے مروی روایت صاحب کنز العمال نے علی المتقی الہندی نے بحوالہ خطیب ذکر کی ہےعن جعفر ابن محمد عن ابیہ قال ماتت فاطمہ بنت رسول اللہ فجاء ابوبکر و عمر لیصلوافقال ابوبکر لعلی ابن ابی طالب تقدم قال ما کنت لاتقدم وانت خلیفۃ رسول اللہ فتقدم ابوبکر و صلی علیھا

ترجمہ :۔امام جعفر صادق امام محمد باقرسے روایت کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ دختر رسول اللہ ؐ فوت ہوئیں تو ابوبکر و عمر دونوں جنازہ پڑھنے کیلئے آئے تو ابوبکر نے علی المرتضٰی سے جنازہ پڑھانے کے لئے فرمایا کہ آگے تشریف لائیے تو علی المرتضٰی نے جواب دیا کہ آپ خیفۃ رسول ہیں آپکی موجودگی میں ٫٫میں ،،آگے بڑھ کر جنازہ نہیں پڑھا سکتا پس ابوبکر صدیق نے آگے بڑھ کر جنازہ پڑھایا (بحوالہ کنزالعمال (خط فی رواۃ مالک)جلد ٦ صفحہ ٣١٨(طبع قدیم)روایت ٥٢٩٩باب فضائل الصحابہ ۔فصل الصدیق مسندات علی )

حوالہ نمبر ٥:۔حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی روایت حاضر ہے اس مسئلہ کو اس روایت نے خاصی حد تک حل کر دیا ہے۔عن مالک عن جعفر ابن محمد عن ابیہ عن جدہ علی ابن حسین قال ماتت فاطمہ بین المغرب والعشاء فحضرھا ابوبکر و عمر وعثمان والزبیر وعبدالرحمان ابن عوف فلما وضعت لیصلیٰ علیھا قال علی تقدم یا ابابکر قال وانت شاھد یا اباالحسن؟قال نعم !فواللہ لا یصلی علیھا غیرک فصلٰی علیھا ابوبکر(رضوان اللہ علیہم اجمعین)ودفنت لیلا (بحوالہ ریاض النضرۃ فی مناقب العشرہ مبشرہلمحب الطبری جلد١صفحہ ١٥٦باب وفات فاطمہ)

ترجمہ:۔جعفر صادق اپنے والد محمد باقر سے اور وہ اپنے والد امام زین العابدین سے روایت کرتے ہیںکہ مغرب و عشاء کے درمیان حضرت فاطمۃالزہراء کی وفات ہوئی ان کی وفات پر ابوبکر و عمر وعثمان وزبیر وعبدالرحمان بن عوف حضرات حاضر ہوئےجب نماز جنازہ پڑھنے کیلئے جنازہ سامنے رکھا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق سے کہا کہ جنازہ پڑھانے کیلئے آگے تشریف لائیے ۔اللہ کی قسم! آپ کے بغیر کوئی دوسرا شخص فاطمہ کا جنازہ نہیں پڑھائے گا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر نمازجنازہ پڑھائی اور رات کو دفن کی گئیں۔

حوالہ نمبر ٦:۔شاہ عبدالعزیز نے تحفہ اثنا عشریہ کے باب مطاعن میں طعن نمبر ١٤ کے آخر میں فصل الخطاب سے نقل کرتے ہو ئے ریاض النضرۃ کی روایت کے قریب قریب روایت ذکر کی ہےوہ بھی درج ذیل ہے: در فصل الخطاب آوردہ کہ ابوبکر صدیق و عثمان وعبدالرحمانابن عوف وزبیربن عوام وقت نماز عشاء حاضر شدندو رحلت حضرت فاطمہدرمیان مغرب و عشاء شب سہ شنبہ سوم ماہ رمضان ١١ھ؁بعد ازششماہ از واقعہ سرور جہاں بوقوع آمدہبودوستین عمرش بست و ہشت بود وابوبکر بموجب گفتہ علی المرتضٰی پیش امام شدونماز بروئے گزاشتو چہار تکبیر بر آورد۔( بحوالہ اثنا عشریہ مطاعن صدیقی طعن نمبر ١٤ صفحہ نمبر ٤٤٥ طبع نول کشور لکھنوئ)

ترجمہ:۔فصل الخطاب کے مصنف نے ذکر کیا ہے کہ ابو بکرصدیق و عثمان و عبدالرحمان بن عوف وزبیر بن عوام تمام حضرات عشاء کی نماز کے وقت حاضر ہوئے اور سیدہ فاطمہ کی رحلت مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی منگل کی رات تیسری رمضان شریف حضورؐ کے چھ ماہ بعد فاطمہ کا انتقال مبارک ہوا اسوقت فاطمہ کی عمر ٢٨ سال تھی علی المرتضٰی کے فرمان کے مطابق ابوبکرالصدیق نماز جنازہ کے لیئے امام بنے اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی۔

حوالہ نمبر ٧:۔حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں اپنی مکمل سند کیساتھ ابن عباس سے جنازہ کی روایت کی ہےعن میمون بن مھران عن ابن عباس النبی اتی بجنازۃ فصلٰی علیھا اربعا وقال کیرت الملائکۃ علیٰ ادم اربع تکبیرات و کبرابوبکر علیٰ فاطمہ اربعا وکبر عمر علیٰ ابی بکر اربعا وکبر صہیب علیٰ عمر اربعا

ترجمہ: حضرت ابن عباس ذکر کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺکے پاس ایک جنازہ لایا گیا آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیریں کہیں اور فرمایا کہ ملائکہ نے آدم علیہ السلام پر چار تکبیریں کہیں تھیں اور ابن عباس مزید فرماتے ہیں کہ ابوبکر نے حضرت فاطمہ کے جنازہ کے موقع پر چار تکبیریں کہیں اور عمر نے ابوبکر اور صہیب نے عمر پر چار تکبیریں کہیں تھیں۔بحوالہ حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصفہانہ جلد نمبر٤ صفحہ ٩٦ تذکرہ میمون بن مھران)

حوالہ نمبر ٨:۔کتاب بزل القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ(عربی)مؤلفہ علامہ مخدوم ہاشم سندھی کے اردو ترجمہ موسومہ سیدہ سید الانبیاء مترجم (مفتی علیم الدین )کے صفحہ ٦٠٦ پر حضرت فاطمۃ الزھراء کے وصال کے ضمن میں حاشیہ میں موجود ہے کہ آپکا جنازہ حضرت صدیق اکبر نے پڑھایا(بحوالہ سیرت سید الانبیاء اردو ترجمہ بذل القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ عربی صفحہ نمبر ٦٠٦ کا حاشیہ نمبر ١)

حوالہ نمبر ٩:۔تاریخ ابن کثیر البدایہ و النھایہ از حضرت علامہ عماد الدین ابن کثیردمشقی اردوترجمہ حصہ ششم صفحہ ٤٤٣ پر ایک روایت مذکور ہے کہ آپکی نماز جنازہ حضرت ابوبکر صدیق نے پڑھائی ۔حضرت عباس اور حضرت علی کے متعلق بھی روایات موجود ہیں (بحوالہ تاریخ ابن کثیر اردو ترجمہ البدیہ والنھایہ از امام ابن کثیر حصہ ششم صفحہ ٤٤٣)

حوالہ نمبر١٠:۔مدارج النبوت اردو ترجمہ از حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی( مترجم الحاج مفتی غلام معین الدین )کے صفحہ ٥٤٤ پر موجود ہے کہ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت فاطمہ کی جنازہ پڑھائی اور حضرت عثمان بن عفان و عبدالرحمان ابن عوف اور زبیر بن العوام (رضی اللہ عنہم)بھی آئے ۔(مدارج النبوت از شیخ عبدالحق محدث دہلوی جلد دوم صفحہ ٥٤٤ مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور)

نتیجہ: ان دس کتابوں کی ان روایات کے بعد یہ بات پایا ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کا جنازہ خلیفہ وقت خلیفۃ المسلمین خلیفۃالرسول جانشین سرور  عالم امام المسلمین والمومنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خود پڑھائی اور خود حضرت سیدنا شیر خدا علی رضی اللہ عنہ نے آپکو مصلیٰ امامت پر کھڑا کیا اور خود انکی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی اس نماز جنازہ سے فقہ کے اس مسئلہ کی طرف بھی راہنمائی ملتی ہے کہ امامت کا سب سے زیادہ حقدار حاکم وقت ہے اگر وہ حاضر نہ ہو تو قاضی اور وہ بھی حاضر نہ ہو تو محلے کا امام امامت کرانے کا زیادہ حقدار ہے یہاں جن روایات میں حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہ ْکی روایات میں حضرت صدی کو بھی شامل کیا گیا ہے اس کی تطبیق یہ ہے کہ کہ حاکم وقت کی موجودگی میں باقی افراد امامت کے اھل نہیں اور اسوقت کیونکہ صدیق اکبر موجود تھے اس لئیے صدیق اکبر والی روایات کو ترجیح دی جائے گی(رضوان اللہ علیہم اجمعین)اور رہا یہ مسئلہ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض تھیں یا حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی خلافت کے حق میں نہیں تھے یا آپ مجبور تھے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا  حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کیوں ناراض تھیں؟؟

 کیا اپنے والد رسول اللہﷺکی حدیث مبارکہ سن کر ناراض تھیں (نعوذباللہ) ؟؟؟

 پوری دنیا کے شیعہ کو چیلنج ہے کہ وہ یہ الفاظ دیکھا کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہو کہ "میں حضرت ابوبکر سے ناراض ہوں" چلینج ہے یہ سب دشمنانِ اسلام اثناء عشری شیعہ ذاکرین کے جھوٹے من گھڑت افسانے ہیں جو چودہ سو سالوں سے امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کے لیے ممبروں پر رو رو کر سناتے ہیں اور یہ ساری باتیں ان روایات سے باطل ہو جاتی ہیں کہ نماز جنازہ کے سلسلے میں تو آپ مجبور نہیں تھے بلکہ حضرت ابوبکر رضی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دی اس وقت ان کو اختیار تھا کہ آپ چاہتے تو خود امامت کرا سکتے تھے لیکن انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دی اور یہ کہ انکی اقتداء میں نماز جنازہ پڑھ کر ان تمام خدشات اور نظریات اور اقوال کو باطل کردیا کہ آپ ان کو خلیفہ برحق نہیں مانتے تھے آپ مجبوراً ان کی خلافت کو مانتے تھے یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے معاذاللہ ناراض تھیں اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اطلاع نہ کرنے کا کہا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو رات کو دفن کر دیا یہ ساری باتیں دشمنانِ اسلام رافضی شیعہ کی خرافات اور یہ باتیں صحابہ کرام لوگوں کے درمیان اختلافات کو ظاہر کر کے اپنے گھٹیا مقاصد حاصل کرنے اور لوگوں کے جزبات بھڑکا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ صحابہ کرام کو برا بھلا اور مشکوک کر کے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کی جائیں ملت جعفریہ اہل تشیع کا سب سے بڑا یہی مقصد ہے بس،، 

اللہ تعالیٰ ان روایات کی روشنی میں خلفائے راشدین اور اہلبیت اطہار سے محبت کرنے اور اپنا عقیدہ اہلسنت کے مروجہ قواعد و ضوابط اور نظریات کے مطابق رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ثم آمین

⁨+91 80521 67976⁩

⁨+91 96903 63948⁩

⁨+91 84670 12496⁩

⁨+91 75709 21570⁩

⁨+92 311 2059022⁩

نظر کرم فرمائیں اور خاص کر حوالاجات پر نظر ڈالیں تمام حوالاجات درست ہے یا نہیں